• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حدیث کا تمدنی پہلو:

حدیث کی عظمت کو اجاگر کرنے کے لئے تہذیب وتمدن کے پہلو سے بھی حدیث کا مطالعہ کیا گیا ہے، یہ تصور غلط ہے کہ اس علم میں تمدن کی رعایت نہیں، سیرۃ البخاری کے مصنف عالی تبارلکھتے ہیں:
’’ صحیح بخاری کے وہ حصے جن میں معاملات کا بیان ہے كتاب السِّيَر تک غور سے پڑھو، اور باریک نگاہ سے دیکھو، حقیقت امر یہ ہے کہ جو نکات اور اعلی ترین قوانین شرعیہ امام المحدثین نے صحیح حدیثوں سے استخراج اور استنباط کرکے صحیح بخاری میں ذکر کئے ہیں، تمدن کی جان اور سلطنت کی روح رواں ہے، اور حق یہ ہے کہ امام المحدثین ہی کی خدا داد فقاہت کا یہ حصہ تھا ‘‘(سیرۃ البخاری ، ص ۸۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شاہ ولی اللہ اور علم حدیث:

برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت شاہ ولی اللہ سے اپنا علمی رشتہ جوڑتی ہے، اور انہیں موجودہ دینی بیداری کا نقیب مانتی ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند سطروں میں ان کی شخصیت اورمنہج ومقصد کا ذکرکردیا جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اہل الحدیث اور اہل الرائے کے دونوں طبقوں کے تئیں ان کا رویہ کیسا ہے، اور وہ خود کیا چاہتے ہیں؟ ۔
شاہ صاحب کو اللہ تعالی نے ایک جامع شخصیت اور غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا، اپنے عہد تک کے علمی ذخیرہ پر انہوں نے محققانہ نظر ڈالی، تقریبًا ہر علم کی ممکن حد تک خدمت کی، مگر بنیادی طور پر ان کی توجہ ان ہی علوم پر مرکوز رہی جو امت کے مستقبل کی تعمیرمیں مؤثر تھے، دسویں صدی ہجری اور اس کے بعد کی دنیائے اسلام پر نظر ڈالئے تو محسوس ہوگا کہ فقہ میں جمود اور تصوف میں الحادی نظریات کا غلبہ تھا، تشریع احکام (قانون سازی) میں بنیادی حیثیت کی حامل حدیث نبوی علماء وعوام کی بے اعتنائی کا شکار تھی، اسے فقہ کے تابع بنا دیا گیا تھا، اس فن کا بنیادی مسئلہ تنقیح وتنقید نظروں سے اوجھل تھا، فقہی مسلک کی تا ئید یا محافل میں رنگینی کے لئے اگر حدیث پیش کی جاتی تو اس کے درجہ کا کوئی لحاظ نہ ہوتا۔
شاہ صاحب کا اصل کارنامہ متعین کرنے میں مصنفین مختلف ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ شاہ صاحب کا تجدیدی کمال ان کی خدمت حدیث میں نمایاں ہے، اور اس خدمت میں انہوں نے اہل حدیث کا طریقہ عمومًا اختیار کر کے حریتِ فکر اور وسعت نظر کی طرح ڈالی ہے تاکہ امت مسلمہ سلف کے منہاج پر گامزن ہوکر اختلاف فکر ونظر کے باوجود متحد رہ سکے۔
شاہ صاحب چونکہ منہج محدثین کے داعی ومؤید اور تقلید وجمود کے مخالف تھے، نیز حریت فکر اوروسعت نظر ان کا امتیازتھا، اس لئے ہندوستانی مسلمانوں میں اکثریت کا دعوے رکھنے والے حضرات شاہ صاحب سے انشراح نہیں رکھتے، انہیں احساس ہے کہ شاہ صاحب کی دعوت میں فکر وعمل کے انحراف کی تردید کا جو عنصرموجود ہے اس سے ہم آہنگی مشکل ہے۔
شاہ صاحب کی تصانیف اور بالخصوص ’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘، ’’ المسوی‘‘، ’’مصفی‘‘ اور ’’التفہیمات الالہیۃ‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کرنے سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ محدثین کے مسلک ومنہج کو ترجیح دیتے ہیں، اور اس رویہ پر نکیر کرتے ہیں کہ محض تعصب کی بنا پر کسی حدیث کو نظر انداز کیا جائے، اور کسی مخصوص فقہی مسئلہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کی تاویل کی جائے، یا اسے ترک کردیا جائے، ان کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے فقہی اعتبار سے عہد محدثین کو زندہ کرنے کی تحریک شروع کی جس کی آبیاری شاہ اسماعیل شہید نے کی، پھر یہ سلسلہ آگے بڑھا۔
شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی(رحمہ اللہ) لکھتے ہیں: ’’ شاہ صاحب کے طریق کو اگرسبھی علماء اپنا لیتے تو ہمارے ہاں کی مذہبی حالت موجودہ حالت سے مختلف ہوتی‘‘۔
یہ محض دعوی نہیں بلکہ حقیقت ہے، اس کو سمجھنے کے لئے فقہاء محدثین کے منہج پر غورکرناضروری ہے، اس کی خصوصیت نظر کی وسعت اورفن کی اہمیت ہے، کوئی شخصیت یافرقہ ان کے سامنے نہیں، یہ صحیح ہے کہ مسلمان فرقوں میں وحدت فکر وعمل کے لئے فقہاء محدثین کی روش کو اصلاح کی بنیاد بنانا ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حدیث وفقہ کے ما بین نسبت:

