• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-بَاب النَّهْيِ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ
۱۵- باب: شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے​


2175- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِبْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ >۔
* تخريج: انظر حدیث ( رقم : ۱۸۶۷، ۲۱۷۲) (صحیح)
۲۱۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً باہر والا غلہ شہر لائے اور اس کی نیت یہ ہو کہ آج کے نرخ سے بیچ ڈالے اس میں شہر والوں کو فائدہ ہو، ان کو غلہ کی ضرورت ہو لیکن ایک شہر والا اس کو کہے کہ تم اپنا مال ابھی نہ بیچو، مجھ کو دے دو ، میں مہنگی قیمت سے بیچ دوں گا ، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع کیا کیونکہ اس میں عام لوگوں کا نقصان ہے گو صرف ایک شخص کا فائدہ ہے ، مگر یہ قاعدہ ہے کہ ایک شخص کے فائدہ کے لئے عام نقصان جائز نہیں ہوسکتا۔


2176- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّار، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ >۔
* تخريج: م/البیوع ۶ (۱۵۲۲)، ت/البیوع ۱۳ (۱۲۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۴)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۴۵ (۳۴۳۶)، حم ۳/۳۰۷) (صحیح)
۲۱۷۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ، لوگوں کو چھوڑ دو،( خود بیچیں) اللہ تعالی بعض کو بعض سے روزی دیتا ہے ''۔


2177- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ.
قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ: مَا قَوْلُهُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ قَالَ: لا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۸ (۲۱۵۸)، ۷۱ (۲۱۶۳)، الإجارۃ ۱۴ (۲۲۷۴)، م/البیوع ۶ (۱۵۲۱)، د/البیوع ۴۷ (۳۴۳۹)، ن/البیوع ۱۶ (۴۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۶۸) (صحیح)
۲۱۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے ۔
طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : آپﷺ کے قول : ''حَاضِرٌ لِبَادٍ'' کا کیا مفہوم ہے، ؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَاب النَّهْيِ عَنْ تَلَقِّي الْجَلَبِ
۱۶- باب: بازار میں پہنچنے سے پہلے تاجروں سے جاکر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے​


2178- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <لاتَلَقَّوُا الأَجْلابَ، فَمَنْ تَلَقَّى مِنْهُ شَيْئًا فَاشْتَرَى، فَصَاحِبُهُ بِالْخِيَارِ، إِذَا أَتَى السُّوقَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۶۵)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۷۱ (۲۱۶۲)، م/البیوع ۵ (۱۵۱۹)، ن/البیوع ۱۶ (۴۵۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸۴، ۴۰۳)، دي/البیوع ۳۲ (۲۶۰۸) (صحیح)
۲۱۷۸- ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' باہر سے آنے والے سامان تجارت کو بازار میں پہنچنے سے پہلے نہ لیا کرو، اگر کوئی اس طرح خریداری کرلے، تو بازار میں آنے کے بعد صاحب مال کو اختیار ہوگا، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ (منسوخ) کردے ''۔


2179- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ تَلَقِّي الْجَلَبِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۸۰۵۹)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۷۱ (۲۱۶۵)، م/البیوع ۵ (۱۵۱۸)، د/البیوع ۴۵ (۳۴۳۶)، ن/البیوع ۱۶ (۴۵۰۳)، حم (۲/۷، ۲۲، ۶۳، ۹۱) (صحیح)
۲۱۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے باہر سے آنے والے سامان تجارت کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جاکر خرید لینے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تلقي جلب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باہر والوں کو شہر کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا، تو یہ شہری تاجر پہلے سے جاکر ان سے مل کر ان کا مال سستے دام سے خرید لیتا ہے ، جب وہ شہر میں آتے ہیں اور دام معلوم کرتے ہیں تو ا ن کو افسوس ہوتا ہے ، یہ اس لئے منع ہوا کہ اس میں باہر والے تاجروں کا نقصان ہے ،اور شہر والوں کا بھی ، باہر والوں کا تو ظاہر ہے ، شہر والوں کا نقصان اس سے طرح کہ شاید وہ شہر میں آتے تو سستا بیچتے ، اب اس شہر والے نے ان باہر سے آنے والوں کا مال لے لیا، جس کو وہ آہستہ آہستہ مہنگا کرکے بیچے گا ۔


