• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
55- بَاب بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا تَمْرًا
۵۵- باب: عرایا کی بیع یعنی کھجور کے درخت کو انداز ے سے خشک کھجور کے بدلے خریدنے کا بیان​


2268 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا۔
* تخريج:خ/البیوع ۷۵ (۲۱۷۳)، م/البیوع ۱۴(۱۵۳۹)، ت/البیوع ۶۲ (۱۳۰۰، ۱۳۰۲)، ن/البیوع ۳۱ (۴۵۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۳)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۲۰ (۳۳۶۲)، ط/البیوع ۹ (۱۴)، حم (۵/۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۸، ۱۹۲)، دي/البیوع ۲۴ (۲۶۰۰) (صحیح)
۲۲۶۸- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کی بیع میں رخصت دی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بیع عرایا : یہ بیع بھی بیع مزابنہ ہے ، لیکن نبی کریم ﷺ نے عرایا کی اجازت فقراء اورمساکین کے فائدے اور آرام کے لئے دی ہے،عرایا جمع ہے عریہ کی، یعنی کوئی آدمی اپنے باغ میں سے دو تین درخت کسی کوہبہ کر دے ،پھر اس کا باغ میں بار بار آنا پریشانی کا سبب بن جائے، اس لئے مناسب خیال کرکے ان درختوں کا پھل خشک پھل کے بدلے اس سے خریدلے، اور ضروری ہے کہ یہ پھل پانچ وسق (۷۵۰ کلو) سے کم ہو ۔


2269 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ بِخَرْصِهَا تَمْرًا، قَالَ يَحْيَى: الْعَرِيَّةُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ ثَمَرَ النَّخَلاتِ بِطَعَامِ أَهْلِهِ رُطَبًا، بِخَرْصِهَا تَمْرًا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۲۶۹- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کی بیع میں اجازت دی ہے کہ اندازہ سے اس کے برابر خشک کھجورکے بدلے خریدوفروخت کی جائے۔
یحییٰ کہتے ہیں کہ عریہ یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے کچھ درخت اپنے گھروالوں کے کھانے کے لیے اندازہ کرکے اس کے برابر خشک کھجور کے بدلے خریدے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
56- بَاب الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً
۵۶- باب: حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنے کی ممانعت​


2270 - حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً۔
* تخريج: د/البیوع ۱۵ (۳۳۵۶)، ت/البیوع ۲۱ (۱۲۳۷)، ن/البیوع ۶۳ (۴۶۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۲۱، ۲۲)، دي/البیوع ۳۰ (۲۶۰۶) (صحیح)
(حدیث شواہد کی بناء پرصحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۲۴۱۶)۔
۲۲۷۰- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنے سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار بیچنا اس وقت منع ہے جب اسی جنس کا ہو جیسے اونٹ کو اونٹ کے بدلے، لیکن اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی جائز ہے ۔


2271 - حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَأَبُو خَالِدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا بَأْسَ بِالْحَيَوَانِ وَاحِدًا بِاثْنَيْنِ، يَدًا بِيَدٍ >، وَكَرِهَهُ نَسِيئَةً۔
* تخريج: ت/البیوع ۲۱ (۱۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف : ۲۶۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۰ ، ۳۸۰، ۳۸۲) (صحیح)
(ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے، جب کہ حجاج بن أرطاہ ضعیف ہیں، اور ابوزبیر مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے، تو یہ تحسین شواہد کی وجہ سے ہے، بلکہ صحیح ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے الإرواء : ۲۴۱۶)۔
۲۲۷۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ایک حیوان کو دو حیوان کے بدلے نقدبیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور آپ ﷺنے ایسا ادھار بیچنے کو ناپسند کیا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
57- بَاب الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ مُتَفَاضِلا يَدًا بِيَدٍ
۵۷- باب: جاندار کو جاندار کے بدلے زیادہ کرکے نقداً لینے کا بیان​


