• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب تَلْقِيحِ النَّخْلِ
۱۵-باب: کھجور کے درخت میں پیوند کاری کا بیان​


2470- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي نَخْلٍ، فَرَأَى قَوْمًا يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: < مَا يَصْنَعُ هَؤُلاءِ؟ > قَالُوا: يَأْخُذُونَ مِنَ الذَّكَرِ فَيَجْعَلُونَهُ فِي الأُنْثَى قَالَ: < مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا > فَبَلَغَهُمْ، فَتَرَكُوهُ، فَنَزَلُوا عَنْهَا، فَبَلَغَ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: < إِنَّمَا هُوَ الظَّنُّ،إِنْ كَانَ يُغْنِي شَيْئًا فَاصْنَعُوهُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، وَإِنَّ الظَّنَّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ، وَلَكِنْ مَا قُلْتُ لَكُمْ: قَالَ اللَّهُ - فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۳۸ (۲۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۲) (صحیح)
۲۴۷۰- طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزرا، تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں،آپ ﷺنے پو چھا: '' یہ لو گ کیا کررہے ہیں ''؟ لو گوں نے عرض کیا: نر کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں،آپﷺ نے فر مایا: '' میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے کو ئی فائدہ ہوگا ''، یہ خبرجب ان صحابہ کو پہنچی تو انھوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس سے درختوں میں پھل کم آئے، پھر یہ بات نبی اکرم ﷺ کوپہنچی تو آپﷺ نے فرمایا : ''یہ میرا گمان تھا، اگر اس میں فائدہ ہے تو اسے کرو، میں تو تمہی جیسا ایک آدمی ہوں گمان کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح، لیکن جو میں تم سے کہوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے (تو وہ غلط نہیں ہو سکتا ہے )کیونکہ میں اللہ تعالی پر ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا '' ۱؎
وضاحت ۱؎ : جب نبی کریم ﷺ نے جو معصوم اور اللہ کے سب سے محبوب اور سب سے اچھے بندے تھے، یہ فرمایا کہ میری رائے کبھی غلط ہوتی ہے کبھی صحیح ، تو اور کسی مجتہد یا عالم یا مولوی کی کیا حقیقت رہی جو ہمیشہ اس کی رائے صحیح ہی ہوا کرے ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو جن باتوں میں وحی نہیں ہوتی تھی، اپنی رائے سے حکم دیتے پھر وہ رائے اگر غلط ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو مطلع کردیتا ، تو یہ ممکن نہیں کہ آپ ہمیشہ غلط رائے پر قائم رہیں ،صحیح مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تم کو دنیاکے امورمعاملات کا زیادہ علم ہے، یعنی دنیا کے وہ کام جن میں حکم الٰہی کچھ نہیں اترا، اور دنیا کے جن کاموں میں شریعت کاحکم موجود ہے جیسے بیع وشراء، طلاق اورنکاح وغیرہ ان میں شرع کے مطابق چلنا ضروری ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں ایسے گمراہ لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا کے تمام کاموں میں شریعت کو مطلقاً چھوڑدیا، اور اپنی خواہش نفس کے مطابق چلنا جائز رکھا ہے، یہ سراسرمغالطہ ہے، اللہ بچائے ۔


2471- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ أَصْوَاتًا، فَقَالَ: < مَا هَذَا الصَّوْتُ؟ > قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهَا، فَقَالَ: < لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلَحَ> فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: <إِنْ كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ، فَشَأْنُكُمْ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أُمُورِ دِينِكُمْ، فَإِلَيَّ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۳۸ (۲۳۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸، ۱۶۸۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۳، ۱۵۲) (صحیح)
۲۴۷۱- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ آواز یں سنیں تو پوچھا: ''یہ کیسی آواز ہے'' ؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں ۱؎ ،تو آپﷺ نے فرمایا: ''ایسا نہ کریں توبہتر ہوگا ''چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگا یا تو کھجور خراب ہوگئی، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ ﷺنے فرمایا: ''تمہاری دنیا کا جو کا م ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو ''۔
وضاحت ۱؎ : تأبیر یا تلقیح : نرکھجور کے شگوفے (کلی) مادہ کھجور میں ڈالنے کو تلقیح یا تابیر کہتے ہیں، ایسا کرنے سے کھجور کے درخت خوب پھل لاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاثٍ
۱۶- باب: تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت کا بیان​