گروہ بندی اسلام میں ممنوع اور واقعۃً مضر ہے، مگر افسوس کہ اسے مسلمانوں نے دین کے نام پر رواج دیا، فقہی بنیادپر گروہ بندی کوفروغ دیا گیا،پھر محدثین وفقہاء کے ما بین لکیر کھینچنے کی کوشش کی گئی، گروہی وفقہی عصبیت کی وجہ سے حدیث پر اعتراضات کئے گئے، محدثین نے حدیث کی خدمت کی تھی، لیکن ان کی تنقیص کی گئی، اور یہ نہ سوچا گیا کہ جس علم کے یہ خادم ہیں وہ احکام شریعت کا ایک بنیادی مأخذ ہے، قرآن اور حدیث ہی سے فقہ کے تمام احکام اخذ کئے جاتے ہیں،پھر دونوں علوم اور ان کے خادموں کے درمیان فاصلہ کی لکیر کیسی ؟ محدثین اور فقہاء کے گروہ اسلام کے نام لیوا ہیں، لہذا ان کے بیچ خلیج ثابت کرنابے معنی ہے، علم کے مزاج ، اصول، منہج، اور مقصد کی بناء پر جو امتیاز قائم ہے وہ علیحدہ شے ہے، فقہ پر توجہ دینے کی وجہ سے اگر حدیث سے صرف نظر کیا جا رہا ہے تو یہ نادانی ہے، فقہ کا علم بھی اسلام کی علمی میراث کا حصہ ہے، ذہنی کاوش کے نتیجہ کے طور پر اس کا وزن ہے، البتہ کوئی مسئلہ کتاب وسنت سے ہم آہنگ نہ ہو تو اس کی تائید غلط ہے، حدیث اصل اور فقہ فرع ہے، دونوں کو ان کے مقام پر رکھنا اور ان کے خادموں کا احترام کرنا ایمان وضمیر کا تقاضہ ہے، افسوس ہوتاہے کہ تعصب کی وجہ سے علمی مباحث میں کتب تفسیر وحدیث کی جگہ صرف کتب فقہ کے حوالہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے، اور دین کی خدمت کے باب میں محدثین کو نظر انداز کر کے صرف فقہاء کا نام لیا جاتا ہے! اسلامی اصول اس امتیاز وتفریق کی تائید نہیں کرتے، اگر ہم اپنی ترجیح اور اپنے پندار کی بنا پر ایسا کرتے ہیں تو اس کو کہیں بھی مقبولیت حاصل نہ ہوگی۔
اسلام کے مذکورہ دونوں طبقات کو قرون خیر کی روح سے سمجھنا چاہئے، اور تحزب وطائفیت میں پڑکر حدیث اور محدثین کے خلاف زبان نہ کھولنا چاہئے، علماء ومحققین نے اس نقطہ پر بحث کر کے اسے منقح کردیا ہے، ہم کو اس پر غور کرنا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
محدثین واہل الرائے کا باہمی فرق

