• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21- بَاب فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ
۲۱-باب: وقت سے پہلے زکاۃ نکال دینے کا بیان​


1623- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَائَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَمَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَالْعَبَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلا أَنْ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا، فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَهِيَ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا >، ثُمَّ قَالَ: < أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ الأَبِ أَوْ صِنْوُ أَبِيهِ >۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۳ (۹۸۳)، ( تحفۃ الأشراف :۱۳۹۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۴۹ (۱۴۶۸)، ن/الزکاۃ ۱۵ (۲۴۶۳)، حم (۲/۳۲۲) (صحیح)
۱۶۲۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا تو ابن جمیل ، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے(زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابن جمیل اس لئے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کر دیا، رہے خالد بن ولید توخالد پرتم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامانِ جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ۱؎ ، اور رہے رسول اللہ ﷺ کے چچاعباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمّہ ہے اور اسی قدر اور ہے ۲؎ ‘‘، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے‘‘۔
راوی کوشک ہے’’صنو الأب‘‘ کہا، یا ’’صنو أبيه‘‘کہا۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے سامان اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے وقف کررکھا ہے، پھر ان کی زکاۃ کیسی ، اسے تو انہوں نے اللہ ہی کی راہ میں دے رکھا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بن مانگے اپنی خوشی سے یہ چیزیں اللہ کی راہ میں دیدیں ہیں، تو وہ بھلا زکاۃ کیوں نہیں دیں گے، تمہیں لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہوگی۔
وضاحت ۲؎ : باب سے مطابقت اسی لفظ سے ہے یعنی : ’’اس سال کی زکاۃ اور اسی کے مثل آئندہ کی زکاۃ بھی‘‘۔


1624- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حُجَيَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ، [قَالَ: مَرَّةً، فَأَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ].
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَسَنِ ابْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ هُشَيْمٍ أَصَحُّ۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۳۷ (۶۷۸)، ق/الزکاۃ ۷ (۱۷۹۵)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۰۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۰۴)، دي/الزکاۃ ۱۲ (۱۶۷۶) (حسن)
۱۶۲۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ جلدی ( یعنی سال گزرنے سے پہلے) دینے کے بارے میں پوچھا توآپ نے ان کو اس کی ا جا زت دی۔
راوی نے ایک بار ’’فرخص له في ذلك‘‘ کے بجائے ـ ’’فأذن له في ذلك‘‘روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث ہشیم نے منصور بن زاذان سے، منصور نے حکم سے حکم نے حسن بن مسلم سے اور حسن بن مسلم نے نبی کریم ﷺ سے(مرسلاً) روایت کی ہے اور ہشیم کی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، (یعنی : اس روایت کا مرسل بلکہ معضل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22- بَاب فِي الزَّكَاةِ هَلْ تُحْمَلُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ
۲۲-باب: زکاۃ ایک شہر سے دوسر ے شہر میں لے جانا کیسا ہے؟​


1625- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبِي، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَطَائٍ مَوْلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ؛ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ زِيَادًا أَوْ بَعْضَ الأُمَرَاءِ بَعَثَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ لِعِمْرَانَ: أَيْنَ الْمَالُ؟ قَالَ: وَلِلْمَالِ أَرْسَلْتَنِي؟ أَخَذْنَاهَا مِنْ حَيْثُ كُنَّا نَأْخُذُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَوَضَعْنَاهَا حَيْثُ كُنَّا نَضَعُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: ق/الزکاۃ ۱۴ (۱۸۱۱)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۸۳۴) (صحیح)
۱۶۲۵- عطا کہتے ہیں: زیاد یا کسی اور امیر نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو زکاۃ کی وصولی کے لئے بھیجا، جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: کیا آپ نے مجھے مال لانے بھیجا تھا؟ ہم نے اسے لیا جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں لیتے تھے،اور اس کو صرف کر دیا جہاں ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں صرف کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شہر کے لوگوں سے زکاۃ وصولی جائے اسی شہر کے فقراء اور محتاجوں میں وہ تقسیم ہو، اگر وہاں کے لوگوں کو ضرورت نہ ہوتو دوسرے شہر کے ضرورتمندوں کی طرف اسے منتقل کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَنْ يُعْطَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَحَدُّ الْغِنَى
۲۳-باب: زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟​


1626- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ، جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ >، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْغِنَى؟ قَالَ: < خَمْسُونَ دِرْهَمًا، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ >.
قَالَ يَحْيَى: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ لِسُفْيَانَ: حِفْظِي أَنَّ شُعْبَةَ لا يَرْوِي عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ: فقد حَدَّثَنَاهُ زُبَيْدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲۲ (۶۵۰)، ن/الزکاۃ ۸۷ (۲۵۹۳)، ق/الزکاۃ ۲۶ (۱۸۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۸، ۴۴۱)، دي/الزکاۃ ۱۵ (۱۶۸۰) (صحیح)
۱۶۲۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو سوال کرے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے اس سوال سے مستغنی اور بے نیاز کرتی ہو تو قیامت کے روز اس کے چہرے پر خموش یا خدوش یا کدوح یعنی زخم ہوں گے‘‘، لوگوں نے سوال کیا : اللہ کے رسول! کتنے مال سے آدمی غنی ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے ہوں‘‘ ۔
یحییٰ کہتے ہیں: عبداللہ بن عثمان نے سفیان سے کہا: مجھے یاد ہے کہ شعبہ حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے ۱؎ تو سفیان نے کہا: ہم سے اسے زبید نے محمد بن عبدا لرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حکیم بن جبیر ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت زبید کر رہے ہیں جس سے یہ ضعف جاتا رہا۔