2472- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ خِرَاشِ بْنِ حَوْشَبٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاثٍ فِي الْمَاءِ وَالْكَلإِ وَالنَّارِ. وَثَمَنُهُ حَرَامٌ >.
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ : يَعْنِي الْمَاءَ الْجَارِيَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۸، ومصباح الزجاجۃ: ۸۶۹) (صحیح)
(سند میں عبد اللہ بن خراش ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے،''وثمنہ حرام'' کا جملہ شاہد نہ ہونے سے ضعیف ہے)
۲۴۷۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت (ساجھے داری) ہے: پانی،گھاس اور آگ، ان کی قیمت لینا حرام ہے '' ۱؎ ۔
ابو سعید کہتے ہیں: پانی سے مراد بہتا پانی ہے۔


2473- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < ثَلاثٌ لا يُمْنَعْنَ الْمَاءُ وَالْكَلأُ وَالنَّارُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۰) (صحیح)
۲۴۷۳- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا : پانی، گھاس اور آگ ''۔


2474- حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الشَّيْئُ الَّذِي لا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: < الْمَاءُ وَالْمِلْحُ وَالنَّارُ > قَالَتْ: قُلْتُ يَارَسُولَ اللَّهِ! هَذَا الْمَاءُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا بَالُ الْمِلْحِ وَالنَّارِ؟ قَالَ: < يَا حُمَيْرَاءُ! مَنْ أَعْطَى نَارًا، فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا أَنْضَجَتْ تِلْكَ النَّارُ، وَمَنْ أَعْطَى مِلْحًا فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا طَيَّبَ ذَلِكَ الْمِلْحُ، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَائٍ، حَيْثُ يُوجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً، وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَائٍ حَيْثُ لا يُوجَدُ الْمَاءُ، فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۱) (ضعیف)
( علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۳۳۸۴)
۲۴۷۴- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سی ایسی چیز ہے جس کا روکنا جائز نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''پانی، نمک اور آگ''میں نے کہا: اللہ کے رسول !پانی تو ہمیں معلوم ہے کہ اس کا روکنا جائز اور حلال نہیں؟لیکن نمک اور آگ کیوں جائز نہیں، آپ ﷺنے فرمایا : ''اے حمیرا ء! ۱؎ جس نے آگ دی گو یا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جو اس پر پکا، اور جس نے نمک دیا گویا اس نے وہ تمام کھانا صدقہ کیا جس کو اس نمک نے مزے دار بنایا، اور جس نے کسی مسلمان کو جہاں پانی ملتا ہے، ایک گھونٹ پانی پلایا گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جس نے کسی مسلمان کو ایسی جگہ ایک گھونٹ پانی پلایا جہا ں پانی نہ ملتا ہو گویا اس نے اس کو نئی زند گی بخشی ''۔
وضاحت ۱؎ : حمیرا ء : حمراء کی تصغیر ہے یعنی اے گو ری چٹی سرخی مائل رنگت والی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب إِقْطَاعِ الأَنْهَارِ وَالْعُيُونِ
۱۷-باب: نہروں اور چشموں کو جاگیرمیں دینے کا بیان​


