55- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِيبَةِ
۵۵ - باب: مصیبت پر صبرکرنے کا ثواب
1596- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَالصَّدْمَةِ الأُولَى >۔
* تخريج: ت/الجنائز ۱۳ (۹۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۸)، وقد أخرجہ: خ/الجنائز ۳۱ (۱۲۸۳)، ۴۲ (۱۳۰۲)، الأحکام ۱۱ (۷۱۵۴)، م/الجنائز ۸ (۹۲۶)، د/الجنائز ۲۷ (۳۱۲۴)، ن/الجنائز ۲۲ (۱۸۷۰)، حم (۳/۱۳۰، ۱۴۳، ۲۱۷) (صحیح)
۱۵۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' صبرتو وہ ہے جو مصیبت کے اول وقت میں ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب رنج وغم کی خبر پہنچے تو اسی وقت صبر کرے اور ''انا للہ وانا الیہ راجعون'' کہے، اور زیادہ رونا پیٹنا نہ کرے، اسی کا نام صبر ہے ،اور یہی تعریف کے قابل ہے اس کا اجر ملے گا، لیکن اس وقت خوب روئے اور پیٹے اور بعد میں صبرکرے تو کچھ فائدہ نہیں ہے، رو نے پیٹنے کے بعد تو سب کو صبر آجاتا ہے، اس حدیث کا قصہ دوسری روایت میں یوں مذکور ہے کہ ایک عورت قبر کے پاس رورہی تھی، نبی کریم ﷺ اس پر سے گزرے تو فرمایا : ''صبر کر و'' وہ کہنے لگی چلو ہٹو تم کو میرا درد کیا معلوم ہے اس نے آپ ﷺ کو پہچانانہیں، پھر لوگوں نے اس سے کہا کہ وہ تو نبی کریم ﷺ تھے ،تب وہ دوڑ کر آپ کے پاس آئی ،اس وقت آپ نے یہ حدیث فرمائی ۔
1597- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلانَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: ابْنَ آدَمَ! إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى، لَمْ أَرْضَ لَكَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱۱، ومصباح الزجاجۃ: ۵۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۵۸) (حسن) (شواہد کی بنا پر حسن ہے)
۱۵۹۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے آدمی! اگر تم مصیبت پڑتے ہی صبرکرو، اور ثواب کی نیت رکھو، تو میں جنت سے کم ثواب پر تمہارے لئے راضی نہیں ہوں گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : صبر کا اسلام میں بڑا مقام ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت صبرکے بغیر نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ کے اوامر واحکام کو بجالانا، اور نواہی وممنوعات سے دوررہنا، اور اللہ کی جانب سے مقدر مصائب ومشکلات (جن کو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لئے اتارا ہے )پر صبرکرنے کا نام عبادت ہے۔
شریعت میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی زبان سے شکوہ شکایت نہ کرے، اور دل کو اس کی نفرت وجلن سے روکے، اور اعضاء وجوارح کے ذریعہ سے اظہارِ غم پر قابو پائے۔
اوامر ونواہی پر صبرواجب ہے، اور مصائب پربھی صبر واجب ہے، اس لئے کہ اس میں اللہ کی قضا وقدر پر ناراضگی وناخوشی سے اجتناب اور دوری ہے، جب کہ مصائب ومشکلات پر راضی رہنا مستحب کام ہے، واجب اور ضروری نہیں، اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر جو اس کا فعل وفیصلہ ہے اس پر راضی ہونا اس کی حکمت پر راضی ہونا ہے، اللہ نے بندے کو جو عطا کردیا ہے اس مقسوم پر راضی رہنا واجب ہے، اور قضا وقدر پر ناراض ہونا حرام اور کمالِ توحید کے منافی ہے۔
اللہ کے کئے ہوئے فیصلے یعنی مصائب وابتلاء ات پر راضی ہونا اسے قبول کرلینا مستحب ہے، بندہ پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ بیماری پر راضی وخوش ہو، یا اولاد کی موت پر راضی ہو، یا مال ودولت کے ضائع ہوجانے پر راضی ہو، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ایک خاص رتبہ ہے، اللہ کے نیک بندے اس پر بھی راضی رہتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اللہ کے فیصلے اورقضا وقدر جو اللہ کے افعال ہیں اس پر راضی ہونا واجب ہے، اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے نتیجہ میں جو ابتلاء وآزمائش، غم، بیماری فقیری اور خوف کی صورت میں آتی ہیں، ان پر راضی ہونا مستحب ہے، واجب نہیں ۔
1598- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ فَيَفْزَعُ إِلَى مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ، مِنْ قَوْلِهِ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ! عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا، وَعَوِّضْنِي مِنْهَا إِلا آجَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهَا، وَعَاضَهُ خَيْرًا مِنْهَا > قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ ذَكَرْتُ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ! عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي هَذِهِ، فَأْجُرْنِي عَلَيْهَا، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: وَعِضْنِي خَيْرًا مِنْهَا، قُلْتُ: فِي نَفْسِي أُعَاضُ خَيْرًا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ؟ ثُمَّ قُلْتُهَا فَعَاضَنِي اللَّهُ مُحَمَّدً ا ﷺ،وَآجَرَنِي فِي مُصِيبَتِي۔
* تخريج: ت/الدعوات ۸۴ (۳۵۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷) (صحیح) (سند میں عبد الملک بن قدامہ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے)