صاحب سیرۃ البخاری نے فقہائے محدثین اور فقہائے اہل الرائے کے طرز اجتہاد واصول فقاہت کا مفصل ذکر کیا ہے، اور علامہ ابن خلدون وشاہ ولی اللہ کے بیانات نقل کرکے ان کا خلاصہ پیش کیا ہے، ہم اسی خلاصہ کے بعض حصے نقل کرنا چاہتے ہیں:
* جامع ترمذی میں ہے، ابو السائب کہتے ہیں کہ ہم لوگ وکیع کے پاس بیٹھے تھے، انہوں نے ایک شخص سے (جو رائے اور قیاس کا خوگر تھا) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِشعار کیا، اور ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مُثلہ ہے، شخص مذکور نے کہا کہ ابو حنیفہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ناقل ہیں کہ وہ اس کو مثلہ کہتے تھے، ابو السائب کہتے ہیں کہ اس قدر وکیع کو میں نے غصہ ہوتے کبھی نہ دیکھا تھا، وکیع نے کہا کہ میں ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کہتا ہوں، اور تو اس کے جواب میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول پیش کرتا ہے، تو اس قابل ہے کہ قید کردیا جائے، اور جب تک اس قول سے باز نہ آئے رہائی نہ دی جائے۔
* فقہ کی دوقسمیں ہیں، حجازیوں (مکے مدینے والوں) کی فقہ، عراقیوں (اہل کوفہ) کی فقہ۔
* عراقیوں میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وآثار صحابہ وتابعین کی بالکل کمی تھی، اور اس کا ذوق بھی ان میں کم تھا، اس وجہ سے ان کے مسائل کی بنا زیادہ تر رائے وقیاس ہی پر رہی، حدیث وآثار کا تتبع چھوڑ کر رائے وقیاس کی طرف متوجہ رہے، اور اسی لئے ’’اہل الرائے‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
اہل حجاز میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وآثار صحابہ وتابعین کا بے حد ذوق تھا، وہ ہرمسئلہ کے لئے احادیث وآثار تلاش کرتے، اسی لئے وہ لوگ اصحاب حدیث ، اہل الحدیث، اورمحدثین کے ممتاز لقب سے ملقب ہوئے۔
* عراقیوں میں دستور یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے اساتذہ کے تنقیح کئے ہوئے قواعد یاان کے اقوال کو یاد کرلیتے، اور جو مسئلہ پیش آتا انہیں قواعد سے ان کے جوابات طلب کرتے، دوسرا فریق (اہل مکہ ومدینہ) کسی کے قواعد یا رائے کے پابند نہ تھے، وہ براہ راست اصل مآخذ (قرآن وحدیث) سے مسائل کے جواب طلب کرتے، ہاں مجبوری پر صحابہ کے اتفاق رائے، فتاوی، یا قیاس کا استعمال کرتے تھے۔
* اہل عراق کے دلوں کا میلان ان کے اساتذہ کے طرف بے طرح تھا، اس میں وہ متہم ہو گئے، وہ اپنے ائمہ کو انتہا درجہ کا محقق جانتے تھے، بلکہ اپنے ائمہ کو اس غلو کی وجہ سے صحابی (وہ بھی جلیل القدر صحابی جن کا شمار فقہائے صحابہ میں ہے) پر ترجیح دینے کو تیار تھے۔
* شاہ ولی اللہ کے بیان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اہلحدیث کا طریقہ ٔاجتہاد نہایت مشکل تھا، وہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہی طریقہ ٔ اجتہاد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واکابرتابعین کا تھا، اور امام المحدثین (بخاری) نے اسی کو اختیار کیا۔
* یہ دعوی کہ محدثین اور ان کے اتباع اصول فقاہت نہیں جانتے تھے، یا اس سے کام نہیں لیتے تھے نہایت بَیّن غلطی ہے۔
* یہ کہنا صحیح نہیں کہ اہل کوفہ کو فقاہت اور قیاس واجتہاد سے کام لینے کی وجہ سے اہل الرائے کہا جاتا تھا، ایسا ہوتا تو مذکورہ لقب مذموم نہ مانا جاتا، حالانکہ یہ لقب زمانہ صحابہ سے برابر موقعہ ٔ ذم میں استعمال کیا گیا ہے۔
* چونکہ عراقیوں کا اصول فقاہت وطرز اجتہاد محدثین صحابہ وتابعین کے طرز اجتہاد واصول فقاہت سے بعید تھا اس وجہ سے فقہائے محدثین وامام بخاری نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
* امام حماد کے زمانہ سے عراق میں تخریجی فقہ کا دور شروع ہوا، اور اس میں ترقی ہوتی گئی، یہی معراج ترقی ٹھہرا ، دوسرے علوم اسلامیہ سے بے پرواہی اور بے توجہی ہوتی گئی، چند دنوں کے بعدخود اہل کوفہ کو دوسرے علوم اسلامیہ میں اپنے ائمہ کے اقوال وتحقیقات پر اعتماد نہ رہا، اورتخریجی مسائل پر اس قدر وثوق اور اعتماد بڑھا کہ اس کے مقابل میں کہیں صحیح حدیثیں ناقابل عمل ٹھہریں، اورکہیں اکابر صحابہ غیر فقیہ اور نا سمجھ قرار دئے گئے۔
لیکن اگر کوئی شخص تخریجی اشتغال کا نمونہ دیکھنا چاہے تو عراق عجم میں اب بھی چلا جائے، اور کابل، قندہار، غزنی، ہرات، وغیرہ کی درس گاہوں کو ملاحظہ کرے، اور وہاں کے بڑے بڑے فقیہ ملاؤں کو دیکھے، آراء الرجال کا درس جاری ہے، انہیں پر تفریع وتخریج ہے، اور یہی ان کی معراج ترقی اور یہی ان کی جولان گاہ ہے، وہ علوم قرآنیہ سے ناواقف اور علوم حدیثیہ سے بے پرواہ ، قدوری سے لے کر تمام کتب فقہ کا درس دیں گے، اور کتب فقہ عمر بھر پڑھیں گے، لیکن قرآن اور حدیث کو ایک روز بھی بنظر تحقیق مسائل نہیں دیکھیں گے، ان کے کان تحقیق سے نا آشنا ہیں، ان کے دل ودماغ میں آراء الرجال سے بڑھ کر کوئی باوقعت چیز نہیں، وہ فقہائے کوفہ کی رایوں کو آسمانی وحی سے بھی زیادہ با وقعت جانتے ہیں، اگر ان میں کوئی لائق سے لائق ہوا تو اسی قدر کہ مختلف اقوال فقہاء کو راجح ومرجوح کرسکے اور بس۔
اہل الرائے کی وجہ تسمیہ میں جناب شاہ صاحب فرماتے ہیں : ’’المراد من أهل الرأي قوم توجهوا بعد المسائل المجمع عليها بين المسلمين وبين جمهورهم إلى التخريج على أصل رجل من المتقدمين، فكان أكثر أمرهم حمل النظير على النظير، والرد إلى أصل من الأصول دون تتبع الأحاديث والآثار‘‘۔
(یعنی اہل الرائے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے مسائل متفق علیہا کے بعد کسی شخص متقدم کے قاعدہ پر تخریج مسائل کی طرف توجہ کی، ان کا اکثر دستور یہی تھا کہ مسئلہ میں اس کے مشابہ مسئلہ کا حکم لگاتے، اور مسئلہ کو انہیں قواعد کی طرف پھیر پھار کر لے جاتے جو ان کے اساتذہ کے نکالے ہوئے تھے، اور احادیث نبویہ واقوال صحابہ کی کھوج تلاش نہ کرتے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شرارِ بو لہبی

