• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56-باب
۵۶-باب​


2508- حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَسُوئَ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّهَا الْحَالِقَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَسُوئَ ذَاتِ الْبَيْنِ، إِنَّمَا يَعْنِي الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَائَ، وَقَوْلُهُ الْحَالِقَةُ يَقُولُ إِنَّهَا تَحْلِقُ الدِّينَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۹۸) (حسن)
۲۵۰۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آپسی پھوٹ اوربغض و عداوت کی برائی سے اجتناب کرو کیوں کہ یہ (دین کو) مونڈ نے والی ہے ۱؎ ، آپسی پھوٹ کی برائی سے مراد آپس کی عداوت اور بغض وحسد ہے اور ''الحالقة '' مونڈنے والی سے مراد دین کو مونڈنے والی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ا س حدیث سے معلوم ہواکہ آپسی بغض وعداوت اور انتشار و افتراق سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ اس سے نہ یہ کہ صرف دنیا تباہ ہوتی ہے بلکہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہتاہے۔


2509- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّدَقَةِ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ: "صَلاَحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "هِيَ الْحَالِقَةُ لاَأَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ".
* تخريج: د/الأدب ۵۸ (۴۹۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۸۱)، وحم (۶/۴۴۴) (صحیح)
۲۵۰۹- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جودرجہ میں صلاۃ ، صوم اور صدقہ سے بھی افضل ہے، صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ ضرور بتایئے'' ، آپ نے فرمایا: ''وہ آپس میں میل جول کرادینا ہے ۱؎ اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈنے والی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' یہی چیز مونڈنے والی ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ سرکا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین کو مونڈ نے والی ہے''۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ آپس میں میل جول کرادینا یہ نفلی عبادت سے افضل ہے، کیوں کہ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ نے اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار کے نہ ہونے کا ذریعہ ہے، جب کہ آپسی رنجش و عداوت دینی بگاڑ کی جڑہے۔


2510- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ - أَنَّ مَوْلَى الزُّبَيْرِ - حَدَّثَهُ أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "دَبَّ إِلَيْكُمْ دَائُ الأُمَمِ قَبْلَكُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَائُ هِيَ الْحَالِقَةُ، لاَ أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ، وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَتَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِمَا يُثَبِّتُ ذَاكُمْ لَكُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۶۴۸) (حسن)
( سندمیں مولی الزبیر مبہم راوی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، صحیح الترغیب والترہیب ۲۶۹۵)
۲۵۱۰- زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اوربغض کی بیماری ہے، یہ مونڈنے والی ہے، میں یہنہیں کہتا کہ سرکا بال مونڈ نے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو: تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یحییٰ بن ابی کثیر سے اس حدیث کے روایت کرنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث :''عن يحيى بن أبي كثير، عن يعيش بن الوليد، عن مولى الزبير، عن النبي ﷺ' ' کی سند سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اس میں زبیرکے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-باب
۵۷-باب​


2511- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأدب ۵۱ (۴۹۰۲)، ق/الزہد ۲۳ (۴۲۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۹۳)، وحم (۵/۳۸) (صحیح)
۲۵۱۱- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھاجائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-باب
۵۸-باب​


2512- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيهِ لَمْ يَكْتُبْهُ اللهُ شَاكِرًا وَلاَصَابِرًا: مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللهَ عَلَى مَافَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ كَتَبَهُ اللهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ، وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ يَكْتُبْهُ اللهُ شَاكِرًا وَلاَصَابِرًا".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۸) (ضعیف) (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں، ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے، اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اگلی سندمیں عن أبیہ کا ذکر ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفۃ ۶۳۳، ۱۹۲۴)
2512/م- أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَمْ يَذْكُرْ سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
(تحفۃ الأشراف میں ترمذی کا قول ''حسن غریب ''موجود نہیں ہے)
۲۵۱۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:'' دوخصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابرو شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا ،پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پرعمل کرنے والے کودیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیاکے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پرنظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا ،تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا'' ۱؎ ۔
۲۵۱۲/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- سوید بن نصر نے اپنی سند میں ''عن أبيه'' کا ذکر نہیں کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیے، تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو، اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں، اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔


2513- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلاَ تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لاَ تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ".
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۶۳/۹)، ق/الزہد ۹ (۴۱۴۲)، وراجع أیضا: خ/الرقاق ۳۰ (۶۴۹۰)، وم/الزہد (۲۹۶۳/۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۷، و۱۲۵۱۴)، وحم (۲/۲۵۴، ۴۸۲) (صحیح)
۲۵۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیا وی اعتبار سے تم سے کم ترہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59-باب
۵۹-باب​


2514- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَالَ: ح و حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الأُسَيِّدِيِّ - وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ ﷺ - أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ! نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ، فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَوَاللهِ! إِنَّا لَكَذَلِكَ، انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَانْطَلَقْنَا، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ!" قَالَ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَارَسُولَ اللهِ! نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ، فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلاَئِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَاحَنْظَلَةُ! سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۵۲، ۲۵۱۴ (صحیح)
(اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: ۲۵۲۶)
۲۵۱۴- حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم ﷺ کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)، وہ کہتے ہیں: میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزراتو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہوگیاہے(بات یہ ہے )کہ جب ہم رسول اللہ ﷺکے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اورجنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،لیکن جب ہم دنیا وی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا:'' حنظلہ! تمہیں کیا ہوگیاہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہوگیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اورجنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیا وی کاروبار اوراپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے '' ۱؎؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقوی کا ذکر ہے، معلوم ہواکہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، بلکہ اس میں تغیر ہوتارہتاہے، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیے، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پرنہیں محمول کرنا چاہیے، کیوں کہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتا فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔


2515- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ قَالَ".
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۷ (۱۳)، م/الإیمان ۱۷ (۴۵)، ن/الإیمان ۱۹ (۵۰۱۹)، ۳۳ (۵۰۴۲)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹) (صحیح)
۲۵۱۵- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ انپے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتاہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیر خواہ ہونا چاہیے، اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت ، بددیانتی ، جعل سازی، لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کر نا ہوگا، إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہوجائیں گی، ورنہ ذلت اوربد اخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔


2516- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ: ح و حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَوْمًا، فَقَالَ: "يَا غُلاَمُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظْ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْئٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْئٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْئٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْئٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الأَقْلامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۱۵)، وانظر: حم ۱/۲۹۳، ۳۰۳) (صحیح)
۲۵۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:'' اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگناشرک ہے،نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60-باب
۶۰-باب​


2517- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ؟ قَالَ: "اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ".
قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ: قَالَ يَحْيَى: وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۲) (حسن)
۲۵۱۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پرتوکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا:'' اسے باندھ دو ،پھر توکل کرو''۔
عمرو بن علی الفلاس کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے کہاکہ ہمارے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث انس کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
۲- اسی طرح سے یہ حدیث عمرو بن امیہ ضمری کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔


2518- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَائِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ: "دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَالاَيَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ" وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ: وَأَبُو الْحَوْرَائِ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الأشربۃ ۵۰ (۵۷۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۵)، وحم (۱/۲۰۰) (صحیح)
2518/م- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۵۱۸- ابوالحوراء شیبان سعدی کہتے ہیں: میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا چیز یاد کی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد کیا ہے کہ'' اس چیز کو چھوڑ دو جوتمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جوتمہیں شک میں نہ ڈالے،سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے، اور جھوٹ دل کو بے قرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے '' ۱؎ ، اور اس حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابوالحوراء سعدی کانام ربیعہ بن شیبان ہے۔
۲۵۱۸/م- اس سند سے بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں سے اجتناب کرو، اور جس پر قلبی اطمینان ہو، اس پرعمل کرو، سچائی کو اپنا شعار بناؤ کیوں کہ اس سے قلبی اطمینان اور سکون حاصل ہوتاہے، جب کہ جھوٹ سے دل بے قرار اور پریشان رہتاہے۔


2519- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ نُبَيْهٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِعِبَادَةٍ وَاجْتِهَادٍ، وَذُكِرَ عِنْدَهُ آخَرُ بِرِعَةٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ يُعْدَلُ بِالرِّعَةِ" وَعَبْدُاللهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۷۸) (ضعیف)
(سندمیں محمد بن عبد الرحمن بن نبیہ مجہول راوی ہیں)
۲۵۱۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیاگیا جو عبادت وریاضت میں مشہور تھا اور ایک دوسرے شخص کا ذکر کیاگیا جو ورع و پرہیز گاری میں مشہور تھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی بھی عبادت ورع و پرہیز گاری کے برابر نہیں ہوسکتی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