1627- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ؛ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ أَنَّهُ قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَقَالَ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ، فَجَعَلُوا يَذْكُرُونَ مِنْ حَاجَتِهِمْ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلا يَسْأَلُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لاأَجِدُ مَا أُعْطِيكَ >، فَتَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ: لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا، فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا >، قَالَ الأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ: لَلِقْحَةٌ لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، وَالأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ [اَ] وَزَبِيبٌ، فَقَسَمَ لَنَا مِنْهُ، أَوْ كَمَا قَالَ: حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ.
قَالَ أَبودَاود: هَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ كَمَا قَالَ مَالِكٌ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۹۰ (۲۵۹۷)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۶۴۰)، وقد أخرجہ: ط/الصدقۃ ۱(۳)، حم (۴/۳۶،۵/۴۳۰) (صحیح)
۱۶۲۷- بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پا س جائو اور ہمارے لئے کچھ مانگ کر لا ئو جو ہم کھائیں ،پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ میرے اوپر اس لئے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ ( چا لیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎ ‘‘، اسدی کہتے ہیں : میں نے ( اپنے جی میں ) کہا : ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اور منقّی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا،’’أو كما قال‘‘ یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں الحاف ہے یعنی الحاح اور شدید اصرار، ایسا سوال کرنا قرآن کے مطابق ناپسندیدہ عمل ہے۔


1628- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ [أَبِي سَعِيدٍ]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ >، فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ هِيَ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، قَالَ هِشَامٌ: خَيْرٌ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، فَرَجَعْتُ، فَلَمْ أَسْأَلْهُ [شَيْئًا]، زَادَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَتِ الأُوقِيَّةُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۸۹ (۲۵۹۶)، ( تحفۃ الأشراف :۴۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۹) (حسن)
۱۶۲۸- ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو سوال کرے حالا نکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحا ف کیا‘‘،میں نے(اپنے جی میں )کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔
(ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے) ، چنانچہ میں لو ٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎ ۔
ہشام کی روایت میں اتنا زیا دہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ ﷺ کے زما نے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔
وضاحت ۱؎ : آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کواللہ کے رسول ﷺسے کچھ مانگنے کے لئے بھیجا تھا جیسا کہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے۔


1629- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ وَالأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، فَسَأَلاهُ فَأَمَرَ لَهُمَا بِمَا سَأَلا، وَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ فَكَتَبَ لَهُمَا بِمَا سَأَلا، فَأَمَّا الأَقْرَعُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ، فَلَفَّهُ فِي عِمَامَتِهِ وَانْطَلَقَ، وَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَأَخَذَ كِتَابَهُ، وَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ مَكَانَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَتُرَانِي حَامِلا إِلَى قَوْمِي كِتَابًا لا أَدْرِي مَا فِيهِ كَصَحِيفَةِ الْمُتَلَمِّسِ، فَأَخْبَرَ مُعَاوِيَةُ بِقَوْلِهِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ > وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: < مِنْ جَمْرِ جَهَنَّمَ >، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا يُغْنِيهِ؟
وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَمَا الْغِنَى الَّذِي لا تَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ؟ قَالَ: < قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ >.
وَقَالَ النُّفَيْلِيُّ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: < أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبْعُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ > وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا عَلَى هَذِهِ الأَلْفَاظِ الَّتِي ذَكَرْتُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۴۶۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸۰، ۱۸۱) (صحیح)
۱۶۲۹- ابوکبشہ سلولی کہتے ہیں ہم سے سہل بن حنظلیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس آئے، انہوں نے آپ سے مانگا، آپ نے انہیں ان کی مانگی ہوئی چیز دینے کا حکم دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے لئے خط لکھ دیں جو انہوں نے مانگا ہے،اقر ع نے یہ خط لے کراسے اپنے عمامے میں لپیٹ لیا اور چلے گئے لیکن عیینہ خط لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے:محمد! کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کے پاس ایسا خط لے کر جاؤں جو متلمس ۱؎ کے صحیفہ کی طرح ہو،جس کا مضمون مجھے معلوم نہ ہو؟۔
معاویہ نے ان کی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے بیان کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو سوال کرے اس حال میں کہ اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے سوال سے بے نیاز کر دیتی ہو تو وہ جہنم کی آگ زیادہ کرنا چاہ رہا ہے‘‘۔
(ایک دوسرے مقام پر نفیلی نے’’ جہنم کی آگ‘‘ کے بجائے ’’جہنم کا انگارہ‘‘ کہا ہے)۔
لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس قدر مال آدمی کو غنی کر دیتا ہے؟ ۔
(نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا: غنیٰ کیا ہے، جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اتنی مقدار جسے وہ صبح و شام کھاسکے‘‘۔
ایک دوسری جگہ میں نفیلی نے کہا: اس کے پاس ایک دن اور ایک رات یا ایک رات اور ایک دن کا کھانا ہو،نفیلی نے اسے مختصراً ہم سے انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کیا جنہیں میں نے ذکر کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : متلمس ایک شاعر گزرا ہے، اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی ہجو کی تھی، بادشاہ نے کمال ہوشیاری سے اپنے عامل کے نام خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ تم اس لفافے کولے کر فلاں عامل کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انعام سے نوازے گا، خط میں ہجو کے جرم میں اسے قتل کر دینے کا حکم تھا، راستہ میں متلمس کو شبہہ ہوا، اس نے لفافہ پھاڑ کر خط پڑھا تواس میں اس کے قتل کا حکم تھا، چنانچہ اس نے خط پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی جان بچالی۔


