• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
47- بَاب مَا جَاءَ فِي كَسْرِ الْكَعْبَةِ
۴۷-باب: کعبہ میں توڑپھوڑکرنے کا بیان​


875- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ لَهُ: حَدِّثْنِي بِمَا كَانَتْ تُفْضِي إِلَيْكَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ. يَعْنِي عَائِشَةَ. فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ لَهَا: "لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ". قَالَ: فَلَمَّا مَلَكَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا وَجَعَلَ لَهَا بَابَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الحج ۱۲۵ (۲۹۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۳۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الحج ۴۲ (۱۵۸۳)، والأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۸)، وتفسیر البقرۃ ۱۰ (۴۴۸۴)، م/الحج ۶۹ (۱۳۳۳)، ن/الحج ۱۲۵ (۲۹۰۳)، ط/الحج ۳۳ (۱۰۴)، حم (۶/۱۱۳، ۱۷۷، ۲۴۷، ۲۵۳، ۲۵۲) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر في السیاق۔
۸۷۵- اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا:تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو ، جسے ام المومنین یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے رازدارانہ طورسے بیان کیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا: مجھ سے انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:'' اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑکر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے ، تو میں کعبہ کوگرادیتا اور اس میں دو دروازے کردیتا''،چنانچہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گراکراس میں دو دروازے کردیئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْحِجْرِ
۴۸-باب: حطیم میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


876- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ. فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الْحِجْرَ. فَقَالَ: "صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنْ الْبَيْتِ، وَلَكِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوهُ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ، فَأَخْرَجُوهُ مِنْ الْبَيْتِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ هُوَ عَلْقَمَةُ بْنُ بِلاَلٍ.
* تخريج: د/الحج ۹۴ (۲۰۲۸)، ن/الحج ۱۲۸ (۲۹۱۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۱)، حم (۶/۹۲) (حسن صحیح)
۸۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہوکراس میں صلاۃ پڑھوں، رسول اللہﷺ نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندرکردیااور فرمایا:''اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہوتو حطیم میں صلاۃ پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے ، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کردیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کاچھوٹاہواحصہ ہے جوگول دائرے میں دیوارسے گھیردیاگیا ہے، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے، اگرکوئی طواف میں حطیم کو چھوڑدے اور اُس کے اندرسے آئے تو طواف درست نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
49- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ
۴۹-باب: حجر اسود ، رکن یمانی، اور مقام ابراہیم کی فضیلت کا بیان​


877- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "نَزَلَ الْحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الحج ۱۴۵ (۲۹۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۷۱)، حم (۱/۳۰۷، ۳۲۹، ۳۷۳) (صحیح)
۸۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' حجر اسود جنت سے اترا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : زیادہ طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حقیقت پرمحمول کیا جائے کیونکہ عقلاً ونقلاً اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے حجراسودکی تعظیم شان میں مبالغہ اور گناہوں کی سنگینی بتانا مقصودہے۔


878- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ رَجَائٍ أَبِي يَحْيَى، قَال: سَمِعْتُ مُسَافِعًا الْحَاجِبَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ الرُّكْنَ وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ، طَمَسَ اللهُ نُورَهُمَا. وَلَوْ لَمْ يَطْمِسْ نُورَهُمَا لأَضَائَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، مَوْقُوفًا قَوْلُهُ. وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ أَيْضًا. وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : حم (۲/۲۱۳،۲۱۴) (التحفۃ : ۸۹۳۰) (صحیح)
( سند میں رجاء بن صبیح ابویحییٰ ضعیف راوی ہیں ،لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے صحیح الترغیب رقم : ۱۱۴۷)
۸۷۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: '' حجراسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت میں سے دویاقوت ہیں، اللہ نے ان کانورختم کردیا، اگر اللہ ان کانور ختم نہ کرتا تو وہ مشرق ومغرب کے سارے مقام کو روشن کردیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- یہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے موقوفاً ان کاقول روایت کیاجاتاہے ، ۳- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
50- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُرُوجِ إِلَى مِنًى وَالْمُقَامِ بِهَا
۵۰-باب: منیٰ جانے اور وہاں قیام کرنے کا بیان​


879- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الأَجْلَحِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ بِمِنًى،الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الحج ۵۱ (۳۰۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۱) (صحیح)
( سند میں اسماعیل بن مسلم کے اندرائمہ کا کلام ہے،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے )
۸۷۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے منیٰ ۱؎ میں ظہر ، عصر، مغرب ، عشاء اور فجر پڑھائی ۲؎ پھرآپ صبح ۳؎ ہی عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم پران کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : منیٰ : مکہ اورمزدلفہ کے درمیان کئی وادیوں پرمشتمل ایک کھلے میدان کانام ہے، مشرقی سمت میں اس کی حدوہ نشیبی وادی ہے جووادی محسّرسے اترتے وقت پڑتی ہے اورمغربی سمت میں جمرئہ عقبہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی سورج نکلنے کے بعد


880- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الأَجْلَحِ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلاَّ خَمْسَةَ أَشْيَائَ وَعَدَّهَا، وَلَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ.
* تخريج: د/الحج ۵۹ (۹۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۵) (صحیح)
۸۸۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی ۱ ؎ ، پھرآپ صبح ہی صبح ۲؎ عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے،۲- شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں، اورانہوں نے انہیں شمارکیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمارکی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی،۳- اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی : ظہر سے لے کر فجر تک پڑھی۔ظہر، عصر جمع اورقصرکرکے ، پھرمغرب اورعشاء جمع اورقصرکرکے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی نویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے فوراً بعد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
51- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ
۵۱-باب: منی اسی کے ٹھہر نے کی جگہ ہے جو پہلے پہنچے​


881- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ مُسَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قُلْنَا: يَارَسُولَ اللهِ! أَلاَ نَبْنِي لَكَ بَيْتًا يُظِلُّكَ بِمِنًى؟ قَالَ: "لاَ، مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الحج ۹۰ (۲۰۱۹)، ق/المناسک ۵۲ (۳۰۰۶)، دي/المناسک ۸۷ (۱۹۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۳) (ضعیف)
(یوسف کی والدہ ''مسیکہ''مجہول ہیں)
۸۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیاہم آپ کے لیے منی میں ایک گھر نہ بنادیں جو آپ کو سایہ دے۔ آپ نے فرمایا:'' نہیں ۱؎ ، منیٰ میں اس کا حق ہے جو وہاں پہلے پہنچے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ منی کو کسی کے لیے خاص کرنا درست نہیں، و ہ رمی، ذبح اورحلق وغیرہ عبادات کی سرزمین ہے، اگرمکان بنانے کی اجازت دے دی جائے توپورا میدان مکانات ہی سے بھرجائے گا اورعبادت کے لیے جگہ نہیں رہ جائے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
52- بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بِمِنًى
۵۲-باب: منیٰ میں صلاۃِ قصر پڑھنے کا بیان​


882- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمِنًى، آمَنَ مَا كَانَ النَّاسُ وَأَكْثَرَهُ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ، صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ بِمِنًى لأَهْلِ مَكَّةَ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلاَةَ بِمِنًى إِلاَّ مَنْ كَانَ بِمِنًى مُسَافِرًا. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ بَأْسَ لأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلاَةَ بِمِنًى. وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ وَمَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
* تخريج: خ/تقصیرالصلاۃ ۲ (۱۰۸۳)، والحج ۸۴ (۱۶۵۷)، م/المسافرین ۲ (۶۹۶)، د/الحج ۷۷ (۱۹۶۵)، ن/تقصیر الصلاۃ ۳ (۱۴۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۴)، حم (۴/۳۰۶) (صحیح)
۸۸۲- حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ منیٰ میں دورکعت صلاۃپڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مأمون اور بے خوف تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے انہوں نے کہاکہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ منیٰ میں دورکعتیں پڑھیں ، پھر ابوبکرکے ساتھ،عمر کے ساتھ اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے ابتدائی دورخلافت میں دورکعتیں پڑھیں، ۴- اہل مکہ کے منیٰ میں صلاۃ قصرکرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں صلاۃ قصر کریں ۱؎ ، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج ، سفیان ثوری ، یحییٰ بن سعید قطان ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لئے منیٰ میں صلاۃقصرکرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی ، مالک، سفیان بن عیینہ ، اور عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصرکی وجہ منسک حج نہیں سفرہے،مکہ اورمنیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں صلاۃ قصرکرے، اورجوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصرکو جائزکہتے ہیں ان کے نزدیک قصرکی وجہ سفرنہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
53- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُقُوفِ بِعَرَفَاتٍ وَالدُّعَائِ بِهَا
۵۳-باب: عرفات میں ٹھہر نے اور دعاکرنے کا بیان​


883- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ، قَالَ: أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ وُقُوفٌ بِالْمَوْقِفِ (مَكَانًا يُبَاعِدُهُ عَمْرٌو) فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَيْكُمْ يَقُولُ: "كُونُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ. فَإِنَّكُمْ عَلَى إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ إِبْرَاهِيمَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مِرْبَعٍ الأَنْصَارِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَابْنُ مِرْبَعٍ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ مِرْبَعٍ الأَنْصَارِيُّ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ.
* تخريج: د/الحج ۶۳ (۱۹۱۹)، ن/الحج ۲۰۲ (۳۰۱۷)، ق/المناسک ۵۵ (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۲۶)، حم (۴/۱۳۷) (صحیح)
۸۸۳- یزید بن شیبان کہتے ہیں: ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری رضی اللہ عنہ آئے، ہم لوگ موقف (عرفات) میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمروبن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے ۱؎ تویزیدبن مربع نے کہا:میں تمہاری طرف رسول اللہﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں،تم لوگ مشاعر ۲؎ پر ٹھہروکیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں، اورابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں،۳- ابن مربع کانام یزید بن مربع انصاری ہے، ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے،۴- اس باب میں علی ، عائشہ، جبیر بن مطعم ، شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ جملہ مدرج ہے عمروبن دینارکا تشریحی قول ہے۔
وضاحت ۲؎ : مشاعرسے مراد مواضع نسک اورمواقف قدیمہ ہیں،یعنی ان مقامات پر تم بھی وقوف کروکیونکہ ان پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہی کے دورسے بطورروایت چلاآرہا ہے۔


884- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ كَانَ عَلَى دِينِهَا، وَهُمْ الْحُمْسُ يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، يَقُولُونَ: نَحْنُ قَطِينُ اللهِ وَكَانَ مَنْ سِوَاهُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ كَانُوا لاَ يَخْرُجُونَ مِنْ الْحَرَمِ. وَعَرَفَةُ خَارِجٌ مِنْ الْحَرَمِ. وَأَهْلُ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَيَقُولُونَ: نَحْنُ قَطِينُ اللهِ، يَعْنِي سُكَّانَ اللهِ. وَمَنْ سِوَى أَهْلِ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ. فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ} وَالْحُمْسُ هُمْ أَهْلُ الْحَرَمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۳۶) (صحیح)
۸۸۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: قریش اورا ن کے ہم مذہب لوگ - اور یہ حُمس ۱؎ کہلاتے ہیں - مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔ ( عرفات نہیں جاتے) ،اورجوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ '' ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ'' (البقرۃ: ۱۹۹) (اورتم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں)نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔ اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے : ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔ اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تواللہ نے حکم نازل فرمایا: '' تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں'' حمس سے مراد اہل حرم ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حمس کے معنی بہادراورشجاع کے ہیں۔مکہ والے اپنے آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
54- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ
۵۴-باب: پورا عرفات ٹھہر نے کی جگہ ہے​


885- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِعَرَفَةَ. فَقَالَ: "هَذِهِ عَرَفَةُ، وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ". ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَى هِينَتِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالاً، يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ وَيَقُولُ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ! عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ". ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمْ الصَّلاَتَيْنِ جَمِيعًا. فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ. وَقَالَ: "هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى وَادِي مُحَسِّرٍ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّى جَاوَزَ الْوَادِيَ فَوَقَفَ. وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ ثُمَّ أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا. ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ فَقَالَ: "هَذَا الْمَنْحَرُ. وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ". وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ. فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللهِ فِي الْحَجِّ، أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: "حُجِّي عَنْ أَبِيكِ". قَالَ: وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ. فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللهِ! لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً، فَلَمْ آمَنِ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا. ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ: "احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلاَ حَرَجَ". قَالَ: وَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ: "ارْمِ وَلاَحَرَجَ". قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ فَقَالَ: "يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَوْلاَ أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ . مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ. وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الثَّوْرِيِّ، مِثْلَ هَذَا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ، وَلَمْ يَشْهَدِ الصَّلاَةَ مَعَ الإِمَامِ، إِنْ شَائَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الإِمَامُ. قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَم.
* تخريج: د/الحج ۶۴ (۱۹۲۲) (مختصراً) (حسن)
۸۸۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا:'' یہ عرفہ ہے، یہی وقوف ( ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ (عرفات) کاپوراٹھہر نے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تووہاں سے لوٹے۔اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اورآپ اپنی عام رفتارسے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہوکرکہتے جاتے تھے:'' لوگو! سکون ووقار کولازم پکڑو''، پھر آپ مزدلفہ آئے اورلوگوں کو دونوں صلاتیں(مغرب اورعشاء قصرکرکے ) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی توآپ قزح ۱؎ آکرٹھہرے،اور فرمایا:'' یہ قزح ہے اوریہ بھی موقف ہے اورمزدلفہ پورا کاپورا موقف ہے''، پھرآپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پارکرلی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہا کو(اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا ، پھرآپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا:'' یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کاپورا منحر(قربانی کرنے کی جگہ) ہے ، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا ،اس نے عرض کیا: میرے والدبوڑھے ہوچکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہوچُکاہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں توکافی ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے''۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپﷺ نے فضل کی گردن موڑدی، اس پر آپ سے، عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول!آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ توآپ نے فرمایا :'' میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تومیں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا''۳؎ ، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول ! میں نے سرمنڈا نے سے پہلے طواف افاضہ کرلیا۔ آپ نے فرمایا:'' سرمنڈوالو یابال کتروالو کوئی حرج نہیں ہے''۔پھرایک دوسرے شخص نے آکرکہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی، آپ نے فرمایا: ''رمی کرلو کوئی حرج نہیں ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پرآئے ،اور فرمایا:'' بنی عبدالمطلب ! اگریہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا''۔(اورلوگوں کوپلاتے)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمن بن حارث بن عیاش کی سند سے ، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہراورعصرکو ملاکرایک ساتھ پڑھے،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں صلاۃ پڑھے اورامام کے ساتھ صلاۃ میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ جمع اورقصرکرکے پڑھ لے، جیساکہ امام نے کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : مزدلفہ میں ایک پہاڑکانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : منیٰ اورمزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پرعذاب آیاتھا۔
وضاحت ۳؎ : یعنی: مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے، شیطان ان کوبہکانہ دے۔
وضاحت ۴؎ : حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چارکام کرنے پڑتے ہیں ،۱-جمرئہ عقبیٰ کی رمی۲- نحرہدی (جانورذبح کرنا) ۳- حلق یا قصر۴-طواف افاضہ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے، اوراگرکسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگاجب کہبعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہوگا لیکن دم لازم آئے گا ۔مگراُن کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
55- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِفَاضَةِ مِنْ عَرَفَاتٍ
۵۵-باب: عرفات سے لوٹنے کا بیان​


886- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَبِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ.
وَزَادَ فِيهِ بِشْرٌ <وَأَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ. وَأَمَرَهُمْ بِالسَّكِينَةِ>. وَزَادَ فِيهِ أَبُونُعَيْمٍ <وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ. وَقَالَ: لَعَلِّي لاَ أَرَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا>.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الحج ۶۶ (۱۹۴۴)، ن/الحج ۲۰۴ (۳۰۲۴)، و۲۱۵ (۳۰۵۵)، ق/المناسک ۶۱ (۳۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۴۷ و۲۷۵)، حم (۳/۳۰۱، ۳۳۲، ۳۶۷، ۳۹۱)، ویأتي عند المؤلف رقم: ۸۹۷) (صحیح)
۸۸۶ - جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ وادی محسر میں تیزچال چلے۔(بشرکی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ) آپ مزدلفہ سے لوٹے ، آپ پُرسکون یعنی عام رفتارسے چل رہے تھے، لوگوں کو بھی آپ نے سکون واطمینان سے چلنے کاحکم دیا۔(اورابونعیم کی روایت میں اتنااضافہ ہے کہ) آپ نے انہیں ایسی کنکریوں سے رمی کرنے کا حکم دیا جو دوانگلیوں میں پکڑی جاسکیں، اور فرمایا:'' شاید میں اس سال کے بعد تمہیں نہ دیکھ سکوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
56- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ
۵۶-باب: مزدلفہ میں مغرب اورعشا کوایک ساتھ جمع کرکے پڑھنے کا بیان​


887- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلَّى بِجَمْعٍ. فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ. وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَعَلَ مِثْلَ هَذَا، فِي هَذَا الْمَكَانِ.
* تخريج: د/الحج ۶۵ (۱۹۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۵) (صحیح)
(ہرصلاۃ کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکرکے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)
۸۸۷- عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ میں صلاۃ پڑھی اورایک اقامت سے مغرب اور عشا کی دونوں صلاتیں ایک ساتھ ملاکر پڑھیں اورکہا: میں نے رسول اللہﷺ کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے برخلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اوردوتکبیروں سے دونوں صلاتیں اداکیں اور یہی راجح ہے ،واللہ اعلم۔


888- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: قَالَ يَحْيَى. وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ، فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ، أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ. وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَنَّهُ لاَتُصَلَّى صَلاَةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ. فَإِذَا أَتَى جَمْعًا، وَهُوَ الْمُزْدَلِفَةُ، جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ، وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنْ شَائَ صَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ تَعَشَّى وَوَضَعَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَائَ. فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ. يُؤَذِّنُ لِصَلاَةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ، وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ. ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَائَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى إِسْرَائِيلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِاللهِ وَخَالِدٍ، ابْنَيْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا. رَوَاهُ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَأَمَّا أَبُوإِسْحَاقَ فَرَوَاهُ عَنْ عَبْدِاللهِ وَخَالِدٍ، ابْنَيْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: م/الحج ۴۷ (۱۲۸۶)، د/الحج ۶۵ (۹۹۳۰، ۱۹۳۲)، ن/الصلاۃ ۱۸ (۴۸۲)، و۲۰ (۴۸۴، ۴۸۵)، والمواقیت ۴۹ (۶۰۷)، والأذان ۱۹ (۶۵۸)، و۲۰ (۶۵۹)، والحج ۲۰۷ (۳۰۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۲)، حم (۲/۳، ۶۲، ۷۹، ۸۱)، دي/الصلاۃ ۱۸۳ (۱۵۵۹) (صحیح)
۸۸۸- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ سے اسی کے مثل راویت کرتے ہیں۔ محمد بن بشارنے (حدثنا کے بجائے) قال یحیی کہاہے ۔اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے،۲- اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اورخالدسے اورعبداللہ اورخالدنے ابن عمرسے روایت کی ہے۔ اورسعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے، رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اورخالدسے اوران دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوایوب ، عبداللہ بن سعید ، جابر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع ۱؎ یعنی مزدلفہ جائیں تودونوں صلاتیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اوران کے درمیان کوئی نفل صلاۃ نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اوراس کی طرف گئے ہیں اوریہی سفیان ثوری کابھی قول ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تومغرب پڑھے پھرشام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیرکہے اور عشا ء پڑھے ، ۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیرکہے اورمغرب پڑھے، پھرتکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کاقول ہے۔
وضاحت ۱؎ : جمع مزدلفہ کانام ہے، کہاجاتاہے کہ آدم اورحوّاجب جنت سے اتارے گئے تو اسی مقام پر آکردونوں اکٹھاہوئے تھے اس لیے اس کانام جمع پڑگیا۔
 
Top