• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
طریقہ ٔ کار:​
مجلس علمی نے مذکورہ کتبِ حدیث پر کام کی ترتیب اس انداز سے بنائی کہ سب سے پہلے ایک رکن نے حدیث کے ترجمہ کا کام کیا، پھر اس کی مراجعت وتدقیق کا کام ہوا، ساتھ ہی حدیث کی تخریج اور اس کی صحت وضعف کی نشاندہی کام ہوتا رہا، اور اس کام کو مرحلہ وار کمپیوٹر میں داخل کیا گیا، اور کئی مراحل میں فائنل پروف تیار ہوا۔
اراکین مجلس علمی :
دارالدعوۃ کی مجلس علمی کے محترم اراکین کی فہرست درج ذیل ہے:
(۱) مولانا احمد مجتبیٰ سلفی (۲) مولانا رفیق احمد سلفی (۳) مولانا محمدایوب عمری
(۴) مولانا محمد خالد عمری (۵) مولانا محمد مستقیم سلفی (۶) مولانا بشیرالدین تیمی
زیر نظر کتاب میں ترجمے اور تحشیہ کے کام میں مولانا رفیق احمد سلفی ، مولانا محمد مستقیم سلفی ،مولانا محمد خالد عمری،مولانا بشیرالدین تیمی، اور مولانا ابوالبرکات اصلاحی کا تعاون حاصل رہا ہے ، مراجعت وتدقیق کا کام مولانا رفیق احمد سلفی، مولانا احمد مجتبیٰ سلفی، اور مولانا رضاء اللہ بن عبدالکریم مدنی نے کیا ، نیز تخریج احادیث کا کام مولانا احمد مجتبیٰ سلفی ، مولانا عبدالمجید مدنی اور ابواسعد قطب محمد اثری نے کیا ہے ۔
راقم الحروف نے زیر نظر کتاب کے اردو ترجمہ نیز تخریج وتحقیق اور حواشی کا بالاستیعاب مراجعہ کیا اور ضروری اضافے بھی کئے، امام ابو داود نے احادیث اور رواۃ پر کلام کیا ہے، اور بعض ایسے افادات بھی دئیے ہیں جن کا حدیث کی تصحیح وتضعیف یا شرح وتفسیر سے کوئی تعلق نہیں، یہ احادیث کے آخر میں تھے اور ان کا تعلق صرف اہل علم سے ہے، تو اس طرح کے مقامات کا اردو ترجمہ نہیں دیا گیا ہے، ایسے ہی اصل متن میں پوری کی پوری اسانید موجود ہیں؛ اور عام قاری کو اس کی ضرورت نہیں اس لئے ترجمہ میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے، خود اپنے ان اضافات اورتصحیحات کو دوسروں کے سامنے پیش کیا تاکہ مزید اطمینان حاصل ہوجائے، اس موقعے پر جامعۃ ابی ہریرۃ (دارالدعوۃ ، لال گوپال گنج، الہ آباد)کے شیخ الجامعۃ مولانا ازہر بن عبدالرحمن مبارکپوری کا شکر گزار ہوں کہ موصوف نے شروع کے پانچ سو صفحات پر نظر ڈالی نیز جامعہ کے استاذ مولانا ابواسعد قطب محمد الاثری کا بھی مشکور ہوں کہ موصوف نے بڑی محنت سے پوری کتاب کی مراجعت میں میرا ہاتھ بٹایا ، فجزاہم اللہ خیرًا۔
کمپیوٹر کمپوزنگ :
مسودہ کی طباعت اور فائنل پروف کا سارا کام دارالدعوۃ کے شعبۂ کمپیوٹر کے مندرجہ ذیل اراکین نے انجام دیا:
مولانا محمد رئیس الاعظم فیضی ،مولانا فیض الباری عمری ، مولانا شکیل احمدسلفی، مولانا ہلال الدین ریاضی ، ماسٹر محمد اکرام الحق، مولانا انظر عالم ندوی ، عبداللہ شوقی فریوائی۔
اور یہ کام عزیزم عبدالمحسن فریوائی (سلمہ اللہ) کی مکمل نگرانی اور خود ان کی ذاتی دلچسپی اور لگن سے مکمل ہوا۔
شعبۂ انتظام وانصرام:
دارالدعوۃ کے دعوتی اور علمی منصوبے کے انتظام وانصرام کا کام مندرجہ اراکین انجام دے رہے ہیں:
مولانا احمد مجتبیٰ سلفی (نائب صدر )،مولانا محمد ایوب عمری(جنرل سکریٹری)، ڈاکٹر تابش مہدی، ڈاکٹر عبدالظاہرخان۔
قارئین سے گذارش :
کمپیوٹر کی طباعت نے جہاں بہت ساری آسانیاں پیداکردی ہیں وہیں فائنل پروف کی تیاری تک اس بات کا خدشہ رہتاہے کہ بعض غیر مصححہ فائلیں تصحیح شدہ فائلوں سے خلط ملط ہوجائیں، اور طباعت میں کچھ اغلاط باقی رہ جائیں، بالخصوص جب کہ لوگوں کی ایک جماعت نے یہ کام مختلف مراحل اور اوقات میں انجام دیاہو، اس لئے کسی بھی علمی اور عام تصحیح و طباعت کی غلطی کے پائے جانے کی صورت میں ہمیں اس سے مطلع کریں۔
تشکر وامتنان:
سنن ابو داود(اُردو) کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت کے اس موقع پرہم رفقائے دارالدعوۃ کا صمیم قلب سے شکرگزار ہیں کہ ان کی شب وروز کی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ، نیز اس مناسبت سے ہم اپنے تمام محسنین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کے پرخلوص اور مفیدمشوروں اور نیک دعاؤں وتمناؤں کے نتیجہ میں ہم اس قابل ہوئے کہ قارئین تک اس مفید سلسلہ کو پہنچا سکیں۔
ان میں سر فہرست شخصیت اس عصر کے بے مثال محدث اور مجددِّدین امام العصرشیخ محمد ناصر الدین البانی (رحمہ اللہ )کی ہے، جن کی مجالس کی صحبت اورمؤلفات کی مصاحبت نے ناچیز اور اس کے رفقاء میں -بحمد اللہ- یہ جذبہ اور حوصلہ دیا کہ بے سروسامانی کے عالم میں ہم سلف صالحین کے افادات کو اُردو اور دیگر ہندستانی زبانوں میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی میں لگ جائیں،موصوف سے ٹیلیفون پر جب میں نے اپنے اس پروگرام کا ذکر کیا تو آپ نے اس کو بہت پسند کیا اور اپنی کتابوں سے استفادہ اور اس کو عام کرنے کی تلقین ونصیحت کی، نیز اپنی مجالس میں منہج سلف پر چلنے اور اس کی دعوت وتبلیغ اور اشاعت کی نصیحت برابر فرماتے تھے، رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
