• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
200- بَاب مَا جَاءَ فِي طُولِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاةِ
۲۰۰-باب: صلاۃ میں قیام لمبا کرنے کا بیان​


1418- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: صَلَّيْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْئٍ، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ الأَمْرُ؟ قَالَ: هَمَمْتُ أَنْ أَجْلِسَ وَأَتْرُكَهُ۔
* تخريج: خ/التھجد ۹ (۱۱۳۵)، م/المسافرین ۲۷ (۷۷۳)، ت/في الشمائل (۲۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۹) وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۵، ۳۹۶، ۴۱۵، ۴۴۰) (صحیح)
۱۴۱۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے بے ادبی کا ارادہ کرلیا، (راوی ابو وائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا : میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔


1419- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، سَمِعَ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: < أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا؟ >ـ۔
* تخريج: خ/التہجد ۶ (۱۱۳۰)، تفسیرالفتح ۲ (۴۸۳۶)، الرقاق ۲۰ (۶۴۷۱)، م/المنافقین ۱۸ (۲۸۱۹)، ت/الصلاۃ ۱۸۸ (۴۱۲)، ن/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۸)، حم (۴/۲۵۱، ۲۵۵) (صحیح)
۱۴۱۹- مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ''رسول اللہﷺ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آگیا، توعرض کیاگیا: اللہ کے رسو ل!اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گنا ہ بخش دئیے ہیں (پھرآپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپﷺ نے فر مایا: ''کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں؟ سبحان اللہ! جب نبی کریم ﷺ نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالی کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت وعبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہوگا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہوجاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات صلاۃ میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : {مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} ( سورة طـه: 2) یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں ۔


1420- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ .فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: < أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا! "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۲) (صحیح)
۱۴۲۰- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صلاۃ پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پائوں سو ج جا تے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟آپ ﷺ نے فر مایا: ''کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں'' ۱؎ ۔


1421- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ : أَيُّ الصَّلاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < طُولُ الْقُنُوتِ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۲ (۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۲۷)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۶۸ (۳۸۷)، حم (۳/۳۰۲، ۳۹۱، ۴۱۲، ۴/۳۸۵) (صحیح)
۱۴۲۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا: کون سی صلاۃ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس میں قیام لمبا ہو'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلاۃ میں قیام افضل ہے، کیونکہ آپ ﷺ قیام اللیل (تہجد) میں بڑی دیر تک قیام کرتے، اور قیام کے افضل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ جو قرآن افضل الاذکار ہے، اس میں پڑھا جاتا ہے ۔
نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طول قیام کثرت رکوع وسجود سے افضل ہے علماء کی ایک جماعت جس میں امام شافعی بھی ہیں اسی طرف گئی ہے اور یہی حق ہے، اوررکوع وسجودکی فضیلت میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں کی فضیلت سے طول قیام پر ان کی افضیلت لازم نہیں آتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
201- بَاب مَا جَاءَ فِي كَثْرَةِ السُّجُودِ
۲۰۱ -باب: کثرت سے سجدہ کرنے کا بیان​


1422- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ أَنَّ أَبَا فَاطِمَةَ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ أَسْتَقِيمُ عَلَيْهِ وَأَعْمَلُهُ، قَالَ: < عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ، فَإِنَّكَ لاتَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلا رَفَعَكَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ بِهَا عَنْكَ خَطِيئَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷۶، ۲۸۰) (حسن صحیح)
۱۴۲۲- ابوفاطمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسو ل! مجھے ایسا عمل بتا ئیے جس پر میں جما رہوں اور اس کو کرتا رہوں؟ آپﷺ نے فر مایا : ''تم اپنے اوپر سجدے کو لازم کر لو، اس لئے کہ جب بھی تم کو ئی سجدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا، اور ایک گناہ مٹا دے گا'' ۔