2475- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ اسْتَقْطَعَ الْمِلْحَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ مِلْحُ سُدِّ مَأْرِبٍ، فَأَقْطَعَهُ لَهُ ثُمَّ إِنَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ التَّمِيمِيَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي قَدْ وَرَدْتُ الْمِلْحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مَائٌ، وَمَنْ وَرَدَهُ أَخَذَهُ، وَهُوَ مِثْلُ الْمَاءِ الْعِدِّ، فَاسْتَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبْيَضَ بْنَ حَمَّالٍ فِي قَطِيعَتِهِ فِي الْمِلْحِ، فَقَالَ: قَدْ أَقَلْتُكَ مِنْهُ عَلَى أَنْ تَجْعَلَهُ مِنِّي صَدَقَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هُوَ مِنْكَ صَدَقَةٌ، وَهُوَ مِثْلُ الْمَاءِ الْعِدِّ، مَنْ وَرَدَهُ أَخَذَهُ >.
قَالَ فَرَجٌ : وَهُوَ الْيَوْمَ عَلَى ذَلِكَ، مَنْ وَرَدَهُ أَخَذَهُ.
قَالَ : فَقَطَعَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَرْضًا وَنَخْلا، بِالْجَرفِ جَرفِ مُرَادٍ مَكَانَهُ حِينَ أَقَالَهُ مِنْهُ۔
* تخريج: د/الخراج ۳۶ (۳۰۶۴)، ت/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن)
۲۴۷۵- ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس نمک کوجو ''نمک سدمآرب''کے نام سے جانا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ سے بطور جاگیر طلب کیا،تو آپ ﷺنے اسے انہیں جاگیر میں دے دیا، پھر اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ رسول اکرمﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا: میں زمانہ جاہلیت میں اس نمک کی کان پر سے گزر چکا ہوں، وہ ایسی زمین میں ہے جہاں پانی نہیں ہے، جووہاں جاتا ہے، وہاں سے نمک لے جاتا ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہے ،جس کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ابیض بن حمال سے نمک کی اس جاگیرکو فسخ کر دینے کو کہا، ابیض رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اس کو اس شرط پرفسخ کرتا ہوں کہ آپﷺ اسے میری طرف سے صدقہ کردیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اچھا وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہے اور وہ جاری پانی کے مثل ہے، جو آئے اس سے لے جائے ''۔
فرج بن سعید کہتے ہیں: اور وہ آج تک ویسے ہی ہے ، جو وہاں جاتا ہے اس میں سے نمک لے جاتاہے۔
ابیض رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : پھر نبی اکرمﷺ نے انہیں اس جا گیر کے عوض جو آپ نے فسخ کردی تھی جرف یعنی جرف مراد (ایک مقام کا نام ہے ) میں زمین اور کھجور کے کچھ درخت جا گیر کے طور پر دیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ
۱۸-باب: پانی بیچنے کی ممانعت​


2476- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ: سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ عَبْدٍالْمُزَنِيَّ، وَرَأَى نَاسًا يَبِيعُونَ الْمَاءَ، فَقَالَ: لا تَبِيعُوا الْمَاءَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُبَاعَ الْمَائُـ۔
* تخريج: د/البیوع ۶۳ (۳۴۷۸)، ت/البیوع ۴۴ (۱۲۷۱)، ن/البیوع ۸۶ (۴۶۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۳۸، ۴۱۷)، دي/البیوع ۶۹ (۲۶۵۴) (صحیح)
۲۴۷۶- ابو منہال کہتے ہیں کہ میں نے ایاس بن عبداللہ مزنیرضی اللہ عنہ سے سنا، انھوںنے کچھ لوگوں کو پانی بیچتے ہوئے دیکھا تو کہا :پانی نہ بیچو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے پانی بیچنے سے منع کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جب ہے کہ پانی کسی قدرتی دریا یا چشمہ میں موجود ہو تو وہ کسی کی ملکیت نہیں ،اس کا بیچنا ناجائز ہے ، لیکن اگر کوئی پانی بھر کر لائے اور گھڑے یا مشک یا بوتل وغیرہ میں رکھے تو اس کا استعمال بغیر اس کی اجازت کے درست نہیں ہے، اور اس کا بیچنا جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بئر رومہ خریدنے کے لئے فرمایا ، اور آپﷺ نے ایک عورت سے پانی لیا جو اونٹ پر لائی تھی پھر لوگوں سے اس کی قیمت دلائی ۔


