• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب الْمُكَاتَبِ
۳- باب: مکاتب غلام کا بیان​


2518- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ثَلاثَةٌ كُلُّهُمْ، حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُ: الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ التَّعَفُّفَ >۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد۲۰ (۱۶۵۵)، ن/الجہاد ۱۳ (۳۱۲۳)، النکاح ۵ (۳۲۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۱، ۴۳۷) (حسن)
۲۵۱۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا: ''تین قسم کے لو گ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کر نا اللہ پر حق ہے، ایک وہ جو اللہ تعالی کی راہ کاغازی ہو ، دوسرے وہ مکا تب ۱؎ جو بدل کتا بت ادا کرنے کاارادہ رکھتاہو ، تیسرا وہ شخص جوپاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے '' ۔
وضاحت ۱؎ : مکاتب : وہ لونڈی یا غلام جس سے مالک کہے کہ تم اتنا مال ادا کردو تو تم آزاد ہو۔


2519- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّمَا عَبْدٍ كُوتِبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَأَدَّاهَا إِلا عَشْرَ أُوقِيَّاتٍ، فَهُوَ رَقِيقٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۴)، وقد أخرجہ: د/العتق ۱ (۳۹۲۷)، ت/البیوع ۳۵ (۱۲۶۰) (حسن)
( سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن متابعت کی وجہ سے یہحسن ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۶۷۴)۔
۲۵۱۹- عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ''جس غلام سے سو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی گئی ہو، اور وہ سوائے دس اوقیہ کے باقی تما م ادا کردے، تو وہ غلام ہی رہے گا '' ( جب تک پورا ادا نہ کردے ) ۔
وضاحت ۱؎ : اوقیہ : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، جو تقریباً ایک سو اٹھارہ گرام کے مساوی ہوتا ہے۔


2520- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < إِذَا كَانَ لإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ، وَكَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ >۔
* تخريج: د/العتق ۱ (۳۹۲۸)، ت/البیوع ۳۵ (۱۲۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۸۹) (ضعیف)
(سند میں نبہان مجہول راوی ہیں، نیز یہ حدیث اگلی حدیث کے مخالف بھی ہے )
۲۵۲۰- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر تم میں سے کسی کے پاس مکا تب غلام ہو، اور اس کے پاس اس قدر مال ہو گیا ہو کہ وہ اپنا بدل کتابت اداکرسکے، تو تم لو گو ں کو اس سے پر دہ کر نا چا ہئے۔
2

521- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْهَا وَهِيَ مُكَاتَبَةٌ، قَدْ كَاتَبَهَا أَهْلُهَا عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فَقَالَتْ لَهَا: إِنْ شَاءَ أَهْلُكِ عَدَدْتُ لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَكَانَ الْوَلاءُ لِي، قَالَ: فَأَتَتْ أَهْلَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُمْ، فَأَبَوْا إِلا أَنْ تَشْتَرِطَ الْوَلاءَ لَهُمْ، فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: < افْعَلِي > قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: < مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، كِتَابُ اللَّهِ أَحَقّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَالْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ >۔
* تخريج:خ/المکاتب ۳ (۲۵۶۳)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶۳)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳)، ت/البیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، ن/الطلاق ۳۱ (۳۴۸۳)، ط/الطلاق ۱۰ (۲۵)، حم (۶/۴۶، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۷۲، ۱۹۱، ۲۰۷)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۵) (صحیح)
۲۵۲۱- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس بر یرہ رضی اللہ عنہا آئیں جومکا تب (لونڈی )تھیں،ان کے مالکوں نے نواوقیہ پران سے مکاتبت کی تھی ، عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا:اگر تمہارے مالک چا ہیں تو تمہارا بدل مکا تبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء ( میراث) میری ہو گی ، چنا نچہ بر یرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیاتو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کر لی کہ ولاء (میراث) کا حق خودان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپﷺ نے فر ما یا: '' تم اپنا کام کرڈالو ''، اور پھر آپ نے کھڑے ہوکر لو گوں میں خطبہ دیا، اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرکے فرمایا: ''آخر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شر طیں لگا تے ہیں جو اللہ تعالی کی کتاب میںنہیںہیں،اور ہر وہ شرط جواللہ تعا لی کی کتاب میں نہ ہو با طل ہے،اگر چہ ایسی سوشرطیں ہوں، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ حقدار اور اللہ تعالی کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے،ولاء اسی کا حق ہے جو(مکا تب کی طرف سے مال ادا کرکے) اسے آزاد کرے ''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مکاتب جب بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے تو وہ پھر غلام ہوجاتا ہے، اور اس کی بیع درست ہوجاتی ہے، اور بریرہ رضی اللہ عنہا کا یہی حال ہوا تھا، جب تو ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خریدکر کے آزاد کردیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب الْعِتْقِ
۴- باب: غلام آزاد کرنے کا بیان​