1423- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو، أَبُو عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ الْمُعَيْطِيُّ، حَدَّثَهُ مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمُرِيُّ قَالَ: لَقِيتُ ثَوْبَانَ فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْنِي حَدِيثًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، قَالَ: فَسَكَتَ، ثُمَّ عُدْتُ فَقُلْتُ مِثْلَهَا، فَسَكَتَ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ لِي: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ لِلَّهِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً >.
قَالَ مَعْدَانُ: ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۳ (۴۸۸)، ت/الصلاۃ ۱۷۰ (۳۸۸، ۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۱۲، ۱۰۹۶۵)، حم (۵/۲۷۶، ۲۸۰، ۲۸۳) (صحیح)
۱۴۲۳- معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے کہا :آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کریں، امید ہے کہ اللہ تعالی مجھے اس سے فائدہ دے گا، یہ سن کر وہ خاموش رہے، پھر میں نے دوبارہ وہی بات کہی، تو بھی وہ خاموش رہے، تین بار ایسا ہی ہوا، پھر انہوں نے کہا : تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ لازم کرلو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''جو بندہ اللہ تعالی کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹادیتا ہے'' ۔
معدان کہتے ہیں کہ پھر میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی بیان کیا ۔


1424- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ الْمُرِّيِّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَمَحَا عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً، وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً، فَاسْتَكْثِرُوا مِنَ السُّجُودِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۰۲، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۳) (صحیح)
(صحیح مسلم وغیرہ میں ثوبان کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ا س کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، الإرواء : ۴۵۷)
۱۴۲۴- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''جو کوئی بندہ اللہ تعالی کے لئے ایک سجدہ کرے گا، اللہ اس کے بدلے ایک نیکی لکھے گا، اور اس کا ایک گناہ مٹادے گا، اور اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا، لہٰذا تم کثرت سے سجدے کرو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
202- بَاب مَا جَاءَ فِي أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ
۲۰۲-باب: (قیامت کے دن) بندے سے سب سے پہلے صلاۃ کامحاسبہ ہوگا​


1425- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ الضَّبِّيِّ قَالَ: قَالَ لِي أَبُوهُرَيْرَةَ: إِذَا أَتَيْتَ أَهْلَ مِصْرِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الصَّلاةُ الْمَكْتُوبَةُ، فَإِنْ أَتَمَّهَا، وَإِلا قِيلَ: انْظُرُوا هَلْ لَهُ مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ أُكْمِلَتِ الْفَرِيضَةُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ يُفْعَلُ بِسَائِرِ الأَعْمَالِ الْمَفْرُوضَةِ مِثْلُ ذَلِكَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴۹ (۸۶۴، ۸۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۰)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۸۹ (۴۱۳)، ن/الصلاۃ ۹ (۴۶۶)، حم (۲/ ۲۹۰، ۴۲۵) (صحیح)
۱۴۲۵- انس بن حکیم کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ جب تم اپنے شہر والوں کے پاس پہنچو تو ان کو بتاؤ کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے : ''مسلمان بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ فرض صلاۃ ہوگی، اگر اس نے اسے کامل طریقے سے ا دا کی ہے توٹھیک ہے، ورنہ کہا جائے گا کہ دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر اس کے پاس نفل صلاتیں ہوں گی تو اس سے فرض میں کمی پوری کی جائے گی، پھر باقی دوسرے فرائض اعمال کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا''۔


1426- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ (ح) و حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَدَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلاتُهُ، فَإِنْ أَكْمَلَهَا كُتِبَتْ لَهُ نَافِلَةً، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَكْمَلَهَا، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ لِمَلائِكَتِهِ: انْظُرُوا، هَلْ تَجِدُونَ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَأَكْمِلُوا بِهَا مَا ضَيَّعَ مِنْ فَرِيضَتِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ >۔
* تخريج: حدیث تمیم الداری أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۴۹ (۸۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۴)، وحدیث أبی ہریرۃ تقدم تخریجہ حدیث رقم : ۱۴۲۵، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۵) (صحیح)
۱۴۲۶- تمیم دا ری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ صلاۃ ہوگی، اگر اس نے صلاۃ مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل صلاۃ علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے کہے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل صلاتیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھرباقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
203- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةُ النَّافِلَةِ حَيْثُ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ
۲۰۳-باب: فرض صلاۃ پڑھنے کی جگہ پر نفل پڑھنے کا بیان​


