- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
200- بَاب مَا جَاءَ فِي طُولِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاةِ
۲۰۰-باب: صلاۃ میں قیام لمبا کرنے کا بیان
1418- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: صَلَّيْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْئٍ، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ الأَمْرُ؟ قَالَ: هَمَمْتُ أَنْ أَجْلِسَ وَأَتْرُكَهُ۔
* تخريج: خ/التھجد ۹ (۱۱۳۵)، م/المسافرین ۲۷ (۷۷۳)، ت/في الشمائل (۲۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۹) وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۵، ۳۹۶، ۴۱۵، ۴۴۰) (صحیح)
۱۴۱۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، آپ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ میں نے بے ادبی کا ارادہ کرلیا، (راوی ابو وائل کہتے ہیں:) میں نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا : میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ میں بیٹھ جاؤں، اور آپ کو (کھڑا) چھوڑ دوں۔
1419- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، سَمِعَ الْمُغِيرَةَ يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: < أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا؟ >ـ۔
* تخريج: خ/التہجد ۶ (۱۱۳۰)، تفسیرالفتح ۲ (۴۸۳۶)، الرقاق ۲۰ (۶۴۷۱)، م/المنافقین ۱۸ (۲۸۱۹)، ت/الصلاۃ ۱۸۸ (۴۱۲)، ن/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۸)، حم (۴/۲۵۱، ۲۵۵) (صحیح)
۱۴۱۹- مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ''رسول اللہﷺ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آگیا، توعرض کیاگیا: اللہ کے رسو ل!اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گنا ہ بخش دئیے ہیں (پھرآپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپﷺ نے فر مایا: ''کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں؟ سبحان اللہ! جب نبی کریم ﷺ نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالی کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت وعبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہوگا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہوجاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ساری رات صلاۃ میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : {مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} ( سورة طـه: 2) یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں ۔
1420- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ .فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: < أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا! "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۵۰۲) (صحیح)
۱۴۲۰- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صلاۃ پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پائوں سو ج جا تے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالی نے آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟آپ ﷺ نے فر مایا: ''کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں'' ۱؎ ۔
1421- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ : أَيُّ الصَّلاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < طُولُ الْقُنُوتِ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۲ (۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۲۷)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۶۸ (۳۸۷)، حم (۳/۳۰۲، ۳۹۱، ۴۱۲، ۴/۳۸۵) (صحیح)
۱۴۲۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا: کون سی صلاۃ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس میں قیام لمبا ہو'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلاۃ میں قیام افضل ہے، کیونکہ آپ ﷺ قیام اللیل (تہجد) میں بڑی دیر تک قیام کرتے، اور قیام کے افضل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ جو قرآن افضل الاذکار ہے، اس میں پڑھا جاتا ہے ۔
نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طول قیام کثرت رکوع وسجود سے افضل ہے علماء کی ایک جماعت جس میں امام شافعی بھی ہیں اسی طرف گئی ہے اور یہی حق ہے، اوررکوع وسجودکی فضیلت میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں کی فضیلت سے طول قیام پر ان کی افضیلت لازم نہیں آتی ۔