2180 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَحَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ (ح) وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۴ (۲۱۴۹)، م/البیوع ۵ (۱۵۱۸)، ت/البیوع ۱۲ (۱۲۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۳۰) (صحیح)
۲۱۸۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جاکر ملنے سے منع فرمایا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بَاب الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا
۱۷- باب: بیچنے اور خرید نے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیارہے ۱؎​
وضاحت ۱؎ : خریداری مکمل ہونے کے بعد طرفین کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہوگا، اس اختیار کو اختیار مجلس کہتے ہیں ، یعنی جب تک بیچنے والے اور خریدنے والے خرید وفرو خت کے بعد اسی جگہ رہیں تو ہر ایک کو بیع کے فسخ (توڑنے ) کا اختیار ہے ۔(الروضہ الندیہ ) ۔


2181- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلانِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا وَكَانَا جَمِيعًا، أَوْ يُخَيِّرَ أَحَدُهُمَا الآخَرَ، فَإِنْ خَيَّرَ أَحَدُهُمَا الآخَرَ فَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكَ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ تَبَايَعَا، وَلَمْ يَتْرُكْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا الْبَيْعَ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۴۲ (۲۱۰۷)، ۴۳ (۲۱۰۹)، ۴۴ (۲۱۱۱)، ۴۵ (۲۱۱۲)، ۴۶ (۲۱۱۳)، م/البیوع ۱۰ (۱۵۳۱)، ن/البیوع ۸ (۴۴۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۷۲)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۵۳ (۳۴۵۴)، ت/البیوع ۲۶ (۱۲۴۵)، حم (۲/ ۴، ۹، ۵۲، ۵۴، ۷۳، ۱۱۹، ۱۳۴، ۱۳۵، ۱۸۳) (صحیح)
۲۱۸۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب دوآدمی ایک مجلس میں خریدوفروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں،یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دے دے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے د یاپھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کر لی تو بیع واجب ہوگئی، اس طرح بیع ہوجانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہوگئے تب بھی بیع لازم ہوگئی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جدا ہونے سے بدن کا جدا ہونا مراد ہے، اور اس حدیث کے راوی ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی معنی سمجھا تھا ، دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی بیع کو پورا کرنا چاہتے تو عقد کے بعد چند قدم چلتے تاکہ بیع پکی ہوجائے ، اور اگر تفرق اقوال مراد ہوتا یعنی ایجاب وقبول کا ہوجانا تو اس حدیث کا بیان کرنا ہی بیکار تھا، اس لئے جب تک ایجاب وقبول نہ ہوں بیع تمام ہی نہیں ہوئی ، تو وہ کیونکرنافذ ہوگی۔


2182- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْوَضِيئِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا >۔
* تخريج: د/البیوع ۳۵ (۳۴۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۵) (صحیح)
۲۱۸۲- ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بائع اور مشتری (بیچنے اور خرید نے والے) جب تک وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوجائیں دونوں کو( بیع کے منسوخ کرنے کا ) اختیار ہے '' ۔


2183- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا >۔
* تخريج: ن/البیوع ۸ (۴۴۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۱۷، ۲۱، ۲۲) (صحیح)
(حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۱۸۳- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' بیچنے اور خرید نے والے دونوں کو( بیع منسوخ کرنے کا ) اختیار ہے، جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوجائیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18- بَاب بَيْعِ الْخِيَارِ
۱۸- باب: اختیار ی خریداری کا بیان​


