• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
2-بَاب الْعُرُوضِ إِذَا كَانَتْ لِلتِّجَارَةِ هَلْ فِيهَا مِنْ زَكَاةٍ ؟
۲-باب: کیا تجارتی سامان میں زکاۃ ہے؟​


1562- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُودَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۸) (ضعیف)
(اس کے راوی’’خبیب‘‘مجہول ہیں،لیکن مال تجارت پر زکاۃ اجماعی مسئلہ ہے)
۱۵۶۲- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے امّا بعد کہا پھر کہا: رسول اللہ ﷺ ہم کو حکم دیتے تھے کہ ہم ان چیزوں میں سے زکاۃ نکالیں جنہیں ہم بیچنے کے لئے رکھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ تجارت کا مال اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں بھی زکاۃ ہے، اس مسئلہ پر امت کا اجماع ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الْكَنْزِ مَا هُوَ؟ وَزَكَاةِ الْحُلِيِّ
۳-باب: کنز کیا ہے؟ اور زیور کی زکاۃ کا بیان​


1563- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ -الْمَعْنَى- أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ [لَهَا]: <أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟>، قَالَتْ: لا، قَالَ: < أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ>، قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱۹ (۲۴۸۱، ۲۴۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۸، ۲۰۴، ۲۰۸) (حسن)
۱۵۶۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سو نے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟‘‘، اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے‘‘۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈال دیا اور بولی: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زیورات میں زکاۃ ہے یا نہیں؟اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلاف ہے، زیادہ بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ زیورات اگر فخر ومباہات، اسراف وتبذیر اور زکاۃ سے بچنے کے خوف سے نہ ہوں بلکہ صرف استعمال کی غرض سے ہوں توایسی صورت میں اس میں زکاۃ نہیں ہے، بصورت دیگر اس میں زکاۃ واجب ہے، بعض اہل علم نے زیور کی زکاۃ کو مطلق واجب کہا ہے، اور بعض نے احتیاط کے مد نظر زکاۃ نکالنے کی بات کہی ہے (ملاحظہ ہو: توضیح الاحکام فی شرح بلوغ المرام،تالیف : شیخ عبداللہ البسّام)۔


1564- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَتَّابٌ -يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ- عَنْ ثَابِتِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَطَائٍ؛ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ: < مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۹۹) (حسن)
۱۵۶۴- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں سونے کے اوضاح ۱؎ پہنا کرتی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ دی جائے پھر اس کی زکا ۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ایک قسم کا زیور ہے جسے پازیب کہا جاتا ہے۔


1565- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ ابْنِ الْهَادِ أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَرَأَى فِي يَدَيَّ فَتَخَاتٍ مِنْ وَرِقٍ، فَقَالَ: < مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ!؟ >، فَقُلْتُ: صَنَعْتُهُنَّ أَتَزَيَّنُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: < أَتُؤَدِّينَ زَكَاتَهُنَّ؟ > قُلْتُ: لا، أَوْ مَا شَائَ اللَّهُ، قَالَ: < هُوَ حَسْبُكِ مِنَ النَّارِ >ـ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۰) (صحیح)
۱۵۶۵- عبداللہ بن شداد بن الہا د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، وہ کہنے لگیں: میرے پاس رسول اللہ ﷺ آئے، آپ نے میرے ہاتھ میں چاندی کی کچھ انگو ٹھیاں دیکھیں اور فرمایا : ’’عائشہ! یہ کیا ہے؟‘‘، میں نے عرض کیا: میں نے انہیں اس لئے بنو ایا ہے کہ میں آپ کے لئے بنا ئو سنگا ر کروں، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟‘‘، میں نے کہا: نہیں، یا جو کچھ اللہ کو منظو ر تھا کہا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لئے کافی ہیں‘‘۔


1566- حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ يَعْلَى، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، نَحْوَ حَدِيثِ الْخَاتَمِ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: كَيْفَ تُزَكِّيهِ؟ قَالَ: تَضُمُّهُ إِلَى غَيْرِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۵۷) (ضعیف)
(عمربن یعلی ضعیف راوی ہیں)
۱۵۶۶- اس سند سے عمر بن یعلی (عمربن عبداللہ بن یعلی بن مرہ) سے اسی انگوٹھی والی حدیث جیسی حدیث مروی ہے، سفیان سے پوچھا گیا :آپ اس کی زکاۃ کیسے دیں گے؟ انہوں نے کہا : تم اسے دوسرے میں ملا لو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
۴-باب: چرنے والے جا نوروں کی زکاۃ کا بیان​


1567- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَنَسٍ كِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَهُ لأَنَسٍ، وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَكَتَبَهُ لَهُ، فَإِذَا فِيهِ: < هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ [عَزَّ وَجَلَّ] بِهَا نَبِيَّهُ ﷺ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلا يُعْطِهِ: فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ الْغَنَمُ: فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ، إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلاثِينَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ، إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ، إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ، إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ، إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ: فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ: إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ -قَالَ أَبودَاود: مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَى كَمَا أُحِبُّ- وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ >.
قَالَ أَبودَاود: إِلَى هَاهُنَا، ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ: < وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ، وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْئٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ، إِلا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ، إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ، إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلاثَ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، وَلا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَلا تَيْسُ الْغَنَمِ، إِلا أَنْ يَشَائَ الْمُصَدِّقُ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ، إِلا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ، إِلا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۳۳ (۱۴۴۸)، ۳۹ (۱۴۵۵)، الشرکۃ ۲ (۲۴۸۷)، فرض الخمس ۵ (۳۰۱۶)، الحیل ۳ (۶۹۵۵)، ن/الزکاۃ ۵ (۲۴۴۹)، ۱۰ (۲۴۵۷)، ق/الزکاۃ ۱۰ (۱۸۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱، ۱۳) (صحیح)
۱۵۶۷- حماد کہتے ہیں : میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی ، وہ کہتے تھے:یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ کے لئے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ ﷺ کی مہر لگی ہوئی تھی ، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا تو یہ کتا ب انہیں لکھ کردی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی :
’’ یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالی نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے،وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے:
پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکر ی ہے، جب پچیس اونٹ پو رے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ۱؎ ہے، اگر بنت مخا ض نہ ہوتو ابن لبو ن دے دے، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جا ئیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پو رے ہو جا ئیں تو سا ٹھ (۶۰) تک میں ایک حقّہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جا ئیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذ عہ واجب ہو گی، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جا ئیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوںگی، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقّہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چا لیس (۴۰)میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا ۔
اگروہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لئے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذ ہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اورسا تھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دے دے۔
یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبو ن ہی اس سے قبول کرلی جائے گی‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: میں موسی سے حسب ِ منشاء اس عبارت سے ’’ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا‘‘سے لے کر’’ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه‘‘ تک اچھی ضبط نہ کرسکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے :یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقّہ ہو تو حقّہ ہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا،جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہو تی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے سا تھ سا تھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لئے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے دے۔
اگر چا لیس (۴۰) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (۱۲۰) تک ایک بکری دینی ہو گی، جب ایک سو اکیس (۱۲۱) ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہو ں گی، جب دو سو سے زیا دہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہو گی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نربکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔
اسی طرح زکاۃ کے خو ف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشتر ک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کرلیں گے ۲؎ ۔
اگر چر نے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دے دے، اورچاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔
وضاحت ۱؎ : بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (۷) تفسیر اسنان الابل میں دیکھئے۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً دوشریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دوسوپچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور (۲۵) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے بنتی ہے توہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سوروپئے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔


1568- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ، فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ، فَعَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ، ثُمَّ عَمِلَ بِهِ عُمَرُ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ فِيهِ: < فِي خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاةٌ، وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، وَفِي خَمْسَ عَشْرَةَ ثَلاثُ شِيَاهٍ، وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ ابْنَةُ مَخَاضٍ، إِلَى خَمْسٍ وَثَلاثِينَ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ، إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ، إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا جَذَعَةٌ، إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ، إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الإِبِلُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي الْغَنَمِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً فَشَاتَانِ، إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ [وَاحِدَةً] عَلَى الْمِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلاثُ [شِيَاهٍ]، إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْغَنَمُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، وَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ حَتَّى تَبْلُغَ الْمِائَةَ، وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ [بَيْنَهُمَا] بِالسَّوِيَّةِ، وَلا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ، هَرِمَةٌ، وَلا ذَاتُ عَيْبٍ >، قَالَ: وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَائَ الْمُصَدِّقُ قُسِّمَتِ الشَّائُ أَثْلاثًا: ثُلُثًا شِرَارًا، وَثُلُثًا خِيَارًا، وَثُلُثًا وَسَطًا، فَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۴ (۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۳)، وقد أخرجہ: ق/الزکاۃ ۹ (۱۷۹۸)، ط/الزکاۃ ۱۱ (۲۳) (وجادۃً)، دي/الزکاۃ ۶ (۱۶۶۶)، حم (۲/۱۴، ۱۵) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بنا پریہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ سفیان بن حسین زہری سے روایت میں ثقہ نہیں ہیں)
۱۵۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی کتاب لکھی، لیکن اسے اپنے عمال کے پاس بھیج نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، آپ ﷺ نے اسے اپنی تلوار سے لگائے رکھا پھر اس پرابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا، اس کتا ب میں یہ تھا:
’’ پا نچ (۵) اونٹ میں ایک (۱) بکر ی ہے، دس (۱۰) اونٹ میں دو (۲) بکریاں، پندرہ (۱۵) اونٹ میں تین (۳) بکریاں، اور بیس (۲۰) میں چا ر (۴) بکریاںہیں، پھر پچیس (۲۵) سے پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے، پینتیس (۳۵) سے زیادہ ہو جائے تو پینتا لیس (۴۵) تک ایک بنت لبو ن ہے، جب پینتا لیس (۴۵) سے زیادہ ہو جائے تو ساٹھ (۶۰) تک ایک حقہ ہے، جب سا ٹھ (۶۰) سے زیا دہ ہو جائے تو پچہتر (۷۵) تک ایک جذ عہ ہے، جب پچہتر (۷۵) سے زیا دہ ہوجائے تو نو ے (۹۰) تک دو بنت لبون ہیں، جب نو ے (۹۰) سے زیا دہ ہو جا ئیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقے ہیں، اور جب اس سے بھی زیا دہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک حقہ اور ہر چا لیس (۴۰) پر ایک بنت لبون واجب ہے۔
بکر یوں میں چالیس (۴۰) سے لے کر ایک سو بیس (۱۲۰) بکریوں تک ایک (۱) بکر ی واجب ہوگی، اگر اس سے زیا دہ ہو جائیں تو دو سو (۲۰۰) تک دو (۲) بکر یاں ہیں، اس سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین (۳) بکریاں ہیں، اگر اس سے بھی زیا دہ ہو جا ئیں تو ہر سو (۱۰۰) بکری پر ایک (۱) بکری ہوگی، اور جو سو (۱۰۰) سے کم ہو اس میں کچھ بھی نہیں، زکاۃ کے ڈر سے نہ جد ا مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال کو جدا کیا جائے اور جو مال دو آدمیوں کی شرکت میں ہو وہ ایک دو سرے سے لے کر اپنا اپنا حصہ برابر کرلیں، زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے گا‘‘۔
زہری کہتے ہیں: جب مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا)آئے تو بکریوں کے تین غول کریں گے، ایک غول میںگھٹیا درجہ کی بکریاں ہوں گی دوسرے میں عمدہ اور تیسرے میں درمیانی درجہ کی تو مصدق درمیانی درجہ کی بکریاں زکاۃ میں لے گا، زہری نے گایوں کا ذکر نہیں کیا۔


1569- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ -بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ- قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ كَلامَ الزُّهْرِيِّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۶۸۱۳) (صحیح)
۱۵۶۹- محمد بن یزید واسطی کہتے ہیں ہمیں سفیان بن حسین نے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث کی خبر دی ہے، اس میں ہے: ’’اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبو ن واجب ہو گا‘‘، اورانہوں نے زہری کے کلام کا ذکر نہیں کیاہے۔


1570- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: هَذِهِ نُسْخَةُ كِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّذِي كَتَبَهُ فِي الصَّدَقَةِ، وَهِيَ عِنْدَ آلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَقْرَأَنِيهَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَوَعَيْتُهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَهِيَ الَّتِي انْتَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ مِنْ عَبْدِاللَّهِ [بْنِ عَبْدِاللَّهِ] بْنِ عُمَرَ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: < فَإِذَا كَانَتْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَلاثِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ وَحِقَّةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَلاثِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَبِنْتُ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ خَمْسِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلاثُ حِقَاقٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَخَمْسِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سِتِّينَ وَمِائَةً فَفِيهَا أَرْبَعُ بَنَاتِ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسِتِّينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سَبْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ وَحِقَّةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسَبْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَمَانِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَابْنَتَا لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَمَانِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ تِسْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلاثُ حِقَاقٍ وَبِنْتُ لَبُونٍ، حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَتِسْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا أَرْبَعُ حِقَاقٍ أَوْ خَمْسُ بَنَاتِ لَبُونٍ، أَيُّ السِّنَّيْنِ وُجِدَتْ أُخِذَتْ، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ > فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفِيهِ: < وَلا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَلا تَيْسُ الْغَنَمِ، إِلا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۵۶۸)، ( تحفۃ الأشراف :۶۸۱۳، ۱۸۶۷۰) (صحیح)
۱۵۷۰- ابن شہا ب زہری کہتے ہیں: یہ نقل ہے اس کتا ب کی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اوروہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولا د کے پاس تھی ۔
ابن شہا ب زہری کہتے ہیں : اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھا یا تو میں نے اسے اسی طرح یا د کرلیا جیسے وہ تھی ، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبد اللہ بن عمرسے نقل کر وایا تھا ، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: ’’جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جا ئیں توایک سو انتا لیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جا ئیں تو ایک سو انچا س (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جا ئیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جا ئیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبو ن اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اوردو (۲) بنت لبو ن ہیں، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جا ئیں تو ایک سو ننا نوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب دوسو (۲۰۰) ہو جا ئیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جا ئیں، لے لئے جائیں گے‘‘ ۔
اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جا تی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصو ل کرنے والا خود چاہے۔


1571- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه: < لا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ > هُوَ أَنْ يَكُونَ لِكُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعُونَ شَاةً فَإِذَا أَظَلَّهُمُ الْمُصَدِّقُ جَمَعُوهَا لِئَلا يَكُونَ فِيهَا إِلا شَاةٌ، < وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ > أَنَّ الْخَلِيطَيْنِ إِذَا كَانَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةُ شَاةٍ وَشَاةٌ فَيَكُونُ عَلَيْهِمَا فِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ، فَإِذَا أَظَلَّهُمَا الْمُصَدِّقُ فَرَّقَا غَنَمَهُمَا فَلَمْ يَكُنْ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلا شَاةٌ، فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۹۲۵۴)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۱۱ (۲۳) (صحیح )
۱۵۷۱- عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ مالک نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول ’’ جدا جدا مال کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور نہ اکٹھے مال کو جدا کیا جائے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے :مثلاً ہر ایک کی چا لیس چا لیس بکریاں ہوں، جب مصدق ان کے پاس زکاۃ وصو ل کرنے آئے تو وہ سب اپنی بکریوں کو ایک جگہ کر دیں تا کہ ایک ہی شخص کی تمام بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکاۃ میں لے، ’’اکٹھا مال جدا نہ کئے جا نے‘‘ کا مطلب یہ ہے: دو ساجھے دارہوں اور ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہوں ( دونوں کی ملا کر دو سو دو) تو دونوں کو ملا کر تین بکریاں زکاۃ کی ہوتی ہیں، لیکن جب زکاۃ وصول کرنے والا آتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کرلیتے ہیں، اس طرح ہر ایک پر ایک ہی بکری لازم ہو تی ہے، یہ ہے وہ چیز جو میں نے اس سلسلے میں سنی ہے۔


