• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
179- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ اللَّيْلِ
۱۷۹ -باب: تہجد (قیام اللیل) میں قرأت قرآن کابیان​


1349- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي الْعَلاءِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ،عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أَسْمَعُ قِرَائَةَ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى عَرِيشِي ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱۶، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۴)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۸۱ (۱۰۱۴)، حم (۶/۳۴۲، ۳۴۳، ۳۴۴)، ت/الشمائل ۴۳ (۳۱۸) (حسن صحیح)
(اس حدیث کی تخریج میں بوصیری نے شمائل ترمذی اور سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ صغریٰ میں بھی ہے اس لئے یہ زوائد میں سے نہیں ہے)
۱۳۴۹- ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رات میں نبی اکرم ﷺ کی قرأت اپنے گھر کی چھت پہ لیٹی ہوئی سنتی رہتی تھی ۔


1350- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ يُرَدِّدُهَا،وَالآيَةُ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ }۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۲، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۵)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۷۹ (۱۰۱۱)، حم (۵/۱۴۹) (حسن)
(اس کی تخریج میں بوصیری نے سنن کبریٰ کا حوالہ دیا ہے، جب کہ یہ صغریٰ میں موجود ہے، اس لئے یہ زوائد میں سے نہیں ہے)
۱۳۵۰- جسرۃ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم ﷺ تہجد کی صلاۃ میں کھڑے ہوئے، اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے، اور وہ آیت یہ تھی: { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ } [سورة المائدة:118) (اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز (غالب)، اور حکیم (حکمت والا) ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ سورہ مائدہ کی اخیر آیت ہے، اور عیسی علیہ السلام کی زبان پر وارد ہوئی، وہ قیامت کے دن یہ کہیں گے۔


1351- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى، فَكَانَ إِذَا مَرَّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِآيَةِ عَذَابٍ اسْتَجَارَ، وَإِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَنْزِيهٌ لِلَّهِ سَبَّحَ ۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۷ (۷۷۲)، د/الصلاۃ ۱۵۱ (۸۷۱)، ت/الصلاۃ ۷۹ (۲۶۲)، ن/الافتتاح ۷۷ (۱۰۰۹)، التطبیق ۷۴ (۱۱۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۵۸)، وحم (۵/۳۸۲، ۳۸۴، ۳۹۴)، دي/الصلاۃ۶۹ (۱۳۴۵) (صحیح)
۱۳۵۱- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ صلاۃ میں جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالی سے اس کا سوال کرتے، اور عذاب کی آ یت آتی تواس سے پنا ہ مانگتے، ا ور جب کوئی ایسی آیت آتی جس میں اللہ تعا لی کی پاکی ہو تی تو تسبیح کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تلاوت قرآن کے آداب میں سے یہ ہے کہ قرآن شریف سمجھ کر پڑھے، اور رحمت اور وعدوں کی آیتوں پر دعا کرے، اور عذاب و وعید کی آیتوں پر استغفار کرے، اور اللہ کی پناہ مانگے۔


1352- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا، فَمَرَّ بِآيَةِ عَذَابٍ فَقَالَ: < أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، وَوَيْلٌ لأَهْلِ النَّارِ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۳ (۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۳) وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۷) (ضعیف)
(اس سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں)
۱۳۵۲- ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں صلاۃ پڑھی، آپ رات میں نفل صلاۃ پڑھ رہے تھے، جب عذاب کی آیت سے گزرے تو فرمایا: ''میں اللہ تعالی کی پنا ہ مانگتا ہوںجہنم کے عذاب سے، اور تباہی ہے جہنمیوں کے لئے''۔


1353- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنْ قِرَائَةِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: كَانَ يَمُدُّ صَوْتَهُ مَدًّا۔
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۲۹ (۵۰۴۵)، د/الصلاۃ ۳۵۵ (۱۴۶۵)، ن/الافتتاح ۸۲ (۱۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۹، ۱۲۷، ۱۹۸، ۲۸۹)، ت/الشمائل ۴۳ (۳۱۵) (صحیح)
۱۳۵۳- قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ اپنی آواز کو کھینچتے تھے ۔


1354- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ عُبَادَةَ ابْنِ نُسَيٍّ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْهَرُ بِالْقُرْآنِ أَوْ يُخَافِتُ بِهِ؟ قَالَتْ: رُبَّمَا جَهَرَ وَرُبَّمَا خَافَتَ، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي هَذَا الأَمْرِ سَعَةً۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۹۰ (۲۲۶)، فضائل القرآن ۲۳ (۲۲۹۴)، ن/الطہارۃ ۱۴۱ (۲۲۳)، الغسل ۶ (۴۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/ ۱۳۸، ۱۴۹) (حسن صحیح)
۱۳۵۴- غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے یا آہستہ؟ انہوں نے کہا: کبھی بلند آواز سے پڑھتے تھے اور کبھی آہستہ، میں نے کہا: اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملہ میں وسعت رکھی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
180- بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنَ اللَّيْلِ
۱۸۰ -باب: رات میں آدمی جاگے توکیا دعا پڑھے؟​