2477- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۸ (۱۵۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۲۹)، و قد أخرجہ: حم (۳/۳۵۶) (صحیح)
۲۴۷۷- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زائد پانی سے مراد وہ پانی ہے جو اپنی اور اہل وعیال ، جانوروں اور کھیتی کی ضرورت سے زائد ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب النَّهْيِ عَنْ مَنْعِ فَضْلِ الْمَاءِ لِيَمْنَعَ بِهِ الْكَلأَ
۱۹-باب: ضرورت سے زائد پانی سے روکنا تاکہ وہاں کی گھاس بھی روک لے منع ہے ۱؎​
وضاحت ۱؎ : مثلاً کسی میدان میں ایک شخص کنواں یاپا نی کے چشمے کا مالک ہے، اور اس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہے ، اور وہاں پر چراگاہ ہے جس میں سبزہ اور گھاس ہے ، اور اس کے علاوہ وہاں پانی نہیں ہے ، تو اس چشمے یا کنویں سے جانوروں کو پانی پلانے کی سہولت کے بعد ہی اس چراگاہ میں لوگ اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے لے آئیں گے ، تو ایسی صورت میں پانی کے مالک کے لیے یہ حرام اور ناجائز ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد پانی کو جانوروں کو پینے سے روک دے ، اور اس پر واجب ہے کہ بغیر عوض کے وہ لوگوں کو پانی استعمال کرنے دے ، اس لیے کہ اگراس نے لوگوں کو پانی نہ استعمال کرنے دیا تو لوگ اس ڈرسے کہ ان کے جانور پیاس سے مرجائیں گے ، اس چراگاہ کا رخ ہی نہیں کریں گے ، تو ایسی صورت میں پانی کے مالک کا پانی نہ دینا چراگاہ میں جانوروں کو چرنے سے روکنا ہے ۔
جمہور اہل علم حدیث میں وارد ممانعت سے ضرورت سے زائد پانی روکنے کو ناجائز اورحرام کہتے ہیں، بعض لوگوں کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے،یعنی پانی روکنا خلافِ اولیٰ ہے ، یعنی اچھی بات نہیں ہے ، بعض لوگوں کے نزدیک پانی کا روکنا ناجائز ہے ، لیکن جانوروں کے مالک سے وہ قیمت لے کر پانی دے ، اور اس کی مثال ایسے شخص کی ہوگی جو کسی آدمی کے کھانے کا واقعی میں محتاج ہوگا، تو وہ کھاناکھائے گا ، اور اس کی قیمت اس کے ذمہ واجب الاداہوگی ۔


2478- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا يَمْنَعْ أَحَدُكُمْ فَضْلَ مَائٍ، لِيَمْنَعَ بِهِ الْكَلأَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۲۵)، وقد أخرجہ: خ/المساقاۃ ۲ (۲۳۵۳)، م/المساقاۃ ۸ (۲۵۶۶)، ط/الأقضیۃ ۲۶ (۳۲)، حم (۲/۲۴۴، ۴۶۳) (صحیح)
۲۴۷۸- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''تم میں سے کوئی شخص ضرورت سے زائد پانی اس مقصد سے نہ روکے کہ وہاں کی گھاس بھی روکے رکھے ''۔


2479- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حَارِثَةَ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَاءِ، وَلا يُمْنَعُ نَقْعُ الْبِئْرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۵۲، ۲۶۸) (صحیح)
(سند میں حا رثہ بن أبی الرجال ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۴۷۹- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ضرورت سے زائد پانی سے اور کنوئیں میں بچے ہوئے پانی سے کسی کو نہ روکا جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ کنویں سے پانی نکالنے میں اپنا نقصان نہیں اور دوسرے کا فائدہ ہے ، اور اس سے کنویں کا پانی زیادہ صاف اور عمدہ ہوجاتا ہے اور اس میں اور تازہ پانی بھر آتا ہے، اور بعضوں نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ جو پانی اپنی ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا منع ہے جب کوئی اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے لیکن اگر باغ یا درختوں کو سینچنا چاہے تو اس کا بیچنا درست ہے، اور کنویں کا پانی بھی روکنا درست نہیں ہے اس سے جو اس کو پینا چاہے یا اپنے جانوروں کو پلانا چاہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب الشُّرْبِ مِنَ الأَوْدِيَةِ وَمِقْدَارِ حَبْسِ الْمَاءِ
۲۰-باب: کھیت اور باغ کے سینچنے اور کہاں تک پانی روکنا جائز ہے کا بیان​


