• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
114- بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ الصَّلاَةِ
۱۱۴- باب: صلاۃ کے طریقے کا بیان​


302- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلاَّدِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا، قَالَ رِفَاعَةُ: - وَنَحْنُ مَعَهُ - إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ كَالْبَدَوِيِّ، فَصَلَّى، فَأَخَفَّ صَلاَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ، فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، فَرَجَعَ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:"وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ، فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، فَفَعَلَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ، فَيُسَلِّمُ عَلَى ﷺ، فَيَقُولُ النَّبِيُّ ﷺ:"وَعَلَيْكَ، فَارْجِعْ، فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، فَخَافَ النَّاسُ، وَكَبُرَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَكُونَ مَنْ أَخَفَّ صَلاَتَهُ لَمْ يُصَلِّ، فَقَالَ الرَّجُلُ فِي آخِرِ ذَلِكَ: فَأَرِنِي وَعَلِّمْنِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِيبُ وَأُخْطِئُ، فَقَالَ:"أَجَلْ، إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللهُ، ثُمَّ تَشَهَّدْ، وَأَقِمْ، فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ، وَإِلاَّ فَاحْمَدْ اللهَ، وَكَبِّرْهُ، وَهَلِّلْهُ، ثُمَّ ارْكَعْ، فَاطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ اعْتَدِلْ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ فَاعْتَدِلْ سَاجِدًا، ثُمَّ اجْلِسْ فَاطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ قُمْ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلاَتُكَ، وَإِنْ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلاَتِكَ" قَالَ: وَكَانَ هَذَا أَهْوَنَ عَلَيْهِمْ مِنَ الأَوَّلِ أَنَّهُ مَنْ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا انْتَقَصَ مِنْ صَلاَتِهِ، وَلَمْ تَذْهَبْ كُلُّهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ رِفَاعَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴۸ (۸۵۷ - ۸۶۱)، ن/الأذان ۲۸ (۶۶۸)، والتطبیق ۷۷ (۱۱۳۷)، ق/الطہارۃ ۵۷ (۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴)، حم (۴/۳۴۰)، دي/الصلاۃ ۷۸ (۱۳۶۸) (صحیح)
۳۰۲- رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ، اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا، اس نے آکرصلاۃپڑھی اور بہت جلدی جلدی پڑھی، پھر پلٹ کر آیا اور نبی اکرمﷺ کو سلام کیا تونبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اورتم پربھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃنہیں پڑھی، تو اس شخص نے واپس جاکر پھرسے صلاۃ پڑھی، پھرواپس آیااورآکر اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے پھرفرمایا: اورتمہیں بھی سلام ہو، واپس جاؤ اورپھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی، اس طرح اس نے دوبار یا تین بار کیا ہر باروہ نبی اکرمﷺ کے پاس آکرآپ کو سلام کرتا اورآپ فرماتے :تم پربھی سلام ہو، واپس جاؤ پھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی، تو لو گ ڈرے اوران پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی صلاۃ پڑھی اس کی صلاۃ ہی نہیں ہوئی،آخر اس آدمی نے عرض کیا، آپ ہمیں (پڑھ کر) دکھادیجئے اور مجھے سکھادیجئے، میں انسان ہی تو ہوں،میں صحیح بھی کرتاہوں اورمجھ سے غلطی بھی ہوجاتی ہے، توآپ نے فرمایا: جب تم صلاۃ کے لیے کھڑے ہو نے کا ارادہ کرو تو پہلے وضوکروجیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اذان دو اورتکبیر کہو اوراگرتمہیں کچھ قرآن یادہو تو اسے پڑھو ورنہ الحمد لله، الله أكبر اور لا إله إلا الله کہو،پھر رکوع میں جاؤ اورخوب اطمینان سے رکوع کرو، اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ،پھرسجدہ کرو، اورخوب اعتدال سے سجدہ کرو، پھر بیٹھواورخوب اطمینان سے بیٹھو، پھر اٹھو،جب تم نے ایساکرلیا تو تمہاری صلاۃ پوری ہوگئی اور اگرتم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی صلاۃمیں سے کمی کی، راوی (رفاعہ) کہتے ہیں: تویہ بات انہیں پہلے سے آسان لگی کہ جس نے اس میں سے کچھ کمی کی تو اس نے اتنی ہی اپنی صلاۃسے کمی کی، پوری صلاۃ نہیں گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رفاعہ بن رافع کی حدیث حسن ہے، رفاعہ سے یہ حدیث دوسری سندسے بھی مروی ہے ، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اورعماربن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


303- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ، فَقَالَ:"ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، فَرَجَعَ الرَّجُلُ، فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"ارْجِعْ، فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ"، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلاَثَ مِرَارٍ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ! مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا، فَعَلِّمْنِي، فَقَالَ:"إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَقَدْ رَوَى ابْنُ نُمَيْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَرِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ أَصَحُّ. وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَأَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ اسْمُهُ: كَيْسَانُ. وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ يُكْنَى: أَبَا سَعْدٍ. وَكَيْسَانُ: عَبْدٌ كَانَ مُكَاتَبًا لِبَعْضِهِمْ.
* تخريج: خ/الأذان ۹۵ (۷۵۷)، و۱۲۲ (۷۹۳)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۲۵۱)، م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۷)، د/الصلاۃ ۱۴۸ (۸۵۶)، ن/الافتتاح ۷ (۸۸۵)، والتطبیق ۱۵ (۱۰۵۲)، والسہو ۶۷ (۱۳۱۲)، ق/الإقامۃ ۷۲ (۱۰۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰۴)، حم (۲/۴۳۷) (صحیح)
۳۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں داخل ہوئے اتنے میں ایک اور شخص بھی داخل ہوا ، اس نے صلاۃ پڑھی پھرآکر نبی اکرمﷺ کو سلام کیاتوآپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:''تم واپس جاؤ اورپھر سے صلاۃ پڑھو، کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی''، چنانچہ آدمی نے واپس جاکر صلاۃ پڑھی، جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر نبی اکرمﷺ کے پاس آکرآپ کو سلام کیا توآپ نے سلام کا جواب دیا اورفرمایا:''واپس جاؤ اورپھرسے صلاۃ پڑھو،کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی، یہاں تک اس نے تین بار ایساکیا''،پھراس آدمی نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ لہذاآپ مجھے صلاۃپڑھنا سکھا دیجئے ۔ آپﷺ نے فرمایا: ''تم جب صلاۃ کا ارادہ کرو تو اللہ اکبرکہو پھر جوتمہیں قرآن میں سے یاد ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں تمہیں خوب اطمینان ہوجائے، پھرسراٹھاؤ یہاں تک کہ اچھی طرح کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ خوب اطمینان سے سجدہ کرلو، پھر سراٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اسی طرح سے اپنی پوری صلاۃ میں کرو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن نمیرنے عبیداللہ بن عمرسے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن ''عن أبیہ ''نہیں ذکرکیا ہے ،۳- یحیی القطان کی روایت میں عبداللہ بن عمرعن سعید بن أبی المقبری عن أبیہ عن أبی ہریرہ ہے ، اوریہ زیادہ صحیح ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
115- بَاب مِنْهُ
۱۱۵- باب: طریقہ صلاۃ سے متعلق ایک اور باب​


304- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، أَحَدُهُمْ أَبُوقَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ، يَقُولُ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالُوا: مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً، وَلاَ أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا؟ قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ؟ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، وَرَكَعَ، ثُمَّ اعْتَدَلَ، فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً، ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الأَرْضِ سَاجِدًا، ثُمَّ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ، وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَقَعَدَ عَلَيْهَا، ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً، ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا، ثُمَّ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ، وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ نَهَضَ، ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ، كَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَتِ الرَّكْعَةُ الَّتِي تَنْقَضِي فِيهَا صَلاَتُهُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَقَعَدَ عَلَى شِقِّهِ مُتَوَرِّكًا، ثُمَّ سَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ، يَعْنِي قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۰ (صحیح)
۳۰۴- محمدبن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں سنا (جب) صحابہ کرام میں سے دس لوگوں کے ساتھ تھے، ان میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابوحمید رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ میں تم میں رسول اللہﷺکی صلاۃ کاسب سے زیادہ جانکارہوں،تولوگوں نے کہاکہ تمہیں نہ تو ہم سے پہلے صحبت رسول میسر ہوئی اورنہ ہی تم ہم سے زیادہ نبی اکرمﷺ کے پاس آتے جاتے تھے؟ توانہوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ ﷺکاطریقہ صلاۃزیادہ یادہے) اس پر لوگوں نے کہا(اگرتم زیادہ جانتے ہو)توپیش کرو،توانہوں نے کہا: رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر اللہ اکبرکہتے اوررکوع کرتے اوربالکل سیدھے ہوجاتے، نہ اپنا سربالکل نیچے جھکاتے اورنہ اوپرہی اٹھائے رکھتے اوراپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر ''سمع الله لمن حمده'' کہتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع الیدین کرتے) اورسیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ جسم کی ہرایک ہڈی سیدھی ہوکراپنی جگہ پر لوٹ آتی پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھُکتے، پھر ''اللہ اکبر''کہتے اوراپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جُدا رکھتے، اوراپنے پیروں کی انگلیاں کھُلی رکھتے، پھر اپنابایاں پیر موڑتے اوراس پر بیٹھتے اورسیدھے ہوجاتے یہاں تک کہ ہرہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی، اورآپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ دوسری رکعت سے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھتے تو ''اللہ اکبر''کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں کرتے جیسے اس وقت کیا تھا جب آپ نے صلاۃ شروع کی تھی، پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں صلاۃ ختم ہورہی ہو تو اپنا بایاں پیر مؤخرکرتے یعنی اسے داہنی طرف دائیں پیر کے نیچے سے نکال لیتے اورسرین پر بیٹھتے ،پھرسلام پھیرتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوران کے قول ''َرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ'' (دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ) کامطلب ہے کہ جب دورکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے)کھڑے ہوتے۔


305- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ الْحُلْوَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُوقَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ بِمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ هَذَا الْحَرْفَ، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: زَادَ أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ هَذَا الْحَرْفَ، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم:۲۶۰ (صحیح)
۳۰۵- محمد بن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ کرام کی موجودگی میں جن میں ابوقتادہ بن ربعی بھی تھے،کہتے سنا، پھر انہوں نے یحییٰ بن سعید کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکرکی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے عبدالحمید بن جعفرکے واسطے سے اس لفظ کا اضافہ کیا ہے کہ (نبی اکرمﷺکی صلاۃ والی اس صفت وکیفیت کوسننے والے)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ آپ نے صحیح کہا، نبی اکرمﷺ اسی طرح صلاۃ پڑھتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
116- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ
۱۱۶- باب: صلاۃِ فجرمیں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان​


306- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عَلاَقَةَ، عَنْ عَمِّهِ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ {وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ} فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ السَّائِبِ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالْوَاقِعَةِ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَى مِائَةٍ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَرَأَ {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ}. وَرُوِي عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى: أَنْ اقْرَأْ فِي الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۵ (۴۵۷)، ن/الافتتاح ۴۳ (۱۵۱)، ق/الإقامۃ (۸۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۷)، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۴) (صحیح)
۳۰۶- قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فجر میں پہلی رکعت میں ''والنخل باسقات'' پڑھتے سنا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قطبہ بن مالک کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمرو بن حریث ، جابر بن سمرہ ، عبداللہ بن سائب ، ابوبرزہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اورنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فجر میں سورہ ٔ واقعہ پڑھی، ۴- یہ بھی مروی ہے کہ آپ فجر میں ساٹھ سے لے کر سوآیتیں پڑھا کرتے تھے، ۵- اوریہ بھی مروی ہے کہ آپ نے '' إذا الشمس كورت'' پڑھی،۶- اور عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ا بوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ فجر میں طوال مفصل پڑھاکرو ۱؎ ،۷- اہل علم کا اسی پرعمل ہے اور یہی سفیان ثوری ، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد سورئہ ق ہے۔
وضاحت ۲؎ : مفصل: قرآن کاآخری ساتواں حصہ ہے جوصحیح قول کے مطابق سورئہ قؔ سے شروع ہوتا ہے اور سورئہ بروج پرختم ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
117-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
۱۱۷- باب: ظہر اور عصر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان​


307- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَشِبْهِهِمَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ خَبَّابٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الظُّهْرِ قَدْرَ تَنْزِيلِ السَّجْدَةِ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنْ الظُّهْرِ قَدْرَ ثَلاَثِينَ آيَةً، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً. وَرُوِي عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى: أَنْ اقْرَأْ فِي الظُّهْرِ بِأَوْسَاطِ الْمُفَصَّلِ. وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْقِرَائَةَ فِي صَلاَةِ الْعَصْرِ كَنَحْوِ الْقِرَائَةِ فِي صَلاَةِ الْمَغْرِبِ: يَقْرَأُ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ. وَرُوِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: تَعْدِلُ صَلاَةُ الْعَصْرِ بِصَلاَةِ الْمَغْرِبِ فِي الْقِرَائَةِ. وقَالَ إِبْرَاهِيمُ تُضَاعَفُ صَلاَةُ الظُّهْرِ عَلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ فِي الْقِرَائَةِ أَرْبَعَ مِرَارٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۳۱ (۸۰۵)، ن/الافتتاح ۶۰ (۹۸۰، ۹۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۷)، حم (۵/۱۰۱، ۱۰۳، ۱۰۶، ۱۰۸) (صحیح)
۳۰۷- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر میں '' والسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ''، ''وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ '' اور ان جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں خباب ، ابوسعید ، ابوقتادہ، زید بن ثابت اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ظہر میں ''الم تنزیل '' یعنی سورۂ سجدہ کے بقدرقرأت کی، ۴- یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے بقدرقرأت کرتے تھے، عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم ظہر میں وساط مفصل پڑھاکرو ۱؎ ،۶- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ عصر کی قرأت مغرب کی قرأت کی طرح ہوگی، ان میں(امام) قصار مفصل پڑھے گا ۲؎ ، ۷- اورابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ظہر کی قرأت عصر کی قرأت سے چار گنا ہوگی۔
وضاحت ۱؎ : سورئہ بروج سے سورئہ لم یکن تک وساط مفصل ہے۔
وضاحت ۲؎ : اورلم یکن سے اخیرتک قصارمفصل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
118- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي الْمَغْرِبِ
۱۱۸- باب: مغرب کی قرأت کا بیان​


308- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَاصِبٌ رَأْسَهُ فِي مَرَضِهِ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، فَقَرَأَ بِالْمُرْسَلاَتِ، قَالَتْ: فَمَا صَلاَّهَا بَعْدُ حَتَّى لَقِيَ اللهَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالأَعْرَافِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا. وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ. وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى أَنْ اقْرَأْ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ. قَالَ: وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَذُكِرَ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُقْرَأَ فِي صَلاَةِ الْمَغْرِبِ بِالسُّوَرِ الطِّوَالِ، نَحْوَ الطُّورِ وَالْمُرْسَلاَتِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ أَكْرَهُ ذَلِكَ، بَلْ أَسْتَحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ بِهَذِهِ السُّوَرِ فِي صَلاَةِ الْمَغْرِبِ.
* تخريج: خ/الأذان ۹۸ (۷۶۳)، والمغازی ۸۳ (۴۴۲۹)، م/الصلاۃ ۳۵ (۴۶۲)، د/الصلاۃ ۱۳۲ (۸۱۰)، ن/الافتتاح ۶۴ (۹۸۶)، ق/الإقامۃ ۹ (۸۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۵۲)، حم (۶/۳۳۸، ۳۴۰)، دي/الصلاۃ ۶۴ (۱۳۳۱) (صحیح)
۳۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان کی ماں ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سرپر پٹی باندھے ہوئے تھے، مغرب پڑھائی توسورۂ ''مرسلات'' پڑھی، پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جاملے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جبیر بن مطعم ، ابن عمر، ابوایوب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورۂ اعراف پڑھی، اورآپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آ پ نے مغرب میں سورۂ طورپڑھی ، ۵- عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کولکھا کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھاکرو،۶- اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے،۷- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ ابن مبارک، احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۸- امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکرکیاگیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اورمرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جاناہے۔ شافعی کہتے ہیں: لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا، بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتاہوں۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ''إن آخر صلاة صلاّها النبي ﷺ في مرض موته الظهر'' بظاہران دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جوصلاۃ آپ نے مسجدمیں پڑھی اس میں سب سے آخری صلاۃظہرکی تھی،اورآپ نے جوصلاتیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری صلاۃمغرب تھی، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے '' خرج إلينا رسول الله وهو عاصب رأسه'' (رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے آپ سرپرپٹی باندھے ہوئے تھے) جس سے لگتاہے کہ یہ صلاۃبھی آپ نے مسجدمیں پڑھی تھی،اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہاں نکلنے سے مرادمسجدمیں جانانہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھروالوں کے پاس آنامراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
119- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي صَلاَةِ الْعِشَاءِ
۱۱۹- باب: عشاء میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان​


309- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ الآخِرَةِ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَنَحْوِهَا مِنَ السُّوَرِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْعِشَاءِ الآخِرَةِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ. وَرُوِيَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ بِسُوَرٍ مِنْ أَوْسَاطِ الْمُفَصَّلِ، نَحْوِ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ وَأَشْبَاهِهَا. وَرُوِيَ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ أَنَّهُمْ قَرَئُوا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا وَأَقَلَّ، فَكَأَنَّ الأَمْرَ عِنْدَهُمْ وَاسِعٌ فِي هَذَا. وَأَحْسَنُ شَيْئٍ فِي ذَلِكَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ بِـ {الشَّمْسِ وَضُحَاهَا}، {وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ}.
* تخريج: ن/الافتتاح ۷۱ (۱۰۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۲)، حم (۵/۳۵۴، ۳۵۵) (صحیح)
۳۰۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عشاء میں {والشَّمْسِ وَضُحَاهَا} اور اس جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں براء بن عازب اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے عشاء میں سورہ{وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ} پڑھی۔ ۴-عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ وہ عشاء میں وساط مفصل کی سورتیں جیسے ''سورہ ٔ منافقون'' اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھاکرتے تھے، ۵- صحابہ کرام اور تابعین سے یہ بھی مروی ہے کہ ان لوگوں نے اس سے زیادہ اور اس سے کم بھی پڑھی ہے ۔ گویا ان کے نزدیک معاملے میں وسعت ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بہتر چیز جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے وہ یہ کہ آپ نے''سورہ والشمس وضحاھا'' اور ''سورہ والتین والزیتون'' پڑھی۔


310- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ فِي الْعِشَاءِ الآخِرَةِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۰ (۷۶۶)، و۱۰۲ (۷۶۹)، وتفسیر التین ۱ (۴۹۵۲)، والتوحید ۵۲ (۷۵۴۶)، م/الصلاۃ۳۶ (۴۶۴)، د/الصلاۃ۵ ۲۷ (۱۲۲۱)، ن/الافتتاح ۷۲ (۱۰۰۱)، و۷۳ (۱۰۰۲)، ق/الإقامۃ ۱۰ (۸۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۱)، ط/الصلاۃ ۱۵ (۲۷)، حم (۴/۲۸۶، ۳۰۲) (صحیح)
۳۱۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عشاء میں سورۂ{وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ} پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
120- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
۱۲۰- باب: اما م کے پیچھے قرأت کرنے کا بیان​


311- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: إِنِّي أَرَاكُمْ تَقْرَئُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ؟ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! إِي وَاللهِ! قَالَ: فَلاَ تَفْعَلُوا إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَإِنَّهُ لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ. قَالَ: وَهَذَا أَصَحُّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ - فِي الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ - عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ: يَرَوْنَ الْقِرَائَةَ خَلْفَ الإِمَامِ.
* تخريج: د/الصلاۃ۱۳۶ (۸۲۳)، (تحفۃ الأشراف:۵۱۱۱)، حم (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲) (حسن)
(البانی نے اس حدیث کو ''ضعیف ''کہا ہے ، لیکن ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا ہے (۳/۳۶-۳۷) ترمذی ، دارقطنی اوربیہقی نے حسن کہا ہے ، ابن حجرنے بھی اس کو نتائج الافکارمیں حسن کہا ہے ، ملاحظہ ہو:امام الکلام مولفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص۷۷-۲۷۸، تراجع الالبانی۳۴۸)
۳۱۱- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فجرپڑھی،آپ پر قرأت دشوارہوگئی، صلاۃ سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے فرمایا: ''مجھے لگ رہاہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟''ہم نے عرض کیا: جی ہاں،اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ''تم ایسانہ کیا کروسوائے سورئہ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی صلاۃ نہیں ہوتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس شخص کی صلاۃ نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی، یہ سب سے صحیح روایت ہے،۳ - اس باب میں ابوہریرہ ، عائشہ ، انس ، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ اورتابعین میں سے اکثر اہل علم کاامام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس ، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی کے اس قول میں اجمال ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ان میں سے کچھ لوگ سری اورجہری سبھی صلاتوں میں قراء ت کے قائل ہیں، اوران میں سے کچھ لوگ قرأت کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ اس کو مستحب کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
121- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ
۱۲۱- باب: امام جہرسے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان​


312- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ انْصَرَفَ مِنْ صَلاَةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ، فَقَالَ:"هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟" فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللهِ!، قَالَ:"إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ؟" قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: عُمَارَةُ، وَيُقَالُ: عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۳۷ (۸۲۶)، ن/الافتتاح ۲۸ (۹۰)، ق/الإقامۃ ۱۳ (۸۴۸، ۸۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۴)، ط/الصلاۃ ۱۰ (۴۴)، حم (۲/۲۴۰، ۲۸۴، ۲۸۵، ۴۸۷) (صحیح)
وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ: قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ. وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَى مَنْ رَأَى الْقِرَائَةَ خَلْفَ الإِمَامِ، لأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ.
(صحيح) وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ "، فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ: إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الإِمَامِ؟ قَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ. وَرَوَى أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ ﷺ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ: لاَ صَلاَةَ إِلاَّ بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ. وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لاَ يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ، وَقَالُوا: يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الإِمَامِ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ: فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ الْقِرَائَةَ خَلْفَ الإِمَامِ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ، وَالنَّاسُ يَقْرَئُونَ، إِلاَّ قَوْمًا مِنَ الْكُوفِيِّينَ، وَأَرَى أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ صَلاَتُهُ جَائِزَةٌ. وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الإِمَامِ، فَقَالُوا: لاَ تُجْزِءُ صَلاَةٌ إِلاَّ بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَحْدَهُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الإِمَامِ. وَذَهَبُوا إِلَى مَا رَوَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ خَلْفَ الإِمَامِ، وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ:"لاَصَلاَةَ إِلاَّ بِقِرَائَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ". وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ، وَغَيْرُهُمَا. وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ:"لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" إِذَا كَانَ وَحْدَهُ. وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ حَيْثُ قَالَ: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ وَرَائَ الإِمَامِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ:"لاَصَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ. وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَائَةَ خَلْفَ الإِمَامِ، وَأَنْ لاَ يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الإِمَامِ.
۳۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس صلاۃ سے فارغ ہونے کے بعدجس میں آپ نے بلندآواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا:'' کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے ؟'' ایک شخص نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول ! (میں نے کی ہے)آپ نے فرمایا: ''تبھی تو میں یہ کہہ رہاتھا :آخرکیابات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جارہی ہے اورمجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے'' ، وہ(زہری) کہتے ہیں: توجب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہﷺ کے ان صلاتوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمروبن اکیمہ بھی کہاجاتا ہے ، زہری کے دیگرتلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکرکیا ہے قَالَ الزُّهْرِيُّ فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ (زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہﷺ سے سنا) ۳- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اورانہوں نے ہی نبی اکرمﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا''جس نے کوئی صلاۃ پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تووہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناتمام ہے'' تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذکی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتاہوں (توکیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اِسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرمﷺنے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی، ۵- اکثرمحدّثین نے اس بات کو پسندکیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تومقتدی قرأت نہ کرے، اورکہاہے کہ وہ امام کے سکتوں کا تتبع کرتا رہے، (یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے)،۶- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں، مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک شافعی ،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتاہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے، اورمیراخیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی صلاۃ درست ہے،۷- اوراہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورئہ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو،یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیرسورئہ فاتحہ کے صلاۃ کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔ اورخود عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرمﷺ کے بعدامام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرمﷺ کے اسی قول پررہاہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں،یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے،۸- رہے احمدبن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول'' سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی'' کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے صلاۃپڑھ ہا ہوتب سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوگی۔ انہوں نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ'' جس نے کوئی رکعت پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی صلاۃ نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎ '' ۔ احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اورانہوں نے نبی اکرمﷺ کے قول ''سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی''کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ان سب کے باوجود احمدبن حنبل نے امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسندکیا ہے اورکہاہے کہ آدمی سورئہ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔
وضاحت ۱؎ : یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپناخیال ہے ، اعتبارمرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجودہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔


313- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللهِ، يَقُولُ: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ط/الصلاۃ ۸ (۳۸)، (لم یذکرہ المزی فی مظانہ ج۲/ص۲۸۵-۲۸۸ من رقم ۳۱۲۵ إلی ۳۱۳۲) (صحیح)
(واضح رہے یہ جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)
۳۱۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے صلاۃ ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس اثرکا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں ، امام بیہقی نے ''کتاب القراء ۃ'' (ص: ۱۱۲) میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثرنقل کرنے کے بعد لکھاہے: اس اثر میں صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دورکعات میں اس سورہ کی قرأت کے وُجوب کے قائل ہیں ، صلاۃ کی تمام رکعتوں کی ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہو نے کی بھی دلیل ہے ، اور جہاں تک جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی : ''إلا وَرَاءَ الإمَامِ ''والی بات کا تعلق ہے تو :
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کاامام کے پیچھے اُس صلاۃ میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کردینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتاہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ : اس سے مراد وہ رکعت ہوکہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اوراس کے ساتھ مل جائے تواُس کی یہ رکعت ہوجائے گی ، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے ۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثردرج کیا ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما چاررکعات والی صلاۃ پہلی دورکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دورکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھاکرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگوکیا کرتے تھے کہ ہررکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اورپڑھے بغیرصلاۃ نہیں ہوتی ، (تو جابر رضی اللہ عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہوگئی )اوریہ کہ یہ لفظ عام ہے : اکیلے صلاۃ پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی ۔
(۴) عبیداللہ بن مُقسم کی روایت ہے کہ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: صلاۃ میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ مصلی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دورکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے...اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے : ''كنا نتَحدث'' تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمارکرتے ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
122- بَاب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ
۱۲۲- باب: مسجد میں داخل ہوتے وقت کون سی دعا پڑھے؟​


314- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ جَدَّتِهَا فَاطِمَةَ الْكُبْرَى قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، وَإِذَا خَرَجَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ.
* تخريج: ق/المساجد ۱۳ (۷۷۱)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۰۴۱) (صحیح)
(فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبری کو نہیں پایا ہے،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ، شیخ البانی کہتے ہیں: مغفرت کے جملے کو چھوڑ کر بقیہ حدیث صحیح ہے ، تراجع الألبانی ۵۱۰)
۳۱۴- فاطمہ بنت حسین اپنی دادی فاطمہ کبریٰ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو محمد(ﷺ) پردرود وسلام بھیجتے اور یہ دعاپڑھتے: ''رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ'' (اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے) اور جب نکلتے تو محمد(ﷺ)پر صلاۃ (درود) وسلام بھیجتے اوریہ کہتے:''رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ'' ( اے میرے رب ! میرے گناہ بخش دے اور اپنے فضل کے دروازے میرے لیے کھول دے)