اس کے بعد عصرحاضر کی دعوتی وتبلیغی جدوجہد کے امام علامہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (رحمہ اللہ) ہیں، جن کی دعوتی واصلاحی جدوجہد سے سارا عالم فیض یاب ہو رہا ہے، موصوف کی خدمات سے برصغیر پاک وہند میں دعوت ، تبلیغ، تدریس، تصنیف اورتالیف کے میدانوں میں نمایاں مفید اضافہ ہوا ہے، میری اور میرے ساتھیوں کی تمام تر تعلیم وتربیت جامعہ سلفیہ (بنارس) میں ہوئی،اس کے بعد جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) میں، موصوف میرے ہندستان کی طالب علمی کے زمانہ میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے چانسلر تھے اور جامعہ سلفیہ (بنارس) خصوصی طور پر آپ کے الطاف وعنایات سے مستفید ہو رہا تھا، آپ کے عہد مسعود میں ناچیز کا مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ میں داخلہ ہوا اور اس بات پر بڑی خوشی ومسرت ہے کہ آپ کے عہدمیں ۱۳۹۴؁ھ میں مدینہ منورہ پہنچا اور ایک تحریری انعامی مقابلہ میں تفسیر ابن کثیر کا انعام آپ کے ہاتھوں سے وصول کرنے کا شرف حاصل ہوا، موصوف میرے علمی ،تصنیفی اور دعوتی کاموں سے خوش ہوتے ، آپ کے مفید مشوروں سے میرے کاموں کو جلا ملی، دار الدعوۃ کے مقاصد وپروگرام کی تائید بھی حضرت الشیخ سے حاصل تھی، رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
تیسری شخصیت عزت مآب شیخ صالح بن عبدالرحمن الحصین (رئیس شؤون المسجد الحرام والمسجد النبوی ) حفظہ اللہ کی ہے ، جن کی خصوصی عنایتیں مجھ پر رہی ہیں ، اسی تعلق اور حسن ظن کی بنا پر موصوف کے ساتھ میرا علمی تعاون بھی ہے ، اور موصوف نے انہیں تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے ناچیز کے غریب خانہ دہلی میں قیام پسند فرمایا ،رفقاء دارالدعوۃ کے کاموں کا جائزہ لیا اور ان کی ہمت افزائی کی ، فجزاهہالله خيرًا.
اس سلسلہ کی چوتھی اہم شخصیت رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری عزت مآب ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ سابق چانسلر امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی (ریاض)، و سابق وزیر اوقاف سعودی عرب کی ہے، موصوف جب جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے چانسلر تھے تو ۱۴۰۸؁ھ میں جامعہ میں بحیثیت پروفیسر میرا تقرر ہوا ، لیکن جامعہ سلفیہ ( بنارس) میں تدریسی فرائض کی انجام دہی کی وجہ سے وہاں رہ نہ سکا اورآپ کے اصرار پر دو بارہ ۱۴۱۲؁ھ میں ریاض منتقل ہوا اور اس وقت سے جامعۃ الامام کے کلیۃ اصول الدین (ریاض) میں بحیثیت پروفیسر تدریسی خدمت انجام دے رہا ہوں، یہاں کے قیام اور جامعہ کے علمی ماحول اور موصوف کی مسلسل ہمت افزائی سے الحمد للہ تحقیق وتصنیف اور ترجمہ کے ذاتی مشاغل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حوصلہ بخشا کہ ہم اس اہم منصوبہ پر کام جاری رکھ سکیں ، جزاہ اللہ خیراً۔
انہیں محسن شخصیات میں شیخ ابن باز(رحمہ اللہ ) کے شاگردِ رشید اور دست راست علامہ الشیخ عبدا لمحسن العباد (حفظہ اللہ) کی شخصیت ہے، جو میرے کالج کی طالب علمی کے زمانہ میں جامعہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے، موصوف سے (بی،اے) کے آخری سال میں فقہ کی تعلیم حاصل کی، نیز مجھے (ایم،اے ) اور (پی،اچ،ڈی) میں بحیثیت سپروائزر آپ سے آٹھ سال استفادہ کا موقع ملا، اور مسلک اہل سنت وحدیث اور منہج محدثین سے شغف میں اضافہ ہوا، فجزاہ اللہ خیراً۔
دار الدعوۃ کے علمی پروگرام شروع ہونے کے بعد جن اداروں اور شخصیات نے ہماری ہمت افزائی کی ان کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا، سبھی حضرات ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔
اس موقع پر جامعہ سلفیہ (بنارس) کے اساتذہ ٔکرام کا تذکرہ خصوصی طور پر اس لئے ضروری ہے کہ دار الدعوۃ کا یہ پروگرام در اصل ان کی تدریسی وتعلیمی جدوجہد کا ایک ثمرہ اور نتیجہ ہے، ان اساتذۂ کرام میں جنہوں نے کتاب وسنت کی اشاعت وترویج کا کام بڑے جذبہ اور ولولہ سے کیا ،مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی ، مولانا شمس الحق بہاری، مولانا عبدالوحید رحمانی(رحمہم اللہ) اور مولانا محمد رئیس سلفی حفظہ اللہ ہیں، اور ان سب میں سب سے ممتازاستاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری (وکیل الجامعہ السلفیہ) ہیں، جنہوں نے جامعہ سلفیہ کے اسٹیج سے ہندوستان میں بامقصد تصنیف وتالیف کے کام کو بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا، اساتذہ ٔجامعہ سلفیہ کی سرپرستی میں دار الدعوۃ کے کارکنان نے بھی اپنے کام کو آگے بڑھایا ،ڈاکٹر صاحب موصوف کی شفقت و رہنمائی ادارہ کے لئے باعث شرف واطمینان ہے۔
اس موقع پر جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلی مولانا عبدالوحید سلفی (رحمہ اللہ ) کا ذکر زبانِ قلم پر آرہا ہے، موصوف اس طرح کے مفید منصوبوں کو دیکھ کرہم سب کی ہمت افزائی کرتے تھے ، اور غیر مشروط تعاون بھی، رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
یہاں پر استاذ محترم مولانا ابوالخیر فاروقی رحمانی رحمہ اللہ کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے جن سے میں نے ۱۹۶۴ء؁ میں گاؤں کے مدرسہ مدینۃ العلوم میں عربی تعلیم کی ابتدا کی اور آخر میں والدین -رحمہما اللہ وغفر لہما- کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جن کی زیر تربیت بچپن ہی سے ہمیں ایک ایسا سازگار ماحول ملا جس سے اصل دین کتاب وسنت سے شغف وتعلق اور تمسک کی راہوں پر چلنا آسان ہوگیا ۔
والد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے دعوتی ذوق اورکتاب وسنت سے شغف کی مثال کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ مجھے بچپن ہی میں یہ شعر زبان زد ہوگیا :

اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیثِ مصطفی برجاں مسلم داشتن​

اللهم اغفر لهم، وارحمهم رحمة واسعة.

عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی
استاذِ حدیث جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ، ریاض
وصدر مؤسسۃ دار الدعوۃ التعلیمیۃ الخیریۃ، نئی دہلی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قارئین کرام کی خدمت میں

از: مجلس علمی دار الدعوۃ (نئی دہلی)
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد و آلہٖ و أصحابہ أجمعین، أمابعد:
أہل الحدیث عصابۃ الحق
فازوا بدعوۃ سید الخلق
فوجوہہم زہر منضرۃ
لأ لأ ھا کتألق البرق
یالیتنی کنت معھم
ماأدرکوہ بھامن السبق


تیسری صدی ہجری کے مشہور اور نابغہ ٔ روزگار محدث امام ابوداود کی شہرہ ٔ آفاق تالیف ’’ کتاب السنن ‘‘ (جسے احکام کی حدیثوں کے حصر و استیعاب میں خاص مقام و امتیاز حاصل ہے ) کے اردو ترجمہ، تخریج، صحت و ضعف کے حکم، اس کی تعلیل وتوجیہ اورمختصر تعلیقات وحواشی پر مشتمل یہ مجموعہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔
ہم اراکین مجلس علمی کے لئے انتہائی شرف و اعزاز کی بات ہے کہ اس اہم علمی کام کی تکمیل کی سعادت ہمارے حصہ میں آئی، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس خصوصی توفیق ونوازش پر ہماری زبانیں اس کی حمد و ستائش کے ترانوں سے زمزمہ سنج ہیں ( الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات)۔
یہ دراصل ’’حدیث انسائیکلو پیڈیا اردو‘‘ کی ترتیب و اشاعت کے اس مبارک اور عظیم منصوبے کا ایک حصہ ہے، جو دار الدعوۃ دہلی کے پیش نظر ہے، اور جس پر کئی سالوں سے بڑی محنت و جانفشانی اور عرق ریزی سے کام ہورہاہے، بحمد للہ اب ہم اس لائق ہوئے ہیں کہ اس کا ایک حصہ قارئین کی نذر کرسکیں، اس کے دوسرے حصے جو بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور دارمی کے اردو تراجم، تخریجات اور تعلیقات و حواشی پر مشتمل ہیں، وقفے وقفے کے ساتھ ان شاء اللہ جلد ہی منظر عام پر آتے رہیں گے۔
اس اہم علمی کام کے محرک اور اس عظیم منصوبے کے روح رواں دار الدعوۃ دہلی کے بانی و مؤسس برادر محترم جناب ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی استاذ حدیث جامعہ امام محمد بن سعود الا سلامیہ ریاض ہیں، جو برصغیرہند میں اسلام خالص کی تبلیغ و اشاعت کی سچی تڑپ اور جذبہ ٔ صادق رکھتے ہیں، اورسلف صالح کے منہج کے مطابق کتاب وسنت کی تفہیم کے داعی ہیں، انہیں کی نگرانی وسرپرستی میں یہ کام پایہ ٔ تکمیل کو پہنچا ہے، ان کے مفید اور قیمتی مشورے ہمارے شامل حال نہ ہوتے تو ہم اس کے اہل نہ تھے کہ یہ کام ہمارے ذریعہ انجام پاسکے۔
موصوف شروع ہی سے اس کام کی برابر نگرانی کرتے رہے، اس کے لئے انہوں نے ہر طرح کے ضروری وسائل اور آسانیاں فراہم کیں، اور اپنی گرانقدر تجاویز اورقیمتی مشوروں اور ہدایات سے ہمیں برابر نوازتے رہے، اور اخیر میں اس پورے مسودے کا بالاستیعاب مراجعہ کیا اور بہت سے ضروری اور قیمتی اضافے کئے، اور ایک گرانقدر مقدمہ لکھا جس پر ہم اراکین مجلس علمی تہ دل سے ان کے ممنون و مشکور ہیں۔
اسی طرح استاذ محترم جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری وکیل الجامعہ السلفیہ بنارس -حفظہ اللہ- کے بھی بے حد شکر گزار ہیں، جنہوں نے ایک جامع اور پُرمغز تعارف لکھ کر اس کام پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی، اور اہل علم کی نظر میں اسے وقیع اور لائق اعتبار بنایا۔
اخیر میں اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے پورے اعتراف کے ساتھ ہم قارئین بالخصوص اہل علم سے گزارش کرتے ہیں کہ اس مجموعے کو بہتر سے بہتر بنانے میں ہم اراکین مجلس علمی نے پوری کوشش کی ہے، اس میں جو بھی خوبیاں آپ کو نظر آئیں گی وہ اللہ سبحانہ کی نوازش و کرم اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہیں، اور جو خامیاں اور کوتاہیاں ہیں وہ ہماری اور ہمارے نفس کے ساتھ لاحق شیطان کی جانب سے ہیں، بھول چوک اورغلطی فطرت انسانی کا خاصہ ہے اسے پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ہماری ان لغزشوں اور فروگزاشتوں پر ہمیں معذور سمجھیں گے اورتنقید وملامت کا ہدف بنانے کے بجائے ہمیں ان سے مطلع فرمائیں گے، تاکہ آئندہ ایڈیشنوں میں ان کی اصلاح ہوسکے۔
بار الہا ! اس حقیر کاوش کو ہماری مغفرت و بخشش اور رفع درجات کا ذریعہ بنا اور عوام الناس میں اسے شرف قبولیت عطا فرما، اورانہیں اس سے زیادہ سے زیادہ استفادے اور اپنی عملی زندگی سوارنے کی توفیق عطافرما، آمین یا رب العالمین۔
وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و آلہ و أصحابہ أجمعین
ناچیز
رفیق احمد سلفی
رکن مجلس علمی دار الدعوۃ، نئی دہلی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تقديم
للترجمة الأردية
لسنن الإمام أبي داود السجستاني -رحمه الله-