1630- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ زِيَادٍ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَبَايَعْتُهُ، فَذَكَرَ حَدِيثًا طَوِيلا [قَالَ]: فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يَرْضَ بِحُكْمِ نَبِيٍّ وَلا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ حَتَّى حَكَمَ فِيهَا هُوَ، فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَائٍ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْ تِلْكَ الأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُكَ حَقَّكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۳۶۵۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’عبدالرحمن افریقی‘‘ضعیف ہیں)
۱۶۳۰- زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی ، پھر ایک لمبی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے کہا: آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : مجھے صدقے میں سے دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اللہ تعالی صدقے کے سلسلے میں نہ پیغمبر کے اور نہ کسی اور کے حکم پر راضی ہوا بلکہ خود اس نے اس سلسلے میں حکم دیا اور اسے آٹھ حصوں میں بانٹ دیا اب اگر تم ان آٹھوں ۱؎ میں سے ہو تو میں تمہیں تمہارا حق دوں گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ان آٹھ قسموں کا ذکر اس آیت میں ہے: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} (سورة التوبة: ۶۰)، ’’زکاۃ صرف فقراء، مساکین اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے ہے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم وحکمت والاہے‘‘۔


1631- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَالأَكْلَةُ وَالأَكْلَتَانِ وَلَكِنَّ الْمِسْكِينَ الَّذِي لا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا وَلا يَفْطِنُونَ بِهِ فَيُعْطُونَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۲۳۵۵)، وقد أخرجہ: خ /الزکاۃ ۵۳ (۱۴۷۶)، وتفسیر البقرۃ ۴۸ (۴۵۳۹)، م/الزکاۃ ۳۴ (۱۰۳۹)، ن/الزکاۃ ۷۶ (۲۵۷۲)، ط/ صفۃ النبی ۵ (۷)، حم (۲/۲۶۰، ۳۱۶، ۳۹۳، ۴۴۵، ۴۵۷)، دي/الزکاۃ ۲ (۱۶۵۶) (صحیح)
۱۶۳۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور یا ایک دو لقمہ در بدر پھرائے، بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو، اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ اسے دیں‘‘۔


1632- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَبُو كَامِلٍ، الْمَعْنَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ ابْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِثْلَهُ، قَالَ: < وَلَكِنَّ الْمِسْكِينَ الْمُتَعَفِّفُ > زَادَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ: < لَيْسَ لَهُ مَا يَسْتَغْنِي بِهِ الَّذِي لا يَسْأَلُ وَلا يُعْلَمُ بِحَاجَتِهِ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ فَذَاكَ الْمَحْرُومُ>، وَلَمْ يَذْكُرْ مُسَدَّدٌ: < الْمُتَعَفِّفُ الَّذِي لا يَسْأَلُ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا [الْحَدِيثَ] مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، وَجَعَلا الْمَحْرُومَ مِنْ كَلامِ الزُّهْرِيِّ، وَهُوَ أَصَحُّ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۷۶ (۲۵۷۴)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۲۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۶۰) (صحیح) دون قوله: ’’فذاك المحروم‘‘ فإنه مقطوع من كلام الزهري
۱۶۳۲- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے،اس میں ہے :ـ لیکن مسکین سوال کرنے سے بچنے والا ہے، مسدد نے اپنی روایت میں اتنا بڑھایا ہے کہ( مسکین وہ ہے) جس کے پاس اتنا نہ ہوجتنا اس کے پاس ہوتا ہے جو سوال نہیں کرتا ہے،اور نہ ہی اس کی محتاجی کا حال لوگوں کو معلوم ہوتا ہو کہ اس پر صدقہ کیا جائے، اسی کو محروم کہتے ہیں، اور مسدد نے ’’المتعفف الذي لا يسأل‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث محمد بن ثور اور عبد الرزاق نے معمر سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ’’فذاك المحروم‘‘ کو زہری کا کلام بتایا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔


1633- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلانِ أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يُقَسِّمُ الصَّدَقَةَ، فَسَأَلاهُ مِنْهَا، فَرَفَعَ فِينَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ، فَرَآنَا جَلْدَيْنِ، فَقَالَ: < إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا، وَلاحَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۹۱ (۲۵۹۹)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۶۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۴، ۵/۳۶۲)، (صحیح)
۱۶۳۳- عبید اللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہدو آدمیوں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے،آپ ﷺ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے، انہوں نے بھی آپ سے مانگا، آپ ﷺ نے نظراٹھا کر ہمیں دیکھا اور پھر نظر جھکالی، آپ نے ہمیں موٹا تازہ دیکھ کر فرمایا: ’’اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن اس میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اورنہ طاقتور کا جو مزدوری کر کے کما سکتا ہو‘‘۔