2272 - حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عُرْوَةَ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُوعُمَرَ حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اشْتَرَى صَفِيَّةَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: مِنْ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ۔
* تخريج: تفرد ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۳۹۰)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، د/الخراج ۲۱ (۲۹۹۷)، حم (۳/۱۱۱) (صحیح)
۲۲۷۲- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو سات غلام کے بدلے خریدا ۱؎ ۔
عبدالرحمن بن مہدی نے کہا : دحیہ کلبی سے ۔
وضاحت ۱؎ : غزوئہ خیبرکے قیدیوں میں ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے بڑی خاندانی عورت تھیں، مال غنیمت کی تقسیم کے وقت وہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ،تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ صفیہ آپ کے لائق ہیں تو آپ ﷺ نے ان کو بلاکر دیکھا ،اور دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو سات غلام دے کرام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو ان سے لے لیا، اور اپنے نکاح میں لائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
58- بَاب التَّغْلِيظِ فِي الرِّبَا
۵۸- باب: حرمتِ سود میں وارد وعید کا بیان​


2273 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ، فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَؤُلاءِ يَاجِبْرَائِيلُ؟ قَالَ: هَؤُلاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۷۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۳، ۳۶۳) (ضعیف)
(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
۲۲۷۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سودخور ہیں ''۔


2274 - حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۷۹۹) (صحیح)
(سند میں ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پرحدیث صحیح ہے)
۲۲۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سود ستّر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ستر کی تعداد سے مراد گنا ہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت وقباحت کا اظہار ہے۔


2275- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الصَّيْرَفِيُّ، أَبُو حَفْصٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <الرِّبَا ثَلاثَةٌ وَسَبْعُونَ بَابًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۱، ومصباح الزجاجۃ: ۸۰۰) (صحیح)
۲۲۷۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سود کے تہتّردروازے ہیں ''۔


2276- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۵۴)، وقد أخرجہ: (حم (۱/۳۶، ۴۹) (صحیح)
۲۲۷۶- عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہو ئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، اور آپ ﷺ نے اس کی تفسیرہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں ، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری ، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے ، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہئے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا ، چھ چیزوں کا بیان کردیا کہ ان میں سود ہے: سونا ،چاندی ، گیہوں، جو، نمک، اورکھجور ،اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں ، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کردیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہئے ، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے ، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثرلوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں ، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے ، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے ۔


2277- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدِيهِ وَكَاتِبَهُ۔
* تخريج: د/البیوع ۴ (۳۳۳۳)، ت/البیوع ۲ (۱۲۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۶)، وقد أخرجہ: م/المساقاۃ ۱۹ (۱۵۹۷)، ن/الطلاق ۱۳ (۳۴۴۵)، حم (۱/۳۹۳، ۳۹۴، ۴۰۲، ۴۵۳) (صحیح)
۲۲۷۷- عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کے کھانے والے پر ، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ۔


2278- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَادَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي خَيْرَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لا يَبْقَى مِنْهُمْ أَحَدٌ، إِلا آكِلُ الرِّبَا، فَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ، أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ >۔
* تخريج: د/البیوع ۳ (۳۳۳۱)، ن/البیوع ۲ (۴۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۹۴) (ضعیف)
(سعید بن أبی خیرہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجود گی میں، اور متابع کوئی نہیں ہے، اس لئے لین الحدیث ہیں، یعنی کمزوری اور ضعیف ہیں، حسن بصری کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے)
۲۲۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یقینا لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا'' ۔


2279- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۵، ۴۲۴) (صحیح)
۲۲۷۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جس نے بھی سود سے مال بڑھایا ،اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سودی کاروبار کرنے والااپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ وبربادہوجاتاہے،اور آدمی مفلس بن جاتا ہے ۔ اس امر کا تجربہ ہوچکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار ومشرکین کامال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غر ض ، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے ۔اورچونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے ، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
59- بَاب السَّلَفِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ
۵۹- باب: متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدّت کے وعدے پربیع سلف کرنے کا بیان​