الحمد لله رب العالمين، وصلى الله وسلم على نبينا محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد:
فإن للسنة النبوية الشريفة موقعاً سامقاً فريداً في التشريع الإسلامي، وفي الحياة العملية للمسلمين على السواء.
فهي المصدر الثاني بعد كتاب الله، تبينه تفصيلاً لمجمله، وتخصيصاً لعمومه وتقييداً لإطلاقه، وشرحاً لما أشكل منه على الناس، وفي ذلك يقول الله عز وجل: "وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم ولعلهم يتفكرون" [النحل: 44].
ثم هي من الوحي الذي أوحاه الله لخاتم أنبيائه محمد صلی اللہ علیہ وسلم، كما قال تعالى: {وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى} [النجم: 3-4].
وقال محمد صلی اللہ علیہ وسلم: « ألا إني أوتيت القرآن وأوتيت مثله معه »، أخرجه أحمد وأبوداود.
ولهذا المعنى لزمت طاعة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم كل مسلم، فيما ثبت عنه من الأمر والنهي، عملاً بقوله تعالى: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا} [الحشر: 7]. وقوله سبحانه: {مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ} [النساء:80]، وقوله: {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ} [الأحزاب: 36] في آيات أخُرَ كثيرة.
بل إن تحكيم النبي صلی اللہ علیہ وسلم فيما يعرض للمسلم من قضايا تستوجب الحكم، مع الرضا التام والطواعية ظاهراً وباطناً، علامة الإيمان، ولازمه ومقتضاه؛ قال سبحانه: {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا}.[النساء: 65].
وطاعة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تستدعي تبليغ سنته، ليعرف الناس ما أمر به وما نهى عنه، وتلك مُهمة جليلة وفضيلة عظيمة، نالها من استجاب لحث النبي صلی اللہ علیہ وسلم على ذلك، إذ قال: « نضر الله امرئًا سمع منا حديثًا، فحفظه حتى يبلغه، فرُب حاملٍ فقهٍ إلى من هو أفقه منه، ورُب حامل فقه ليس بفقيه»، أخرجه أبو داود عن زيد بن ثابت.
وعن ابن مسعود قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم يقول: « نضر الله امرئًا سمع منا شيئاً، فبلغه كما سمع، فرُب مُبلغ أوعى من سامع»، أخرجه الترمذي.
وقد انبرت ثلة من المسلمين للقيام بفريضة حفظ العلم وحمله وروايته لطلابه والمشتغلين به من كافة الأجيال والقرون، فحُفظت السنة، ثم دُونت، ثم جمعت وصنفت في مصنفات، وسلمت بذلك من الضياع، فضلاً من الله ونعمة، وصارت ممهدة ميسرة لمن يفيد منها علماً أو عملاً، فاستخرج الفقهاء منها الفقه، وعلماء التوحيد تفاصيل الإيمان، وأئمة السلوك الترغيب والترهيب ومكارم الأخلاق، وفضائل الأعمال، والمفسرون علوم التفسير.
وكان في مقدمة تلك المصنفات في السنة النبوية الشريفة، الكتب الستة التي اصطلح على تسميتها بالأصول، أو الصحاح، أو الجوامع، وهي الصحيحان، والسنن الأربعة، تميزت عن غيرها بكونها جامعة جمعت مختلف أبواب الدين، واشتملت على معظم الحديث الصحيح والحسن، فكثر نفعها، وحظيت من ثم بعناية العلماء قديماً وحديثاً، حفظاً ونسخاً لها وتحديثاً بها في المجالس، وخدمتها من مختلف الوجوه العلمية، كالتعريف برجالها، وشرح غريبها، وتخريج أطرافها، وجمعها في كتاب واحد، وغير ذلك.
ومما برز في العصر الحاضر من وجوه العمل في كتب السنة وغيرها، ترجمتها إلى لغات أخرى غير العربية، تبليغاً للعلم، ونشراً للسنة بين المسلمين غير العرب.
وفي هذا النوع ينخرط عمل الأخ الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي، عضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين في جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، وأحد علماء الحديث المعروفين في الهند.
فقد قام بترجمة سنن أبي داود سليمان بن الأشعث السجستاني المتوفى سنة 275هـ، إلى اللغة الأدرية لغة عشرات الملايين من المسلمين في باكستان والهند، وأصدرها في ثلاث مجلدات. وجاء عمله هذا في المشروع الذي يقوم عليه في ترجمة أهم الكتب الإسلامية، ومنها الأصول الستة من كتب الحديث مضموماً إليها موطأ مالك وسنن الدارمي.
وسنن الإمام أبي داود ثالث الكتب الستة بعد الصحيحين، يضم زهاء أربعة آلاف وثمان مائة حديث، انتقاها -رحمه الله- من أصل خمسمائة ألف حديث كتبها.
قال الحافظ السيوطي في التدريب (1/167، ط. عبدالوهاب عبداللطيف): ومن مظانه - أي الصحيح- أيضاً سنن أبي داود، فقد جاء عنه أنه يذكر فيه الصحيح وما يشبهه ويقاربه، وما كان فيه وهن شديد بيّنه، وما لم يذكر فيه شيئاً فهو صالح، قال: وبعضها أصح من بعض. فعلى هذا ما وجدنا في كتابه مطلقاً، ولم يكن في أحد الصحيحين، ولم يصححه غيره من المعتمدين الذين يميزون بين الصحيح والحسن، ولاضعفه، فهو حسن عند أبي داود. اهـ.
ولا جرم أن ترجمة الكتب الأساسية في السنة النبوية، وجوامع التفسير، وكتب التوحيد وغيرها من مصادر الإسلام، إلى اللغة الأردية وغيرها من لغات الشعوب الإسلامية، عمل من أجل الأعمال التي يعم نفعها ملايين المسلمين الناطقين بتلك اللغات، على شرط أن يكون الذين يترجمون هذه الكتب من أهل العلم باللغة العربية واللغة المترجم إليها، وكذلك بعلوم الشريعة الإسلامية ودلالاتها الاصطلاحية، حتى تسلم الترجمة من إفساد المعنى، أو إفهام معنى آخر يجعل الناس يعتقدون خلاف الحقائق الشرعية، وهذا ما لوحظ في بعض أعمال الترجمة التي تمت على بعض الكتب المهمة في الإسلام.
والأخ الدكتور عبدالرحمن الفريوائي الذي يرأس مؤسسة دار الدعوة في نيو دلهي التي تقوم على مشروع الترجمة المذكور، نحسبه ممن توفرت فيهم هذه الخصال، وقد عرفته مذ عقدين من الزمن، عالمًا محققًا، دائب الحرص على جمع نفائس الكتب والتنقيب عنها في مظانها، وإنفاق الطارف والتليد في اقتنائها، مع ما أحسبه عليه من تقوى الله وحسن الخلق، ولزوم السنة والتمسك بأهدابها وآدابها، وحمل هم الدعوة إلى الله سبحانه وتعالى.
فشكر الله له عمله هذا، وأجزل له المثوبة فيه، هو وسائر المتعاونين معه في مؤسسة دار الدعوة، ورزقهم العون والتوفيق لإتمام هذا العمل الجيل النفع، الذي يؤمل منه أن يقدم خيرًا كثيرًا للمسلمين في الهند وباكستان وغيرهما.
وصلى الله على خاتم أنبيائه ورسله، محمد بن عبدالله، وعلى آله وأصحابه وسلم تسليمًا كثيرًأ.