315- و قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، فَلَقِيتُ عَبْدَاللهِ بْنَ الْحَسَنِ بِمَكَّةَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي بِهِ قَالَ: كَانَ إِذَا دَخَلَ قَالَ: رَبِّ افْتَحْ لِي بَابَ رَحْمَتِكَ، وَإِذَا خَرَجَ قَالَ: رَبِّ افْتَحْ لِي بَابَ فَضْلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ فَاطِمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ. وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ لَمْ تُدْرِكْ فَاطِمَةَ الْكُبْرَى، إِنَّمَا عَاشَتْ فَاطِمَةُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ أَشْهُرًا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۱۵- اسماعیل بن ابراہیم بن راہویہ کا بیان ہے کہ میں عبداللہ بن حسن سے مکہ میں ملا تومیں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسے بیان کیا اور کہا کہ جب آپﷺ داخل ہوتے تو یہ کہتے''رَبِّ افْتَحْ لِي بَابَ رَحْمَتِكَ'' ( اے میرے رب! اپنی رحمت کے دروازہ میرے لیے کھول دے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث( شواہدکی بناپر) حسن ہے، ورنہ اس کی سند متصل نہیں ہے، ۲-فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبریٰ کو نہیں پایاہے، وہ تو نبی اکرمﷺ کے بعد چند ماہ ہی تک زندہ رہیں،۳- اس باب میں ابوحمید، ابو اسید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
123- بَاب مَا جَاءَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ
۱۲۳- باب: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہوتو دورکعتیں پڑھے​


316- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. وَرَوَى سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا: اسْتَحَبُّوا إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ أَنْ لاَ يَجْلِسَ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ عُذْرٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: وَحَدِيثُ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ خَطَأٌ، أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۶۰ (۴۴۴)، والتہجد ۲۵ (۱۱۶۳)، م/المسافرین ۱۱ (۷۱۴)، د/الصلاۃ ۱۹ (۴۶۷)، ن/المساجد ۳۷ (۷۳۱)، ق/الإقامۃ ۵۷ (۱۰۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۳)، ط/السفر ۱۸ (۵۷)، حم (۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۳) (صحیح)
۳۱۶- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن عجلان اوردیگر کئی لوگوں نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے بھی یہ حدیث روایت کی ہے جیسے مالک بن انس کی روایت ہے، ۳- سہیل بن ابی صالح ۲؎ نے یہ حدیث بطریق:''عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ''سے روایت کی ہے،۴ - یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور صحیح ابوقتادہ کی حدیث ہے، اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابوہریرہ، ابوذر اور کعب بن مالک سے بھی احادیث آئی ہیں، ہمارے اصحاب کا عمل اسی حدیث پر ہے: انہوں نے مستحب قراردیاہے کہ جب آدمی مسجد میں داخل ہوتو جب تک دورکعتیں نہ پڑھ لے، نہ بیٹھیالایہ کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو،۵- علی بن مدینی کہتے ہیں: سُہیل بن ابی صالح کی حدیث میں غلطی ہوئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اسے تحیۃ المسجدکہتے ہیں، جمہورکے نزدیک یہ مستحب ہے اورشوافع کے نزدیک واجب ۔صحیح بات یہ ہے کہ اس کی بہت تاکیدہے لیکن فرض نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : سُہیل بن ابی صالح کی روایت میں''عن أبی قتادۃ''کے بجائے ''عن جابربن عبداللہ'' ہے اوریہ غلط ہے کیونکہ عامربن عبداللہ کے دیگرتلامذہ نے سُہیل کی مخالفت کی ہے۔
 
Top