• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّكْتَتَيْنِ فِي الصَّلاَةِ
۷۴- باب: صلاۃ کے دونوں سکتوں کا بیان​


251- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَقَالَ: حَفِظْنَا سَكْتَةً. فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ: أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ. قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ: إِذَا دَخَلَ فِي صَلاَتِهِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَائَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: وَإِذَا قَرَأَ {وَلاَ الضَّالِّينَ} قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَائَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَسْتَحِبُّونَ لِلإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ، وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِرَائَةِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وَأَصْحَابُنَا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۳ (۷۷۷، ۷۷۸، ۷۷۹، ۷۸۰)، ق/الإقامۃ ۱۲ (۸۴۴، ۸۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۹)، وکذا (۴۵۷۶، و۴۶۰۹)، حم (۵/۲۱) (ضعیف)
(حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سواسماع میں اختلاف ہے ،نیز ''حسن'' ''مدلس'' ہیں، اور یہاں پر نہ تو ''سماع'' کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی ، اس پرمستزادیہ کہ ''قتادہ'' بھی مدلس ہیں، اور''عنعنہ''سے روایت ہے)
۲۵۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (صلاۃ میں) دوسکتے ہیں جنہیں میں نے رسول اللہﷺ سے یاد کیاہے، اس پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا اور کہا: ہمیں توایک ہی سکتہ یاد ہے۔چنانچہ(سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم نے مدینے میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لکھا ، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ نے(ٹھیک) یاد رکھا ہے۔
سعید بن أبی عروبہ کہتے ہیں:تو ہم نے قتادہ سے پوچھا : یہ دوسکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: جب صلاۃ میں داخل ہو تے (پہلا اس وقت ) اور جب آپ قرأت سے فارغ ہوتے، پھراس کے بعدکہااور جب ''ولا الضالين'' کہتے ۱؎ اور آپ کویہ بات اچھی لگتی تھی کہ جب آپ قرأت سے فارغ ہوں توتھوڑی دیر چپ رہیں یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے،۳- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ وہ امام کے لیے صلاۃ شروع کرنے کے بعد اور قرأت سے فارغ ہونے کے بعد (تھوڑی دیر)چپ رہنے کو مستحب جانتے ہیں۔ اوریہی احمد، اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: پہلے توقتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہاکہ وہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعدہے ،اوربعدمیں کہاکہ وہ ''ولا الضالين''کے بعداورسورہ کی قراء ت سے پہلے ہے، یہ قتادہ کا اضطراب ہے، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعد اوررکوع سے پہلے اس روایت کی تائیدکئی طرق سے ہوتی ہے، (دیکھئے ضعیف ابی داودرقم ۱۳۵-۱۳۸)امام شوکانی نے : حصل من مجموع الروايات ثلاث سكتات -کہہ کرتین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جوسورۃ الفاتحۃ ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہوگا - وهي أخف من الأولى والثانية- یہ تیسرا سکتہ -افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورۃ الفاتحۃ سے قبل والے پہلے سکتہ اور'' ولا الضالين'' کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہوگا، یعنی مام کی سانس درست ہونے کے لیے بس۔(دیکھئے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۱۳ طبع المکتبۃ الفاروقیۃ ، ملتان ، پاکستان)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ
۷۵- باب: صلاۃ میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھنے کا بیان​


252- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ. وَاسْمُ هُلْبٍ: يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
* تخريج: ق/الإقامۃ (۸۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۵)، حم (۵/۲۲۶، ۲۲۷) (حسن صحیح)
۲۵۲- ہلب طائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کواپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام ،تابعین اوران کے بعد کے اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ آدمی صلاۃ میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎ ،اوربعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کے برعکس امام الک ؒسے جوہاتھ چھوڑنے کاذکرہے وہ شاذہے صحیح نہیں، مؤطاامام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجودہے شوافع ، احناف اورحنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ صلاۃمیں ہاتھ باندھناہی سنت ہے، اب رہایہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہا جائیں سینے پریازیرناف؟ تو بعض حضرات زیرناف باندھنے کے قائل ہیں مگرزیرناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت ''صلیت مع النبیﷺ فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ''ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اوریہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمدنے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ''رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل'' (یزید بن قُنافہ ہُلب الطائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اورپھربائیں جانب، اورمیں نے آپﷺکویوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پررکھتے تھے ، امام احمدبن حنبل کے استاذ یحیی بن سعید نے ہلب رضی اللہ عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑکے اوپر باندھ کرکی )۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے(مسند احمد ۵/۲۲۶)اوروائل بن حجرکی روایت پر جو اعتراض کیاجاتاہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں ''علی صدرہ'' ہے ،بزارکی روایت میں ''عند صدرہ'' ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ''تحت السرۃ'' ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیو نکہ مجرداختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتابلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابرہوں اور یہاں ایسانہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں ''تحت السرّہ'' کا جولفظ ہے وہ مدرج ہے،اسے جان بوجھ کربعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کردیا گیا ہے اورابن خزیمہ کی روایت میں''علی صدرہ''اوربزارکی روایت ''عند صدرہ'' جوآیاہے توان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے لیے شاہدہے، اورطاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزارکی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۷۶- باب: رکوع اورسجدہ جاتے وقت اللہ اکبر کہنے کا بیان​


253- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ، وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ، وَأَبِي مُوسَى، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَغَيْرُهُمْ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ، وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ.
* تخريج: ن/التطبیق ۳۴ (۱۰۸۴)، و۸۳ (۱۱۴۳)، و۹۰ (۱۱۵۰)، وفی السہو۷۰ (۱۳۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۷۴) وکذا (۹۴۷۰)، حم (۱/۴۸۶، ۴۴۲، ۴۴۳)، دي/الصلاۃ ۴۰ (۱۲۸۳م) (صحیح)
۲۵۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہرجھکنے، اٹھنے، کھڑے ہونے اوربیٹھنے کے وقت اللہ اکبر کہتے ۱؎ اور ابوبکرا ورعمر رضی اللہ عنہما بھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، انس ، ابن عمر ، ابومالک اشعری، ابوموسیٰ، عمران بن حصین ، وائل بن حجر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام کا جن میں ابوبکر، عمر، عثمان علی رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعدکے تابعین کاعمل اسی پر ہے اور اسی پر اکثر فقہا ء وعلماء کا عمل بھی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس طرح دورکعت والی صلاۃمیں کل گیارہ تکبیریں اورچاررکعت والی صلاۃمیں۲۲تکبیریں ہوئیں اورپانچوں فرض صلاتوں میں کل ۹۴ تکبیریں ہوئیں، واضح رہے کہ رکوع سے اٹھتے وقت آپ ''سمع الله لمن حمده''کہتے تھے، اس لیے اس حدیث کے عموم سے یہ مستثنیٰ ہے، ان تکبیرات میں سے صرف تکبیرتحریمہ فرض ہے باقی سب سنت ہیں اگروہ کسی سے چھوٹ جائیں تو صلاۃہوجائے گی البتہ فضیلت اورسنت کی موافقت اس سے فوت ہوجائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب مِنْهُ آخَرُ
۷۷- باب: رکوع اور سجودکے وقت ''اللہ اکبر''کہنے سے متعلق ایک اور باب​


254- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُنِيرٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُكَبِّرُ وَهُوَ يَهْوِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ، قَالُوا: يُكَبِّرُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَهْوِي لِلرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۸) (صحیح)
۲۵۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺجھُکتے وقت'' اللہ اکبر'' کہتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام اوران کے بعد کے تابعین میں سے اہل علم کا قول یہی ہے کہ رکوع اورسجدہ کے لیے جھکتے ہوئے آدمی'' اللہ اکبر'' کہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ
۷۸- باب: رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان​


255- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَ لاَيَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
* تخريج: خ/الأذان ۸۳ (۷۳۵)، و۸۴ (۷۳۶)، و۸۵ (۷۳۸)، و۸۶ (۷۳۹)، م/الصلاۃ ۹ (۳۹۰)، د/الصلاۃ ۱۱۶ (۷۷۱)، ن/الافتتاح ۱ (۸۷۷، ۸۷۸، ۸۷۹)، و۸۶ (۱۰۲۶)، والتطبیق ۱۹ (۱۰۵۸)، و۲۱ (۱۰۶۰)، و۳۷ (۱۰۸۹)، و۸۵ (۱۱۵۵)، ق/الإقامۃ ۱۵ (۸۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۶)، ط/الصلاۃ ۴ (۱۶)، حم (۲/۸، ۱۸، ۴۴، ۴۵، ۴۷، ۶۳، ۱۰۰، ۱۴۷)، دي/الصلاۃ ۴۱ (۱۴۸۵)، و۷۱ (۱۳۴۷) (صحیح)
۲۵۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا تے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے ، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے( تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎ ۔
ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ)نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیرتحریمہ کے وقت ،رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اوربعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اورتابعین عظام میں زیادہ ترلوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اورعشرئہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے،جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخرمیں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجرہیں جوغزوہ تبوک کے بعد ۹ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں،اوریہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آئے تووہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کودیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔


256- قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، وَجَابِرٍ، وَعُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِهَذَا يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٌ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَغَيْرُهُمْ، وَمِنْ التَّابِعِينَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَعَطَائٌ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَنَافِعٌ، وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَغَيْرُهُمْ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَمَعْمَرٌ، وَالأَوْزَاعِيُّ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ. قَالَ: و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ. و قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: كَانَ مَعْمَرٌ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ. و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَعُمَرُ بْنُ هَارُونَ، وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاَةَ، وَإِذَا رَكَعُوا، وَإِذَا رَفَعُوا رُئُوسَهُمْ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۵۶- امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر ، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث ،ا نس ، ابوہریرہ ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر ، جابر بن عبداللہ ، ابوہریرہ ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری ، عطاء ، طاؤس ، مجاہد ، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک ، معمر ، اوزاعی، ابن عیینہ ، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جواپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث(دلیل) صحیح ہے، پھرانہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے،۵- اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ''نبی اکرم ﷺ نے صرف پہلی مرتبہ اپنے ددنوں ہاتھ اٹھائے'' والی ثابت نہیں ہے،۶- مالک بن انس صلاۃ میں رفع یدین کوصحیح سمجھتے تھے،۷-عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمربھی صلاۃ میں رفع الیدین کوصحیح سمجھتے تھے،۸- اور میں نے جارود بن معاذ کوکہتے سنا کہ '' سفیان بن عیینہ ، عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب صلاۃ شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سراٹھاتے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
۷۹- باب: نبی اکرمﷺ صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھاتے تھے​


257- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۹ (۷۴۸)، ن/الافتتاح ۸۷ (۱۰۲۷)، والتطبیق ۲۰ (۱۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۶۸)، حم (۱/۳۸۸، ۴۴۲) (صحیح)
۲۵۷- علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:'' کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ کی طرح صلاۃ نہ پڑھاؤں؟ توانہوں نے صلاۃ پڑھائی اورصرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے ، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ رفع الیدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، اور اگراسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یاواجب نہیں، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ اوروں کی روایت غلط ہو، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہوسکتاہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کامعاملہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80-بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ فِي الرُّكُوعِ
۸۰- باب: رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پررکھنے کا بیان​


258- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إِنَّ الرُّكَبَ سُنَّتْ لَكُمْ، فَخُذُوا بِالرُّكَبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدِ ابْنِ مَسْلَمَةَ، وَأَبِي مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، لاَاخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ، إِلاَّ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَبَعْضِ أَصْحَابِهِ: أَنَّهُمْ كَانُوا يُطَبِّقُونَ. وَالتَّطْبِيقُ مَنْسُوخٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: ن/التطبیق ۲ (۱۰۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۸۲) (صحیح الإسناد)
۲۵۸- ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: گھٹنوں کو پکڑ نا تمہارے لیے مسنون کیا گیاہے،لہذا تم(رکوع میں) گھٹنے پکڑے رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد، انس ، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام ، تابعین اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔ سوائے اس کے جوابن مسعود اور ان کے بعض شاگردوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ تطبیق ۱؎ کرتے تھے، اورتطبیق اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک ہاتھ کی انگلیوں کودوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کرانہیں دونوں رانوں کے درمیان کرلینے کو تطبیق کہتے ہیں، یہ حکم شروع اسلام میں تھاپھرمنسوخ ہوگیااورعبداللہ بن مسعود کو اس کی منسوخی کاعلم نہیں ہوسکاتھا، اس لیے وہ تاحیات تطبیق کرتے کراتے رہے۔


259- قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ: كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ فَنُهِينَا عَنْهُ، وَأُمِرْنَا أَنْ نَضَعَ الأَكُفَّ عَلَى الرُّكَبِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ بِهَذَا. وَأَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ الْمُنْذِرِ. وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ اسْمُهُ: مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ. وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ. وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُاللهِ بْنُ حَبِيبٍ. وَأَبُو يَعْفُورٍ: عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ. وَأَبُو يَعْفُورٍ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ: وَاقِدٌ، وَيُقَالُ: وَقْدَانُ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى. وَكِلاَهُمَا مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۸ (۷۹۰)، م/المساجد ۵ (۵۳۵)، د/الصلاۃ ۱۵۰ (۸۶۷)، ن/التطبیق ۱ (۱۰۳۳)، ق/الإقامۃ ۱۷ (۸۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲۹)، حم (۱/۱۸۱، ۸۲)، د/الصلاۃ ۶۸ (۱۳۴۱) (صحیح)
۲۵۹- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایسا کرتے تھے (یعنی تطبیق کرتے تھے) پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ہم ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ فِي الرُّكُوعِ
۸۱- باب: رکوع میں اپنے ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے الگ رکھنے کا بیان​


260- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرُوا صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا، وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَنَحَّاهُمَا عَنْ جَنْبَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ: أَنْ يُجَافِيَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۴۵ (۸۲۸)، د/الصلاۃ ۱۱۷ (۷۳۰)، ن/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، والسہو ۲ (۱۱۸۲)، و۲۹ (۱۰۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۲)، وکذا (۱۱۸۹۷)، دي/الصلاۃ ۷۰ (۱۳۴۶)، (کلہم مختصرا، ولین عند ذکر خ ذکر رفع الیدین إلا عند التحریمۃ)، ویأتي عند المؤلف بارقام: ۲۷۰، و۲۹۳، و۳۰۴) (صحیح)
۲۶۰- عباس بن سہل بن سعد کا بیان ہے کہ ابوحمید ،ابواسید،سہل بن سعد،اور محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہم ) چاروں اکٹھا ہوئے توان لوگوں نے رسول اللہﷺ کی صلاۃ کا ذکر کیا، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ کو تم میں سب سے زیادہ جانتاہوں: آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پررکھے گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہیں ، اورآپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح (ٹائٹ)بنایا اور انہیں اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اسی کو اہل علم نے اختیار کیاہے کہ آدمی رکوع اورسجدے میں ا پنے دونوں ہاتھوں کواپنے دونوں پہلوؤں سے جدارکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْبِيحِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۸۲- باب: رکوع اورسجدے میں تسبیح کا بیان​


261- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ الْهُذَلِيِّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ، وَإِذَا سَجَدَ فَقَالَ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ عَوْنُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ لَمْ يَلْقَ ابْنَ مَسْعُودٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لاَ يَنْقُصَ الرَّجُلُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ مِنْ ثَلاَثِ تَسْبِيحَاتٍ. وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: أَسْتَحِبُّ لِلإِمَامِ أَنْ يُسَبِّحَ خَمْسَ تَسْبِيحَاتٍ، لِكَيْ يُدْرِكَ مَنْ خَلْفَهُ ثَلاَثَ تَسْبِيحَاتٍ. وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۴ (۸۸۶)، ق/الإقامۃ ۲۰ (۸۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۳۰) (ضعیف)
(عون کا سماع ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، جیساکہ مولف نے خودبیان کردیاہے )
۲۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو رکوع میں ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ''تین مرتبہ کہے تو اس کارکوع پورا ہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔ اور جب سجدہ کرے تواپنے سجدے میں تین مرتبہ ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى '' کہے تو اس کا سجدہ پوراہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ عون بن عبداللہ بن عتبہ کی ملاقات ابن مسعود سے نہیں ہے ۱؎ ، ۲- اس باب میں حذیفہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پرہے ، وہ اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے کم نہ پڑھے،۴- عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، انہوں نے کہاکہ میں امام کے لیے مستحب سمجھتاہوں کہ وہ پانچ تسبیحات پڑھے تاکہ پیچھے والے لوگوں کو تین تسبیحات مل جائیں اوراسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہاہے۔
وضاحت ۱؎ : لیکن ابوبکرہ، جبیربن مطعم ، اورابومالک اشعری رضی اللہ عنہم کی حدیثوں سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے ، ان سب میں اگرچہ قدرے کلام ہے لیکن مجموعہ طرق سے یہ بات درجہ احتجاج کو پہنچ جاتی ہے۔


262- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ: أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، وَفِي سُجُودِهِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى، وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ رَحْمَةٍ إِلاَّ وَقَفَ وَسَأَلَ، وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ عَذَابٍ إِلاَّ وَقَفَ وَتَعَوَّذَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۷ (۷۷۲)، د/الصلاۃ ۱۵۱ (۸۷۱)، ن/الافتتاح ۷۷ (۱۰۰۹)، والتطبیق ۹ (۱۰۴۷)، و۷۴ (۱۱۳۴)، ق/الإقامۃ ۲۰ (۸۹۷)، و۱۷۹ (۱۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۵۱)، حم (۵/۳۸۲، ۳۸۴، ۳۹۴)، دي/الصلاۃ ۶۹ (۱۳۴۵) (صحیح)
۲۶۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی توآپ اپنے رکوع میں ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ'' اور سجدے میں''سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى'' پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھیرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پرآتے تو ٹھیر تے اور(عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ نفل صلاتوں کے ساتھ خاص ہے، شیخ عبدالحق'' لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح'' میں فرماتے ہیں '' االظاهر أنه كان في الصلاة محمول عندنا على النوافل'' یعنی ظاہریہی ہے کہ آپ صلاۃمیں تھے اوریہ ہمارے نزدیک نوافل پرمحمول ہوگا۔ (اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آگئی ہے)


263- قَالَ: و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ: نَحْوَهُ.
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حُذَيْفَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَنَّهُ صَلَّى بِاللَّيْلِ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۶۳- اس سند سے بھی شعبہ سے اسی طرح مروی ہے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃِ تہجد پڑھی ، پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْقِرَائَةِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۸۳- باب: رکوع اور سجدے میں قرأت کی ممانعت​


264- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ، وَعَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ قِرَائَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: كَرِهُوا الْقِرَائَةَ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۱ (۴۸۰)، واللباس ۴ (۲۰۷۸)، د/اللباس ۱۱ (۴۰۴۴)، ن/التطبیق ۷ (۱۰۴۱)، و ۶۱ (۱۱۹، ۱۱۲۰)، الزینۃ ۴۳ (۵۱۷۲، ۵۱۷۶، ۵۱۷۸، ۵۱۸۳)، و۷۷ (۵۲۶۶-۵۲۷۲)، ق/اللباس ۲۱ (۳۶۰۲)، و۴۰ (۳۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹)، ط/الصلاۃ ۶ (۲۸)، حم (۱/۸۰، ۸۱، ۹۲، ۱۰۴، ۱۱۴، ۱۱۹، ۱۲۱، ۱۲۳، ۱۲۶، ۱۳۲، ۱۳۳، ۱۳۴، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۶)، ویأتي عند المؤلف في اللباس ۵ (۱۷۲۵)، و۱۳ (۱۷۳۷) والأدب ۴۵ (۲۸۰۸) (صحیح)
۲۶۴- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ریشمی اورکسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے ، سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام، تابعین عظام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کایہی قول ہے، ان لوگوں نے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کومکروہ کہا ہے۔
 
Top