• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب لا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلا الْمَصَّتَانِ
۳۵ -باب: ایک بار یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی​

1940- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَلا الرَّضْعَتَانِ أَوِ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ >۔
* تخريج: م/الرضاع ۵ (۱۴۵۱)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۳۹،۳۴۰)، دي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۸) (صحیح)

۱۹۴۰- ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک یا دوبار دودھ پینے یا چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر چوستاہے پھر بغیر کسی عارضہ کے اپنی مرضی وخوشی سے چھاتی کوچھوڑ دیتاہے تو اسے رَضْعَۃٌ کہتے ہیں، اور مصّۃ : مصّ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چوسنے کے ہیں، مصۃ اور رَضْعَۃٌ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔
رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے، جمہور کا قول ہے کہ یہ حکم تھوڑا دودھ پیا ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ثابت ہوجاتاہے، داود ظاہری اور ایک قول کے مطابق احمد ، اسحاق راہویہ ، ابوعبید وغیرہم نے اس حدیث کے مفہوم مخالف (یعنی دو بار پینے یا چوسنے سے حرمت نہیں ثابت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین بار ایسا کرنے سے حرمت ثابت ہوجائیگی )سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضاعت کا حکم تین مرتبہ پینے سے ثابت ہوتا ہے دو دفعہ پینے سے نہیں ، اور امام شافعی کہتے ہیں کہ پانچ مرتبہ پینے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ان کی دلیل ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو آگے آرہی ہے ، جمہور کی دلیل آیت کریمہ : {امهاتكم اللآتى ارضعنكم}ہے ۔​

1941- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ >۔
* تخريج: م/الرضاع ۵ (۱۴۵۰)، د/النکاح ۱۱ (۲۰۶۳)، ت/الرضاع ۳ (۱۱۵۰)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۱، ۹۶، ۲۱۶، ۲۴۷)، دي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۷) (صحیح)

۱۹۴۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''ایک یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی '' ۔​

1942- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ بْنِ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ سَقَطَ: لا يُحَرِّمُ إِلا عَشْرُ رَضَعَاتٍ أَوْ خَمْسٌ مَعْلُومَاتٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۱۱)، وقد أخرجہ: م/الرضاع ۶ (۱۴۵۲)، ولفظہ أصح، د/النکاح ۱۱ (۲۰۶۲)، ت/الرضاع ۳ (۱۱۵۰)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۰۹)، ط/الرضاع ۳ (۱۷)، حم (۶/۲۶۹)، دي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۹) (صحیح)

۱۹۴۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پہلے قرآن میں یہ آیت تھی ، پھر وہ ساقط ومنسوخ ہوگئی، وہ آیت یہ ہے '' لا يُحَرِّمُ إِلا عَشْرُ رَضَعَاتٍ أَوْ خَمْسٌ مَعْلُومَاتٌ'' دس یا پانچ مقرر رضاعتوں کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ قرآن مجید میں یہ حکم ناز ل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پینا حتی کہ اس کے پینے کا یقین ہوجائے ،نکاح کو حرام قرار دیتا ہے ، پھر پانچ بار دودھ پینے کے حکم سے یہ حکم منسوخ کردیا گیا، اور جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو خمس معلومات (یعنی پانچ بار دودھ پینے ) والی آیت قرآن میں پڑھی جا رہی تھی، امام نووی کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ پانچ کی تعداد کا نسخ اتنی تاخیر سے ہوا کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کا واقعہ پیش آگیا اور بعض لوگ پھر بھی ان پانچ کی تعداد کو قرآن سمجھ کر اس کی تلاوت کرتے رہے کیونکہ آپ کی وفات کے بالکل ساتھ ہی ان کا منسوخ ہونا نازل ہوا تھا۔
مزید فرمایا کہ نسخ کی تین قسمیں ہیں ،ایک جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو جیسے دس مرتبہ دودھ پینے والی آیت، دوسری جس کی تلاوت تو منسوخ ہومگراس کا حکم باقی ہو جیسے پانچ مرتبہ دودھ پینے کی آیت، اور آیت رجم ،اور تیسری یہ کہ جس کا حکم تو منسوخ ہو مگر اس کی تلاوت باقی ہو جیسے آیت وصیت وغیرہ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب رِضَاعِ الْكَبِيرِ
۳۶ -باب: بڑے آدمی کے دودھ پینے سے حرمت کے حکم کا بیان​