1427- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ إِذَا صَلَّى أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ، أَوْ عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ > يَعْنِي السُّبْحَةَ۔
* تخريج: خ/الأاذان ۵۷ (۸۴۸) تعلیقاً، د/الصلاۃ ۱۹۴ (۱۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۵) (صحیح)
(سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف، اور ابراہیم بن اسماعیل مجہول الحال ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود : ۶۲۹، ۹۲۲، ۱۰۳۴)
۱۴۲۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم میں کا کوئی اتنا عاجز ومجبور ہے کہ جب (فرض) صلاۃ پڑھ چکے تو نفل کے لئے آگے بڑھ جائے، یا پیچھے ہٹ جائے، یا دائیں، بائیں ہو جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حکم اس صلاۃ میں ہے جس کے بعد سنت مؤکدہ ہے جیسے ظہر، مغرب اور عشاء کی صلاۃ، اور جس صلاۃ کے بعد سنت مؤکدہ نہیں ہے جیسے صبح کی صلاۃ فجر اس میں یہ حکم نہیں ہے ۔


1428- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يُصَلِّي الإِمَامُ فِي مُقَامِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ الْمَكْتُوبَةَ، حَتَّى يَتَنَحَّى عَنْهُ >.
* تخريج: خ/الأذان ۱۵۷ (۸۴۸ تعلیقاً)، د/الصلاۃ ۷۳ (۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۷) (صحیح)
(دوسری حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عثمان بن عطاء ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود : ۶۲۹) ۔
۱۴۲۸- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''امام اس جگہ سنت (نفل صلاۃ) نہ پڑھے جہاں پر اس نے فرض پڑھائی ہے، جب تک کہ وہاں سے دو رنہ جائے''۔


1428/أ- حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ:
(اس کی سند میں بقیہ ضعیف ہیں، ابو عبد الرحمن مجہول ہیں، اور عثمان ضعیف ہیں)
۱۴۲۸/أ- اس سند سے بھی مغیرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
204- بَاب مَا جَاءَ فِي تَوْطِينِ الْمَكَانِ فِي الْمَسْجِدِ يُصَلَّى فِيهِ
۲۰۴ -باب: مسجد میں صلاۃ کے لیے جگہ مخصوص کرنے کا بیان​


1429- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) و حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ مَحْمُودٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ ثَلاثٍ: عَنْ نَقْرَةِ الْغُرَابِ، وَعَنْ فِرْشَةِ السَّبُعِ، وَأَنْ يُوطِنَ الرَّجُلُ الْمَكَانَ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ كَمَا يُوطِنُ الْبَعِيرُ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴۸ (۸۶۲)، ن/التطبیق ۵۵ (۱۱۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۸، ۴۴۴)، دي/الصلاۃ ۷۵ (۱۳۶۲) (حسن)
۱۴۲۹- عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (صلاۃ میں) تین چیزوں سے منع فرمایا: ''ایک تو کوّے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسرے درندے کی طرح بازو بچھانے سے، اور تیسرے صلاۃ کے لئے ایک جگہ متعین کرنے سے جیسے اونٹ اپنی جگہ مقرر کرتا ہے'' ۔


1430- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي إِلَى سُبْحَةِ الضُّحَى فَيَعْمِدُ إِلَى الأُسْطُوَانَةِ، دونَ الصَفِّ، فَيُصَلِّى قَرِيبًا مِنْهَا، فَأَقُولُ لَهُ: أَلا تُصَلِّي هَا هُنَا؟ وَأُشِيرُ إِلَى بَعْضِ نَوَاحِي الْمَسْجِدِ، فَيَقُولُ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَتَحَرَّى هَذَا الْمُقَامَ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۹۵ (۵۰۲)، م/الصلاۃ ۴۹ (۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۴۱)، حم (۴/۴۸) (صحیح)
۱۴۳۰- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ صلا ۃ الضحیٰ (چاشت کی نفل صلاۃ) کے لئے آتے اور صف سے پہلے ستون کے پاس جاتے اور اس کے نزدیک صلاۃ پڑھتے، میں مسجد کے ایک گوشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان سے کہتا : آپ اس جگہ صلاۃ کیوں نہیں پڑھتے؟ تو وہ کہتے : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی جگہ کاقصد کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بظاہر یہ حدیث اگلی حدیث کے خلاف ہے جس میں مسجد کے اندر ایک جگہ متعین کرنے کی ممانعت ہے، تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ یہ ممانعت فرائض کے لئے ہے، سنن اور نوافل کے لئے نہیں، اور بعض نے کہا ہے کہ قصد کرنا اور خاص کرنا دونوں الگ الگ چیز ہے، کیوں کہ خاص کرنے میں ملکیت ثابت ہوتی ہے، اور مسجد کسی کی ملک نہیں ہے، اور قصد کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر جگہ خالی ہو تو وہاں پڑھے، اور نبی کریم ﷺ جو اس ستون کا قصد کرتے تو اس کی کوئی علت حدیث میں مذکور نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
205- بَاب مَا جَاءَ فِي أَيْنَ تُوضَعُ النَّعْلُ إِذَا خُلِعَتْ فِي الصَّلاةِ؟
۲۰۵ -باب: صلاۃ کے وقت جوتا نکال کر کہاں رکھا جائے؟​