اس عنوان کے تحت ان مساعی غیرمحمودہ بلکہ خبیثہ کی طرف اشارہ مقصود ہے جو مختلف اوقات میں حدیث شریف کے خلاف عمل میں لائی جاتی رہی ہیں، یہ سلسلہ جس قدر طویل ہے، اسی قدر حق وانصاف سے دور ہے، لیکن بوالعجبی کا کیا کہنا کہ اس طرح کے مزاعم خبیثہ کے لئے قرآن وحدیث سے استدلال کی کوشش کی جاتی ہے!۔
قدیم عہد میں حدیث نبوی کے خلاف جو محاذ قائم کیا گیا تھا، جدید دور میں اسی کی تجدید کی گئی، اور وہیں سے موجودہ دور کی ہفوات کے لئے مواد حاصل کئے گئے، باطل فرقوں کے وجود اور ان کی سرگرمیوں سے متعلق صاحب ’’سیرۃ البخاری‘‘ رقم طراز ہیں:
’’ امام بخاری کا زمانہ نہایت پر آشوب زمانہ ہے، صحیح حدیثوں کی تدوین تو شروع ہوچکی ہے، اور بہت کچھ تدوین ہو بھی چکی ہے،لیکن اس کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، کوئی کتاب صحیح حدیثوں کی مکمل تیارنہیں ہے، عقائد باطلہ کی چنگاریوں نے مشتعل ہو کر عالم میں ایک آفت مچا رکھی ہے، ہر جگہ بحث ومباحثہ کے بازار گرم ہیں، منکرین تقدیر، منکرین صفات الہی، منکرین عذاب قبر، منکرین رویت باری، منکرین ملائکہ وجن، مجسمہ، مرجئہ، جبریہ، معتزلہ، جہمیہ، خارجیہ، رافضیہ، امامیہ، ان میں بھی زیدیہ، اسماعیلیہ وغیرہ بیسیوں فرقے پیدا ہو چکے ہیں، غرض ملک کے ہر گوشہ میں ایک نئی صدا بلند ہے، اور ہر فرقہ اپنی جگہ اپنی پوری کوشش اور کامل قوت کے ساتھ اپنے خیالات پھیلانے میں سرگرم ہے، ادھر کوفہ سے اہل الرائے کے قیاسی مسائل نہایت زور وشور سے اٹھ کر تمام عراق پر چھا گئے ہیں، امام ابویوسف کے قاضی القضاۃ ہونے کی وجہ سے جوقاضی مقرر کئے جاتے ہیں وہ اسی خیال کے مقرر کئے جاتے ہیں، اور یہ سلسلہ عرصہ تک قائم رہ کر نہایت مستحکم طریقہ پر اس کی بنیاد اور جڑ تمام عراق میں مضبوط ہو گئی ہے، ایسے نازک وقت میں جبکہ اپنی خیر منانی مشکل ہے، امام بخاری کے قلم ولسان ودرس نے وہ کام کیا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، جس سادگی اور بیباکی سے صحیح بخاری میں ان فرق باطلہ کا ردکیا ہے وہ امام صاحب ہی کا حصہ تھا، اس پر لطف یہ کہ جن کی غلطیاں اور اوہام بیان کئے ہیں کہیں ان کے نام نہیں لئے، اور یہ وہ عالی ہمتی ہے جو بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، صحیح بخاری کی کتاب الایمان، کتاب الاعتصام بالسنہ، اور کتاب التوحید کو کسی کامل الفن شیخ سے پڑھو، اور ساتھ اس کے کتاب الملل والنحل کو سامنے رکھ لو تو اس کی خوبی کااندازہ ہو سکتا ہے۔
علاوہ صحیح بخاری کے فرق باطلہ کی تردید کے لئے مستقل تصنیفیں لکھیں، کتاب خلق افعال العباد، وکتاب الرد علی المعطلہ امام صاحب کی مشہور تالیف ہے، اور اب طبع ہو کر شائع ہے، جہمیہ معطلہ وغیرہ کا رد اس میں نہایت پر زور طریقہ سے کیا ہے‘‘۔ (سیرۃ البخاری ۲۳۶-۲۳۷)
جدید دور میں حدیث پر اعتراضات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صاحب سیرۃالبخاری لکھتے ہیں:
’’ ہم دیکھتے کہ آج یہ فن کئی حریفوں کی آما جگاہ بنا ہوا ہے، اور اس پر کئی طرف سے حملے ہو رہے ہیں، گو زمانہ قدیم میں بھی اس پر بہت کچھ حملے ہوئے ، تاہم آج جس طرح آزادی اور بیباکی کے ساتھ اس پر حملے ہو رہے ہیں اس کی نظیر زمانہ ٔ سلف میں کم ملتی ہے، اور لطف یہ کہ حملہ آور قوم اپنے کو مسلمان کہتی ہے! ‘‘، (ماخذ مذکور، ص ۲۵۲)
اس مقام پر مجھے بعض معاصر عرب علماء کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ:
کسی مسلمان کی طرف سے سنت کی حجیت کا انکار مستبعد ہے! معلوم نہیں اس قول کی دلیل کیا ہے، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ مسلکی تعصب کے دباؤ اور خواہشات نفس کی پیروی کی وجہ سے متعدد لوگوں نے سنت کا انکار کیا، اور ہندوستان میں تو ’’اہل قرآن‘‘ نام کی ایک جماعت تشکیل دی گئی جس نے اپنے وسائل کے مطابق انکار سنت کو فروغ دیا، صاحب سیرۃ البخاری کا اشارہ اسی طرف ہے، اس جماعت نامسعود کے افراد اور ان سے متأثر لوگ اکا دکا آج بھی نظر آتے ہیں، مگر آج حدیث کا انکار یا اس پر حملہ کرنے والے اکثر لوگ وہ ہیں جن کے انفرادی یااجتماعی مفادات پر حدیث کی وجہ سے ضرب لگتی ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ہماری اختیار کردہ راہ میں حدیث کی وجہ سے (یا شریعت کے کسی بھی اصول کی وجہ سے) رکاوٹ پیدا ہو، سنت شریفہ سے اعراض کی حدیث نبوی میں جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ ایسے لوگوں پر پوری طرح منطبق ہے
نسأل اللہ العافیہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حدیث کا ترجمہ وتشریح