2522- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، قَالَ: قُلْتُ لِكَعْبٍ: يَا كَعْبَ بْنَ مُرَّةَ! حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزِءُ كُلُّ عَظْمٍ مِنْهُ بِكُلِّ عَظْمٍ مِنْهُ، وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ، كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزِءُ بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْهُمَا عَظْمٌ مِنْهُ >۔
* تخريج: د/العتق ۱۴(۳۹۶۷)، ن/الجہاد ۲۶ (۳۱۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۳)، وقد أخرجہ: ت/فضائل الجہاد ۹ (۱۶۳۴)، حم (۴/۲۳۵، ۲۳۶) (صحیح)
۲۵۲۲- شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا : کعب بن مرہ !ہم سے رسو ل اللہ ﷺ کی حدیث بیان کریں،اور احتیاط سے کام لیں ، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: '' جو شخص کسی مسلمان کو آزادکرے گا تو وہ اس کے لئے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا ، اس کی ہرہڈی اس کی ہر ہڈی کافدیہ بنے گی، اور جو شخص دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے گا تو یہ دونو ں اس کے لئے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنیں گی ، ان کی دو ہڈیاں اس کی ایک ہڈی کے برابر ہوں گی '' ۔


2523- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < أَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا وَأَغْلاهَا ثَمَنًا >۔
* تخريج: خ/العتق ۲ (۲۵۱۸)، م/الإیمان ۳۵ (۸۴)، ن/الجہاد ۱۷ (۳۱۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۰۴) (صحیح)
۲۵۲۳- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول!کون سا غلام آزاد کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''جو مالکوں کو سب سے زیادہ پسند ہو، اور جوقیمت کے اعتبار سے سب سے مہنگا ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں ہمیشہ عمدہ اور قیمتی چیز دینا بہتر ہے ، کیونکہ وہ شہنشاہ بے پرواہ ہے اس کو کسی چیزکی پرواہ نہیں ، اور ادب بھی یہی ہے کہ اس کے نام پر وہی چیز دیں جو نہایت محبوب اور مرغوب اور قیمتی ہو : {لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ } (سورة آل عمران : 92) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ
۵- باب: محرم رشتہ دار کی ملکیت میں آجانے پر ان کے آزاد ہوجانے کا بیان​


2524- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَاصِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ، فَهُوَ حُرٌّ >۔
* تخريج: د/العتق ۷ (۳۹۴۹)، ت/الأحکام ۲۸ (۱۳۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۰، ۴۵۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵، ۱۸، ۲۰) (صحیح)
( حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے ،اور حاکم نے صحیح ، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی ہے، حالانکہ سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع سمرۃ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ کا ہے، دوسری کوئی حدیث ان سے نہیں سنی ہے، لیکن حدیث اپنے طرق وشواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۷۴۶)
۲۵۲۴- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : ''جو کسی محرم رشتے دار کا مالک بن جائے تو وہ آزادہے''۔


