• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ
۵۸- باب: آگ پرپکی ہوئی چیز سے وضو کا بیان​


79- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ" قَالَ: فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! أَنَتَوَضَّأُ مِنْ الدُّهْنِ؟ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ الْحَمِيمِ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: يَا ابْنَ أَخِي! إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَلاَ تَضْرِبْ لَهُ مَثَلاً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وأُمِّ سَلَمَةَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَبِي طَلْحَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ، وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: عَلَى تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۶۵ (۴۸۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۰) حم (۲/۲۶۵،۲۷۱، ۴۵۸، ۴۷۰، ۴۷۹، ۵۰۲) (حسن)
۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آگ پرپکی ہوئی چیزسے وضوہے اگر چہ وہ پنیرکاکوئی ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو''،اس پر ابن عباس نے ان سے کہا: ابوہریرہ(بتائیے)کیا ہم گھی اور گرم پانی (کے استعمال) سے بھی وضوکریں؟توابوہریرہ نے کہا:بھتیجے!تم جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنو تو اس پر (عمل کرو) باتیں نہ بناؤ۔ (اورمثالیں بیان کرکے قیاس نہ کرو)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ام حبیبہ ، ام سلمہ، زید بن ثابت، ابوطلحہ، ابو ایوب انصاری اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیزسے وضوہے، لیکن صحابہ،تابعین اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثراہل علم کامذہب ہے کہ اس سے وضونہیں، (دلیل اگلی حدیث ہے) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ
۵۹-باب: آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضونہ ٹوٹنے کا بیان​


80- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ سَمِعَ جَابِرًا، قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَنَا مَعَهُ، فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ الأَنْصَارِ، فَذَبَحَتْ لَهُ شَاةً فَأَكَلَ، وَأَتَتْهُ بِقِنَاعٍ مِنْ رُطَبٍ فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ تَوَضَّأَ لِلظُّهْرِ وَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَتْهُ بِعُلاَلَةٍ مِنْ عُلاَلَةِ الشَّاةِ، فَأَكَلَ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيرَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَأُمِّ الْحَكَمِ، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، وَأُمِّ عَامِرٍ، وَسُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ يَصِحُّ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ فِي هَذَا الْبَابِ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، إِنَّمَا رَوَاهُ حُسَامُ ابْنُ مِصَكٍّ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا هُوَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. هَكَذَا رَوَاهُ الْحُفَّاظُ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، وَعِكْرِمَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ: رَأَوْا تَرْكَ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ. وَهَذَا آخِرُ الأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ. وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ نَاسِخٌ لِلْحَدِيثِ الأوَّلِ: حَدِيثِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۸) وانظر حم (۳/۱۲۵،۲۶۹) (حسن صحیح)
۸۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہﷺ (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا،آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ ترکھجور وں کا ایک طبق بھی لے کر آئی توآپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہرکے لیے وضو کیا اور ظہر کی صلاۃ پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کاارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کرآئی توآپ نے (اسے بھی) کھایا، پھرآپ نے عصرکی صلاۃپڑھی اور(دوبارہ) وضونہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابو بکرصدیق ، ابن عباس ، ابوہریرہ ، ابن مسعود ، ابورافع ، ام حکم ، عمروبن امیہ، ام عامر، سوید بن نعمان اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوبکرکی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے ۔ ۲-صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعدکے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اوراسحاق بن راہویہ کااسی پر عمل ہے کہ آگ پرپکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں، اوریہی رسول اللہﷺ کاآخری فعل ہے، گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سوائے اونٹ کے گوشت کے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہاہے، اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکنا ہٹ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے، اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھولینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الإبِلِ
۶۰- باب: اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان​


81- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الإبِلِ؟ فَقَالَ: "تَوَضَّئُوا مِنْهَا". وَسُئِلَ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: "لاَتَتَوَضَّئُوا مِنْهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَأُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ. وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. وَرَوَى عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ الرَّازِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ ذِي الْغُرَّةِ الْجُهَنِيِّ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، فَأَخْطَأَ فِيهِ، وَقَالَ فِيهِ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. قَالَ إِسْحَاقُ: صَحَّ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَانِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ: حَدِيثُ الْبَرَاءِ، وَحَدِيثُ جَابِرِ ابْنِ سَمُرَةَ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ لُحُومِ الإبِلِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۷۲ (۱۸۴)، ق/الطہارۃ ۶۷ (۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۳)، حم (۴/۲۸۸) (صحیح)
۸۱- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اونٹ کے گوشت کے بارے پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اس سے وضو کرو اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:'' اس سے وضو نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- یہی قول احمد،عبداللہ اور اسحاق بن راہویہ کاہے، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس باب میں رسول اللہﷺسے دوحدیثیں صحیح ہیں: ایک براء بن عازب کی (جسے مولف نے ذکرکیا اور اس کے طرق پر بحث کی ہے) اور دوسری جابر بن سمرہ کی، ۴- یہی قول احمداور اسحاق بن راہویہ کاہے۔ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اوریہی سفیان ثوری اوراہل کوفہ کاقول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لوگ اوپروالی روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے مراد وضو لغوی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں،اس لیے کہ وضوایک شرعی لفظ ہے جسے بغیر کسی دلیل کے لغوی معنی پر محمول کرنا درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61- بَاب الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
۶۱- باب: شرمگاہ( عضو تناسل) چھونے پر وضو کا بیان​


82- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلاَ يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وأَرْوَى ابْنَةِ أُنَيْسٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ هَذَا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُسْرَةَ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۷۰ (۱۸۱)، ن/الطہارۃ ۱۱۸ (۱۶۳)، والغسل ۳۰ (۱۴۷)، ق/الطہارۃ ۶۳ (۶۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۸۵)، ط/الطہارۃ ۱۵ (۵۸ حم (۶/۴۰۶)، ۴۰۷)، دي/الطہارۃ ۵۰ (۷۵۱) (صحیح)
۸۲- بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جواپنی شرمگاہ(عضو تناسل) چھوئے توجب تک وضونہ کرلے صلاۃنہ پڑھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام حبیبہ ،ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس ، عائشہ ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اورہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اورعروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اوربسرۃ کے درمیان کسی اورواسطے کاذکر نہیں کیا ہے، اور بعض نے عروہ اوربسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کاذکرکیا ہے، جن لوگوں نے عروۃ اوربسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بُسرۃ سے سماع ثابت ہے، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سُنا پھر بُسرہ سے جاکر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیساکہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے ۔


83- وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَروَانَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ . حدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ بِهَذَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۳- ابو اسامہ اورکئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرۃعن النبی ﷺ روایت کیاہے۔


84- وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ بُسْرَةَ. وَ قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: حَدِيثُ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْعَلاَءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ. و قَالَ مُحَمَّدٌ: لَمْ يَسْمَعْ مَكْحُولٌ مِنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَرَوَى مَكْحُولٌ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَكَأَنَّهُ لَمْ يَرَ هَذَا الْحَدِيثَ صَحِيحًا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۴- نیزاسے ابوالزناد نے بسند عروہ عن النبی اکرم ﷺ اسی طرح روایت کیا ہے۔
۱- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی ، شافعی، احمد ،اور اسحاق بن راہویہ ہیں،۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے،۳- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ۱؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے،۴- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ۲؎ ،اورمکحول نے ایک آدمی سے اوراس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے،گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے ۔
وضاحت ۱؎ : ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے (دیکھئے: باب الوضوء من مس الذكر رقم ۴۸۱)۔
وضاحت ۲؎ : یحییٰ بن معین ،ابوزرعہ ،ابوحاتم اورنسائی نے بھی یہی بات کہی ہے، لیکن عبد الرحمن دحیم نے ان لوگوں کی مخالفت کی ہے اورانہوں نے مکحول کا عنبسہ سے سماع ثابت کیا ہے (دحیم اہل شام کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
۶۲- باب: عضو تناسل کے چھونے سے وضونہیں ٹوٹتا​


85- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ هُوَ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "وَهَلْ هُوَ إِلاَّ مُضْغَةٌ مِنْهُ؟ أَوْ بَضْعَةٌ مِنْهُ؟". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَبَعْضِ التَّابِعِينَ: أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَابْنِ الْمُبَارَكِ. وَهَذَا الْحَدِيثُ أَحَسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ، وَأَيُّوبَ بْنِ عُتْبَةَ. وَحَدِيثُ مُلاَزِمِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَدْرٍ أَصَحُّ وَأَحْسَنُ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۷۱ (۱۸۲)، ن/الطہارۃ ۱۱۹ (۱۶۵)، ق/الطہارۃ ۶۴ (۴۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۳) حم (۴/۲۲،۲۳) (صحیح)
(سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثرعلماء نے توثیق کی ہے)
۸۵- طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: ''یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضوتناسل کے چھونے سے وضوواجب نہیں، اوریہی اہل کوفہ اورابن مبارک کا قول ہے، ۳- اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے،۴- ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کوقیس بن طلق نے عن أبیہ سے روایت کیا ہے۔بعض محدّثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے، ۵- ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے،سب سے صحیح اوراچھی ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے پہلے کی ہے، اس لیے طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث منسوخ ہے، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل ( رکاوٹ) کے چھونے کے بارے میں ہے، اور طلق کی حدیث بغیرکسی حائل (پردہ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔
وضاحت ۲؎ :طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہترہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ الْقُبْلَةِ
۶۳- باب: بوسہ لینے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان​


86 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، وَأَبُوعَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ. قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هِيَ إِلاَّ أَنْتِ؟ قَالَ: فَضَحِكَتْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالُوا: لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوئٌ. و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالأَوْزَاعِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: فِي الْقُبْلَةِ وُضُوئٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَإِنَّمَا تَرَكَ أَصْحَابُنَا حَدِيثَ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا لأَنَّهُ لاَ يَصِحُّ عِنْدَهُمْ، لِحَالِ الإِسْنَادِ. قَالَ: و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: ضَعَّفَ يَحْيَى ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا، وَقَالَ: هُوَ شِبْهُ لاَ شَيْءَ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ، و قَالَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَهَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ. وَهَذَا لاَ يَصِحُّ أَيْضًا، وَلاَ نَعْرِفُ لإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْئٌ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۶۹ (۱۷۹،۱۸۰)، ن/الطہارۃ ۱۲۱ (۱۷۰)، ق/الطہارۃ ۶۹ (۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۷۱)، حم (۶/۲۰۷) (صحیح)
( سند میں حبیب بن ابی ثابت اورعروہ کے درمیان انقطاع ہے جیساکہ مؤلف نے صراحت کی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکریہ روایت بھی صحیح ہے )
۸۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا، پھرآپ صلاۃ کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ( اپنی خالہ ام المومنین عائشہ سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی؟ تووہ ہنس پڑیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ کرام اورتابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اوریہی قول سفیان ثوری ، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو(واجب) نہیں ہے، مالک بن انس ، اوزاعی، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو(واجب) ہے، یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے۔ ۲-ہمارے اصحاب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر جو نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ۲؎ ، ۳- یحیی بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اورکہاہے کہ یہ لاشیٔ کے مشابہ ہے ۳؎ ، ۴- نیز میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) کوبھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا،انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے، ۵- نیزابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔ اس باب میں نبی اکرم ﷺسے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ نے سابق وضوہی پرصلاۃ پڑھی، بوسہ لینے سے نیا وضونہیں کیا، اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضونہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔
وضاحت ۲؎ : لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود (رقم ۱۷۱- ۱۷۲) میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے مذکورہ حوالے)۔
وضاحت ۳؎ : ''لاشئی کے مشابہ''ہے یعنی ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ الْقَيْئِ وَالرُّعَافِ
۶۴- باب: قئی اورنکسیرسے وضوکا بیان​


87- حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، وَهُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَإِسْحَاقُ ابْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَاءَ فَأَفْطَرَ فَتَوَضَّأَ، فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَ، أَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوئَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: "مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَ "ابْنُ أَبِي طَلْحَةَ" أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ مِنْ التَّابِعِينَ: الْوُضُوءَ مِنْ الْقَيْئِ وَالرُّعَافِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي الْقَيْئِ وَالرُّعَافِ وُضُوئٌ،وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ. وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ هَذَا الْحَدِيثَ. وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ. وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ، فَقَالَ: "عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ" وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "الأَوْزَاعِيَّ" وَقَالَ: "عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ" وَإِنَّمَا هُوَ "مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ".
* تخريج: د/الصوم ۳۲ (۲۳۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۶۴)، حم (۵/۱۹۵، و۶/۴۴۳)، دي/الصوم ۲۴ (۱۷۶۹)، (ولفظ الجمیع ''قاء فأفطر'') (صحیح)
۸۷- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے قئی کی تو صوم توڑدیااوروضوکیا (معدان کہتے ہیں کہ ) پھر میں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کاذکرکیا توانہوں نے کہاکہ ابوالدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ ﷺ پرپانی ڈالا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ اورتابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قئی اورنکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا)ہے۔ اوریہی سفیان ثوری، ابن مبارک ، احمد ،اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے ۱؎ اوربعض اہل علم نے کہاہے کہ قئی اورنکسیرسے وضونہیں ٹوٹتا یہ مالک اورشافعی کا قول ہے ۲؎ ، ۲- حدیث کے طرق کوذکرکرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دوباتوں پرموقوف ہے: ایک یہ کہ : حدیث میں لفظ یوں ہو '' قاء فتوضأ '' (قیٔ کی تو وضو کیا) جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں ''قاء فأفطر'' (قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا) ہے '' فأفطر'' کے بعد بھی ''فتوضأ'' کا لفظ نہیں ہے، یااسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے ، یعنی '' قاء فأفطرفتوضأ'' (یعنی قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا ) اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا،کیوں کہ ایسا ہوتا ہے کہ قیٔ کے بعد آدمی کمزور ہوجاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طورپر وضو کرلیتا ہے، اور رسو ل اللہﷺ تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ ﷺ کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر ''قاء فتوضأ '' کا لفظ ہی محفوظ ہوتو '' فتوضأ'' کی فاء سبب کے لیے ہو ، یعنی یہ ہوا کہ '' قیٔ کی اس لیے وضو کیا'' اور یہ بات متعین نہیں ہے ، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ '' قیٔ کی اور اس کے بعد وضو کیا''۔
وضاحت ۲؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکرکیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آکرلگااور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی صلاۃ جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اورسجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس صلاۃکا علم نبی اکرم ﷺکو یقینا رہاہوگا کیو نکہ اس کی یہ صلاۃ بحالت پہردہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے اسے دیا تھا، اس کے باوجودآپ نے اسے وضوکرنے اورصلاۃکے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ بِالنَّبِيذِ
۶۵-باب: نبیذ سے وضو کرنے کا بیان​


88- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلَنِي النَّبِيُّ ﷺ: "مَا فِي إِدَاوَتِكَ؟" فَقُلْتُ: نَبِيذٌ، فَقَالَ: "تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَائٌ طَهُورٌ". قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَأَبُو زَيْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لاَتُعْرَفُ لَهُ رِوَايَةٌ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالنَّبِيذِ، مِنْهُمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ. وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَيُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ ابْتُلِيَ رَجُلٌ بِهَذَا فَتَوَضَّأَ بِالنَّبِيذِ وَتَيَمَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَوْلُ مَنْ يَقُولُ لاَ يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ: أَقْرَبُ إِلَى الْكِتَابِ وَأَشْبَهُ، لأَنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَائً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا}.
* تخريج: د/الطہارۃ ۴۲ (۸۴)، ق/الطہارۃ ۳۷ (۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۳)، حم (۱/۴۰۲) (ضعیف)
(سندمیں ابو زید مجہول راوی ہیں۔)
۸۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے پوچھا: تمہارے مشکیزے میں کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: نبیذ ہے ۱؎ ، آپ نے فرمایا: ''کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے'' تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوزید محدّثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اورروایت ان سے جانی نہیں جاتی، ۲-بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائزہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں،بعض اہل علم نے کہاہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں ۲؎ یہ شافعی ،احمداوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگرکسی آدمی کو یہی کرنا پڑجائے تو وہ نبیذ سے وضو کرکے تیمم کرلے، یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے،۳- جولوگ نبیذسے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اورزیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰنے فرمایا ہے:{ فَلَمْ تَجِدُواْ مَائً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا}(النساء:43) (جب تم پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سے تیمم کرلو)پوری آیت یوں ہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّىَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىَ تَغْتَسِلُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مِّنكُم مِّن الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا}.
وضاحت ۱؎ : نبیذایک مشروب ہے جو کھجور، کشمش ، شہدگیہوں اورجَووغیرہ سے بنایاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یہی جمہورعلما کا قول ہے، اوران کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا}( سورة النساء:43) توجب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کرلیناچاہئے، اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جواستدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66- بَاب فِي الْمَضْمَضَةِ مِنْ اللَّبَنِ
۶۶-باب: دودھ پینے پر کر کلی کرنے کا بیان​