1431- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ نَعْلَيْهِ عَنْ يَسَارِهِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۸۹ (۶۴۸)، ن/الافتتاح ۷۶ (۱۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۴)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۰۶ (۷۷۴ تعلیقاً)، م/الصلاۃ ۳۵ (۴۵۵)، حم (۳/۴۱۱) (صحیح)
۱۴۳۱- عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے دن صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا، تو آپ نے اپنے جوتے بائیں طرف رکھے ۔


1432- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < أَلْزِمْ نَعْلَيْكَ قَدَمَيْكَ، فَإِنْ خَلَعْتَهُمَا فَاجْعَلْهُمَا بَيْنَ رِجْلَيْكَ، وَلاتَجْعَلْهُمَا عَنْ يَمِينِكَ، وَلا عَنْ يَمِينِ صَاحِبِكَ، وَلا وَرَائَكَ، فَتُؤْذِيَ مَنْ خَلْفَكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۴) وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۹۰ (۶۵۵) (ضعیف جدا)
(یہ حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ سند میں عبد اللہ بن سعید متروک اور منکر الحدیث ہے، لیکن ابو داود کی صحیح روایت میں سیاق اس سے مختلف ہے، '' أَلْزِمْ نَعْلَيْكَ قَدَمَيْكَ'' اور '' وَلا وَرَائَكَ،فَتُؤْذِيَ مَنْ خَلْفَكَ '' صرف ابن ماجہ میں ہے، اس لئے یہ الفاظ منکر ہیں) ۔
۱۴۳۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوتے اپنے پاؤں میں پہنے رکھو، اور اگر انہیں اتارو تو اپنے پیروں کے درمیان رکھو، اور اپنے دائیں طرف نہ رکھو، نہ اپنے ساتھی کے دائیں طرف رکھو، اور نہ پیچھے رکھو کیونکہ پیچھے والوں کو تکلیف ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر جوتے پاک وصاف ہوں تو اس کو پہن کر صلاۃ پڑھنا صحیح ہے، خود رسول اللہ ﷺ نے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جوتے پہن کر صلاۃ پڑھی ہے، نیز اس حدیث میں جوتے رکھنے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں ۔


* * *​
* * *​
* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207

{ 6- كِتَاب الْجَنَائِزِ }
۶-کتاب: صلاۃِ جنازہ کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ
۱ - باب: مریض کی عیادت کا بیان​


1433- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتَّةٌ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جِنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۱ (۲۷۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۸، ۸۹، ۲/۳۷۲، ۴۱۲)، دي/الاستئذان ۵ (۲۶۷۵) (صحیح)
۱۴۳۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''مسلمان کی مسلمان پر حسن سلوک کے چھ حقوق ۱؎ ہیں: ۱- جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ۲- جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے،۳- جب وہ چھینکے اور''الحَمْدُ لله'' کہے توجواب میں ''يَرْحَمُكَ اللهُ'' کہے،۴- جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت(بیمار پرسی) کرے،۵- جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جائے، ۶- اور اس کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : حقوق سے مراد ایسے امور ہیں جن کا چھوڑنا مناسب نہ ہو، ان کا کرنا یا تو واجب ہو یا ایسا مندوب ہو جس کی اتنی تاکید آئی ہو کہ وہ واجب جیسا ہوگیا ہو۔


1434- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ أَرْبَعُ خِلالٍ: يُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۵)، حم (۵/۲۷۲) (صحیح)
۱۴۳۴- ابومسعود (عقبہ بن عمر و) انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: '' ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چار حقوق ہیں: جب اسے چھینک آئے اور وہ ''الحَمْدُللهِ'' کہے، تو اس کے جواب میں ''يَرْحَمُكَ اللهُ'' کہے، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو،اور جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرے''۔