2525- حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الْجَهْمِ الأَنْمَاطِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ ابْنُ رَبِيعَةَ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ، فَهُوَ حُرٌّ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۵)، ت/الأحکام ۲۸ (۱۳۶۵ تعلیقاً) (صحیح)
(ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۷۴۶)۔
۲۵۲۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا : ''جو کسی محرم رشتے دار کا مالک ہو جائے تووہ آزاد ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ
۷- باب: ساجھے کاغلام ہو اورساجھی دار اپنا حصہ آزاد کردے تو ایسے غلام کا حکم​


2527- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ، أَوْ شِقْصًا، فَعَلَيْهِ خَلاصُهُ مِنْ مَالِهِ، إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ اسْتُسْعِيَ الْعَبْدُ فِي قِيمَتِهِ، غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ۔
* تخريج: خ/ الشرکۃ ۵ ( ۲۴۹۲)، ۱۴ (۲۵۰۴)، العتق ۵ (۲۵۲۶، ۲۵۲۷)، م/العتق ۱ (۱۵۰۳)، د/العتق ۳ (۳۹۳۴)، ت/الأحکام ۱۴(۱۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۵، ۳۴۷، ۴۲۶، ۴۶۸، ۴۷۲، ۵۳۱) (صحیح)
۲۵۲۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا : ''جو کوئی کسی (مشترک ) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے ،تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرا ئے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے با قی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لئے مزدوری کرائے،لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے '' ۔


2528- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ،أُقِيمَ عَلَيْهِ بِقِيمَةِ عَدْلٍ، فَأَعْطَى شُرَكَائَهُ حِصَصَهُمْ إِنْ كَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ، وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِلا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ >۔
* تخريج: خ/العتق ۴ (۲۵۲۲)، الشرکۃ ۵ (۲۴۹۱)، ۱۴ (۲۵۰۳)، م/العتق ۱ (۱۵۰۱)، الأإیمان ۱۲ (۱۵۰۱)، د/العتق ۶ (۳۹۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۰۴)، وقد أخرجہ: ت/الأحکام ۱۴ (۱۳۴۶)، ن/ البیوع ۱۰۴ (۴۷۰۳)، ط/العتق ۱ (۱)، حم (۲/۲، ۱۵، ۳۴، ۷۷، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۴۲، ۱۵۶) (صحیح)
۲۵۲۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا: ''جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شر کاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہوگی، بشر طیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صو رت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ
۸- باب: جو شخص غلام آزاد کردے اور اس کے پاس مال ہو تو ما ل کا حق دار کون ہوگا؟​


2529- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، جَمِيعًا، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ، فَمَالُ الْعَبْدِ لَهُ، إِلا أَنْ يَشْتَرِطَ السَّيِّدُ مَالَهُ، فَيَكُونَ لَهُ >.
قَالَ ابْنُ لَهِيعَةَ: إِلا أَنْ يَسْتَثْنِيَهُ السَّيِّدُ۔
* تخريج: د/العتق ۱۱ (۳۹۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۰۴)، وقد أخرجہ: خ/المساقاۃ ۱۷ (۲۳۷۹)، م/البیوع ۱۵ (۱۵۴۳)، ت/البیوع ۲۵ (۱۲۴۴) (صحیح)
۲۵۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا: ''جو شخص کسی ایسے غلام کو آزاد کرے جس کے پاس مال ہو، وہ مال غلام ہی کا ہوگا ،سوائے اس کے کہ مالک غلام سے اس کے مال کی شرط لگالے تو وہ مال مالک کا ہو گا ''۔
ابن لہیعہ کی روایت میں (شرط کے بجا ئے ) ''إِلا أَنْ يَسْتَثْنِيَهُ السَّيِّدُ''ہے ( سو ائے اس کے کہ مالک مال کا استثناء کرلے)۔