1634- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الأَنْبَارِيُّ الْخُتُّلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ -يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ- قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <لاتَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ، وَلا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ>.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ كَمَا قَالَ إِبْرَاهِيمُ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: < لِذِي مِرَّةٍ قَوِيٍّ > وَالأَحَادِيثُ الأُخَرُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بَعْضُهَا: < لِذِي مِرَّةٍ قَوِيٍّ > وَبَعْضُهَا: <لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ> و قَالَ عَطَاءُ بْنُ زُهَيْرٍ: أَنَّهُ لَقِيَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَقَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لا تَحِلُّ لِقَوِيٍّ وَلا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲۳ (۶۵۲)، ( تحفۃ الأشراف :۸۶۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۴، ۱۹۲)، دي/الزکاۃ ۱۵ (۱۶۷۹) (صحیح)
۱۶۳۴- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’صدقہ مالدار کے لئے حلال نہیں اورنہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لئے(حلال ہے) ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں :اسے سفیان نے سعد بن ابراہیم سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے ابرا ہیم نے کہا ہے نیز اسے شعبہ نے سعد سے روایت کیا ہے، اس میں ’’لذي مرة سوي‘‘ کے بجائے ’’لذي مرة قوي‘‘ کے الفاظ ہیں، نبی اکرم ﷺ سے مروی بعض روایات میں’’لذي مرة قوي‘‘ اور بعض میں’’لذي مرة سوي‘‘ کے الفاظ ہیں ۔
عطا ء بن زہیر کہتے ہیں:عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی توا نہوں نے کہا: ’’إن الصدقة لا تحل لقوي ولا لذي مرة سوي‘‘ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-مَنْ يَجُوْزُ لَهُ اَخْذُ الصَّدَقَةِ وَ هُوَ غَنِىّ
۲۴-باب: جس مالدار کو صدقہ لینا جائز ہے اس کا بیان​


1635- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلا لِخَمْسَةٍ: لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ لِغَارِمٍ، أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ لِرَجُلٍ كَانَ لَهُ جَارٌ مِسْكِينٌ، فَتُصُدِّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ فَأَهْدَاهَا الْمِسْكِينُ لِلْغَنِيِّ > ۔
* تخريج: ق/الزکاۃ ۲۷ (۱۸۴۱)، ( تحفۃ الأشراف :۴۱۷۷، ۱۹۰۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ۱۷(۲۹)، حم (۳/۴، ۳۱،۴۰، ۵۶، ۹۷) (صحیح)
(اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے،ورنہ یہ روایت مرسل ہے)
۱۶۳۵- عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مالدار کے لئے صدقہ لینا حلال نہیں سوائے پانچ لوگوں کے: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لئے، یا زکاۃ کی وصولی کا کام کرنے والے کے لئے، یا مقروض کے لئے، یا ایسے شخص کے لئے جس نے اسے اپنے مال سے خرید لیا ہو، یا ایسے شخص کے لئے جس کا کوئی مسکین پڑوسی ہو اور اس مسکین پر صدقہ کیا گیا ہو پھر مسکین نے مالدار کو ہدیہ کردیا ہو‘‘۔


1636- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، بِمَعْنَاهُ .
قَالَ أَبودَاود : وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَيْدٍ كَمَا قَالَ مَالِكٌ، وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الثَّبْتُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف :۴۱۷۷، ۱۹۰۹۰) (صحیح)
۱۶۳۶- اس سند سے بھی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: نیز اسے ابن عیینہ نے زید سے اسی طرح روایت کیا جیسے مالک نے کہا ہے اور ثوری نے اسے زید سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:مجھ سے ایک ثقہ راوی نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً بیان کیا ہے ۔


1637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عِمْرَانَ الْبَارِقِيِّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ، إِلا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ ابْنِ السَّبِيلِ، أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ >.
قَالَ أَبودَاود : وَرَوَاهُ فِرَاسٌ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ [عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۴۲۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱، ۴۰، ۹۷) (ضعیف)
(عطیہ عوفی کی وجہ سے یہ روایت سنداً ضعیف ہے،ورنہ سابق سند سے صحیح ہے)
۱۶۳۷- ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مالدار کے لئے صدقہ حلا ل نہیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں ہو یا مسافر ہو یا اس کا کوئی فقیر پڑوسی ہو جسے صدقہ کیا گیا ہو پھر وہ تمہیں ہدیہ دے دے یا تمہاری دعوت کرے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:نیز اسے فراس اور ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ سے، عطیہ نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے اور ابو سعید نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25- بَاب كَمْ يُعْطَى الرَّجُلُ الْوَاحِدُ مِنَ الزَّكَاةِ؟
۲۵-باب: ایک شخص کوکتنی زکاۃ دی جائے؟​