1435- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خَمْسٌ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ: رَدُّ التَّحِيَّةِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَشُهُودُ الْجِنَازَةِ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللَّهَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۹۲، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۶)، وقد أخرجہ: خ/الجنائز۲ (۱۲۴۰)، م/السلام ۳ (۲۱۶۲)، ن/الجنائز ۵۲ (۱۹۴۰)، حم (۲/۳۲۱، ۳۳۲، ۳۵۷، ۳۷۲، ۳۸۸) (صحیح)
۱۴۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، جنازہ میں حاضر ہونا،مریض کی عیادت کرنا، اور جب چھینکنے والا ''الحَمْدُللهِ'' کہے، تو اس کے جواب میں ''يَرْحَمُكَ اللهُ'' کہنا ۔


1436- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَاشِيًا وَأَبُوبَكْرٍ، وَأَنَا فِي بَنِي سَلَمَةَ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۴۵ (۱۹۴)، التفسیر ۴ (۴۵۷۷)، المرضی ۵ (۵۶۵۱)، الفرائض ۱ (۶۷۲۳)، الاعتصام ۸ (۳۰۱۵)، م/الفرائض ۲ (۱۶۱۶)، د/الجنائز ۲ (۲۸۸۶)، ت/الفرائض ۷ (۲۰۹۷)، تفسیرالقرآن ۵ (۳۰۱۵)، ن/الطہارۃ ۱۰۳(۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۲۸)، وقد أخرجہ: دي/الطہارۃ ۵۶ (۷۶۰)
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۲۷۲۸) (صحیح)
۱۴۳۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدل چل کر میری عیادت کے لئے آئے ، اور میں(مدینہ سے دور) قبیلہ بنو سلمہ میں تھا ۔


1437- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لا يَعُودُ مَرِيضًا إِلا بَعْدَ ثَلاثٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۸، و مصباح الزجاجۃ: ۵۰۷) (موضوع)
(اس میں مسلمہ بن علی متروک اور منکر الحدیث ہے، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں داخل کیا ہے، نیزملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۴۵)
۱۴۳۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مریض کی عیادت اس کی بیماری کے تین دن گزرجانے کے بعد فرماتے تھے ۔


1438- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ السَّكُونِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا دَخَلْتُمْ عَلَى الْمَرِيضِ فَنَفِّسُوا لَهُ فِي الأَجَلِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لا يَرُدُّ شَيْئًا، وَهُوَ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْمَرِيضِ >۔
* تخريج: ت/الطب ۳۵ (۰۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۲) (ضعیف)
(موسیٰ بن محمد اس سند میں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۸۲ )
۱۴۳۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم مریض کے پاس جاؤ، تو اسے درازیٔ عمر کی امید دلاؤ، اس لئے کہ ایسا کہنے سے تقدیر نہیں پلٹتی، لیکن بیمار کا دل خوش ہوتا ہے '' ۔


1439- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، حَدَّثَنَا أَبُومَكِينٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَادَ رَجُلا فَقَالَ: < مَا تَشْتَهِي؟ > قَالَ: أَشْتَهِي خُبْزَ بُرٍّ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < مَنْ كَانَ عِنْدَهُ خُبْزُ بُرٍّ فَلْيَبْعَثْ إِلَى أَخِيهِ >، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <إِذَا اشْتَهَى مَرِيضُ أَحَدِكُمْ شَيْئًا فَلْيُطْعِمْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۸) (ضعیف)
(اس میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث ہیں، نیزیہ حدیث (۳۴۴۰) نمبر پر آرہی ہے)
۱۴۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بیمار کی عیادت کی، تواس سے پوچھا : ''کیا کھانے کو جی چاہتا ہے؟ '' اس نے کہا: گیہوں کی روٹی کھانے کی خواہش ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اسے اپنے بیمار بھائی کے پاس بھیج دے '' پھرآپﷺ نے فرمایا: '' جب تم میں سے کسی کا مریض کچھ کھانے کی خواہش کرے تو وہ اسے وہی کھلائے ''۔