2530- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرٍ، وَهُوَ مَوْلَى ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ قَالَ لَهُ: يَاعُمَيْرُ! إِنِّي أَعْتَقْتُكَ عِتْقًا هَنِيئًا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ غُلامًا، وَلَمْ يُسَمِّ مَالَهُ، فَالْمَالُ لَهُ > فَأَخْبِرْنِي مَا مَالُكَ؟.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف : ۹۴۹۳، ومصباح الزجاجۃ : ۸۹۶) (ضعیف)
(سند میں اسحاق بن ابراہیم المسعودی مجہول راوی ہیں، امام بخاری کہتے کہ حدیث کو مرفوع روایت کرنے میں ان کی متابعت نہیں کی جائے گی ، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۷۴۸)
۲۵۳۰- عمیر مولی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ا بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : عمیر ! میں نے تمہیں خوشی خوشی آزاد کر دیا، میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فر ما تے سنا ہے: '' جو شخص ایک غلام آزاد کرے اور اس کے مال کا تذ کرہ نہ کرے، تو وہ مال غلام کا ہو گا''، مجھے بتا ئو تمہا رے پاس کیا مال ہے؟۔


2530/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ؛ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ لِجَدِّي، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۷)
۲۵۳۰/أ- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب عِتْقِ وَلَدِ الزِّنَا
۹- باب: ولد الز نا کو آزاد کرنے کا بیان​


2531- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الضِّنِّي عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، مَوْلاةِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ عَنْ وَلَدِ الزِّنَا، فَقَالَ: < نَعْلانِ أُجَاهِدُ فِيهِمَا، خَيْرٌ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ وَلَدَ الزِّنَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۸، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۶۳)، (ضعیف)
(سند میں ابویزیدمجہول اور منکر الحدیث راوی ہے)
۲۵۳۱- نبی اکرم ﷺ کی لونڈی میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ولد الزنا کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا : ''جو تیوں کی ایسی جو ڑی جسے پہن کر جہاد کروں، وہ ولدالزنا کو آزاد کرنے سے بہتر ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَنْ أَرَادَ عِتْقَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ فَلْيَبْدَأْ بِالرَّجُلِ
۱۰- باب: میاں بیوی دونوں کو آزاد کرنا ہو تو پہلے آدمی کو آزاد کرے​


2532- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَ لَهَا غُلامٌ وَجَارِيَةٌ زَوْجٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُعْتِقَهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنْ أَعْتَقْتِهِمَا، فَابْدَئِي بِالرَّجُلِ قَبْلَ الْمَرْأَةِ >۔
* تخريج: د/الطلاق ۲ (۲۲۳۷)، ن/الطلاق ۲۸ (۳۴۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۴) (ضعیف)
(سند میں اسحاق بن منصور اور عبید اللہ بن عبد الرحمن بن موھب دونوں ضعیف ہیں)
۳۲ ۲۵- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی میاں بیوی تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسو ل! میں ان دونوں کو آزاد کر نا چاہتی ہوں،رسو ل اللہ ﷺنے فر ما یا : ''اگرتم ان دونوں کو آزاد کر نا چا ہتی ہو تو عورت سے پہلے مردکو آزاد کرو '' ۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