1638- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَدَاهُ بِمِائَةٍ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ -يَعْنِي دِيَةَ الأَنْصَارِيِّ الَّذِي قُتِلَ بِخَيْبَرَ-۔
* تخريج: خ/الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، م/القسامۃ ۱ (۱۶۶۹)، ن/القسامۃ ۲ (۴۷۱۴)، ق/الدیات ۲۸ (۲۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف :۴۶۴۴، ۱۵۵۳۶، ۱۵۵۹۲) (صحیح) ویأتی ہذا الحدیث مفصلاً برقم (۴۵۲۰)
۱۶۳۸- بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی جس کا نام سہل بن ابی حثمہ تھا کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ ان کو دیت کے دیئے یعنی اس انصاری کی دیت جوخیبر میں قتل کیا گیا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شاید یہ غارمین (قرضداروں) کا حصہ ہوگا کیوں کہ دیت میں زکاۃ صرف نہیں ہوسکتی ، ویسے اس سے معلوم ہوا کہ ایک شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ دیا جاسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا تَجُوزُ فِيهِ الْمَسْأَلَةُ
۲۶-باب: کن صورتوں میں سوال (مانگنا) جا ئز ہے؟​


1639- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ عُقْبَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ سَمُرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْمَسَائِلُ كُدُوحٌ يَكْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، فَمَنْ شَائَ أَبْقَى عَلَى وَجْهِهِ، وَمَنْ شَائَ تَرَكَ ، إِلا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ، أَوْ فِي أَمْرٍ لا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۳۸ (۶۸۱)، ن/الزکاۃ ۹۲ (۲۶۰۰)، ( تحفۃ الأشراف :۴۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰، ۱۹،۲۲) (صحیح)
۱۶۳۹- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’سوال کرنا آدمی کا اپنے چہرے کو زخم لگا نا ہے تو جس کا جی چا ہے اپنے چہرے پر(نشان زخم) باقی رکھے اور جس کا جی چاہے اسے( مانگنا) تر ک کر دے ،سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے یا کسی ایسے مسئلہ میں مانگے جس میں کوئی اور چارہ کا ر نہ ہو‘‘۔


1640- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلالِيِّ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: < أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا >، ثُمَّ قَالَ: <يَاقَبِيصَةُ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لا تَحِلُّ إِلا لأَحَدِ ثَلاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ -أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ- وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُولَ ثَلاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَى مِنْ قَوْمِهِ قَدْ أَصَابَتْ فُلانًا الْفَاقَةُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، ثُمَّ يُمْسِكُ، وَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا >۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۶ (۱۰۴۴)، ن/الزکاۃ ۸۰ (۲۵۸۰)، ۸۶ (۲۵۹۲)، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۰۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۷، ۵/۶۰) (صحیح)
۱۶۴۰- قبیصہ بن مخارق ہلا لی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہوگیا ، چنانچہ (مانگنے کے لے)میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ’’قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہما رے پاس کہیں سے صدقے کا مال آجائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں‘‘، پھر فرمایا: ’’قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لئے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لئے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑگیا ہو،اس کے لئے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لئے بھی ما نگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پاجائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فا قے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقل مند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لئے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آجائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گو یا وہ حرام کھا رہا ہے‘‘۔


1641- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الأَخْضَرِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَنَفِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ: < أَمَا فِي بَيْتِكَ شَيْئٌ؟ > قَالَ: بَلَى، حِلْسٌ: نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ، وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ، قَالَ: < ائْتِنِي بِهِمَا >، قَالَ: فَأَتَاهُ بِهِمَا، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ، وَقَالَ: < مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟ > قَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، قَالَ: < مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟ > مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ، فَأَعْطَاهُمَا إيَّاهُ، وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الأَنْصَارِيَّ، وَقَالَ: < اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا، فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ، وَاشْتَرِ بِالآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ >، فَأَتَاهُ بِهِ، فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عُودًا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: < اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ > وَلا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا >، فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ، فَجَائَ، وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ، فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا، وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيئَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاتَصْلُحُ إِلا لِثَلاثَةٍ: لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ >۔
* تخريج: ت/البیوع ۱۰ (۱۲۱۸)، ن/البیوع ۲۰ (۴۵۱۲)، ق/التجارات ۲۵ (۲۱۹۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۰، ۱۱۴، ۱۲۶) (ضعیف)
(اس کے راوی’’أبوبکرحنفی‘‘مجہو ل ہیں)
۱۶۴۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصار ی نبی اکرم ﷺ کے پاس مانگنے کے لئے آیا، آپ نے پوچھا : ’’کیا تمہا رے گھر میں کچھ نہیں ہے؟‘‘، بولا : کیو ں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیا لا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ دونوں میرے پاس لے آئو‘‘، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا ، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ’’یہ دونوں کون خریدے گا؟‘‘ ، ایک آدمی بولا: انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں، آپ ﷺ نے پوچھا : ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟‘‘، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خرید تا ہوں، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئے اور فرمایا: ’’ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آئو‘‘، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھو نک دی اور فرمایا: ’’جائو لکڑیاں کا ٹ کر لائو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں‘‘،چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے لئے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہا رے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لئے در ست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو ،خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھا ری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لئے وہ سوال کرے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-بَاب كَرَاهِيَةِ الْمَسْأَلَةِ
۲۷-باب: بھیک مانگنے کی کراہت کا بیان​