اسلامی شریعت کے احکام کا اصل مآخذ کتاب وسنت ہیں، اور مسلمانوں کے تمام فرقے قرآن وسنت ہی کی پیروی کا دعوی کرتے ہیں،لیکن اس سلسلہ میں اس اہم بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ سلف کا منہج فہم اور معیار حق وصداقت ہی معتبر ہے، قرون مشہود لہا بالخیر (اسلام کی تین ابتدائی ادوار) میں جو واقعات پیش آئے، اور ائمہ دین نے ان کی تئیں جو موقف اختیار کیا اس سے صاف واضح ہے کہ کتاب وسنت کو سمجھنے میں مسلمان آزاد نہیں، یہ معاملہ دین کا ہے، مذکورہ تینوں ادوار کی علمی ومذہبی میراث کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کی فکری واعتقادی حالت کا مطالعہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے متلاشیانِ حق اور بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ مطمئن نہیں، کتاب وسنت پر عمل کی ضرورت کا انہیں احساس ہے، وہ جمود وتقلید سے ہٹ کر ہر مسئلہ کو کتاب وسنت کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں، اگر ان کے سامنے کوئی دوسری دلیل پیش کی جاتی ہے تو مطمئن نہیں ہوتے۔
دوسری طرف ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی ترقی کرلی ہے، دنیا بھر کے انسانوں کے ساتھ چند لمحات میں رابطہ قائم ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کے نام پر وہی چیز پیش کرنا صحیح ہوگا جس کی قرآن وحدیث سے تأئید ہوتی ہو، لہذا ہمیں اپنے علمی ودعوتی فریضہ کو انجام دینے کے لئے کتاب وسنت سے اپنا ربط مضبوط کرنا ہوگا، اور تعصب وتنگ نظری سے اوپر اٹھ کر حق کے تقاضہ کے مطابق اقدام کرنا ہوگا، جدید ذرائع ابلاغ میں ہم جوکچھ تخزین کریں، یا تحریر کے ذریعہ جو کچھ بھی پیش کریں اس کی تائید قرآن وحدیث سے ہو تو بہتر ہے، ورنہ مسخ شدہ اسلام کی دعوت پیش کرنے والے (خصوصاً جدید ذرائع ابلاغ میں) بہت زیادہ ہیں، ہم وقت کے تقاضہ کو اسی وقت پورا کرسکیں گے جب دنیا کے سامنے صحیح دعوت کو مناسب ومؤثر انداز سے پیش کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جماعت اہل حدیث کے ذریعہ حدیث کی اشاعت