1943- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ الْكَرَاهِيَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < أَرْضِعِيهِ > قَالَتْ: كَيْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَالَ: < قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ > فَفَعَلَتْ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ شَيْئًا أَكْرَهُهُ بَعْدُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، ن/النکاح ۵۳ (۳۳۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۸۴)، وقد أخرجہ: د/النکاح ۱۰ (۲۰۶۱)، ط/الرضاع ۲ (۱۲ )، حم (۶/۲۵۵،۲۷۱)، دي/النکاح ۵۲ (۲۳۰۳) (صحیح)

۱۹۴۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! سالم کے ہمارے پاس آنے جانے کی وجہ سے میں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر ناگواری محسوس کرتی ہوں، یہ سن کر نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' تم سالم کو دودھ پلادو ''، انہوں نے کہا: میں انہیں دودھ کیسے پلاؤں گی وہ بڑی عمر کے ہیں؟ ! رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: '' مجھے معلوم ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں، '' آخر سہلہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا، پھر نبی اکرم ﷺ کے پا س آئیں اور کہا: میں نے ابوحذیفہ کے چہرے پر اس کے بعد کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی جسے میں ناپسند کروں ، اور ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سہلہ بنت سہیل بن عمروالقرشیہ بنوعامر بن لویٔ میں سے تھیں ،قدیم الاسلام تھیں ،سالم سے مراد سالم بن معقل رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے، ان کو ایک انصاری خاتون نے خرید لیا تھا، جن سے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا تھا، سالم انھیں کے ساتھ آئے تھے، ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنا متبنی (لے پالک) بنالیا تھا، سالم رضی اللہ عنہ معرکہ بدرمیں حاضرتھے، نبی اکرمﷺ نے جن چارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھاسالم مولیٰ ابوحذیفہ ان چاروں میں سے ایک تھے ۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بڑی عمرکے آدمی کے دودھ پینے سے بھی حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، یہ مذہب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، عروہ بن زبیر،عطاء بن ابی رباح ، لیث بن سعد، ابن علیہ ، داود ظاہری اور ابن حزم کا ہے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ اورشوکانی کی بھی یہی رائے ہے ، لیکن یہ حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ''إنما الرضاعة من المجاعه'' اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث '' لا يحرم من الرضاع إلا ما فتق الأمعاء وكان قبل الفطام''اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ''لارضاع إلا فى الحولين''کے معارض ہے، جمہورنے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سالم کا واقعہ انھیں کے ساتھ خاص تھا ان کے علاوہ دوسروں کی طرف یہ حکم متعدی نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رضاعت کے معاملہ میں بچپن کا اعتبارکیا جائے گا الایہ کہ جب کوئی حاجت وضرورت اس کی داعی ہو مثلاً عورت کے پاس اس کا آنا جا نا ناگزیر ہو، اور عورت سے اس کا پردہ کرنا بھی دشوار ہو جیسا کہ سالم کا ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل کے ساتھ مسئلہ تھا ۔
یعنی بڑے آدمی کو دودھ پلادینا اس لئے کہ اس سے پردے کی ضرورت نہ رہے ، جائز ہے۔ اور اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی کو دودھ پلادینے سے نظر جائز ہوجائے گی ، البتہ حرمت ثابت نہ ہوگی ، حرمت جب ہی ہوگی کہ دو برس کے اندر دودھ پلائے ۔
جمہور علماء اور حنفیہ اس کے خلاف ہیں اور ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں یہ ہے کہ دو برس کے بعد رضاع نہیں ہے ۔
اور یہ سابقہ مذہب کے خلاف نہیں ہے ، اس لئے کہ مذکورہ احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوتی مگر جو دو برس کے اندر ہو، اور ہمارا بھی یہی قول ہے اور کبیر (بڑے آدمی ) کو دودھ پلادینے سے وہ حرام نہیں ہوتا ، لیکن اس کا آنا جانا گھر میں جائز ہوجاتا ہے اور اس سے پردے کی ضرورت نہیں رہتی، جب ایسی حاجت آپڑے تو یہ حکم نہایت مناسب ہے جیسے ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیم اور شوکانی نے بھی اسی کو راجح قراردیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ رضاعت کا بھی حکم قرآن ہی میں اترا تھا جیسے آگے کی حدیث سے معلوم ہوگا ، لیکن اس کی تلاوت جاتی رہی، تیسرے یہ کہ سالم کی حدیث مشہور ہے، اس کو کئی صحابہ نے روایت کیا ہے ، پس قرآن پر زیادتی حدیث کی رو سے جائز ہوگی ۔ حنفیہ اہل حدیث پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں ، حالانکہ اہل حدیث کے پاس اس کے ثبوت کے لئے آیت اور احادیث اور اقوال صحابہ موجود ہیں ، لیکن ان کے امام ابو حنیفہ نے جو رضاعت کی مدت ڈھائی برس تک رکھی ہے اور قرآن کے خلاف چھ مہینے اپنی طرف سے بڑھادیے ہیں ، اس کی دلیل نہ آیت سے ہے نہ حدیث سے ، نہ اقوال صحابہ سے ۔ وہ تو خود سب سے زیادہ قابل اعتراض ہیں۔(ملاحظہ ہو: فتاوی ابن تیمیہ، نیل الأوطار، ۷/۱۲۰)​

