• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45-بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما
۴۵-باب: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3826- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَى فِي بَيْتِ الزُّبَيْرِ مِصْبَاحًا فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ! مَا أُرَى أَسْمَائَ إِلاَّ قَدْ نُفِسَتْ فَلا تُسَمُّوهُ حَتَّى أُسَمِّيَهُ؛ فَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ، وَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ بِيَدِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۴۳) (حسن)
۳۸۲۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (خواب میں) زبیر کے گھر میں ایک چراغ دیکھا تو آپ نے عائشہ سے فرمایا:'' عائشہ ! میں یہی سمجھاہوں کہ اسماء کے یہاں ولادت ہونے والی ہے، تو اس کانام تم لوگ نہ رکھنا، میں رکھوں گا، تو آپ ﷺنے ان کا نام عبداللہ رکھا، اور اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے ذریعہ ان کی تحنیک کی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے چباکر ان کے منہ میں ڈال دیا جس کے منہ میں اللہ کے نبیﷺ کا لعاب دہن گیاوہ منہ کتنا مبارک ہوگیا!! {ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء } (الجمعة:4)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46-بَاب مَنَاقِبِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۶-باب: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3827- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَمِعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ صَوْتَهُ فَقَالَتْ: بِأَبِي وَأُمِّي يَارَسُولَ اللَّهِ! أُنَيْسٌ قَالَ: فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاَثَ دَعَوَاتٍ قَدْ رَأَيْتُ مِنْهُنَّ اثْنَتَيْنِ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَرْجُو الثَّالِثَةَ فِي الآخِرَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۳۲ (۲۴۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۵۱۵) (صحیح)
۳۸۲۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گزرے تو میری ماں ام سلیم نے آپ کی آواز سن کر بولیں: میرے باپ اورمیری ماں آپ پر فداہوں اللہ کے رسول ! یہ انیس ۱؎ ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے تین دعائیں کیں، ان میں سے دو کو تو میں نے دنیا ہی میں دیکھ لیا ۲؎ اور تیسرے کا آخرت میں امید وار ہوں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اور وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : انیس یہ انس کی تصغیر ہے۔
وضاحت ۲؎ : ان دونوں دعاؤں کا تعلق مال و اولاد کی کثرت سے تھا، انس رضی اللہ عنہ کا خود بیان ہے کہ میری زمین سال میں دو مرتبہ پیداواردیتی تھی، اور میری اولاد میں میرے پوتے اور نواسے اس کثرت سے ہوئے کہ ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔(دیکھئے اگلی حدیث رقم: ۳۸۴۶)۔
وضاحت ۳؎ : اس دعا کا تعلق گناہوں کی مغفرت سے تھا جو انہیں آخرت میں نصیب ہوگی۔ إن شاء اللہ۔


3828- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: رُبَّمَا قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: «يَا ذَا الأُذُنَيْنِ"، قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي يُمَازِحُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۱۹۲ (صحیح)
۳۸۲۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی نبی اکرم ﷺ مجھے کہتے : ''اے دوکانوں والے''۔ابواسامہ کہتے ہیں: یعنی آپ ان سے یہ مذاق کے طورپر فرماتے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اورمذاق کسی محبوب آدمی ہی سے کیا جاتاہے ۔


3829- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الدعوات ۴۷ (۶۳۷۸، ۶۳۸۰)، م/فضائل الصحابۃ ۳۲ (۲۴۸۰) (صحیح)
۳۸۲۹- ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! انس آپ کا خادم ہے، آپ اللہ سے اس کے لیے دعا فرمادیجئے ۔آپ نے فرمایا:'' اے اللہ ! اس کے مال اور اولاد میں زیادتی عطا فرما اورجوتونے اسے عطا کیا ہے اس میں برکت دے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دیکھئے پچھلی حدیث کے حواشی۔


3830- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَنَّانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَقْلَةٍ كُنْتُ أَجْتَنِيهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي نَصْرٍ، وَأَبُونَصْرٍ هُوَ خَيْثَمَةُ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ الْبَصْرِيُّ رَوَى عَنْ أَنَسٍ أَحَادِيثَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۲۶) (ضعیف)
(سندمیں خیثمہ ابونصر العبدی لین الحدیث راوی ہیں)
۳۸۳۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری کنیت ایک ساگ (گھاس) کے ساتھ رکھی جسے میں چن رہاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف جابر جعفی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ ابونصر سے روایت کرتے ہیں،۲- ا بونصر کانام خیثمہ بن ابی خیثمہ بصری ہے، انہوں نے انس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں ۔