وكتب
د. عبدالله بن عبدالمحسن التركي
الأمين العام لرابطة العالم الإسلامي
مكة المكرمة: 10 / 03 / 1427هـ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تقدیم سنن ابی داودمترجم
عزت مآب ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی حفظہ اللہ
جنرل سکریٹری رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ​

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد:
حمد وصلاۃ کے بعد، حدیث نبوی کا اسلامی شریعت اور مسلمانوں کی عملی زندگی میں یکساں طور پر بڑا منفرد اوربلندمقام ومرتبہ ہے،حدیث قرآن کریم کے بعد اسلام کا دوسرا اہم مرجع ہے،حدیث قرآن کی شرح وتفسیر کرتی ہے، اس کے اجمال کی تفصیل بیان کرتی ہے ، اور ا س کے عام کو خاص کرتی ہے ، اور اس کے مطلق کو مقید کرتی ہے ، اورلوگوں پر جو مشکل ہو اس کی شرح کرتی ہے ، اس کے بارے میں ارشادباری تعالیٰ ہے: {وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ } [النحل:44]، ( ہم نے آپ کے پاس قرآن اس لیے اتارا ہے کہ آپ جو انسانوں پرنازل کیا گیا ہے اس کوبیان کردیں اوراس لیے نازل کیا ہے کہ لوگ اس میں غوروفکرکریں )
پھرسنت وہ وحی ہے جو نبی آخرالزماں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے وحی کی ہے جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے : {وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى} [النجم:3-4]، (رسول اپنی طرف سے نہیں بولتے ان کا کلام صرف وحی ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کے پاس آتاہے ) ابوداود اورترمذی وغیرہ میں مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه‘‘ (مسلمانو! سنو،مجھے قرآن اوراسی کے ساتھ اس کے ہم مثل چیزعطاہوئی ہے ، یعنی سنت )
ان دلائل کی روشنی میں ہرمسلمان پرواجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کاحکم دیا ہے اور جن سے منع کیا ہے ہر چیز میں آپ کی اطاعت کریں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا} [الحشر:7]، ( تمہیں رسول جوکچھ دیں اسے لے لو اورتم کو جس چیز سے روکیں رک جاؤ){مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا} [النساء:80]، (جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے اطاعت سے منہ موڑا تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا ہے ){وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُّبِينًا} [الأحزاب:36]، (کسی بھی مسلمان مرد اورعورت کو اللہ اوراس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ہے اورجو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر ے گا وہ کھلی گمراہی میں پڑے گا) اوراس طرح کی دوسری آیات اس معنی میں آئی ہیں۔
بلکہ رسول کومسلمانوں کولاحق مسائل میں حکم بنانا اوراس کے فیصلہ پرمکمل طورپر رضامندہونا اور ظاہری اورباطنی طورپر اس کی اطاعت کرنا ایمان کا تقاضا اور اس کی علامت ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{فَلاَ وَرَبِّكَ لاَيُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا} [النساء:65]، (قسم ہے تیرے رب کی یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے سارے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھرجوفیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناراضگی نہ پائیں ، اورفرماںبرداری کے ساتھ فیصلہ قبول کرلیں)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تقاضا ہے کہ اس کی سنتوں کی تبلیغ واشاعت کی جائے تاکہ آپ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ، اور جن باتوں سے منع کیا ہے لوگ اسے آگاہ ہوں ۔یہ بڑا اہم اورفضیلت والا کام ہے جس کا مستحق وہ شخص ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کا م کی ترغیب پر لبیک کہا، آپ کا ارشادہے : ’’ نضر الله امرئا سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ورب حامل ليس بفقيه ‘‘ (اللہ تعالیٰ اس شخص کا چہرہ ترو تازہ کرے جس نے ہم سے حدیث سنی اور اسے یادرکھا حتی کہ اسے لوگوں تک پہنچادیا ، بعض لوگ جن تک بات پہنچائی جاتی ہے ، وہ سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ رکھتے ہیں، اوربعض فقہ کے حافظ فقیہ نہیں ہوتے ) [اس حدیث کو ابوداود نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’ نضر الله امرئا سمع منا شيئا فبلغه كما سمعه فرب بلغ أوعى من سامع‘‘ (اللہ تعالیٰ اس شخص کا چہرہ ترو تازہ کرے جس نے ہم سے جوسنا اسے لوگوں تک پہنچادیا ، بعض لوگ جن تک بات پہنچائی جاتی ہے ، وہ سننے والے سے زیادہ اس کو محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں) [اس حدیث کوترمذی وغیرہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، اورترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے ]