1944- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، و عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۲)، د/النکاح ۱۱ (۲۰۶۲)، ت/الرضاع ۳ (۱۱۵۰)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹۷)، وقد أخرجہ: ط/الرضاع ۳ (۱۷)، حم (۶/۲۶۹)، دي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۹) (حسن)

۱۹۴۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری، اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پہ لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے تھیں، جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی، اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ یہ حکم بھی قرآن مجید میں اترا تھا ، کیونکہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی شہادت اس باب میں کافی ہے، اور وہ دین کی بہت بڑی عالمہ ،اور اعلی درجہ کی فقیہہ تھیں ، قوت حافظہ اورعقل کی پختگی میں ممتاز تھیں ، اب سالم کی حدیث میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بڑے آدمی کے لئے یہ کیسے جائز رکھا کہ وہ اجنبی عورت کی چھاتی میں منہ لگائے، ہم کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی تصریح کہاں ہے، اور جائز ہے کہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے دودھ نچوڑ کر ان کو پلادیا ہو ، اگر چھاتی سے بھی پلایا ہو تو کوئی حرج نہیں جب سالم ان کے بچپن کے پالے ہوئے اور بیٹے کی طرح تھے، اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد سے ایسا کیا تھا ، اور اہل ایمان کا یہ کام نہیں کہ احادیث میں ایسے ہی واہی احتمالات نکالیں اور ان کو رد کردیں، نبی کریم ﷺ کی ہر حدیث ہمارے سرآنکھوں پر ہے،گو ہماری رسم ورواج بلکہ ہمارے باپ دادا اور تمام خاندان ، تمام ملک کے خلاف ہو، ظاہر یہی ہے کہ ابوحذیفہ کی بیوی نے سالم کو چھاتی سے دودھ پلایا کیونکہ پہلے انہوں نے عذر کیا تھا کہ میں اس کو دودھ کیوں کر پلاؤں وہ تو بڑا ہے، اور ممکن ہے کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہو کہ عورت کا دودھ بڑے آدمی کے لئے حرام ہے، اور حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا دودھ حلال ہے، اور بڑے آدمی کو بھی اس کاپینا جائز اور درست ہے خصوصاً جب علاج کے لئے ضرورت پڑے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب لا رَضَاعَ بَعْدَ فِصَالٍ
۳۷ -باب: دودھ چھٹنے کے بعد پھر رضاعت ثابت نہیں ہے​

1945- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ، فَقَالَ: < مَنْ هَذَا؟ > قَالَتْ: هَذَا أَخِي، قَالَ: < انْظُرُوا ۱؎ مَنْ تُدْخِلْنَ عَلَيْكُنَّ، فَإِنَّ الرَّضَاعَةَ مِنَ الْمَجَاعَةِ >۔
* تخريج: خ/الشہادات ۷ (۲۶۴۷)، الخمس ۴ (۳۱۰۵)، النکاح ۲۲ (۵۱۰۲)، م/الرضاع ۸ (۱۴۵۵)، د/النکاح ۹ (۲۰۵۸)، ن/النکاح ۵۱ (۲۳۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۴، ۱۳۸، ۱۷۴، ۲۴۱)، دي/النکاح ۵۲ (۲۳۰۲) (صحیح)

۱۹۴۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اور اس وقت ایک شخص ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپﷺ نے پوچھا '' یہ کون ہیں ''؟ انہوں نے کہا: یہ میرے بھائی ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ''دیکھوجن لوگوں کوتم اپنے پاس آنے دیتی ہوانہیں اچھی طرح دیکھ لو(کہ ان سے واقعی تمہارا رضاعی رشتہ ہے یانہیں) حرمت تو اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہوجس وقت دودھ ہی غذا ہوتا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطبوعہ نسخوں میں اسی طرح ہے ، مگر صحیح '' انظرن''ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی دو برس کے بعد پھر رضاعت نہیں ہے ، اس باب کی حدیثیں سابقہ باب کے خلاف ، اور جمہور علماء کے موافق ہیں ، لیکن اہل حدیث وہی جواب دیتے ہیں جو اوپر گزرا کہ یہاں رضاعت سے مراد وہ ہے جس سے نکاح کی حرمت ہو ، اور وہ بیشک دو برس کے بعد نہیں ہے ۔​