3831-حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ أَبُوعَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِىُّ قَالَ: قَالَ لِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَا ثَابِتُ! خُذْ عَنِّي فَإِنَّكَ لَنْ تَأْخُذَ عَنْ أَحَدٍ أَوْثَقَ مِنِّي إِنِّي أَخَذْتُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيلَ وَأَخَذَهُ جِبْرِيلُ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۱) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں میمون بن ابان مجہول الحال راوی ہے)
۳۸۳۱- ثابت بنانی کا بیان ہے کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ثابت مجھ سے علم دین حاصل کرو کیوں کہ اس کے لیے تم مجھ سے زیادہ معتبر آدمی کسی کو نہیں پاؤگے، میں نے اسے (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے لیا ہے، اور آپ ﷺنے جبرئیل سے اور جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے لیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کی روایت سے جانتے ہیں۔


3832- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِاللَّهِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَعْقُوبَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَأَخَذَهُ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ جِبْرِيلَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)
۳۸۳۲- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے ابراہیم بن یعقوب والی حدیث ہی کی طرح حدیث مروی ہے، لیکن اس میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے جبرئیل سے لیا ہے۔


3833- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي الْعَالِيَةِ: سَمِعَ أَنَسٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: خَدَمَهُ عَشْرَ سِنِينَ، وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ ﷺ وَكَانَ لَهُ بُسْتَانٌ يَحْمِلُ فِي السَّنَةِ الْفَاكِهَةَ مَرَّتَيْنِ، وَكَانَ فِيهَا رَيْحَانٌ كَانَ يَجِيئُ مِنْهُ رِيحُ الْمِسْكِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَقَدْ أَدْرَكَ أَبُو خَلْدَةَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَرَوَى عَنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۵) (صحیح)
۳۸۳۳- ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا : کیا انس نے نبی اکرم ﷺ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: انس نے نبی اکرم ﷺکی دس سال خدمت کی ہے اورآپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے، اور انس کا ایک باغ تھا جو سال میں دو بار پھلتا تھا، اور اس میں ایک خوشبو دار پودا تھا جس سے مشک کی بو آتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ابوخلدہ کانام خالد بن دینار ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اور ابوخلدہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہے، اور انہوں نے ان سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47-بَاب مَنَاقِبِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۷-باب: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3834- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَبَسَطْتُ ثَوْبِي عِنْدَهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ فَجَمَعَهُ عَلَى قَلْبِي فَمَا نَسِيتُ بَعْدَهُ حَدِيثًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مابعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۵) (حسن الإسناد)
۳۸۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلادی، آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا، اس کے بعدسے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3835- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَائَ فَلاَ أَحْفَظُهَا قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَكَ؛ فَبَسَطْتُهُ فَحَدَّثَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/العلم ۴۲ (۱۱۹)، والمناقب ۲۸ (۳۶۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۱۵) (صحیح)
۳۸۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یادنہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا:'' اپنی چادر پھیلاؤ، تو میں نے اسے پھیلادیا ، پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں، تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور ابوہریرہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔


3836- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَائٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لأَبِي هُرَيْرَةَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! أَنْتَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَحْفَظَنَا لِحَدِيثِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۷) (صحیح الإسناد)
۳۸۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ سے کہا: ابوہریرہ ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3837- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! أَرَأَيْتَ هَذَا الْيَمَانِيَّ يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ أَهُوَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْكُمْ نَسْمَعُ مِنْهُ مَا لاَ نَسْمَعُ مِنْكُمْ أَوْ يَقُولُ: عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ قَالَ: أَمَّا أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ فَلا أَشُكُّ إِلاَّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَذَاكَ أَنَّهُ كَانَ مِسْكِينًا لاَ شَيْئَ لَهُ ضَيْفًا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَدُهُ مَعَ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَكُنَّا نَحْنُ أَهْلَ بُيُوتَاتٍ وَغِنًى، وَكُنَّا نَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ طَرَفَيْ النَّهَارِ فَلاَ أَشُكُّ إِلاَّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَلاَ نَجِدُ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۰) (ضعیف الإسناد)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)
۳۸۳۷- مالک بن ابوعامرکہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آکرکہا : اے ابومحمد! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے، ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی بات گھڑکر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی، تو انہوں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں، واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان رہتے تھے، ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ پڑتاتھا، اور ہم گھر بار والے تھے اور مالدار لوگ تھے، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آپاتے تھے، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں، اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤگے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔


3838- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ: "مِمَّنْ أَنْتَ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ، وَأَبُوالْعَالِيَةِ اسْمُهُ رُفَيْعٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۴) (صحیح)
۳۸۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں قبیلہ دوس کاہوں''، آپ نے فرمایا:'' میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جس میں خیر ہو گی'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ابوخلدہ کانام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے ۔


3839- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَضَمَّهُنَّ، ثُمَّ دَعَا لِي فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَقَالَ: خُذْهُنَّ، وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِكَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا؛ فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ، وَلا تَنْثُرْهُ نَثْرًا فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ، وَنُطْعِمُ، وَكَانَ لاَيُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۳) (صحیح)
( شواہد کی بناپر صحیح ہے، الصحیحۃ: ۳۹۶۳ ، تراجع الالبا نی ۲۲۷)
۳۸۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ان میں برکت کی دعا فرمادیجئے ،تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا: ''انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لو، اسے بکھیرو نہیں چنانچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ۱؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر(کہیں) گر گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : خیروبرکت کی دعاء اللہ کے رسول ﷺکسی مقبولِ بارگاہ الٰہی آدمی کے لیے کرسکتے ہیں؟ ثابت ہواکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مقبول بارگاہ الٰہی تھے( رضی اللہ عنہ )


3840- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي هُرَيْرَةَ: لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي قُلْتُ: بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي لأَهَابُكَ قَالَ: كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي، وَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ؛ فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ؛ فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي؛ فَلَعِبْتُ بِهَا فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۶۰) (حسن الإسناد)
۳۸۴۰- عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی ! میں آپ سے ڈرتاہوں ، پھر انہوں نے کہا: میں اپنے گھروالوں کی بکریاں چراتاتھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3841- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَيْسَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنِّي إِلاَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ، وَكُنْتُ لاَ أَكْتُبُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۶۶۸) (صحیح)
۳۸۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کویاد نہیں، سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیوں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : لکھ لینے کے باوجودعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں ہیں، یہ صرف ان کا گمان تھا کہ لکھ دینے کی وجہ سے زیادہ ہونگی ، نیز اس روایت میں یہ بات بھی ہے کہ عہدنبوی میں بھی لوگ احادیث رسول لکھا کرتے تھے، خودابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بعد میں تحریری شکل میں احادیث کا مجموعہ ہوگیاتھا۔یہ بھی واضح رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے علم حدیث کے سیکھنے سکھانے کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنالیاتھا،جب سے مدینہ آئے ، رسول اکرمﷺکے ساتھ دن رات رہ کر احادیث کا علم حاصل کیا، بعدمیں ۵۷ھ سے ۵۸ھ تک اسی کے نشرواشاعت میں مدینۃ الرسول اور مسجدرسول میں بیٹھ کر مشغول رہے ، جب کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما نے مدینہ چھوڑکر طائف کی سکونت اختیارکرلی ، اور شاید اسی وجہ سے آپ کی احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48-بَاب مَنَاقِبِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما
۴۸-باب: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3842- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۸) (صحیح)
۳۸۴۲- صحابی رسول عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ''اے اللہ ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنادے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوریہ دعاآپ کی ان دعاؤں میں سے نہیں ہے جو قبول نہیں ہوئیں تھیں، یہ مقبول دعاؤں میں سے ہے ،ثابت ہواکہ معاویہ رضی اللہ عنہ خودہدایت پرتھے اورلوگوں کے لیے ہدایت کا معیارتھے، رضی اللہ عنہ ۔