1355- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا تَهَجَّدَ مِنَ اللَّيْلِ قَالَ: " اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ مَالِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَلاإِلَهَ غَيْرُكَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِك ".
* تخريج: خ/التہجد ۱ (۱۱۲۰)، والدعوات ۱۰ (۶۳۱۷)، التوحید ۸ (۷۳۸۵)، ۲۴ (۷۴۴۲)، ۳۵ (۷۴۹۹)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۹)، ن/قیام اللیل ۹ (۱۶۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۲)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۸ (۳۴)، حم (۱/۲۹۸، ۳۵۸، ۳۶۶)، دي/الصلاۃ ۱۶۹ (۱۵۲۷) (صحیح)
۱۳۵۵ - عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب رات میں تہجد پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے :''اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ مَالِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِك َ'' (اے اللہ! تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان وزمین اور ان میں کی تمام چیزوں کا نور ہے، تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان وزمین اور ان میں کی تمام چیزوں کی تدبیر کرنے والا ہے، تیری حمد وثناء ہے، تو آسمان و زمین اور ان میں کی تمام چیزوں کا مالک ہے، تیری حمد و ثناء ہے، تو برحق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری ملاقات برحق ہے، تیری بات سچی ہے، جنت وجہنم برحق ہیں، قیامت برحق ہے، انبیاء برحق ہیں، اور محمد ﷺ برحق ہیں، اے اللہ! میں نے تیرے آگے گردن جھکائی، اور تجھ پر ایمان لایا، اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا، اور تیری ہی دلیلوں سے لڑا، اور تیری ہی طرف انصاف کے لئے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے ظاہر اور پوشیدہ گناہوں کو بخش دے، تو ہی آگے کرنے والا ہے، تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تو ہی معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور تیرے سوا کسی کا زور اور طاقت نہیں) ۔
1355/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَلُ، خَالُ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، سَمِعَ طَاوُسًا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ لِلتَّهَجُّدِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
۱۳۵۵/- اس سند سے بھی ا بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب رات میں تہجد کے لئے کھڑے ہوئے...پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔
1

356- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: مَاذَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَفْتَتِحُ بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْئٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ، كَانَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ: < اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي > وَيَتَعَوَّذُ مِنْ ضِيقِ الْمُقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۱ (۷۶۶)، ن/قیام اللیل ۹ (۱۶۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۳) (حسن صحیح)
۱۳۵۶- عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:نبی اکرم ﷺ صلاۃ تہجد کی ابتداء کس چیز سے کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: تم نے مجھ سے ایک ایسی چیز کے متعلق سوال کیا ہے کہ تم سے پہلے کسی نے بھی اس کے متعلق یہ سوال نہیں کیا تھا، آپﷺ دس مرتبہ ''الله أكبرُ''، دس مرتبہ ''الحمد لله''، دس مرتبہ''سبحان الله''، دس مرتبہ ''استغفرالله'' کہتے، اور اس کے بعد یہ دعا پڑھتے: ''اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي'' (اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق دے، اور مجھے عافیت دے)، اور آپ ﷺ قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے پناہ مانگتے تھے) ۔


1357- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: بِمَ كَانَ يَسْتَفْتِحُ النَّبِيُّ ﷺ صَلاتَهُ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: كَانَ يَقُولُ: <اللَّهُمَّ! رَبَّ جِبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ >.
قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ: احْفَظُوهُ (جِبْرَئِيلَ) هْمُوزَةً، فَإِنَّهُ كَذَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ .
* تخريج: م/المسافرین ۲۶ (۷۷۰)، د/الصلاۃ ۱۲۱ (۷۶۷)، ت/الدعوات ۳۱ (۳۴۲۰)، ن/قیام اللیل ۱۱ (۱۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۶) (حسن)
(شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کی ہے)
۱۳۵۷- ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: نبی اکرم ﷺ جب رات میں قیام کرتے تو کس دعا سے اپنی صلاۃ شروع کرتے تھے؟انہوں نے کہا:آپ یہ دعا پڑھتے تھے: ''اللَّهُمَّ! رَبَّ جِبْرَئِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ '' (اے اللہ! جبرئیل، ۱؎ میکا ئیل، اور اسرافیل کے رب، آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے، تو اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافی امورمیں فیصلہ کرتا ہے، تو اپنے حکم سے اختلافی امورمیں مجھے حق کی رہ نمائی فرما، بیشک تو ہی راہ راست کی راہ نمائی فرماتا ہے ۔
عبدالرحمن بن عمر کہتے ہیں: یادرکھو جبرئیل ہمزہ کے ساتھ ہے کیوں کہ نبی اکرم ﷺ سے ایسا ہی منقول ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور قرآن میں جو جبریل کا لفظ آیا ہے، اس میں بھی قراء ت کا اختلاف ہے، بعض جبریل پڑھتے ہیں، اور بعض جبرائیل، اور بعض جبرئیل، یہ عبرانی لفظ ہے، اس کے معنی اللہ کا بندہ، اور جبرئیل وحی کے فرشتہ ہیں، میکائیل روزی کے، اسرافیل صور پھونکنے کے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
181- بَاب مَا جَاءَ فِي كَمْ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ؟
۱۸۱ -باب: تہجدمیں کتنی رکعتیں پڑھے؟​


