- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
36-باب
۳۶- باب
2477- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الإِسْلاَمِ لاَ يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلاَ مَالٍ، وَاللهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنْ كُنْتُ لأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنْ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمْ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، فَمَرَّ بِي أَبُوبَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلاَّ لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلاَّ لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ!" قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "الْحَقْ"، وَمَضَى، فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، فَاسْتَأْذَنْتُ، فَأَذِنَ لِي، فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، فَقَالَ: "مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ؟" قِيلَ: أَهْدَاهُ لَنَا فُلاَنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَبَا هُرَيْرَةَ!" قُلْتُ: لَبَّيْكَ، فَقَالَ: "الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ، فَادْعُهُمْ "، وَهُمْ أَضْيَافُ الإِسْلاَمِ، لاَ يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلاَمَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَائَنِي ذَلِكَ، وَقُلْتُ: مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَارَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ، وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ، فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، فَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ! خُذْ الْقَدَحَ، وَأَعْطِهِمْ" فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ، فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّهُ فَأُنَاوِلُهُ الآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْقَدَحَ، فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَتَبَسَّمَ، فَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ" فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ: "اشْرَبْ" فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ، وَيَقُولُ: "اشْرَبْ" حَتَّى قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، فَأَخَذَ الْقَدَحَ، فَحَمِدَ اللهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۴ (۶۲۴۶) (مختصرا) والرقاق ۱۷ (۶۴۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۴۴) (صحیح)
۲۴۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل وعیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھرباندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزر گاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر گزرے تومیں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔
پھر ابوالقاسم ﷺ کا گزر ہوا توآپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا:'' ابوہریرہ !'' میں نے کہا : حاضر ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' ساتھ چلو اورآپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہولیا،آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی ، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا:'' یہ دودھ کہاں سے ملا؟ عرض کیاگیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجاہے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ابوہریرہ!'' میں نے کہا: حاضر ہوں ، آپ نے فرمایا:'' جاؤ اہل صفہ کو بلالاؤ ''، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھر بار تھا نہ کوئی مال ، آپ ﷺ کے پاس جب کوئی صدقہ آتاتھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلابھیجتے ، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے ، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے ددوھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گذرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ ﷺ مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جوکچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالاں کہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کا فی ہوجائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلالایا ، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اوراپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا:'' ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دیدو'' ، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کودینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہوجاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا ، ساری قوم سیر ہوچکی تھی (یاسب لوگ سیرہوچکے تھے) پھر آپ ﷺ نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکراکرفرمایا:'' ابوہریرہ! یہ دودھ پیو'' ، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا:'' اسے پیو'' میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجاہے اب میں پینے کی گنجا ئش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دددھ پیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جو لوگ اہل وعیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھاجائے، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیے، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہوکر کھانا پینابھی جائز ہے۔