اسی وجہ سے مسلمانوں کی ایک جماعت ہرعہد اورہرصدی میں موجودرہی ہے ، جس نے علم کی حفاظت اور اس کی روایت کا فریضہ انجام دیا جس سے سنت کی حفاظت اوراس کے جمع وتدوین کا کام ہوا اور اس سلسلے کی تصنیفات وجودمیں آئیں ، اللہ کے فضل واحسان سے سنت نبویہ ضائع ہو نے سے محفوظ رہ گئی ، اور اس کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے بڑی آسانی ہوگئی،فقہاء نے اس سے فقہی مسائل مستنبط کئے ،توحیداورعقیدہ کے علماء نے ا سے ایمان کی تفصیلات نکالیں،احسان وسلوک اورتزکیہ کے ائمہ نے ترغیب وترہیب ، اخلاقِ کریمانہ اورفضائلِ اعمال سے متعلق ابواب مرتب کیے اور مفسرین نے علوم تفسیر مدون فرمائے ۔
ان دواوین سنت میں سر فہرست وہ چھ کتابیں ہیں جن کوعلماء اصول یا صحاح یا جوامع کا نام دیتے ہیں اوریہ صحیحین (صحیح بخاری ومسلم ) اورسنن اربعہ (سنن ابی داود ،سنن نسائی ، سنن ترمذی،سنن ابن ماجہ) ہیں،یہ چھ کتابیں دوسری کتابوں سے اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ یہ دین کے مختلف ابواب کی جامع ، اور اکثر صحیح اورحسن احادیث پرمشتمل ہیں، ان مراجع سے بڑافائدہ حاصل ہوا، اوریہیں سے قدیم وجدید علماء ان کے حفظ اوران کے لکھنے لکھانے اورمجالس میں ان کی روایت اور مختلف انداز میں ان کی علمی خدمات کی طرف متوجہ ہوئے ، جیسے ان کتابوں میں وارد رواۃ کے تراجم ، مشکل الفاظ کی شرح وتفسیر ، اطراف احادیث کی نشان دہی ، ان ساری احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
عصرحاضرمیں کتب حدیث وغیرہ کے سلسلے میں ایک کام یہ بھی ہوا کہ مختلف زبانوں میں تبلیغ کے نقطہ نظر سے اورغیرعرب مسلمانوں میں سنت کی اشاعت کی خاطر ان کتابوں کے ترجمے کا کام سامنے آیا ، ہندوستانی علماء میں برادرم ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیہ ، ریاض کا کام اسی قبیل سے ہے ،موصوف نے سنن ابی داود کا اردو ترجمہ تین جلدوں میں شائع کیا ہے ، واضح رہے کہ ہندوپاک کے کروڑوں مسلمانوں کی زبان اردوہے ، اور موصوف کا یہ کام اس اہم منصوبے کا ایک جزء ہے جواہم اسلامی کتابوں کے ترجمے پر مشتمل ہے ، اوراس کا ایک منصوبہ کتب ستہ مع موطاامام مالک وسنن دارمی کا اردوترجمہ ہے ۔
صحاح ستہ میں صحیحین کے بعد سنن ابی داود کا مقام ومرتبہ ہے، اس کتاب میں تقریباً چارہزار آٹھ سو حدیثیں ہیں ،امام ابوداود نے پانچ لاکھ حدیثوں سے ان کواس کتاب میں منتخب کیا ہے ، حافظ سیوطی تدریب الراوی میں لکھتے ہیں کہ صحیح احادیث کے مراجع میں سے سنن ابی داود بھی ہے ، جس کے بارے میں ابوداود نے خود کہا ہے کہ وہ اس کتاب میں صحیح احادیث اوراس کے مشابہ اوراس کے قریب احادیث ذکرکریں گے اورجن احادیث میں زیادہ ضعف ہوگا اس کو بیان کردیں گے ، اور جن میں کچھ نہ ذکرکریں گے وہ صالح ہوں گی ،نیز کہا :اوربعض حدیثیں بعض سے زیادہ صحیح ہوںگی ،تو اس قول کی بنیادپر ہمیں ان کی کتاب میں جوحدیثیںملیںگی اوروہ صحیحین میں سے نہیں ہوںگی اور جن کی صحیح اورحسن کے درمیان فرق وتمیز کرنے والے معتمد علماء نے تصحیح یاتضعیف نہ کی ہوگی تو ایسی احادیث ابوداود کے یہاں حسن ہوں گی ، (تدریب الراوی ۱/۱۶۷)
بلاشبہ اسلامی مراجع میں سے حدیث کی بنیادی کتابوں نیزتفسیر اورتوحید وغیرہ کی کتابوں کا اردو اوردوسری اسلامی اقوام کی زبانوں میں ترجمہ بہت عظیم کام ہے ، اس سے کروڑوں مسلمانوں کو فائدہ ہوگا، بشرطیکہ مترجمین عربی اورجن زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے کیے جارہے ہیں اس کے ماہر اور اسلامی شریعت کے علوم اوران کی اصطلاحات کے واقف کارہوں تاکہ ترجمہ صحیح اور غلطیوں سے پاک ہواوراس سے دوسرے غلط معانی نہ لیے جائیں کہ شرعی حقائق کے خلاف لوگوں کا اعتقاد ہوجائے ، یہ بات اسلام سے متعلق بعض اہم کتابوں کے تراجم کے سلسلے میں پائی گئی اس لیے اس پر تنبیہ کی گئی ۔
اس منصوبہ پر دارالدعوۃ کام کررہا ہے ، جس کے صدر برادرم ڈاکٹرعبد الرحمن الفریوائی ہیں، موصوف کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے یہاں اس کا م کی اہلیت موجود ہے ، بیس سال سے میں انہیں ایک عالم اورمحقق کی حیثیت سے جانتاہوں جو نفیس کتابوں کو جمع کر نے اور مکتبات سے ان کو منتخب کرنے اورہرقیمت پر ان کوحاصل کرنے کے شدید حریص اور شائق ہیں، ساتھ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ وہ تقویٰ ،اخلاقِ حسنہ، سنت اور آداب سنت سے تمسک اور دعوت إلی اللہ کے حامل ہیں، اللہ تعالیٰ موصوف کے اس کام کوقبول کرے اور اس پر ان کو اجردے ، اورساتھ ہی دارالدعوۃ کے ان کے معاونین کو بھی اپنی مددوتوفیق سے نوازے ، تاکہ یہ عظیم اورمفید کام پایہء تکمیل کو پہنچے جس سے اس بات کی توقع ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے بہت سارے مسلمانوں کو بڑا خیر پہنچے گا ۔
صلى الله على خاتم أنبيائه ورسله محمد بن عبدالله وعلى آله وأصحابه وسلم تسليما كثيراً.

