- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
15-بَاب تَلْقِيحِ النَّخْلِ
۱۵-باب: کھجور کے درخت میں پیوند کاری کا بیان
2470- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي نَخْلٍ، فَرَأَى قَوْمًا يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: < مَا يَصْنَعُ هَؤُلاءِ؟ > قَالُوا: يَأْخُذُونَ مِنَ الذَّكَرِ فَيَجْعَلُونَهُ فِي الأُنْثَى قَالَ: < مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا > فَبَلَغَهُمْ، فَتَرَكُوهُ، فَنَزَلُوا عَنْهَا، فَبَلَغَ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: < إِنَّمَا هُوَ الظَّنُّ،إِنْ كَانَ يُغْنِي شَيْئًا فَاصْنَعُوهُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، وَإِنَّ الظَّنَّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ، وَلَكِنْ مَا قُلْتُ لَكُمْ: قَالَ اللَّهُ - فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۳۸ (۲۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۲) (صحیح)
۲۴۷۰- طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزرا، تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں،آپ ﷺنے پو چھا: '' یہ لو گ کیا کررہے ہیں ''؟ لو گوں نے عرض کیا: نر کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں،آپﷺ نے فر مایا: '' میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے کو ئی فائدہ ہوگا ''، یہ خبرجب ان صحابہ کو پہنچی تو انھوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا، لیکن اس سے درختوں میں پھل کم آئے، پھر یہ بات نبی اکرم ﷺ کوپہنچی تو آپﷺ نے فرمایا : ''یہ میرا گمان تھا، اگر اس میں فائدہ ہے تو اسے کرو، میں تو تمہی جیسا ایک آدمی ہوں گمان کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح، لیکن جو میں تم سے کہوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے (تو وہ غلط نہیں ہو سکتا ہے )کیونکہ میں اللہ تعالی پر ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا '' ۱؎
وضاحت ۱؎ : جب نبی کریم ﷺ نے جو معصوم اور اللہ کے سب سے محبوب اور سب سے اچھے بندے تھے، یہ فرمایا کہ میری رائے کبھی غلط ہوتی ہے کبھی صحیح ، تو اور کسی مجتہد یا عالم یا مولوی کی کیا حقیقت رہی جو ہمیشہ اس کی رائے صحیح ہی ہوا کرے ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو جن باتوں میں وحی نہیں ہوتی تھی، اپنی رائے سے حکم دیتے پھر وہ رائے اگر غلط ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو مطلع کردیتا ، تو یہ ممکن نہیں کہ آپ ہمیشہ غلط رائے پر قائم رہیں ،صحیح مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تم کو دنیاکے امورمعاملات کا زیادہ علم ہے، یعنی دنیا کے وہ کام جن میں حکم الٰہی کچھ نہیں اترا، اور دنیا کے جن کاموں میں شریعت کاحکم موجود ہے جیسے بیع وشراء، طلاق اورنکاح وغیرہ ان میں شرع کے مطابق چلنا ضروری ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں ایسے گمراہ لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا کے تمام کاموں میں شریعت کو مطلقاً چھوڑدیا، اور اپنی خواہش نفس کے مطابق چلنا جائز رکھا ہے، یہ سراسرمغالطہ ہے، اللہ بچائے ۔
2471- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ أَصْوَاتًا، فَقَالَ: < مَا هَذَا الصَّوْتُ؟ > قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهَا، فَقَالَ: < لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلَحَ> فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: <إِنْ كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ، فَشَأْنُكُمْ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أُمُورِ دِينِكُمْ، فَإِلَيَّ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۳۸ (۲۳۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸، ۱۶۸۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۳، ۱۵۲) (صحیح)
۲۴۷۱- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ آواز یں سنیں تو پوچھا: ''یہ کیسی آواز ہے'' ؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں ۱؎ ،تو آپﷺ نے فرمایا: ''ایسا نہ کریں توبہتر ہوگا ''چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگا یا تو کھجور خراب ہوگئی، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ ﷺنے فرمایا: ''تمہاری دنیا کا جو کا م ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو ''۔
وضاحت ۱؎ : تأبیر یا تلقیح : نرکھجور کے شگوفے (کلی) مادہ کھجور میں ڈالنے کو تلقیح یا تابیر کہتے ہیں، ایسا کرنے سے کھجور کے درخت خوب پھل لاتے ہیں۔