• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحیح الاسناد وحسن الاسناد :
کسی حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ صحیح الاسناد یا ضعیف الاسناد ہے، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ صحیح اور حسن کے درجہ کی ہو، اس لئے کہ صحت حدیث میں شذوذ اور علت کی نفی بھی ضروری ہے، اور صحیح الاسناد اور حسن الاسناد میں سند کا اتصال اور راوی کی عدالت اور حفظ وضبط کی بات ہے، ہاں اگر قابل اعتماد ناقدِ حدیث یہ دونوں صیغے استعمال کرے اور اس حدیث کی کوئی علت بھی نہ پائی جارہی ہو تو بظاہر متن کی صحت بھی مقصود ہے۔

ضعیف
ضعیف: وہ حدیث ہے جس کے رواۃ کے اندر حسن کے رواۃ کی صفات میں سے کوئی صفت یا پوری صفات نہ پائی جائیں، حدیث کے ضعف کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
۱- سند میں انقطاع جیسے : مرسل، معلق، معضل،منقطع، مدلس، مرسل خفی، معنعن، مؤنن۔
۲- راوی کی عدالت اور اس کے حفظ وضبط میں طعن ، راوی کی عدالت میں ہونے والے طعن میں راوی کا حدیث رسول میں کذاب ہونا یا لوگوں سے بات چیت میں جھوٹ بولنا یا فسق یا بدعت یا جہالت ہے، اور راوی کے حفظ وضبط میں طعن میں راوی کا فاحش الغلط ہونا، یا کمزور حافظے کا ہونا، یا غفلت کا شکار ہونا یا اوہام کی کثرت، یا ثقات کی مخالفت ۔
ضعیف کاحکم: ضعیف حدیث سے دلیل اورحجت پکڑنا جائزنہیں ، نیزاس کی روایت اور اس کا تذکرہ بھی اس کے حکم کو بیان کئے بغیرجائزنہیں، فضائل میں بھی اس سے استدلال جائز نہیں کیونکہ کسی عمل کی فضیلت بھی ایک شرعی حکم ہے اور کسی بھی شرعی حکم کے ثبوت کے لئے اس کا صحیح یاحسن سند سے منقول ہوناضروری ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرسل: وہ حدیث ہے جس کی روایت تابعی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہو، مثلاً کہے: ’’قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
مرسل کاحکم: مرسل ضعیف کی ایک قسم ہے، کیونکہ یہ نہیں معلوم کہ تابعی نے سندسے کسی صحابی ہی کوساقط کیا ہے یا صحابی کے ساتھ ساتھ کسی تابعی کو بھی ساقط کیا ہے جس سے اس نے براہِ راست حدیث لی تھی (تابعی سے تابعی کی روایت بہت معروف ہے ، بلکہ ایک سند میں کبھی کئی ایک تابعی ہواکرتے ہیں)اورتابعی ضعیف بھی ہوتے ہیں، اب معلوم نہیں کہ جس تابعی کوساقط کیاہے وہ ثقہ بھی ہے یانہیں، یعنی راوی کے مجہول ہو نے کے سبب مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے،اوراگرکسی ذریعہ سے یہ طے ہوجائے کہ تابعی نے صحابی ہی کوساقط کیا ہے توصحابی کے مجہول ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،اسی لئے سعید بن المسیب کی مرسل روایت قبول کی جاتی ہے، اسی طرح کسی اورمرسل سندسے یہ حدیث آجائے تو بھی وہ مرسل قبول کرلی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
معلق: وہ حدیث ہے جس کی سندکے شروع سے ایک یا کئی ایک راوی مسلسل یاسبھی رواۃ ساقط ہوں، اورچونکہ ساقط شدہ رواۃ کی عدالت اورضبط کاکچھ علم نہیں اس لئے معلق بھی ضعیف کے اقسام میں سے ہے، البتہ صحیح بخاری کی معلق روایات اگرمعروف صیغوں کے ساتھ مذکورہوں(جیسے قال ابن عباس: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم) توایک حدتک ان سے استناد کیا جاسکتاہے۔
معضل:وہ حدیث ہے جس کے سندکے درمیان سے دویادوسے زیادہ راوی مسلسل ساقط ہوں۔
منقطع : وہ حدیث ہے جس کے درمیان سندسے کوئی ایک راوی ساقط ہو، یہ سقوط ایک جگہ سے بھی ہوسکتاہے اورکئی جگہوں سے بھی (ابن حجر)۔