2184 - حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ رَجُلٍ مِنَ الأَعْرَابِ حِمْلَ خَبَطٍ، فَلَمَّا وَجَبَ الْبَيْعُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اخْتَرْ > فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ: عَمْرَكَ اللَّهَ بَيِّعًا !۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۷ (۱۲۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۳۴) (حسن)
۲۱۸۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک اعرابی( دیہاتی) سے ایک بوجھ چارا خریدا، پھر جب بیع مکمل ہوگئی، تو آپ نے اس سے فرمایا:'' تجھ کو اختیار ہے''(بیع کو باقی رکھ یا منسوخ کردے ) تو دیہاتی نے کہا : اللہ آپ کی عمر دراز کرے میں بیع کو باقی رکھتا ہوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایسی صورت میں جب طرفین بیع کو اختیار کرلیں تو خیار مجلس باقی نہ رہے گا، جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا ۔


2185- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ صَالِحٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۷۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۸) (صحیح)
۲۱۸۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضامندی سے منعقد ہوتی ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- بَاب الْبَيِّعَانِ يَخْتَلِفَانِ
۱۹- باب: خرید نے والے اور بیچنے والے کے درمیان اختلاف ہوجائے تو وہ کیا کریں؟​


2186- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ بَاعَ مِنَ الأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ رَقِيقًا مِنْ رَقِيقِ الإِمَارَةِ، فَاخْتَلَفَا فِي الثَّمَنِ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: بِعْتُكَ بِعِشْرِينَ أَلْفًا، وَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ: إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ بِعَشْرَةِ آلافٍ، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: هَاتِهِ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ، وَالْبَيْعُ قَائِمٌ بِعَيْنِهِ، فَالْقَوْلُ مَا قَالَ الْبَائِعُ، أَوْ يَتَرَادَّانِ الْبَيْعَ > قَالَ: فَإِنِّي أَرَى أَنْ أَرُدَّ الْبَيْعَ، فَرَدَّهُ۔
* تخريج: د/البیوع ۷۴ (۳۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۸)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۴۳ (۱۲۷۰)، ن/البیوع ۸۰ (۴۶۵۲)، حم (۱/۴۶۶) (صحیح)

(نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۱۳۲۲ و الصحیحہ: ۷۸۹)
۲۱۸۶- عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حکومت کے غلاموںمیں سے ایک غلام بیچا، پھر دونوں میں قیمت کے بارے میںاختلاف ہوگیا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ میں نے آپ سے اسے بیس ہزار میں بیچا ہے، اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسے دس ہزار میں خریدا ہے، اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :اگر چاہیں تو میں ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا: بیان کریں،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے :'' جب بیچنے والے اور خریدنے والے اختلاف کریں اور ان میں کسی کے پاس گواہ نہ ہوں، اور بیچی ہوئی چیز بعینہٖ موجود ہو تو بیچنے والے ہی کی بات معتبر ہوگی، یادونوں بیع فسخ کردیں'' ، انہوں نے کہا: میں مناسب یہی سمجھتا ہوں کہ بیع فسخ کردو ں، چنانچہ انہوں نے بیع فسخ کردی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20- بَاب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ
۲۰- باب: جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے​


2187- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ مَاهَكَ يُحَدِّثُ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي الْبَيْعَ وَلَيْسَ عِنْدِي، أَفَأَبِيعُهُ ؟ قَالَ: < لا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ >۔
* تخريج: د/البیوع ۷۰ (۳۵۰۳)، ت/البیوع ۱۹ (۱۲۳۲، ۱۲۳۳)، ن/البیوع ۵۸ (۴۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۲، ۴۳۴) (صحیح)
۲۱۸۷- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو''۔


2188 - حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، (ح) و حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَحِلُّ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ، وَلا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ >۔
* تخريج: د/البیوع ۷۰ (۳۵۰۴)، ت/البیوع ۱۹ (۱۲۳۴)، ن/البیوع ۵۸ (۴۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۴، ۱۷۸، ۲۰۵ )، دي/البیوع ۲۶ (۲۶۰۲) (حسن صحیح)
۲۱۸۸- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگر وہ چیز برباد ہوجائے تو تمہارا کچھ نقصان نہ ہو ، ایسی چیز کا نفع اٹھانا بھی جائز نہیں ، یہ شرع کا ایک عام مسئلہ ہے کہ نفع ہمیشہ ضمانت کے ساتھ ملتا ہے، جو شخص کسی چیز کا ضامن ہو وہی اس کے نفع کا مستحق ہے ، اور اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی خریدار نے بیع پر قبضہ نہیں کیا اور وہ چیز خریدنے والے کی ضمانت میں داخل نہیں ہوئی، اب خریدنے والا اگر اس کو قبضے سے پہلے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالے اور نفع کمائے، توبیع جائز اورصحیح نہیں ہے ۔


