• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
104- بَاب مِنْهُ أَيْضًا
۱۰۴- باب: تشہد سے متعلق ایک اور باب​


290- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، فَكَانَ يَقُولُ:"التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلّهِ، سَلاَمٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، سَلاَمٌ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَإِلهَ إِلاَّ اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، نَحْوَ حَدِيثِ اللَّيْثِ ابْنِ سَعْدٍ. وَرَوَى أَيْمَنُ بْنُ نَابِلٍ الْمَكِّيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَذَهَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَى حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي التَّشَهُّدِ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۶ (۴۰۳)، د/الصلاۃ ۱۸۲ (۹۷۴)، ن/التطبیق ۱۰۳ (۱۱۷۵)، ق/الإقامۃ ۲۴ (۹۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۵۰)، حم (۱/۲۹۲) (صحیح)
۲۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمیں تشہدسکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن سکھاتے تھے اور فرماتے : "التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلّهِ، سَلاَمٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، سَلاَمٌ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ".امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اور عبدالرحمن بن حمید رواسی نے بھی یہ حدیث ابوالزبیر سے لیث بن سعد کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۳- اور ایمن بن نابل مکی نے یہ حدیث ابوالزبیرسے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے،۴- امام شافعی تشہد کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف گئے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دونوں طرح کا تشہدثابت ہے ، دونوں میں سے چاہے جوبھی پڑھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
105-بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يُخْفِي التَّشَهُّدَ
۱۰۵- باب: تشہد آہستہ پڑھنے کا بیان​


291- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مِنْ السُّنَّةِ أَنْ يُخْفِيَ التَّشَهُّدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۸۵ (۹۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۷۲) (صحیح)
۲۹۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سنت سے یہ ہے ۱؎ کہ تشہد آہستہ پڑھاجائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اوراہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب صحابی '' من السنة كذا أو السنة كذا''کہے تو یہ جمہورکے نزدیک مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
106- بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ
۱۰۶- باب: تشہد میں کیسے بیٹھیں؟​


292- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ حُجْرٍ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، قُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَمَّا جَلَسَ -يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ- افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى -يَعْنِي عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى- وَنَصَبَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ.
* تخريج: ن/الافتتاح ۱۱ (۸۹۰)، والتطبیق ۹۷ (۱۱۶۰)، والسہو ۲۹ (۱۲۶۳، ۱۲۶۴)، ق/الإقامۃ ۱۵ (۸۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۴)، حم (۴/۳۱۶، ۳۱۸) (صحیح)
۲۹۲- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیںـ: میں مدینے آیا تومیں نے (اپنے جی میں)کہاکہ میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ ضرور دیکھوں گا۔(چنانچہ میں نے دیکھا) جب آپﷺ تشہد کے لیے بیٹھے توآپ نے اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھااور اپنا دایاں پیر کھڑا رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوریہی سفیان ثوری، اہل کوفہ اور ابن مبارک کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
107- بَاب مِنْهُ أَيْضًا
۱۰۷- باب: تشہد میں بیٹھنے سے متعلق ایک اور باب​


293- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ السَّاعِدِيُّ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرُوا صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ جَلَسَ - يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ - فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى، وَكَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ - يَعْنِي السَّبَّابَةَ-.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. قَالُوا: يَقْعُدُ فِي التَّشَهُّدِ الآخِرِ عَلَى وَرِكِهِ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ. قَالُوا: يَقْعُدُ فِي التَّشَهُّدِ الأَوَّلِ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ الْيُمْنَى.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۶۰ (صحیح)
۲۹۳- عباس بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید،سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے، تو ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کی صلاۃ کاذکر کیا۔ اس پر ابوحمیدکہنے لگے کہ میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ کو تم میں سب سے زیادہ جانتاہوں،رسول اللہﷺتشہدکے لیے بیٹھتے تو آپ اپنا بایاں پیربچھاتے ۱؎ اوراپنے دائیں پیرکی انگلیوں کے سروں کوقبلہ کی طرف متوجہ کرتے، اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پراور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر رکھتے، اور اپنی انگلی (انگشت شہادت) سے اشارہ کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی بعض اہل علم کہتے ہیں اوریہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اخیر تشہد میں اپنے سرین پر بیٹھے، ان لوگوں نے ابوحمید کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ ان کا کہناہے کہ پہلے تشہد میں بائیں پیر پر بیٹھے اور دایاں پیر کھڑا رکھے ۔
وضاحت ۱؎ : افتراش والی یہ روایت مطلق ہے اس میں یہ وضاحت نہیں کہ یہ دونوں تشہدکے لیے ہے یاپہلے تشہدکے لیے، ابوحمید ساعدی کی دوسری روایت میں اس اطلاق کی تبیین موجودہے، اس میں اس بات کوواضح کردیاگیاہے کہ افتراش پہلے تشہدمیں ہے اورتورک آخری تشہد میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
108-بَاب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ
۱۰۸- باب: تشہد میں اشارہ کرنے کا بیان​


294- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاَةِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ الْيُمْنَى، يَدْعُو بِهَا، وَيَدُهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَنُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ. وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
* تخريج: م/المساجد ۲۱ (۵۸۰)، ن/السہو ۳۵ (۱۲۷۰)، ق/الإقامۃ ۲۷ (۹۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۸)، حم (۲/۱۴۷) (صحیح)
۲۹۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ میں بیٹھتے تواپنا دایاں ہاتھ اپنے(دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعاکرتے یعنی اشارہ کرتے ، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پرپھیلائے رکھتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن زبیر ، نمیر خزاعی، ابوہریرہ، ابوحمید اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عمر کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے عبید اللہ بن عمر کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- صحابہ کرام اورتابعین میں سے اہل علم کا اسی پرعمل تھا،یہ لوگ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کوپسندکرتے اوریہی ہمارے اصحاب کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : احادیث میں تشہدکی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پررکھنے کی مختلف ہیئتوں کا ذکرہے، انہیں ہیئتوں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے اس میں انگلیوں کے بندرکھنے کا ذکرنہیں ہے، دوسری یہ ہے کہ خنصربنصراوروسطیٰ (یعنی سب سے چھوٹی انگلی چھنگلیا، اور اس کے بعد والی اوردرمیانی تینوں) کوبندرکھے اورشہادت کی انگلی (انگوٹھے سے ملی ہوئی) کوکھلی چھوڑدے اورانگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑسے ملالے، یہی ترپن کی گرہ ہے، تیسری ہیئت یہ ہے کہ خنصر،بنصر (سب سے چھوٹی یعنی چھنگلیااور اس کے بعد والی انگلی) کو بندکرلے اورشہادت کی انگلی کو چھوڑ دے اورانگوٹھے اوربیچ والی انگلی سے حلقہ بنالے۔چوتھی صورت یہ ہے کہ ساری انگلیاں بندرکھے اورشہادت کی انگلی سے اشارہ کرے، ان ساری صورتوں سے متعلق احادیث واردہیں، جس طرح چاہے کرے ، سب جائزہے ، لیکن یہ واضح رہے کہ یہ ساری صورتیں شروع تشہدہی سے ہیں نہ کہ '' أشهد أن لا إله إلا الله ''کہنے پر ، یا یہ کلمہ کہنے سے لیکربعد تک، کسی بھی حدیث میں یہ تحدید ثابت نہیں ہے ، یہ بعدکے لوگوں کا گھڑاہوا عمل ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
109- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ فِي الصَّلاَةِ
۱۰۹- باب: صلاۃ میں سلام پھیرنے کا بیان​


295-حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهُ كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَمَّارٍ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَعَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۸۹ (۹۹۶)، ن/السہو ۷۱ (۱۳۲۳)، ق/الإقامۃ ۲۸ (۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۰۴)، حم (۱/۳۹۰، ۴۰۶، ۴۰۹، ۴۱۴، ۴۴۴، ۴۴۸)، دي/الصلاۃ ۸۷ (۱۳۸۵) (صحیح)
۲۹۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنے دائیں اور بائیں ''السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ'' کہہ کرسلام پھیرتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد بن ابی وقاص ، ابن عمر، جابر بن سمرہ، براء ، ابوسعید، عمار ، وائل بن حجر، عدی بن عمیرہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے،اوریہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے دونوں طرف دائیں اوربائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، ابوداودکی روایت میں '' حتى يرى بياض خده'' کا اضافہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
110- بَاب مِنْهُ أَيْضًا
۱۱۰- باب: سلام پھیرنے سے متعلق ایک اور باب​


296- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ أَبُو حَفْصٍ التِّنِّيسِيُّ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُسَلِّمُ فِي الصَّلاَةِ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً، تِلْقَاءَ وَجْهِهِ يَمِيلُ إِلَى الشِّقِّ الأَيْمَنِ شَيْئًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَائِشَةَ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَهْلُ الشَّأْمِ يَرْوُونَ عَنْهُ مَنَاكِيرَ، وَرِوَايَةُ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَنْهُ أَشْبَهُ، وَأَصَحُّ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: كَأَنَّ زُهَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي كَانَ وَقَعَ عِنْدَهُمْ لَيْسَ هُوَ هَذَا الَّذِي يُرْوَى عَنْهُ بِالْعِرَاقِ، كَأَنَّهُ رَجُلٌ آخَرُ، قَلَبُوا اسْمَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ قَالَ بِهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّسْلِيمِ فِي الصَّلاَةِ. وَأَصَحُّ الرِّوَايَاتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ تَسْلِيمَتَانِ. وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَرَأَى قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً فِي الْمَكْتُوبَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ شَاءَ سَلَّمَ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً، وَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ تَسْلِيمَتَيْنِ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۲۹ (۹۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۹۵) حم (۶/۲۳۶) (صحیح)
۲۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صلاۃ میں اپنے چہرے کے سامنے داہنی طرف تھوڑاسا مائل ہوکرایک سلام پھیرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہیر بن محمد سے اہل شام منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان سے مروی اہل عراق کی روایتیں زیادہ قرین صواب اورزیادہ صحیح ہیں، ۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کاکہناہے کہ شاید زہیر بن محمد جو اہل شام کے یہاں گئے تھے، وہ نہیں جن سے عراق میں روایت کی جاتی ہے، کوئی دوسرے آدمی ہیں جن کانام ان لوگوں نے بدل دیا ہے،۴- اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۵- صلاۃ میں سلام پھیرنے کے سلسلے میں بعض اہل علم نے یہی کہاہے،لیکن نبی اکرمﷺ سے مروی سب سے صحیح روایت دوسلاموں والی ہے ۱؎ ، صحابہ کرام ، تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ البتہ صحابہ کرام اوران کے علاوہ میں سے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ فرض صلاۃ میں صرف ایک سلام ہے،شافعی کہتے ہیں: چاہے تو صرف ایک سلام پھیر ے اور چاہے تو دوسلام پھیرے۔
وضاحت ۱؎ : اوراسی پر امت کی اکثریت کا تعامل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
111- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ حَذْفَ السَّلاَمِ سُنَّةٌ
۱۱۱- باب: سلام زیادہ نہ کھینچ کرکہنا سنت ہے​


297- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَهِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَذْفُ السَّلاَمِ سُنَّةٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ: قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: يَعْنِي أَنْ لاَ يَمُدَّهُ مَدًّا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: التَّكْبِيرُ جَزْمٌ، وَالسَّلاَمُ جَزْمٌ. وَهِقْلٌ: يُقَالُ: كَانَ كَاتِبَ الأَوْزَاعِيِّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۹۲ (۱۰۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۳)، حم (۲/۵۳۲) (ضعیف)
(سندمیں قرۃکی ثقاہت میں کلام ہے)
۲۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حذف سلام سنت ہے۔ علی بن حجر بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں : حذف سلام کامطلب یہ ہے کہ وہ اسے یعنی سلام کو زیادہ نہ کھینچے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی ہے جسے اہل علم مستحب جانتے ہیں، ۳- ابراہیم نخعی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں تکبیرجزم ہے اورسلام جزم ہے(یعنی ان دونوں میں مدنہ کھینچے بلکہ وقف کرے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
112- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ
۱۱۲- باب: سلام پھیرنے کے بعد کیا پڑھے؟​


298-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا سَلَّمَ لاَ يَقْعُدُ، إِلاَّ مِقْدَارَ مَا يَقُولُ: اللّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ.
* تخريج: م/المساجد ۲۶ (۵۹۲)، د/الصلاۃ ۳۶۰ (۱۵۱۲)، ن/السہو ۸۲ (۱۳۳۹)، ق/الإقامۃ ۳۲ (۹۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۸۷)، حم (۶/۶۲، ۱۸۴، ۲۳۵)، دي/الصلاۃ ۸۸ (۱۳۸۷) (صحیح)
۲۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سلام پھیرتے تو '' اللّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ '' (اے اللہ تو سلام ہے، تجھ سے سلامتی ہے، بزرگی اور عزت والے! تو بڑی برکت والاہے) کہنے کے بقدرہی بیٹھتے۔


299- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ بِهَذَا الإِسْنَادِ: نَحْوَهُ، وَقَالَ: تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ثَوْبَانَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْمُغِيرَةِ ابْنِ شُعْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى خَالِدٌ الْحَذَّاءُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ: نَحْوَ حَدِيثِ عَاصِمٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ التَّسْلِيمِ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، اللّهُمَّ لاَمَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:"سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ، وَسَلاَمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ، وَالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ".
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۹۹- اس سند سے بھی عاصم الاحول سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اوراس میں''تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ'' ( یا کے ساتھ) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،خالد الحذاء نے یہ حدیث بروایت عائشہ عبداللہ بن حارث سے عاصم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۲- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد ''لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، اللّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ'' (اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، وہی زندگی اورموت دیتاہے، وہ ہرچیز پر قادر ہے،اے اللہ! جوتودے اسے کوئی روکنے والانہیں اور جسے تونہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور تیرے آگے کسی نصیب والے کا کوئی نصیب کام نہیں آتا)کہتے تھے، یہ بھی مروی ہے کہ آ پ"سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ، وَسَلاَمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ، وَالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" (پاک ہے تیرا رب جو عزت والاہے ہر اس برائی سے جویہ بیان کرتے ہیں اور سلامتی ہو رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جوسارے جہاں کا رب ہے)بھی کہتے تھے ۱؎ ،۳-اس باب میں ثوبان، ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید ، ابوہریرہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ سے سلام کے بعد مختلف حالات میں مختلف اذکارمروی ہیں اورسب صحیح ہیں ، ان میں کوئی تعارض نہیں ، آپ کبھی کوئی ذکر کرتے اورکبھی کوئی ذکر، اس طرح آپ سے سلام کے بعد قولاًبھی کئی اذکار کا ثبوت ہے۔


300- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو أَسْمَاءَ الرَّحَبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ مِنْ صَلاَتِهِ، اسْتَغْفَرَ اللهَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:"اللّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ يَاذَاالْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو عَمَّارٍ اسْمُهُ شَدَّادُ بْنُ عَبْدِاللهِ.
* تخريج: م/المساجد ۲۶ (۵۹۱)، د/الصلاۃ ۳۶۰ (۱۵۱۳)، ن/السہو ۸۱ (۱۳۳۸)، ق/الإقامۃ ۳۲ (۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۹۹)، حم (۵/۲۷۵، ۲۷۹) (صحیح)
۳۰۰- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صلاۃ سے (مقتدیوں کی طرف) پلٹنے کا ارادہ کرتے تو تین بار استغفر اللہ ( میں اللہ کی مغفرت چاہتاہوں) کہتے، پھر"اللّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ، وَمِنْكَ السَّلاَمُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ "کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: - یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
113- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِنْصِرَافِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ
۱۱۳- باب: (کبھی)اپنے دائیں سے اور(کبھی)اپنے بائیں سے پلٹنے کا بیان​


301- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَؤُمُّنَا، فَيَنْصَرِفُ عَلَى جَانِبَيْهِ جَمِيعًا عَلَى يَمِينِهِ وَعَلَى شِمَالِهِ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يَنْصَرِفُ عَلَى أَيِّ جَانِبَيْهِ شَاءَ، إِنْ شَاءَ عَنْ يَمِينِهِ وَإِنْ شَاءَ عَنْ يَسَارِهِ. وَقَدْ صَحَّ الأَمْرَانِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَيُرْوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ: إِنْ كَانَتْ حَاجَتُهُ عَنْ يَمِينِهِ أَخَذَ عَنْ يَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ حَاجَتُهُ عَنْ يَسَارِهِ أَخَذَ عَنْ يَسَارِهِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۰۴ (۱۰۴۱)، ق/الإقامۃ ۳۳ (۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۳)، حم (۵/۲۲۶) (حسن صحیح)
(سند میں قبیصۃ بن ہلب لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں اس باب میں مروی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث (د/الصلاۃ۲۰۴حدیث رقم : ۱۰۴۲) سے تقویت پاکریہ حدیث حسن صحیح ہے
۳۰۱- ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت فرماتے (توسلام پھیرنے کے بعد)اپنے دونوں طرف پلٹتے تھے (کبھی) دائیں اور( کبھی) بائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، انس ، عبداللہ بن عمرو، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ امام اپنے جس جانب چاہے پلٹ کر بیٹھے چاہے تو دائیں طرف اور چاہے تو بائیں طرف ،نبی اکرمﷺ سے دونوں ہی باتیں ثابت ہیں ۱؎ اورعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگر آپ کی ضرورت دائیں طرف ہوتی تو دائیں طرف پلٹتے اوربائیں طرف ہوتی تو بائیں طرف پلٹتے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے'' لقد رأيت رسول الله ﷺ كثيراً ينصرف عن يساره'' اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے '' أكثر ما رأيت رسول الله ﷺ ينصرف عن يمينه''بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے علم اور مشاہدات کے مطابق یہ بات کہی ہے۔
 
Top