1358- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ (ح) وحَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ- قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي، مَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَسْجُدُ فِيهِنَّ سَجْدَةً، بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً، قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الأَذَانِ الأَوَّلِ مِنْ صَلاةِ الصُّبْحِ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۳۶، ۱۳۳۷)، ن/الأذان ۴۱ (۶۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۱۵، ۱۶۶۱۸، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۷)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۲ (۶۱۹)، االتہجد ۳ (۱۱۲۳)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۶)، ت/الصلاہ ۲۰۹ (۴۴۱)، ط/صلاۃ اللیل ۲ (۸)، حم (۶/۳۴، ۳۵)، دي/الصلاہ ۱۴۸ (۱۴۸۷) (صحیح)
(بوصیری نے ا س حدیث کی تخریج میں سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ سنن صغری میں ہے، اس لئے یہ زدائد میں سے نہیں ہے، کما سیأتی : ۳۶۱ أیضاً)
۱۳۵۸- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صلاۃ عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دورکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے ۔


1359- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۷ (۷۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۵۲)، وقد أخرجہ: خ/التہجد ۱۰ (۱۱۴۰)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۳۴)، ت/الصلاۃ۲۱۰ (۴۴۴)، ط/صلاۃ اللیل ۲ (۸) (صحیح)
(دوسری روایت میں ہے کہ تیرہ رکعتوں میں ایک رکعت وتر کی، اور دو رکعت فجر کی سنت تھی، نیز دوسری احادیث میں ۱۱ رکعت کا ذکر ہے اس لئے بعض اہل علم نے ۱۳ والی رکعت کو شاذ کہا ہے، ملاحظہ ہو : فتح الباری و تمام المنۃ) ۔
۱۳۵۹- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔


1360- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۱ (۴۴۳، ۴۴۴)، ن/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۵۱)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۲ (۶۱۹)، الوتر ۳ (۱۱۲۳)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۸)، د/الصلاہ ۲۹۳ (۱۳۳۴)، حم (۶/۱۰۰، ۲۵۳)، دي/الصلاۃ ۱۴۸، (۱۴۸۷) (صحیح)
۱۳۶۰- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات میں نورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس باب میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں، کسی میں سات رکعت ہے، کسی میں نو رکعت، کسی میں گیارہ رکعت، اور کسی میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے، واضح رہے آپ ﷺ تہجد کی ہمیشہ آٹھ رکعت پڑھتے، اور یہ اختلاف وتر میں ہے کیونکہ آپ کبھی وتر کی ایک رکعت پڑھتے، تو کل نو رکعت ہوتیں، اور کبھی تین رکعت پڑھتے تو گیارہ رکعت ہوتیں، اور کبھی پانچ رکعت وتر پڑھتے تو سب مل کر تیرہ رکعت ہوجاتیں، اور بعض نے تیرہ رکعت کی اس طرح توجیہ کی ہے کہ آپ آٹھ رکعت تہجد، اور تین رکعت وتر، اور دو رکعت فجر کی سنتیں سب مل کر تیرہ رکعت ہوتیں ہیں پڑھتے تھے جیسا کہ آنے والی حدیث میں مذکور ہے واللہ اعلم ۔


1361- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ أَبُوعُبَيْدٍ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِاللَّيْلِ ، فَقَالا: ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، مِنْهَا ثَمَانٍ، وَيُوتِرُ بِثَلاثٍ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۷۰، ومصباح الزجاجۃ : ۴۷۶) (صحیح)
(دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابواسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے)
۱۳۶۱- عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے رسول اکرمﷺ کی رات کی صلاۃ کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے کہا : تیرہ رکعت، ان میںآٹھ رکعت (تہجد کی ہوتی) اور تین رکعت وتر ہوتی، اور دو رکعت فجر کے بعد کی ۔


1362- حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعِ بْنِ ثَابِتٍ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قُلْتُ، لأَرْمُقَنَّ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ اللَّيْلَةَ، قَالَ، فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَهُ، أَوْ فُسْطَاطَهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَتِلْكَ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۵)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۳)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ اللیل ۲ (۱۳)، ت/الشمائل (۲۶۹)، حم (۵/۱۹۲) (صحیح)
۱۳۶۲- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جی میں کہا کہ میں آج رات رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ ضرور دیکھوں گا، میں نے آپ کی چوکھٹ یا خیمہ پر ٹیک لگالیا، آپ کھڑے ہوئے، آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں کافی لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے کچھ ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پچھلی دورکعتوں سے ہلکی پڑھیں،پھر دو رکعتیں پچھلی دو رکعتوں سے ہلکی پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر وتر ادا کی تو یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس روایت سے تہجد کی بارہ رکعت نکلتی ہیں، اور ایک رکعت وتر کی، اور احتمال ہے کہ تہجد کی آٹھ ہی رکعت ہوں، اور پانچ وتر کی ہوں، لیکن دو، دو رکعت الگ الگ پڑھنے سے راوی کو گمان ہوا ہو کہ یہ بھی تہجد ہے، واللہ اعلم۔