2520- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَأَبُو زُرْعَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ مِقْلاَصٍ الصَّيْرَفِيِّ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَكَلَ طَيِّبًا وَعَمِلَ فِي سُنَّةٍ وَأَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ" فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ فِي النَّاسِ لَكَثِيرٌ، قَالَ: "وَسَيَكُونُ فِي قُرُونٍ بَعْدِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۷۲) (ضعیف)
(سندمیں ابوبشرمجہول راوی ہیں)


2520/م- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ ابْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بِشْرٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۲۵۲۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص حلال کھائے،سنت پر عمل کرے اور لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں، وہ جنت میں داخل ہوگا'' ، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے لوگ تو اس زمانے میں بہت پائے جاتے ہیں؟''، آپ نے فرمایا:'' ایسے لوگ میرے بعد کے زمانوں میں بھی ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کواسرائیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
۲۵۲۰/م- اس سند سے بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا وہ بھی یہ حدیث صرف اسرائیل ہی کی روایت سے جانتے تھے اور ابوبشر کانام انہیں معلوم نہیں تھا۔


2521- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَعْطَى لِلّهِ وَمَنَعَ لِلّهِ وَأَحَبَّ لِلّهِ وَأَبْغَضَ لِلّهِ وَأَنْكَحَ لِلّهِ فَقَدْ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۰۱)، وانظر حم (۳/۳۳۸، ۴۴۰) (حسن)
(امام ترمذی نے اسے منکر کہا ہے ،لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے ،ملاحظہ ہو : الصحیحۃ رقم: ۳۸۰)
۲۵۲۱- معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے اللہ کی رضاکے لیے دیا اور اللہ کی رضا کے لیے روکا اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی، اور اللہ کی رضا کے لیے عداوت ودشمنی کی اور اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا تو یقینا اس کا ایمان مکمل ہوگیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔


2522- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوْسَى، أخْبَرَنَا شَيْبَانٌ، عَنْ فَرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَاْلَ: "أوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَالثَّانِيَّةُ عَلَى لَوْنِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍ فِى السَّمَائِ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ عَلَى كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُوْنَ حُلَّةً يَبْدُوْ مُخُّ سَاقِهَا مِنَ وَرَائِهَا".
قَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأعادہ برقم ۲۵۳۵ (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۲) (صحیح)
( سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحۃ رقم : ۱۷۳۶)
۲۵۲۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' جنت میں جوپہلا گروہ داخل ہوگا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی صورت ہوں گے اور دوسرے گروہ کے چہرے اس بہتر روشن اور چمکدار ستارے کی طرح ہوں گے جو آسمان میں ہے، ان میں سے ہر شخص کو دو دو بیویاں ملیں گی،ہربیوی کے بدن پرلباس کے ستر جوڑے ہوں گے، پھربھی اس کی پنڈلی کا گودا باہر سے (گوشت کے پیچھے سے) دکھائی دے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

36-كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۶- کتاب: جنت کاوصف اور اس کی نعمتوں کاتذکرہ


1-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شَجَرِ الْجَنَّةِ
۱-باب: جنت کے درختوں کابیان​


2523- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجنۃ ۱ (۲۷۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۱۴) (صحیح)
۲۵۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سوبرس تک چلتا رہے (پھربھی اس کاسایہ ختم نہ ہوگا'')۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


2524- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ يَقْطَعُهَا، وَقَالَ ذَلِكَ الظِّلُّ الْمَمْدُودُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مَنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۱) (صحیح)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۲۵۲۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سوبرس تک چلتا رہے پھر بھی ان کا سایہ ختم نہ ہوگا''، نیز آپ نے فرمایا:'' یہی ظل ممدود ہے''(یعنی جس کا ذکر قرآن میں ہے)''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2525- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْفُرَاتِ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ إِلاَّ وَسَاقُهَا مِنْ ذَهَبٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱۸) (صحیح) (تراجع الالبانی ۳۷۹)
۲۵۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''جنت میں کوئی درخت ایسا نہیں ہے جس کا تنا سونے کانہ ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا
۲-باب: جنت کا وصف اوراس کی نعمتوں کابیان​