نوٹ: مذکورہ تعریف حافظ ابن حجرکی ہے اس کے لحاظ سے معضل اورمتعدد جگہوں سے ایک راوی کے سقوط والے منقطع میں فرق یہ ہے کہ معضل میں سقوط میں تسلسل ہوتا ہے اور منقطع میں تعددِ محل ضروری ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مدلس: تدلیس کے ساتھ روایت کی گئی حدیث یا خبرکو’’مُدَلَّس‘‘کہتے ہیں اوراس طرح کی روایت کرنے والے راوی کو ’’مُدَلِّسْ‘‘کہتے ہیں۔
تدلیس اوراس کی اقسام
تدلیس : لغت میں خریدار سے سامان کے عیب کو چھپانے کا نام تدلیس ہے۔ اصطلاح حدیث میں سند کے عیب پر پردہ ڈالنا اور ظاہری سند کو اچھا بنا کر پیش کرنے کا نام تدلیس ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک تدلیس الشیوخ اور دوسری تدلیس الاسناد ۔
۱- تدلیس الشیوخ : راوی اپنے شیخ کے معروف ومشہور نام کے بجائے اس کا کوئی غیرمعروف نام لے، جیسے : غیرمعروف لقب، یا کنیت ، یانسبت استعمال کرے ، تاکہ لوگ اس کی اصلیت کو نہ جان پائیں کیونکہ وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس کے ضعف کو چھپاناہی مقصودہوتا ہے ، اس کو ’’تدليس الشيوخ‘‘ کہتے ہیں۔
۲- تدلیس الاسناد: راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات توہواوراس سے روایت بھی لی ہومگراس حدیث کو اس شیخ سے نہ سناہو، جس سے تدلیس کررہا ہے یا ایسے راوی سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ہے لیکن اس سے کچھ سنا نہیں ہے، اور روایت کو عن فلانیا قال فلانجیسے الفاظ سے روایت کرے کہ اس راوی سے سماع کا دھوکہ ہو۔
اس کی تین صورتیں ہیں:
( ا ) تدلیس القطع: اسے تدلیس الحذف بھی کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ راوی سند کو کاٹ دینے یا حذف کردینے کی نیت سے روایت حدیث کے الفاظ کے درمیان سکوت اختیار کرلے۔
(ب) تدلیس العطف: اس میں راوی اپنے شیخ سے روایت میں تحدیث کی صراحت کرے اور اس پر کسی دوسرے شیخ کا عطف کرے، جس سے اس نے یہ حدیث نہیں سنی ہے۔
(ج) تدلیس التسویہ : راوی دو ثقہ کے درمیان موجود ضعیف راوی کو ساقط کردے ، ان میں سے ایک کی ملاقات دوسرے سے موجود ہے، اور یہ مدلس راوی اپنے ثقہ شیخ سے اور وہ دوسرے ثقہ راوی سے حدیث روایت کرے ، اور روایت میں عن وغیرہ الفاظ استعمال کرے جس سے سند کے متصل ہونے کا وہم ہو، تاکہ پوری سند ثقات پر مشتمل ہو اور یہ تدلیس کی سب سے خراب قسم ہے۔
’’معنعن‘‘ اور ’’عنعنه‘‘:تدلیسی روایات میں مدلِّس راوی ’’أخبرنا‘‘ یا ’’أخبرني‘‘یا ’’حدثنا‘‘یا حدثني یا ’’سمعت‘‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتاتاکہ ’’کذاب‘‘ نہ قرار دے دیاجائے بلکہ وہ ’’عن‘‘ یا ’’أنَّ‘‘ یا ’’قال‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے ، تو ’’عن‘‘ کے ذریعہ روایت کرنے کو ’’عنعنه‘‘کہتے ہیں۔اور ایسی روایت کو ’’معنعن‘‘کہتے ہیں۔
مُؤنَّنْ: اور’’أنّ‘‘کے ذریعہ روایت کو’’مؤنن‘‘کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرسل خفی: راوی ایسے آدمی سے روایت کرے جو اُس کے زمانہ میں موجودتو ہومگر اس سے اس کی ملاقات اورروایت نہ ہو، اورایسے الفاظ استعمال کرے جس سے سماع کادھوکہ ہوجیسے’’عن‘‘اور’’قال‘‘(تدلیس التسویہ اورارسال خفی میں یہی فرق ہے کہ تدلیس میں ملاقات اور روایت ہوتی ہے اورارسال خفی میں صرف زمانہ ایک ہوتا ہے لقاء اورسماع نہیں ہوتا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۲- راویِ میں کسی نقص اور عیب کے سبب ضعیف حدیث کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں

موضوع ، متروک، منکر، شاذ، معلل یامعلول ، مدرج، مقلوب، مضطرب، اورمصحف
موضوع: اگرراوی کاذب اور جھوٹا ہے اور اس نے اپنی طرف سے سند، یا متنِ حدیث وضع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے تواُس کی یہ گڑھی اور بنائی ہوئی حدیث ’’موضوع‘‘کہلاتی ہے ، اور یہ ضعیف کی سب سے بدترقسم ہے ، اس کے مرتکب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی وعیدسنائی ہے۔
متروك : اگرراوی اپنی عام بول چال میں جھوٹا آدمی ہواور اس کی روایت کردہ حدیث صرف اسی کے واسطے سے مروی ہو، اوروہ حدیث دین کے مُسَلَّمَاتَ کے خلاف ہوتو اس حدیث کو’’متروک‘‘کہتے ہیں، اس کا درجہ شناعت وقباحت میں موضوع کے بعدہے۔
منكر (ومعروف): وہ حدیث ہے جس کے راوی کے اندرازحدغفلت ، وہم، ظاہری فسق وفجورجیسے برے صفات پائے جاتے ہوں، یاکسی طرح کا کوئی ضعیف راوی کسی ثقہ (عادل وضابط) راوی کے برخلاف روایت کرے : توضعیف کی روایت ’’منکر‘‘اورثقہ کی روایت کو ’’معروف‘‘ کہاجاتاہے۔
شاذ (ومحفوظ): شاذبھی ضعیف کی ایک قسم ہے ، یہ ایسے ثقہ کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو،توکم ثقہ اور ثقہ کی روایت کوشاذاوراعلیٰ درجے کے ثقہ یا ثقات کی روایت کو ’’محفوظ‘‘کہاجاتاہے ، اورظاہربات ہے کہ تعارض کے وقت ’’محفوظ‘‘کو ترجیح دی جائے گی۔
مُعَلَّلْْ(یامعلول): اگرراوی کے اندرنقص ’’وہم‘‘ہوتواس کی روایت کومعلل یامعلول کہتے ہیں، اورسبب کو’’علت‘‘کہتے ہیں، مخفی علت صحتِ حدیث میں قادح ہوتی ہے ، اور اس پر بڑے بڑے ماہرمحدثین ہی مطلع ہوپاتے ہیں۔
مدرج: راوی کا اپنی طرف سے اسناد یامتن میں ایسااضافہ جوبظاہر اس کے اوپرکے راوی کے کلام (سندمیں) یامتنِ حدیث ہی سے معلوم ہو، راوی کسی وضاحت کے لئے ایساکرتا ہے لیکن سامع اس کو اصل سندیااصل متن میں سے سمجھ کر روایت کردیتاہے ، ادراج کاعلم اس روایت کے کسی اور سند سے مروی ہونے ، یاخودراوی کی وضاحت سے ہوتاہے (تعریف سے ظاہر ہے کہ ادراج سند اورمتن دونوںمیں ہوتا ہے)
مقلوب: سندیامتن میں الٹ پھیرکوکہتے ہیں جیسے کوئی ’’کعب بن مرّۃ‘‘کو’’مُرّہ بن کعب‘‘کردے ، یا روایت میں موجود ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد’’سالم‘‘کی جگہ دوسرے شاگرد ’’نافع‘‘ کانام لے لے (یہ مقلوبِ سندہے) یاجیسے مسلم کی مشہورحدیث: <لاَ تَعْلَمُ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ> کو "لاَ تَعلَمُ يَمِيْنُهُ مَا تُنْفِقُ شِمَالُهُ" کردیا ہے۔ (یہ مقلوبِ متن ہے)
مضطرب: کسی ایک ہی حدیث کا اس طرح مختلف شکلوں میں مروی ہونا کہ ان شکلوں کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو،اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں ،کسی کودوسرے پرکسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی شکل (روایت)قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے ، راجح شکل پر عمل کریں گے ، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکے تواس پر عمل کیاجائے گا۔
مُصَحَّفْْ: کسی لفظ کو(جوثقات سے مروی ہو)کسی دوسرے لفظ سے بدل کر روایت کردینا(یہ تبدیلی لفظی اورمعنوی دونوں ہوسکتی ہے)جیسے’’العوام بن مُراحم‘‘ (بالراء المهملة) کوالعوام بن مُزاحم (بالزاي المعجمة) کردینا،یاجیسے ’’احتجر في المسجد‘‘(مسجدمیں حجرہ بنایا) کو’’احتجم في المسجد‘‘(مسجدمیں پچھنالگایا)کردینا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۳-منسوب الیہ کے اعتبارسے حدیث کی قسمیں