1363- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ نَامَ عِنْدَم َيْمُونَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، وَهِيَ خَالَتُهُ، قَالَ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ النَّبِيُّ ﷺ ،حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ ﷺ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي.
قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ أُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ،ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَائَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ.
* تخريج: خ/الوضوء ۵ ۳۷ (۱۸۳)، الأذان ۵۸ (۶۹۸)، ۷۷ (۷۲۶)، ۱۶۱ (۸۵۹)، الوتر ۱ (۹۹۲)، العمل في الصلاۃ ۱ (۱۱۹۸)، الدعوات ۱۰ (۶۳۱۶)، التوحید ۲۷ (۷۴۵۲)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۶۷)، ت/الشمائل ۳۸ (۲۶۵)، ن/الأذان ۴۱ (۶۸۷)، التطبیق ۶۳ (۱۱۲۲)، قیام اللیل ۹ (۱۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۶۲)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ اللیل ۲ (۱۱)، حم (۱/۲۴۵، ۳۴۳، ۳۵۸) (صحیح)
۱۳۶۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ اپنی خالہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوئے، وہ کہتے ہیں:میں تکیہ کی چوڑان میں لیٹا اور نبی اکرم ﷺ اور آپ کی بیوی اس کی لمبائی میں لیٹے، نبی اکرمﷺ سو گئے، جب آدھی رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ وقت گزرا تو آپ ﷺ بیدار ہوئے، اور نیند کو زائل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر پھیر نے لگے، پھر سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے، اور اس سے اچھی طرح وضو ء کیا، پھر کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرمﷺ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کی بغل میں کھڑا ہوگیا، آپﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سرپہ رکھا، اور میرے دائیں کان کو ملتے رہے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں پھر وترادا کی، پھر لیٹ گئے، جب مؤذن آیا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر صلاۃ (فجر) کے لئے نکل گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حدیث اس باب کی تمام حدیثوں میں سب سے صحیح ہے، اور اس سے واضح طور پر آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کا ثبوت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
182- بَاب مَا جَاءَ فِي أَيِّ سَاعَاتِ اللَّيْلِ أَفْضَلُ ؟
۱۸۲ -باب: رات کا کون سا وقت (عبادت کے لیے) سب سے اچھا ہے؟​


1364- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ؟ قَالَ: < حُرٌّ وَعَبْدٌ > قُلْتُ: هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أُخْرَى؟ قَالَ: < نَعَمْ، جَوْفُ اللَّيْلِ الأَوْسَطُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۱۱۱، ۱۱۳، ۱۱۴، ۳۸۵) (صحیح)
(سند میں عبد الرحمن بن البیلمانی کا سماع عمرو بن عبسہ سے ثابت نہیں ہے، نیز یزید بن طلق مجہول ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، لیکن''جوف الليل الأوسط '' کا لفظ منکر ہے، صحیح الآخر'' کے لفظ سے ہے، یہ حدیث (۱۲۵۱) نمر پر گذری ملاحظہ ہو، صحیح ابی داود: ۱۱۵۸) ۔
۱۳۶۴- عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا، اورمیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ کون کون سے لوگ اسلام لائے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''ایک آزاد اور ایک غلام'' ۱؎ میں نے پوچھا: کیا کوئی ساعت دوسری ساعت کے مقابلے میں ایسی ہے جس میں اللہ کا قرب زیادہ ہوتا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں رات کی درمیانی ساعت (گھڑی)'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : آزاد سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور غلام سے مراد بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی درمیانی رات کے وقت، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اخیر تہائی رات میں اللہ تعالی آسمان دنیا پر اترتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اخیر کی تہائی رات زیادہ افضل ہے، اور ممکن ہے کہ درمیانی رات کے وقت سے یہی مراد ہو، کیونکہ شروع اور آخر کے اندر سب درمیان ہے۔


1365- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ، وَيُحْيِي آخِرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۴۷۹)، وقد أخرجہ: خ/التہجد ۱۵ (۱۱۴۶)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۹)، ن/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۱)، حم (۶/۱۰۲، ۲۵۳) (صحیح)
(اسرائیل نے اس حدیث کو ابو اسحاق سے اختلاط سے پہلے روایت کیا ہے)
۱۳۶۵ - ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ شروع رات میں سوجاتے تھے، اور اخیر رات میں عبادت کرتے تھے ۔


