196- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
۱۹۶ -باب: بیت المقدس میں صلاۃ پڑھنے کی فضیلت
1407- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ أَخِيهِ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ مَيْمُونَةَ مَوْلاةِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: < أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ، ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ، فَإِنَّ صَلاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلاةٍ فِي غَيْرِهِ > قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: < فَتُهْدِي لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴ (۴۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۴۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۶۳) (منکر)
(بوصیری نے کہا کہ بعض حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے، شیخ البانی نے اس حدیث کو پہلے (صحیح ابو داود ۶۸) میں رکھاتھا، بعد میں اسے ضعیف ابی داود میں رکھ دیا، ابوداود کی روایت میں بیت المقدس میں صلاۃ پڑھنے کی فضیلت کا ذکر نہیں ہے، وجہ نکارت یہ ہے کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، حجاز سے اسے بیت المقدس بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟نیز صحیح احادیث میں مسجد نبوی میں ایک صلاۃ کا ثواب ہزار صلاۃ ہے، جب کہ بیت المقدس کے بارے میں یہ ثواب صحاح میں نہیں وار د ہوا ہے) ۔
۱۴۰۷- نبی اکرمﷺ کی لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : ''اللہ کے رسول! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے''، آپﷺ نے فرمایا: ''وہ تو حشر ونشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور صلاۃ پڑھو، اس لئے کہ اس میں ایک صلاۃ دوسری مسجدوں کی ہزار صلاۃ کی طرح ہے'' میں نے عرض کیا :اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: ''تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا'' ۔
1408- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الْجَهْمِ الأَنْمَاطِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللَّهَ ثَلاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ، لا يُرِيدُ إِلا الصَّلاةَ فِيهِ، إِلا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ > فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ >۔
* تخريج: ن/المساجد ۶ (۶۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۴۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۶) (صحیح)
(دوسری سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبید اللہ بن الجہم مجہول الحال ہیں، اور ایوب بن سوید بالاتفاق ضعیف، بوصیری نے ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث کو ابو داود نے ابن عمرو کی حدیث سے روایت کیا ہے، ایسے ہی نسائی نے سنن صغری میں روایت کی ہے)، یہ حدیث ابوداود میں ہمیں نہیں ملی، اور ایسے ہی مصباح الزجاجۃ کے محقق د.شہری کو بھی نہیں ملی (۵۰۲) نیز نسائی نے کتاب المساجد باب فضل المسجد الأقصی (۱؍۸) میں اور احمد نے مسند میں (۲؍۱۷۶) تخریج کیا ہے ابن خزیمہ (۲؍۱۷۶) اور ابن حبان (۱۰۴۲ مواردہ) اور حاکم (۱؍۲۰؍۲۱) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے)
۱۴۰۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے مجھ کو ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف صلاۃ ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''دو باتیں تو اللہ تعالی نے سلیمان علیہ السلام کو عطا فرمائیں، مجھے امید ہے کہ تیسری چیز بھی انہیں عطا کی گئی ہوگی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : سلیمان علیہ السلام کا حکم ہونااس آیت سے معلوم ہوتا ہے:
{فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا} (سورة الأنبياء:79)، {فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاء حَيْثُ أَصَابَ} (سورة ص : 36) نیز ہوا پر اور جن وانس پر اور چر ند وپرند سب پر ان کی حکومت تھی، جیسا کہ اس آیت میں موجو د ہے:
{ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاء وَغَوَّاصٍ} (سورة ص : 37 ) اور تیسری بات کی صراحت چونکہ قرآن میں نہیں ہے اس لئے نبی اکرم ﷺ نے اس میں شک کیا ۔
1409- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلا إِلَى ثَلاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى >۔
* تخريج: م/الحج ۹۵ (۱۳۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۳)، وقد أخرجہ: خ/فضائل الصلاۃ ۱ (۱۱۸۹)، د/الحج ۹۸ (۲۰۳۳)، ن/المساجد ۱۰ (۷۰۱)، ط/الجمعۃ ۷ (۱۶)، حم (۲/۲۳۴، ۲۳۸، ۲۷۸، ۵۰۱)، دي/الصلاۃ ۱۳۲ (۱۴۶۱) (صحیح)