1642- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ -يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ- عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الأَمِينُ، أَمَّا هُوَ إِلَيَّ فَحَبِيبٌ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ : عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً، فَقَالَ: < أَلا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؟ > وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، قُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ، حَتَّى قَالَهَا ثَلاثًا، فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا فَبَايَعْنَاهُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلامَ نُبَايِعُكَ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَتُصَلُّوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَتَسْمَعُوا، وَتُطِيعُوا>، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً، قَالَ: < وَلا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا >، قَالَ: فَلَقَدْ كَانَ بَعْضُ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا أَنْ يُنَاوِلَهُ إِيَّاهُ.
قَالَ أَبودَاود : حَدِيثُ هِشَامٍ لَمْ يَرْوِهِ إِلا سَعِيدٌ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۳)، ن/الصلاۃ ۵ (۴۶۱)، ق/الجہاد ۴۱ (۲۸۶۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷) (صحیح)
۱۶۴۲- ابو مسلم خو لا نی کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پیا رے اور امانت دا ر دوست عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سات، آٹھ یا نوآدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کروگے؟‘‘، جب کہ ہم ابھی بیعت کرچکے تھے ، ہم نے کہا: ہم توآپ سے بیعت کر چکے ہیں،آپ ﷺ نے یہی جملہ تین بار دہرایا چنانچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! ہم ابھی بیعت کر چکے ہیں؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کر وگے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے ، پانچوں صلاۃ پڑھو گے اور (حکم ) سنوگے اور اطاعت کر وگے‘‘، ایک با ت آپ نے آہستہ سے فرمائی ، فرمایا: ’’لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروگے ‘‘، چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کو ڑا اٹھا کر دے دے۔
ابو داود کہتے ہیں: ہشام کی حدیث سعید کے علا وہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔


1643- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: وَكَانَ ثَوْبَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ يَكْفُلُ لِي أَنْ لا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ؟ > فَقَالَ ثَوْبَانُ: أَنَا، فَكَانَ لا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۲۰۸۳)، وقد أخرجہ: ن/الزکاۃ ۸۶ (۲۵۹۱)، ق/الزکاۃ ۲۵ (۱۸۳۷)، حم (۵/۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۹، ۲۸۱) (صحیح)
۱۶۴۳- ثوبان رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کو ن ہے جو مجھے اس بات کی ضما نت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اورمیں اسے جنت کی ضما نت دوں؟‘‘، ثوبان نے کہا: میں (ضمانت دیتا ہوں)، چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-بَاب فِي الاسْتِعْفَافِ
۲۸-باب: سوال سے بچنے کا بیان​


1644- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى إِذَا نَفَدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ: < مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أَعْطَى اللَّهُ أَحَدًا مِنْ عَطَائٍ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۰ (۱۴۶۹)، والرقاق ۲۰ (۶۴۷۰)، م/الزکاۃ ۴۲ (۱۰۵۳)، ت/البر ۷۷ (۲۰۲۴)، ن/الزکاۃ ۸۵ (۲۵۸۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۲)، وقد أخرجہ: ط/الصدقۃ ۲ (۷)، حم (۳/۳، ۹، ۱۲، ۱۴، ۴۷، ۹۳)، دي/الزکاۃ ۱۸ (۱۶۸۶) (صحیح)
۱۶۴۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ ﷺ نے پھر دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا، ختم ہو گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس جو بھی مال ہو گا میں اسے تم سے بچا کے رکھ نہ چھوڑوں گا، لیکن جو سوال سے بچنا چاہتا ہے اللہ اسے بچا لیتا ہے، جو بے نیازی چاہتا ہے اللہ اسے بے نیاز کر دیتا ہے، جوصبر کی تو فیق طلب کرتا ہے اللہ اسے صبر عطا کرتا ہے، اور اللہ نے صبر سے زیا دہ وسعت والی کوئی نعمت کسی کو نہیں دی ہے‘‘۔


1645- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ أَبُو مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ وَهَذَا حَدِيثُهُ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ طَارِقٍ؛ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ أَوْشَكَ اللَّهُ لَهُ بِالْغِنَى: إِمَّا بِمَوْتٍ عَاجِلٍ، أَوْ غِنًى عَاجِلٍ>۔
* تخريج: ت/الزہد ۱۸ (۲۳۲۶) ( تحفۃ الأشراف :۹۳۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۰۷، ۴۴۲) (صحیح)
۱۶۴۵- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے ظاہر کردے تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو اس کو اللہ سے ظاہر کرے( یعنی اللہ سے اس کے دور ہو نے کی دعا مانگے) توقریب ہے کہ اسے اللہ بے پروا کر دے یا تو جلد موت دے کر یا جلد ما ل دار کر کے‘‘۔


1646- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ مَخْشِيٍّ، عَنِ ابْنِ الْفِرَاسِيِّ أَنَّ الْفِرَاسِيَّ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: أَسْأَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا، وَإِنْ كُنْتَ سَائِلا لا بُدَّ فَاسْأَلِ الصَّالِحِينَ >.
* تخريج: ن/الزکاۃ ۸۴ (۲۵۸۸)، ( تحفۃ الأشراف :۱۵۵۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۳۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’مسلم‘‘لین الحدیث اور’’ابن الفراسی‘‘مجہول ہیں)
۱۶۴۶- ابن الفراسی سے روایت ہے کہ فراسی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا! اللہ کے رسول! کیا میں سوال کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں اور اگر سوال کر نا ضروری ہی ہو تو نیک لوگوں سے سوال کرو‘‘۔


