- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
3-بَاب الْمُكَاتَبِ
۳- باب: مکاتب غلام کا بیان
2518- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ثَلاثَةٌ كُلُّهُمْ، حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُ: الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ التَّعَفُّفَ >۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد۲۰ (۱۶۵۵)، ن/الجہاد ۱۳ (۳۱۲۳)، النکاح ۵ (۳۲۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۱، ۴۳۷) (حسن)
۲۵۱۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر ما یا: ''تین قسم کے لو گ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی مدد کر نا اللہ پر حق ہے، ایک وہ جو اللہ تعالی کی راہ کاغازی ہو ، دوسرے وہ مکا تب ۱؎ جو بدل کتا بت ادا کرنے کاارادہ رکھتاہو ، تیسرا وہ شخص جوپاک دامن رہنے کے ارادے سے نکاح کرے '' ۔
وضاحت ۱؎ : مکاتب : وہ لونڈی یا غلام جس سے مالک کہے کہ تم اتنا مال ادا کردو تو تم آزاد ہو۔
2519- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّمَا عَبْدٍ كُوتِبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَأَدَّاهَا إِلا عَشْرَ أُوقِيَّاتٍ، فَهُوَ رَقِيقٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۸۹۴)، وقد أخرجہ: د/العتق ۱ (۳۹۲۷)، ت/البیوع ۳۵ (۱۲۶۰) (حسن)
( سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن متابعت کی وجہ سے یہحسن ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء : ۱۶۷۴)۔
۲۵۱۹- عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ''جس غلام سے سو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی گئی ہو، اور وہ سوائے دس اوقیہ کے باقی تما م ادا کردے، تو وہ غلام ہی رہے گا '' ( جب تک پورا ادا نہ کردے ) ۔
وضاحت ۱؎ : اوقیہ : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، جو تقریباً ایک سو اٹھارہ گرام کے مساوی ہوتا ہے۔
2520- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < إِذَا كَانَ لإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ، وَكَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ >۔
* تخريج: د/العتق ۱ (۳۹۲۸)، ت/البیوع ۳۵ (۱۲۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۸۹) (ضعیف)
(سند میں نبہان مجہول راوی ہیں، نیز یہ حدیث اگلی حدیث کے مخالف بھی ہے )
۲۵۲۰- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اگر تم میں سے کسی کے پاس مکا تب غلام ہو، اور اس کے پاس اس قدر مال ہو گیا ہو کہ وہ اپنا بدل کتابت اداکرسکے، تو تم لو گو ں کو اس سے پر دہ کر نا چا ہئے۔
2
521- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْهَا وَهِيَ مُكَاتَبَةٌ، قَدْ كَاتَبَهَا أَهْلُهَا عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فَقَالَتْ لَهَا: إِنْ شَاءَ أَهْلُكِ عَدَدْتُ لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَكَانَ الْوَلاءُ لِي، قَالَ: فَأَتَتْ أَهْلَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُمْ، فَأَبَوْا إِلا أَنْ تَشْتَرِطَ الْوَلاءَ لَهُمْ، فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: < افْعَلِي > قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: < مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، كِتَابُ اللَّهِ أَحَقّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَالْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ >۔
* تخريج:خ/المکاتب ۳ (۲۵۶۳)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶۳)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳)، ت/البیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، ن/الطلاق ۳۱ (۳۴۸۳)، ط/الطلاق ۱۰ (۲۵)، حم (۶/۴۶، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۷۲، ۱۹۱، ۲۰۷)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۵) (صحیح)
۲۵۲۱- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس بر یرہ رضی اللہ عنہا آئیں جومکا تب (لونڈی )تھیں،ان کے مالکوں نے نواوقیہ پران سے مکاتبت کی تھی ، عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا:اگر تمہارے مالک چا ہیں تو تمہارا بدل مکا تبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء ( میراث) میری ہو گی ، چنا نچہ بر یرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیاتو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کر لی کہ ولاء (میراث) کا حق خودان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپﷺ نے فر ما یا: '' تم اپنا کام کرڈالو ''، اور پھر آپ نے کھڑے ہوکر لو گوں میں خطبہ دیا، اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرکے فرمایا: ''آخر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شر طیں لگا تے ہیں جو اللہ تعالی کی کتاب میںنہیںہیں،اور ہر وہ شرط جواللہ تعا لی کی کتاب میں نہ ہو با طل ہے،اگر چہ ایسی سوشرطیں ہوں، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ حقدار اور اللہ تعالی کی شرط سب سے زیادہ قوی ہے،ولاء اسی کا حق ہے جو(مکا تب کی طرف سے مال ادا کرکے) اسے آزاد کرے ''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مکاتب جب بدل کتابت کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے تو وہ پھر غلام ہوجاتا ہے، اور اس کی بیع درست ہوجاتی ہے، اور بریرہ رضی اللہ عنہا کا یہی حال ہوا تھا، جب تو ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خریدکر کے آزاد کردیا ۔