1440- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ فَقَالَ: <أَتَشْتَهِي شَيْئًا؟ أَتَشْتَهِي كَعْكًا؟ >، قَالَ: نَعَمْ، فَطَلَبُوا لَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۹) (ضعیف)
(اس میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیز ۳۴۴۱نمبر پر یہ حدیث آرہی ہے)
۱۴۴۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺایک مریض کی عیادت کے لئے گئے، تو پوچھا: '' کیا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے ؟ کیا کیک کھانا چاہتے ہو'' ؟ اس نے کہا :ہاں، تو لوگوں نے اس کے لئے کیک منگوایا ۔


1441- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: < إِذَا دَخَلْتَ عَلَى مَرِيضٍ فَمُرْهُ أَنْ يَدْعُوَ لَكَ، فَإِنَّ دُعَائَهُ كَدُعَائِ الْمَلائِكَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۹، ومصباح الزجاجۃ: ۵۱۰) (ضعیف جدًا)
(اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ میمون بن مہران نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے )
۱۴۴۱- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: '' جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ، تو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو، اس لئے کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ عَادَ مَرِيضًا
۲ - باب: مریض کی عیادت کا ثواب​


1442- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ أَتَى أَخَاهُ الْمُسْلِمَ عَائِدًا، مَشَى فِي خَرَافَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ، فَإِنْ كَانَ غُدْوَةً صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ كَانَ مَسَائً صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ »۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۱، ومصباح الزجاجۃ: ۵۱۱)، وقد أخرجہ: د/الجنائز ۷ (۳۰۹۸، ۳۰۹۹)، ت/الجنائز ۲ (۹۶۹)، حم (۱/۹۷، ۱۲۰) (صحیح)
۱۴۴۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لئے آئے وہ جنت کے کھجور کے باغ میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے، جب بیٹھ جائے، تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، اگرصبح کے وقت عیادت کے لئے گیا ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لئے دعا کرتے ہیں، اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لئے دعا کرتے ہیں ''۔


1443- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ عَادَ مَرِيضًا نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ: طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ، وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلا »۔
* تخريج: ت/البروالصلۃ ۶۴ (۲۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۶، ۳۴۴، ۳۵۴) (حسن)
(تراجع الألبانی، رقم: ۵۹۳)
۱۴۴۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس نے کسی مریض کی عیادت کی تو آسمان سے منادی (آواز لگانے والا) آواز لگاتا ہے: تم تو اچھا ہے اور تمہارا جانا اچھا رہا، تم نے جنت میں ایک ٹھکانا بنا لیا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي تَلْقِينِ الْمَيِّتِ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
۳ - باب: جان نکلنے کے وقت میت کو ’’لا إِلَهَ إِلا اللهُ ‘‘ کی تلقین کا بیان​


1444- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >۔
* تخريج: م/الجنائز ۱ (۹۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۴۸) (صحیح)
۱۴۴۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ اپنے مردوں ۱؎ کو ’’لا إِلَهَ إِلا اللَّه‘‘ کی تلقین کرو ‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مردوں سے مراد وہ بیمارہیں جو مرنے کے بالکل قریب ہوں۔
وضاحت ۲؎ :تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی ان کے پاس پڑھ کر انہیں اس کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگیں۔


1445- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >۔
* تخريج:م/الجنائز ۱ (۹۱۶)، د/الجنائز ۲۰ (۳۱۱۷)، ت/الجنائز ۷ (۹۷۶)، ن/الجنائز ۴ (۱۸۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳) (صحیح)
۱۴۴۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ اپنے مردوں کو( جو مرنے کیقریب ہوں) ’’لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ‘‘ کی تلقین کرو ‘‘ ۔


1446- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ »، قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ لِلأَحْيَائِ؟ قَالَ: < أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۱۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۱۲) (ضعیف)
(اس کی سند میں اسحاق بن عبد اللہ مجہول الحال ہیں، ویسے حدیث کا یہ جملہ ’’لقنوا موتاكم‘‘صحیح ہے، جیسا کہ اس سے پہلے والی حدیثوں میں گذرا ہے، ملاحظہ ہو: ۴۳۱۷)
۱۴۴۶- عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپنے مردوں( جو لوگ مرنے کے قریب ہوں)کو یہ کہنے کی تلقین کرو: ’’لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘ کی تلقین کرو‘‘ (اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، جو حلیم و کریم والا ہے، اللہ تعالی کی ذات پاک ہے جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام حمدو نثا اللہ تعالی کو لائق و زیبا ہے جو سارے جہاں کا رب ہے) لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دعا زندوں کے لئے کیسی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ بہت بہتر ہے، بہت بہتر ہے ‘‘ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ عِنْدَ الْمَرِيضِ إِذَا حُضِرَ
۴ - باب: جانکنی کے وقت مریض کے پاس کیا دعا پڑھی جائے؟​