ڈاکٹرعبداللہ بن عبد المحسن الترکی
جنرل سکریٹری رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ
۱۰/۳/۱۴۲۷ھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنت شریفہ اور علوم سلف کی خدمت کا ایک مفید منصوبہ
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری
وکیل الجامعۃ السلفیہ - بنارس​
عليك بأصحاب الحديث فإنهم
خيار عباد الله في كل محفل
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسوله الكريم، أما بعد:

’’دار الدعوۃ‘‘ کی سرپرستی وتعاون سے کتب حدیث کے اردو ترجمہ اور مسائل کی توضیح وتنقیح کا جو مثبت،عظیم اور ان شاء اللہ مبارک عمل شروع ہوا ہے اس کے تعارف اور توضیح کا فریضہ مجھ سے بہتر طور پر خود ادارہ کے بانی صدر عزیز مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی صاحب حفظہ اللہ ادا کر سکتے تھے،لیکن شاید تواضع وکسر نفسی کی بنا پر انہوں نے اس خدمت کے لئے خاکسار کا انتخاب کیا، تلامذہ سے مجھے تعلق بہت زیادہ ہے،لیکن فن حدیث میں بے مایہ ہوں، اس لئے ایسے علمی منصوبے پر جو بیشتر کتب حدیث کو محیط ہے کچھ لکھنے میں غیرمعمولی تامل ہے، ڈاکٹر فریوائی صاحب نے شاید احترام وعقیدت کی وجہ سے یہ کام میرے حوالہ کیاہے، لیکن میں نے انکار کیوں نہ کیا اس کی وجہ خود مجھے بھی معلوم نہیں! اب قلم ہاتھ میں اس کام کے تعارف کے لئے اٹھا رہا ہوں جس کی تکمیل میں اہل علم کی ایسی جماعت نے حصہ لیا ہے جس کے افراد بعض حیثیتوں سے مجھ سے بہتر ہیں، امید ہے اس نسبت سے مجھے بھی اجر ملے گا:
فی الجملہ نسبتے بتو کافی بود مرا
خدمت حدیث کے مذکورہ منصوبہ کی بات سن کر فطری طور پرسوال پیدا ہوگا کہ ایسے عظیم کام کے محرکات وفوائد کیا ہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس سوال کا جواب مفیدسہی لیکن طویل ہے، اس تحریر میں اس کے تمام پہلؤوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، پھر بھی بعض اہم نقاط کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کروں گا۔
مطالعہ حدیث:​
علم حدیث کو اگر بحر نا پیدا کنار سے تشبیہ دی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، محدثین کرام نے اس علم پر توجہ کے اسباب اور اس کے مطالعہ کے جو طریقے اور مقاصد بتائے ہیں وہ فن کی بڑی بڑی تصانیف میں دیکھے جا سکتے ہیں ، لیکن اجمالی طور پر ہم مطالعہ حدیث کے درج ذیل دو مقصد متعین کر سکتے ہیں۔
(اول) یہ کہ اسلامی شریعت کے دو بنیادی مآخذ میں ایک ماخذ حدیث ہے، اس سے شرعی احکام مستنبط کئے جاتے ہیں، اور بندوں کو حلال وحرام سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
احکام کی تشریح وتوضیح کے ذریعہ جو اولین اسلامی نسل تیار ہوئی اس کے کارناموں پر نظر ڈالئے تو اندازہ ہوگا کہ یہ نسل جس طرح تقوی اور عبادت میں ممتاز تھی، اس طرح اس نے تہذیب وتمدن کے معاملہ میں بھی بے نظیر کامیابی حاصل کی، دنیا میں اس نسل کا کوئی جواب پیدا نہ ہوگا، یہ لوگ صحرائے عرب کے غیر متمدن حصے سے اٹھے تھے، لیکن وقت کی دو عظیم تہذیبی طاقتوںیعنی قیصر وکسری کو زیر کردیا، اور ان کے سامنے ایسی تہذیب پیش کی جو دونوں تہذیبوں کی خرابیوں سے محفوظ اور اعلی دینی واخلاقی اقدار کی حامل تھی، اس نے انسانیت کو خیر وسعادت کا راستہ دکھایا۔
(دوم) یہ کہ فنی لحاظ سے حدیث نبوی کا مقام بلند ہے، عام انسانی کلام اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، اس کے معانی اللہ کی طرف سے وحی کئے گئے ہیں، اور الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ہیں، اس کلام میں فصاحت وبلاغت کے انمول جواہر ہیں،سامعین کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اس میںتعبیر کی خوبی اور تأثیر کی قوت کا ایسا جوہر ہے جسے عام انسانی کلام میں ہم پا نہیں سکتے، اور جس سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
احکام شریعت کی توضیح وبیان کے علاوہ علمائے اسلام نے حدیث پر جو کام کئے ہیں ان پر اجمالی نگاہ ڈالنے سے اس علم کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے، جوامع،سنن، مسانید، معاجم، مستدرکات، اجزاء اور اطراف وغیرہ اس فن کی تصنیفات کے اصطلاحی نام ہیں ، الفاظ حدیث کی تشریح میں جوکتابیںلکھی گئی ہیں ان کا اصل فائدہ علماء کو حاصل ہے، احکام کی تشریح سے متعلق کتابوں سے علماء اور عوام دونوں مستفید ہوتے ہیں، معانی وبیان سے متعلق مباحث خواص کی چیز ہیں، ان پہلوؤں کے علاوہ تمدن ومعاشرت اور اقتصاد وسیاست سے متعلق گراں بہا اصول وقواعد حدیث شریف میں موجود ہیں، انہیں سرسری طور پر ہر پڑھا لکھا انسان سمجھ سکتا ہے،لیکن کلام نبوت کے اعجاز کا ادراک کرنے کے لئے مذکورہ علوم کے اہل اختصاص کی ضرورت ہے، وہی حدیث کی اہمیت وعظمت کے مذکورہ پہلؤوں کو واضح کرسکیں گے، علمائے اسلام نے شرح حدیث کی جو خدمت انجام دی ہے وہ اس سلسلہ میں بے حد وقیع ہے، حدیث میں جہاں جہاں مذکورہ علوم سے متعلق کوئی مسئلہ آیا ہے،اس کی انہوں نے عمدہ توضیح وتشریح کی ہے، اور اس طرح حدیث کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ذیل میں علم حدیث کی تعریف پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اس علم کی عظمت وجامعیت کا اندازہ ہو سکے۔
علم حدیث کی تعریف:

علم حدیث ایسا علم ہے جس کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
اس علم کا موضوع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بحیثیت رسول ہے۔
اور غایت ومقصد یہ ہے کہ انسان دنیا وآخرت کی سعادت وکامیابی سے بہرہ ور ہو۔
علم حدیث کی تعریف کے یہ الفاظ بے حد مختصر ہیں، لیکن اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، آپ کا اسوئہ حسنہ، قرآن کریم کی تفسیر وبیان اور اس کے اجمال کی تفصیل سب کچھ اسی حدیث نبوی میں ہے،شریعت کے جملہ احکام وقوانین کا بنیادی مأخذ صرف قرآن وحدیث ہیں، حدیث نبوی بلا شبہ بشری کلام ہے،لیکن اس کے معانی وحی الہی ہیں، اس لئے علماء نے وضاحت کی ہے کہ احکام کی تشریع (قانون سازی)میں حدیث نبوی قرآن کریم کے مثل ہے، یعنی ایسا نہیں کہ جوحکم حدیث سے ثابت ہو اس کا درجہ اس حکم سے کمتر ہو جو قرآن سے ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علم حدیث کی فضیلت وشرف:

