19- بَاب كَمْ يُؤَدَّى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ؟
۱۹-باب: صدقہء فطر کتنا دیا جائے؟
1611- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَقَرَأَهُ عَلَيَّ مَالِكٌ أَيْضًا، عَنْ نَافِعٍ؛ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ، قَالَ فِيهِ فِيمَا قَرَأَ[هُ] عَلَيَّ مَالِكٌ: زَكَاةُ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، مِنَ الْمُسْلِمِينَ ۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۳ (۱۵۰۶)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ت/الزکاۃ ۳۵، ۳۶ (۶۷۶)، ن/الزکاۃ ۳۳ (۲۵۰۵)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۶)، ( تحفۃ الأشراف :۸۳۲۱)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۲)، حم (۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)
۱۶۱۱- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہء فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیاہے، جو مسلمانوں میں سے ہرآزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر(فرض) ہے۔
1612- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا، فَذَكَرَ بِمَعْنَى مَالِكٍ، زَادَ: وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ عَبْدُاللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَرَوَاهُ سَعِيدٌ الْجُمَحِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ فِيهِ: مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمَشْهُورُ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ لَيْسَ فِيهِ: < مِنَ الْمُسْلِمِينَ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۰ (۱۵۰۳)، ن/الزکاۃ ۳۳ (۲۵۰۶)، ( تحفۃ الأشراف :۸۲۴۴) (صحیح)
۱۶۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہء فطر ایک صاع مقرر کیا، پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی ، اس میں
’’والصغير والكبير وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة‘‘ (ہر چھوٹے اور بڑے پر (صدقہء فطر واجب ہے) اور آپ نے لوگوں کے صلاۃ کے لئے نکلنے سے پہلے اس کے ادا کر دینے کا حکم دیا) کا اضافہ کیا ۔
ابو داود کہتے ہیں:عبداللہ عمری نے اسے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں
’’على كل مسلم‘‘ کے الفاظ ہیں (یعنی ہر مسلمان پر لازم ہے) ۱؎ اوراسے سعید جمحی نے عبید اللہ(عمری) سے انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے اس میں
’’من المسلمين‘‘ کا لفظ ہے حالانکہ عبید اللہ سے جو مشہور ہے اس میں
’’من المسلمين‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کافر غلام یا کافر لونڈی کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنا ضروری نہیں۔
1613- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ وَبِشْرَ بْنَ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَاهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ، عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ، زَادَ مُوسَى: وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى.
قَالَ أَبودَاود: قَالَ فِيهِ أَيُّوبُ وَعَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي الْعُمَرِيَّ- فِي حَدِيثِهِمَا عَنْ نَافِعٍ: <ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى > أَيْضًا۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۸ (۱۵۱۲)، ( تحفۃ الأشراف :۷۷۹۵، ۷۸۱۵، ۸۱۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۵) (صحیح)
۱۶۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقہء فطر جو یا کھجور میں سے ہر چھوٹے بڑے اور آزاد اورغلام پرایک صاع فرض کیا ہے۔
موسی کی روایت میں
’ ’والذكر والأنثى‘‘ بھی ہے یعنی مرداور عورت پر بھی ۔
ابو داود کہتے ہیں :اس میں ایو ب اور عبداللہ یعنی عمری نے اپنی اپنی روایتوں میں نافع سے
’ ’ذكر أو أنثى‘‘ کے الفاظ (نکرہ کے ساتھ) ذکر کئے ہیں۔
1614- حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُخْرِجُونَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ أَوْ سُلْتٍ أَوْ زَبِيبٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه وَكَثُرَتِ الْحِنْطَةُ جَعَلَ عُمَرُ نِصْفَ صَاعٍ حِنْطَةً مَكَانَ صَاعٍ مِنْ تِلْكَ الأَشْيَاءِ۔
* تخريج: ن/ الزکاۃ ۴۱ (۲۵۱۸)، ( تحفۃ الأشراف :۷۷۶۰) (ضعیف)
(عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر وہم ہے صحیح یہ ہے کہ ایسا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا،عبدالعزیزبن أبی رواد سے یہاں وھم ہوگیا ہے ان سے وہم ہو بھی جایا کرتا تھا)
۱۶۱۴- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ صدقہء فطرمیں ایک صاع جو یا کھجور یا بغیر چھلکے کا جو، یا انگور نکالتے تھے، جب عمر کا دور آیا اور گیہوں بہت زیادہ آنے لگا تو انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے گیہوں کا آدھا صاع (صدقہء فطر ) مقرر کیا۔
1615- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ؛ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَعَدَلَ النَّاسُ بَعْدُ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُاللَّهِ يُعْطِي التَّمْرَ، فَأُعْوِزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ التَّمْرَ عَامًا فَأَعْطَى الشَّعِيرَ۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۸ (۱۵۱۱)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۶)، ن/الزکاۃ ۳۰ (۲۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف :۷۵۱۰)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۲)، حم (۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، دی/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)
۱۶۱۵- نا فع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : اس کے بعد لوگوں نے آدھے صاع گیہوں کو ایک صاع کے برابر کرلیا، عبداللہ(ایک صاع) کھجو ر ہی دیا کرتے تھے، ایک سال مدینے میں کھجور کا ملنا دشوار ہو گیا تو انہوں نے جو دیا ۔
1616- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ -يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ-، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ: صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلا أَزَالُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ .
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۲ (۱۵۰۵)، ۷۳ (۱۵۰۶)، ۷۵ (۱۵۰۸)، ۷۶ (۱۵۱۰)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۵)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۳)، ن/الزکاۃ ۳۷ (۲۵۱۳)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۹)، ( تحفۃ الأشراف :۴۲۶۹)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۳)، حم (۳/۲۳، ۷۳، ۹۸)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۴) (صحیح)
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدَةُ وَغَيْرِهِمَا عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، بِمَعْنَاهُ، وَذَكَرَ رَجُلٌ وَاحِدٌ فِيهِ عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ < أَوْ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ > وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ ۔ (ضعیف) ۱۶۱۶- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہما رے درمیان با حیا ت تھے ، ہم لوگ صدقہء فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھرہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں ، پھر لوگوں نے یہی اختیار کرلیا،اورابو سعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا ۔
امام ابو داود کہتے ہیں:اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابو سعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے
’’أو صاعًا من حنطة‘‘ بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔
1617- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ؛ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ الْحِنْطَةِ.
قَالَ أَبودَاود : وَقَدْ ذَكَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ < نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ > وَهُوَ وَهْمٌ مِنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ أَوْ مِمَّنْ رَوَاهُ عَنْهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۴۲۶۹) (ضعیف)
۱۶۱۷- اس سند سے اسماعیل(ابن علیہ) سے یہی حدیث (نمبر: ۱۶۱۶کے اخیر میں مذکور سند سے) مروی ہے، اس میں حنطہ کا ذکر نہیں ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: معا ویہ بن ہشام نے اس حدیث میں ثوری سے، ثوری نے زید بن اسلم سے، زیدی اسلم نے عیاض سے، عیاض نے ابو سعید سے
’’نصف صاع من بُرٍّ‘‘ نقل کیا ہے، لیکن یہ زیا دتی معاویہ بن ہشام کا یا اس شخص کا وہم ہے جس نے ان سے روایت کی ہے۔
1618- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، سَمِعَ عِيَاضًا قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: لا أُخْرِجُ أَبَدًا إِلا صَاعًا، إِنَّا كُنَّا نُخْرِجُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَاعَ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ أَقِطٍ أَوْ زَبِيبٍ، هَذَا حَدِيثُ يَحْيَى، زَادَ سُفْيَانُ: أَوْ صَاعًا مِنْ دَقِيقٍ، قَالَ حَامِدٌ: فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ فَتَرَكَهُ سُفْيَانُ.
قَالَ أَبودَاود : فَهَذِهِ الزِّيَادَةُ وَهْمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ۔
* تخريج: تفرد أبو داود بروایۃ سفیان بن عیینۃ، وروایۃ یحییٰ القطان صحیحۃ موافقۃ لرقم : ۱۶۱۶، ( تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۹) (حسن)
(یحییٰ القطان کی روایت حسن ہے، اورابن عیینہ کی روایت میں وہم ہے، اس لئے ضعیف ہے)
۱۶۱۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایک ہی صاع نکالوں گا، ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زما نے میں کھجور، یا جو، یا پنیر، یا انگور کا ایک ہی صاع نکالتے تھے۔
یہ یحییٰ کی روایت ہے، سفیان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: یا ایک صاع آٹے کا، حامد کہتے ہیں: لوگوں نے اس زیادتی پر نکیر کی، تو سفیان نے اسے چھوڑ دیا ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ زیا دتی ابن عیینہ کا وہم ہے۔