• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
64-بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ الصَّلاَةِ وَتَحْلِيلِهَا
۶۴- باب: صلاۃ کی تحریم وتحلیل کیا ہے اس کا بیان​


238- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ طَرِيفٍ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ، وَلاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِالْحَمْدُ وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ. قَالَ: وَحَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي هَذَا أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَدْ كَتَبْنَاهُ فِي أَوَّلِ كِتَابِ الْوُضُوءِ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: إِنَّ تَحْرِيمَ الصَّلاَةِ التَّكْبِيرُ، وَلاَ يَكُونُ الرَّجُلُ دَاخِلاً فِي الصَّلاَةِ إِلاَّ بِالتَّكْبِيرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ مُسْتَمْلِيَ وَكِيعٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: لَوْ افْتَتَحَ الرَّجُلُ الصَّلاَةَ بِسَبْعِينَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ وَلَمْ يُكَبِّرْ لَمْ يُجْزِهِ، وَإِنْ أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى مَكَانِهِ فَيُسَلِّمَ، إِنَّمَا الأَمْرُ عَلَى وَجْهِهِ. قَالَ: وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۳ (۲۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۵۷)، حم (۳/۳۴۰) (صحیح)
(سند میں سفیان بن وکیع ساقط الحدیث ہیں، اور طریف بن شہاب ابوسفیان سعدی''ضعیف،لیکن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: ۳) سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح ہے)۔
۲۳۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کی کنجی وضو( طہارت) ہے، اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے، اور اس آدمی کی صلاۃہی نہیں جو الحمد للہ (سورہ فاتحہ) اوراس کے ساتھ کوئی اورسورۃ نہ پڑھے خواہ فرض صلاۃ ہویا کوئی اورصلاۃ ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳-علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور ابوسعید خدری کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ہم اسے کتاب الوضوکے شروع میں ذکرکر چکے ہیں( حدیث نمبر: ۳)، ۴- صحابہ کرام اوران کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے،یہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ صلاۃ کی تحریم تکبیر ہے، آدمی صلاۃ میں تکبیر کے(یعنی اللہ اکبر کہے) بغیر داخل نہیں ہوسکتا،۵- عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں: اگر آدمی اللہ کے ناموں میں سے ستر نام لے کر صلاۃ شروع کرے اور'' اللہ اکبر'' نہ کہے تو بھی یہ اسے کافی نہ ہوگا۔ اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو میں اسے حکم دیتاہوں کہ وضو کرے پھر اپنی (صلاۃ کی) جگہ آکر بیٹھے اور سلام پھیرے، اورحکم (رسول) اپنے حال (ظاہر)پر(باقی) رہے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: آپﷺ نے جو '' تحليها التسليم '' فرمایا ہے۔ اس کی تاویل کسی اورمعنی میں نہیں کی جائیگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
65- بَاب مَا جَاءَ فِي نَشْرِ الأَصَابِعِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ
۶۵- باب: اللہ اکبرکہتے وقت انگلیاں کھلی رکھنے کا بیان​


239- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلاَةِ نَشَرَ أَصَابِعَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ الْيَمَانِ وَأَخْطَأَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۸۲) (ضعیف)
(سند میں ''یحیی بن الیمان'' اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، اس لیے انہیں وہم زیادہ ہوتاتھا،اس لیے انہوں نے ''رفع يديه مداً'' (اگلی روایت کے الفاظ ) کی بجائے '' نشر أصابعه ''کہہ دیا)
۲۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے اللہ اکبرکہتے تو اپنی انگلیاں کھُلی رکھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے، ۲- دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق '' ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ''روایت کی ہے (ان کے الفاظ ہیں) کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ میں داخل ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے تھے۔ یہ روایت یحیی بن یمان کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، یحیی بن یمان کی روایت غلط ہے ان سے اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے،(اس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔


240- قَالَ وَ حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الْيَمَانِ، وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ الْيَمَانِ خَطَأٌ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۹ (۷۵۳)، ن/الافتتاح ۶ (۸۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۸۱)، حم (۲/۳۷۵، ۴۳۴، ۵۰۰)، دي/الصلاۃ ۳۲ (۱۲۷۳) (صحیح)
۲۴۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تواپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عبدالرحمن(دارمی) کاکہناہے کہـ یہ یحیی بن یمان کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ، اور یحیی بن یمان کی حدیث غلط ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد(ابوحاتم رازی)کہتے ہیں کہ یحیی کواس میں وہم ہواہے، وہ ''إذا قام إلى الصلاة رفع إليه مداً''کہناچاہ رہے تھے لیکن ان سے چوک ہوگئی انہوں نے غلطی سے ''إذا كبّر للصلاة نشر أصابعه''کی روایت کردی، ابن ابی ذئب کے تلامذہ میں سے ثقات نے ''إذا قام إلى الصلاة مدّاً ''ہی کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
66- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى
۶۶- باب: تکبیر اولیٰ کی فضیلت کا بیان​


241- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ صَلَّى لِلّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الأُولَى كُتِبَتْ لَهُ بَرَائَتَانِ بَرَائَةٌ مِنْ النَّارِ، وَبَرَائَةٌ مِنْ النِّفَاقِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفًا، وَلاَ أَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلاَّ مَارَوَى سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ. وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَوْلَهُ.
241/م-حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَرَوَى إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا. وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَعُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ لَمْ يُدْرِكْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ يُكْنَى أَبَا الْكَشُوثَى، وَيُقَالُ أَبُوعُمَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۱) (حسن) ( الصحیحۃ ۲۵۶۲، و۱۹۷۹، وتراجع الألبانی ۴۵۰)
۲۴۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت صلاۃ پڑھی تو اس کے لیے دوقسم کی برأت لکھی جائے گی: ایک آگ سے برأت، دوسری نفاق سے برأت''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: انس سے یہ حدیث موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ ابوقتیبہ سلمہ بن قتیبہ کے سوا کسی نے اسے مرفوع روایت کیا ہویہ حدیث حبیب بن ابی حبیب بجلی سے بھی روایت کی جاتی ہے انہوں نے اسے انس بن مالک سے روایت کیا ہے اور اسے انس ہی کا قول قراردیاہے، اسے مرفوع نہیں کیا، نیزاسماعیل بن عیاش نے یہ حدیث بطریق '' عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ '' اسی طرح روایت کی ہے،اوریہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ۱؎ ہے ،عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کازمانہ نہیں پایا۔
وضاحت ۱؎ : مرسل یہاں منقطع کے معنی میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
67- بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
۶۷- باب: صلاۃ شروع کرتے وقت کون سی دعا پڑھے؟​


242- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ بِاللَّيْلِ كَبَّرَ، ثُمَّ يَقُولُ: سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، ثُمَّ يَقُولُ: أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَجُبَيْرِ ابْنِ مُطْعِمٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ أَشْهَرُ حَدِيثٍ فِي هَذَا الْبَابِ. وَقَدْ أَخَذَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ. وَأَمَّا أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:"سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ". وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ. وَقَدْ تُكُلِّمَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ، كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَتَكَلَّمُ فِي عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، و قَالَ أَحْمَدُ: لاَ يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۲ (۷۷۵)، ن/الافتتاح ۱۸ (۹۰۰)، ق/الإقامۃ ۱ (۸۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۵۲)، دي/الصلاۃ ۳۳ (۱۲۷۵) (صحیح)
(یہ اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی اگلی حدیث دونوں کی سندوں میں کچھ کلام ہے اس لیے یہ دونوں حدیثیں متابعات وشواہد کی بناپر صحیح لغیرہ ہیں)
۲۴۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رات کو جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر ''سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ'' (اے اللہ ! پاک ہے توہرعیب اورہرنقص سے، سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، با برکت ہے تیرانام اوربلندہے تیری شان، اور تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں) پڑھتے پھر ''اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا'' (اللہ بہت بڑاہے) کہتے پھر ''أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ'' ( میں اللہ سمیع وعلیم کی شیطان مردود سے،پناہ چاہتا ہوں، اس کے وسوسوں سے ،اس کے کبرونخوت سے اور اس کے اشعاراورجادوسے)کہتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، عائشہ، عبداللہ بن مسعود ، جابر ، جبیر بن مطعم اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں ابوسعید کی حدیث سب سے زیادہ مشہور ہے، ۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کو اختیارکیاہے، رہے اکثر اہل علم تو ان لوگوں نے وہی کہاہے جونبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ آپ ''سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ ''کہتے تھے ۲؎ اوراسی طرح عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ۴- ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔ یحیی بن سعید راوی حدیث علی بن علی رفاعی کے بارے میں کلام کرتے تھے۔اوراحمد کہتے تھے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : دعاء استفتاح کے سلسلہ میں سب سے زیادہ صحیح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ''اللهم باعد بيني وبين خطاي''الخ ہے کیونکہ اس کی تخریج بخاری اورمسلم دونوں نے کی ہے،پھر اس کے بعدعلی رضی اللہ عنہ کی روایت''إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض'' الخ ہے اس لیے کہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے، بعض لوگوں نے اس روایت کے سلسلہ میں یہ کہا ہے کہ امام مسلم نے اس کی تخریج صلاۃ اللیل میں کی جس سے یہ پتاچلتاہے کہ یہ دعا صلاۃِ تہجدکے لیے مخصوص ہے اورفرض صلاۃ میں یہ مشروع نہیں،لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مسلم میں صلاۃ اللیل میں دوطریق سے منقول ہے لیکن کسی میں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ یہ دعاآپ صرف تہجدمیں پڑھتے تھے، اورامام ترمذی نے ابواب الدعوات میں تین طرق سے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن کسی میں بھی نہیں ہے کہ آپ تہجدمیں اسے پڑھتے تھے، اس کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ جب آپ فرض صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعاپڑھتے تھے، ابوداودنے بھی اپنی سنن میں کتاب الصلاۃ میں اسے دوطریق سے نقل کیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعاآپ تہجدمیں پڑھتے تھے، بلکہ اس کے برعکس ایک میں یہ ہے کہ آپ جب فرض صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تواس وقت یہ دعاپڑھتے،اسی طرح دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ جب فرض صلاۃشروع کرتے تو ''إني وجهت وجهي'' پڑھتے ،ان احادیث کی روشنی میں یہ قول کہ ''یہ نفلی صلاۃ کے ساتھ مخصوص ہے'' صحیح نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ والی مذکوردعاء اورعمربن الخطاب وابن مسعود رضی اللہ عنہم والی دعامیں فرق یہ ہے کہ ابوسعیدوالی میں ذرا اضافہ ہے جیسے '' الله أكبر كبيراً'' اور'' رأعوذ بالله...من همزه ونفخه ''جبکہ عمر رضی اللہ عنہ والی میں یہ اضافہ نہیں ہے اورسند اور تعامل کے لحاظ سے یہی زیادہ صحیح ہے۔


243- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ قَالَ: سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَحَارِثَةُ قَدْ تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. وَأَبُو الرِّجَالِ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَدِينِيُّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۲ (۷۷۶)، ق/الإقامۃ ۱ (۸۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۵)، وکذا: ۱۶۰۴۱)
(صحیح)
(حارثہ بن ابی الرجال ضعیف ہیں، جیسا کہ خود مؤلف نے کلام کیاہے ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۴۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ شروع کرتے تو '' سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ''کہتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- حارثہ کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاگیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
68- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجَهْرِ بِـ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
۶۸- باب: بسم اللہ الرحمن الرحیم زورسے نہ پڑھنے کا بیان​


244- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ، عَنْ ابْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: سَمِعَنِي أَبِي، وَأَنَا فِي الصَّلاَةِ أَقُولُ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَقَالَ لِي: أَيْ بُنَيَّ! مُحْدَثٌ! إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ، قَالَ: وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ فِي الإِسْلاَمِ، يَعْنِي مِنْهُ، قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقُولُهَا، فَلاَ تَقُلْهَا إِذَا أَنْتَ صَلَّيْتَ فَقُلْ: {الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَغَيْرُهُمْ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَوْنَ أَنْ يَجْهَرَ بِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالُوا: وَيَقُولُهَا فِي نَفْسِهِ.
* تخريج: ن/الإفتتاح ۲۲ (۹۰۹)، ق/الإقامۃ ۴ (۸۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۷)، حم (۴/۵۸)، و(۵/۵۴، ۵۵) (ضعیف)
(بعض ائمہ نے ''ابن عبداللہ بن مغفل ''کو مجہول قراردے کراس روایت کو ضعیف قراردیاہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام ''یزید'' بتایاہے، اور حافظ ابن حجرنے ان کو ''صدوق''قراردیاہے)
۲۴۴- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے صلاۃمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا:بیٹے!یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جوان سے زیادہ اسلام میں بدعت کامخالف ہو، میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان ( رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اُونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، توتم بھی اسے نہ کہو ۱؎ ، جب تم صلاۃ پڑھو توقرأت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی وغیرہ شامل ہیں اوران کے بعدکے تابعین میں سے اکثراہل علم کا عمل اسی پر ہے،اوریہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ'' بسم اللہ الرحمن الرحیم ''زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کاکہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''تم بھی اسے نہ کہو''سے بظاہرایسالگتاہے کہ انہوں نے سرے سے ''بسم اللہ'' پڑھنے ہی سے منع کیاہے، لیکن بہتریہ ہے کہ اسے جہر(بلندآواز)سے پڑھنے سے روکنے پرمحمول کیاجائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ'' ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا''،اس جملے کا تعلق بلندآوازسے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جوجہر(زور)سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : بسم اللہ کے زورسے پڑھنے کے متعلق جواحادیث آئی ہیں ان میں سے اکثرضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجرکی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ''صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولاالضالين فقال آمين وقال الناس آمين'' الحدیث، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اوربھی لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں ''بسم اللہ'' کاذکرنہیں ہے، اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ نعیم المحجرثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اورجہراً دونوں طرح سے جائزہے لیکن اکثراورزیادہ ترصحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں۔ (دیکھئے حدیث رقم:۲۴۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
69- بَاب مَنْ رَأَى الْجَهْرَ بِـ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
۶۹- باب: جن کی رائے بسم اللہ الرحمن الرحیم زورسے پڑھنے کی ہے​


245-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ ابْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَفْتَتِحُ صَلاَتَهُ بْ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ. وَقَدْ قَالَ بِهَذَا عِدَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُو هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ: رَأَوْا الْجَهْرَ بْ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ حَمَّادٍ، هُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ. وَأَبُو خَالِدٍ يُقَالُ: هُوَ أَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ، وَاسْمُهُ <هُرْمُزُ> وَهُوَ كُوفِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۳۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابوخالدالوالبی لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں)
۲۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنی صلاۃ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے شروع کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس کی سند قوی نہیں ہے، ۲- صحابہ کرام میں سے جن میں ابوہریرہ ، ابن عمر، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں اوران کے بعدتابعین میں سے کئی اہل علم''بسم اللہ الرحمن الرحیم''زورسے کہنے کے قائل ہیں، اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
70- بَاب مَا جَاءَ فِي افْتِتَاحِ الْقِرَائَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
۷۰- باب: '' الحمد للہ رب العالمین'' سے قرأت شروع کرنے کا بیان​


246- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَفْتَتِحُونَ الْقِرَائَةَ بِالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَائَةَ: بِالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَائَةَ: بِالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، مَعْنَاهُ: أَنَّهُمْ كَانُوا يَبْدَئُونَ بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابَ قَبْلَ السُّورَةِ، وَلَيْسَ مَعْنَاهُ أَنَّهُمْ كَانُوا لاَ يَقْرَئُونَ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. وَكَانَ الشَّافِعِيُّ يَرَى أَنْ يُبْدَأَ بِبِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَأَنْ يُجْهَرَ بِهَا إِذَا جُهِرَ بِالْقِرَائَةِ.
* تخريج: خ/الأذان ۸۹ (۷۴۳)، م/الصلاۃ ۱۳ (۳۹۹)، د/الصلاۃ ۱۲۴ (۷۸۲)، ن/الإفتتاح ۲۰ (۹۰۳)، ق/الإقامۃ ۴ (۸۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۵)، ط/الصلاۃ ۶ (۳۰ )، حم (۳/۱۰۱،۱۱۱،۱۱۴،۱۸۳)، دي/الصلاۃ ۳۴ (۱۲۷۶) (صحیح)
۲۴۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ،ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم الحمد للہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام ،تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ '' الحمد لله رب العالمين''سے قرأت شروع کرتے تھے۔
شافعی کہتے ہیں کہ'' نبی اکرمﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم '' الحمد لله رب العالمين'' سے قرأت شروع کرتے تھے'' کامطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سورت سے پہلے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم '' نہیں پڑھتے تھے، شافعی کی رائے ہے کہ قرأت ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے شروع کی جائے اوراسے بلندآوازسے پڑھاجائے جب قرأت جہرسے کی جائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ '' بسم اللہ الرحمن الرحیم''کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم سبھی قرأت '' الحمد لله رب العالمين'' سے شروع کرتے تھے، اورجہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں '' الحمد لله رب العالمين'' سے مراد سورئہ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ، حدیث کامطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتداسورئہ فاتحہ سے کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
71- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ لاَ صَلاَةَ إِلاَّ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۷۱- باب: سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوتی​


247- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ أَبُو عَبْدِاللهِ الْعَدَنِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيُّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَغَيْرُهُمْ، قَالُوا: لاَتُجْزِءُ صَلاةٌ إِلاَّ بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ. و قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: كُلُّ صَلاَةٍ لَمْ يُقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ. وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ: اخْتَلَفْتُ إِلَى ابْنِ عُيَيْنَةَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَنَةً، وَكَانَ الْحُمَيْدِيُّ أَكْبَرَ مِنِّي بِسَنَةٍ، و سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ، يَقُولُ: حَجَجْتُ سَبْعِينَ حَجَّةً مَاشِيًا عَلَى قَدَمَيَّ.
* تخريج: خ/الأذان ۹۵ (۷۵۶)، م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۴)، د/الصلاۃ ۱۳۶ (۸۲۲)، (بزیادۃ''فصاعدا'')، ن/الإفتتاح ۲۴ (۹۱۱)، ق/الإقامۃ ۱۱ (۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف:۵۱۱۰)، حم (۵/۳۱۴، ۳۲۲)، دي/الصلاۃ ۳۶ (۱۲۷۸) (صحیح)
۲۴۷- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اس کی صلاۃ نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عائشہ ، انس ، ابوقتادہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم جن میں عمر بن خطاب ، علی بن ابی طالب ، جابر بن عبداللہ اورعمران بن حصین وغیرہم رضی اللہ عنہم شامل ہیں کا اسی پرعمل ہے۔ ان لوگوں کاکہناہے کہ سورئہ فاتحہ پڑھے بغیر صلاۃ کفایت نہیں کرتی،علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس صلاۃ میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اورناتمام ہے۔ یہی ابن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃنہیں ہوتی ہے، فرض ہویانفل ہو، خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہاہو یاجماعت سے ہو امام ہو یامقتدی، ہرشخص کے لیے ہررکعت میں سورئہ فاتحہ پڑھناضروری ہے اس کے بغیر صلاۃنہیں ہوگی، اس لیے کہ لا نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مرادہوتی ہے اوریہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے معنی میں اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اوردشوارہواور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ ازروئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال اورافعال کومخصوص طریقے سے اداکرنے کا نام ہے، لہذا بعض یاکل کی نفی سے اس کی نفی ہوجائے گی اور اگربالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی تو وہ معنی مرادلیاجائے گاجوذات سے قریب ترہواوروہ صحت ہے نہ کہ کمال اس لیے کہ صحت اورکمال دونوں مجازمیں سے ہیں، صحت ذات سے اقرب اورکمال ذات سے ابعدہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مرادہوگی جوذات سے اقرب ہے، نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلہ میں ذات سے ابعد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّأْمِينِ
۷۲- باب: آمین کہنے کا بیان​


248- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} فَقَالَ: آمِينَ، وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّأْمِينِ، وَلاَ يُخْفِيهَا. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} فَقَالَ:"آمِينَ"، وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ فِي هَذَا، وَأَخْطَأَ شُعْبَةُ فِي مَوَاضِعَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ: عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ، وَإِنَّمَا هُوَ حُجْرُ بْنُ عَنْبَسٍ، وَيُكْنَى أَبَا السَّكَنِ، وَزَادَ فِيهِ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، وَلَيْسَ فِيهِ: عَنْ عَلْقَمَةَ، وَإِنَّمَا هُوَ: عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَقَالَ: وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ، وَإِنَّمَا هُوَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: حَدِيثُ سُفْيَانَ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، قَالَ: وَرَوَى الْعَلاَءُ بْنُ صَالِحٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۲)، ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، ق/الإقامۃ ۱۴ (۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵۸)، حم (۴/۳۱۵)، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)
۲۴۸- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پڑھ کر، آمین کہتے سنا، اوراس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی۔(یعنی بلندکی)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی آمین کہنے میں اپنی آواز بلند کرے اسے پست نہ رکھے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
٭(شاذ ) ۴- شعبہ نے یہ حدیث بطریق '' سلمة بن كهيل، عن حُجر أبي العنبس، عن علقمة بن وائل، عن أبيه وائل '' روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پڑھا توآپ نے آمین کہی اوراپنی آواز پست کی، ۵- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث میں کئی مقامات پر غلطیاں کی ہیں ۱؎ انہوں نے حجر ابی عنبس کہاہے، جب کہ وہ حجر بن عنبس ہیں اور ان کی کنیت ابوالسکن ہے اور اس میں انہوں نے ''عن علقمة بن وائل'' کاواسطہ بڑھادیاہے جب کہ اس میں علقمہ کاواسطہ نہیں ہے، حجر بن عنبس براہ راست حجرسے روایت کررہے ہیں، اور وخفض بها صوته (آواز پست کی) کہاہے، جب کہ یہ ومدّ بها صوته ( اپنی آواز کھینچی) ہے، ۶- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ اور علاء بن صالح اسدی نے بھی سلمہ بن کہیل سے سفیان ہی کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شعبہ نے اس حدیث میں تین غلطیاں کی ہیں ایک تو انہوں نے حجرابی عنبس کہا ہے جب کہ یہ حجربن عنبس ہے دوسری یہ کہ انہوں نے حجربن عنبس اوروائل بن حجر کے درمیان علقمہ بن وائل کے واسطے کااضافہ کردیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے اورتیسری یہ کہ انہوں نے و'' خفض بها صوته '' کہاہے جب کہ ''مدّ بها صوته'' ہے ۔
وضاحت ۲؎ : گویاسفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس حدیث کی روایت میں علاء بن صالح اسدی نے سفیان کی متابعت کی ہے۔(جوآگے آرہی ہے)


249- قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ صَالِحٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ.
* تخريج: حم (۴/۳۱۷)، وکذا الدارمي انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۴۹- اس سندسے بھی وائل حجر رضی اللہ عنہ سے سفیان کی (پچھلی) روایت جیسی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
73- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّأْمِينِ
۷۳- باب: آمین کہنے کی فضیلت کا بیان​


250- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۱ (۷۸۰)، و۱۱۳ (۷۸۲)، وتفسیر (۴۴۷۵)، م/الصلاۃ ۱۸ (۴۱۰)، د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۴)، ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۶)، ق/الإقامۃ ۱۴ (۸۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۳۰، ۱۵۲۴۰)، ط/الصلاۃ ۱۱ (۴۶)، حم (۲/۲۳۸، ۴۶۹)، دي/الصلاۃ ۳۸ (۱۲۸۱) (صحیح)
۲۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔ اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
 
Top