1366- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَأَبِي عَبْدِاللَّهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، كُلَّ لَيْلَةٍ، فَيَقُولُ: مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ > فَلِذَلِكَ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ عَلَى أَوَّلِهِ۔
* تخريج: خ/التہجد ۱۴ (۱۱۴۵)، م/المسافرین ۲۴ (۷۵۸)، د/السنۃ ۲۱ (۴۷۳۳)، ت/الصلاۃ ۲۱۲ (۴۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۲۹)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۱ (۳۰)، حم (۲/۲۶۴، ۲۶۷، ۲۸۲، ۴۱۹، ۴۸۷، ۵۰۴)، دي/الصلاۃ ۱۶۸ (۱۵۲۰) (صحیح)
۱۳۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس وقت اخیر کی تہائی رات رہ جاتی ہے تو ہمارا رب جو کہ برکت والا اور بلند ہے، ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور فرماتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعاقبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے''، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اخیر رات میں عبادت کرنا بہ نسبت اول رات کے پسندکرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی شرح میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام کتاب شرح احادیث النزول ہے، نزول: اللہ تعالی کی ایک صفت ہے جیسے سمع، بصر، کلام، ضحک،تعجب، اور صعود وغیرہ، اس کے ظاہری معنی یعنی اترنے پر ہمارا ایمان ہے، اور اس کی کیفیت اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے، اور متاخرین اہل کلام نے اس کی واہی اور کمزور تاویلیں کی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نزول سے مراد اس کی رحمت کا نزول ہے، یا اس کے فرشتے کا اترنا ہے، جہمیہ اور منکرین صفات نے بھی یہی کہا ہے، اور علمائے حق ہمیشہ سے ان کے مخالف اور رد کرنے والے رہے ہیں، امام الا ئمۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک جہمی سے کہا: اچھا اللہ کی رحمت یا اس کا امر کہاں سے اترتا ہے، جب تو اسی بات کا قائل نہیں ہے کہ اللہ اوپر ہے، تو رحمت اور امر کس کے پاس سے اترتا ہے، اور یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے علو کے اثبات میں ایک قوی دلیل ہے۔


1367- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ اللَّهَ يُمْهِلُ، حَتَّى إِذَا ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ نِصْفُهُ أَوْ ثُلُثَاهُ قَالَ: لايَسْأَلَنَّ عِبَادِي غَيْرِي، مَنْ يَدْعُنِي أَسْتَجِبْ لَهُ، مَنْ يَسْأَلْنِي أُعْطِهِ، مَنْ يَسْتَغْفِرْنِي أَغْفِرْ لَهُ، حَتَّى يَطْلعَ الْفَجْرُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۱، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶)، دي/الصلاۃ ۱۶۸ (۱۵۲۲) (صحیح)
(دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن مصعب ضعیف ہیں، جن کی عام احادیث او زاعی سے مقلوب (الٹی پلٹی) ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲/۱۹۸)
۱۳۶۷- رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''بیشک اللہ مہلت دیتا ہے (اپنے بندوں کو کہ وہ سوئیں اور آرام کریں) یہاں تک کہ جب رات کا آدھا یا اس کا دو تہائی حصہ گزرجاتا ہے، تو فرماتا ہے: میرے بندے! میرے سوا کسی سے ہرگز نہ مانگیں، جو کوئی مجھے پکارے گا میں اس کی دعا قبول کروں گا، جو مجھ سے سوال کرے گا میں اسے دوں گا، جو مجھ سے مغفرت چاہے گا، میں اسے بخش دوں گا، طلوع فجر تک یہی حال رہتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کر عبادت کرنا چاہئے، اور اللہ تعالی سے دعائیں کرنا اور گناہوں سے مغفرت طلب کرنا چاہئے کیونکہ یہ دعائوں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، اور خو د اللہ رب العزت بندوں سے فرماتا ہے: جو کوئی مجھے پکارے گا، میں اس کی پکار کو سنوں گا، جو کوئی مانگے گا اسے دوں گا، اور جو کوئی گناہوں سے معافی طلب کرے گا، میں اسے معاف کردوں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
183- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُرْجَى أَنْ يَكْفِيَ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ
۱۸۳ -باب: تہجد (قیام اللیل) کے بدلے کس عمل کے کافی ہونے کی اُمید کی جاتی ہے؟​


1368- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَأَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، مَنْ قَرَأَهُمَا، فِي لَيْلَةٍ، كَفَتَاهُ >.
قَالَ حَفْصٌ، فِي حَدِيثِهِ: قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: فَلَقِيتُ أَبَا مَسْعُودٍ وَهُوَ يَطُوفُ فَحَدَّثَنِي بِهِ۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۲ (۴۰۰۸)، م/المسافرین ۴۳ (۸۰۸)، د/الصلاۃ ۳۲۶ (۱۳۹۷)، ت/فضائل القرآن ۴ (۲۸۸۱)، (تحفۃالأشراف: ۹۹۹۹، ۱۰۰۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۸، ۱۲۱، ۱۲۲)، دي/الصلاۃ ۱۷۰ (۱۵۲۸) (صحیح)
۱۳۶۸- ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اکرم ﷺ نے فرمایا: ''سورہ بقرہ کے آخر کی دو آیتیں جو رات میں پڑھے گا، تو وہ دونوں آیتیں اس کو کافی ہوں گی'' ۱؎ ۔
حفص نے اپنی حدیث میں کہا کہ عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی وہ طواف کررہے تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیا ن کی ۔
وضاحت ۱ ؎ : کافی ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں آیتیں رات کے قیام اور عبادت کے بدلہ میں کافی ہوجائیں گی، جیسا کہ ترجمہ باب سے پتہ چلتا ہے، اور بعض کے نزدیک یہ سورئہ کہف اور آیۃ الکرسی کے بدلے کافی ہوں گی، بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آدمی ان آیتوں کی برکت سے جن وشیطان کے تمام شرور و آفات اورفتنوں سے محفوظ رہے گا۔