1946- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا رَضَاعَ إِلا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۱) (صحیح)

(سندمیں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے،نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۲۱۵۰)
۱۹۴۶- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''رضاعت معتبر نہیں ہے مگر وہ جو آنتوں کو پھاڑ دے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو کم سنی میں دوبرس کے اندرہو۔​

1947- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، وَعُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، عَنْ أُمِّهِ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ كُلَّهُنَّ خَالَفْنَ عَائِشَةَ وَأَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ أَحَدٌ بِمِثْلِ رَضَاعَةِ سَالِمٍ، مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَقُلْنَ: وَمَا يُدْرِينَا؟ لَعَلَّ ذَلِكَ كَانَتْ رُخْصَةً لِسَالِمٍ وَحْدَهُ۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۴)، ن/النکاح ۵۳ (۳۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۷۴) (صحیح)

۱۹۴۷- زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ساری بیویوں نے اس مسئلہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مخالفت کی، اور انہوں نے انکار کیا کہ سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ جیسی رضاعت کوئی کرکے ان کے پاس آئے جائے، اور انہوں نے کہا: ہمیں کیا معلوم شاید یہ صرف سالم کے لیے رخصت ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ حکم خاص ہو سالم کے لیے، لیکن اس خصوصیت پر دلیل کیا ہے ، نبی کریم ﷺ کا ہر ایک حکم عام ہے جب تک اس کی تخصیص ثابت نہ ہو ، ورنہ ہر حکم میں ایسے احتمال ہوسکتے ہیں ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب لَبَنِ الْفَحْلِ
۳۸ -باب: دودھ مرد کی طرف سے ہے​

1948- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَتَانِي عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَفْلَحُ بْنُ أَبِي قُعَيْسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، بَعْدَ مَا ضُرِبَ الْحِجَابُ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ، فَقَالَ: < إِنَّهُ عَمُّكِ فَأْذَنِي لَهُ > فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ؟ قَالَ: < تَرِبَتْ يَدَاكِ، أَوْ يَمِينُكِ >۔
* تخريج: م/الرضاع ۱(۱۴۴۴)، ن/النکاح ۵۲ (۳۳۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۴۳، ۱۶۹۲۶)، وقد أخرجہ: خ/الشہادات ۷ (۲۶۴۴)، تفسیر سورۃ السجدۃ ۹ (۴۷۹۶)، النکاح ۲۳ (۵۱۰۳)، ط/الرضاع ۱ (۳)، حم (۶/۱۷۸) (صحیح)

۱۹۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا افلح بن ابی قیس میرے پاس آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حجاب (پردے) کا حکم اترچکا تھا،میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کردیا یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے، اور فرمایا: ''یہ تمہارے چچا ہیں ان کو اجازت دو''، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں! ۱؎ آپﷺ نے فرمایا: ''تمہارے دونوں ہاتھ یا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہر چند بچہ عورت کا دودھ پیتا ہے ،مگر اس کا شوہر بچے کا باپ ہوجاتا ہے ، کیونکہ عورت کا دودھ اسی مرد کی وجہ سے ہوتا ہے، اب اس مرد کا بھائی بچہ کا چچا ہوگا، اور نسبی چچا کی طرح وہ بھی محرم ہوگا ۔
وضاحت ۲؎ : جب کوئی شخص نادانی کی بات کہتاہے تویہ کلمہ اس موقعے پر اُس پر افسوس کے اظہارکے لیے کہا جاتاہے ۔​

1949- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ عَمُّكِ > فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ: < إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ >۔
* تخريج: م/النکاح ۱ (۱۴۴۵)، ت/الرضاع ۲ (۱۱۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۸۲) (صحیح)

۱۹۴۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے ،تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کردیا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو''، میں نے کہا :مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں ! ،آپ ﷺنے فرمایا: '' وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو''۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أُخْتَانِ
۳۹ -باب: آدمی اگر اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دوسگی بہنیں ہوں تو کیا کرے؟​

1950- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ أَبِي خِرَاشٍ الرُّعَيْنِيِّ، عَنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَعِنْدِي أُخْتَانِ تَزَوَّجْتُهُمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَال: < إِذَا رَجَعْتَ فَطَلِّقْ إِحْدَاهُمَا >۔
* تخريج: د/الطلاق ۲۵ (۲۲۴۳)، ت/النکاح ۳۳ (۱۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۲) (حسن)
(اسحاق بن عبد اللہ ضعیف و متروک الحدیث ہے، لیکن آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
۱۹۵۰- (فیروز) دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں جن سے میں نے زمانہ جاہلیت میں شادی کی تھی، تو آپ ﷺنے فرمایا: '' جب تم گھر واپس جاؤ تو ان میں سے ایک کو طلاق دے دو'' ۔​