1572- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ وَعَنِ الْحَارِثِ الأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّه قَالَ: < هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ، مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْئٌ، حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ، وَفِي الْغَنَمِ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلا تِسْعٌ وَثَلاثُونَ، فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهَا شَيْئٌ >، وَسَاقَ صَدَقَةَ الْغَنَمِ مِثْلَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: < وَفِي الْبَقَرِ فِي كُلِّ ثَلاثِينَ تَبِيعٌ، وَفِي الأَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ، وَلَيْسَ عَلَى الْعَوَامِلِ شَيْئٌ، وَفِي الإِبِلِ >، فَذَكَرَ صَدَقَتَهَا كَمَا ذَكَرَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: < وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ خَمْسَةٌ مِنَ الْغَنَمِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، إِلَى خَمْسٍ وَثَلاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ، إِلَى سِتِّينَ >، ثُمَّ سَاقَ مِثْلَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: < فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً -يَعْنِي وَاحِدَةً وَتِسْعِينَ- فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ، إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الإِبِلُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَلاتُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلا تَيْسٌ، إِلا أَنْ يَشَائَ الْمُصَدِّقُ، وَفِي النَّبَاتِ: مَا سَقَتْهُ الأَنْهَارُ أَوْ سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ وَمَا سَقَى الْغَرْبُ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ >، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ وَالْحَارِثِ: < الصَّدَقَةُ فِي كُلِّ عَامٍ >، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: مَرَّةً، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ: < إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الإِبِلِ ابْنَةُ مَخَاضٍ وَلا ابْنُ لَبُونٍ فَعَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ شَاتَانِ > ۔
* تخريج: ق/الزکاۃ ۴ (۱۷۹۰)، دي/الزکاۃ ۷ (۱۶۶۹)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۰۳۹)، وقد أخرجہ: ت/الزکاۃ ۳ (۶۲۰)، ن/الزکاۃ ۱۸ (۲۴۷۹)، حم (۱/۱۲۱، ۱۳۲، ۱۴۶) (صحیح)
(شواہد کی بنا پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو:صحیح ابی داود۵/۲۹۱)
۱۵۷۲- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، (زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے)،آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’چالیسواں حصہ نکا لو، ہر چا لیس (۴۰) درہم میں ایک (۱) درہم، اور جب تک دو سو (۲۰۰) درہم پورے نہ ہوںتم پر کچھ لاز م نہیں آتا، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو، بکریوں میں جب چالیس (۴۰) ہوں تو ایک (۱) بکری ہے، اگر انتا لیس (۳۹) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں‘‘، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے۔
گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (۳۰) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہو گی اور ہر چا لیس (۴۰) میں دو سالہ گائے دینی ہو گی، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے، البتہ اتنے فر ق کے ساتھ کہ پچیس (۲۵) اونٹوں میں پانچ (۵) بکریاں ہوں گی، ایک بھی زیادہ ہو نے یعنی چھبیس (۲۶) ہوجا نے پر پینتیس (۳۵) تک ایک (۱) بنت مخاض ہوگی، اگربنت مخاض نہ ہو تو ابن لبو ن نرہوگا، اور جب چھتیس (۳۶) ہو جا ئیں تو پینتا لیس (۴۵) تک ایک (۱) بنت لبون ہے، جب چھیا لیس (۴۶) ہو جا ئیں تو ساٹھ (۶۰) تک ایک (۱) حقہ ہے جو نراونٹ کے لا ئق ہو جا تی ہے‘‘، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (۹۱) ہو جا ئیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو (۲) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لا ئق ہوں، جب اس سے زیادہ ہو جا ئیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک (۱) حقہ دینا ہوگا، زکاۃکے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جا نور قابل قبول ہو گا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو۔
(زمین سے ہونے والی)، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچا ئی سے جو پیدا وار ہوئی ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو،اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا‘‘۔
عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی۔
زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا ۔
عا صم کی روا یت میں ہے: ’’جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دینی ہوں گی‘‘۔


1573- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، وَسَمَّى آخَرَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَالْحَارِثِ الأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِبَعْضِ أَوَّلِ [هَذَا] الْحَدِيثِ، قَالَ: < فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْئٌ -يَعْنِي فِي الذَّهَبِ-، حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ >، قَالَ: فَلا أَدْرِي أَعَلِيٌّ يَقُولُ: < فَبِحِسَابِ ذَلِكَ > أَوْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ؟، < وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ > إِلا أَنَّ جَرِيرًا قَالَ: ابْنُ وَهْبٍ يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: < لَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۰۳۹) (صحیح)
(شواہد کی بناپر صحیح ہے ، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود۵/۲۹۴)
۱۵۷۳- علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا: ’’جب تمہا رے پاس دو سو (۲۰۰) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ ہو گی، اور سو نا جب تک بیس (۲۰) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (۲۰) دینار ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہوگی ( یعنی چالیسواں حصہ)‘‘۔
راوی نے کہا: مجھے یا د نہیں کہ ’’ فبحساب ذلك‘‘ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا اسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ تک مرفوع کیا ہے؟ اور کسی بھی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مگر جریر نے کہا ہے کہ ابن وہب اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے اتنا اضافہ کرتے ہیں : ’’کسی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے‘‘۔


1574- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ؛ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ، مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْئٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الاعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ كَمَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَبُومُعَاوِيَةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ .
[قَالَ أَبودَاود:] وَرَوَى حَدِيثَ النُّفَيْلِيِّ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ وَغَيْرُهُمَا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ عَلِيٍّ، لَمْ يَرْفَعُوهُ [ أَوْقَفُوهُ عَلَى عَلِيٍّ ]۔
* تخريج: ت/ الزکاۃ ۳ (۶۲۰)، ن/الزکاۃ ۱۸ (۲۴۷۹)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۱۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۲، ۱۱۳) (صحیح)
(شواہد کی بناپر صحیح ہے ،ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۵/۲۹۵)
۱۵۷۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے گھوڑا ، غلام اور لو نڈی کی زکاۃ معا ف کر دی ہے لہٰذا تم چا ندی کی زکاۃ دو، ہر چالیس (۴۰) درہم پہ ایک (۱) درہم، ایک سو نوے (۱۹۰) درہم میں کوئی زکاۃ نہیں، جب دو سو (۲۰۰) درہم پو رے ہوجائیں تو ان میں پانچ (۵) درہم ہے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث اعمش نے ابو اسحاق سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے ابوعوانہ نے کی ہے اور اسے شیبان ابو معاویہ اور ابرا ہیم بن طہمان نے ابواسحاق سے، ابو اسحاق حارث سے حارث نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
ابوداود کہتے ہیں :نفیلی کی حدیث شعبہ وسفیان اور ان کے علا وہ لوگوں نے ابو اسحاق سے ابو اسحاق نے عا صم سے عاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مر فو عاً کے بجائے علی رضی اللہ عنہ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔


1575- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، وَأَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ؛ عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < فِي كُلِّ سَائِمَةِ إِبِلٍ فِي أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَلا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا -قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: مُؤْتَجِرًا بِهَا- فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ مَالِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ، لَيْسَ لآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهَا شَيْئٌ>۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۴ (۲۴۴۶)، ۷ (۲۴۵۱)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۳۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲، ۴)، دي/الزکاۃ ۳۶ (۱۷۱۹) (حسن)
۱۵۷۵- معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ چر نے والے اونٹوں میں چا لیس (۴۰) میں ایک (۱) بنت لبون ہے، ( زکاۃ بچا نے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کرلیں گے، اور( زکاۃ روکنے کی سز ا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جرمانے کا یہ حکم ابتدائے إسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا، اکثر علماء کے قول کے مطابق یہی راجح مسلک ہے۔


1576- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ ثَلاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ -يَعْنِي مُحْتَلِمًا- دِينَارًا أَوْ عَدْلَهُ مِنَ الْمَعَافِرِ، ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ.
* تخريج: ن/الزکاۃ ۸ (۲۴۵۵)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۳۱۲)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۱۲(۲۴)، حم (۵/۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۷)، دي/الزکاۃ ۵ (۱۶۶۳) (صحیح)
۱۵۷۶- معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تویہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (۳۰) پر ایک سا لہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (۴۰) پر دو سالہ گائے،اور ہر بالغ مر د سے (جو کا فر ہو) ایک دینار یا ایک د ینا ر کے بدلے اسی قیمت کے کپڑے جو یمن کے معافر نامی مقام میں تیار کئے جا تے ہیں(بطور جزیہ) لیں ۔


