• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
46-باب
۴۶-باب​


2490- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَيْدٍ التَّغْلَبِيِّ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَصَافَحَهُ، لاَ يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ، وَلاَ يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُهُ، وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُكْبَتَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الأدب ۲۱ (۳۷۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۸۴۱) (ضعیف)
(سندمیں زید العمی ضعیف راوی ہیں، مگر مصافحہ والا ٹکڑا دیگر احادیث سے ثابت ہے)
۲۴۹۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا ، اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے ، جب تک کہ وہ خوداپنا رخ نہ پھیر لیتا، اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
47-باب
۴۷-باب​


2491- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "خَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فِي حُلَّةٍ لَهُ يَخْتَالُ فِيهَا، فَأَمَرَ اللهُ الأَرْضَ، فَأَخَذَتْهُ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا - أَوْ قَالَ: يَتَلَجْلَجُ فِيهَا - إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶۴۳) (صحیح)
۲۴۹۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم سے اگلی امتوں میں سے ایک شخص ایک جوڑا پہن کر اس میں اتراتا ہوا نکلا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا اور زمین نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا، پس وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلاجارہاہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ اللہ کی عطاکردہ نعمت کا شکر گزار ہونا چاہیے، خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہوکر اپنی حیثیت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔


2492- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ، يَغْشَاهُمْ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، فَيُسَاقُونَ إِلَى سِجْنٍ فِي جَهَنَّمَ يُسَمَّى بُولَسَ، تَعْلُوهُمْ نَارُ الأَنْيَارِ، يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِينَةَ الْخَبَالِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۰۰) (حسن)
۲۴۹۲- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' متکبر(گھمنڈکرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایاجائے گا، انہیں ہرجگہ ذلت ڈھانپے رہے گی ، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام بولس ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے طینۃ الخبال کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
48- باب
۴۸-باب​


2493- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللهُ عَلَى رُئُوسِ الْخَلاَئِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَائَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۰۲۱ (صحیح)
۲۴۹۳- معاذبن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے غصہ پر قابو پالیا اس حال میں کہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا ،تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گاکہ وہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کرلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2494- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغِفَارِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ سَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَأَدْخَلَهُ جَنَّتَهُ: رِفْقٌ بِالضَّعِيفِ، وَشَفَقَةٌ عَلَى الْوَالِدَيْنِ، وَإِحْسَانٌ إِلَى الْمَمْلُوكِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْمُنْكَدِرِ هُوَ أَخُو مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۶) (موضوع)
(سندمیں عبد اللہ بن ابراہیم کذاب، اور اس کا باپ مجہول راوی ہے)
۲۴۹۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تین خصلتیں ایسی ہیں کہ یہ جس کے اندر پائی جائیں تو قیامت کے روز اللہ اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے گا، اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ (أ) ضعیفوں کے ساتھ نرم برتاؤکرے (ب) ماں باپ کے ساتھ شفقت ومحبت کابرتاؤ کرے ،(ج) لونڈیوں اور غلاموں پر احسان کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2495- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: يَاعِبَادِي! كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ هَدَيْتُهُ، فَسَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلاَّ مَنْ أَغْنَيْتُ فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ، وَكُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلاَّ مَنْ عَافَيْتُ، فَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَهُ، وَلاَ أُبَالِي وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ، اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا زَادَ ذَلِك فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْكُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي إِلاَّ كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيهِ إِبْرَةً ثُمَّ رَفَعَهَا إِلَيْهِ، ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيدُ، عَطَائِي كَلاَمٌ وَعَذَابِي كَلاَمٌ، إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيْئٍ إِذَا أَرَدْتُهُ أَنْ أَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ مَعْدِي كَرِبَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۰ ۴۲۵۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۶۴) (ضعیف)
(اس سیاق سے یہ حدیث ضعیف ہے ، سندمیں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں راوی ضعیف ہیں، لیکن اس کے اکثر حصے صحیح مسلم میں موجود ہیں۔)
۲۴۹۵- ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو،سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ،اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت مانگومیں تمہیں ہدایت دوں گا ، اور تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جسے میں غنی (مالدار) کردوں، اس لیے تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں رزق دوں گا، اور تم سب گنہگار ہو، سوائے اس کے جسے میں عافیت دوں سو جسے یہ معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں پھروہ مجھ سے مغفرت چاہتا ہے تو میں اسے معاف کردیتاہوں، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تمہارے اگلے اور پچھلے ، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار بندے کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر اضافہ نہ ہوگا، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے ، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ شقی وبدبخت کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابرکمی نہ ہوگی، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے ، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب ایک ہی زمین پر جمع ہوجائیں اور تم میں سے ہر انسان مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں اور میں تم میں سے ہرسائل کودیدوں توبھی میری سلطنت میں کچھ بھی فرق واقع نہ ہوگا مگر اتناہی کہ تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے سے گزرے اوراس میں ایک سوئی ڈبو کرنکال لے ،اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ،بزرگ ہوں، جوچاہتاہوں کرتاہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا، اور میرا عذاب صرف کہہ دینا ہے، کسی چیز کے لیے جب میںچاہتاہوں تو میرا حکم یہی ہے کہ میں کہتاہوں ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو بطریق: ''شهر بن حوشب، عن معدي كرب، عن أبي ذر، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے۔