2280- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي التَّمْرِ، السَّنَتَيْنِ وَالثَّلاثَ، فَقَالَ: < مَنْ أَسْلَفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ >۔
* تخريج: خ/السلم ۱ (۲۲۳۹)، ۲ (۲۲۴۰، ۲۲۴۱)، ۷ (۲۲۵۳)، م/المساقاہ ۲۵ (۱۶۰۴)، د/البیوع ۵۷ (۳۴۶۳)، ت/البیوع ۷۰ (۱۳۱۱)، ن/البیوع ۶۱ (۴۶۲۰)، (تحفۃ الأشراف:۵۸۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۷، ۲۲۲، ۲۸۲، ۳۵۸)، دي/البیوع ۴۵ (۲۶۲۵) (صحیح)
۲۲۸۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دوسال اور تین سال کی قیمت پہلے اداکرکے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' جو کھجور میں بیع سلف ۱؎ کرے یعنی قیمت پیشگی اداکردے تو ا سے چاہئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعادپر کرے'' ۔
وضاحت ۱؎ : بیع سلف اور سلم دونوں ایک ہیں یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کو روپیہ نقد دے ، لیکن مال لینے کے لئے ایک میعاد مقرر کرلے ، اہل حدیث کے نزدیک اس میں دو ہی شرطیں ہیں :ایک یہ کہ جس مال کے لینے پراتفاق ہوا ہے اس کی کیفیت ،جنس اور نوع واضح طور پر بیان کردے ، اگر ناپ تول کی چیز ہو توناپ تول صراحت سے مقرر کردی جائے ، مثلاً سو من گیہوں سفید اعلیٰ قسم کا ، فلاں کپڑا اس قسم کے اتنے گز اورمیٹر ،دوسرے یہ کہ مال کے لینے کی میعاد مقرر ہو ، مثلاً ایک مہینہ، دو مہینہ، ایک سال ۔اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ ہو توبیع سلم فاسد ہوگی ، کیونکہ اس میں نزاع کی صورت پیدا ہوگی، بعضوں نے اور شرطیں بھی رکھیں ہیں لیکن ان کی دلیل ذرا مشکل سے ملے گی ،اور شاید نہ ملے ۔


2281- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ: فَقَالَ: إِنَّ بَنِي فُلانٍ أَسْلَمُوا لِقَوْمٍ مِنَ الْيَهُودِ وَإِنَّهُمْ قَدْ جَاعُوا، فَأَخَافُ أَنْ يَرْتَدُّوا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <مَنْ عِنْدَهُ؟ > فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ: عِنْدِي كَذَا وَكَذَا (لِشَيْئٍ قَدْ سَمَّاهُ ) أُرَاهُ قَالَ : ثَلاثُ مِائَةِ دِينَارٍ بِسِعْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ حَائِطِ بَنِي فُلانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < بِسِعْرِ كَذَا وَكَذَا إِلَى أَجَلِ كَذَا وَكَذَا، وَلَيْسَ مِنْ حَائِطِ بَنِي فُلانٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۸۰۳) (ضعیف)
(سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں،اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
۲۲۸۱- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے آکر عرض کیا: فلاں قبیلہ کے یہودی مسلمان ہوگئے ہیں،اور وہ بھوک میں مبتلا ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مرتد نہ ہو جائیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''کسی کے پاس کچھ نقدی ہے''( کہ وہ ہم سے بیع سلم کرے ) ؟ ایک یہودی نے کہا: میرے پاس اتنا اور اتنا ہے، اس نے کچھ رقم کا نام لیا،میرا خیال ہے کہ اس نے کہا : میرے پاس تین سو دینار ہیں، اس کے بدلے میں بنی فلاں کے باغ اور کھیت سے اس اس قیمت سے غلہ لوں گا'' آپ ﷺ نے فرمایا:'' قیمت اور مدت کی تعیین تو منظور ہے لیکن فلاں کے باغ اور کھیت کی جو شرط تم نے لگائی ہے وہ منظور نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ احتمال ہے کہ اس باغ یا کھیت میں کچھ نہ ہو یا وہاں کا غلہ تباہ ہوجائے تو یہ شرط لغو اور بیکار ہے ، البتہ یہ شرط قبول ہے کہ اس بھائو سے اتنے کا غلہ فلاں وقت اورتاریخ پر دے دیں گے ۔