1577- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالنُّفَيْلِيُّ، وَابْنُ الْمُثَنَّى، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
* تخريج: ت/ الزکاۃ ۵ (۶۲۳)، ن/الزکاۃ ۸ (۲۴۵۲)، ق/الزکاۃ ۱۲ (۱۸۰۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۳)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۱۲ (۲۴)، حم (۵/۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۷)، دی/الزکاۃ (۱۶۶۳) (صحیح)
۱۵۷۷- اس سند سے بھی معاذ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔


1578- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ؛ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَهُ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى الْيَمَنِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، لَمْ يَذْكُرْ: < ثِيَابًا تَكُونُ بِالْيَمَنِ > وَلا ذَكَرَ: < يَعْنِي مُحْتَلِمًا >.
قَالَ أَبودَاود : وَرَوَاهُ جَرِيرٌ وَيَعْلَى وَمَعْمَرٌ وَشُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ يَعْلَى وَمَعْمَرٌ عَنْ مُعَاذٍ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۵۷۸)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۳۶۳) (صحیح)
۱۵۷۸- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا، پھرانہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا، لیکن اس میں ’’ یہ کپڑے یمن میں بنتے تھے‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ راوی کی تشریح یعنی’’محتلمًا‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:اوراسے جریر، یعلی، معمر، شعبہ، ابو عوانہ اور یحییٰ بن سعید نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کیا ہے، یعلی اور معمر نے اسی کے مثل اسے معاذ سے روایت کیا ہے۔


1579- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سُوَيْدِ ابْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: سِرْتُ -أَوْ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَارَ- مَعَ مُصَدِّقِ النَّبِيِّ ﷺ، فَإِذَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ لا تَأْخُذَ مِنْ رَاضِعِ لَبَنٍ، وَلا تَجْمَعَ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَلا تُفَرِّقَ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَكَانَ إِنَّمَا يَأْتِي الْمِيَاهُ حِينَ تَرِدُ الْغَنَمُ، فَيَقُولُ: < أَدُّوا صَدَقَاتِ أَمْوَالِكُمْ >، قَالَ: فَعَمَدَ رَجُلٌ مِنْهُمْ إِلَى نَاقَةٍ كَوْمَائَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا صَالِحٍ، مَا الْكَوْمَاءُ؟ قَالَ: عَظِيمَةُ السَّنَامِ، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْخُذَ خَيْرَ إِبِلِي، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، قَالَ: فَخَطَمَ لَهُ أُخْرَى دُونَهَا، فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، ثُمَّ خَطَمَ لَهُ أُخْرَى دُونَهَا فَقَبِلَهَا، وَقَالَ: إِنِّي آخِذُهَا وَأَخَافُ أَنْ يَجِدَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، يَقُولُ لِي: عَمَدْتَ إِلَى رَجُلٍ فَتَخَيَّرْتَ عَلَيْهِ إِبِلَهُ.
قَالَ أَبودَاود : وَرَوَاهُ هُشَيْمٌ عَنْ هِلالِ ابْنِ خَبَّابٍ نَحْوَهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: لا يُفَرَّقُ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱۲ (۲۴۵۹)، ق/الزکاۃ ۱۱ (۱۸۰۱)، (تحفۃ الأشراف :۱۵۵۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۵)، دي/الزکاۃ ۸ (۱۶۷۰) (حسن)
۱۵۷۹- سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خود گیا، یا یوں کہتے ہیں: جو رسول اللہ ﷺ کے محصل کے ساتھ گیا تھا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کی کتا ب میں لکھا تھا: ’’ہم زکاۃ میں دو دھ والی بکری یا دودھ پیتا بچہ نہ لیں، نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے‘‘، رسول اللہ ﷺ کا مصدق اس وقت آتا جب بکریاں پانی پر جا تیں اور وہ کہتا: اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو، ایک شخص نے اپنا کو بڑے کوہان والا اونٹ کو دینا چاہا تو مصدق نے اسے لینے سے انکار کردیا، اس شخص نے کہا: نہیں، میری خوشی یہی ہے کہ تو میرا بہتر سے بہتر اونٹ لے، مصدق نے پھر لینے سے انکار کر دیا، اب اس نے تھوڑے کم در جے کا اونٹ کھینچا، مصدق نے اس کے لینے سے بھی انکا ر کر دیا، اس نے اور کم درجے کا اونٹ کھینچا تو مصدق نے اسے لے لیا اور کہا: میں لے لیتا ہوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں رسول اللہ ﷺ مجھ پر غصہ نہ ہوں اورآپ مجھ سے کہیں: تو نے ایک شخص کا بہترین اونٹ لے لیا۔
ابوداود کہتے ہیں: اسے ہشیم نے ہلال بن خباب سے اسی طرح روایت کیا ہے،مگر اس میں ’’لا تفرق‘‘ کی بجائے’’لا يفرق‘‘ہے۔


1580- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: أَتَانَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، وَقَرَأْتُ فِي عَهْدِهِ: < لا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ[مُتَفَرّقِ] وَلا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ > وَلَمْ يَذْكُرْ رَاضِعَ لَبَنٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۵۹۳) (حسن)
۱۵۸۰- سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہما رے پاس نبی اکرم ﷺ کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا: ’’زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے‘‘، اس روایت میں دو دھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔


1581- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ ثَفِنَةَ الْيَشْكُرِيِّ -قَالَ الْحَسَنُ: رَوْحٌ يَقُولُ: مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ- قَالَ: اسْتَعْمَلَ نَافِعُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَبِي عَلَى عِرَافَةِ قَوْمِهِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَدِّقَهُمْ، قَالَ: فَبَعَثَنِي أَبِي فِي طَائِفَةٍ مِنْهُمْ، فَأَتَيْتُ شَيْخًا كَبِيرًا يُقَالُ لَهُ سِعْرُ [بْنُ دَيْسَمٍ] فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي بَعَثَنِي إِلَيْكَ -يَعْنِي لأُصَدِّقَكَ- قَالَ: ابْنُ أَخِي، وَأَيَّ نَحْوٍ تَأْخُذُونَ؟ قُلْتُ: نَخْتَارُ حَتَّى إِنَّا نَتَبَيَّنُ ضُرُوعَ الْغَنَمِ، قَالَ: ابْنَ أَخِي، فَإِنِّي أُحَدِّثُكَ أَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَنَمٍ لِي، فَجَائَنِي رَجُلانِ عَلَى بَعِيرٍ، فَقَالا لِي: إِنَّا رَسُولا رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَيْكَ لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ، فَقُلْتُ مَا عَلَيَّ فِيهَا؟ فَقَالا: شَاةٌ، فَأَعْمَدُ إِلَى شَاةٍ قَدْ عَرَفْتُ مَكَانَهَا مُمْتَلِئَةٍ مَحْضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالا: هَذِهِ شَاةُ الشَّافِعِ، وَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَأْخُذَ شَافِعًا، قُلْتُ: فَأَيَّ شَيْئٍ تَأْخُذَانِ؟ قَالا: عَنَاقًا جَذَعَةً أَوْ ثَنِيَّةً، قَالَ: فَأَعْمَدُ إِلَى عَنَاقٍ مُعْتَاطٍ، وَالْمُعْتَاطُ: الَّتِي لَمْ تَلِدْ وَلَدًا، وَقَدْ حَانَ وِلادُهَا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالا: نَاوِلْنَاهَا، فَجَعَلاهَا مَعَهُمَا عَلَى بَعِيرِهِمَا، ثُمَّ انْطَلَقَا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ زَكَرِيَّائَ، قَالَ أَيْضًا: < مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ > كَمَا قَالَ رَوْحٌ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱۵ (۲۴۶۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۵۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۴، ۴۱۵) (ضعیف)
(اس کے راوی’’مسلم‘‘لین الحدیث ہیں،نیزاس میں مذکور معمر شخص مبہم ہے)
۱۵۸۱- مسلم بن ثفنہ یشکری ۱؎ کہتے ہیں: نا فع بن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کے کاموں پر عامل مقرر کیا اور انہیں ان سے زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا، میرے والد نے مجھے ان کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، چنانچہ میں ایک بوڑھے آدمی کے پاس آیا، جس کا نام سعر بن دیسم تھا، میں نے کہا: مجھے میرے والد نے آپ کے پاس زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ہے، وہ بولے:بھتیجے! تم کس قسم کے جا نور لوگے؟ میں نے کہا: ہم تھنوں کو دیکھ کر عمدہ جانور چنیں گے، انہوںنے کہا:بھتیجے! میں تمہیں ایک حدیث سنا تا ہوں : میں اپنی بکریوں کے ساتھ یہیں گھاٹی میں رسول اللہ ﷺ کے زما نے میں رہا کرتا تھا، ا یک بار دوآدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئے اور مجھ سے کہنے لگے : ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں، تا کہ تم اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کرو، میں نے کہا: مجھے کیا دینا ہو گا؟ انہوں نے کہا: ایک بکری ،میں نے ایک بکری کی طرف قصد کیا، جس کی جگہ مجھے معلوم تھی، وہ بکری دودھ اور چربی سے بھری ہو ئی تھی، میں اسے نکال کر ان کے پاس لا یا، انہوں نے کہا: یہ بکری پیٹ والی (حاملہ) ہے، ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایسی بکری لینے سے منع کیا ہے، پھر میں نے کہا: تم کیا لوگے؟ انہوں نے کہا: ایک برس کی بکری جو دوسرے برس میں داخل ہوگئی ہو یا دو برس کی جو تیسرے میں داخل ہوگئی ہو،میں نے ایک موٹی بکری جس نے بچہ نہیں دیا تھا مگر بچہ دینے کے لائق ہونے والی تھی کا قصد کیا ، اسے نکال کر ان کے پاس لا یا تو انہوں نے کہا: اسے ہم نے لے لیا، پھر وہ دونوں اسے اپنے اونٹ پر لاد کر لئے چلے گئے ۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے ابو عا صم نے زکر یا سے روایت کیا ہے، انہوں نے بھی ’’مسلم بن شعبہ‘‘ کہا ہے جیسا کہ روح نے کہا۔
وضاحت ۱؎ : روح نے مسلم بن ثفنہ کے بجائے مسلم بن شعبہ کہا ہے۔