2496- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّازِيِّ، عَنْ سَعْدٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلاَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكَثَرَ مِنْ ذَلِكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "كَانَ الْكِفْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ يَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَهُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَأَعْطَاهَا سِتِّينَ دِينَارًا عَلَى أَنْ يَطَأَهَا، فَلَمَّا قَعَدَ مِنْهَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنْ امْرَأَتِهِ أَرْعَدَتْ وَبَكَتْ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ أَأَكْرَهْتُكِ؟ قَالَتْ: لاَ وَلَكِنَّهُ عَمَلٌ مَا عَمِلْتُهُ قَطُّ، وَمَا حَمَلَنِي عَلَيْهِ إِلاَّ الْحَاجَةُ، فَقَالَ: تَفْعَلِينَ أَنْتِ هَذَا وَمَا فَعَلْتِهِ، اذْهَبِي، فَهِيَ لَكِ، وَقَالَ: لاَ وَاللهِ! لاَ أَعْصِي اللهَ بَعْدَهَا أَبَدًا، فَمَاتَ مِنْ لَيْلَتِهِ، فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ إِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْلِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَدْ رَوَاهُ شَيْبَانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا، وَرَفَعُوهُ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ الأعْمَشِ، فَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الأَعْمَشِ، فَأَخْطَأَ فِيهِ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِاللهِ الرَّازِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ، وَكَانَتْ جَدَّتُهُ سُرِّيَّةً لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَرَوَى عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ الرَّازِيِّ عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۰۴۹)، وانظر حم (۳/۲۳) (ضعیف)
(سندمیں سعد مولی طلحہ مجہول ہے، نیز اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفۃ رقم: ۴۰۸۳)
۲۴۹۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اگرمیں نے اسے ایک یا دو بار سنی ہوتی یہاں تک کہ سات مرتبہ گنا تو میں اسے تم سے بیان نہ کرتا ، لیکن میں نے اسے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے، آپ ﷺ فرمارہے تھے: ''بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ کے کرنے سے پرہیز نہیں کرتاتھا، چنانچہ اس کے پاس ایک عورت آئی، اس نے اسے ساٹھ دینار اس لیے دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا، لیکن جب وہ اس کے آگے بیٹھا جیساکہ مرد اپنی بیوی کے آگے بیٹھتا ہے تووہ کانپ اٹھی اور رونے لگی، اس شخص نے پوچھا: تم کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟ وہ بولی: نہیں ، لیکن آج میں وہ کام کررہی ہوں جومیں نے کبھی نہیں کیا اور اس کام کے کرنے پر مجھے سخت ضرورت نے مجبور کیا ہے، چنانچہ اس نے کہا: تم ایسا غلط کام کرنے جارہی ہے جسے تم نے کبھی نہیں کیا، اس لیے تم جاؤ، وہ سب دینار بھی تمہارے لیے ہیں، پھر اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا، پھر اسی رات میں اس کا انتقا ل ہوگیا، چنانچہ صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہواتھا'' بے شک اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اسے شیبان اور دیگر لوگوں نے اعمش سے اسی طرح مرفوعا ً روایت کیا ہے، اوربعض لوگوں نے اسے اعمش سے غیر مرفوع روایت کیاہے، ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے لیکن اس میں غلطی کی ہے، اور''عن عبدالله بن عبدالله، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر'' کہاہے جو کہ غیر محفوظ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
49-باب
۴۹-باب​