جاہلانہ انداز کی گفتگو مسلم معاشرہ کا ایک سنگین مرض ہے، تعصب سے نفرت کا جنم ہوتا ہے، اور نفرت پیدا کرنا ہی شیطان کا مقصد ہے، بر صغیر میں جب سے مسلمان موجود ہیں اپنے دین اور علوم دین کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں، کسی فرقہ یا جماعت سے دینی وعلمی کام کی نفی نا معقول انداز ہے، ہر جماعت نے اپنے وجود کے وقت سے اس ملک میں کام کیا ہے، اور آج بھی کر رہی ہے، البتہ اس کام کا معیار اور اس کی افادیت کا مسئلہ زیر غور ہے، قرآن نے انسانی نفسیات کا ذکر {كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ} [المؤمنون:53] کے ذریعہ کر دیا ہے، یہاں معیار پر پرکھنے کی بات آئے گی تو پھر ابتدائی تین صدیوں کے معیار ومنہج کو تسلیم کرنا ہوگا۔
جماعتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے گا تو ماننا ہوگا کہ بر صغیر میں جماعت اہل حدیث نے حدیث کی خدمت ایک اہم علم کی حیثیت سے کی ہے، اس کی نظر میں کسی مسلک یا شخصیت کی بات نہ تھی، نہ کسی کی جانبداری کا سوال تھا، قرون اولی میں محدثین کرام کا منہج اس کے سامنے تھا، اسی کے تقاضہ کو اس نے پورا کیا، جماعت کے اسی موقف کا اثر تھا کہ متحدہ ہندوستان میں حدیث کی اشاعت ہوئی، حدیث کی کتابوں سے لوگ روشناس ہوئے، اور جب اللہ تعالی نے ہدایت دی تو حدیث کا مطالعہ کرنے اور حوالہ دینے لگے، پھر ایک وقت آیا کہ حدیث کی چھ اہم کتابوں (اصول ستہ) کی تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا، تدریس کی نوعیت جو بھی ہو لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ تنہا فقہ کی کتابوں پر توجہ مرکوز کرنا صحیح نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ کتب حدیث کی تدریس بھی ضروری ہے، ہم نے’’ تدریس کی نوعیت ‘‘ کا جو لفظ استعمال کیا ہے اس سے اس بات کی جانب اشارہ مقصود ہے کہ حدیث سے جو مسئلہ ثابت ہو رہا ہے اسے ثابت کرنے کے بجائے اس کے ذریعہ کسی مخصوص فقہی مسلک کی تائید کی جائے، اور سند ومتن کے دیگر امور کو نظر انداز کردیا جائے، یا پھر مذکورہ روح کے مطابق ہی تدریس کی خدمت انجام دی جائے۔
اس مقام پر ان کوششوں کی جانب اشارہ بھی مناسب ہے جو مستند، معروف اور متداول تصنیفات حدیث کے بالمقابل مسلکی خدمت اورگروہی عصبیت کی تحریک پر لکھی گئی ہیں، اس طرح کی متعدد کتابیں اسی سر زمین ہند پر تیار کی گئی ہیں، اور ان کے مقصد تصنیف کی وضاحت کرتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ اس تصنیفی کوشش کی محرک مخصوص فقہی مسلک کی تائید ہے، یعنی حدیث کا اپنا کوئی معیار اور فن کی خدمت اس کا محرک نہیں!۔
کتب حدیث کے تحشیہ وشرح کا کام بھی متحدہ ہندوستان میں خاصا ہوا ہے، ان شروح وحواشی پر نظر ڈالئے تو صاف معلوم ہو گا کہ کتاب کی خدمت یا کسی تدریسی مقصد کی تکمیل کے لئے یہ خدمت انجام نہیں دی گئی ہے، بلکہ فقہی مسلک کی تائید مقصود ہے، اس صورت حال کو ملحوظ کرنے والا ہرشخص یہ فیصلہ کرے گا کہ شرح یا حاشیہ کے ذریعہ کتب حدیث کی خدمت اس طرح کی جائے کہ پڑھنے والا کسی الجھن کا شکار نہ ہو، شاہ ولی اللہ کی مساعی جمیلہ کی روشنی میں علمائے اہلحدیث نے محسوس کیا کہ محدثین کے معیار جرح وتعدیل کو اور شاہ صاحب کے اصول فقہیات کو سامنے رکھ کر مذہب ومشرب کے امتیاز کے بغیر حدیث کی خدمت کی جائے، اور جملہ اسلاف کرام -محدثین ہوں یا فقہاء- کا احترام ملحوظ رکھا جائے، یہی وہ مثبت انداز ہے جس کے ذریعہ تحقیق کے عمل کو تقویت حاصل ہوسکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عصر حاضر میں علم حدیث کے تئیں ہماری ذمہ داری

جو لوگ علمی میدان میں سرگرم ہیں ان کے پیش نظر بہت سے علمی وتحقیقی منصوبے ہیں جن پر وسائل کی فراہمی کی صورت میں کام ہو سکتا ہے، چونکہ جماعت اہلحدیث محدثین کے منہج کے مطابق خدمت دین کی قائل ہے، اس لئے اس کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ:

! حدیث وآثار کی روشنی میں قرآن کریم کی ایک علمی تفسیر تیار کرائے جس سے موجودہ ذہن کو صحیح راہ ملے، اور اس کے خدشات دور ہوں۔
! اصول ستہ،موطا امام مالک اور سنن دارمی کے متون کو مختلف زبانوں میں مع تعلیقات و حواشی دیدہ زیب صورت میں شائع کرائے۔
! محدثین کرام کی صدیوں پر محیط کارناموں اورتاریخ کو اردو زبان میں مدوّن کرائے۔
! حدیث کے منکرین، مخالفین اور تاویل وتوجیہ کی پگڈنڈیوں پر جانے والوں کے حملوں کی مدافعت کے لئے مؤثر انتظام کرے۔