1582- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: <مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ> قَالَ فِيهِ: وَالشَّافِعُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا الْوَلَدُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۵۷۹) (ضعیف)
(مسلم بن شعبہ کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے)
۱۵۸۲- اس طریق سے بھی زکریا بن اسحاق سے یہی حدیث اسی سند سے مروی ہے، اس میں مسلم بن شعبہ ہے اور اس میں ہے کہ شا فع وہ بکری ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہو ۔


1582/م- قَالَ أَبودَاود: وَقَرَأْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَالِمٍ بِحِمْصَ عِنْدَ آلِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْحِمْصِيِّ عَنِ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْغَاضِرِيِّ، مِنْ غَاضِرَةِ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < ثَلاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الإِيمَانِ: مَنْ عَبَدَاللَّهَ وَحْدَهُ وَأَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَعْطَى زَكَاةَ مَالِهِ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ رَافِدَةً عَلَيْهِ كُلَّ عَامٍ، وَلا يُعْطِي الْهَرِمَةَ، وَلا الدَّرِنَةَ، وَلا الْمَرِيضَةَ، وَلا الشَّرَطَ اللَّئِيمَةَ، وَلَكِنْ مِنْ وَسَطِ أَمْوَالِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَسْأَلْكُمْ خَيْرَهُ، وَلَمْ يَأْمُرْكُمْ بِشَرِّهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۹۶۴۵) (صحیح)
۱۵۸۲/م- ابو داود کہتے ہیں: میں نے عمر وبن حارث حمصی کی اولا د کے پاس حمص میں عبداللہ بن سالم کی کتاب میں پڑھا کہ زبیدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن جابر نے خبر دی ہے، انہوں نے جبیر بن نفیر سے جبیر نے عبداللہ بن معاویہ غاضری سے جو غاضرہ قیس سے ہیں، روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تین با تیں ہیں جو کوئی ان کو کرے گا ایمان کا مزا چکھے گا: جوصرف اللہ کی عبادت کرے، ’’لا إله إلا الله‘‘ کا اقرار کرے، اپنے مال کی زکاۃ خو شی سے ہر سال ادا کیا کرے، اور زکاۃ میں بوڑھا ، خارشتی ، بیما ر اور گھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ اوسط درجے کا مال دے، اس لئے کہ اللہ نے نہ تو تم سے سب سے بہتر کا مطالبہ کیا اور نہ ہی تمہیں گھٹیا مال دینے کا حکم دیاہے‘‘۔


1583- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ؛ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ مُصَدِّقًا، فَمَرَرْتُ بِرَجُلٍ، فَلَمَّا جَمَعَ لِي مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ فِيهِ إِلا ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَدِّ ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَتُكَ، فَقَالَ: ذَاكَ مَا لا لَبَنَ فِيهِ وَلا ظَهْرَ، وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِيَّةٌ عَظِيمَةٌ سَمِينَةٌ فَخُذْهَا، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، وَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْكَ قَرِيبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِيَهُ فَتَعْرِضَ عَلَيْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَيَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلْتُهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَيْكَ رَدَدْتُهُ، قَالَ: فَإِنِّي فَاعِلٌ، فَخَرَجَ مَعِي وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِي عَرَضَ عَلَيَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَتَانِي رَسُولُكَ لِيَأْخُذَ مِنِّي صَدَقَةَ مَالِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَلا رَسُولُهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِي فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَيَّ فِيهِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، وَذَلِكَ مَا لا لَبَنَ فِيهِ وَلا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِ نَاقَةً فَتِيَّةً عَظِيمَةً لِيَأْخُذَهَا، فَأَبَى عَلَيَّ، وَهَا هِيَ ذِهْ، قَدْ جِئْتُكَ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ذَاكَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَيْرٍ آجَرَكَ اللَّهُ فِيهِ وَقَبِلْنَاهُ مِنْكَ >، قَالَ: فَهَا هِيَ ذِهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ [قَدْ] جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِقَبْضِهَا وَدَعَا لَهُ فِي مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود ( تحفۃ الأشراف :۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۲) (حسن)
۱۵۸۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا، میں ایک شخص کے پاس سے گزرا ، جب اس نے اپنا مال اکٹھا کیا تومیں نے اس پر صرف ایک بنت مخاض کی زکاۃ واجب پا ئی ، میں نے اس سے کہا: ایک بنت مخاض دو، یہی تمہاری زکاۃ ہے، وہ بو لا: بنت مخاض میں نہ تو دودھ ہے اور نہ وہ اس قابل ہے کہ (اس پر) سواری کی جاسکے، یہ لو ایک اونٹنی جوان ، بڑی اور موٹی ، میں نے اس سے کہا: میں ایسی چیز کبھی نہیں لے سکتا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں ، البتہ رسول اللہ ﷺ تو تم سے قریب ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس جا کر وہی با ت پیش کرو جو تم نے مجھ سے کہی ہے ، اب اگر آپ ﷺ قبول فرما لیتے ہیں تو میں بھی اسے لے لوں گا اور اگر آپ واپس کر دیتے ہیں تو میں بھی واپس کر دوں گا، اس نے کہا: ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اور وہ اس اونٹنی کو جو اس نے میرے سامنے پیش کی تھی، لے کر میرے ساتھ چلا، جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو اس نے آپ ﷺ سے کہا: اللہ کے نبی! آپ کا قاصد میرے پاس مال کی زکاۃ لینے آیا ، قسم اللہ کی! اس سے پہلے کبھی نہ رسول اللہ ﷺ نے میرے مال کو دیکھا اور نہ آپ کے قاصد نے،میں نے اپنا مال اکٹھا کیا تو اس نے کہا : تجھ پر ایک بنت مخاض لازم ہے اور بنت مخاض نہ دو دھ دیتی ہے اور نہ ہی وہ سوا ری کے لا ئق ہو تی ہے، لہٰذا میں نے اسے ایک بڑی موٹی اور جوان اونٹنی پیش کی ، لیکن اسے لینے سے اس نے انکا ر کر دیا اور وہ اونٹنی یہ ہے جسے لے کر میں آپ کی خدمت میں آ یا ہوں، اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’تم پر واجب تو بنت مخاض ہی ہے، لیکن اگر تم خوشی سے اسے دے رہے ہو تو اللہ تمہیں اس کا اجر عطا کرے گا اور ہم اسے قبول کرلیں گے‘‘، وہ شخص بولا: اے اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، یہ وہی اونٹنی ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے لئے اس کے مال میں بر کت کی دعا کی۔