1951- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ الضَّحَّاكَ بْنَ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِي: < طَلِّقْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)

(سند میں ابن لہیعہ ہیں، اور ابن وہب کی ان سے روایت صحیح ہے، نیزملاحظہ ہو : الإرواء : ۶ /۳۳۴- ۳۳۵ و صحیح أبی داو د : ۱۹۴۰)
۱۹۵۱- فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میرے نکاح میں دو سگی بہنیں ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: '' ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور علماء کا یہی قول ہے ، اس لئے کہ جاہلیت میں ان دونوں کا نکاح صحیح ہوگیا تھا۔ اب جب اسلام لایا تو گویا ایسا ہوا کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کیا ،نیز کفر کے نکاح قائم رہیں گے اگر شرع کے خلاف نہ ہوں ، گو ان نکاحوں میں ہماری شرع کے موافق شرطیں نہ ہوں جیسے گواہ یا ولی وغیرہ ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِ نِسْوَةٍ
۴۰ -باب: آدمی اگر اسلام لائے اور اس کے نکاح میں چار سے زائد عورتیں ہوں تو کیا کرے؟​

1952- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بِنْتِ الشَّمَرْدَلِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانِ نِسْوَةٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: < اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا >۔
* تخريج: د/الطلاق ۲۵ (۲۲۴۱، ۲۲۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۹) (حسن صحیح)

۱۹۵۲- قیس بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کیا، اور میرے پاس آٹھ عورتیں تھیں، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: '' ان میں سے چار کا انتخاب کرلو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ زمانہء کفر کا نکاح معتبرہوگا اگرمیاں بیوی دونوں اسلام قبول کرلیں تو ان کا سابقہ نکاح برقرار رہے گا، تجدیدنکاح کی ضرورت نہیں ہوگی، یہی امام مالک امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے ،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جدائی کے وقت ترتیب نکاح غیر موثر ہے، مردکے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کو روک رکھے بلکہ اسے اختیارہے جسے چاہے روک لے اور جسے چاہے جداکر دے، یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیثیں حنفیہ کے خلاف حجت ہیں۔​

1953- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَسْلَمَ غَيْلانُ بْنُ سَلَمَةَ وَتَحْتَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: < خُذْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا >۔
* تخريج: ت/النکاح ۳۲ (۱۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۹)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۲۹ (۷۶)، حم (۲/۱۳،۱۴، ۴۴، ۱۸۳) (صحیح)

۱۹۵۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ر ضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ان میں سے چار کورکھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چارسے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے ،لیکن اس حکم سے نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نوبیویاں تھیں،یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی، اور اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں کارفرماتھیں، آپ ﷺکے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں ،غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب الشَّرْطِ فِي النِّكَاحِ
۴۱ -باب: نکاح میں شرط کا بیان​

1954- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ،عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ أَحَقَّ الشَّرْطِ أَنْ يُوفَى بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ >۔
* تخريج:خ/الشروط ۶ (۲۷۲۱)، النکاح ۵۳ (۵۱۵۱)، م/النکاح ۸ (۱۴۱۸)، د/النکاح ۴۰ (۲۱۳۹)، ت/النکاح ۲۲ (۱۱۲۷)، ن/النکاح ۴۲ (۳۲۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۴، ۱۵۰،۱۵۲)، دي/النکاح ۲۱ (۲۲۴۹) (صحیح)

۱۹۵۴- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''سب سے زیادہ پوری کی جانے کی مستحق شرط وہ ہے جس کے ذریعے تم نے شرم گاہوں کو حلال کیا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شرط سے مراد وہ شرط ہے جس پر عورت سے نکاح کیا ،اس حدیث کی روشنی میں مرد نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کرے ان کو پورا کرنا واجب ہے ، گو وہ شرطیں کسی قسم کی ہوں، اور بعضوں نے کہا : مراد وہ شرطیں ہیں جو مہر کے متعلق ہوں ، یا نکاح سے ، اور جو دوسری شرطیں ہوں جیسے یہ کہ عورت کو اس کے گھر سے نہ نکالے گا ، یا اس کے ملک سے نہ لے جائے گا ، یا اس کے اوپر دوسرا نکاح نہ کرے گا، تو ایسی شرطوں کا پورا کرنا شوہر پر واجب نہیں ہے ، لیکن اگر اس نے ان شرطوں پر قسم کھائی ہو، اور ان کے خلاف کرے ، تو قسم کا کفارہ لازم ہوگا ۔​

