• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۴۸-باب: عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کے جائزہونے کا بیان​


65- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فِي جَفْنَةٍ، فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَتَوَضَّأَ مِنْهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا، فَقَالَ: "إِنَّ الْمَاءَ لاَ يُجْنِبُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۵ (۶۸) ن/المیاہ ۱ (۳۲۶) (بلفظ ''لاینجسہ شیٔ'' ۳۳ (۳۷۰،۳۷۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۳) حم (۱/۲۴۳) دي/الطہارۃ ۵۷ (۷۶۱) (صحیح)
۶۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی نے ایک لگن (ٹب) سے (پانی لے کر) غسل کیا، رسول اللہﷺ نے اس ( بچے ہوئے پانی) سے وضو کرنا چاہا، توانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میں ناپاک تھی، آپ نے فرمایا: پانی جنبی نہیں ہوتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی سفیان ثوری ، مالک اور شافعی کاقول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت (غسل اوروضو) حاصل کرنا جائزہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمَاءَ لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْئٌ
۴۹-باب: پانی کو کوئی چیز نجس اورناپاک نہیں کرتی​


66- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ ابْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ؟ وَهِيَ بِئْرٌ يُلْقَى فِيهَا الْحِيَضُ، وَلُحُومُ الْكِلاَبِ، وَالنَّتْنُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْئٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ جَوَّدَ أَبُو أُسَامَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ فِي بِئْرِ بُضَاعَةَ أَحْسَنَ مِمَّا رَوَى أَبُو أُسَامَةَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۴ (۶۶) ن/المیاہ ۲ (۳۲۷،۳۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۴۴) حم (۳/۱۵، ۱۶، ۳۱، ۸۶) (صحیح)
( سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ رافع مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۶۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیاگیا: اللہ کے رسول !کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ۱؎ سے وضوکریں اورحال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے ، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آکر گرتی ہیں؟۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بئربضاعہ والی ابوسعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اورنے روایت نہیں کی ہے۳؎ ، ۳- یہ حدیث کئی اور طریق سے ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ۴- اس باب میں ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بئربضاعہ مدینہ کے ایک مشہورکنویں کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎ : ''إن الماء طهور'' میں ''الماء''میں جولام ہے وہ عہدکالام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہوگا کیوں کہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپرپانی رہتاتھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہوجاتا، جیساکہ امام ابوداودنے اپنی سنن میں اس کاذکرکیا ہے، یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدارمیں ہو(یعنی دوقلہ سے زیادہ ہو) تومحض نجاست کا گرجانااسے ناپاک نہیں کرتا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوگا، چاہے وہ کم ہو ، یا چاہے اس کا مزہ اورمہک بدل جائے۔
وضاحت ۳؎ : مولف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہترطریق یہی ابواسامہ والاہے، تمام طرق سے مل کریہ حدیث صحیح (لغیرہ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب مِنْهُ آخَرُ
۵۰-باب: پانی کوکوئی چیز نجس نہیں کرتی سے متعلق ایک اورباب​


67- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلاَةِ مِنْ الأَرْضِ، وَمَا يَنُوبُهُ مِنْ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ". قَالَ: عَبْدَةُ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: الْقُلَّةُ هِيَ الْجِرَارُ، وَالْقُلَّةُ الَّتِي يُسْتَقَى فِيهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، قَالُوا: إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْئٌ مَا لَمْ يَتَغَيَّرْ رِيحُهُ، أَوْ طَعْمُهُ. وَقَالُوا يَكُونُ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ قِرَبٍ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۳۳ (۶۳)، ن/الطہارۃ ۴۴ (۵۲)، والمیاہ ۲ (۳۲۹)، ق/الطہارۃ ۷۵ (۵۱۷، ۵۱۸) (تحفۃ الأشراف:۷۳۰۵)، حم (۱/۱۲، ۲۶، ۳۸، ۱۰۷)، دي/الطہارۃ ۵۵ (۷۵۸) (صحیح)
۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جارہا تھا جومیدان میں ہوتا ہے اور جس پردرندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آ پ نے فرمایا:'' جب پانی دوقلہ ۱؎ ہوتووہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کردے گا'' ۲؎ ۔محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ(ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں۱- یہی قول شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دوقلہ ہو تواسے کوئی چیزنجس نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے، اوران لوگوں کا کہناہے کہ دوقلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں،یہاں مرادقبیلہ ٔ ہجرکے مٹکے ہیں، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہورومعروف تھے، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، لہذادوقلوں کے پانی کی مقدارپانچ سو رطل ہوئی جوموجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دوکوئنٹل ستائیس کلوگرام ہوتی ہے ۔
وضاحت ۲؎ : کچھ لوگوں نے '' لم يحمل الخبث'' کاترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجزہوگا یعنی نجس ہوجائے گا، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں، ایک یہ کہ ابوداودکی ایک صحیح روایت میں''اذابلغ الماء قلتین فإنَّہُ لاَینَجَْسْ'' ہے، یعنی : اگرپانی اس مقدارسے کم ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک ہوجائے گا ، چاہے رنگ مزہ اوربونہ بدلے ، اوراگراس مقدارسے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوگا، الاّیہ کہ اس کا رنگ ، مزہ، اوربوبدل جائے، لہذا یہ روایت اسی پرمحمول ہوگی اور'' لم يحمل الخبث'' کے معنی '' لم ينجس'' کے ہوں گے، دوسری یہ کہ '' قلتين'' (دوقلے) سے نبی اکرﷺ نے پانی کی تحدیدفرمادی ہے اوریہ معنی لینے کی صورت میں تحدیدباطل ہوجائے گی کیونکہ قلتین سے کم اورقلتین دونوں ایک ہی حکم میں آجائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ
۵۱-باب: ٹھہرے ہوے پانی میں پیشاب کرنے کی کراہت کا بیان​


68- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۶۸ (۲۳۹)، م/الطہارۃ ۲۸ (۲۸۲)، د/الطہارۃ ۳۶ (۶۹)، ن/الطہارۃ ۴۷ (۵۸)، و۱۳۹ (۲۲۱)، و۱۴۰ (۲۲۲)، ق/الطہارۃ ۲۵ (۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۲۲)، حم (۲/۳۱۶، ۳۶۲، ۳۶۴)، دي/ الطہارۃ ۵۴ (۷۵۷) (صحیح)
۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ٹھہرہوئے پانی سے مراد ایساپانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہوجیسے حوض اورتالاب وغیرہ کا پانی، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہوگا ،یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہئے تاکہ اس میں مزید بدبونہ ہو،ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیداہوجاتی ہے، اگر اس میں نجاست(گندگی) ڈال دی جائے تو اس کی سڑاندبڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَاب مَا جَاءَ فِي مَاءِ الْبَحْرِ أَنَّهُ طَهُورٌ
۵۲-باب: سمندر کے پانی کے پاک ہونے کا بیان​


69- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، ح و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الأَزْرَقِ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ - وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ - أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَالْفِرَاسِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِمَاءِ الْبَحْرِ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ الْوُضُوءَ بِمَاءِ الْبَحْرِ، مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو. وَقَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۴۱ (۸۳) ن/الطہارۃ ۴۷ (۵۹) والمیاہ ۵ (۳۳۳) والصید ۳۵ (۴۳۵۵) ق/الطہارۃ ۳۹ (۳۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۸) ط/الطہارۃ ۳ (۱۲) حم (۲/۲۳۷، ۳۶۱، ۳۷۸) دي/الطہارۃ ۵۳ (۷۵۶) (صحیح)
۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم سمندرکا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے ، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟ رسول اللہﷺنے فرمایا : ''سمندر کا پانی پاک ۱؎ ہے، اور اس کا مردار ۲؎ حلال ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابربن عبداللہ اور فراسی رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے،۳- اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثرفقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر، عمراورابن عباس بھی ہیں کہ سمندرکے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں،بعض صحابہ کرام نے سمندرکے پانی سے وضوکومکروہ جاناہے ،انہیں میں ابن عمراورعبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمروکا کہنا ہے کہ سمندرکا پانی آگ ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی طاہر(پاک)اورمطہر (پاک کرنے والا) دونوں ہے۔
وضاحت ۲؎ : سمندرکے مردارسے مرادوہ سمندری اوردریائی جانورہے جوصرف پانی ہی میں زندہ رہتاہو، نیزمردارکا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانورجوپانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اورخنزیرکے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں،بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے:''دومردے حلال ہیں:مچھلی اورٹڈی، اوربعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیرومثال جانورکھائے جاتے وہی سمندری مردارحلال ہے ، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندرکا ہروہ جانور(زندہ یامردہ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طورپرنقصان دہ نہ ہو، اورنہ ہی خبیث قسم کا ہوجیسے کچھوا ،اورکیکڑا وغیرہ، یہ دونوں اصول ضابطہ سمندری غیرسمندری ہرطرح کے جانورکے لیے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْبَوْلِ
۵۳-باب: پیشاب کے بارے میں وارد وعید کا بیان​


70- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ: إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ: أَمَّا هَذَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ، وَزَيْدِ ابْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى مَنْصُورٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ طَاوُسٍ وَرِوَايَةُ الأَعْمَشِ أَصَحُّ. قَالَ: و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ الْبَلْخِيَّ مُسْتَمْلِي وَكِيعٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: الأَعْمَشُ أَحْفَظُ لإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۵ (۲۱۶) و۵۶ (۲۱۸) والجنائز ۹۱ (۱۳۶۱) و۸۸ (۱۳۷۸) والأدب ۴۶ (۶۰۵۲) و۴۹ (۶۰۵۵) م/الطہارۃ ۳۴ (۲۹۲) د/الطہارۃ ۱۱ (۲۰) ن/الطہارۃ ۲۷ (۳۱) والجنائز ۱۱۶ (۲۰۷۰) ق/الطہارۃ ۲۶ (۳۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۷) حم (۱/۲۲۵) دی/ الطہارۃ ۶۱ (۷۶۶) (صحیح)
۷۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا گزر دوقبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا :''یہ دونوں قبروالے عذاب دیئے جارہے ہیں، اورکسی بڑی چیزمیں عذاب نہیں دیئے جارہے(کہ جس سے بچنامشکل ہوتا) رہا یہ تویہ اپنے پیشاب سے بچتانہیں تھا ۱؎ اوررہا یہ تویہ چغلی کیا کرتا تھا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوموسیٰ ، عبدالرحمن بن حسنہ، زید بن ثابت ، اورابو بکر ۃ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتاتھا، پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پرپڑجایاکرتے تھے، جوقبرمیں عذاب کا سبب بنے، اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہئے، اوریہ کوئی بہت بڑی اورمشکل بات نہیں۔
وضاحت ۲؎ : چغلی خود گرچہ بڑاگنا ہ ہے مگراس سے بچناکوئی مشکل بات نہیں، اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جارہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب مَا جَاءَ فِي نَضْحِ بَوْلِ الْغُلاَمِ قَبْلَ أَنْ يُطْعَمَ
۵۴-باب: دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک لینا کافی ہے​


71- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، قَالَتْ: دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: لَمْ يَأْكُلْ الطَّعَامَ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَدَعَا بِمَائٍ فَرَشَّهُ عَلَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَزَيْنَبَ، وَلُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ - وَهِيَ أُمُّ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسِ ابْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ - وَأَبِي السَّمْحِ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي لَيْلَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، قَالُوا: يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلاَمِ، وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ، وَهَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا، فَإِذَا طَعِمَا غُسِلاَ جَمِيعًا.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۹ (۲۲۳)، والطب ۱۰ (۵۶۹۳)، م/الطہارۃ ۳۴ (۲۸۷)، د/الطہارۃ ۱۳۷ (۳۷۴)، ن/الطہارۃ ۱۸۹ (۳۰۳)، ق/الطہارۃ ۷۷ (۵۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۲) ط/۳۰ (۱۱۰)، حم (۶/۳۵۵، ۳۵۶)، دي/الطہارۃ ۶۲ (۷۶۷) (صحیح)
۷۱- ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :میں اپنے بچے کولے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، وہ ابھی تک کھانا نہیں کھاتا تھا ۱؎ ، اس نے آپ پر پیشاب کردیا توآپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پرچھڑک لیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- اس باب میں علی، عائشہ، زینب،فضل بن عباس کی والدہ لبابہ بنت حارث، ابوالسمح ، عبداللہ بن عمرو ، ابولیلیٰ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- صحابہ کرام، تابعین عظام اوران کے بعدکے لوگوں کایہی قول ہے کہ بچے کے پیشاب پرپانی چھڑکاجائے اوربچی کا پیشاب دھویا جائے، اوریہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دونوں کھانانہ کھانے لگ جائیں، اورجب وہ کھانا کھانے لگ جائیں توبالاتفاق دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کی غذاصرف دودھ تھی، ابھی اس نے کھاناشروع نہیں کیاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ
۵۵-باب: جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم​


72- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَقَتَادَةُ وَثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْهَا، فَبَعَثَهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا. فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَاسْتَاقُوا الإِبِلَ، وَارْتَدُّوا عَنْ الإِسْلاَمِ، فَأُتِيَ بِهِمْ النَّبِيُّ ﷺ، فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ مِنْ خِلاَفٍ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، وَأَلْقَاهُمْ بِالْحَرَّةِ. قَالَ أَنَسٌ: فَكُنْتُ أَرَى أَحَدَهُمْ يَكُدُّ الأَرْضَ بِفِيهِ، حَتَّى مَاتُوا. وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ: يَكْدُمُ الأَرْضَ بِفِيهِ، حَتَّى مَاتُوا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لاَ بَأْسَ بِبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۶۶ (۲۳۳)، والزکاۃ ۶۸ (۱۵۰۱)، والجہاد ۱۵۲ (۳۰۱۸)، والمغازی ۳۶ (۴۹۲)، وتفسیر المائدۃ ۵ (۴۶۱۰)، والطب ۵ (۵۶۸۵)، و۶ (۵۶۸۶)، و۲۹ (۵۷۲۷)، والحدود ۱۵ (۶۸۰۲)، و۱۷ (۶۸۰۴)، و۱۸ (۶۸۰۵)، والدیات ۲۲ (۶۸۹۹)، م/القسامۃ ۱۳ (۱۶۷۱)، د/الحدود ۳ (۴۳۶۷، وأیضا۳۶۴)، ن/الطہارۃ ۱۹۱ (۳۰۵)، والمحاربۃ ۷ (۴۰۲۹، ۴۰۳۲)، و۸ (۴۰۳۳ - ۴۰۴۰)، و۹ (۴۰۴۸)، ق/الطب ۳۰ (۳۵۰۳) (تحفۃ الأشراف:۳۱۷)، حم (۳/۱۰۷،۱۶۱،۱۶۳، ۱۷۰،۱۷۷، ۱۹۸، ۲۰۵، ۲۳۳، ۲۸۷،۲۹۰، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۸۴۵و۲۰۴۲ (صحیح)
۷۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے ، انہیں مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہﷺنے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا :'' تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو''(وہ وہاں گئے اور کھاپی کرموٹے ہوگئے) توان لوگوں نے آپﷺ کے چرواہے کو مارڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے،اور اسلام سے مرتد ہوگئے، انہیں(پکڑکر)نبی اکرم ﷺکے پاس لایا گیا،آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اوردوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے،ان کی آنکھوں میں سلائیان پھیردیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک شخص کودیکھاتھاکہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے)اپنے منہ سے زمین چاٹ رہاتھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے، ۲- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانورکاگوشت کھایاجاتاہواس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۱؎ )۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے ، اور یہی محققین محدثین کا قول ہے ، ناپاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔


73- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْتَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِيُّ ﷺ أَعْيُنَهُمْ لأَنَّهُمْ سَمَلُوا أَعْيُنَ الرُّعَاةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ غَيْرَ هَذَا الشَّيْخِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ. وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: إِنَّمَا فَعَلَ بِهِمْ النَّبِيُّ ﷺ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ.
* تخريج: م/القسامۃ ۵ (الحدود) ۲ (۱۴/۱۶۷۱) ن/المحاربۃ ۹ (۴۰۴۸) (تحفۃ الأشراف:۸۷۵) (صحیح)
۷۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لیے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اوراللہ تعالیٰ کے فرمان ''والجروح قصاص'' کا یہی مفہوم ہے، محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے ساتھ یہ معاملہ حدود (سزاؤں)کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ الرِّيحِ
۵۶-باب: ہوا خارج ہونے سے وضوکے ٹوٹ جانے کا بیان​


74- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ وُضُوءَ إِلاَّ مِنْ صَوْتٍ، أَوْ رِيحٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۷۴ (۵۱۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۳) حم (۲/۴۱۰،۴۳۵،۴۷۱) (صحیح)
۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بونہ آئے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ شک کی وجہ سے کہ ہوا خارج ہوئی یانہیں وضونہیں ٹوٹتا، اوراس سے ایک اہم اصول کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہرچیز اپنے حکم پر قائم رہتی ہے جب تک اس کے خلاف کوئی بات یقین ووثوق سے ثابت نہ ہوجائے،محض شبہ سے حکم نہیں بدلتا۔


75- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ، فَوَجَدَ رِيحًا بَيْنَ أَلْيَتَيْهِ، فَلاَ يَخْرُجْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ أَنْ لاَ يَجِبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ إِلاَّ مِنْ حَدَثٍ يَسْمَعُ صَوْتًا أَوْ يَجِدُ رِيحًا. و قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِذَا شَكَّ فِي الْحَدَثِ فَإِنَّهُ لاَ يَجِبُ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ، حَتَّى يَسْتَيْقِنَ اسْتِيقَانًا يَقْدِرُ أَنْ يَحْلِفَ عَلَيْهِ. وَقَالَ: إِذَا خرَجَ مِنْ قُبُلِ الْمَرْأَةِ الرِّيحُ وَجَبَ عَلَيْهَا الْوُضُوءُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: م/الحیض ۲۶ (۳۶۲)، د/الطہارۃ ۶۸ (۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۱۸)، حم (۲/۳۰،۴۱۴) دي/الطہارۃ ۴۷ (۷۴۸) (صحیح)
۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی مسجدمیں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہواکے خارج ہونے کی آوازنہ سن لے، یا بغیرآوازکے پیٹ سے خارج ہونے والی ہواکی بونہ محسوس کرلے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن زید، علی بن طلق، عائشہ ، ابن عباس،ابن مسعود اور ابو سعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوریہی علماء کا قول ہے کہ وضوحدث ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ حدث کی آوازسن لے یا بومحسوس کرلے ،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب حدث میں شک ہوتو وضو واجب نہیں ہوتا، جب تک کہ ایسا یقین نہ ہوجائے کہ اس پر قسم کھاسکے ، نیزکہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرم گاہ سے ہواخارج ہو تو اس پروضو واجب ہوجاتاہے، یہی شافعی اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : مقصودیہ ہے کہ انسان کو ہواخارج ہونے کا یقین ہوجائے خوا ہ ان دونوں ذرائع سے یاکسی اورذریعہ سے، ان دونوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکرمحض اس لیے کیا گیا ہے کہ اس باب میں عام طورسے یہی دوذریعے ہیں جن سے اس کا یقین ہوتا ہے۔


76- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ لاَ يَقْبَلُ صَلاَةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوضوء ۲ (۱۳۵)، والحیل ۲ (۶۹۵۴)، م/الطہارۃ ۲ (۲۲۵)، د/الطہارۃ ۳۱ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۹۴)، حم (۲/۳۱۸) (صحیح)
۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''جب تم میں کسی کو حدث ہوجائے (یعنی اس کا وضوٹوٹ جائے) ۱؎ تو اللہ اس کی صلاۃ قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضونہ کرلے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اسی جملہ میں باب سے مطابقت ہے، یعنی: ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ
۵۷- باب: نیند سے وضو کا بیان​


77- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى - كُوفِيٌّ - وَهَنَّادٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ - الْمَعْنَى وَاحِدٌ - قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلاَئِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالاَنِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ نَامَ وَهُوَ سَاجِدٌ، حَتَّى غَطَّ أَوْ نَفَخَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّكَ قَدْ نِمْتَ؟ قَالَ: إِنَّ الْوُضُوءَ لاَيَجِبُ إِلاَّ عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا، فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو خَالِدٍ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۸۰ (۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۵)، حم (۱/۲۴۵،۳۴۳) (ضعیف)
(ابوخالدیزیدبن عبدالرحمن دارمی دالانی مدلس ہیں،انہیں بہت زیادہ وہم ہوجایاکرتاتھا، شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے یہ حدیث ابوالعالیہ سے نہیں سنی ہے یعنی اس میں انقطاع بھی ہے)
۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھاکہ آپ سجدے کی حالت میں سوگئے یہاں تک کہ آپ خرانٹے لینے لگے، پھر کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھنے لگے، تومیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ تو سوگئے تھے؟ آپ نے فرمایا :'' وضو صرف اس پرواجب ہوتا ہے جو چت لیٹ کر سوئے اس لیے کہ جب آدمی لیٹ جاتاہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ، ابن مسعود، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : چت لیٹنے کی صورت میں ہواکے خارج ہونے کا شک بڑھ جاتاہے جب کہ ہلکی نیند میں ایسانہیں ہوتا، یہ حدیث ا گرچہ سند کے اعتبارسے ضعیف ہے، مگر اس کے ''لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹ جانے والے'' ٹکڑے کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے۔


78- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَنَامُونَ، ثُمَّ يَقُومُونَ فَيُصَلُّونَ، وَلاَيَتَوَضَّئُونَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: و سَمِعْت صَالِحَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَمَّنْ نَامَ قَاعِدًا مُعْتَمِدًا، فَقَالَ: لاَ وُضُوءَ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَبَا الْعَالِيَةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ: فَرَأَى أَكْثَرُهُمْ أَنْ لاَ يَجِبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ إِذَا نَامَ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا حَتَّى يَنَامَ مُضْطَجِعًا. وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ. قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا نَامَ حَتَّى غُلِبَ عَلَى عَقْلِهِ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاقُ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: مَنْ نَامَ قَاعِدًا فَرَأَى رُؤْيَا أَوْ زَالَتْ مَقْعَدَتُهُ لِوَسَنِ النَّوْمِ: فَعَلَيْهِ الْوُضُوءُ.
* تخريج: م/الحیض ۳۳ (۱۲۳/۳۷۶)، د/الطہارۃ ۸۰ (۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۱)، حم (۳/۲۷۷ (صحیح)
۷۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ( بیٹھے بیٹھے ) سوجاتے، پھر اٹھ کر صلاۃ پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے صالح بن عبداللہ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھاجو بیٹھے بیٹھے سوجائے تو انہوں نے کہاکہ اس پر وضونہیں، ۳-ابن عباس والی حدیث کو سعیدبن ابی عروبہ نے بسند قتادہ عن ابن عباس (موقوفاً) روایت کیا ہے اور اس میں ابولعالیہ کاذکرنہیں کیا ہے، ۴- نیندسے وضوکے سلسلہ میں علما کا اختلاف ہے ، اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ کوئی کھڑے کھڑے سوجائے تو اس پر وضونہیں جب تک کہ وہ لیٹ کرنہ سوئے، یہی سفیان ثوری ، ابن المبارک اور احمدکہتے ہیں، اوربعض لوگوں نے کہاہے کہ جب نیند اس قدر گہری ہوکہ عقل پر غالب آجائے تو اس پروضو واجب ہے اوریہی اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، شافعی کاکہنا ہے کہ جو شخص بیٹھے بیٹھے سوئے اور خواب دیکھنے لگ جائے، یانیند کے غلبہ سے اس کی سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔
 
Top