{ 20-كِتَاب الْحُدُودِ }
۲۰-کتاب: حدود کے احکام ومسائل ۱؎


1- بَاب لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلا فِي ثَلاثٍ
۱- باب: تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اورناجائز ہے ۲؎​
وضاحت ۱؎ : حدود: حدکی جمع ہے، یعنی دوچیز کے درمیان رُکاوٹ، اسی سے حدبندی بناہے ، شرعی اصطلاح میں ایسی سزاؤں کوحدودکہتے ہیں، جو اس طرح کے گناہ سے لوگوں کوروکتی ہیں جن کے بارے میں یہ سزامقررکی گئی ہے ، حدوداللہ کے تین معنی ہیں، اورتینوںقرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں استعمال ہوئے ہیں۔
(۱) حرام اورممنوع کام جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ، جیسے زنا ، اس کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے : {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّليْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ} [سورة البقرة:(187] (اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں زنا اور اس کے وسائل سے منع کیا اور اس کو حدوداللہ کہا )
(۲) شرعی احکام واوامرچاہے وہ واجب ہوںیا مستحب ہوںیا مباح ہوںتوان سے صرف نظرکرنا اللہ کی حدودسے تجاوز کرنا اور اس کوپھلانگنا ہے ، اوران معنوںمیں حدوداللہ کوچھوڑنا یا اس سے آگے جاناظلم وتعدی ہے اللہ کا ارشادہے: {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [سورة البقرة :229] یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو بیوی کواپنے پاس معروف طریقے پرجس کواللہ تعالیٰ نے مباح کیا ہے ، رکھنے کی حدتجاوز کرتے ہیں، یااحسان کے ساتھ اس کوچھوڑنے کی حدکوتجاوز رکرتے ہیںتواگرآدمی بیوی کو غیرمعروف طریقے پرروک لے یا احسان کے بغیرچھوڑے تو یہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزکوچھوڑکر حرام کی طرف جاتاہے ،تویہاں حدوداللہ سے مراداللہ کے احکام وفرامین ہیں، جن سے تجاوز کرنا اللہ کی حدکو پھلانگناہے ۔
(۳) حدوداللہ سے مراد وہ سزائیں ہیں جوحرام کاموں سے روکنے پرآدمی کو ابھارتی ہیں، توایسی حدودکواللہ کی حد کہا گیا ہے ، اور اس سے مراد زنا ، شراب پینا، چوری اورقتل کی سزائیں ہیں، صحیح حدیث میں آیا ہے کہ قریش کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی توقریش نے رسول اکرمﷺکے پاس اسامہ بن زید کو جوآپ کے بڑے چہیتے تھے سفارش کے لیے بھیجا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''أتشفع في حد من حدود اللہ '' (اسامہ تم حدوداللہ میں سے کسی حد کے بارے میں سفارش کررہے ہو) اس حدسے مراد چوری کا جرم تھا ۔
زیرنظر احادیث میں ان سزاؤں کا بیان ہے جن پر شریعت کی طرف سے حدمقررکی گئی ہے ، اوریہی کتاب الحدودکا عنوان ہے۔
وضاحت ۲؎ : حدود : وہ سزائیں ہیں جو شریعت میں بعض گناہوں پر مقرر کی گئی ہیں جیسے: زنا کی سزا شادی شدہ زانی کو پتھروں سے مار ڈالنا ،یا غیر شادی شدہ زانی کو سوکوڑے لگانا، اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ،اور شراب پینے والوں کی سزا جوتوں اور کوڑوں سے مارنا، اور تہمت لگانے کی سزا اسی (۸۰)کوڑے لگانا ، بغاوت کی سزا قتل، سولی یا ہاتھ پاؤں کاٹنا، یا قید کرنا یا جلاوطن کرنا ۔


2533- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يَذْكُرُونَ الْقَتْلَ فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونِي بِالْقَتْلِ فَلِمَ يَقْتُلُونِي؟ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلا فِي إِحْدَى ثَلاثٍ: رَجُلٌ زَنَى وَهُوَ مُحْصَنٌ فَرُجِمَ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ رَجُلٌ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلامِهِ > فَوَاللَّهِ! مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا فِي إِسْلامٍ، وَلا قَتَلْتُ نَفْسًا مُسْلِمَةً، وَلا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ ۔
* تخريج: د/الدیات ۳ (۴۵۰۲)، ت/الفتن ۱ (۲۱۵۸)، ن/المحاربۃ (تحریم الدم) ۶ (۴۰۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۶۱، ۶۲، ۶۵، ۷۰)، دي/الحدود ۱ (۲۳۴۳) (صحیح)
۲۵۳۳- ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں ) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: '' یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : '' کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیرحلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کاارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا ، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کردے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہو جائے)، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حجت قائم کی ان بے رحم باغیوں پر جو آپ کے قتل کے درپے تھے ، لیکن انہوں نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا، اور بڑی بے رحمی کے ساتھ گھر میں گھس کر آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ، اس وقت آپ صائم تھے، اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے ، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔


2534- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنِ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ وَهُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلا أَحَدُ ثَلاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ >۔
* تخريج: خ/الدیات ۶ (۶۸۷۶)، م/القسامۃ ۶ (۱۶۷۶)، د/الحدود ۱ (۴۳۵۲)، ت/الدیات ۱۰ (۱۴۰۲)، ن/المحاربۃ ۵ (۴۰۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۲، ۴۲۸، ۴۴۴، ۴۶۵)، دي/الحدود ۲ (۲۳۴۴) (صحیح)
۲۵۳۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے ،اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں ، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے : اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام ) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوگیا ہو(یعنی مرتد ہو گیا ہو) ''،(تو ان تین صورتوں میں اس کا خون حلال ہے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پس جہاں توحید ورسالت پر ایمان لایا، مسلمان ہوگیا ، اب اس کا خون بہانا حرام اورنا جائز ٹھہرا ، اگرچہ وہ دوسرے فروعی مسائل میں کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو ۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس عمدہ قانون کو چھوڑکر آپس ہی میں اختلاف وتشدد اورلڑائی جھگڑے کابازار گرم کیا، اور مسلمان مسلمان ہی کو مارنے لگے، اور ان کے بعض جاہل مولوی فتوی دینے لگے کہ فلاں مسلمان اس مسئلہ میں خلاف کرنے سے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہوگیا، حالانکہ صحیح حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو توحید اور رسالت کو مانتا ہو وہ مسلمان ہے، اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں ، اب اگر یہ کہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا تھا، حالانکہ وہ توحید اور رسالت کو مانتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکاۃ اسلام کا رکن ہے، اور اس کے ساتھ بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ پر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا تھا، جب انہوں نے ان لوگوں سے لڑنا چاہا تھا ، لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ امام اور خلیفہ وقت تھے، اور ان کی اطاعت بموجب حدیث نبوی واجب تھی اور انہوں نے دلیل لی دوسری احادیث وآیات سے ، اب ایسا واجب اطاعت امام اور خلیفہ کون ہے جس کے ماتحت ہوکر تم مسلمانوں سے لڑتے ہو اور ان کو ستاتے ہو، اور بات بات پر مارکاٹ اور زدوکوب اور سب وشتم کا ارتکاب کرتے ہو، بھلا دوران صلاۃ رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین زورسے یا آہستہ کہنا ، ہاتھ زیر ناف یا ٍسینے پر باندھنا، یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے مسلمانوںمیں فتنہ وفساد ہو ؟ اور ان کی عزت اور جان کوداؤپر لگایاجائے ؟ سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کے خلاف محاذآرائی کرنے والوں اوران کو مارنے پیٹنے والوں کا معاملہ قاتلین عثمان کی طرح ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے'' ، پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اورباہم متحدہوجائیں،مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب وہ آپس میں فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے ہیں تو ان کی اس ناسمجھی پر دشمن کتنا ہنستے اور خوش ہوتے ہیں، برخلاف مسلمانوں کے نصاری میں متعدد فرقے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی خیال کرتا ہے، لیکن عیسی علیہ السلام کے ماننے کی وجہ سے سب ایک رہتے ہیں، اور غیر مذہب والوں سے مقابلہ کرتے وقت سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون بن جاتے ہیں ، مسلمانوں کوبھی ایسا ہی کرناچاہئے کہ جوکوئی اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، محمد ﷺ کو سچا رسول اور آخری نبی جانے اس آدمی کو اپنا مسلمان بھائی سمجھیں ، گو فروعی مسائل میں اختلاف باقی رہے۔مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی یعنی کتاب وسنت کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑلیں اورآپس میں اختلاف نہ کریں ، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُواْ } [سورة آل عمران:103] (سب مل کراللہ کی رسی -یعنی اس کے دین اورکتاب وسنت - کومضبوطی سے تھام لواور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو)،نیز رسول اکرمﷺکا ارشادمبارک ہے : '' تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله و سنة رسوله'' (میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں یعنی کتاب اللہ وسنت رسول چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب الْمُرْتَدِّ عَنْ دِينِهِ
۲- باب: دین اسلام سے مرتد ہوجانے والے کا حکم​