1647- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ السَّاعِدِيِّ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ، قَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ، فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَعَمَّلَنِي، فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَهُ، فَكُلْ وَتَصَدَّقْ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۱ (۱۴۷۳)، م/الزکاۃ ۳۷ (۱۰۴۵)، ن/الزکاہ ۹۴ (۲۶۰۵)، ( تحفۃ الأشراف :۱۰۴۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷،۴۰، ۵۲) (صحیح)
۱۶۴۷- ابن ساعدی کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقے پر عامل مقرر کیا تو جب میں اس کام سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کر دیا تو انہوں نے میرے لئے محنتا نے (اجرت) کا حکم دیا، میں نے عرض کیا: میں نے یہ کام اللہ کے لئے کیا اور میرا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تمہیں دیا جارہا ہے اسے لے لو ، میں نے بھی یہ کام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کیا تھا، آپ ﷺ نے مجھے دینا چا ہا تو میں نے بھی وہی بات کہی جو تم نے کہی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو اس میں سے کھا ئو اور صدقہ کرو‘‘۔


1648- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ مِنْهَا، وَالْمَسْأَلَةَ: <الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالسُّفْلَى السَّائِلَةُ >.
قَالَ أَبودَاود : اخْتُلِفَ عَلَى أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: قَالَ عَبْدُ الْوَارِثِ: الْيَدُ الْعُلْيَا الْمُتَعَفِّفَةُ، و قَالَ أَكْثَرُهُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ: [الْيَدُ] الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، و قَالَ وَاحِدٌ عَنْ حَمَّادٍ: الْمُتَعَفِّفَةُ۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۸ (۱۴۲۹)، م/الزکاۃ ۳۲ (۱۰۳۳)، ن/الزکاۃ ۵۲ (۲۵۳۴)، (تحفۃ الأشراف :۸۳۳۷)، وقد أخرجہ: ط/الصدقۃ ۲ (۸)، حم (۲/۹۷)، دي/الزکاۃ ۲۲ (۱۶۹۲) (صحیح)
۱۶۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ منبر پر تھے صدقہ کرنے کا، سوال سے بچنے اور مانگنے کا ذکر کررہے تھے کہ: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ( اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہاتھ ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:اس حدیث میں ایوب کی نافع سے روایت پراختلاف کیا گیا ہے ، ۱؎ عبدالوارث نے کہا:’’اليَدُ الْعُلْيَا الْمُتَعَفِّفَةُ‘‘ (اوپر والا ہاتھ وہ ہے جو مانگنے سے بچے)، اور اکثر رواۃ نے حماد بن زیدی سے روایت میں: ’’اليَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ‘‘ نقل کیا ہے( یعنی اوپر والا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے اور ایک راوی نے حماد سے ’’الْمُتَعَفِّفَةُ‘‘ روایت کی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایوب کے تلامذہ نے ایوب سے اس حدیث میں اختلاف کیا ہے بعض رواۃ (جیسے حماد بن زید وغیرہ ) نے ایوب سے ’’اليد العليا المنفقة‘‘کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے جیساکہ مالک نے روایت کی ہے، اس کے برخلاف عبدالوارث نے ایوب سے ’’اليد العليا المتعففة‘‘کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی حماد کے تلامذہ نے بھی حماد سے روایت میں اختلاف کیا ہے ان کے اکثر تلامذہ نے ان سے’’المنفقة‘‘کا لفظ روایت کیا ہے، اور ایک راوی نے جومسدد بن مسرہد ہیں ان سے’’المتعففة‘‘ کا لفظ روایت کیا ہے۔


1649- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُوالزَّعْرَاءِ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الأَيْدِي ثَلاثَةٌ: فَيَدُ اللَّهِ الْعُلْيَا، وَيَدُ الْمُعْطِي الَّتِي تَلِيهَا، وَيَدُ السَّائِلِ السُّفْلَى، فَأَعْطِ الْفَضْلَ، وَلا تَعْجِزْ عَنْ نَفْسِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۲۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۳) (صحیح)
۱۶۴۹- مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاتھ تین طرح کے ہیں: اللہ کا ہاتھ جو سب سے اوپر ہے ، دینے والے کا ہاتھ جو اس کے بعد ہے اورلینے والے کا ہاتھ جو سب سے نیچے ہے، لہٰذا جو ضرورت سے زائد ہو اسے دے دو اور اپنے نفس کی با ت مت مانو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29- بَاب الصَّدَقَةِ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ
۲۹-باب: بنی ہاشم کوصدقہ دینا کیسا ہے؟​