1584- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: < إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى: شَهَادَةِ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱ (۱۳۹۵)، ۴۱ (۱۴۵۸)، ۶۳ (۱۴۹۶)، المظالم ۹ (۲۴۴۸)، المغازي ۶۰ (۴۳۴۷)، التوحید ۱ (۷۳۷۲)، م/الإیمان ۷ (۱۹)، ت/الزکاۃ ۶ (۶۲۵)، والبر والصلۃ ۶۸ (۲۰۱۴)، ن/الزکاۃ ۱ (۲۴۳۷)، ۴۶ (۲۵۲۳)، ق/الزکاۃ ۱ (۱۷۸۳)، ( تحفۃ الأشراف :۶۵۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۳)، دي/الزکاۃ ۱ (۱۶۵۵) (صحیح)
۱۵۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور فرمایا: ’’تم اہل کتا ب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، ان کو اس با ت کی طرف بلا نا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض کی ہیں، اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی، پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو تم ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ‘‘۔


1585- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ [بْنُ سَعِيدٍ]، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: الْمُعْتَدِي (الْمُتَعَدِّي) فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۱۹ (۶۴۶)، ق/الزکاۃ ۱۴ (۱۸۰۸)، ( تحفۃ الأشراف :۸۴۷) (حسن)
۱۵۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’زکاۃ لینے میں زیا دتی کرنے والا، زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جیسے گناہ زکاۃ نہ ادا کرنے میں ہے، ویسے ہی گناہ جبراً زکاۃ والے سے زیادہ لینے میں بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
5-بَاب رِضَا الْمُصَدِّقِ
۵-باب: زکاۃ وصول کرنے والے کی رضامندی کا بیان​


1586- حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ حَفْصٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ دَيْسَمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: مِنْ بَنِي سَدُوسٍ، عَنْ بَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَّةِ، قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فِي حَدِيثِهِ: وَمَا كَانَ اسْمُهُ بَشِيرًا وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَمَّاهُ بَشِيرًا، قَالَ: قُلْنَا: إِنَّ أَهْلَ الصَّدَقَةِ يَعْتَدُونَ عَلَيْنَا، أَفَنَكْتُمُ مِنْ أَمْوَالِنَا بِقَدْرِ مَا يَعْتَدُونَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: لا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۰۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’دیسم‘‘ لین الحدیث ہیں)
۱۵۸۶- بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(ابن عبید اپنی حدیث میں کہتے ہیں:ان کا نام بشیر نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بشیر رکھ دیا تھا) وہ کہتے ہیں: ہم نے عرض کیا: زکاۃ لینے والے ہم پر زیا دتی کرتے ہیں، کیا جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اتنا مال ہم چھپا لیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘۔


1587- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابَ الصَّدَقَةِ [يَعْتَدُونَ].
قَالَ أَبودَاود: رَفَعَهُ عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۲۰۲۲) (ضعیف)
۱۵۸۷- اس سند سے بھی ایو ب سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، مگر اس میں ہے ہم نے کہا: اللہ کے رسول! زکاۃ لینے والے زیادتی کرتے ہیں۔
ابو داود کہتے ہیں: عبدالرزاق نے معمر سے اسے مر فوعاً نقل کیا ہے۔


1588- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِي الْغُصْنِ، عَنْ صَخْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < سَيَأْتِيكُمْ رُكَيْبٌ مُبْغَضُونَ، فَإِنْ جَائُوكُمْ فَرَحِّبُوا بِهِمْ، وَخَلُّوا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَبْتَغُونَ، فَإِنْ عَدَلُوا فَلأَنْفُسِهِمْ، وَإِنْ ظَلَمُوا فَعَلَيْهَا، وَأَرْضُوهُمْ، فَإِنَّ تَمَامَ زَكَاتِكُمْ رِضَاهُمْ، وَلْيَدْعُوالَكُمْ >.
قَالَ أَبودَاود: أَبُو الْغُصْنِ هُوَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ غُصْنٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۱۷۵) (ضعیف)
(اس کے راوی’’صخر‘‘ لین الحدیث ہیں)
۱۵۸۸- جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ تم سے زکاۃ لینے کچھ ایسے لوگ آئیں جنہیں تم ناپسند کروگے، جب وہ آئیں تو انہیں مرحبا کہو اور وہ جسے چاہیں، اسے لینے دو، اگر انصا ف کریں گے تو فائدہ انہیں کو ہو گا اور اگر ظلم کریں گے تو اس کا وبال بھی انہیں پر ہو گا، لہٰذا تم ان کو خو ش رکھو ، اس لئے کہ تمہاری زکاۃ اس وقت پوری ہو گی جب وہ خو ش ہوں اورانہیں چاہئے کہ تمہارے حق میں دعا کریں‘‘۔


1589- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ -يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي كَامِلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ هِلالٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: جَائَ نَاسٌ -يَعْنِي مِنَ الأَعْرَابِ- إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالُوا: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِينَ يَأْتُونَا فَيَظْلِمُونَا، قَالَ: فَقَالَ: <أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَإِنْ ظَلَمُونَا؟ قَالَ: < أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ >، زَادَ عُثْمَانُ: < وَإِنْ ظُلِمْتُمْ >.
قَالَ أَبُو كَامِلٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ جَرِيرٌ: مَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلا وَهُوَ عَنِّي رَاضٍ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۵ (۹۸۹)، ن/الزکاۃ ۱۴ (۲۴۶۲)، ( تحفۃ الأشراف :۳۲۱۸)، وقد أخرجہ: ت/الزکاۃ ۲۰ (۶۴۷)، ق/الزکاۃ ۱۱ (۱۸۰۲)، حم (۴/۳۶۲)، دي/الزکاۃ ۳۲ (۱۷۱۲) (صحیح)
۱۵۸۹- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یعنی کچھ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: صدقہ وزکاۃ وصول کرنے والوں میں سے بعض لوگ ہما رے پاس آتے ہیں اور ہم پرزیا دتی کرتے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے مصدقین کو راضی کرو‘‘، انہوں نے پوچھا : اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں،اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے مصدقین کو راضی کرو‘‘، عثمان کی روایت میں اتنا زائد ہے ’’اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں‘‘۔
ابو کامل اپنی حدیث میں کہتے ہیں: جریر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ،اس کے بعد سے میرے پاس جو بھی مصدق آیا، مجھ سے خو ش ہو کر ہی واپس گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
6- بَاب دُعَاءِ الْمُصَدِّقِ لأَهْلِ الصَّدَقَةِ
۶-باب: زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ دینے والوں کے لئے دعا کرے​


1590- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، وَأَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: كَانَ أَبِي مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ: < اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلانٍ >، قَالَ: فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: < اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۶۴ (۱۴۹۷)، المغازي ۳۵ (۴۱۶۶)، الدعوات ۱۹ (۶۳۳۲)، ۳۳ (۶۳۵۹)، م/الزکاۃ ۵۴(۱۰۷۸)، ن/الزکاۃ ۱۳ (۲۴۶۱)، ق/الزکاۃ ۸ (۱۷۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۵، ۳۸۱، ۳۸۳) (صحیح)
۱۵۹۰- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد (ابو اوفیٰ) اصحاب شجرہ ۱؎ میں سے تھے ، جب نبی اکرم ﷺ کے پاس کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ لے کرا ٓتی تو آپ فرما تے:اے اللہ! آل فلاں پر رحمت نازل فرما، میرے والد اپنی زکاۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! ابو او فیٰ کی اولاد پر رحمت نازل فرما‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان لوگوں میں سے تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک تھے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو خود سے اپنی زکاۃ ادا کرنے آئے عامل کو اس کو دعا دینی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
7-بَاب تَفْسِيرِ أَسْنَانِ الإِبِلِ
۷-باب: اونٹوں کی عمر کی تفصیل​