89-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ شَرِبَ لَبَنًا فَدَعَا بِمَائٍ فَمَضْمَضَ، وَقَالَ: إِنَّ لَهُ دَسَمًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةَ مِنْ اللَّبَنِ، وَهَذَا عِنْدَنَا عَلَى الاسْتِحْبَابِ. وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ الْمَضْمَضَةَ مِنْ اللَّبَنِ.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۲ (۲۱۱)، والأشربۃ ۱۲ (۵۶۰۹)، م/الطہارۃ ۲۴ (۳۵۸)، د/الطہارۃ ۷۷ (۱۹۶)، ن/الطہارۃ ۲۵ (۱۸۷)، ق/الطہارۃ ۶۸ (۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۳)، حم (۱/۲۲۳، ۲۲۷، ۳۲۹، ۳۳۷، ۳۷۳) (صحیح)
۸۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیاتوپانی منگواکر کلی کی اورفرمایا:'' اس میں چکنائی ہوتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سہل بن سعد ساعدی ، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے ، اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ۱؎ ہے۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت (رقم ۴۹۸) میں''مضمضوا من اللبن''امرکے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے، اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ یہ اس صور ت میں ہے جب استحباب پرمحمول کرنے کی کوئی دلیل موجودنہ ہو اور یہاں استحباب پرمحمول کئے جانے کی دلیل موجودہے کیو نکہ ابوداود نے (برقم ۱۹۶) انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیاتو نہ کلی کی اور نہ وضوہی کیا، اس کی سند حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب فِي كَرَاهَةِ رَدِّ السَّلاَمِ غَيْرَ مُتَوَضِّئٍ
۶۷-باب: بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان​


90- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يَبُولُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا يُكْرَهُ هَذَا عِنْدَنَا إِذَا كَانَ عَلَى الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَلِكَ. وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ.
* تخريج: م/الحیض۲۸ (۳۷۰)، د/الطہارۃ ۸ (۱۶)، ن/الطہارۃ ۳۳ (۳۷)، ق/الطہارۃ ۲۷ (۳۵۳)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۷۲۰ (تحفۃ الأشراف: ۷۶۹۶) (حسن صحیح)
۹۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا،آپ پیشاب کررہے تھے، توآپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یاپیشاب کررہاہو،بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیرکی ہے ۱؎ ، ۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جواس باب میں روایت کی گئی ہے،۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء ، جابر اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی راجح ہے کہ آپﷺ پیشاب کی حالت میں ہو نے کی وجہ سے جواب نہیں دیا، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کاجواب جائزنہیں، اورجن حدیثوں میں ہے کہ ''نبی اکرم ﷺنے فراغت کے بعد وضو کیااور پھر آپ نے جواب دیا''تویہ استحباب پر محمول ہے ، نیز یہ بات آپ کو خاص طورپر پسندتھی کہ آپ اللہ کا نام بغیرطہارت کے نہیں لیتے تھے ، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پرسلام ہی نہیں کرناچاہئے ، یہ حکم وجوبی ہے۔
 
Top