2282- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا:حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ يَحْيَى: عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، وَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ قَالَ: امْتَرَى عَبْدُاللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ وَأَبُو بُرْدَةَ فِي السَّلَمِ، فَأَرْسَلُونِي إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: كُنَّا نُسْلِمُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَهْدِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ عِنْدَ قَوْمٍ مَا عِنْدَهُمْ، فَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَى، فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: خ/السلم ۲ (۲۲۴۲)، ۳ (۲۲۴۴)، ۷ (۲۲۵۴، ۲۲۵۵) بلفظ : ''ما کنا نسألھم'' مکان ''ماعندھم ''، د/البیوع ۵۷ (۳۴۶۴، ۳۴۶۵)، ن/البیوع ۵۹ (۴۶۱۸)، ۶۰ (۴۶۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۴، ۳۸۰) (صحیح)
۲۲۸۲- عبداللہ بن ابی مجالدکہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بیع سلم کے سلسلہ میں جھگڑا ہوگیا، انہوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، میں نے جاکر ان سے اس کے سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں گیہوں، جو، کشمش اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے جن کے پاس اس وقت مال نہ ہوتا، پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
60- بَاب مَنْ أَسْلَمَ فِي شَيْئٍ فَلا يَصْرِفْهُ إِلَى غَيْرِهِ
۶۰- باب: کسی چیز کی بیع سلم کرکے اس کو دوسری چیز سے نہ بدلنے کا بیان​


2283- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَسْلَفْتَ فِي شَيْئٍ فَلاتَصْرِفْهُ إِلَى غَيْرِهِ >.
* تخريج: د/البیوع ۵۹ (۳۴۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۴) (ضعیف)
(سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۳۷۵)۔
۲۲۸۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم کسی چیز میں بیع سلف کرو تو اسے کسی اور چیز کی طرف نہ پھیرو'' ۔


2283/أ- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ سَعْدًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۰) (ضعیف
ملاحظہ ہو: حدیث سابق)
۲۲۸۳/أ- اس سند سے بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،پھر آگے راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا،اور اس کے راویوں میں سعد کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
61- بَاب إِذَا أَسْلَمَ فِي نَخْلٍ بِعَيْنِهِ لَمْ يُطْلِعْ
۶۱- باب: اگر کسی خاص درخت کی خریداری بیع سلم سے( یعنی پیشگی ادائیگی کے بعد) کی ہو اور اس میں پھل نہ آئے تو کیا حکم ہے؟​


2284- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ النَّجْرَانِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أُسْلِمُ فِي نَخْلٍ قَبْلَ أَنْ يُطْلِعَ؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: لِمَ؟ قَالَ: إِنَّ رَجُلا أَسْلَمَ فِي حَدِيقَةِ نَخْلٍ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يُطْلِعَ النَّخْلُ، فَلَمْ يُطْلِعِ النَّخْلُ شَيْئًا ذَلِكَ الْعَامَ، فَقَالَ الْمُشْتَرِي: هُوَ لِي حَتَّى يُطْلِعَ، وَقَالَ الْبَائِعُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ النَّخْلَ هَذِهِ السَّنَةَ، فَاخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ لِلْبَائِعِ: < أَخَذَ مِنْ نَخْلِكَ شَيْئًا؟ > قَالَ:لا، قَالَ: < فَبِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَهُ؟ ارْدُدْ عَلَيْهِ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ، وَلا تُسْلِمُوا فِي نَخْلٍ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاحُهُ >۔
* تخريج: د/البیوع ۵۸ (۳۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۹۵)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۲۱ (۴۹)، حم (۲/۲۵، ۴۹، ۵۱، ۵۸، ۱۴۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں نجرانی مبہم راوی ہے)
۲۲۸۴- نجرانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا میں کسی درخت کے کھجور کی ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کروں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، میں نے کہا : کیوں ؟ کہا : ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے عہد میں کھجور کے ایک باغ کے پھلوں میں ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کی،لیکن اس سال کھجور کے درخت میں پھل آیا ہی نہیں،تو خریدار نے کہا: یہ درخت میرے رہیں گے جب تک ان میں کھجور نہ پھلے، اور بیچنے والے نے کہا: میں نے توصرف اسی سال کا کھجور تیرے ہاتھ بیچا تھا، چنانچہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں معاملہ لے گئے تو آپ ﷺ نے بیچنے والے سے کہا :''کیا اس نے تمہارے کھجور کے درختوں سے کچھ پھل لیے'' ؟ وہ بولا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:''پھرتم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کروگے ،جو تم نے اس سے لیا ہے، اسے واپس کرو اور آئندہ کھجور کے درختوں میں بیع سلم اس وقت تک نہ کر و جب تک اس کے پھل استعمال کے لائق نہ ہوجائیں'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
62- بَاب السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ
۶۲- باب: حیوانات میں بیع سلم کا بیان​