2526- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ زِيَادٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ! مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ رَقَّتْ قُلُوبُنَا وَزَهِدْنَا فِي الدُّنْيَا وَكُنَّا مِنْ أَهْلِ الآخِرَةِ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَآنَسْنَا أَهَالِينَا وَشَمَمْنَا أَوْلاَدَنَا أَنْكَرْنَا أَنْفُسَنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي كُنْتُمْ عَلَى حَالِكُمْ ذَلِكَ لَزَارَتْكُمْ الْمَلاَئِكَةُ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللهُ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ كَيْ يُذْنِبُوا، فَيَغْفِرَ لَهُمْ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! مِمَّ خُلِقَ الْخَلْقُ؟ قَالَ: "مِنَ الْمَائِ" قُلْنَا: الْجَنَّةُ مَا بِنَاؤُهَا؟ قَالَ: "لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَمِلاَطُهَا الْمِسْكُ الأَذْفَرُ، وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ، وَتُرْبَتُهَا الزَّعْفَرَانُ، مَنْ دَخَلَهَا يَنْعَمُ لاَ يَبْأَسُ وَيَخْلُدُ لاَيَمُوتُ لاَ تَبْلَى ثِيَابُهُمْ وَلاَ يَفْنَى شَبَابُهُمْ" ثُمَّ قَالَ: "ثَلاَثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: الإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَائِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ، وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَقَدْرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ بِإِسْنَادٍ آخَرَ عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۵) وانظر حم (۲/۳۰۴، ۳۰۵) (ضعیف)
(مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے ، سندمیں زیاد الطائی مجہول راوی ہے، جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے ،یعنی سند میں انقطاع ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی ، پھر ابومدلہ کی روایت کا ذکر کیا ، جو ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں، حافظ ابن حجر نے ابومدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہاہے، حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز ثلاث لا ترد...آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے(ضعیف الجامع ۲۵۹۲، والضعیفۃ ۱۳۵۹)، لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم (التوبۃ ۲ /۲۷۴۹) ، ترمذی (۲۵۱۴، ۲۴۵۲) ، ابن ماجہ (۴۲۳۶) اور مسند احمد (۴/۱۸۷، ۳۴۶) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبواکی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کرکے اس کی تصحیح کی ہے: الصحیحۃ رقم ۹۶۷، ۹۶۸، ۹۶۹، ۹۷۰ و ۱۹۵۰، ۱۹۵۱، ۱۹۶۵)اور الجنة بناؤها لبنة...ولا يفنى شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر۸۰۸۳)
۲۵۲۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آخرکیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں توہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اوران میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہواپاتے ہیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت وکیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کوپیدا کرے گا جو گناہ کریں گے ۱؎ ، پھر اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ آپ نے فرمایا:'' پانی سے'' ، ہم نے عرض کیا: جنت کس چیز سے بنی ہے؟ آپ نے فرمایا:'' ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اوراس کے کنکر موتی اور یاقوت کے ہیں، اورزعفران اس کی مٹی ہے، جو اس میں داخل ہوگاوہ عیش وآرام کرے گا، کبھی تکلیف نہیں پائے گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی، ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہوگی ''،پھر آپ نے فرمایا:''تین لوگوں کی دعائیں ردنہیں کی جاتیں : پہلا امام عادل ہے، دوسرا صائم جب وہ افطار کرے، اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بددعا کرتاہے، اللہ تعالیٰ (اس کی بددعاکو) بادل کے اوپر اٹھالیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگر چہ کچھ دیر ہی سہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور نہ ہی میرے نزدیک یہ متصل ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے ابومدلہ کے واسطہ سے بھی آئی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتاہے، لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کرکے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑ گڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے، بلکہ اس حدیث کا مقصد تو بہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ غُرَفِ الْجَنَّةِ
۳-باب: جنت کے کمروں کا بیان​


2527- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا"، فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: "هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلاَمَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّيَامَ وَصَلَّى لِلّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ الْقُرَشِيُّ مَدَنِيٌّ، وَهُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۹۸۴ (حسن لغیرہ)
( دیکھیے مذکورہ حدیث کے تحت اس پر بحث)
۲۵۲۷- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کابیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا۔ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' یہ اس کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے ، پابندی سے صوم رکھے اور جب لوگ سورہے ہوں تو اللہ کی رضا کے لیے رات میں صلاۃ پڑھے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲-بعض اہل علم نے عبدالرحمن بن اسحاق کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیاہے، یہ کوفی ہیں اور عبدالرحمن بن اسحاق جو قریشی ہیں وہ مدینہ کے رہنے والے ہیں اور یہ عبدالرحمن کوفی سے اثبت ہیں۔