3843- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ قَالَ: لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ حِمْصَ وَلَّى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ النَّاسُ: عَزَلَ عُمَيْرًا، وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ عُمَيْرٌ: لاَ تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلاَّ بِخَيْرٍ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ قَالَ: وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ يُضَعَّفُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۲) (صحیح)
(سند میں عمرو بن واقد ضعیف ہے،اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۸۴۳- ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیااور ان کی جگہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا : انہوں نے عمیر کو معزول کردیا اور معاویہ کووالی بنایا، تو عمیر نے کہا: تم لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :'' اے اللہ ! ان کے ذریعہ ہدایت دے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- عمرو بن واقد حدیث میں ضعیف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49-بَاب مَنَاقِبِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۹-باب: عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3844- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَسْلَمَ النَّاسُ وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۷) (حسن)
۳۸۴۴- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لوگ اسلام لائے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ایمان لائے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ مشرح بن ہاعان سے روایت کرتے ہیں اوراس کی سندزیادہ قوی نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے ایک سال یا دو سال پہلے اسلام لاکر مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے، اور اہل مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان کی بنسبت عمر و بن عاص کا اسلام لانا کسی زور و زبردستی اور خوف و ہراس سے بالاتر تھا اسی لیے آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ دوسرے لوگ (جولوگ فتح مکہ کے دن ایمان لائے وہ) تو خوف و ہراس کے عالم میں اسلام لائے، لیکن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کا ایمان ان کے دلی اطمینان اور چاہت و رغبت کا مظہر ہے، گویا اللہ نے انہیں اس ایمان قلبی سے نوازا ہے جس کا درجہ بڑھا ہواہے۔


3845- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مِنْ صَالِحِي قُرَيْشٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، وَنَافِعٌ ثِقَةٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُدْرِكْ طَلْحَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰۱) (ضعیف الإسناد)
( سند میں ابن ابی ملیکہ اور طلحہ کے درمیان انقطاع ہے)
۳۸۴۵- طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف نافع بن عمر جمحی کی روایت سے جانتے ہیں اور نافع ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل نہیں ہے، اورابن ابی ملیکہ نے طلحہ کو نہیں پایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50-بَاب مَنَاقِبِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۰-باب: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3846- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَنْزِلا فَجَعَلَ النَّاسُ يَمُرُّونَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ هَذَا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟" فَأَقُولُ: فُلاَنٌ؛ فَيَقُولُ: "نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا"، وَيَقُولُ: "مَنْ هَذَا" فَأَقُولُ: فُلانٌ؛ فَيَقُولُ: "بِئْسَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا" حَتَّى مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ؛ فَقَالَ: "مَنْ هَذَا؟" فَقُلْتُ: هَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ؛ فَقَالَ: "نِعْمَ عَبْدُاللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُ لِزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ سَمَاعًا مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَهُوَ عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۷) (صحیح) (الصحیحۃ ۱۲۳۷، ۱۸۲۶)
۳۸۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک منزل پر پڑاؤ کیا، جب لوگ آپ کے سامنے سے گزرتے تو آپ پوچھتے : ابوہریرہ! یہ کون ہے؟ میں کہتا : فلاں ہے، تو آپ فرماتے: کیا ہی اچھا بندہ ہے یہ اللہ کا، پھرآپ فرماتے: یہ کون ہے؟ تو میں کہتا : فلاں ہے تو آپ فرماتے : کیا ہی برا بندہ ہے یہ اللہ کا ۱؎ ، یہاں تک کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ نے فرمایا:'' یہ کون ہے؟'' میں نے عرض کیا: یہ خالد بن ولید ہیں، آپ نے فرمایا:'' کیا ہی اچھے بندے ہیں اللہ کے خالد بن ولید، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ زید بن اسلم کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نہیں اور یہ میرے نزدیک مرسل روایت ہے،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : جن لوگوں کے بارے میں آپ نے یہ جملہ ارشادفرمایا شاید وہ منافقین ہوں گے، ورنہ کسی صحابی کے بارے میں آپ ایسانہیں فرماسکتے تھے
وضاحت ۲؎ : خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حق میں آپ کا یہ فرمان عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سچ ثابت ہوا، اللہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دین کی ایسی تائید فرمائی کہ ان کے ہاتھوں متعدد فتوحات حاصل ہوئیں، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حقیقت میں اس ملت کی ایسی تلوار تھے جسے اللہ نے کافروں کی برتری کے لیے میان سے باہر نکالی تھی۔اورخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے وہ اکیلے جرنیل ہیں جنہوں نے زندگی بھرکبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51-بَاب مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۱-باب: سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3847- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثَوْبُ حَرِيرٍ فَجَعَلُوا يَعْجَبُونَ مِنْ لِينِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا؟ لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۹)، مناقب الأنصار ۱۲ (۳۸۰۲)، واللباس ۲۶ (۵۸۳۶)، والأیمان والنذور ۳ (۶۶۴۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۲۴۶۸)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۰) (صحیح)
۳۸۴۷- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ریشمی کپڑے ہدیہ میں آئے ،ان کی نرمی کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے بہتر ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ بھی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : دیگرلفظوں میں آپ نے دنیاہی میں سعدبن معاذکے جنتی ہونے کی خوشخبری سنادی رضی اللہ عنہ ۔