2285- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا وَقَالَ: < إِذَا جَاءَتْ إِبِلُ الصَّدَقَةِ قَضَيْنَاكَ > فَلَمَّا قَدِمَتْ قَالَ: < يَا أَبَا رَافِعٍ! اقْضِ هَذَا الرَّجُلَ بَكْرَهُ> فَلَمْ أَجِدْ إِلا رَبَاعِيًا فَصَاعِدًا، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: < أَعْطِهِ، فَإِنَّ خَيْرَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَائً >۔
* تخريج: م/البیوع ۴۳ (۱۶۰۰)، د/البیوع ۱۱ (۳۳۴۶)، ت/البیوع ۷۵ (۱۳۱۸)، ن/البیوع ۶۲ (۴۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۵)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۳ (۸۹)، حم (۶/۳۹۰)، دي/البیوع ۳۱ (۲۶۰۷) (صحیح)
۲۲۸۵- ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے ایک جوان اونٹ کی بیع سلم کی یعنی اسے قرض کے طور پر لیا، اورفرمایا:'' جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہارا اونٹ کا قرض ادا کردیں گے''، چنانچہ جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:''ابورافع ! اس کے اونٹ کا قرض ادا کردو''، ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ڈھونڈا تو مجھے ویسا اونٹ نہیں ملا، سوائے ایک ایسے اونٹ کے جس نے اپنے سامنے کے چاروں دانت گرارکھے تھے، جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، میں نے نبی اکرم ﷺ کوبتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اسی کودے دو کیونکہ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہترہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر شرط کے قرض لیا تھا اس سے افضل دیتے ہیں ،اگر قرض سے بہتر یا زیادہ مال دیا جائے تو مستحب اور اس کا لینا جائز ہے ، لیکن شرط کے ساتھ جائز نہیں ، کیونکہ وہ ربا (سود) ہے ، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بیع سلم بلکہ قرض لینا بھی جانور کا درست ہے ۔


2286- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ هَانِئٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: اقْضِنِي بَكْرِي، فَأَعْطَاهُ بَعِيرًا مُسِنًّا، فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا أَسَنُّ مِنْ بَعِيرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < خَيْرُ النَّاسِ خَيْرُهُمْ قَضَائً >۔
* تخريج: ن/البیوع ۶۲ (۴۶۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۸) (صحیح)
۲۲۸۶- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک اعرابی نے آکر عرض کیا: میرا جوان اونٹ مجھے دیجیے، آپ ﷺ نے اس کو ایک اونٹ دیا جو اس سے بڑا تھا، اعرابی (دیہاتی) بولا: اللہ کے رسول ! اس کی عمر تو اس سے زیادہ ہے؟! آپ ﷺ نے فرمایا:'' بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
63- بَاب الشَّرِكَةِ وَالْمُضَارَبَةِ
۶۳- باب: شرکت و مضاربت کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : تجارت میں حصہ داری کوشرکت یا شراکت کہتے ہیں، اور مضاربت یہ ہے کہ نفع میں شریک بناکر کسی کوتجارت کے لیے مال دینا۔


2287- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ قَائِدِ السَّائِبِ، عَنِ السَّائِبِ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: كُنْتَ شَرِيكِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَكُنْتَ خَيْرَ شَرِيكٍ، لاتُدَارِينِي وَلا تُمَارِينِي۔
* تخريج: د/الأدب ۲۰ (۴۸۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹۱)، وقد أخرجہ: حم (/۴۲۵) (صحیح)
۲۲۸۷- سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا :اللہ کے رسول ! زمانہء جاہلیت میں آپ میرے شریک تھے، توآپ بہت بہترین شریک ثابت ہوے نہ آپ میری مخالفت کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو داود کی روایت میں یوں ہے کہ نبوت سے پہلے سائب مخزومی نبی کریم ﷺ کے شریک تھے ، فتح مکہ کے دن وہ آئے ، اور کہا: مرحباً، (خوش آمدید) میرے بھائی، میرے شریک ، ایسے شریک کہ نہ کبھی انہوں نے مقابلہ کیا نہ جھگڑا ، اس حدیث کے اور بھی کئی طریق ہیں، سبحان اللہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق شروع سے ایسے تھے کہ تعلیم وتربیت اور ریاضت کے بعد بھی ویسے اخلاق حاصل ہونا مشکل ہے ۔