2535- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ >۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۹ (۳۰۱۷)، المرتدین ۲ (۶۹۲۲)، د/الحدود ۱ (۴۳۵۱)، ت/الحدود ۲۵ (۱۴۵۸)، ن/الحدود ۱۱ (۴۰۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۲، ۲۸۳، ۳۲۳) (صحیح)
۲۵۳۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جواپنے دین ( اسلام ) کوبدل ڈالے اسے قتل کردو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین میں ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں ان کے پاس گئے ، وہاں ایک شخص بندھا ہوا تھا ، انہوں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا : یہودی تھاپھر مسلمان ہوگیا ،اب پھر یہودی ہوگیا ، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اسے قتل نہ کردیاجا ئے ،اور مرتد چاہے مرد ہو یا عورت واجب القتل ہے ۔امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے قید کریں گے، یہاں تک کہ دوبارہ دین اسلام میں داخل ہوجائے۔ اور فقہاء کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے مرتد کے ان شبہات کا ازالہ کریں گے جواس کو اسلام کے بارے میں لاحق ہے، اور تین دن تک قید میں رکھیں گے، اگر اس پر بھی مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کردیں گے۔


2536- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ، أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، عَمَلا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱ (۲۴۳۸)، ۷۳ (۲۵۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۵) (حسن)
۲۵۳۶- معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دار الکفر سے دار الاسلام میں آجائے ، مراد وہ دار الکفر ہے جہاں مسلمان اسلام کے ارکان اور عبادات بجانہ لاسکیں ، ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہے اور بعضوں نے کہا: مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہونے کا مقصدیہ ہے کہ کافروں کی عادات واخلاق چھوڑ دے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب إِقَامَةِ الْحُدُودِ
۳ - باب: حدودکے نفاذ کا بیان​


2537- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ أَبِي شَجَرَةَ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فِي بِلادِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۹) (حسن)
(سند میں سعید بن سنان ضعیف راوی ہے ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۳۳۱)
۲۵۳۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی ایک حد کا نافذکرنااللہ تعالی کی زمین پر چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جیسے بارش سے خوشحالی آجاتی ہے، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ ایسے ہی رعایا کی زندگی اسلامی حدود کے نافذ کرنے سے ہوتی ہے ، مجرمین کو سزا ہوتی ہے لوگوں کے جان ومال محفوظ رہتے ہیں ،اورلوگوں کو راحت حاصل ہوتی ہے ۔


2538 - حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يَزِيدَ قَالَ (أَظُنُّهُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ يَزِيدَ ) عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الأَرْضِ، خَيْرٌ لأَهْلِ الأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا >۔
* تخريج: ن/قطع السارق ۷ (۴۹۱۹، ۴۹۲۰ موقوفاً)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۲، ۴۰۲) (حسن )
(سند میں جریر بن یزید ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے)
۲۵۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' کوئی ایک حد جو دنیا میں نافذ ہو ، اہل زمین کے لئے یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ چالیس دن تک بارش ہو '' ۔


2539- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ جَحَدَ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ، فَقَدْ حَلَّ ضَرْبُ عُنُقِهِ، وَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَلا سَبِيلَ لأَحَدٍ عَلَيْهِ، إِلا أَنْ يُصِيبَ حَدًّا فَيُقَامَ عَلَيْهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۰) (ضعیف)
(سند میں حفص بن عمر ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۴۱۶)
۲۵۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو قرآن کی کسی آیت کا انکار کرے، اس کی گردن مارنا حلال ہے، اور جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، اس پر زیادتی کرنے کا اب کوئی راستہ باقی نہیں، مگر جب وہ کوئی ایسا کام کر گزرے جس پر حد ہوتو اس پر حد جاری کی جائے گی'' ۔


2540- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْمَفْلُوجُ حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ، وَلا تَأْخُذْكُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لائِمٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۹۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۳۰) (حسن)
۲۵۴۰- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی کی حدود کو نافذ کرو، خواہ کوئی قریبی ہو یادور کا، اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو '' ۔
 
Top