136- بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَائَةَ فِي صَلاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۱۳۶-باب: جو شخص صلاۃ میں سورہ فا تحہ نہ پڑھے اس کی صلاۃ کے حکم کا بیان
818- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵،۹۷) (صحیح)
۸۱۸- ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں صلاۃ میں سورہ فا تحہ اورجو سورہ آسان ہو اسے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
819- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ الْبَصْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < اخْرُجْ فَنَادِ فِي الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لاصَلاةَ إِلا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۸) (منکر)
(’’جعفربن میمون‘‘ ضعیف راوی ہیں،نیزثقات کی مخالفت کی ہے)
۸۱۹- ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’تم جاؤ اور مدینہ میں اعلان کردو کہ صلاۃ بغیر قرآن کے نہیں ہوتی، اگر چہ سورہ فا تحہ اور اس کے سا تھ کچھ اور ہی ہو‘‘۔
820- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ أُنَادِيَ [أَنَّهُ] لا صَلاةَ إِلا بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۹) (صحیح) (صحیح مسلم میں مروی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بھی ’’جعفربن میمون‘‘ ہیں)
۸۲۰- ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلا ن کر دوں کہ سورہ فا تحہ اور کوئی اور سور ت پڑھے بغیر صلاۃ نہیں۔
821- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < مَنْ صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ >، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الإِمَامِ، قَالَ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ: فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ >، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < اقْرَئُوا، يَقُولُ الْعَبْدُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، يَقُولُ:{الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ: {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} يَقُولُ اللَّهُ: هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ الْعَبْدُ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاالضَّالِّينَ} يَقُولُ اللَّهُ: فَهَؤُلاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۵)، ت/تفسیر الفاتحۃ ۲ (۲۹۵۳)، ن/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱ (۸۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳۵، ۱۴۰۴۵)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۹ (۳۹)، حم (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۸۷) (صحیح)
۸۲۱- ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے صلاۃ پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے ، نا قص ہے ، نا قص ہے، پو ری نہیں‘‘۔
راوی ابو سائب کہتے ہیں:اس پر میں نے کہا : ا بو ہریرہ!کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں ( تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا : اے فارسی ! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیو ں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اللہ تعالی فرماتا ہے : میں نے صلاۃ ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردی ہے، اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ بھی ہے جو وہ مانگے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پڑھو: بندہ
{الحمدلله رب العالمين} کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ
{الرحمن الرحيم} کہتا ہے تو اللہ عز وجل فرما تا ہے: میرے بندے نے میری تو صیف کی، بندہ
{مالك يوم الدين} کہتا ہے تو اللہ عز وجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ
{إياك نعبد وإياك نستعين}کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ
{اِهْدِنِا الصِّرَاْطَ الْمُسْتَقِيْمَ، صِرَاْطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّاْلِّيْن}کہتا ہے تواللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لئے ہیں اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ ما نگے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ سے مراد سورہ فاتحہ ہے ،تعظیماً کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : جو لوگ بسم اللہ کو سورہ ٔ فاتحہ کا جزء نہیں مانتے ہیں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بسم اللہ کے سورہ ٔ فاتحہ کے جزء ہونے کی صورت میں اس حدیث میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہئے جیسے اور ساری آیتوں کا ذکر ہے ۔
822- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ ابْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم : < لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا >، قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۴)، ن/الافتتاح ۲۴ (۹۱۱) (وقد ورد بدون قولہ :’’فصاعداً‘‘ عند : خ/الأذان ۹۵ (۷۵۶)، ت/ الصلاۃ ۶۹ (۲۴۷)، ۱۱۶ (۳۱۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱ (۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۲۲)، دي/الصلاۃ ۳۶ (۱۲۷۸) (صحیح)
۸۲۲- عبادہ بن صا مت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس شخص کی صلاۃ نہیں جس نے سورہ فا تحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی‘‘ ۱؎ ۔
سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لئے ہے جو تنہا صلاۃ پڑھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کامطلب یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ سے کم پرصلاۃ جائز نہیں ہوگی، سورہ فاتحہ سے زائد قرا ء ت کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : خطابی کا کہنا ہے کہ یہ عام ہے بغیر کسی دلیل کے اس کی تخصیص جائز نہیں۔
823- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي صَلاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: < لَعَلَّكُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ > قُلْنَا: نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: <لاتَفْعَلُوا إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا >۔
* تخريج: ت الصلاۃ ۱۱۵ (۳۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲)، (حسن) (ابن خزیمۃ نے اسے صحیح کہا ہے (۳؍۳۶- ۳۷) ترمذی ، دار قطنی اور بیہقی نے بھی حسن کہا ہے (۲؍۱۶۴) ابن حجر نے نتائج الافکار میں حسن کہا ہے )، ملاحظہ ہو: امام الکلام تالیف مولانا عبدالحی لکھنوی (۲۷۷- ۲۷۸)
۸۲۳- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرا ء ت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہوگئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’ شاید تم لو گ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ؟‘‘ ، ہم نے کہا: ہا ں، اللہ کے رسول ! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورہ فا تحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی صلاۃ نہیں ہو تی ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : جب اسے
’’هَذَّ يَهُذُّ‘‘ کا مصدر
’’هَذًّا‘‘ مانا جائے تو اس کے معنی پڑھنے والے کا ساتھ پکڑنے کے لئے جلدی جلدی پڑھنے کے ہوں گے، اور اگر
’’ هذا‘‘ کو اسم اشارہ مانا جائے تو ترجمہ یوں کریں گے ’’ایسا ہی ہے‘‘ ۔
824- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ أخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ نَافِعٌ: أَبْطَأَ عُبَادَةُ [بْنُ الصَّامِتِ] عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَأَقَامَ أَبُو نُعَيْمٍ الْمُؤَذِّنُ الصَّلاةَ، فَصَلَّى أَبُو نُعَيْمٍ بِالنَّاسِ وَأَقْبَلَ عُبَادَةُ وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى صَفَفْنَا خَلْفَ أَبِي نُعَيْمٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ يَجْهَرُ بِالْقِرَائَةِ، فَجَعَلَ عُبَادَةُ يَقْرَأُ أُمَّ الْقُرْآنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ لِعُبَادَةَ: سَمِعْتُكَ تَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَأَبُو نُعَيْمٍ يَجْهَرُ، قَالَ: أَجَلْ، صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يَجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ، قَالَ: فَالْتَبَسَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ وَقَالَ: < هَلْ تَقْرَئُونَ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَائَةِ؟ > فَقَالَ بَعْضُنَا: إِنَّا نَصْنَعُ ذَلِكَ، قَالَ: < فَلا، وَأَنَا أَقُولُ: مَا لِي يُنَازِعُنِي الْقُرْآنُ، فَلا تَقْرَئُوا بِشَيْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلا بِأُمِّ الْقُرْآنِ >۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۲۹ (۹۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۶) (صحیح)
(اہل علم نے اس حدیث کے بارے میں لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں، ملاحظہ ہو:
تحقيق الكلام في وجوب القرائة خلف الإمام للعلامة عبدالرحمن المباركفوري، وإمام الكلام للشيخ عبدالحي اللكهنوي، و ضعيف أبي داود (9/ 318)
۸۲۴- نا فع بن محمو د بن ربیع انصاری کہتے ہیں کہ عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فجر میں تا خیرکی تو ابو نعیم موذن نے تکبیر کہہ کر خود لوگوں کو صلاۃ پڑھانی شروع کردی، اتنے میں عبادہ آئے ان کے ساتھ میں بھی تھا، ہم لوگوں نے بھی ابو نعیم کے پیچھے صف باندھ لی ،ابو نعیم بلند آواز سے قرا ء ت کررہے تھے، عبادہ سورہ فا تحہ پڑھنے لگے، جب ابو نعیم صلاۃ سے فارغ ہوئے تو میں نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے آپ کو ( صلاۃ میں ) سورہ فا تحہ پڑھتے ہوئے سنا، حالا نکہ ابو نعیم بلندآواز سے قرأت کر رہے تھے، انہوں نے کہا: ہاں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جہری صلاۃ پڑھائی جس میں آپ زور سے قرأت کررہے تھے،آپ کو قرأت میں التباس ہوگیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو ہماری طرف متو جہ ہوئے اور پوچھا: ’’جب میں بلندآواز سے قرأت کر تا ہوں تو کیا تم لو گ بھی قرأت کرتے ہو؟‘‘، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہا ں، ہم ایسا کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب ایسا مت کرنا، جبھی میں کہتا تھا کہ کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے کوئی چھینے لیتا ہے تو جب میں بلند آواز سے قرأت کروں تو تم سوائے سورہ فاتحہ کے قرآن میں سے کچھ نہ پڑھو ‘‘۔
825- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ، وَسَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ الْعَلاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عُبَادَةَ، نَحْوَ حَدِيثِ الرَّبِيعِ [بْنِ سُلَيْمَانَ]، قَالُوا: فَكَانَ مَكْحُولٌ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَالصُّبْحِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ سِرًّا، قَالَ مَكْحُولٌ: اقْرَأْ[بِهَا] فِيمَا جَهَرَبِهِ الإِمَامُ إِذَا قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسَكَتَ سِرًّا، فَإِنْ لَمْ يَسْكُتِ اقْرَأْ بِهَا قَبْلَهُ وَمَعَهُ وَبَعْدَهُ، لا تَتْرُكْهَا عَلَى [كُلِّ] حَالٍ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۴) (ضعیف) (مکحول نے عبادہ رضی اللہ عنہ کونہیں پایاہے)
۸۲۵- اس طریق سے بھی عبا دہ رضی اللہ عنہ سے ربیع بن سلیمان کی حدیث کی طرح روایت مروی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ مکحول مغرب، عشاء اور فجر میں ہر رکعت میں سورہ فا تحہ آہستہ سے پڑھتے تھے، مکحول کا بیان ہے :جب امام جہری صلاۃ میں سورہ فا تحہ پڑھ کر سکتہ کرے ، اس وقت آہستہ سے سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرو اور اگر سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لیا کرو، کسی حال میں بھی تر ک نہ کرو۔