محدثین واہل الرائے کا باہمی فرق
صاحب سیرۃ البخاری نے فقہائے محدثین اور فقہائے اہل الرائے کے طرز اجتہاد واصول فقاہت کا مفصل ذکر کیا ہے، اور علامہ ابن خلدون وشاہ ولی اللہ کے بیانات نقل کرکے ان کا خلاصہ پیش کیا ہے، ہم اسی خلاصہ کے بعض حصے نقل کرنا چاہتے ہیں:
* جامع ترمذی میں ہے، ابو السائب کہتے ہیں کہ ہم لوگ وکیع کے پاس بیٹھے تھے، انہوں نے ایک شخص سے (جو رائے اور قیاس کا خوگر تھا) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِشعار کیا، اور ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مُثلہ ہے، شخص مذکور نے کہا کہ ابو حنیفہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ناقل ہیں کہ وہ اس کو مثلہ کہتے تھے، ابو السائب کہتے ہیں کہ اس قدر وکیع کو میں نے غصہ ہوتے کبھی نہ دیکھا تھا، وکیع نے کہا کہ میں ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہتا ہوں، اور تو اس کے جواب میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول پیش کرتا ہے، تو اس قابل ہے کہ قید کردیا جائے، اور جب تک اس قول سے باز نہ آئے رہائی نہ دی جائے۔
* فقہ کی دوقسمیں ہیں، حجازیوں (مکے مدینے والوں) کی فقہ، عراقیوں (اہل کوفہ) کی فقہ۔
* عراقیوں میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وآثار صحابہ وتابعین کی بالکل کمی تھی، اور اس کا ذوق بھی ان میں کم تھا، اس وجہ سے ان کے مسائل کی بنا زیادہ تر رائے وقیاس ہی پر رہی، حدیث وآثار کا تتبع چھوڑ کر رائے وقیاس کی طرف متوجہ رہے، اور اسی لئے ’’اہل الرائے‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
اہل حجاز میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وآثار صحابہ وتابعین کا بے حد ذوق تھا، وہ ہرمسئلہ کے لئے احادیث وآثار تلاش کرتے، اسی لئے وہ لوگ اصحاب حدیث ، اہل الحدیث، اورمحدثین کے ممتاز لقب سے ملقب ہوئے۔
* عراقیوں میں دستور یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے اساتذہ کے تنقیح کئے ہوئے قواعد یاان کے اقوال کو یاد کرلیتے، اور جو مسئلہ پیش آتا انہیں قواعد سے ان کے جوابات طلب کرتے، دوسرا فریق (اہل مکہ ومدینہ) کسی کے قواعد یا رائے کے پابند نہ تھے، وہ براہ راست اصل مآخذ (قرآن وحدیث) سے مسائل کے جواب طلب کرتے، ہاں مجبوری پر صحابہ کے اتفاق رائے، فتاوی، یا قیاس کا استعمال کرتے تھے۔
* اہل عراق کے دلوں کا میلان ان کے اساتذہ کے طرف بے طرح تھا، اس میں وہ متہم ہو گئے، وہ اپنے ائمہ کو انتہا درجہ کا محقق جانتے تھے، بلکہ اپنے ائمہ کو اس غلو کی وجہ سے صحابی (وہ بھی جلیل القدر صحابی جن کا شمار فقہائے صحابہ میں ہے) پر ترجیح دینے کو تیار تھے۔
* شاہ ولی اللہ کے بیان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اہلحدیث کا طریقہ ٔاجتہاد نہایت مشکل تھا، وہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہی طریقہ ٔ اجتہاد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واکابرتابعین کا تھا، اور امام المحدثین (بخاری) نے اسی کو اختیار کیا۔