2480- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرَّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ > فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ: < يَا زُبَيْرُ! اسْقِ ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ > قَالَ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ! إِنِّي لأَحْسِبُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}۔
* تخريج: انظر حدیث رقم:( ۱۵) (صحیح)
۲۴۸۰- عبدا للہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حّرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد ) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دوکہ آگے بہتا رہے،زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآ خر دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس معاملہ لے گئے ، رسول اللہ ﷺ نے فر مایا : زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہوگیا اور بولا: اللہ کے رسول ! وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں نا ؟ رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ ﷺنے فرمایا: ''زبیر! اپنے درختوں کو سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک بھر جائے''۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ، میں سمجھتا ہوں کہ آیت کریمہ : { فَلا وَرَبِّكَ لايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سورة النساء : 65] ( سو قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی او رناخوش نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں)، اسی معاملہ میں اتری ہے۔
وضاحت ۱؎ : انصاری کا نام اطب تھا، انہوں نے ناسمجھی کی بنیاد پر نبی اکرم ﷺ کی شان میں ایسی بات کہہ دی، کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایسا گستاخانہ جملہ نبی اکرم ﷺ کی شان میں کہے تو وہ کافر ہو جائے گا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر تھا ، لیکن یہ قول مرجوح ہے ، (واللہ اعلم)۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ ان کا باغ نہر کی جانب اونچائی پر تھا اور انصاری کا ڈھلان پر جس سے زبیر رضی اللہ عنہ کے باغ سے سا را پانی بہہ کر نکل جارہا تھا۔


2481- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَيْلِ مَهْزُورٍ، الأَعْلَى فَوْقَ الأَسْفَلِ، يَسْقِي الأَعْلَى إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلُ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۳)، وقد أخرجہ: د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۹) (حسن صحیح)
(سند میں زکریا بن منظور ضعیف ، اور محمد بن عقبہ مستور راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)۔
۲۴۸۱- ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے وادی مہزور کے نالہ کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اوپری حصہ نچلے حصہ سے برتر ہے، جس کا کھیت اونچائی پر ہو، پہلے سینچ لے، اور ٹخنوں تک پانی اپنے کھیت میں بھر لے، پھر پانی کو اس شخص کے لئے چھوڑ دے جس کا کھیت نشیب (ترائی) میں ہو۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : وہ بھی اپنے کھیت میں اتنا ہی پانی بھر کر تیسرے کی طرف چھوڑ دے جو اس سے نیچے علاقہ میں ہو ،اسی طرح اخیر کیفیت تک عمل کیا جائے ۔


2482- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى فِي سَيْلِ مَهْزُورٍ، أَنْ يُمْسِكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلَ الْمَاءَ۔
* تخريج: د/الاقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۵) (حسن صحیح)
۲۴۸۲- عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وادی مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی ٹخنوں تک روک لیا جا ئے، پھر اسے چھوڑ دیا جا ئے ۔


2483- حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى فِي شُرْبِ النَّخْلِ مِنَ السَّيْلِ أَنَّ الأَعْلَى فَالأَعْلَى يَشْرَبُ قَبْلَ الأَسْفَلِ، وَيُتْرَكُ الْمَاءُ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَاءُ إِلَى الأَسْفَلِ الَّذِي يَلِيهِ، وَكَذَلِكَ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْحَوَائِطُ أَوْ يَفْنَى الْمَاءُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۴ ) (صحیح)
(سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور ان کا عبادہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے)
۲۴۸۳- عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کے درختو ں کو نا لہ سے سینچنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺنے یہ فیصلہ کیا کہ جس کا باغ اونچا ئی پر ہو، پہلے وہ اپنے باغ کو ٹخنوں تک پانی سے بھرلے ،پھر پانی کو نیچے کی طرف جو اس کے قریب ہے اس کے لئے چھوڑ دے، اسی طرح سلسلہ بہ سلسلہ سیراب کیا جا ئے، یہاں تک کہ باغات سینچ کر ختم ہو جا ئیں یا پانی ختم ہوجائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب قِسْمَةِ الْمَاءِ
۲۱-باب: پانی کی تقسیم کا بیان​