حدیث یا خبر کسی ذات یا شخص سے منسوب ہوتی ہے یعنی ہرحدیث اورخبرکاایک مصدرہوتا ہے اس کو منسوب الیہ کہتے ہیں ،اس اعتبارسے حدیث کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
حدیث قدسی، حدیث مرفوع، موقوف،مقطوع، اوریہ اقسام صحیح ضعیف دونوںمیں مشترک ہیں۔
حدیث قدسی: وہ حدیث ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف کریں ، جیسے آپ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
مرفوع : وہ حدیث جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو، قولی ہویافعلی یاتقریری، احادیث کا بیشترحصہ حدیث مرفوع ہی پر مشتمل ہے، جیسے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے‘‘۔
موقوف: وہ خبرجوکسی صحابی کی طرف منسوب ہو،قولی ہویا فعلی یا تقریری جیسے : ’’عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورتوںکی مہروںمیں غلونہ کرو‘‘ (اس کو اثربھی کہتے ہیں)۔
مقطوع: وہ خبرجس کی نسبت تابعی یا تبع تابعی کی طرف ہو، جیسے حسن بصری کا فرمان ہے’’بدعتی کے پیچھے نمازپڑھ سکتے ہواس کی بدعت کاوبال اسی کے اوپرہوگا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۴- حدیث کی مشترک قسمیں

مسند: وہ مرفوع حدیث ہے جس کی سند متصل ہو ، اس کی سند کے اندر کسی طرح کا انقطاع نہ ہو(عام مرفوع حدیث: منقطع اور معضل بھی ہوسکتی ہے)۔
متصل : وہ حدیث یاخبرہے جس کی سندمتصل ہو، اس کی سندکے اندرکسی قسم کا انقطاع نہ ہو،خواہ مرفوع ہویا موقوف یا مقطوع۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۵- عام اصطلاحات