2497- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثَيْنِ أَحَدِهِمَا، عَنْ نَفْسِهِ، وَالآخَرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "عَبْدُاللهِ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ فِي أَصْلِ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ وَقَعَ عَلَى أَنْفِهِ، قَالَ بِهِ هَكَذَا فَطَارَ".
* تخريج: خ/الدعوات ۴ (۶۳۰۸)، م/التوبۃ ۱ (۲۷۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۰) (صحیح)
۲۴۹۷- حارث بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دوحدیثیں بیان کیں ، ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (یعنی ایک موقوف اور دوسری مرفوع) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: مومن اپنے گناہ کو ایسادیکھتا ہے گویاوہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ڈرتاہے کہ اس پر وہ گر نہ پڑے ۱؎ ، اور فاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کے مانند دیکھتاہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ اڑگئی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے عذاب الٰہی کا پہاڑاپنے سامنے نظر آتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ایک فاجر شخص اپنے گناہ کے سلسلہ میں بے خوف ہوتاہے اور اس کی نگاہ میں اس گناہ کی کوئی اہمیت نہیں، نہ ہی اسے اس پر کوئی افسوس ہوتاہے بلکہ اس کی حیثیت اس مکھی کی طرح ہے جوناک پر بیٹھی ہو اور ہاتھ کے اشارہ سے بھاگ جائے، اسی طرح اس کے عقل و فہم میں اس گناہ کا کوئی تصور باقی نہیں رہتایہ ابن مسعودکی موقوف روایت ہے، (مرفوع کا ذکر آگے ہے)


2498- و قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَلّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ رَجُلٍ بِأَرْضِ فَلاَةٍ دَوِيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَا يُصْلِحُهُ فَأَضَلَّهَا، فَخَرَجَ فِي طَلَبِهَا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي الَّذِي أَضْلَلْتُهَا فِيهِ، فَأَمُوتُ فِيهِ، فَرَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، فَاسْتَيْقَظَ، فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَ رَأْسِهِ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَايُصْلِحُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۴۹۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یقینااللہ تم میں سے ایک شخص کی توبہ پر اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتاہے جو کسی بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا توشہ ، کھانا پانی اور دیگر ضرورتوں کی چیز رکھی ہوئی ہے، پھر اس کی اونٹنی کھوجاتی ہے اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتاہے، یہاں تک کہ جب وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتاہے تو وہ سوچتا ہے: میں اسی جگہ لوٹ جاؤں جہاں سے میری اونٹنی کھوگئی تھی، اور وہیں مرجاؤں چنانچہ وہ لوٹ کر اسی جگہ پہنچتا ہے، اور اس پر نیند طاری ہوجاتی ہے، پھر جب بیدار ہوتاہے تو کیادیکھتاہے کہ اس کی اونٹنی اس کے سرکے پاس موجود ہے اس پر اس کا کھاناپانی اورحاجت کی چیز بھی موجود ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، نعمان بن بشیر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔


2499- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ مَسْعَدَةَ عَنْ قَتَادَةَ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۹ (۴۲۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۵) (حسن)
۲۴۹۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم صرف علی بن مسعدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
50-باب
۵۰-باب​


2500- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ الْكَعْبِيِّ الْخُزَاعِيِّ وَاسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۸)، م/الإیمان ۱۹ (۱۴)، ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۲)، وحم (۲/۲۶۷، ۲۶۹، ۴۳۳، ۴۶۳) (صحیح)
۲۵۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جوشخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتا ہوتو اسے چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ، انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔


2501- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ صَمَتَ نَجَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَأَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ هُوَ عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۸۶۱)، وانظر: حم (۲/۱۵۹، ۱۷۷)، ودي/الرقاق ۵ (۳۷۵۵) (صحیح)
۲۵۰۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو خاموش رہا اس نے نجات پائی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : خاموشی آدمی کے لیے سکون اور آخرت کے لیے نجات کا ذریعہ ہے، کیوں کہ لوگوں سے زیادہ میل جول اور ان سے گپ شپ کرنایہ دین کے لیے باعث خطرہ ہے، اس لیے اپنے فاضل اوقات کو ذکرواذکار اور تلاوت قرآن میں صرف کرنا زیادہ بہتر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
51-باب
۵۱-باب​


2502- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: حَكَيْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ رَجُلاً فَقَالَ: "مَا يَسُرُّنِي أَنِّي حَكَيْتُ رَجُلاً وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا" قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ صَفِيَّةَ امْرَأَةٌ، وَقَالَتْ: بِيَدِهَا هَكَذَا، كَأَنَّهَا تَعْنِي قَصِيرَةً، فَقَالَ: "لَقَدْ مَزَجْتِ بِكَلِمَةٍ لَوْ مَزَجْتِ بِهَا مَائَ الْبَحْرِ لَمُزِجَ".
* تخريج: د/الأدب ۴۰ (۴۸۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۲)، وحم (۶/۱۸۹) (صحیح)
۲۵۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا:'' مجھے یہ پسندنہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے'' ۔میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! بے شک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا،گویایہ مرادلے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قدہیں ۔ آپ نے فرمایا:''بے شک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندرکے پانی میں ملادیا جائے تواس کارنگ بدل جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے، اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔


2503- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حُذَيْفَةَ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَيُقَالُ اسْمُهُ سَلَمَةُ بْنُ صُهَيْبَةَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۵۰۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں یہ نہیں پسند کرتاکہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
52-باب
۵۲-باب​