2189 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ؛ قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى مَكَّةَ، نَهَاهُ عَنْ شِفِّ مَا لَمْ يُضْمَنْ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۴۹) (صحیح)
(سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور عطاء کی ملاقات عتاب رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۱۲۱۲)
۲۱۸۹ - عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو مکہ بھیجا، تو اس چیز کے نفع سے منع کیا جس کے وہ ضامن نہ ہوں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21- بَاب إِذَا بَاعَ الْمُجِيزَانِ فَهُوَ لِلأَوَّلِ
۲۱- باب: جب دو بااختیارشخص کسی چیز کو بیچیں تو پہلے بیچنے والے کی بات معتبر ہو گی ۱؎​
وضاحت ۱؎ : جیسے موکل اور وکیل دونوں نے علیحدہ علیحدہ کوئی سامان بیچا، یا دو شریکوں میں سے ہر ایک نے الگ الگ ایک مال کو بیچ دیا ، اور ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی تو جس نے پہلے بیچا اس کا بیچنا معتبر اور قابل نفاذ ہوگا۔


2190- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَوْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلأَوَّلِ مِنْهُمَا >۔
* تخريج: د/النکاح ۲۲ (۲۰۸۸)، ت/النکاح ۲۰ (۱۱۱۰)، ن/البیوع ۹۴ (۴۶۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۲، ۹۹۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸، ۱۱، ۱۲، ۱۸، ۲۲)، دي/النکاح ۱۵ (۲۲۳۹) (ضعیف)
(سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع سمرۃ رضی اللہ عنہ سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے، دوسری احادیث کا نہیں )
۲۱۹۰- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ یاسمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس شخص نے ایک چیز دو آدمیوں کے ہاتھ بیچی، تو جس کے ہاتھ پہلے بیچی اس کو وہ چیز ملے گی ''۔


2191- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلانِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا بَاعَ الْمُجِيزَانِ فَهُوَ لِلأَوَّلِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۲، ۹۹۱۸) (ضعیف)
(سند میں حسن بصری ہیں جن کا سماع سمرۃ رضی اللہ عنہ سے صرف عقیقہ کی حدیث کا ہے ، دوسری احادیث کا نہیں )
۲۱۹۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب دو اختیار رکھنے والے ایک چیز کی بیع کریں تو جس نے پہلے بیع کی، اس کا اعتبار ہوگا '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22- بَاب بَيْعِ الْعُرْبَانِ
۲۲- باب: بیعانہ کا حکم​


2192- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ۔
* تخريج: د/البیوع ۶۹ (۳۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف:۸۸۲۰)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۱ (۱)، حم (۲/۱۸۳) (ضعیف)
(یہ بلاغات مالک میں سے ہے، عمر و بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے ، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)
۲۱۹۲- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ''نبی اکرم ﷺ نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے ''۔