۱۴۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا''تین مساجد: مسجد حرام، میری اس مسجد اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے''۔
1410- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلا إِلَى ثَلاثَةِ مَسَاجِدَ: إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَإِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى، وَإِلَى مَسْجِدِي هَذَا >۔
* تخريج: حدیث أبي سعید الخدري أخرجہ: خ/فضل الصلاۃ في مکۃ والمدینۃ ۶ (۱۱۸۸، ۱۱۸۹)، م/المناسک ۷۴ (۸۲۷)، ت/الصلاۃ ۱۲۷ (۳۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷۹)، وحدیث عبد اللہ بن عمر و بن العاص قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۷، ۳۴، ۴۵، ۵۱، ۵۹، ۶۲، ۷۱، ۷۷) (صحیح)
۱۴۱۰- ابوسعید خدری اورعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تین مساجد : مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان تین مسجدوں کے سو ا تقرب اور ثواب کی نیت سے کسی اور مسجد کے لئے سفر صحیح نہیں ہے، جب ان تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کے لئے تقرب کی نیت سے سفر کرنا جائز اور درست نہیں، تو اولیاء اور بزرگوں کے مشاہد و مقابر کی زیارت کے لئے سفر کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
امام الحرمین کے والد ابومحمد الجوینی، شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم اور عام علمائے اہل حدیث کا مذہب ظاہر حدیث کی رو سے یہی ہے کہ تقرب اور ثواب کی نیت سے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مقام کا سفر ناجائز ہے ۔قاضی حسین اور قاضی عیاض نے بھی اسی کو اختیارکیا ہے، اوراس کی دلیل یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہنے کوہِ طور کی زیارت کے لیے سفر کیا تو ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہنے ان پر اعتراض کیا اوردلیل میں یہی حدیث پیش کی، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ اتفاق کیا، اورجو اہل علم ظاہر حدیث کی رو سے ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مقام کا سفر جائز نہیں کہتے وہ انبیاء کی قبور کی زیارت کے لیے بھی سفرکو ممنوع اورناجائز کہتے ہیں، یہاں تک کہ قبر نبوی کی زیارت کے لیے سفر کوبھی ناجائز کہتے ہیں، اورمسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر کوجائز کہتے ہیں، مدینہ طیبہ پہنچ کرقبر نبوی اور دوسری قبروں کی زیارت کومستحب کہتے ہیں، دلائل کی روشنی میں یہ رائے زیادہ صحیح ہے، بعض جاہل شیخ الإسلام ابن تیمیہ وغیرہ کو بدنام کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک نبی اکرمﷺ کے قبرکی زیارت حرام ہے، حالانکہ یہ محض بہتان اور افتراء ہے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ نے ہرگز یہ نہیں کہا ہے بلکہ زیارت قبرنبوی کی نیت سے سفرکرنے کو ناجائز کہاہے، اوریہ قول بہت سارے صحابہ کرام اورتابعین عظام سے بھی منقول ہے، اوراس بات پر سب متفق ہیں کہ مدینہ پہنچ کر قبرنبوی کی زیارت مستحب ہے، اور جو علماء قبرکی زیارت کی نیت سے مدینہ کے سفر کو ناجائز کہتے ہیں وہ صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ایسا کہتے ہیں، اور صحیح حدیث کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے ۔
علماء کا ایک گروہ جن میں امام الحرمین، غزالی، نووی، سبکی، حافظ ابن حجر، سیوطی وغیرہ ہیں، انبیاء، اولیاء اورصلحاء کی قبور کی زیارت کے لیے سفرکو جائز کہتاہے، اس کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین مسجدوں کے سوا کسی اورمسجد میں صلاۃ اداکرنے کے لیے سفر کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ ساری مساجد فضیلت میں برابرہیں تو کسی مسجد کے لیے سفر بے فائدہ ہوگا، اوراس کی موید مسند احمد یہ حدیث ہے کہ مصلی کو کسی اورمسجد کی طرف کجاوہ نہیں باندھنا چاہئے سوائے مسجدحرام، مسجداقصیٰ اور میری مسجد کے، لیکن سلف صالحین کا اس مسئلے میں فہم معتبرہے جیساکہ اوپر گزرا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کے استدلال کو مان کر اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اسی طرح سے اور بھی آثارِ سلف ہیں جس سے یہ بات مزید صاف ہوجاتی ہے کہ مذکورہ تین مساجد کے علاوہ کسی اورمسجد کا سفر ثواب کی نیت سے صحیح نہیں ہے، نیز قبور کی زیارت کے لیے سفر کرنا بھی جائز نہیں ہے، اور مدینہ کے سفر میں مسجد نبوی کی زیارت کی نیت ہونی چاہئے اور مدینہ پہنچ کر قبرنبوی اور دوسری قبور کی زیارت جائز اور مستحب ہے، اس مسئلے پر شیخ الإسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے نیز علامہ البانی کی کتاب ''تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد'' بھی اہم کتاب ہے ۔