۱۵۹۸- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا: انہوں نے ر سول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : ''جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے، تو وہ گھبرا کر اللہ کے فرمان کے مطابق یہ دعا پڑھے:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ! عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا، وَعَوِّضْنِي مِنْهَا ( ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ! میں نے تجھی سے اپنی مصیبت کا ثواب طلب کیا، تو مجھے اس میں اجر دے، اور مجھے اس کا بدلہ دے ) جب یہ دعا پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کا اجر دے گا، اور اس سے بہتر اس کا بدلہ عنایت کرے گا '' ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب (میرے شوہر) ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا، تو مجھے وہ حدیث یادآئی، جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر مجھ سے بیان کی تھی، چنانہ میں نے کہا:
''إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ! عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي هَذِهِ، فَأْجُرْنِي عَلَيْهَا'' اور جب ''وَعِضْنِي خَيْرًا مِنْهَا'' (مجھے اس سے بہتر بدلا دے ) کہنے کا ارادہ کیا تو دل میں سوچا:کیا مجھے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر بدلہ دیا جا سکتا ہے؟، پھر میں نے یہ جملہ کہا، تو اللہ تعالی نے مجھے محمد ﷺ کو ان کے بدلہ میں دے دیا اور میری مصیبت کا بہترین اجر مجھے عنایت فرمایا۔
1599- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السُّكَيْنِ، حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَابًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، أَوْ كَشَفَ سِتْرًا، فَإِذَا النَّاسُ يُصَلُّونَ وَرَاءَ أَبِي بَكْرٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا رَأَى مِنْ حُسْنِ حَالِهِمْ، رَجَاءَ أَنْ يَخْلُفَهُ اللَّهُ فِيهِمْ بِالَّذِي رَآهُمْ، فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّمَا أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، أَوْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أُصِيبَ بِمُصِيبَةٍ فَلْيَتَعَزَّ بِمُصِيبَتِهِ بِي، عَنِ الْمُصِيبَةِ الَّتِي تُصِيبُهُ بِغَيْرِي، فَإِنَّ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِي لَنْ يُصَابَ بِمُصِيبَةٍ بَعْدِي أَشَدَّ عَلَيْهِ مِنْ مُصِيبَتِي >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۵۷۸) (صحیح)
(سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۱۱۰۶)
۱۵۹۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مرض الموت میں) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا،یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابوبکررضی اللہ عنہ کے پیچھے صلاۃ پڑھ رہے ہیں،آپ ﷺ نے ان کو اچھی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اور امید کی کہ اللہ تعالی اس عمل کو ان کے درمیان آپ کے انتقال کے بعد بھی باقی رکھے گا، اور فرمایا: ''اے لوگو! لوگوں میں سے یامومنوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کرکے صبرکرے،اس لئے کہ میری امت میں سے کسی کو میرے بعد ایسی مصیبت نہ ہوگی جو میری وفات کی مصیبت سے اس پر زیادہ سخت ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس لئے کہ مومن وہی ہے جس کو نبی کریم ﷺ کی محبت اولاد اور والدین اور سارے رشتہ داروں سے زیادہ ہو، پس جب وہ نبی کریمﷺ کی موت کو یاد کرے گا توہرطرح کے رشتہ داروں اوردوست واحباب کی موت اس کے سامنے بے حقیقت ہوگی۔
1600- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهَا قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < مَنْ أُصِيبَ بِمُصِيبَةٍ، فَذَكَرَ مُصِيبَتَهُ، فَأَحْدَثَ اسْتِرْجَاعًا، وَإِنْ تَقَادَمَ عَهْدُهَا، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَهُ يَوْمَ أُصِيبَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱۴، ومصباح الزجاجۃ: ۵۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۰۱) (ضعیف جدا) (سند میں ہشام بن زیاد متروک اور ان کی والدہ مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۴۵۵۱)
۱۶۰۰- حسین بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جسے کوئی مصیبت پیش آئی ہو، پھر وہ اسے یاد کرکے نئے سرے سے :
إنا لله وإنا إليه راجعون کہے، اگر چہ مصیبت کا زمانہ پرانا ہوگیا ہو،تو اللہ تعالی اس کے لئے اتنا ہی ثواب لکھے گا جتنا اس دن لکھا تھا جس دن اس کو یہ مصیبت پیش آئی تھی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مثلاً نبی کریم ﷺ کی وفات کی مصیبت یاد کرکے ہم اس وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہیں تو وہی ثواب ہم کو ملے گا جو صحابہ کو نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت ملاتھا ، بعض لوگوں نے کہاکہ حدیث خاص ہے اس مصیبت سے جو خود اسی شخص پر گزرچکی ہو۔ واللہ اعلم ۔