47-بَاب مَنَاقِبِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۴۷-باب: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان
3834- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَبَسَطْتُ ثَوْبِي عِنْدَهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ فَجَمَعَهُ عَلَى قَلْبِي فَمَا نَسِيتُ بَعْدَهُ حَدِيثًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مابعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۵) (حسن الإسناد)
۳۸۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلادی، آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا، اس کے بعدسے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
3835- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَائَ فَلاَ أَحْفَظُهَا قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَكَ؛ فَبَسَطْتُهُ فَحَدَّثَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/العلم ۴۲ (۱۱۹)، والمناقب ۲۸ (۳۶۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۱۵) (صحیح)
۳۸۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یادنہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا:'' اپنی چادر پھیلاؤ، تو میں نے اسے پھیلادیا ، پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں، تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور ابوہریرہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔
3836- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَائٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لأَبِي هُرَيْرَةَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! أَنْتَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَحْفَظَنَا لِحَدِيثِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۷) (صحیح الإسناد)
۳۸۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ سے کہا: ابوہریرہ ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
3837- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! أَرَأَيْتَ هَذَا الْيَمَانِيَّ يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ أَهُوَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْكُمْ نَسْمَعُ مِنْهُ مَا لاَ نَسْمَعُ مِنْكُمْ أَوْ يَقُولُ: عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ قَالَ: أَمَّا أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ فَلا أَشُكُّ إِلاَّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَذَاكَ أَنَّهُ كَانَ مِسْكِينًا لاَ شَيْئَ لَهُ ضَيْفًا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَدُهُ مَعَ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَكُنَّا نَحْنُ أَهْلَ بُيُوتَاتٍ وَغِنًى، وَكُنَّا نَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ طَرَفَيْ النَّهَارِ فَلاَ أَشُكُّ إِلاَّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَلاَ نَجِدُ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۰) (ضعیف الإسناد)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)
۳۸۳۷- مالک بن ابوعامرکہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آکرکہا : اے ابومحمد! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے، ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی بات گھڑکر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی، تو انہوں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں، واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان رہتے تھے، ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ پڑتاتھا، اور ہم گھر بار والے تھے اور مالدار لوگ تھے، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آپاتے تھے، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں، اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤگے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔
3838- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ: "مِمَّنْ أَنْتَ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ، وَأَبُوالْعَالِيَةِ اسْمُهُ رُفَيْعٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۴) (صحیح)
۳۸۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں قبیلہ دوس کاہوں''، آپ نے فرمایا:'' میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جس میں خیر ہو گی'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ابوخلدہ کانام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے ۔
3839- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَضَمَّهُنَّ، ثُمَّ دَعَا لِي فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَقَالَ: خُذْهُنَّ، وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِكَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا؛ فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ، وَلا تَنْثُرْهُ نَثْرًا فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ، وَنُطْعِمُ، وَكَانَ لاَيُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۳) (صحیح)
( شواہد کی بناپر صحیح ہے، الصحیحۃ: ۳۹۶۳ ، تراجع الالبا نی ۲۲۷)
۳۸۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ان میں برکت کی دعا فرمادیجئے ،تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا: ''انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لو، اسے بکھیرو نہیں چنانچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ۱؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر(کہیں) گر گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : خیروبرکت کی دعاء اللہ کے رسول ﷺکسی مقبولِ بارگاہ الٰہی آدمی کے لیے کرسکتے ہیں؟ ثابت ہواکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مقبول بارگاہ الٰہی تھے( رضی اللہ عنہ )
3840- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي هُرَيْرَةَ: لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي قُلْتُ: بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي لأَهَابُكَ قَالَ: كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي، وَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ؛ فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ؛ فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي؛ فَلَعِبْتُ بِهَا فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۶۰) (حسن الإسناد)
۳۸۴۰- عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی ! میں آپ سے ڈرتاہوں ، پھر انہوں نے کہا: میں اپنے گھروالوں کی بکریاں چراتاتھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
3841- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَيْسَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنِّي إِلاَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ، وَكُنْتُ لاَ أَكْتُبُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۶۶۸) (صحیح)
۳۸۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کویاد نہیں، سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیوں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : لکھ لینے کے باوجودعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں ہیں، یہ صرف ان کا گمان تھا کہ لکھ دینے کی وجہ سے زیادہ ہونگی ، نیز اس روایت میں یہ بات بھی ہے کہ عہدنبوی میں بھی لوگ احادیث رسول لکھا کرتے تھے، خودابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بعد میں تحریری شکل میں احادیث کا مجموعہ ہوگیاتھا۔یہ بھی واضح رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے علم حدیث کے سیکھنے سکھانے کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنالیاتھا،جب سے مدینہ آئے ، رسول اکرمﷺکے ساتھ دن رات رہ کر احادیث کا علم حاصل کیا، بعدمیں ۵۷ھ سے ۵۸ھ تک اسی کے نشرواشاعت میں مدینۃ الرسول اور مسجدرسول میں بیٹھ کر مشغول رہے ، جب کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما نے مدینہ چھوڑکر طائف کی سکونت اختیارکرلی ، اور شاید اسی وجہ سے آپ کی احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