1369- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ قَرَأَ الآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، فِي لَيْلَةٍ، كَفَتَاهُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح
۱۳۶۹- ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ایک رات میں پڑھیں، تو وہ دونوں اسے کافی ہوں گی'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
184- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُصَلِّي إِذَا نَعَسَ
۱۸۴-باب: مصلّی اونگھنے لگے تو کیاکرے؟​


1370- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُومَرْوَانَ مُحَمَّدُ ابْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، جَمِيعًا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّهُ لا يَدْرِي، إِذَا صَلَّى وَهُوَ نَاعِسٌ، لَعَلَّهُ يَذْهَبُ فَيَسْتَغْفِرُ، فَيَسُبُّ نَفْسَهُ >۔
* تخريج: حدیث أبي بکر بن أبي شیبۃ أخرجہ: م/المسافرین ۳۱ (۷۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۸۳)، وحدیث محمد بن عثمان العثمانی، تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۲۹)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۵۳ (۲۱۲)، د/الصلا ۳۰۸ (۱۳۱۰)، ت/الصلاۃ ۱۴۶ (۳۵۵)، ن/الطہارۃ ۱۱۷ (۱۶۲)، ط/صلاۃ اللیل ۱ (۳)، حم (۶/۵۶، ۲۰۵)، دی/الصلاۃ ۱۰۷ (۱۴۲۳) (صحیح)
۱۳۷۰- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''جب کسی شخص کو اونگھ آئے تو سوجائے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے، اس لئے کہ اگر وہ اونگھنے کی حالت میں صلاۃ پڑھے گا تو اسے یہ خبر نہ ہوگی کہ وہ استغفار کررہا ہے، یا اپنے آپ کو بددعا دے رہا ہے'' ۔


1371- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى حَبْلا مَمْدُودًا بَيْنَ سَارِيَتَيْنِ، فَقَالَ: < مَا هَذَا الْحَبْلُ؟ > قَالُوا: لِزَيْنَبَ، تُصَلِّي فِيهِ، فَإِذَا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ بِهِ، فَقَالَ: < حُلُّوهُ، حُلُّوهُ، لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ >۔
* تخريج: خ/التہجد ۱۸ (۱۱۵۰)، م/المسافرین ۳۲ (۷۸۴)، ن/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۰۸ (۱۳۱۱)، حم (۳/۱۰۱، ۱۸۴، ۲۰۴، ۲۵۶) (صحیح)
۱۳۷۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، تو دوستونوں کے درمیان ایک رسی تنی ہوئی دیکھی، پوچھا''یہ رسی کیسی ہے''؟ لوگوں نے کہا: زینب کی ہے، وہ یہاں صلاۃ پڑھتی ہیں، جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ''اسے کھول دو، اسے کھول دو، تم میں سے صلاۃ پڑھنے والے کو صلاۃ اپنی نشاط اورچستی میں پڑھنی چاہئے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ رہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب تھک جائے تو صلاۃ سے رُک جائے اور آرام کرے، مقصد یہ ہے کہ طاقت سے زیادہ نفلی عبادت ضروری نہیں ہے، جب تک دل لگے اس وقت تک کرے، بے دلی اور نفرت کے ساتھ عبادت کرنے سے بچتا رہے، اور اگرنفلی عبادت سے تھک کر کوئی آرام کرے، تاکہ دوبارہ عبادت کی قوت حاصل ہوجائے، تو اس کا یہ آرام بھی مثل عبادت کے ہوگا ۔


1372- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ النَّضْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ، فَاسْتَعْجَمَ الْقُرْآنُ عَلَى لِسَانِهِ، فَلَمْ يَدْرِ مَا يَقُولُ، اضْطَجَعَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۱۵)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۳۱ (۷۸۷)، د/الصلاۃ ۳۰۸ (۱۳۱۱)، حم (۲/۲۱۸) (صحیح)
۱۳۷۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی شخص صلاۃ کے لئے کھڑا ہو پھر (نیند کے غلبے کی وجہ سے) قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے، اور اسے معلوم نہ رہے کہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے، تو اسے سوجانا چاہیے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
185- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ
۱۸۵-باب: مغرب اور عشا ء کے درمیان کی صلاۃ کابیان​


1373- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَلَّى بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۳۶، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۱)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۰۴ (۴۳۵) (موضوع)
(اس کی سند میں یعقوب بن ولید ہے جو حدیثیں وضع کیا کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۴۶۷)
۱۳۷۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت پڑھی، اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا'' ۔