دار الدعوۃ کا عظیم منصوبہ
ہندوستان میں علم حدیث کی خدمت اور اس فن میں کتابوں کی تصنیف کا حال برصغیر کی علمی ودینی تاریخ سے متعلق کتابوں میں مفصل مذکور ہے، حدیث کی خدمت ہی کا ایک حصہ یہ ہے کہ اردو زبان اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں علوم سلف کو منتقل کیا جائے تاکہ یہاں کی کثیر آبادی اس خزانہ سے روشناس اور مستفید ہو سکے، کتب حدیث میں اصول ستہ (بخاری،مسلم، ابوداود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) کا اردو ترجمہ نواب وحیدالزماں حیدرآبادی نے کیا تھا، ان کے بعد مولانا عبدالسلام بستوی نے مشکاۃ مصابیح کا، اورمولانا داود راز نے بخاری شریف کا اردو ترجمہ کیا، مولانا راز رحمہ اللہ صحیح مسلم کے ترجمہ میں بھی مشغول تھے، لیکن اس کی تکمیل نہ ہوسکی، اس کے علاوہ متفرق طور پر کتب حدیث کے ترجمہ کے متعدد کام ہوئے، یہاں استقصاء مقصودنہیں، صرف یہ عرض کرنا ہے کہ معروف رفاہی تعلیمی ادارہ ’’ دار الدعوۃ‘‘ نے کتب حدیث اور علوم سلف کو اردو اور دیگر ہندوستانی زبانوں میںمنتقل کرنے کا ایک جامع ومفید منصوبہ بنایا ہے، اس کام کے آغاز میں اصول ستہ کے ترجمہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ منصوبہ محض کسی زبان میں ترجمہ کانہیں، بلکہ ترجمہ کے ساتھ ساتھ اس میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھا گیا ہے:

۱- متن حدیث کی تصحیح برعایت علامات وقف: کامہ، کالن، ڈیش وغیرہ۔
۲- کتب تسعہ (بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، موطأ امام مالک، سنن دارمی) کے حوالہ سے حدیث کی تخریج۔
۳- صحت وضعف کے اعتبار سے حدیث پر حکم۔
۴- صحت وضعف کے حکم کی توجیہ وتشریح۔
۵- حدیث کا سلیس اور واضح ترجمہ۔
۶- حواشی جن میں باطل عقائد ونظریات کی تردید ہو۔

اس اجمالی بیان سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ دار الدعوۃ کا مذکورہ منصوبہ علماء اور عوام دونوں کے لئے مفید ہے، متن کی تصحیح، حدیث کی تخریج، صحت یا ضعف کا حکم، اس حکم کی توجیہ وتشریح، معانی کی توضیح، اور باطل عقائد کی تردید وغیرہ امور پر علماء کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، جبکہ حدیث کا ترجمہ اور مستنبط احکام کی توضیح خصوصی طور پر عوام کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے، ایسے کثیر الجہات منصوبہ کو صحیح طور پر عملی جامہ پہنا دیا جائے تو یقین ہے کہ معاشرہ کے افراد با مقصد دینی ثقافت سے واقف ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس عظیم ومفید منصوبہ کی تکمیل کے لئے ہر طرح کے وسائل مہیا فرمادے، آمین، وصلى الله على رسوله الكريم، والحمد لله رب العالمين ۔

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری
وکیل الجامعۃ السلفیہ - بنارس
۶؍۱۲؍۱۴۲۴ھ

* * * * *
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نماذج من انطباعات
أهل العلم والدعوة والتعليم
عن مشروع نقل علوم السلف إلى لغات الهند
تحت إشراف مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيريہ​




كلمة معالي الشيخ صالح بن عبدالرحمن الحصين -حفظه الله-
رئيس شؤون المسجد الحرام والمسجد النبوي بمكة المكرمة
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين نبينا ورسولنا محمد آله وصحبه أجمعين، في يوم الثلاثاء الموافق 29/6/ 1421هـ زرت مكتب مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية بدلهي الجديدة التي يشرف عليها العالم الجليل الشيخ الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي (أستاذ الحديث في جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)، وبما أني على صلة وثيقة بالشيخ منذ مدة طويلة عرفته بالفضل والعلم والهمة العالية لحمل هم الإسلام والدعوة إليه على منهاج النبوة والعقيدة السليمة، وهو يقوم على عدد من المشاريع التعليمية والدعوية في الهند، ومن ذلك نقل أمهات كتب الحديث، وموسوعة في السيرة النبوية إلى اللغة الأردية، وغيرها من لغات الهند، بالإضافة إلى كتب علماء السلف، وقد شرح لي الإخوان في المكتب شرحاً مفصلاً عن مشروع المكتب الطموح في ترجمة كتب السلف والأشواط التي قطعوها في هذا السبيل؛ كما شرحوا لي أنشطة المؤسسة وهي أنشطة تعليمية متعددة.
أدعو الله أن يوفقهم في أعمالهم لما يحبه ويرضاه، وأن يعينهم عليه، كما أدعو الله أن يرزقني وإياهم الإخلاص في العمل وتصحيح النية في القيام، فإن الإخلاص هو أهم ما يتواصى به المتواصون لأنه أشق شيء على النفس، لأنه لا حظ لها فيه كما قال الإمام جنيد رحمه الله.
وصلى الله على نبينا ورسولنا محمد وآله وصحبه.