1447- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِيضَ أَوِ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ قَدْ مَاتَ، قَالَ: < قُولِي: اللَّهُمَّ! اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبًى حَسَنَةً >، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: م/الجنائز ۳ (۹۱۹)، د/الجنائز ۱۹(۳۱۱۵)، ت/الجنائز ۷ (۹۷۷) ن/الجنائز ۳ (۱۸۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۲)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۱۴ (۴۲)، حم (۶/۲۹۱، ۳۰۶، ۳۲۲) (صحیح)
۱۴۴۷- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ، تو اچھی بات کہو، اس لئے کہ فرشتے تمہاری باتوں پہ آمین کہتے ہیں ''، چنانچہ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی اکرمﷺکے پاس آئی، اور میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' تم یہ کلمات کہو : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبًى حَسَنَةً ( اے اللہ مجھ کو اور ان کو بخش دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما)''۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالی نے مجھے ان سے بہتر محمدرسول اللہ ﷺ کوان کے نعم البدل کے طور پر عطا کیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا: ابو سلمہ سے بہترکون ہوگا، پھر اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا، جو ابوسلمہ سے بہتر تھے، ابوسلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے نکاح کرلیا ۔


1448- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ (وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ) عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اقْرَئُوهَا عِنْدَ مَوْتَاكُمْ > يَعْنِي يَس۔
* تخريج:د/الجنائز ۲۴ (۳۱۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶، ۲۷) (ضعیف)
(ملاحظہ ہو: الإرواء: ۶۸۸، والضعیفہ: ۵۸۶۱، ابوعثمان کے والد مجہول ہیں)
۱۴۴۸- معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اپنے مردوں کے پاس اسے یعنی سورہ یٰس پڑھو ''۔


1449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، جَمِيعًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ كَعْبًا الْوَفَاةُ أَتَتْهُ أُمُّ بِشْرٍ بِنْتُ الْبَرَائِ بْنِ مَعْرُورٍ فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! إِنْ لَقِيتَ فُلانًا فَاقْرَأْ عَلَيْهِ مِنِّي السَّلامَ، قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ يَا أُمَّ بِشْرٍ! نَحْنُ أَشْغَلُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَتْ: يَاأَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ، تَعْلُقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ >، قَالَ: بَلَى، قَالَتْ: فَهُوَ ذَاكَ۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد ۱۳ (۱۶۴۱)، ن/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۸)، وقد أخرجہ: ط/الجنائز ۱۶ (۴۹)، حم (۳/۴۵۵، ۴۵۶، ۴۶۰،۶/۳۸۶، ۴۲۵) (ضعیف)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے، جو( ۴۲۷۱) نمبر پر آرہی ہے )
۱۴۴۹- عبدالرحمن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے والد کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا، تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور( رضی اللہ عنہما ) آئیں ،اور کہنے لگیں: اے ابو عبدالرحمن! اگر فلاں سے آپ کی ملاقات ہوتو ان کو میرا سلام کہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام بشر! اللہ تمہیں بخشے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ ہم لوگوں کا سلام پہنچاتے پھریں، انہوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن !کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا: '' مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی، اور جنت کے درختوں سے کھاتی چرتی ہوں گی''، کعب رضی اللہ عنہ کہا :کیوں نہیں، ضرور سنی ہے، تو انہوں نے کہا: بس یہی مطلب ہے ۔


1450- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ: اقْرَأْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ السَّلامَ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۵، ومصباح الزجاجۃ: ۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۶۹) (ضعیف)
(شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے،ضعیف الجامع: ۲۷۵، مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، ملاحظہ ہو: ۱۱۶۶۰، ۱۹۴۸۲)
۱۴۵۰- محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا، تو میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ کو سلام کہئے گا ۔
 
Top