50- بَاب حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ
۵۰ -باب: عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان
1977- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ يَحْيَى بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَمِّهِ عُمَارَةَ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۱) (صحیح)
( سند میں عمارہ بن ثوبان مستور ہے، لیکن دوسری سند سے یہ صحیح ہے)
۱۹۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو،اور میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عمدہ سلوک اور اخلاق کے ساتھ اگرچہ تمام لوگوں سے معاشرت عمدہ طور سے لازم ہے، تاکہ سب خاص وعام اپنے سے خوش رہیں، اور مرتے وقت تعریف کریں، اور دعا دیں لیکن سب لوگوں سے زیادہ حق اپنی بیوی اور بال بچوں کا ہے، اس کے بعد دوسرے عزیزوں اور ناتے والوں کا، اس کے بعد دوستوں کا اس کے بعد اور لوگوں کا۔
1978- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۲) (صحیح)
(سند میں اعمش مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)
۱۹۷۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہوں '' ۔
1979- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَابَقَنِي النَّبِيُّ ﷺ فَسَبَقْتُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۲۷)، د/الجہاد ۶۸ (۲۵۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۲) (صحیح)
۱۹۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تومیں آپ ﷺسے آگے نکل گئی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دوسری روایت میں ہے کہ جب میرا بدن بھاری ہوگیا تو آپ ﷺ دوڑ میں مجھ سے آگے نکل گئے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''عائشہ ! یہ پہلی دوڑ کا بدلہ ہے '' اس حدیث کے یہاں لانے کا مقصد یہ ہے کہ شوہر کی حسن معاشرت اپنی بیویوں کے ساتھ معلوم ہو باوجود یکہ نبی اکرم ﷺ کا سن مبارک زیادہ تھا، اورعائشہ رضی اللہ عنہا کم سن تھیں، لیکن آپ ﷺ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ ایسا کرتے اوردوڑنا مباح ہے کچھ برا کھیل نہیں ہے۔
1980- حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ، وَهُوَ عَرُوسٌ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، جِئْنَ نِسَاءُ الأَنْصَارِ فَأَخْبَرْنَ عَنْهَا، قَالَتْ: فَتَنَكَّرْتُ وَتَنَقَّبْتُ فَذَهَبْتُ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى عَيْنِي فَعَرَفَنِي، قَالَتْ: فَالْتَفَتَ فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ، فَأَدْرَكَنِي فَاحْتَضَنَنِي، فَقَالَ: < كَيْفَ رَأَيْتِ؟ > قَالَتْ: قُلْتُ: أَرْسِلْ، يَهُودِيَّةٌ وَسْطَ يَهُودِيَّاتٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۳) (ضعیف)
(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے)
۱۹۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر سے واپس ) مدینہ آئے ،اور صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے آپ دولہا ہوئے، تو انصار کی عورتیں آئیں، اور انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا حال بیان کیا ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنی صورت بدلی، منھ پر نقاب ڈالا، اور صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھنے چلی، رسول اللہ ﷺ نے میری آنکھ دیکھ کر مجھے پہچان لیا،آپﷺ دوسری طرف متوجہ ہوئے تو میں اور تیزی سے چلی ،لیکن آپ نے مجھ کو پکڑکر گود میں اٹھا لیا، اور پوچھا: ''تو نے کیسا دیکھا '' ؟ میں نے کہا : بس چھوڑ دیجیے ، یہودی عورتوں میں سے ایک یہودی عورت ہے ۔
1981- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ، وَهِيَ غَضْبَى، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ، فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <دُونَكِ فَانْتَصِرِي > فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا، مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۳) (صحیح)
۱۹۸۱- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا میرے گھر میں بغیر اجازت کے آگئیں، وہ غصہ میں تھیں،کہنے لگیں:اللہ کے رسول !کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے واکر دے؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئیں،میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: '' تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا'' تو میں ان کی طرف پلٹی ،اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرمﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی حسین وجمیل اور صاحب حسب و نسب خاتون تھیں ،اور رسول اکرم ﷺ کی بیویوں میں انہی کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی برابری کا دعوی تھا، وہ کہتی تھیں: میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، وہ غصہ میں اس وجہ سے تھیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آپ ﷺکی توجہ زیادہ تھی ، اور وہ آپ سے شکایت کر رہی تھیں ،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو انہوں نے حقارتا ''بُنَيَّةُ'' (جو تصغیر ہے بنت کی) کہا یعنی چھوٹی لڑکی، چھوکری ، آپ تو عائشہ کے شیدائی اور ان پر فریفتہ ہیں، دوسری بیویوں کی آپ کو فکر ہی نہیں ہے، نہ کسی کا آپ کو خیال ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی قمیص الٹی اور بانہہ کھولی ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب دینا اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کا ہار جانا جو ناحق شکایت کرتی تھیں، اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ کھل اٹھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا : '' تم نہیں جانتی ہو یہ ابو بکر کی بیٹی ہے '' ۔سوکنوں کی یہ وقتی غیرت والی لڑائی عائلی زندگی کا ایک خوش کن لازمہ ہے ، اس میں شوہر کی عقلمندی اور اس کے حلم وصبرکا امتحان بھی ہے۔
1982- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِي، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ وَأَنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَكَانَ يُسَرِّبُ إِلَيَّ صَوَاحِبَاتِي يُلاعِبْنَنِي۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۲۵)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۸۱ (۶۱۳۰)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۰)، د/الأدب ۶۲ (۴۹۳۱) (صحیح)
(سند میں عمربن حبیب ضعیف راوی ہے ، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
۱۹۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گڑیاں کپڑے کی مورتیں جو بچیاں بناتی ہیں ان کی شادی کرتی ہیں یہ بچوں کا کھیل ہے، اور ان میں پوری مورت نہیں ہوتی اس لئے تصویر کا حکم نہیں دیا گیا، اور لڑکیوں کو اس کا کھیل جائز رکھا گیا، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم سن تھیں، یہ آپ ﷺ کا کمالِ اخلاق تھا کہ بچوں پر شفقت کرتے اور کھیل کود سے ان کو منع نہ کرتے، نہ زیادہ غصہ ہوتے، اس باب کی تمام حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتے تھے ۔