كلمة فضيلة الشيخ الدكتور سليمان بن عبدالله أبا الخيل -حفظه الله-
وكيل جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض
فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي -حفظه الله-
رئيس مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية وعضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين (قسم السنة) بالرياض
سلام عليكم ورحمة الله وبركاته، وبعد:
فقد اطلعت على خطاب فضيلتكم رقم (بدون) المؤرخ في 1424/9/13هـ والمتضمن ذكر بعض الجهود التي تقوم بها مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية وقد سرني ذلك، وأشكر لفضيلتكم هذا الجهد وأحب إفادتكم أن ما تؤدونه هو رسالة سامية وهدف نبيل.
ندعو الله أن يوفقكم فيه ويكلل جهودكم بالنجاح والفلاح وكل ما نستطيعه سنبذله من أجل دعمكم والوقوف معكم وفق ما تسير عليه بلادنا بتوجيهات ولاة أمرنا -حفظهم الله-، أدعو الله لكم بالتوفيق والسداد، والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

كلمة فضيلة الشيخ الدكتور صالح بن غانم السدلان -حفظه الله-
أستاذ الفقه بكلية الشريعة بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فقد سرني المشروع العلمي الدعوي الكبير الذي اطلعت عليه ضمن مشروع نقل علوم السلف إلى لغات الهند، والذي تقوم به مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية بالهند تحت إشراف زميلنا فضيلة الشيخ الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي عضو هيئة التدريس بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض -وفقه الله- وملخص المشروع كالآتي:
موسوعة الأحاديث النبوية باللغة الأردية، وتحتوي على ترجمة الصحيحين والسنن الأربعة (أبي داود، والنسائي، والترمذي، وابن ماجه) وموطأ الإمام مالك، وسنن الدارمي إلى اللغة الأردية مع إثبات النص ثم الترجمة وتخريج الأحاديث والحكم عليها تصحيحاً وتضعيفاً في غير الصحيحين، وشرح المفردات والتعليقات المختصرة؛ كما أن فيه تقريبًا لهذه المادة العظيمة التي هي الوحي الثاني للقراء والباحثين.
وبين يديّ نماذج من كتاب السنن للإمام أبي داود بالصفة المذكورة وهو أول كتاب تقوم المؤسسة بطبعه، وبهذه المناسبة الطيبة أبارك الإخوة العاملين في هذا المشروع، وأدعو لهم بالتوفيق والتسديد، وأرى هذا العمل بهذه الصورة المتقنة مفيداً للغاية للمختصين والعامة لمن أراد أن يستفيد منه للعمل به والدعوة إليه.
وإذ أشيد بهذا العمل وأؤيده أحث الإخوة العاملين في هذا المشروع على الاستمرار في إكمال هذا المشروع، وما يليه من المشاريع مثل نقل علوم وإفادات أئمة الدين: شيخ الإسلام ابن تيمية، والإمام ابن القيم، والمجدد محمد بن عبدالوهاب -رحمة الله عليهم- إلى اللغة الأردية وغيرها من لغات الهند.
وآمل من أهل الخير والإحسان التكرم بمد يد العون للمؤسسة لإكمال هذا المشروع وطبعه وتوزيعه تعميماً للفائدة، واحتساباً للأجر في ذلك عند الله.
وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

كلمة فضيلة الدكتور مقتدى حسن بن محمد ياسين الأزهري -حفظه الله -
وكيل الجامعة السلفية (بنارس، الهند)
وعضو اللجنة التنفيذية في جميعة أهل الحديث المركزية لعموم الهند
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسوله الكريم، وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد:
فلا يخفى أن مشروع نقل علوم السلف إلى اللغة الأردية مهم جداً، لأن عدداً كبيراً من المسلمين في شبه القارة الهندية وخارجها يتفاهم بهذه اللغة، ويعتبرها لغة العلم والثقافة وخاصة فيما يتعلق بالإسلام وتأريخه، ومن هنا فكر المعنيون بشؤون الدعوة والتعليم بإعداد البحوث والمؤلفات في هذه اللغة.
والمشروع الذي نحن بصدده الآن يمتاز في هذا المجال، لأنه يهدف إلى نقل كتب التفسير والحديث المعتمدة إلى اللغة الأردية وغيرها من لغات الهند، وإلى توفير هذه الكتب المترجمة للراغبين فيها، وقد تبنى هذا المشروع فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي (عضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين، بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض).
والعلماء الذين تولوا ترجمة الكتب إلى الأردية وغيرها من اللغات علماء أكفاء لهم خبرة في مجال التأليف والترجمة، وقد تحملوا مسؤولية التدريس للعلوم الشرعية.
ومراجعة الترجمة أيضاً تتم بصورة دقيقة وعلى أيدي العلماء الخبيرين في هذا المجال.
وسنن ابن ماجة كان أول كتاب ترجم إلى الأردية، وتمت مراجعة الترجمة على يد أحد العلماء المعروفين، وهو الشيخ محمد الأعظمي بن الشيخ عبدالعلي، وهو عالم معروف قضى حياته في التدريس والدعوة والتأليف، وقد تتلمذ عليه مجموعة كبيرة من علماء الهند، وقد اطلعت على بعض هذه الأعمال؛ كما راجع الدكتور عبدالرحمن الفريوائي كتاب السنن لأبي داود ، وكان لي شرف تقديم هذه الترجمة على طبعة هذا الكتاب المبارك، وهكذا تتوالى هذه السلسلة، وتنقل معظم كتب التفسير والحديث إلى اللغات الهندية المهمة -إن شاء الله-.
وإذ أكتب هذه السطور أبدي إعجابي بالمشروع، وأهيب المسؤولين لمد يد العون إليه حتى تكون أهم المؤلفات الإسلامية في متناول أيدي المسلمين في الهند، والله ولي التوفيق.
وصلى الله على رسوله الكريم، والحمد لله رب العالمين.
 
Top