2528- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ أَبُو عَبْدِالصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ جَنَّتَيْنِ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا مِنْ فِضَّةٍ وَجَنَّتَيْنِ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا مِنْ ذَهَبٍ، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلاَّ رِدَائُ الْكِبْرِيَائِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الرحمن ۱ (۴۸۷۸)، و ۲ (۴۸۸۰)، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۴)، م/الإیمان ۸۰ (۱۸۰)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۳۵)، وحم (۴/۴۱۱، ۴۱۶)، ودي/الرقاق ۱۰۱ (۲۸۶۴) (صحیح)
2528/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ دُرَّةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّونَ مِيلاً فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الآخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ الْمُؤْمِنُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَ يُعْرَفُ اسْمُهُ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ قَيْسٍ، وَأَبُو مَالِكٍ الأَشْعَرِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۵۲۸- ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' جنت میں دو ایسے باغ ہیں کہ جن کے برتن اور اس کی تمام چیزیں چاندی کی ہیں اور دو ایسے باغ ہیں جس کے برتن اور جس کی تمام چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف وہ کبریائی چادرحائل ہوگی جو اس کے چہرے پر ہے '' ۱؎ ۔
۲۵۲۸/م - ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں موتی کاایک لمبا چوڑا خیمہ ہے جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے۔ اس کے ہرگوشے میں مومن کے گھر والے ہوں گے، مومن ان پر گھومے گا تو (اندورونی ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے اس کبریائی والی چادر کو ہٹادے گا تو اہل جنت اپنے رب کے دیدار سے فیضیاب ہوں گے، اور جنت کی نعمتوں میں سے یہ ان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ دَرَجَاتِ الْجَنَّةِ
۴-باب: جنت کے درجات ومراتب کابیان​


2529- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَابَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۰۱) (صحیح)
۲۵۲۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جنت میں سودرجے ہیں، ہرایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان سوسال کافاصلہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2530- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَصَلَّى الصَّلَوَاتِ وَحَجَّ الْبَيْتَ - لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ الزَّكَاةَ أَمْ لاَ - إِلاَّ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ إِنْ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْ مَكَثَ بِأَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ بِهَا" قَالَ مُعَاذٌ: أَلاَ أُخْبِرُ بِهَذَا النَّاسَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ذَرِ النَّاسَ يَعْمَلُونَ فَإِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ مَابَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ، وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَى الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُهَا وَفَوْقَ ذَلِكَ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَعَطَائٌ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَمُعَاذٌ قَدِيمُ الْمَوْتِ مَاتَ فِي خِلاَفَةِ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۰۱) (صحیح)
۲۵۳۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے رمضان کے صیام رکھے، صلاتیں پڑھیں اور حج کیا (- عطاء بن یسار کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہمعاذ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں- ) تو اللہ تعالیٰ پریہ حق بنتا ہے کہ اس کوبخش دے اگرچہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اپنی پیدائشی سرزمین میں ٹھہرا رہے۔ معاذ نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں؟ ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لوگوں کو چھوڑدو، وہ عمل کرتے رہیں ، اس لیے کہ جنت میں سودرجے ہیں اور ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان اتناہی فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآسمان کے درمیان کا ،فردوس جنت کا اعلیٰ اور سب سے اچھا درجہ ہے ، اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں بہتی ہیں، لہذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : اسی طرح یہ حدیث '' عن هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار عن معاذ بن جبل'' کی سند سے مروی ہے، اور یہ میرے نزدیک ہمام کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے، جسے انہوں نے ''عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار عن عبادة بن الصامت''کی سند سے روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے)، عطاء نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا ہے (یعنی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے) اور معاذ بن جبل کی وفات (عبادہ بن صامت سے پہلے) عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی ہے۔


2531- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: " فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ الأَرْضِ وَالسَّمَائِ وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلاَهَا دَرَجَةً، وَمِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ الأَرْبَعَةُ وَمِنْ فَوْقِهَا يَكُونُ الْعَرْشُ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۱۰۴) (صحیح)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے حدیث نمبر(۲۵۳۰)
2531/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے حدیث نمبر(۲۵۳۰)
۲۵۳۱- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں سودرجے ہیں اور ہردو درجہ کے درمیان اتناہی فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، درجہ کے اعتبار سے فردوس اعلیٰ جنت ہے، اسی سے جنت کی چاروں نہریں بہتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش ہے، لہذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو''۔
۲۵۳۱/م- اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔


2532- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ لَوْ أَنَّ الْعَالَمِينَ اجْتَمَعُوا فِي إِحْدَاهُنَّ لَوَسِعَتْهُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۳) (ضعیف)
(سندمیں ابن لھیعہ اور دراج ابوالسمح ضعیف راوی ہیں)
۲۵۳۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جنت میں سودرجے ہیں، اگرسارے جہاں کے لوگ ایک ہی درجہ میں اکٹھے ہوجائیں تویہ ان سب کے لیے کافی ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب فِي صِفَةِ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
۵-باب: جنتیوں کی عورتوں کابیان​


2533- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَائِ، أَخْبَرَنَا عَبِيدَةُ ابْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ مِنْ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُرَى بَيَاضُ سَاقِهَا مِنْ وَرَائِ سَبْعِينَ حُلَّةً حَتَّى يُرَى مُخُّهَا وَذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ يَقُولُ: {كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ} فَأَمَّا الْيَاقُوتُ فَإِنَّهُ حَجَرٌ لَوْ أَدْخَلْتَ فِيهِ سِلْكًا ثُمَّ اسْتَصْفَيْتَهُ لأُرِيتَهُ مِنْ وَرَائِهِ".
2533/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۸) (ضعیف)
(اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے)
۲۵۳۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنتیوں کی عورتوں میں سے ہرعورت کے پنڈلی کی سفیدی ستر جوڑے کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گی، حتی کہ اس کا گودا بھی نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: { كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ} (گویا وہ یاقوت اور مونگے موتی ہیں)یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگر تم اس میں دھاگا ڈال دو پھر اسے صاف کرو تو وہ دھاگا تمہیں باہر سے نظر آجائے گا''۔
۲۵۳۳/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔


2534- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبِيدَةَ بْنِ حُمَيْدٍ، وَهَكَذَا رَوَى جَرِيرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
2534/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الأَحْوَصِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ أَصْحَابُ عَطَائٍ وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۵۳۴- اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اور اسے (ابوالاحوص نے) مرفوع نہیں کیا، یہ عبیدہ بن حمیدکی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح جریر اورکئی لوگوں نے عطاء بن سائب سے اسے غیر مرفوع روایت کی ہے۔
۲۵۳۴/م- ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے جریر نے عطا بن سائب سے ابوالا ٔحوص کی حدیث کی طرح بیان کیا، اور عطا کے (دیگر) شاگردوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ یہی زیادہ صحیح ہے۔


2535- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْئُ وُجُوهِهِمْ عَلَى مِثْلِ ضَوْئِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَالزُّمْرَةُ الثَّانِيَةُ عَلَى مِثْلِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَائِ، لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، عَلَى كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُونَ حُلَّةً يُرَى مُخُّ سَاقِهَا مِنْ وَرَائِهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۵۲۲ (صحیح)
( سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحۃ رقم : ۱۷۳۶)
۲۵۳۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کے چہرے کی روشنی چودہویں کے چاند کی روشنی کی طرح ہوگی اور دوسرا گروہ آسمان کے روشن اور سب سے خوبصورت ستارے کی طرح ہوگا، ان میں سے ہر آدمی کے لیے دو دو بیویاں ہوں گی اور ہر بیوی کے جسم پر ستر جوڑے کپڑے ہوں گے اور ان کے پنڈلی کا گودا ان کے کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2535/م- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَالثَّانِيَةُ عَلَى لَوْنِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَائِ، لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، عَلَى كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُونَ حُلَّةً يَبْدُو مُخُّ سَاقِهَا مِنْ وَرَائِهَا". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۵۲۲ (صحیح)
( سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحۃ رقم : ۱۷۳۶)
۲۵۳۵ /م- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جنت میں داخل ہونے والا پہلا گروہ چودہویں رات کی چاند کی طرح ہوگا، دوسرا گروہ آسمان میں چمکنے والے سب سے بہتر ستارہ کی طرح ہوگا، ہرجنتی کے لیے دوبیویاں ہوں گی، ہر بیوی کے جسم پر ستر جوڑے کپڑے ہوں گے، اس کے پنڈلی کا گودا ان کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 
Top