1955- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا كَانَ مِنْ صَدَاقٍ أَوْ حِبَائٍ أَوْ هِبَةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لَهَا، وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ أَوْ حُبِيَ، وَأَحَقُّ مَا يُكْرَمُ الرَّجُلُ بِهِ، ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ >۔
* تخريج: د/النکاح ۳۶ (۲۱۲۹)، ن/النکاح ۶۷ (۳۳۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۲) (ضعیف)
(سند میں ابن جریج مدلس ہیں ،اور روایت عنعنہ سے ہے)
۱۹۵۵- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مہر یا عطیہ یا ہبہ میں سے جو نکاح ہونے سے پہلے ہو وہ عورت کا حق ہے، اور جو نکاح کے بعد ہو تو وہ اس کا حق ہے، جس کو دیا جائے یا عطا کیا جائے ، اور مرد سب سے زیادہ جس چیز کی وجہ سے اپنے اعزاز واکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے'' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب الرَّجُلِ يُعْتِقُ أَمَتَهُ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا
۴۲ -باب: آدمی لونڈی کو آزاد کرے پھر اس سے شادی کرلے​

1956- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ. وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ >، قَالَ صَالِحٌ: قَالَ الشَّعْبِيُّ: قَدْ أَعْطَيْتُكَهَا بِغَيْرِ شَيْئٍ إِنْ كَانَ الرَّاكِبُ لَيَرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ۔
* تخريج: خ/العلم ۳۱ (۹۷)، العتق ۱۴ (۲۵۴۴)، ۱۶ (۲۵۴۷)، الجہاد ۱۵۴ (۳۰۱۱)، الأنبیاء ۴۷ (۳۴۴۶)، النکاح ۱۳ (۵۰۸۳)، م/الإیمان ۷۰ (۱۵۴)، ت/النکاح ۲۴ (۱۱۱۶)، ن/النکاح ۶۵ (۳۳۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۰۷)، وقد أخرجہ: د/النکاح ۶ (۲۰۵۳)، حم(۴/۳۹۵، ۳۹۸، ۴۱۴، ۴۱۵)، دي/النکاح۴۶ (۲۲۹۰) (صحیح)

۱۹۵۶- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھرمحمد ﷺ پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجرہے'' ۱؎ ۔
شعبی نے صالح سے کہا: ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنادی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہوکر جایا کرتا تھا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک اجر اس کے آزاد کرنے کا ، اور دوسرا اجر اس کی تعلیم یا نکاح کا ، اب اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اسی آزادی کو مہر مقرر کرکے اس سے نکاح کرلے تو جائز ہے ۔
وضاحت ۲؎ : امام شعبی (عامربن شراحیل) کوفہ میں تھے ، ان کے عہد میں کوفہ سے مدینہ تک دو ماہ کا سفر تھا، مطلب یہ ہے کہ ایک ایک حدیث سننے کے لئے محدثین کرام دو دو مہینے کا سفر کرتے تھے ، سبحان اللہ ، اگلے لوگوں کو اللہ بخشے اگر وہ ایسی محنتیں نہ کرتے تو ہم تک دین کیوں کر پہنچتا۔​

1957- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ وَعَبْدُالْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَعْدُ، فَتَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا، قَالَ حَمَّادٌ: فَقَالَ عَبْدُالْعَزِيزِ لِثَابِتٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْهَرَهَا؟ قَالَ : أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا۔
* تخريج: خ/الخوف ۶ (۹۴۷)، النکاح ۱۴ ( ۵۰۸۶)، م/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، الجہاد ۴۳ (۱۳۶۵)، د/الخراج ۲۱ (۲۹۹۶)، ن/النکاح ۷۹ (۳۳۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱، ۱۰۱۷، ۱۰۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۹۹، ۱۳۸، ۱۶۵، ۱۷۰، ۱۸۱)، دي/النکاح ۴۵ (۲۲۸۸، ۲۲۸۹) (صحیح)

۱۹۵۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ،پھر نبی اکرمﷺ کی ہوگئیں، تو آپ نے ان سے شادی کی، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر بنایا ۱؎ ۔
حماد کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: اے ابومحمد!کیا آپ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے ان (صفیہ) کا مہر کیامقرر کیا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار د یا تھا۔
وضاحت ۱؎ : صفیہ رضی اللہ عنہا ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ، اور یہودیوں کے بادشاہ حی بن اخطب کی بیٹی تھیں ، اس لئے مسلمانوں کے سردار کے پاس ان کا رہنا مناسب تھا ۔​