2193- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الرُّخَامِيّ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ كَاتِبُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرٍ الأَسْلَمِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ.
قَالَ أَبُو عَبْداللَّهِ: الْعُرْبَانُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ دَابَّةً بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَيُعْطِيَهُ دِينَارَيْنِ عُرْبُونًا، فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ أَشْتَرِ الدَّابَّةَ، فَالدِّينَارَانِ لَكَ.
وَقِيلَ: يَعْنِي: وَاللَّهُ أَعْلَمُ: أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الشَّيْئَ، فَيَدْفَعَ إِلَى الْبَائِعِ دِرْهَمًا أَوْ أَقَلَّ أَوْ أَكْثَرَ، وَيَقُولَ: إِنْ أَخَذْتُهُ وَإِلا فَالدِّرْهَمُ لَكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲۷)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۱ (۱) حم ( ۲/ ۱۸۳) (ضعیف)
(سند میں حبیب کاتب مالک اور عبد اللہ أسلمی دونوں ضعیف راوی ہیں)
۲۱۹۳- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔
ابوعبداللہ (ابن ماجہ )کہتے ہیں کہ عربان: یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دے دے، اور کہے : اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں ۔
بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم: (عربان یہ ہے کہ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر،ورنہ یہ درہم تمہارا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بیع عربون: یعنی بیع کے وقت خریدار کی طرف سے بیچنے والے کو دی جانے والی ایک مخصوص رقم جس سے بیچنے والا اپنے سامان کوخریدنے والے سے بیچنے کے بدلے لیتاہے، اور ا سے عرف عام میں بیعانہ کہتے ہیں، ا س سے متعلق اس باب کی حدیث ضعیف ہے، علماء کے درمیان بیعانہ کی یہ شکل کہ اگرخریدارنے سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی دی ہوئی رقم بیچنے والے کی ہوجائے گی جس کو وہ خریدنے والے کو واپس نہیں کرے گا ، مالک ، شافعی اور ابوحنیفہ کے یہاں یہ ناجائز ہے ، امام احمد اس بیع کی صحت کے قائل ہیں، ان کی دلیل عمررضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث ضعیف ہے، اورمتفقہ طور پر صحیح قیاس کی دلیل کے اعتبارسے بھی یہ صحیح ہے کہ اگرخریدار سامان کو ناپسند کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ سامان کو واپس کردے اور اس کے ساتھ کچھ دے دے ، اس صورت پر قیاس کرتے ہوئے بیعانہ نہ واپس کر نے کی یہ صورت صحیح ہوگی ، امام احمد کہتے ہیں کہ یہ بیعانہ اسی کے ہم معنی ہے۔یہ واضح رہے کہ بیعانہ کی رقم بیچنے والے کو بلاعوض نہیں مل رہی ہے ، اس لیے کہ یہاں پر فروخت شدہ چیز کے انتظار کے عوض میں یہ رقم رکھی گئی ہے ، اوریہ سامان خریدار کے خریدنے تک ایسے ہی پڑا رہے گا ، اور اس مدت میں دوسرے شخص سے بیع وفروخت کی بات نہ ہوسکے گی ، مجمع الفقہ الإسلامی ، مکہ مکرمہ نے محرم (۱۴۱۴)ہجری میں اس بیع کی بابت یہ قرارداد صادرکی ہے کہ اگرخریدنے والے نے بیچنے والے سے سامان نہیں خریداتو بیعانہ کی رقم کا مالک بیچنے والا ہوجائے گا ، مجلس نے اس بیع کے جواز کی بات اس صورت میں کہی ہے کہ انتظار کا زمانہ مقررہو، اور یہ کہ بیعانہ کی رقم بیع کے نافذ ہو نے کی صورت میں قیمت کا ایک حصہ شمار ہوگی ، اور اگرخریدنے والا سامان نہ خریدے تو یہ رقم بیچنے والے کا حق ہوگی ۔(ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام ، ۴/۲۹۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- بَاب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَبَيْعِ الْغَرَرِ
۲۳- باب: بیع حصاۃ اور بیع غرر ممنوع ہے​