3848- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ: "اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ وَرُمَيْثَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۱۲ (۳۸۰۳)، م/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۲۴۶۶)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۵) (صحیح)
۳۸۴۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا:( اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ(اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہواتھا ):''ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے ) جھوم اٹھا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں اسید بن حضیر ، ابوسعیدخدری اور رمیثہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی:ان کے آسمان پرآجانے کی خوشی میں ، بعض لوگوں نے ''رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے ''مرادلیاہے کہ وہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے ، بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہِ الٰہی ہونے کی دلیل ہے ۔


3849- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا حُمِلَتْ جَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ الْمُنَافِقُونَ: مَا أَخَفَّ جَنَازَتَهُ، وَذَلِكَ لِحُكْمِهِ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "إِنَّ الْمَلاَئِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۵) (صحیح)
۳۸۴۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہا: کتنا ہلکا ہے ان کا جنازہ؟ اور یہ طعن انہوں نے اس لیے کیا کہ سعد نے بنی قریظہ کے قتل کا فیصلہ فرمایاتھا، جب نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:'' فرشتے اسے اٹھائے ہوئے تھے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ جب خندق کی لڑائی سے فارغ ہوگئے اور بنی قریظہ کا رخ کیا تو اس وقت یہ لوگ ایک قلعہ میں محبوس تھے، لشکر اسلام نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا، پھر یہ لوگ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر راضی ہوئے، چنانچہ سعد نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے جنگجو جوان قتل کردیئے جائیں، مال مسلمانوں میں تقسیم ہوں اور عورتیں بچے غلام و لونڈی بنالیے جائیں، آپ ﷺ نے سعد کا یہ فیصلہ بہت پسند فرمایا اور اسی پر عمل ہوا، اسی فیصلہ کی وجہ سے منافقوں نے ان سے جل کر یہ طعن کیا کہ ان کا جنازہ کیسا ہلکا ہے، ان احمقوں کو یہ خبر نہ تھی کہ اسے ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں(یہ ان کے اللہ کے ازحدمحبوب بندہ ہونے کی دلیل ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52-بَاب فِي مَنَاقِبِ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۲-باب: قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3850- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنَ الأَمِيرِ قَالَ الأَنْصَارِيُّ: يَعْنِي مِمَّا يَلِي مِنْ أُمُورِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: خ/الأحکام ۱۲ (۷۱۵۵) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱) (صحیح)
3850/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ قَوْلَ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۸۵۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے لیے ایسے ہی تھے جیسے امیر(کی حفاظت) کے لیے پولس والا ہوتاہے۔ راوی حدیث(محمد بن عبداللہ ) انصاری کہتے ہیں: یعنی وہ ( آپ ﷺکی حفاظت کے لیے) آپ کے بہت سے امور انجام دیاکرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف انصاری کی روایت سے جانتے ہیں۔
۳۸۵۰/م- ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں : ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے اسی جیسی حدیث بیان کی لیکن اس میں انصاری کا قول ذکر نہیں کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53-بَاب مَنَاقِبِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
۵۳-باب: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3851- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ وَلاَ بِرْذَوْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المرضی ۱۵ (۵۶۶۴)، د/الجنائز ۶ (۳۰۹۶)، وانظر ماتقدم برقم ۲۰۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۲۱) (صحیح)
۳۸۵۱- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے ۱؎ ، آپ نہ کسی خچر پر سوارتھے نہ ترکی گھوڑے پر ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری اوردیگرکتب سنن میں ہے کہ ''آپ میری عیادت کوآئے...''بہرحال اس میں جابر رضی اللہ عنہ سے آپﷺ کے غایت درجہ محبت کرنے کی دلیل ہے ، کہ سواری نہ ہونے پرپیدل چل کراُن کی عیا دت کوگئے ، رضی اللہ عنہ ۔