1958- حَدَّثَنَا حُبَيْشُ بْنُ مُبَشِّرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ، وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۰۵، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۰) (صحیح)

(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۱۹۵۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ا م المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا ،اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہرمقرر کرکے ان سے شادی کرلی ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب تَزْوِيجِ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ
۴۳-باب: غلام کا نکاح مالک کی اجازت کے بغیر نا جائز ہے​

1959- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ كَانَ عَاهِرًا >۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۳)، وقد أخرجہ: د/النکاح ۱۷ (۲۰۷۸)، ت/النکاح ۲۰ (۱۱۱۱)، حم (۳/۳۰۱، ۳۷۷، ۳۸۳)، دي/النکاح ۴۰ (۲۲۷۹) (حسن)

۱۹۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو وہ زانی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نکاح باطل ہے ، اسی وجہ سے اس حدیث میں اسے زانی کہا گیا ہے ۔​

1960- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَصَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوغَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَنْدَلٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَهُوَ زَانٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۰۸، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۴) (حسن)

(سند میں مندل ضعیف راوی ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
۱۹۶۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس غلام نے اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، تو وہ زانی ہے ''۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب النَّهْيِ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ
۴۴ -باب: نکاحِ متعہ منع ہے​

1961- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ وَالْحَسَنِ، ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِمَا،عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الإِنْسِيَّةِ۔
* تخريج:خ/المغازي ۳۸ (۴۲۱۶)، النکاح ۳۱ (۵۱۱۵)، الذبائح ۲۸ (۵۵۲۳)، الحیل ۴ (۶۹۶۱)، م/النکاح ۳ (۱۴۰۷)، الصید ۵ (۱۴۰۷)، ت/النکاح ۲۸ (۱۱۲۱)، الأطعمۃ ۶ (۱۷۹۴)، ن/النکاح ۷۱ (۳۳۶۷ )، الصید ۳۱ (۴۳۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۳)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۱۸ (۴۱)، حم (۱/۷۹، ۱۰۳، ۱۴۲)، دي/النکاح ۱۶ (۲۲۴۳) (صحیح)

۱۹۶۱- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبرکے دن عورتوں کے ساتھ متعہ ۱؎ کرنے سے، اور پالتوگدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمادیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : متعہ: کسی عورت سے ایک متعین مدت تک کے لیے نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں ،جب مقررہ مدّت پوری ہوجاتی ہے تو ان کے درمیان خودبخودجدائی ہوجاتی ہے، متعہ دو مرتبہ حرام ہوااور دو ہی مرتبہ مباح وجائز ہوا، چنانچہ یہ غزوئہ خیبرسے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوئہ خیبرکے موقع پرحرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر مباح کیا گیا اور عام اوطاس بھی اسی کو کہتے ہیں اس کے بعد یہ ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام کردیا گیاجیساکہ امام نووی نے بیان فرمایاہے۔
لیکن علامہ ابن القیم کی رائے یہ ہے کہ متعہ غزوئہ خیبرکے موقع پر حرام نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حرمت فتح مکہ کے سال ہوئی، اوریہی رائے صحیح ہے، اس سے پہلے مباح وجائز تھا، اور علی رضی اللہ عنہ نے متعہ کی حرمت اور گھریلوگدھے کی حرمت کوجوایک ساتھ جمع کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ان دونوں کو مباح وجائز سمجھتے تھے تو علی نے نبی اکرمﷺسے ان دونوں کی تحریم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تردیدمیں بیان کی ہے ، اور پالتوگدھے کی حرمت غزوئہ خیبرمیں ہوئی تھی، اور اس کی تحریم کے لیے غزو ئہ خیبر کے دن کو بطورظرف ذکرکیا ہے، اورتحریم متعہ کو مطلق بیان کیاہے،صحیح سندسے منقول ہے کہ رسول اللہﷺنے خیبر کے دن گھریلو گدھے کو حرام قراردیا، نیز عورتوں سے متعہ کوبھی حرام کیا،اورایک روایت میں''حرم متعة النساء وحرم لحوم الحمر الأهلية'' کے الفاظ بھی ہیں جس سے بعض راویوں نے یہ سمجھا کہ ان دونوں کوخیبرکے روزہی حرام کیا گیاتھا، تو انھوں نے دونوں کو خیبرکے روزہی سے مقیدکردیا، اور بعض راویوں نے ایک کی تحریم پر اقتصارکیا اور وہ ہے گھریلو گدھے کی تحریم ، یہیں سے وہم ہوا کہ دونوں کی تحریم غزوۂ خیبر کے موقع پر ہوئی، رہا خیبر کا قصہ تو اس روز نہ توصحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے یہودی عورتوں سے متعہ کیا،اورنہ ہی اس بارے میں رسول اللہﷺ سے انھوں نے اجازت طلب کی اورنہ ہی کسی نے کبھی اس غزوہ میں اس کو نقل کیا ہے اور نہ اس متعہ کے فعل یا اس کی تحریم کا حتمی ذکر ہے بخلاف فتح مکہ کے ،فتح مکہ کے موقع پر متعہ کے فعل اور اس کی تحریم کا ذکرمشہورہے اور اس کی روایت صحیح ترین روایت ہے ۔ (ملاحظہ ہو: زاد المعاد)​

