• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّفِّ الأَوَّلِ
۵۴- باب: پہلی صف کی فضیلت کا بیان​


224- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُبَيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يَسْتَغْفِرُ لِلصَّفِّ الأَوَّلِ ثَلاَثًا، وَلِلثَّانِي مَرَّةً.
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۴۰)، د/الصلاۃ ۹۸ (۶۷۸)، ن/الإمامۃ ۳۲ (۸۲۱)، ق/الإقامۃ ۵۲ (۱۰۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۱)، حم (۲/۲۴۷، ۳۳۶، ۳۴۰، ۳۶۶، ۴۸۵)، دي/الصلاۃ ۵۲ (۱۳۰۴) (صحیح)
۲۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے ۱؎ اور سب سے بری آخری صف اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری صف ۲؎ ہے اور سب سے بری پہلی صف '' ۳؎ ۔
ٍ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، ابن عباس ، ابوسعید ، ابی بن کعب، عائشہ،عرباض بن ساریہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار کرتے تھے اور دوسری کے لیے ایک بار۔
وضاحت ۱؎ : پہلی صف سے مرادوہ صف ہے جوامام سے متصل ہو ''سب سے بہترصف پہلی صف ہے''کامطلب یہ ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیروبھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے اس میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ امام سے براہ راست فائدہ اٹھاتے ہیں،تلاوت قرآن اورتکبیرات سنتے ہیں،اورعورتوں سے دوررہنے کی وجہ سے صلاۃ میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں اوربُرے خیالات سے محفوظ رہتے ہیں،اورآخری صف سب سے بُری صف ہے کامطلب یہ ہے کہ اس میں خیروبھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے، یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔
وضاحت ۲؎ : عورتوں کی سب سے آخری صف اس لیے بہترہے کہ یہ مردوں سے دورہوتی ہے جس کی وجہ سے اس صف میں شریک عورتیں شیطان کے وسوسوں اورفتنوں سے محفوظ رہتی ہیں۔
وضاحت۳؎ : یہ حکم اس صورت میں ہے جب مردوں ،عورتوں کی صفیں آگے پیچھے ہوں، اگرعورتیں مردوں سے الگ صلاۃپڑھ رہی ہوں تو ان کی پہلی صف ہی بہترہوگی۔


225- و قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"لَوْ أَنَّ النَّاسَ يَعْلَمُونَ مَا فِي النِّدَاءِ، وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلاَّ أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاَسْتَهَمُوا عَلَيْهِ". قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: خ/الأذان ۹ (۶۱۵)، و۳۲ (۶۵۴)، و۷۲ (۷۲۱)، والشہادات ۳۰ (۲۶۸۹)، م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۷)، ن/المراقبۃ ۲۲ (۵۴۱)، و۳۱ (۶۷۳)، ق/الإقامۃ ۵۱ (۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۷۰)، ط/الصلاۃ ۱ (۲)، وصلاۃ الجماعۃ ۲ (۶)، حم (۲/۲۳۶، ۲۷۸، ۳۰۳، ۳۷۵، ۳۷۶، ۴۲۴، ۴۶۶، ۴۷۲، ۴۷۹، ۵۳۱، ۵۳۳) (صحیح)
۲۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اورپہلی صف میں کیاثواب ہے، اور وہ اسے قرعہ اندازی کے بغیر نہ پاسکتے تو اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے''۔


226- و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۲۶- نیز قتیبہ نے مالک سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي إِقَامَةِ الصُّفُوفِ
۵۵- باب: صفوں کوسیدھی کرنے کا بیان​


227- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُسَوِّي صُفُوفَنَا، فَخَرَجَ يَوْمًا، فَرَأَى رَجُلاً خَارِجًاصَدْرُهُ عَنْ الْقَوْمِ، فَقَالَ:"لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهُ قَالَ:"مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ إِقَامَةُ الصَّفِّ". وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ كَانَ يُوَكِّلُ رِجَالاً بِإِقَامَةِ الصُّفُوفِ فَلاَ يُكَبِّرُ، حَتَّى يُخْبَرَ أَنَّ الصُّفُوفَ قَدْ اسْتَوَتْ. وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ، وَعُثْمَانَ: أَنَّهُمَا كَانَا يَتَعَاهَدَانِ ذَلِكَ، وَيَقُولاَنِ: اسْتَوُوا. وَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ: تَقَدَّمْ يَا فُلاَنُ، تَأَخَّرْ يَا فُلاَنُ.
* تخريج: خ/الأذان ۷۱ (۷۱۷)، م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۶)، د/الصلاۃ ۹۴ (۶۶۲، ۶۶۵)، ن/الإقامۃ ۲۵ (۸۱۱)، ق/الإقامۃ ۵۰ (۹۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۰)، حم (۴/۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۲، ۲۷۶، ۲۷۷) (صحیح)
۲۲۷- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہماری صفیں سیدھی کرتے تھے۔چنانچہ ایک دن آپ نکلے تو دیکھاکہ ایک شخص کاسینہ لوگوں سے آگے نکلاہواہے،آپ نے فرمایا: ''تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ۱؎ اورنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف پیدافرمادے گا'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر بن سمرہ ، براء ، جابر بن عبداللہ ، انس ، ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:صفیں سیدھی کرنا صلاۃ کی تکمیل ہے،۴- عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ صفیں سیدھی کرنے کاکام کچھ لوگوں کے سپردکردیتے تھے توموذن اس وقت تک اقامت نہیں کہتا جب تک اسے یہ نہ بتادیاجاتا کہ صفیں سیدھی ہوچکی ہیں، ۵- علی اور عثمان رضی اللہ عنہما سیبھی مروی ہے کہ یہ دونوں بھی اس کی پابندی کرتے تھے اور کہتے تھے: ''استووا'' (صف میں سیدھے ہوجاؤ)اور علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: فلاں ! آگے بڑھو، فلاں ! پیچھے ہٹو۔
وضاحت ۱؎ : ''صفیں سیدھی رکھو''کامطلب یہ ہے صف میں ایک مصلی کاکندھادوسرے مصلی کے کندھے سے اوراس کا پیر دوسرے کے پیر سے ملاہوناچاہئے ۔
وضاحت ۲؎ : لفظی ترجمہ ''تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیداکردے گا'' ہے جس کامطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا،تمہاری وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی اورتمہاری شان وشوکت ختم ہوجائے گی، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے چہروں کو گُدّی کی طرف پھیر کرانہیں بگاڑدے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَا جَاءَ لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلاَمِ وَالنُّهَى
۵۶- باب: ارشاد نبوی ''مجھ سے قریب وہ لوگ رہیں جو صاحب فہم وذکا اور سمجھدار ہوں'' کا بیان​


228- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلاَمِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَلاَتَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الأَسْوَاقِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَالْبَرَاءِ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ يَلِيَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ، لِيَحْفَظُوا عَنْهُ. قَالَ: وَخَالِدٌ الْحَذَّاءُ هُوَ - خَالِدُ بْنُ مِهْرَانَ - يُكْنَى"أَبَا الْمُنَازِلِ". قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: يُقَالُ: إِنَّ خَالِدًا الْحَذَّاءَ مَا حَذَا نَعْلاً قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ يَجْلِسُ إِلَى حَذَّائٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِ. قَالَ: وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُهُ - زِيَادُ بْنُ كُلَيْبٍ -.
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۸ (۴۳۲)، د/الصلاۃ ۹۶ (۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۵)، حم (۱/۴۵۷)، دي/الصلاۃ ۵۱ (۱۳۰۳) (صحیح)
۲۲۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم میں سے جوصاحب فہم وذکااور سمجھدار ہوں ان کو مجھ سے قریب رہنا چاہئے، پھر وہ جو(عقل ودانش میں)ان کے قریب ہوں، پھروہ جوان کے قریب ہوں،تم آگے پیچھے نہ ہونا کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑجائے گی،اور اپنے آپ کوبازار کے شوروغوغاسے بچائے رکھنا '' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابی بن کعب، ابومسعود، ابوسعید ، براء ، اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ اس بات سے خوش ہوتے کہ مہاجرین اور انصار آپس میں قریب قریب رہیں تاکہ وہ آپ سے (سیکھے ہوئے مسائل ) محفوظ رکھ سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّفِّ بَيْنَ السَّوَارِي
۵۷- باب: ستونوں کے درمیان صف لگانے کی کراہت​


229- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هَانِئِ بْنِ عُرْوَةَ الْمُرَادِيِّ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ، قَالَ: صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنْ الأُمَرَاءِ، فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ، فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ، فَلَمَّا صَلَّيْنَا قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: كُنَّا نَتَّقِي هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. وَفِي الْبَاب عَنْ قُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَفَّ بَيْنَ السَّوَارِي. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۹۵ (۶۷۳)، ن/الإمامۃ ۳۳ (۸۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۰)، حم (۳/۱۳۱) (صحیح)
۲۲۹- عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ ہم نے امراء میں سے ایک امیرکے پیچھے صلاۃ پڑھی، لوگوں نے ہمیں دوستونوں کے درمیان صلاۃ پڑھنے پرمجبورکردیا ۱؎ جب ہم صلاۃ پڑھ چکے تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم لوگ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اس سے بچتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں قرۃ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- علماء میں سے کچھ لوگوں نے ستونوں کے درمیان صف لگانے کو مکروہ جانا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،اور علماء کچھ نے اس کی اجازت دی ہے ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اتنی بھیڑہوگئی کہ مسجدمیں جگہ نہیں رہ گئی مجبوراًہمیں دونوں ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا پڑا۔
وضاحت ۲؎ : اگرمجبوری ہو تب ستونوں کے درمیان صف لگائی جائے ، ورنہ عام حالات میں اس سے پرہیز کیاجائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ
۵۸- باب: صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھنے کا بیان​


230- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: أَخَذَ زِيَادُ ابْنُ أَبِي الْجَعْدِ بِيَدِي وَنَحْنُ بِالرَّقَّةِ، فَقَامَ بِي عَلَى شَيْخٍ يُقَالُ لَهُ وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَقَالَ زِيَادٌ: حَدَّثَنِي هَذَا الشَّيْخُ: أَنَّ رَجُلاً صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ - وَالشَّيْخُ يَسْمَعُ - فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُعِيدَ الصَّلاَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ وَابِصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَقَالُوا: يُعِيدُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُجْزِئُهُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى حَدِيثِ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَيْضًا، قَالُوا: مَنْ صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ يُعِيدُ. مِنْهُمْ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَوَكِيعٌ. وَرَوَى حَدِيثَ حُصَيْنٍ عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ. وَفِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ هِلاَلاً قَدْ أَدْرَكَ وَابِصَةَ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ وَابِصَةَ ابْنِ مَعْبَدٍ: أَصَحُّ. وَقَالَ: بَعْضُهُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ: أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۰۰ (۶۸۲)، ق/الإقامۃ ۵۴ (۱۰۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۸)، حم (۴/۲۲۸)، دي/الصلاۃ ۶۱ (صحیح)
۲۳۰- ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا ،(ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جاکر بنی اسد کے وابصہ بن معبدنامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا: مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اورشیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی تو رسول اللہﷺ نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی ہے تووہ صلاۃدہرائے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،۴- اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہاہے کہ اسے کافی ہوگا جب وہ صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے، سفیان ثوری، ابن مبارک اورشافعی کابھی یہی قول ہے،۵- اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں ، ان لوگوں کاکہناہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے، وہ اسے دہرائے ۔ انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان ، ابن ابی لیلی اوروکیع ہیں، ۶- مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکرکے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرّہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق '' هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة'' روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، اوربعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق '' هلال بن يساف، عن زياد بن أبي الجعد عن وابصة '' روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیادبن ابی الجعدکے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صف کے پیچھے اگرکوئی تنہاصلاۃ پڑھ رہاہوتو اس کی صلاۃ درست ہے یانہیں،اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے: امام احمد اوراسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی صلاۃدرست نہیں،ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں، (جیساکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملالے ، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گر چہ وہ ضعیف ہیں ، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہوجاتی ہے۔ ہاں! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو، واللہ اعلم۔


231- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَنَّ رَجُلاً صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعِيدَ الصَّلاَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ فَإِنَّهُ يُعِيدُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۳۱- اس سند سے بھی وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے صلاۃ پڑھی تو نبی اکرمﷺ نے اُسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع کہتے ہیں کہ جب آدمی صف کے پیچھے اکیلے صلاۃ پڑھے تو وہ صلاۃ کو دہرائے(اس کی صلاۃنہیں ہوئی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَمَعَهُ رَجُلٌ
۵۹- باب: آدمی اکیلا صلاۃ پڑھ رہاہو اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہو تو مقتدی کہاں کھڑا ہو؟​


232- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنْ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِرَأْسِي مِنْ وَرَائِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، قَالُوا: إِذَا كَانَ الرَّجُلُ مَعَ الإِمَامِ يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الإِمَامِ.
* تخريج: خ/العلم ۴۱ (۱۱۷)، والوضوء ۵ (۱۳۸)، والأذان ۵۷ (۶۹۷)، و(۶۹۸)، ۵۹ (۶۹۹)، و۷۷ (۷۲۶)، و۷۹ (۷۲۸)، و۱۶۱ (۸۵۹)، والوتر ۱ (۹۹۲)، والعمل فی الصلاۃ ۱ (۱۱۹۸)، وتفسیر آل عمران ۱۹ (۴۵۷۱)، و۲۰ (۴۵۷۲)، واللباس ۷۱ (۵۹۱۹)، والدعوات ۱۰ (۶۳۱۹)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، د/الصلاۃ ۷۰ (۶۱۰)، و۳۱۶ (۱۳۶۴)، ن/الغسل ۲۹ (۴۴۳)، الإمامۃ ۲۲ (۸۰۷)، وقیام اللیل ۹ (۱۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۵۶)، حم (۱/۲۱۵، ۲۵۲، ۲۸۵، ۲۸۷، ۳۴۱، ۳۴۷، ۳۵۴، ۳۵۷، ۳۶۰، ۳۶۵)، دي/الصلاۃ ۴۳ (۱۲۹۰) (صحیح)
۲۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، میں جاکر آپ کے بائیں جانب کھڑاہوگیاتو رسول اللہﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ ا اور مجھے اپنے دائیں طرف کرلیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ا نس رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اوران کے بعد والے اہل علم کااسی پر عمل ہے کہ جب ایک آدمی امام کے ساتھ ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي مَعَ الرَّجُلَيْنِ
۶۰- باب: کوئی دوآدمیوں کے ساتھ (بطورِامام) صلاۃ پڑھ رہاہو توکہاں کھڑاہو؟​


233- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا كُنَّا ثَلاَثَةً أَنْ يَتَقَدَّمَنَا أَحَدُنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً قَامَ رَجُلاَنِ خَلْفَ الإِمَامِ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّهُ صَلَّى بِعَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ فَأَقَامَ أَحَدَهُمَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرَ عَنْ يَسَارِهِ، وَرَوَاهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۵) (ضیعف الإسناد)
(سندمیں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں، مگر اصل حدیث شواہد سے ثابت ہے)
۲۳۳- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ، جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دوآدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ اور اسود کو صلاۃ پڑھائی توان دونوں میں سے ایک کواپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائین طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا، ۴- بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پران کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سندکے لحاظ سے اگرچہ یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے مگرسارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگردو آدمی ہوں اورجگہ میں گنجائش ہو تو دونوں مقتدی پیچھے کھڑے ہوں گے اورایک جو امام ہوگا وہ آگے کھڑا ہوگا، رہاابن مسعود رضی اللہ عنہ کا دونوں کو اپنے دائیں بائیں ساتھ میں کھڑاکرلینے کا معاملہ تو ہوسکتاہے کہ وہاں جگہ ایسی نہ ہو ، ویسے اسی واقعہ میں ہے کہ انہوں نے رکو ع میں تطبیق کی اور دونوں سے کرائی ۔تطبیق کا مطلب ہوتا ہے : رکوع یا تشہد میں مصلی کا اپنے دونوں ہاتھوں یا ہتھیلیوں کو رانوں یا گھٹنوں کے درمیان رکھنا ، اور یہ منسوخ وممنوع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي وَمَعَهُ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ
۶۱- باب: آدمی صلاۃپڑھا رہا ہو اور اس کے ساتھ مرد اور عورتیں دونوں ہوں توکیاحکم ہے؟​


234- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: قُومُوا فَلْنُصَلِّ بِكُمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِالْمَاءِ، فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَصَفَفْتُ عَلَيْهِ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَائَهُ، وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا كَانَ مَعَ الإِمَامِ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَمِينِ الإِمَامِ وَالْمَرْأَةُ خَلْفَهُمَا.
وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي إِجَازَةِ الصَّلاَةِ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَقَالُوا: إِنَّ الصَّبِيَّ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَلاَةٌ وَكَأَنَّ أَنَسًا كَانَ خَلْفَ النَّبِيِّ ﷺ وَحْدَهُ فِي الصَّفِّ. وَلَيْسَ الأَمْرُ عَلَى مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ، لأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقَامَهُ مَعَ الْيَتِيمِ خَلْفَهُ، فَلَوْلاَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، جَعَلَ لِلْيَتِيمِ صَلاَةً لَمَا أَقَامَ الْيَتِيمَ مَعَهُ، وَلأَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ،أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ. وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلاَلَةٌ أَنَّهُ إِنَّمَا صَلَّى تَطَوُّعًا، أَرَادَ إِدْخَالَ الْبَرَكَةِ عَلَيْهِمْ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۰ (۳۸۰)، والأذان ۷۸ (۷۲۷)، و۱۶۱ (۸۶۰)، و۱۶۴ (۸۷۱)، و۱۶۷ (۸۷۴)، م/المساجد (۶۵۸)، د/الصلاۃ ۷۱ (۶۱۲)، ن/المساجد ۴۳ (۷۳۸)، والإمامۃ ۱۹ (۸۰۲)، و۶۲ (۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷)، ط/قصر الصلاۃ ۹ (۳۱)، حم (۳/۱۳۱، ۱۴۵، ۱۴۹، ۱۶۴)، دي/الصلاۃ ۶۱ (۱۳۲۴) (صحیح)
۲۳۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے کھانا پکایا اور اس کو کھانے کے لیے رسول اللہﷺکو مدعوکیا،آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا:'' اٹھوچلو ہم تمہیں صلاۃ پڑھائیں''، انس کہتے ہیںـ:تومیں اُٹھ کراپنی ایک چٹائی کے پاس آیا جوزیادہ استعمال کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی، میں نے اسے پانی سے دھویا،پھررسول اللہﷺ اس پر کھڑے ہوئے ،میں نے اوریتیم نے آپ کے پیچھے اس پر صف لگائی اور دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں، تو آپ نے ہمیں دورکعات پڑھائیں، پھرآپﷺ ہماری طرف پلٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد امام کے دائیں طرف کھڑا ہو اور عورت ان دونوں کے پیچھے۔ ۳-بعض لوگوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ جب آدمی صف کے پیچھے تنہا ہو تو اس کی صلاۃ جائز ہے، وہ کہتے ہیں کہ بچے پر صلاۃ توتھی ہی نہیں گویا عملاً انس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پیچھے تنہاہی تھے،لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے انس کو اپنے پیچھے یتیم کے ساتھ کھڑا کیاتھا، اور اگر نبی اکرمﷺ یتیم کی صلاۃ کو صلاۃ نہ مانتے تو یتیم کو ان کے ساتھ کھڑا نہ کرتے بلکہ انس کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرتے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی تو آ پ نے انہیں اپنی دائیں طرف کھڑا کیا،اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ نے نفل صلاۃ پڑھی تھی اور انہیں برکت پہنچانے کاارادہ کیاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62-بَاب مَا جَاءَ مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
۶۲- باب: امامت کا زیادہ حق دار کون ہے؟​


235- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، قَالَ: و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ أَوْسِ ابْنِ ضَمْعَجٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَائَةِ سَوَائً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَائً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَائً فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلاَ يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ، وَلاَ يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ". قَالَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ: قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ:"أَقْدَمُهُمْ سِنًّا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَعَمْرِو ابْنِ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: أَحَقُّ النَّاسِ بِالإِمَامَةِ. أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ وَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ. وَقَالُوا: صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا أَذِنَ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ لَغَيْرِهِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ. وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وَقَالُوا: السُّنَّةُ أَنْ يُصَلِّيَ صَاحِبُ الْبَيْتِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ وَلاَ يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلاَ يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ: فَإِذَا أَذِنَ فَأَرْجُو أَنَّ الإِذْنَ فِي الْكُلِّ، وَلَمْ يَرَ بِهِ بَأْسًا إِذَا أَذِنَ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ.
* تخريج: م/المساجد ۵۳ (۶۷۳)، د/الصلاۃ ۶۱ (۵۸۲)، ن/الإمامۃ ۳ (۷۸۱)، و۶ (۷۸۴)، ق/الإقامۃ ۴۶ (۹۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۶)، حم (۴/۱۱۸، ۱۲۱، ۱۲۲)، ویأتي في الأدب ۲۴ (برقم: ۲۷۷۲) (صحیح)
۲۳۵- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والاہو، اگرلوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جوسب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہووہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہووہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جوعمرمیں سب سے بڑا ہووہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھرمیں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ا بوسعید، انس بن مالک، مالک بن حویرث اور عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا کہناہے کہ لوگوں میں امامت کا حق دار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتاہو۔نیز وہ کہتے ہیں کہ گھرکا مالک خود امامت کازیادہ مستحق ہے،اور بعض نے کہاہے: جب گھرکا مالک کسی دوسرے کو اجازت دے دے تو اس کے صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جاناہے، وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھرکا مالک خود پڑھائے ۱؎ ، ۴- احمد بن حنبل نبی اکرمﷺ کے فرمان:'' آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اورنہ اس کے گھرمیں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیربیٹھاجائے'' کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دے دے تو میں امید رکھتاہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اورامامت کرنے دونوں سے متعلق ہوگی، انہوں نے اس کے صلاۃپڑھانے میں کوئی حرج نہیں جاناکہ جب وہ اجازت دے دے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت ''من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم''ہے ''إلا بإذنه '' کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ اس کاتعلق صرف''لايجلس على تكرمته''سے ہے ''لايؤم الرجل في سلطانه''سے نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مَا جَاءَ إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمْ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ
۶۳- باب: جب تم میں سے کوئی امامت کرے توصلاۃ ہلکی پڑھائے​


236- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمْ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمْ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَمَالِكِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَابْنِ عَبَّاس. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: اخْتَارُوا أَنْ لاَ يُطِيلَ الإِمَامُ الصَّلاَةَ مَخَافَةَ الْمَشَقَّةِ عَلَى الضَّعِيفِ وَالْكَبِيرِ وَالْمَرِيضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الزِّنَادِ اسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ ذَكْوَانَ. وَالأَعْرَجُ هُوَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْمَدِينِيُّ، وَيُكْنَى أَبَا دَاوُدَ.
* تخريج: خ/الأذان ۶۲ (۷۰۳)، م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۷)، د/الصلاۃ ۱۲۷ (۷۹۴)، ن/الإمامۃ ۳۵ (۸۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۸۴)، حم (۲/۲۵۶، ۲۷۱، ۳۱۷، ۳۹۳، ۴۸۶، ۵۰۲، ۵۳۷) (صحیح)
۲۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے توچاہئے کہ ہلکی صلاۃ پڑھائے،کیونکہ ان میں چھوٹے ، بڑے، کمزور اور بیمارسبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا صلاۃ پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عدی بن حاتم ، انس ، جابر بن سمرہ ، مالک بن عبداللہ، ابو واقد ، عثمان ، ابو مسعود، جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اکثر اہل علم کا قول ہے، ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام صلاۃ لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور ، بوڑھے اور بیمارلوگوں کو پریشانی نہ ہو۔
وضاحت ۱؎ : ہلکی صلاۃ پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان وسکون اور خشوع وخضوع اوراعتدال نہ ہو، تعدیل ارکان فرض ہے، نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرمﷺ ہلکی صلاۃ پڑھاتے تھے تب بھی کامل صلاۃ پڑھاتے حتی کہ مغرب میں بھی سورہ طوریا سورہ المرسلات پڑھتے تھے۔


237- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ أَخَفِّ النَّاسِ صَلاَةً فِي تَمَامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاسْمُ أَبِي عَوَانَةَ وَضَّاحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ قُتَيْبَةَ، قُلْتُ: أَبُو عَوَانَةَ مَا اسْمُهُ؟ قَالَ: وَضَّاحٌ، قُلْتُ: ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي، كَانَ عَبْدًا لامْرَأَةٍ بِالْبَصْرَةِ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۹)، ن/الإمامۃ ۳۵ (۸۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲)، حم (۳/۱۷۰، ۱۷۳، ۱۷۹، ۲۳۱، ۲۳۴، ۲۷۶)، دي/الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)
۲۳۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اورسب زیادہ مکمل صلاۃ پڑھنے والے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''سب سے ہلکی صلاۃہوتی تھی'' سے مرادیہ ہے کہ آپ لمبی قرأت نہیں کرتے تھے، اسی طرح لمبی دعاؤں سے بھی بچتے تھے، اور سب سے زیادہ مکمل صلاۃ کامطلب یہ ہے کہ آپ صلاۃ کے جملہ ارکان وسنن اورمستحبات کوبحسن وخوبی اطمینان سے اداکرتے تھے۔
 
Top