2504- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
* تخريج: خ/الإیمان ۵ (۱۱)، م/الإیمان ۱۴ (۴۲)، ن/الإیمان ۱۱ (۵۰۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۴۱) (صحیح)
۲۵۰۴- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھاکیاگیا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوموسیٰ کی روایت سے اس سند سے صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : زبان سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کسی مسلمان کی طعن وتشنیع ، غیبت چغلخوری ، بہتان تراشی نہ کرے، نہ ہی اسے گالی گلوج دے، اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے نہ کسی کو مارے، نہ قتل کرے، نہ ناحق کسی کی کوئی چیز توڑے، اور نہ ہی باطل افکار پر مشتمل کوئی تحریر لکھے جس سے کہ لوگ گمراہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
53-باب
۵۳-باب​


2505- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ ثَوْرِ ابْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ" قَالَ أَحْمَدُ مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَرُوِيَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّهُ أَدْرَكَ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَاتَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي خِلاَفَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ رَوَى عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۰) (موضوع)
(خالد بن معدان کا سماع معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن حسن کذاب راوی ہے، اسی نے یہ حدیث گھڑی ہوگی مگر سند متصل نہ کرسکا)
۲۵۰۵- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے اپنے کسی دینی بھائی کو کسی گناہ پرعار دلایا تو اس کی موت نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہوجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس کی سندمتصل نہیں ہے، اور خالد بن معدان کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں ہے، خالد بن معدان سے مروی ہے کہ انہوں نے ستر صحابہ سے ملاقات کی ہے، اور معاذ بن جبل کی وفات عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی، اور خالد بن معدان نے معاذ کے کئی شاگردوں کے واسطہ سے معاذ سے کئی حدیثیں روایت کی ہے،۳- احمد بن منیع نے کہا: اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ شخص توبہ کرچکا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
54-باب
۵۴-باب​


2506- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ح قَالَ: و أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَذَّائُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تُظْهِرْ الشَّمَاتَةَ لأَخِيكَ، فَيَرْحَمَهُ اللهُ وَيَبْتَلِيكَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمَكْحُولٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ، وَيُقَالُ: إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ هَؤُلاَئِ الثَّلاَثَةِ، وَمَكْحُولٌ شَامِيٌّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِاللهِ، وَكَانَ عَبْدًا فَأُعْتِقَ، وَمَكْحُولٌ الأَزْدِيُّ بَصْرِيٌّ، سَمِعَ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، يَرْوِي عَنْهُ عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ.
2506/م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ: كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ مَكْحُولاً يُسْئِلُ، فَيَقُولُ: نَدَانَمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۹) (ضعیف)
(سندمیں حفص بن غیاث اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے)
۲۵۰۶- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اپنے بھائی کے ساتھ شماتت اعداء نہ کرو، ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اورتمہیں آزمائش میں ڈال دے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- مکحول کا سماع واثلہ بن اسقع ، انس بن مالک اور ابوھند داری سے ثابت ہے، اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ان کا سماع ان تینوں صحابہ کے علاوہ کسی سے ثابت نہیں ہے، ۳- یہ مکحول شامی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، یہ ایک غلام تھے بعد میں انہیں آزاد کردیاگیا تھا، ۴- اور ایک مکحول ازدی بصری بھی ہیں ان کا سماع عبداللہ بن عمر سے ثابت ہے ان سے عمارہ بن زاذان روایت کرتے ہیں۔
۲۵۰۶/م- اس سند سے مکحول شامی کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ ندانم (میں نہیں جانتا) کہتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
55-باب
۵۵-باب​


2507- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُسْلِمِ الَّذِي لاَيُخَالِطُ النَّاسَ وَلاَ يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ كَانَ شُعْبَةُ يَرَى أَنَّهُ ابْنُ عُمَرَ.
* تخريج: ق/الفتن ۲۳ (۴۰۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۵) (صحیح)
۲۵۰۷- یحییٰ بن وثاب نے ایک بزرگ صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جومسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی عدی نے کہا: شعبہ کاخیال ہے کہ شیخ صحابی(بزرگ صحابی) سے مراد ابن عمر ہیں۔
وضاحت ۱؎ : گویا لوگوں کے درمیان رہ کر جمعہ، جماعت ، نیکی و بھلائی کے کام اورمجالس خیر میں شریک رہنا، ضرورت مندوں کی خبرگیری ، مریضوں کی عیادت اور لوگوں کے دیگر مصالح کے لیے ان سے رابطہ و ضبط رکھنا، اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اور ان سے پہنچنے والی تکالیف و ایذاء پر صبر کرے تو اس سے بہتر مسلمان کوئی نہیں ہے۔
 
Top