- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
3- بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ
۳-باب: زکاۃ ادا کیا ہوا مال کنز (خزانہ) نہیں ہے ۱ ؎
وضاحت ۱ ؎ : یعنی وہ کنز (خزانہ ) جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ اس کے مالک کو جہنم میں اس سے داغا جائے اور کہا جائے گا کہ یہ تیرا خزانہ ہے۔
1787- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ أَسْلَمَ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَلَحِقَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ لَهُ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ } قَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ كَنَزَهَا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، فَوَيْلٌ لَهُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طَهُورًا لِلأَمْوَالِ، ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ: مَا أُبَالِي لَوْ كَانَ لِي أُحُدٌ ذَهَبًا، أَعْلَمُ عَدَدَهُ وَأُزَكِّيهِ، وَأَعْمَلُ فِيهِ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۱، ومصباح الزجاجۃ: ۶۳۹)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۴ (۱۴۰۴ تعلیقاً)، التفسیر (۴۶۶۱تعلیقاً) (صحیح)
۱۷۸۷- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے غلام خا لد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے ایک اعرابی(دیہاتی) ملا، اور آیت کریمہ:{ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِِ}[سورة التوبة:34] (جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے ) کے متعلق ان سے پوچھنے لگا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا :جس نے اسے خزانہ بنا کر رکھا، اور اس کی زکا ۃ ادانہیں کی ،تو اس کے لیے ہلا کت ہے،یہ آیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے ،پھر جب زکا ۃ کا حکم اتراتو اللہ تعالی نے اسے مالوں کی پاکی کا ذریعہ بنادیا ،پھروہ دوسری طرف متوجہ ہو ئے اور بولے: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابرسونا ہوجس کی تعداد مجھے معلوم ہو ، اور اس کی زکاۃ ادا کرتا رہوں، اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کو استعمال کرتا رہوں، تو مجھے کوئی پر وا نہیں ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت مالدار آدمی تھے ، اس اعرابی (دیہاتی) نے ان سے کچھ مانگا ہوگا ، انہوں نے نہ دیا ہوگا تو یہ آیت ان کو شرمندہ کرنے کے لئے پڑھی ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر بیان کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب زکاۃ کا حکم نہیں اترا تھا، اورمطلق مال کا حاصل کرنا اور اس سے محفوظ رکھنامنع تھا ، اس کے بعد زکاۃ کا حکم اترا ، اب جس مال حلال میں سے زکاۃ دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے ، اگرچہ لاکھوں کروڑوں روپیہ ہو ، بلکہ مال حلال اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔اور انسان جو عبادتیں مالداری کی حالت میں کرسکتا ہے جیسے صدقہ وخیرات، اسلامی لشکرکی تیاری،اور تعلیم دین وغیرہ میں مددمفلسی اورغریبی میں ہونا ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب مال حلال عنایت فرمائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو خرچ کرے، آپ کھائے دوسروں کو کھلائے، صلہ رحمی کرے، مدرسے اور یتیم خانے، مسجدیں اور کنویں بنوادے، مسافروں اورمحتاجوں کی مددکرے ،اور جو مالدار اس طرح حلال مال کو اللہ کی رضا مندی میں صرف کرتا ہے اس کا درجہ بہت بڑا ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ہزار غلام آزاد کئے اور ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دیئے اور اس کے ساتھ وہ دنیا کی حکومت اور عہدے سے نفرت کرتے تھے۔ رضی اللہ عنہ۔
1788- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ، عَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲ (۶۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۹۱) (ضعیف)
(ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۲۲۱۸)
۱۷۸۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا:'' جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی، تو تم نے وہ حق ادا کر دیا جو تم پرتھا ''۔
1789- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنْهَا سَمِعَتْهُ تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < لَيْسَ فِي الْمَالِ حَقٌّ سِوَى الزَّكَاةِ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲۷ (۶۵۹،۶۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۶)، وقد أخرجہ: دي/الزکاۃ ۱۳ (۱۶۷۷) (ضعیف منکر)
( سند میں درج ابو حمزہ میمون ا الٔاعورضعیف راوی ہے،اور شریک القاضی بھی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۴۳۸۳)۔
۱۷۸۹- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا :'' مال میں زکاۃ کے علاوہ کو ئی حق نہیں ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام ترمذی نے فاطمہ بنت قیس سے اس کے خلاف روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بے شک مال میں اور حق بھی ہیں ، سوائے زکاۃ کے، تو یہ حدیث مضطرب ہوئی ۔