1374- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ الْيَمَامِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ صَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ، بَعْدَ الْمَغْرِبِ، لَمْ يَتَكَلَّمْ بَيْنَهُنَّ بِسُوئٍ، عُدِلَتْ لَهُ عِبَادَةَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۱۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۱۲) (ضعیف جدا)
(اس کی سند میں عمر بن ابی خثعم الیمانی منکر الحدیث اور ابو عمر حفص بن عمر ضعیف ہے)
۱۳۷۴ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں، اور بیچ میں زبان سے کوئی غلط بات نہیں نکالی، تو اس کی یہ صلاۃ بارہ سال کی عبادت کے برابر قراردی جائے گی'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
186- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي الْبَيْتِ
۱۸۶-باب: گھر میں نفل پڑھنے کا بیان​


1375- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأحْوَصِ ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: خَرَجَ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَيْهِ، قَالَ لَهُمْ: مِمَّنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: فَبِإِذْنٍ جِئْتُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ فَسَأَلُوهُ عَنْ صَلاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < أَمَّا صَلاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ فَنُورٌ، فَنَوِّرُوا بُيُوتَكُمْ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۶، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں عاصم بن عمرو ضعیف ہیں)
۱۳۷۵- عاصم بن عمرو کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ عمر رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے چلے، جب آپ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان سے پوچھا: تم لوگ کس جگہ سے تعلق رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: عراق سے، پوچھا :کیا اپنے امیر کی اجازت سے آئے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں، ا نہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے گھر میں صلاۃ پڑھنے کے متعلق پوچھا: تو آپ نے کہا:میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا: تو آپﷺ نے فرمایا: ''آدمی کا گھر میں صلاۃ پڑھنا نور ہے، لہٰذا تم اپنے گھروں کو روشن کرو'' ۔


[ز] 1375/أ - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْحُسَيْنِ (1)، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ،قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عُمَيْرٍ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۲) (ضعیف)
(اس کی سند میں بھی عاصم بن عمرو ضعیف ہیں) ۔
۱۳۷۵/أ- اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : مصباح الزجاجۃ کے دونوں نسخوں میں یحییٰ بن أبی الحسین ہے، صحیح : محمد بن أبی الحسین ہے، ملاحظہ ہو: التقریب : ۵۸۲۶ و ۵۸۵۹) ۔


1376- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ: < إِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ صَلاتَهُ، فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ مِنْهَا نَصِيبًا، فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلاتِهِ خَيْرًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۸۵، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۳)، و حم (۳/۱۵، ۵۹) (صحیح)
۱۳۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی شخص اپنی صلاۃ ادا کرلے تو اس میں سے اپنے گھر کے لئے بھی کچھ حصہ رکھے، اس لئے کہ اللہ تعالی اس کی صلاۃ کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر پیدا کرنے والاہے'' ۔


1377- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لاتَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا >۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۵۲ (۴۳۲)، التہجد ۳۷ (۱۱۸۷)، م/المسافرین ۲۹ (۷۷۷)، د/الصلاۃ ۲۰۵ (۱۰۴۳)، ۳۴۶ (۱۴۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۴۲)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۱۴ (۴۵۱)، ن/قیام اللیل ۱ (۱۵۹۹)، حم (۲/۶، ۱۶) (صحیح)
۱۳۷۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : گھر کوقبرستا ن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ قبرستان کی طرح گھر میںبھی عدم عبادت والی ویرانی ماحول پیدانہ کرو، بلکہ نفلی صلاۃ گھر ہی میں پڑھا کرو تاکہ گھر میں بھی اللہ کی عبادت والا ایک پُررونق ماحول دیکھائی دے کہ جس سے بچوں کی تربیت میں بھی پاکیزگی کا اثر نمایاں ہوگا۔


1378- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: أَيُّمَا أَفْضَلُ: الصَّلاةُ فِي بَيْتِي أَوِ الصَّلاةُ فِي الْمَسْجِدِ؟ قَالَ: < أَلا تَرَى إِلَى بَيْتِي مَا أَقْرَبَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ! فَلأَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ، إِلاأَنْ تَكُونَ صَلاةً مَكْتُوبَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۴۸۴)، وحم (۴/۳۴۲) (صحیح)
۱۳۷۸- عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا:دونوں میں کون افضل ہے گھر میں صلاۃ پڑھنا یا مسجد میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''تم میرے گھر کو نہیں دیکھتے کس قدر مسجد سے قریب ہے، اس کے باوجود بھی مجھے فرض کے علاوہ نفلی صلاتیں گھر میں پڑھنی زیادہ محبوب ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل کا گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
187- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةِ الضُّحَى
۱۸۷ -باب: صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی صلاۃ) کا بیان​