2484- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو الْجَعْدِ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْروٍ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يُبَدَّأُ بِالْخَيْلِ يَوْمَ وِرْدِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۵) (ضعیف جدا)
( سند میں عمرو بن عوف المزنی ضعیف راوی ہیں، اور کثیر بن عبد اللہ سخت ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۳۳۸۴)
۲۴۸۴- عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب گھوڑے اپنی باری کے دن پانی پلانے کے لئے لائے جائیں تو الگ الگ لائے جائیں '' ۔


2485- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <كُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَهُوَ عَلَى مَا قُسِمَ، وَكُلُّ قَسْمٍ أَدْرَكَهُ الإِسْلامُ، فَهُوَ عَلَى قَسْمِ الإِسْلامِ >۔
* تخريج: د/الفرائض ۱۱ (۲۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۳) (صحیح)
۲۴۸۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا: '' زمانہ جا ہلیت میں جو تقسیم ہو چکی ہے وہ اسی طرح باقی رہے گی جیسی وہ ہوئی ہے، اور جو تقسیم زمانۂ اسلام میںہو ئی ہے وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوگی ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب حَرِيمِ الْبِئْرِ
۲۲-باب: کنویں کی چوحدی کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : حریم یعنی احاطہ اور چوحدی، مطلب یہ ہے کہ کوئی کنواں کھودے تو اس کے اردگرد کتنی دور تک اس کا احاطہ ہوگا ، یعنی جانور بٹھلانے کے لئے ان کو پانی پلانے کے لئے ۔


2486- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى (ح) وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ الْمَكِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ حَفَرَ بِئْرًا فَلَهُ أَرْبَعُونَ ذِرَاعًا عَطَنًا لِمَاشِيَتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۶)، دي/البیوع ۸۲ (۲۶۶۸) (حسن)
(سند میں اسماعیل بن مسلم المکی ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۲۵۱)
۲۴۸۶- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''جو کنواں کھودے تو اس کے گرد چالیس ہاتھ تک کی زمین اس کی ہوگی، اس کے جا نوروں کو پانی پلانے اور بٹھا نے کے لئے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کنویں کی ہر جانب چالیس ہاتھ تک اس کا علاقہ ہوگا کیونکہ عادتاً اتنی جگہ جانوروں کے لئے کافی ہوجاتی ہے ، اور بعضوں نے کہا یہ جب ہے کہ کنویں کی گہرائی چالیس ہاتھ ہو اگر اس سے زیادہ ہو تو اتنے ہی ہاتھ ہر طرف جگہ ملے گی ۔


2487- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي الصُّغْدِيِّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ صُقَيْرٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <حَرِيمُ الْبِئْرِ مَدُّ رِشَائِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸۶، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۷) (ضعیف)
(سند میں ''ثابت بن محمد '' ہے صحیح ''محمد بن ثابت ہے ''اور منصوربن صقیر ضعیف راوی ہیں )
۲۴۸۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ''کنویں کی چوحدی اس کی رسی کی لمبائی کے برابر ہوگی ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب حَرِيمِ الشَّجَرِ
۲۳-باب: درخت کی چوحدی کا بیان​