* یہ دعوی کہ محدثین اور ان کے اتباع اصول فقاہت نہیں جانتے تھے، یا اس سے کام نہیں لیتے تھے نہایت بَیّن غلطی ہے۔
* یہ کہنا صحیح نہیں کہ اہل کوفہ کو فقاہت اور قیاس واجتہاد سے کام لینے کی وجہ سے اہل الرائے کہا جاتا تھا، ایسا ہوتا تو مذکورہ لقب مذموم نہ مانا جاتا، حالانکہ یہ لقب زمانہ صحابہ سے برابر موقعہ ٔ ذم میں استعمال کیا گیا ہے۔
* چونکہ عراقیوں کا اصول فقاہت وطرز اجتہاد محدثین صحابہ وتابعین کے طرز اجتہاد واصول فقاہت سے بعید تھا اس وجہ سے فقہائے محدثین وامام بخاری نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
* امام حماد کے زمانہ سے عراق میں تخریجی فقہ کا دور شروع ہوا، اور اس میں ترقی ہوتی گئی، یہی معراج ترقی ٹھہرا ، دوسرے علوم اسلامیہ سے بے پرواہی اور بے توجہی ہوتی گئی، چند دنوں کے بعدخود اہل کوفہ کو دوسرے علوم اسلامیہ میں اپنے ائمہ کے اقوال وتحقیقات پر اعتماد نہ رہا، اورتخریجی مسائل پر اس قدر وثوق اور اعتماد بڑھا کہ اس کے مقابل میں کہیں صحیح حدیثیں ناقابل عمل ٹھہریں، اورکہیں اکابر صحابہ غیر فقیہ اور نا سمجھ قرار دئے گئے۔
لیکن اگر کوئی شخص تخریجی اشتغال کا نمونہ دیکھنا چاہے تو عراق عجم میں اب بھی چلا جائے، اور کابل، قندہار، غزنی، ہرات، وغیرہ کی درس گاہوں کو ملاحظہ کرے، اور وہاں کے بڑے بڑے فقیہ ملاؤں کو دیکھے، آراء الرجال کا درس جاری ہے، انہیں پر تفریع وتخریج ہے، اور یہی ان کی معراج ترقی اور یہی ان کی جولان گاہ ہے، وہ علوم قرآنیہ سے ناواقف اور علوم حدیثیہ سے بے پرواہ ، قدوری سے لے کر تمام کتب فقہ کا درس دیں گے، اور کتب فقہ عمر بھر پڑھیں گے، لیکن قرآن اور حدیث کو ایک روز بھی بنظر تحقیق مسائل نہیں دیکھیں گے، ان کے کان تحقیق سے نا آشنا ہیں، ان کے دل ودماغ میں آراء الرجال سے بڑھ کر کوئی باوقعت چیز نہیں، وہ فقہائے کوفہ کی رایوں کو آسمانی وحی سے بھی زیادہ با وقعت جانتے ہیں، اگر ان میں کوئی لائق سے لائق ہوا تو اسی قدر کہ مختلف اقوال فقہاء کو راجح ومرجوح کرسکے اور بس۔
اہل الرائے کی وجہ تسمیہ میں جناب شاہ صاحب فرماتے ہیں : ’’
المراد من أهل الرأي قوم توجهوا بعد المسائل المجمع عليها بين المسلمين وبين جمهورهم إلى التخريج على أصل رجل من المتقدمين، فكان أكثر أمرهم حمل النظير على النظير، والرد إلى أصل من الأصول دون تتبع الأحاديث والآثار‘‘۔
(یعنی اہل الرائے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے مسائل متفق علیہا کے بعد کسی شخص متقدم کے قاعدہ پر تخریج مسائل کی طرف توجہ کی، ان کا اکثر دستور یہی تھا کہ مسئلہ میں اس کے مشابہ مسئلہ کا حکم لگاتے، اور مسئلہ کو انہیں قواعد کی طرف پھیر پھار کر لے جاتے جو ان کے اساتذہ کے نکالے ہوئے تھے، اور احادیث نبویہ واقوال صحابہ کی کھوج تلاش نہ کرتے)۔