1379- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: سَأَلْتُ، فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَالنَّاسُ مُتَوَافِرُونَ، أَوْ مُتَوَافُونَ، عَنْ صَلاةِ الضُّحَى فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي أَنَّهُ صَلاهَا، يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ، غَيْرَ أُمِّ هَانِئٍ فَأَخْبَرَتْنِي أَنَّهُ صَلاهَا ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۶۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۰۳) (صحیح)
۱۳۷۹- عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) کے متعلق پوچھا اور اس وقت لوگ (صحابہ) بہت تھے، لیکن ام ہانی رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے یہ صلاۃ پڑھی، ہاں ام ہانی رضی اللہ عنہا نے یہ مجھے بتایا کہ آپﷺ نے آٹھ رکعت پڑھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے چاشت کی صلاۃ پڑھی، اور اس کے پڑھنے کی فضیلت بیان کی، اتنی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر مواظبت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرمﷺ کوپابندی سے چاشت کی صلاۃ پڑھتے نہیں دیکھا، دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ نوافل کی طرح اس کو گھر میں ادا کرتے رہے ہوں، جس سے اکثر لوگوں کو پتا نہ چلاہو۔


1380- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۲۹ (۴۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۵) (ضعیف)
(اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس اور موسیٰ بن انس ضعیف ہیں)
۱۳۸۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جس نے صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) بارہ رکعت پڑھی، اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنائے گا'' ۔


1381- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ، قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: أَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَرْبَعًا، وَيَزِيدُ مَا شَاءَ اللَّهُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۳ (۷۱۹)، ت/الشمائل (۲۸۸) ن/الکبري الصلاۃ ۶۷ (۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۴، ۹۵، ۱۲۰، ۱۲۳، ۱۴۵، ۱۵۶، ۱۶۸، ۱۷۲، ۲۶۵) (صحیح)
۱۳۸۱- معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی اکرمﷺ صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) پڑھتے تھے؟ کہا: ہاں، چاررکعت، اور جتنا اللہ چاہتا زیادہ پڑھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : صلاۃ الضحی (چاشت کی صلاۃ) کم سے کم دو رکعت، اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہے، واللہ اعلم۔


1382- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۲۹ (۴۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۴۳، ۴۹۷، ۴۹۹) (ضعیف)
(سند میں نہاس بن قہم ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الارواء : ۵۶۲)
۱۳۸۲ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص صلاۃ الضحی (چاشت) کی دو رکعتوں پر محافظت کرے گا، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
188- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةِ الاسْتِخَارَةِ
۱۸۸ -باب: صلاۃ استخارہ کابیان​


1383- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَةَ، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: < إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ: اللَّهُمَّ! إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ (فَيُسَمِّيهِ،مَا كَانَ مِنْ شَيْئٍ) خَيْرًا لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أَوْ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ ( يَقُولُ مِثْلَ مَا قَالَ فِي الْمَرَّةِ الأُولَى) وَإِنْ كَانَ شَرًّا لِي، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ >۔
* تخريج: خ/التہجد ۲۵ (۱۱۶۲)، الدعوات ۴۸ (۶۳۸۲)، التوحید ۱۰ (۷۳۹۰)، د/الصلاۃ ۳۶۶ (۱۵۳۸)، ت/الصلاۃ ۲۳۲ (۴۸۰)، ن/النکاح ۲۷ (۳۲۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۵۵)، و حم (۳/۸ ۴/۳۴۴) (صحیح)
۱۳۸۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں صلاۃ استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورہ سکھایا کرتے تھے، آپﷺ فرماتے تھے : ''جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے،پھریہ دعا پڑھے: ''اللَّهُمَّ! إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خَيْرًا لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أَوْ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ (پھر ویسا ہی کہے جیسے پہلی بار کہا)، وَإِنْ كَانَ شَرًّا لِي، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ'' (اے اللہ! میں تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں، اورتیری قدرت کی مدد سے قوت کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، تو غیب کی باتوں کاخوب جاننے والا ہے، اے اللہ! اگرتو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں قصد رکھتا ہوں) میرے لئے میرے دین، میری دنیا اور میرے انجام کا ر میں ۱؎ بہتر ہے، تو اس کو میرے لئے مقدر کردے، میرے لئے آسان کردے، اور میرے لئے اس میں برکت دے، اور اگر یہ کام میرے لئے براہے (ویسے ہی کہے جیسا کہ پہلی بار کہاتھا) تو اس کو مجھ سے پھیر دے، اور مجھ کو اس سے پھیر دے، اور میرے لئے خیر مقدر کردے، جہاں بھی ہو، پھر مجھ کو اس پر راضی کردے) ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اس دارفانی اور اخروی زندگی میں۔
وضاحت ۲؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیرطلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعاکے ذریعہ انسان اللہ سے خیر طلب کرتا ہے، اس لیے اسے دعائے استخارہ کہتے ہیں، اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ فرض صلاۃ کے علاوہ دورکعت نفل پڑھنے کے بعد دعاپڑھی جائے، استخارہ کا تعلق مناجات سے ہے، اوراستخارہ خود کرناچاہئے کسی اورسے کروانے ثابت نہیں ہے۔
 
Top