علم حدیث کی فضیلت سے متعلق آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ، اور ائمہ ٔ دین کے اقوال کی کثرت ہے، صاحب تحفۃ الاحوذی نے تحفہ کے مقدمہ میں بہت سی احادیث واقوال کو اس طرح جمع کردیا ہے کہ اس علم کی عظمت واہمیت ذہن پر مرتسم ہوجاتی ہے۔
ذیل میں اسی ماخذ سے چند باتیں درج کی جا رہی ہیں:
١.. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات میں سب سے اشرف ہیں ، آپ کو قرآن جیسی معجزانہ کتاب عطا کی گئی ہے، اس لئے آپ کے کلام کا ہر کلام سے اشرف ہونا عقل ودانش کاتقاضہ ہے۔
2.. علوم قرآن سے لے کر شریعت مطہرہ کے تمام احکام وعقائد،طریقہ ٔ حقہ کے قواعد، تمام کشفیات وعقلیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان پر موقوف ہیں، اگر ان تمام کو حدیث کی میزان عدل پر تولا اور معیار قویم پر پرکھا نہ جائے تو ان کا وزن واعتبار قائم نہ ہوگا، صرّاف جس طرح کھرے کھوٹے میں تمییزکرتا ہے اسی طرح یہ علم صحیح وغلط اور حق وباطل کے مابین امتیاز پیدا کرتا ہے، یہ تاریکی میں چراغ اور راہ حیات میں نشان منزل ہے۔
٣.. اتباع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کا واضح اور تأکیدی حکم ہے، اگر انسان حدیث نبوی سے واقف نہ ہو تو پھر اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا امکان نہیں، اور اتباع کے بغیر دنیا وآخرت کی کامیابی ممکن نہیں۔
٤.. علم در حقیقت کتاب وسنت کا علم ہے، اور ان دونوں پر عمل ہی اصل عمل ہے، جسے یہ حق کہیں وہی حق، اور جسے باطل ٹھرائیں وہ باطل ہے۔
٥.. حدیث میں ’’جوامع الکلم‘‘ کو بیان وبلاغت کے لحاظ سے جو درجہ حاصل ہے اس سے علماء واقف ہیں۔
٦.. علم حدیث ہی شرعی علوم کی کلید، اسلامی شریعت کی بنیاد، تمام فقہی روایتوں کا استناد، دینی فنون کا ماخذ، عقائد کی اصل اور عبادات ومعاملات کا مرکز ومحور ہے۔
٧ .. سفیان ثوری کا قول ہے کہ: ’’لا أعلم علمًا أفضل من علم الحديث لمن أراد به وجه الله تعالى‘‘ ، یعنی علم حدیث سے اگر اللہ تعالی کی رضا مقصود ہو تو اس سے بہتر کوئی دوسرا علم نہیں۔
٨.. علم حدیث کے خدام محدثین کرام کو خلفائے رسول کا لقب دیا گیا ہے، ان کی خدمات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے امام حاکم کہتے ہیں : ’’لولا كثرة طائفة المحدثين على حفظ الأسانيد لدرس منار الإسلام، ولتمكن أهل الإلحاد والمبتدعة من وضع الأحاديث وقلب الأسانيد‘‘ ، یعنی محدثین کی اکثریت اگراسانید کے حفظ پر متوجہ نہ ہوتی تو اسلام کی روشنی مدھم پڑ جاتی، اور ملحدین ومبتدعین حدیث وضع کرنے اور اسانید کو الٹ پلٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حدیث پر امت کی توجہ:

علم حدیث کی تعریف اور شریعت میں اس کی اہمیت وفضیلت سے واقفیت کے بعد بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس علم کا کیا مقام ہے، اور اس پر کس طرح کی توجہ مطلوب ہے، قرون خیر کے مسلمانوں کی حدیث شریف سے دلچسپی اور اس پر توجہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سیرۃ البخاری کے مصنف علاَّمہ مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد تابعین، تبع تابعین میں جس قدر اس کا ذوق اور اس کا شغل تھا اس کے بیان کے لئے تو ہمارے الفاظ کسی طرح کافی نہیں ہو سکتے، تیسری صدی تک (جس میں حدیث اور آثار صحابہ مدون کردئے گئے ) یہ ذوق اس طرح عام تھا کہ مسلمانوں کا ہر فرد بشراس میں ڈوبا ہوا تھا، ہر شخص اس کا فدائی نظر آتا تھا، خدام حدیث (محدثین) کی سلطنت عام طور پر تمام مسلمانوں کے قلوب پر اس طرح حاوی تھی کہ یہ ظاہری سلطنت اس کے آگے ہیچ میرز تھی‘‘ ، (سیرۃ البخاری، ص ۲۵۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
معاشرہ کی ضرورت:

علم حدیث کے سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ یہ علم زندگی سے الگ تھلگ کوئی روایتی علم نہیں کہ کسی کا اس سے سابقہ نہ ہو، بلکہ یہ زندگی کے ساتھ ساتھ چلنے والا علم ہے جس کی رہنمائی سے انسان صحیح راہ پا لیتا ہے، لہذا حدیث کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ انسانی معاشرہ کی متنوع ضرورتوں کوسمجھیں، اور حدیث کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ لگائیں کہ انسانی معاشرہ کی جو متنوع ضرورتیں ہیں ان کی تکمیل کا کیسا عمدہ سامان اس میں موجود ہے، یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقانیت وصداقت کا ثبوت ہے کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث شریفہ کے ذریعہ انسانیت کی ہدایت اور امت کی تربیت کا بے نظیر نظام قائم فرما دیا ہے، ملک کا امن وامان اور معاشرہ کا سکون ہر ایک کا مقصود ومطلوب ہے، اور حدیث نبوی میں اس کے اصول وضوابط وضاحت کے ساتھ پیش کردئیے گئے ہیں، مخالفین اسلام میں سے جو لوگ حدیث کو نشانہ بناتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس طرح اسلام کی بیخ کنی آسانی کے ساتھ کرسکیں گے۔
 
Top