2194- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ وَعَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ۔
* تخريج: م/البیوع ۲ (۱۵۱۳)، د/البیوع ۲۵ (۳۳۷۶)، ت/البیوع ۱۷ (۱۲۳۰)، ن/البیوع ۲۵ (۴۵۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۰، ۳۷۶، ۴۳۶)، دي/البیوع ۲۰ (۲۵۹۶) (صحیح)
۲۱۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ ۲؎ سے منع فرمایا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بیع غرر : معدوم و مجہول چیز کی بیع ہے یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے خریدنے والے کے حوالہ کرنے پر بیچنے والے کو قدرت نہ ہو، جیسے بھاگے ہوئے غلام کی بیع، فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع، یا مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو،اور دودھ کی بیع جو جانورکے تھن میں ہو وغیرہ وغیرہ۔
وضاحت ۲؎ : بیع حصاۃ کی تین صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بیچنے والا یہ کہے کہ میں یہ کنکری پھینکتا ہوں جس چیز پر یہ گر ے اسے میں نے تمہارے ہاتھ بیچ دیا ،یا جہاں تک یہ کنکری جائے اتنی دور کا سامان میں نے بیچ دیا، دوسرے یہ کہ بیچنے والا یہ شرط لگائے کہ جب تک میں کنکر ی پھینکوں تجھے اختیار ہے اس کے بعد اختیا ر نہ ہوگا ، تیسرے یہ کہ خو د کنکری پھینکنا ہی بیع قرار پائے مثلاً یوں کہے کہ جب میں اس کپڑے پر کنکری ماروں تو یہ اتنے میں بک جائے گا ۔


2195- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۶۷)، ومصباح الزجاجۃ: ۷۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰۲) (صحیح)
(سند میں ایوب بن عتبہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۱۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر سے منع کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24- بَاب النَّهْيِ عَنْ شِرَاءِ مَا فِي بُطُونِ الأَنْعَامِ وَضُرُوعِهَا وَضَرْبَةِ الْغَائِصِ
۲۴- باب: جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہ خور کے غوطہ کی بیع ممنوع ہے​


2196 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَهْضَمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْيَمَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ شِرَاءِ مَا فِي بُطُونِ الأَنْعَامِ حَتَّى تَضَعَ، وَعَمَّا فِي ضُرُوعِهَا إِلا بِكَيْلٍ، وَعَنْ شِرَاءِ الْعَبْدِ وَهُوَ آبِقٌ، وَعَنْ شِرَاءِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ، وَعَنْ شِرَاءِ الصَّدَقَاتِ حَتَّى تُقْبَضَ، وَعَنْ ضَرْبَةِ الْغَائِصِ۔
* تخريج: ت/السیر ۱۴ (۱۵۶۳) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲) (ضعیف)
(سند میں محمد بن ابراہیم باہلی مجہول راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۱۲۹۳)
۲۱۹۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانور وں کے پیٹ میں جو ہو اس کے خریدنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ جن دے، اور جو ان کے تھنوں میں ہے اس کے خریدنے سے بھی منع فرمایا ہے الا یہ کہ اسے دوھ کر اور ناپ کر خریدا جائے ، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کو خریدنے سے، اور غنیمت (لوٹ ) کا مال خرید نے سے بھی منع فرمایا یہاں تک کہ وہ تقسیم کردیا جائے اور صدقات کو خریدنے سے (منع کیا) یہاں تک کہ وہ قبضے میں آجائے، اور غوطہ خور کے غوطہ کو خرید نے سے (منع کیا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ :غوطہ خور کے غوطہ کوخرید نے کی صورت یہ ہے کہ غوطہ خور خریدنے والے سے کہے کہ میں غوطہ لگارہا ہوں اس با ر جو کچھ میں نکالوں گا وہ اتنی قیمت میں تیرا ہوگا یہ تمام بیعیں اس لئے نا جائز ہیں کہ ان سب میں غرر (دھوکا) اور جہالت ہے۔


2197- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ۔
* تخريج: ن/البیوع ۶۶ (۴۶۲۹)، (تحفۃ الأشراف:۷۰۶۲)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۶۱ (۲۱۴۳)، السلم ۷ (۲۲۵۶)، مناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۴۳)، م/البیوع ۳ (۱۵۱۳)، د/البیوع ۲۵ (۳۳۸۰)، ت/البیوع ۱۶ (۱۲۲۹)، /البیوع ۲۶ (۶۲)، حم (۱/۵۶، ۶۳، ۱۰۸، ۱۴۰، ۱۵۵) (صحیح)
۲۱۹۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے بچہ کے بچہ کو اتنی قیمت میں بیچتا ہوں تویہ بیع جائز نہیں کیونکہ یہ معدوم و مجہول کی بیع ہے ۔
 
Top