متابعات: سندکے کسی طبقہ میں واقع کسی راوی کے ساتھ کوئی اوربھی راوی اس حدیث کی روایت میں شریک ہولیکن صحابی ایک ہی ہوتودوسرے راوی کو یا اس کی روایت کو’’مُتابِع‘‘اورپہلے راوی کویااس کی روایت کو مُتَابَع‘‘کہتے ہیں ، اور اس عمل کومتابعت کہتے ہیں جس کی جمع ’’متابعات‘‘ہے۔
شواہد: ایک صحابی کی روایت دوسرے صحابی سے بھی آئے تو اُس کوشاہد کہتے ہیں، بلکہ ہرایک دوسرے کی حدیث کی شاہدہے، اس کی جمع شواہدہے۔
لین الحدیث: اس کتاب میں کسی ضعیف حدیث کے اسباب ضعف میں اس راوی کے متعلق لکھا گیا ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجرنے ’’مقبول‘‘لکھاہے ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اس راوی کاکوئی اورمتابِع ہوگا تو اس کی روایت قبول کی جائے گی ورنہ ردکردی جائے گی، اور اس روایت میں اس کا کوئی متابِع نہیں ہے ، اس لئے اس کی یہ روایت ضعیف ہے ۔
اختلاط (اورمختلط): کسی ثقہ عادل ضابط راوی کے حفظ وضبط میں کسی حادثہ یابڑھاپاکے سبب کمزوری واقع ہوجائے تو اس کو اختلاط کہتے ہیں اور راوی کو مختلط کہتے ہیں،مختلط کی روایت کو قبول کر نے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:
اس مختلط راوی سے روایت کر نے والے نے اختلاط طاری ہونے سے پہلے اس سے روایت لی ہے یابعدمیں؟ یا پہلے اوربعد دونوں حالتوں میں؟توجس نے اختلاط سے پہلے روایت لی ہے (اوروہ خودبھی ثقہ ہے)تو اس کی روایت مقبول ہوگی، اور دونوں حالتوں یااختلاط کے بعدروایت لینے والے کی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔
مجہول اورجہالت: کسی بھی راوی کی روایت اس کی ثقاہت (عدالت اورقوتِ حافظہ)کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہے ، اورجب کسی راوی کی ثقاہت معلوم ہی نہ ہو تو اس کی روایت کس بنیاد پر قبول کی جائے؟اسی لئے مجہول راوی کی روایت قبول نہیں کی جاتی ۔
جہالت دوطرح کی ہوتی ہے: جہالتِ عین اورجہالتِ حال ، جہالت عین کا مطلب ہے کہ سرے سے راوی کی شخصیت کا اس سے زیادہ اتہ پتہ نہیں کہ اس سے ایک آدمی نے روایت لی ہے اورکسی امامِ جرح وتعدیل نے اس کی ثقاہت کاذکرنہ کیاہو،اورجب شخصیت مجہول ہے تو ثقاہت کا کیسے پتہ چلے ، ایسے راوی کوصرف’’مجہول‘‘ یامجہول العین کہتے ہیں۔
اورجہالتِ حال کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمیوں کے اس سے روایت لے لینے کی وجہ سے اس کی شخصیت تومعلوم ہوئی مگرثقاہت کے بارے میں کسی امام جرح وتعدیل نے کچھ ذکرنہیں کیاہے ایسے راوی کومجہول الحال یامستورکہتے ہیں۔
مبہم : ایسے راوی کو کہتے ہیں جس کا نام معلوم نہ ہو، اس سے روایت کر نے والا ’’عن رجل ‘‘ یا عن امرأۃ ‘‘یا’’عن أبیہ ‘‘ یا’’عن أمہ‘‘ یا ’’جدہ‘‘ یا ’’عن عمہ‘‘ یا ’’جدتہ‘‘ یا ’’عن صاحب لہ‘‘ وغیرہ جیسے مبہم ناموں سے اس کا ذکرکرتاہے توجب نام ہی نہیں معلوم تواس کی ثقاہت کاکیا اتہ پتہ، ہاں کسی خارجی ذریعہ سے اس کانام اورثقاہت معلوم ہوجائے تو اس کی روایت قبول کرلی جاتی ہے ۔
ناسخ ومنسوخ: ناسخ کے لغوی معنی زائل کرنے والا اور منسوخ کے لغوی معنی زائل کیا ہوا ہے۔
اصطلاح میں ناسخ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شارع نے پہلے حکم کو ختم کردیا ہو۔ اور منسوخ وہ حدیث ہے جس میں پہلے حکم کو اس ناسخ حدیث نے ختم کردیا ہو۔

(مرتبہ: أحمد مجتبی بن نذیر عالم السلفی)

* * * * *
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن ابی داود میں استعمال ہونے والے رموز وعلامات


خ صحیح البخاری

م صحیح مسلم

ت سنن الترمذی

ن سنن النسائی

ق سنن ابن ماجہ

حم مسند احمد

ط موطا امام مالک

دی سنن الدارمی

الصحیحۃ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، للالبانی

الضعیفۃ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، للالبانی

تفرد بہ ابو داود یعنی یہ حدیث صرف سنن ابی داود میں ہے اور صحاح ستہ کے بقیہ مؤلفین کے یہاں نہیں ہے

انظر ما قبلہ اس سے پہلے کی حدیث ملاحظہ ہو

انظر حدیث رقم (۔۔۔۔) حدیث نمبر (۔۔۔۔) ملاحظہ ہو​

* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲) (خ) سے مراد صحیح البخاری، (الاعتکاف) یعنی صحیح البخاری کی کتاب الاعتکاف، (۵) یعنی باب نمبر، (۲۰۳۲) یعنی حدیث نمبر
* * * * *
 
Top