قَالَ أَبودَاود: سَمِعْتُهُ مِنَ الرِّيَاشِيِّ، وَأَبِي حَاتِمٍ، وَغَيْرِهِمَا، وَمِنْ كِتَابِ النَّضْرِ بْنِ شُمَيْلٍ، وَمِنْ كِتَابِ أَبِي عُبَيْدٍ، وَرُبَّمَا ذَكَرَ أَحَدُهُمُ الْكَلِمَةَ، قَالُوا: يُسَمَّى الْحُوَارُ، ثُمَّ الْفَصِيلُ، إِذَا فَصَلَ، ثُمَّ تَكُونُ بِنْتُ مَخَاضٍ لِسَنَةٍ إِلَى تَمَامِ سَنَتَيْنِ، فَإِذَا دَخَلَتْ فِي الثَّالِثَةِ: فَهِيَ ابْنَةُ لَبُونٍ، فَإِذَا تَمَّتْ لَهُ ثَلاثُ سِنِينَ فَهُوَ حِقٌّ وَحِقَّةٌ، إِلَى تَمَامِ أَرْبَعِ سِنِينَ، لأَنَّهَا اسْتَحَقَّتْ أَنْ تُرْكَبَ، وَيُحْمَلَ عَلَيْهَا الْفَحْلُ، وَهِيَ تَلْقَحُ، وَلا يُلْقَحُ الذَّكَرُ حَتَّى يُثَنِّيَ، وَيُقَالُ لِلْحِقَّةِ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ، لأَنَّ الْفَحْلَ يَطْرُقُهَا، إِلَى تَمَامِ أَرْبَعِ سِنِينَ، فَإِذَا طَعَنَتْ فِي الْخَامِسَةِ فَهِيَ جَذَعَةٌ، حَتَّى يَتِمَّ لَهَا خَمْسُ سِنِينَ، فَإِذَا دَخَلَتْ فِي السَّادِسَةِ وَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ، فَهُوَ حِينَئِذٍ ثَنِيٌّ، حَتَّى يَسْتَكْمِلَ سِتًّا، فَإِذَا طَعَنَ فِي السَّابِعَةِ، سُمِّيَ الذَّكَرُ رَبَاعِيًا، وَالأُنْثَى رَبَاعِيَةً، إِلَى تَمَامِ السَّابِعَةِ، فَإِذَا دَخَلَ فِي الثَّامِنَةِ وَأَلْقَى السِّنَّ السَّدِيسَ الَّذِي بَعْدَ الرَّبَاعِيَةِ، فَهُوَ سَدِيسٌ وَسَدَسٌ، إِلَى تَمَامِ الثَّامِنَةِ، فَإِذَا دَخَلَ فِي التِّسْعِ وَطَلَعَ نَابُهُ فَهُوَ بَازِلٌ، أَيْ بَزَلَ نَابُهُ، يَعْنِي طَلَعَ، حَتَّى يَدْخُلَ فِي الْعَاشِرَةِ، فَهُوَ حِينَئِذٍ مُخْلِفٌ، ثُمَّ لَيْسَ لَهُ اسْمٌ، وَلَكِنْ يُقَالُ: بَازِلُ عَامٍ، وَبَازِلُ عَامَيْنِ، وَمُخْلِفُ عَامٍ، وَمُخْلِفُ عَامَيْنِ، وَمُخْلِفُ ثَلاثَةِ أَعْوَامٍ، إِلَى خَمْسِ سِنِينَ، وَالْخَلِفَةُ: الْحَامِلُ، قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: وَالْجَذُوعَةُ: وَقْتٌ مِنَ الزَّمَنِ لَيْسَ بِسِنٍّ، وَفُصُولُ الأَسْنَانِ عِنْدَ طُلُوعِ سُهَيْلٍ .
قَالَ أَبودَاود : وَأَنْشَدَنَا الرِّيَاشِيُّ :
إِذَا سُهَيْلٌ آخِرَ اللَّيْلِ طَلَعْ فَابْنُ اللَّبُونِ الْحِقُّ وَالْحِقُّ جَذَعْ
لَمْ يَبْقَ مِنْ أَسْنَانِهَا غَيْرُ الْهُبَعْ
وَالْهُبَعُ: الَّذِي يُولَدُ فِي غَيْرِ حِينِهِ.

ابو داود کہتے ہیں: میں نے اونٹوں کی عمروں کی یہ تفصیل ریاشی اور ابو حا تم وغیرہ وغیرہ سے سنا ہے، اورنضربن شمیل اور ابوعبید کی کتاب سے حاصل کی ہے ،اور بعض باتیں ان میں سے کسی ایک ہی نے ذکر کی ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے: اونٹ کا بچہ (جب پیدا ہو) حوا ر کہلاتا ہے۔
جب دودھ چھوڑے تو اسے فصیل کہتے ہیں۔
جب ایک سال پورا کرکے دوسرے سال میں لگ جائے تو دوسرے سال کے پورا ہونے تک اسے بنت مخاض کہتے ہیں۔ جب تیسرے میں داخل ہو جائے تو اسے بنت لبون کہتے ہیں۔
جب تین سال پورے کرے تو چار برس پورے ہونے تک اسے حِق یا حقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ سواری اور جفتی کے لائق ہوجاتی ہے، اور اونٹنی (مادہ) اس عمر میں حاملہ ہوجاتی ہے، لیکن نر جوان نہیں ہوتا، جب تک دو گنی عمر( چھ برس) کا نہ ہوجائے،حقہ کو طروقۃ الفحل بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ نراس پرسوارہوتا ہے۔
جب پانچواں بر س لگے تو پانچ برس پو رے ہو نے تک جذعہ کہلا تا ہے۔
جب چھٹا بر س لگے اور وہ سامنے کے دانت گراوے تو چھ برس پورے ہو نے تک وہ ثنی ہے۔
جب ساتواں بر س لگے تو سات برس پو رے ہو نے تک نر کو رباعی اور ما دہ کو رباعیہ کہتے ہیں۔
جب آٹھواں بر س لگے اور چھٹا دانت گراوے تو آٹھ برس پو رے ہو نے تک اسے سدیس یا سدس کہتے ہیں۔
جب وہ نویں برس میں لگ جائے تو اسے دسواں بر س شرو ع ہو نے تک بازل کہتے ہیں، اس لئے کہ اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں، کہا جاتا ہے’’بَزَلَ نَاْبَهُُ‘‘ یعنی اس کے دانت نکل آئے۔
اور دسواں برس لگ جائے تو وہ مخلف ہے، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں، البتہ یوں کہتے ہیں: ایک سا ل کا بازل، دو سال کا بازل، ایک سال کا مخلف، دو سال کا مخلف اور تین سال کا مخلف، یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا ہے۔
خلفہ حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں۔
ابو حاتم نے کہا: جذوعہ ایک مدت کا نام ہے کسی خاص دانت کا نام نہیں ،دانتوں کی فصل سہیل تارے کے نکلنے پر بدلتی ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: ہم کو ریاشی نے شعر سنائے (جن کے معنی ہیں):
جب رات کے اخیر میں سہیل (ستارہ ) نکلا تو ابن لبون حِق ہو گیا اور حِق جذع ہو گیا
کوئی دانت نہ رہا سوائے ہبع کے
ہبع: وہ بچہ ہے جو سہیل کے طلوع کے وقت میں پیدا نہ ہو، بلکہ کسی اور وقت میں پیدا ہو، اس کی عمرکا حساب سہیل سے نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8- بَاب أَيْنَ تُصَدَّقُ الأَمْوَالُ ؟
۸-باب: مال کی زکاۃ کہاں وصول کی جائے ؟​


1591- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لا جَلَبَ وَلا جَنَبَ، وَلا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلا فِي دُورِهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۸۷۸۵، ۱۹۲۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۰، ۲۱۶) (حسن صحیح)
۱۵۹۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہ ’’جلب‘‘ صحیح ہے نہ ’’جنب‘‘ لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’جلب‘‘: زکاۃ دینے والا اپنے جانور کھینچ کر عامل کے پاس لے آئے،اور ’’جنب‘‘: زکاۃ دینے والا اپنے جانور دور لے کر چلا جائے تاکہ عامل کو زکاۃ لینے کے لئے وہاں جا نا پڑے۔