3852- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اسْتَغْفَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةَ الْبَعِيرِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ لَيْلَةَ الْبَعِيرِ مَا رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَبَاعَ بَعِيرَهُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ وَاشْتَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ يَقُولُ جَابِرٌ: لَيْلَةَ بِعْتُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ الْبَعِيرَ اسْتَغْفَرَ لِي خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً وَكَانَ جَابِرٌ قَدْ قُتِلَ أَبُوهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ بَنَاتٍ فَكَانَ جَابِرٌ يَعُولُهُنَّ، وَيُنْفِقُ عَلَيْهِنَّ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَبَرُّ جَابِرًا، وَيَرْحَمُهُ بِسَبَبِ ذَلِكَ هَكَذَا رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ جَابِرٍ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۹۱) (ضعیف)
(ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)
۳۸۵۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے'' ليلة البعير'' (اونٹ کی رات) میں میرے لیے پچیس بار دعائے مغفرت کی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ان کے قول''ليلة البعير'' اونٹ کی رات سے وہ رات مراد ہے جو جابر سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ وہ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، انہوں نے اپنا اونٹ نبی اکرمﷺ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینہ تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط رکھ لی، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ اونٹ بیچا آپ نے پچیس بار میرے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
اور جابر کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہما احد کے دن شہید کردیئے گئے تھے اور انہوں نے کچھ لڑکیاں چھوڑی تھیں ، جابر ان کی پرورش کرتے تھے اور ان پر خرچ دیتے تھے، اس کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے اور ان پر رحم کرتے تھے،۳- اسی طرح ایک اور حدیث میں جابر سے ایسے ہی مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54-بَاب مَنَاقِبِ مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۴-باب: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3853- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ؛ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ؛ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا، وَإِنَّ مُصْعَبَ بْنَ عُمَيْرٍ مَاتَ، وَلَمْ يَتْرُكْ إِلاَّ ثَوْبًا كَانُوا إِذَا غَطَّوْا بِهِ رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاهُ، وَإِذَا غَطَّوْا بِهِ رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "غَطُّوا رَأْسَهُ وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ الإِذْخِرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۲۷ (۱۲۷۶)، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۷)، والمغازي ۱۷ (۴۰۴۷)، و۲۶ (۴۰۸۲)، والرقاق ۷ (۶۴۳۲)، ۱۶ (۶۴۴۸)، م/الجنائز ۱۳ (۹۴۰)، د/الوصایا ۱۱ (۲۸۷۶)، ن/الجنائز ۴۰ (۱۹۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۴)، وحم (۵/۱۰۹، ۱۱۲) (صحیح)
3853/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۵۳- خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی ۱؎ ، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجراللہ پر ثابت ہوگیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں ) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آورہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپاجاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سرکھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ان کا سرڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذ خر گھاس ڈال دو '' ۴؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۸۵۳/م- ہم سے ہناد نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، اور ابن ادریس نے اعمش سے ، اعمش نے ابووائل شفیق بن سلمہ سے اور ابووائل نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ کے حکم سے ہجرت کی ، ورنہ ہجرت میں آپ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپ کے آگے پیچھے ہجرت کی اوربالآخر سب مدینہ پہنچے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اللہ کے اپنے اوپرآپ خودسے واجب کرنے پر، ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کرسکتاہے، یا آپ نے ایسااس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے، اوراللہ کا وعدہ سچا پکاہوتاہے۔
وضاحت۳؎ : یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کوموقع نہیں ملا، ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی ۔
وضاحت۴؎ : چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہواتھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔
 
Top