1650- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ رَجُلا عَلَى الصَّدَقَةِ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَقَالَ لأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي فَإِنَّكَ تُصِيبُ مِنْهَا قَالَ: حَتَّى آتِيَ النَّبِيَّ ﷺ فَأَسْأَلَهُ، فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: <مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَإِنَّا لا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۲۵ (۶۵۷)، ن/الزکاۃ ۹۷ (۲۶۱۳)، ( تحفۃ الأشراف :۱۶۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۰، ۳۹۰، ۱۲۰۱۸) (صحیح)
۱۶۵۰- ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا، اس نے ابو رافع سے کہا : میرے ساتھ چلو اس میں سے کچھ تمہیں بھی مل جائے گا، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر پو چھ لوں، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قوم کا غلام انہیں ۱؎ میں سے ہو تا ہے اور ہمارے لئے صدقہ لینا حلال نہیں ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ابو رافع رسول اللہ ﷺکے آزاد کر دہ غلام تھے لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے، اس لئے ان کے لئے بھی صدقہ لینا جائز نہیں ہوا۔


1651- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَمُرُّ بِالتَّمْرَةِ الْعَائِرَةِ فَمَا يَمْنَعُهُ مِنْ أَخْذِهَا إِلا مَخَافَةَ أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۶۰)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۴ (۲۰۵۵)، واللقطۃ ۶ (۲۴۳۱)، م/الزکاۃ ۵۰ (۱۰۷۱)، حم (۳/۱۸۴، ۱۹۲، ۲۵۸) (صحیح)
۱۶۵۱- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر کسی پڑی ہوئی کھجور پر ہوتا تو آپ کو اس کے لے لینے سے سوائے اس اندیشے کے کوئی چیز مانع نہ ہو تی کہ کہیں وہ صدقے کی نہ ہو۔


1652- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ خَالِدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَجَدَ تَمْرَةً فَقَالَ: < لَوْلا أَنِّي أَخَافُ أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً لأَكَلْتُهَا >.
قَالَ أَبودَاود : رَوَاهُ هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ هَكَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۱۱۶۵)، وقد أخرجہ: م/الزکاۃ ۵۰ (۱۰۷۱)، حم (۳/۲۹۱) (صحیح)
۱۶۵۲- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک کھجور (پڑی) پائی توفرمایا : ’’اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہو تا کہ یہ صدقے کی ہو گی تو میں اسے کھا لیتا ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں:ہشام نے بھی اسے قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔


1653- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ ابْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَنِي أَبِي إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي إِبِلٍ أَعْطَاهَا إِيَّاهُ مِنَ الصَّدَقَةِ ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۶۳۴۴)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ قیام اللیل ۲۷ (۱۳۳۹)، حم (۱/۳۶۴) (صحیح)
۱۶۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے نبی اکرم ﷺ کے پاس اس اونٹ کے سلسلہ میں بھیجا جو آپ ﷺ نے انہیں صدقے میں سے دیا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عباس رضی اللہ عنہ بنی ہاشم میں سے ہیں اور بنی ہاشم کے لئے صدقہ جائز نہیں، اسی وجہ سے خطابی نے یہ تاویل کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس رضی اللہ عنہ سے یہ اونٹ بطور قرض لیا ہو، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ کے اونٹ آگئے ہوں تو آپ ﷺ نے اسی قرض کوصدقہ کے اونٹ سے واپس کیا ہو، اور بیہقی نے ایک تاویل یہ بھی کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہونے سے پہلے کی بات ہو۔


1654- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -هُوَ ابْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ- عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، نَحْوَهُ، زَادَ: < أَبِي يُبَدِّلُهَا لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف :۶۳۵۰) (صحیح)
۱۶۵۴- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی روایت مر وی ہے، البتہ اس میں(ابوعبیدہ نے) یہ اضافہ کیا ہے کہ میرے والد اسے آپ ﷺ سے بدل رہے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس لئے بھیجا کہ آپ اس اونٹ کو جو آپ نے انہیں دیا تھا صدقہ کے اونٹ سے بدل دیں اس مفہوم کے لحاظ سے’’من الصدقة‘‘ ’’يبدلها‘‘سے متعلق ہوگا، ناکہ ’’أعطاها‘‘ سے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں یہ اونٹ صدقہ کے علاوہ مال سے دیا تھا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آئے تو انہوں نے اسے بدلنا چاہا اس صورت میں خطابی اور بیہقی کی اس تاویل کی ضرورت نہیں جو انہوں نے اوپر والی حدیث کے سلسلہ میں کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30-بَاب الْفَقِيرِ يُهْدِي لِلْغَنِيِّ مِنَ الصَّدَقَةِ
۳۰-باب: فقیر مالدار کو صدقہ کا مال ہدیہ کر سکتا ہے​


1655- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِلَحْمٍ، قَالَ: < مَا هَذَا؟ > قَالُوا: شَيْئٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: < هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۶۲ (۱۴۹۵)، والھبۃ ۷ (۲۵۷۷۷)، م/الزکاۃ ۵۲ (۱۰۷۴)، ن/العمری ۱ (۳۷۹۱)، (تحفۃ الأشراف :۱۲۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۷، ۱۳۰، ۱۸۰، ۲۷۶) (صحیح)
۱۶۵۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گو شت لایا گیا ،آپ نے پوچھا : ’’یہ گو شت کیسا ہے؟‘‘، لوگوں نے عرض کیا: یہ وہ چیز ہے جسے بریرہ رضی اللہ عنہا پر صدقہ کیا گیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ اس (بریرہ) کے لئے صدقہ اور ہما رے لئے (بریرہ کی طرف سے) ہدیہ ہے‘‘۔
 
Top