2288- حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: اشْتَرَكْتُ أَنَا وَسَعْدٌ وَعَمَّارٌ يَوْمَ بَدْرٍ، فِيمَا نُصِيبُ، فَلَمْ أَجِئْ أَنَا وَلا عَمَّارٌ بِشَيْئٍ، وَجَاءَ سَعْدٌ بِرَجُلَيْنِ۔
* تخريج: د/البیوع ۳۰ (۳۳۸۸)، ن/الأیمان ۴۷ (۳۹۶۹)، البیوع ۱۰۳ (۴۷۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۶) (ضعیف)
(سند میں ابو عبیدہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۴۷۴)۔
۲۲۸۸- عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سعد اور عمار تینوں بدر کے دن مال غنیمت میں شریک ہوئے، تو مجھ کو اور عمار کو کچھ نہ ملا، البتہ سعد کافروں کے دوآدمی پکڑ لائے۔


2289- حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ثَلاثٌ فِيهِنَّ الْبَرَكَةُ: الْبَيْعُ إِلَى أَجَلٍ، وَالْمُقَارَضَةُ، وَأَخْلاطُ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ لِلْبَيْتِ لا لِلْبَيْعِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۰۴) (ضعیف جدا)
(سند میں صالح صہیب ، عبد الرحمن بن داود اور نصربن قاسم وغیرہ سب مجہول راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۲۱۰۰)
۲۲۸۹- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تین چیزوں میں برکت ہے : پہلی یہ کہ مقررہ مدت کے وعدے پر بیع کرنے میں، دوسری: مضاربت میں،تیسری: گیہوں اور جو ملانے میں جو کہ گھر کے کھانے کے لئے ہو، نہ کہ بیچنے کے لئے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
64- بَاب مَا لِلرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
۶۴- باب: اولاد کے مال میں والدین کے حق کا بیان​


2290- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَإِنَّ أَوْلادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ >۔
* تخريج: د/البیوع ۷۹ (۳۵۲۸)، ت/الأحکام ۲۲ (۱۳۵۸)، ن/البیوع ۱ (۴۴۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۱، ۳۲، ۱۲۷، ۱۶۲، ۱۹۳، ۲۲۰)، دي/البیوع ۶ (۲۵۷۹) (صحیح)
۲۲۹۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے کھانوں میں سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تمہارے ہاتھ کی کمائی کا ہو، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری ایک قسم کی کمائی ہے'' ۔


2291- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَالا وَوَلَدًا، وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي، فَقَالَ: < أَنْتَ وَمَالُكَ لأَبِيكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۰۵) (صحیح)
۲۲۹۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول ! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں؟!آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم اورتمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں'' ۔


2292- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ أَبِي اجْتَاحَ مَالِي، فَقَالَ: < أَنْتَ وَمَالُكَ لأَبِيكَ > وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَوْلادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۵)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۷۹ (۳۵۳۰)، حم (۲/۱۷۹) (صحیح)
۲۲۹۲- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کردی ( اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں'' اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کرسکتا ہے اور اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے بھی لیں تو بھی بیٹے کو چاہئے کہ وہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے ، نہ ان سے سخت کلامی کرے اور اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے اسے محبت سے پالا پوسا تھا ، پیشاب و پاخانہ دھویا ، پھر کھلایا ،پلایا ،پڑھایااورسکھایا ، یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان نہ ادا ہوسکے اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضامندی پر ان کی نجات منحصر ہے ، اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا وآخرت دونوں تباہ ہو گی ، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی اورانہوںنے چین سے زندگی بسر کی اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے ، اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں تو کمال خوشی کرنا چاہئے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آئے یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہوا، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہئے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن اور میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں ،میں آپ کا غلام ہوں ۔
 
Top