1962- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ الْعُزْبَةَ قَدِ اشْتَدَّتْ عَلَيْنَا، قَالَ: < فَاسْتَمْتِعُوا مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ >، فَأَتَيْنَاهُنَّ، فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْكِحْنَنَا إِلا أَنْ نَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُنَّ أَجَلا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: < اجْعَلُوا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُنَّ أَجَلا >، فَخَرَجْتُ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي، مَعَهُ بُرْدٌ وَمَعِي بُرْدٌ، وَبُرْدُهُ أَجْوَدُ مِنْ بُرْدِي، وَأَنَا أَشَبُّ مِنْهُ، فَأَتَيْنَا عَلَى امْرَأَةٍ فَقَالَتْ: بُرْدٌ كَبُرْدٍ، فَتَزَوَّجْتُهَا فَمَكَثْتُ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ غَدَوْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَائِمٌ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ وَهُوَ يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الاسْتِمْتَاعِ، أَلا وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْئٌ فَلْيُخْلِ سَبِيلَهَا، وَلاتَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا >۔
* تخريج: م/النکاح ۳ (۱۴۰۶)، د/النکاح ۱۴ (۲۰۷۲)، ن/النکاح ۷۱ (۳۳۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۴، ۴۰۵)، دي/النکاح ۱۶ (۲۲۴۲) (صحیح)

( حجۃ الوداع کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح یوم الفتح ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے)
۱۹۶۲- سبرہ بن معبد جہنیرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عورت کے بغیر رہنا ہمیں گراں گزر رہا ہے،آپ ﷺنے فرمایا: ''ان عورتوں سے متعہ کرلو''، ہم ان عورتوں کے پاس گئے وہ نہیں مانیں، اور کہنے لگیں کہ ہم سے ایک معین مدت تک کے لیے نکاح کرو، لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺنے فرمایا: ''اپنے اور ان کے درمیان ایک مدت مقرر کرلو'' چنانچہ میں اور میرا ایک چچا زاد بھائی دونوں چلے، اس کے پاس ایک چادر تھی، اور میرے پاس بھی ایک چادر تھی، لیکن اس کی چادر میری چادر سے اچھی تھی ، اور میں اس کی نسبت زیادہ جوان تھا، پھر ہم دونوں ایک عورت کے پاس آئے ۱؎ تو اس نے کہا : چادر تو چادر کی ہی طرح ہے (پھر وہ میری طرف مائل ہوگئی) چنانچہ میں نے اس سے نکاح (متعہ ) کرلیا ،اور اس رات اسی کے پاس رہا، صبح کو میں آیا تو رسول اللہ ﷺ رکن (حجراسود) اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے فرمارہے تھے: '' اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی لیکن سن لو! اللہ نے اس کوقیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے،اب جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اس کو چھوڑ دے، اورجو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس نہ لے ''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ پہلے میرے چچازاد بھائی کی چادر دیکھ کر اس کی جانب مائل ہوگئی، لیکن میری جوانی اور خوبصورتی اس کو چادر سے زیادہ اچھی لگی۔​

1963- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَةِ ثَلاثًا، ثُمَّ حَرَّمَهَا، وَاللَّهِ لا أَعْلَمُ أَحَدًا يَتَمَتَّعُ وَهُوَ مُحْصَنٌ إِلا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ، إِلا أَنْ يَأْتِيَنِي بِأَرْبَعَةٍ يَشْهَدُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ أَحَلَّهَا بَعْدَ إِذْ حَرَّمَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۶، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۵) (حسن)

۱۹۶۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے ،تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کردوں گا، مگر یہ کہ وہ چارگواہ لائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قراردینے کے بعد حلال کیا تھا ۔​
 
Top