2488- حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ خَالِدٍ النُّمَيْرِيُّ، أَبُو الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى فِي النَّخْلَةِ وَالنَّخْلَتَيْنِ وَالثَّلاثَةِ لِلرَّجُلِ فِي النَّخْلِ، فَيَخْتَلِفُونَ فِي حُقُوقِ ذَلِكَ، فَقَضَى أَنَّ لِكُلِّ نَخْلَةٍ مِنْ أُولَئِكَ مِنَ الأَسْفَلِ، مَبْلَغُ جَرِيدِهَا حَرِيمٌ لَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۷، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۸) (صحیح)
(سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول ہیں، اور ان کی عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں انقطاع ہے کیونکہ عبادہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے: ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۵۰)
۲۴۸۸- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ باغ میں کسی شخص کے ایک یا دو یا تین درخت ہوں،پھر لوگ اختلاف کریں کہ کتنی زمین پر ان کا حق ہے؟ تو اس بارے میں رسو ل اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا:'' ہر درخت کے لئے نیچے کی اتنی زمین ہے جہاں تک اس کی ڈالیاں پھیلی ہیں، وہی اس درخت کی چوحدی ہے ''۔


2489- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي الصُّغْدِيِّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ صُقَيْرٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < حَرِيمُ النَّخْلَةِ مَدُّ جَرِيدِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۸۷۹) (صحیح)
(سندمیں ثابت بن محمد غلط ہے، صحیح ''محمد بن ثابت ''ہے، نیز منصور بن صقیر ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۲۵۰)
۲۴۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: '' کھجور کے درخت کی چوحدی اس کی ڈالیوں کی لمبائی کے برابر ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَنْ بَاعَ عَقَارًا وَلَمْ يَجْعَلْ ثَمَنَهُ فِي مِثْلِهِ
۲۴-باب: جوشخص جائداد بیچ ڈالے اور اس سے دوسری جائداد نہ خریدے تواس کے حکم کا بیان​



2490- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ حُرَيْثٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ بَاعَ دَارًا أَوْ عَقَارًا فَلَمْ يَجْعَلْ ثَمَنَهُ فِي مِثْلِهِ كَانَ قَمِنًا أَنْ لايُبَارَكَ فِيهِ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۷، ۴/۳۰۷)، دي/البیوع ۸۱ (۲۶۶۷) (حسن)
(سند میں اسماعیل بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے ،نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۲۳۲۷)
۲۴۹۰- سعید بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' جوکوئی گھر یا غیر منقولہ جا ئداد بیچے اور پھر ویسی ہی جائدادا س کی قیمت سے نہ خریدے، تو وہ اس لائق ہے کہ اس میں اس کو برکت نہ دی جا ئے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سبحان اللہ یہ حدیث دنیا داروں کے لئے بڑی نصیحت ہے، نقد پیسہ ہمیشہ صرف ہوجاتا ہے کبھی چوری ہوجاتا ہے یا لٹ جاتا ہے، برخلاف جائداد غیر منقولہ کے، تو آپ ﷺ نے جائداد بیچنے کو مکروہ جانا جب اس کے بدل دوسری جائداد نہ خریدے ، کیونکہ نقد پیسہ رکھنے سے تو یہی بہتر تھا کہ جائداد اپنے پاس رہنے دیتا ۔


2490/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنِي إِسمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَخِيهِ سَعِيدِ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ، تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۳) (حسن)
۲۴۹۰/أ- اس سند سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔


2491- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَعَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُومَالِكٍ النَّخَعِيُّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ حُذَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَنْ بَاعَ دَارًا وَلَمْ يَجْعَلْ ثَمَنَهَا فِي مِثْلِهَا لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۸۸۲) (حسن)
(سند میں یوسف بن میمون ضعیف راوی ہیں، لیکن یزید بن أبی خالد کی بیہقی میں متابعت سے یہ حسن ہے )
۲۴۹۱- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا: ''جو کوئی گھر بیچے اور پھر اس کی قیمت سے ویسا ہی دوسرا گھر نہ خریدے، تو اس میں اس کو برکت نہیں ہوگی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بلکہ نقد پیسہ اٹھا اٹھاکر ختم کردے گا، اور ایک رہنے کا آسرا بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔


***​
 
Top