1592- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِي قَوْلِهِ: < لا جَلَبَ وَلا جَنَبَ > قَالَ: أَنْ تُصَدَّقَ الْمَاشِيَةُ فِي مَوَاضِعِهَا، وَلا تُجْلَبَ إِلَى الْمُصَدِّقِ، وَالْجَنَبُ عَنْ [غَيْرِ] هَذِهِ الْفَرِيضَةِ أَيْضًا: لايُجْنَبُ أَصْحَابُهَا، يَقُولُ: وَلا يَكُونُ الرَّجُلُ بِأَقْصَى مَوَاضِعِ أَصْحَابِ الصَّدَقَةِ فَتُجْنَبُ إِلَيْهِ، وَلَكِنْ تُؤْخَذُ فِي مَوْضِعِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۸۷۸۵، ۱۹۲۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۰، ۲۱۶) (صحیح)
۱۵۹۲- محمد بن اسحاق سے آپ ﷺ کے فرمان: ’’لا جَلَبَ وَلا جَنَبََ‘‘ کی تفسیر میں مروی ہے کہ’’لا جلب‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جانوروں کی زکاۃ ان کی جگہوں میں جاکر لی جائے وہ مصدق تک کھینچ کر نہ لائے جا ئیں ، اور ’’جنب‘‘ فریضہ زکاۃ کے علاوہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے: وہ کہتے ہیں:’’جنب‘‘ یہ ہے کہ محصل زکاۃ دینے والوں کی جگہوں سے دور نہ رہے کہ جانور اس کے پاس لائے جائیں بلکہ اسی جگہ میں زکاۃ لی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس تفسیرکی رو سے ’’جلب‘‘ اور ’’جنب‘‘ کے معنی ایک ہوجارہے ہیں، اور ’’جنب‘‘ کی تفسیر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’جنب‘‘ یہ ہے کہ جانوروں کا مالک جانوروں کو ان کی جگہوں سے ہٹاکر دورکرلے تاکہ محصل کو انہیں ڈھونڈنے اور ان کے پاس پہنچنے میں زحمت وپریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9-بَاب الرَّجُلِ يَبْتَاعُ صَدَقَتَهُ
۹-باب: زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان​


1593- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَوَجَدَهُ يُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَهُ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: < لا تَبْتَعْهُ، وَلا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۹(۱۴۸۹)، والھبۃ ۳۰ (۲۶۲۳)، ۳۷ (۲۶۳۶)، والوصایا ۳۱ (۲۷۷۵)، والجہاد ۱۱۹ (۲۹۷۱)، ۱۳۷ (۳۰۰۲)، م/الھبات ۱ (۱۶۲۱)، ( تحفۃ الأشراف :۸۳۵۱)، وقد أخرجہ: ت/الزکاۃ ۳۲ (۶۶۸)، ن/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۶)، ق/الصدقات ۱ (۲۳۹۰)، ۲ (۲۳۹۲)، ط/الزکاۃ ۲۶(۴۹)، حم (۱/۴۰، ۵۴) (صحیح)
۱۵۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پا یا تو خرید نا چا ہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو ، اپنے صدقے کو مت لوٹائو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10- بَاب صَدَقَةِ الرَّقِيقِ
۱۰-باب: غلام اور لو نڈی کی زکاۃ کا بیان​


1594- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَيَّاضٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لَيْسَ فِي الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ زَكَاةٌ إِلا زَكَاةُ الْفِطْرِ فِي الرَّقِيقِ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴۵ (۱۴۶۳)، ۴۶ (۱۴۶۴)، م/الزکاۃ ۲ (۹۸۲)، ت/الزکاۃ ۸ (۶۲۸)، ن/الزکاۃ ۱۶ (۲۴۶۹)، ق/الزکاۃ ۱۵ (۱۸۱۲)، ط/الزکاۃ ۲۳ (۳۷)، (تحفۃ الأشراف :۱۴۱۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۲، ۲۴۹، ۲۵۴، ۲۷۹، ۴۱۰، ۴۲۰، ۴۳۲، ۴۵۴، ۴۶۹، ۴۷۰، ۴۷۷)، دي/الزکاۃ ۱۰ (۱۶۷۲) (صحیح)
۱۵۹۴- ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑے اور غلام یا لونڈی میں زکاۃ نہیں، البتہ غلام یا لونڈی میں صدقہ ٔ فطر ہے‘‘۔


1595- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلا [فِي] فَرَسِهِ صَدَقَةٌ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۱۴۱۵۳) (صحیح)
۱۵۹۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلما ن پر اس کے غلام ،لو نڈی اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11- بَاب صَدَقَةِ الزَّرْعِ
۱۱-باب: کھیتوںمیں پیدا ہونے والی چیزوں کی زکاۃ کا بیان​


1596- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْهَيْثَمِ الأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ابْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالأَنْهَارُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ بَعْلا الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي أَوِ النَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۵ (۱۴۸۳)، ت/الزکاۃ ۱۴ (۶۴۰)، ن/الزکاۃ ۲۵ (۲۴۹۰)، ق/الزکاۃ ۱۷ (۱۸۱۷)، ( تحفۃ الأشراف:۶۹۷۷) (صحیح)
۱۵۹۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کھیت کو آسمان یا دریا یا چشمے کا پانی سینچے یا زمین کی تری پہنچے، اس میں سے پیدا وار کا دسواں حصہ لیا جائے گا اور جس کھیتی کی سینچا ئی رہٹ اور جانوروں کے ذریعہ کی گئی ہو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ لیا جائے گا‘‘۔


1597- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < فِيمَا سَقَتِ الأَنْهَارُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ >۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۱ (۹۸۱)، ن/الزکاۃ ۲۵ (۲۴۹۱)، ( تحفۃ الأشراف :۲۸۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۴۱، ۳۵۳) (صحیح)
۱۵۹۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جسے دریا یا چشمے کے پانی نے سینچا ہو، اس میں دسواں حصہ ہے اور جسے رہٹ کے پانی سے سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے‘‘۔


1598- حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، وَحُسَيْنُ بْنُ الأَسْوَدِ الْعَجَلِيُّ، قَالا: قَالَ وَكِيعٌ: الْبَعْلُ الْكَبُوسُ الَّذِي يَنْبُتُ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، قَالَ ابْنُ الأَسْوَدِ: وَقَالَ يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ آدَمَ- سَأَلْتُ أَبَا إِيَاسٍ الأَسَدِيَّ عَنِ الْبَعْلِ، فَقَالَ: الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، و قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: الْبَعْلُ مَاءُ الْمَطَرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۱۵۹۸- وکیع کہتے ہیں: بعل سے مراد وہ کھیتی ہے جوآسمان کے پانی سے (بارش) اُگتی ہو،ابن اسود کہتے ہیں: یحییٰ (یعنی ابن آدم) کہتے ہیں: میں نے ابو ایاس اسدی سے ’’بعل‘‘ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا:بعل وہ زمین ہے جو آسمان کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو، نضر بن شُمَیْل کہتے ہیں: بعل بارش کے پانی کو کہتے ہیں ۔


1599- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: < خُذِ الْحَبَّ مِنَ الْحَبِّ، وَالشَّاةَ مِنَ الْغَنَمِ، وَالْبَعِيرَ مِنَ الإِبِلِ، وَالْبَقَرَةَ مِنَ الْبَقَرِ >.
قَالَ أَبودَاود: شَبَرْتُ قِثَّائَةً بِمِصْرَ ثَلاثَةَ عَشَرَ شِبْرًا، وَرَأَيْتُ أُتْرُجَّةً عَلَى بَعِيرٍ بِقِطْعَتَيْنِ قُطِّعَتْ وَصُيِّرَتْ عَلَى مِثْلِ عِدْلَيْنِ۔
* تخريج: ق/الزکاۃ ۱۲ (۱۸۱۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۳۴۸) (ضعیف)
(اس کے راوی’’شریک‘‘کے اندرکلام ہے)
۱۵۹۹- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا تو فرما یا: ’’غلہ میں سے غلہ لو، بکریوں میں سے بکری ، اونٹوں میں سے اونٹ اور گایوں میں سے گائے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے مصر میں ایک ککڑی کو بالشت سے ناپا تو وہ تیرہ بالشت کی تھی اور ایک سنترہ دیکھا جو ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا، اس کے دو ٹکڑے کاٹ کر دو بوجھ کے مثل کر دیئے گئے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مال کی زکاۃ اسی کے جنس سے ہوگی بصورت مجبوری اس کی قیمت بھی زکاۃ میں دی جاسکتی ہے۔
 
Top