• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
57- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ بِجَمْعٍ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ
۵۷-باب: جس نے امام کو مزدلفہ میں پالیا،اس نے حج کو پالیا​


889- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ ﷺ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، فَسَأَلُوهُ. فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى الْحَجُّ عَرَفَةُ. مَنْ جَاءَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ. أَيَّامُ مِنًى ثَلاَثَةٌ. فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ. قَالَ: وَزَادَ يَحْيَى وَأَرْدَفَ رَجُلاً فَنَادَى.
* تخريج: د/الحج ۶۹ (۱۹۴۹)، ن/الحج ۲۰۳ (۳۰۱۹)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۵)، حم (۴/۳۰۹، ۳۱۰، ۳۳۵)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۲۹)، ویأتي في التفسیر برقم: ۲۹۷۵ (صحیح)
۸۸۹- عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے ،اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کوحکم دیا تواس نے اعلان کیا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ۱؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آجائے ،اس نے حج کو پالیا ۲؎ منی کے تین دن ہیں ، جوجلدی کرے اوردودن ہی میں چلاجائے تو اس پرکوئی گناہ نہیں اورجودیرکرے تیسرے دن جائے تو اس پربھی کوئی گناہ نہیں''۔(یحیی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایااور اس نے آوازلگائی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پالیاجو حج کا ایک رکن ہے اورحج کے فوت ہوجانے سے مامون وبے خوف ہوگیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہوگیا اوراسے اب کچھ اورنہیں کرناہے، ابھی تو طواف افاضہ جوحج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیراس کے حج کیسے پوراہوسکتا ہے۔


890- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. و قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ. وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ يَعْمَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُ مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ. وَلاَ يُجْزِئُ عَنْهُ إِنْ جَاءَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ. وَيَجْعَلُهَا عُمْرَةً وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ نَحْوَ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ . قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا أَنَّهُ ذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ أُمُّ الْمَنَاسِكِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۹۰- ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیربن عطاء عن عبدالرحمن بن یعمرعن النبی ﷺ اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔
ابن ابی عمر کہتے ہیں: قال سفیان بن عیینہ ،اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے،۲- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہاکہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام ''المناسک'' کی حیثیت رکھتی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ ''جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا ، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تویہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنالے اور اگلے سال حج کرے'' ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔


891- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لاَمٍ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ بِالْمُزْدَلِفَةِ، حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَكْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللهِ! مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ شَهِدَ صَلاَتَنَا هَذِهِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نَدْفَعَ، وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلاً أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضَى تَفَثَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: قَوْلُهُ تَفَثَهُ يَعْنِي نُسُكَهُ. قَوْلُهُ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. إِذَا كَانَ مِنْ رَمْلٍ يُقَالُ لَهُ حَبْلٌ. وَإِذَا كَانَ مِنْ حِجَارَةٍ يُقَالُ لَهُ جَبَلٌ.
* تخريج: د/الحج ۶۹ (۱۹۵۰)، ن/الحج ۲۱۱ (۳۰۴۳)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۰)، حم (۴/۲۶۱، ۲۶۲)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۳۰) (صحیح)
۸۹۱- عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ صلاۃ کے لیے نکلے تومیں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتاہوا آیاہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خوداپنے کو خوب تھکادیاہے، اللہ کی قسم! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کاٹیلہ ہے) وقوف نہ کیاہو تو کیامیراحج ہوگیا؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جوبھی ہماری اس صلاۃ میں حاضررہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کر چکاہو ۱؎ تواس نے اپنا حج پورا کرلیا، اور اپنا میل کچیل ختم کرلیا'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- '' تَفَثَهُ '' کے معنی'' نسكه''کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول : '' مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ.'' (کوئی ٹیلہ ایسانہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو)کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کاٹیلہ ہوتو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت ۹ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجرتک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگرتھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج اداہوجائے گا ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہوکررہنے کی مدت اس نے پوری کرلی اب وہ اپنا سارامیل کچیل جو چھوڑرکھاتھا دور کرسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
58- بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْدِيمِ الضَّعَفَةِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ
۵۸-باب: مزدلفہ سے کمزوروں (عورتوں اور بچوں) کو رات ہی میں بھیج دینے کا بیان​


892- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي ثَقَلٍ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/الحج ۹۸ (۱۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۷)، حم (۱/۲۴۵، ۳۳۴) (صحیح)
وأخرجہ: خ/الحج ۹۸ (۱۶۷۸)، وجزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۶)، م/الحج ۴۹ (۱۲۹۳)، د/الحج ۶۶ (۱۹۳۹)، ن/الحج ۲۰۸ (۳۰۳۵)، و۲۱۴ (۳۰۵۱)، ق/المناسک ۶۲ (۳۰۲۶)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۲، ۲۷۲)، من غیر ھذا الطریق۔
۸۹۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں اسباب (کمزور عورتوں اور ان کے اسباب)کے ساتھ روانہ کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ، ام حبیبہ ، اسماء بنت ابی بکر اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


893- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ وَقَالَ: "لاَ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَقَدَّمَ الضَّعَفَةُ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ يَصِيرُونَ إِلَى مِنًى. وَ قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُمْ لاَ يَرْمُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يَرْمُوا بِلَيْلٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُمْ لاَيَرْمُونَ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ "بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي ثَقَلٍ" حَدِيثٌ صَحِيحٌ، رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُشَاشٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ. وَهَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ. أَخْطَأَ فِيهِ مُشَاشٌ وَزَادَ فِيهِ (عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ) وَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ (عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ) وَمُشَاشٌ بَصْرِيٌّ رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۷۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: د/الحج ۶۶ (۱۹۴۰)، ن/الحج ۲۲۲ (۳۰۶۶)، ق/المناسک ۶۲ (۳۰۲۵)، حم (۱/۲۳۴، ۳۱۱) من غیر ہذا الطریق۔
۸۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے گھروالوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچّوں) کو پہلے ہی روانہ کردیا،اورآپ نے(ان سے) فرمایا:'' جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث ''بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي ثَقَلٍ'' صحیح حدیث ہے، یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اورعطانے ابن عباس سے اورابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے گھروالوں میں سے کمزورلوگوں کوپہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کردیاتھا، یہحدیث غلط ہے۔مشاش نے اس میں غلطی کی ہے،انہوں نے اس میں''فضل بن عباس'' کا اضافہ کردیاہے۔ ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اورعطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیاہے، ۳- مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے، ۴- اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے، وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کومنیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں، ۵- اکثر اہل علم نے نبی اکرمﷺ کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہورمی نہ کریں ، ۶-اوربعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کرلینے کی رخصت دی ہے۔ اورعمل نبی اکرمﷺ کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اوربچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑبھاڑسے پہلے کنکریاں مارکرفارغ ہوجائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں،ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ ہماری رانوں پردھیرے سے مارتے تھے اورفرماتے تھے: اے میرے بچوجمرہ پرکنکریاں نہ مارناجب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی قول راجح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
59- بَاب مَا جَاءَ فِي رَمْيِ يَوْمِ النَّحْرِ ضُحًى
۵۹-باب: قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان​


894- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى. وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ، فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لاَ يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلاَّ بَعْدَ الزَّوَالِ.
* تخريج: م/الحج ۵۳ (۱۲۹۹)، د/الحج ۷۸ (۱۹۷۱)، ن/الحج ۲۲۱ (۳۰۶۵)، ق/المناسک ۷۵ (۳۰۵۳)، د/المناسک ۵۸ (۱۹۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹۵) (صحیح)
۸۹۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ دسویں ذی الحجہ کو(ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر(دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعدکی جائے، یہی جمہورکا قول ہے اورعطاء وطاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائزکہا ہے، اورحنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء وطاؤس کے قول پرنبی اکرمﷺ کے فعل وقول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پرابن عباس کے ایک اثرسے استدلال کیاہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہورہی کا قول قابل اعتمادہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
60- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الإِفَاضَةَ مِنْ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ
۶۰-باب: سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے لوٹنے کا بیان​


895- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَنْتَظِرُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ يُفِيضُونَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۷۳) (صحیح بما بعدہ)
(شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ اس کے راوی ''حکم''نے ''مقسم '' سے صرف پانچ احادیث سنی ہیں، اوریہ حدیث شاید ان میں سے نہیں ہے ؟)
۸۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ (مزدلفہ سے) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- جاہلیت کے زمانے میں لوگ انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا پھر لوٹتے تھے۔


896- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَال: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يُحَدِّثُ يَقُولُ: كُنَّا وُقُوفًا بِجَمْعٍ. فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لاَ يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ. وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَالَفَهُمْ . فَأَفَاضَ عُمَرُ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۱۰۰ (۱۶۸۴)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۸)، د/الحج ۶۵ (۱۹۳۸)، ن/الحج ۲۱۳ (۳۰۵۰)، ق/المناسک ۶۱ (۳۰۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۶)، حم (۱/۱۴، ۲۹، ۳۹، ۴۲، ۵۰)، دي/المناسک ۵۵ (۱۹۳۲) (صحیح)
۸۹۶- عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے،عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مشرکین جب تک کہ سورج نکل نہیں آتا نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے: ثبیر! تو روشن ہوجا (تب ہم لوٹیں گے)، تورسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
61- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْجِمَارَ الَّتِي يُرْمَى بِهَا مِثْلُ حَصَى الْخَذْفِ
۶۱-باب: جمرات کی رمی کے لیے کنکریاں ایسی ہوں کہ انگوٹھے اور شہادت والی انگلی سے پکڑکر پھینکی جاسکیں​


897- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ وَهِيَ أُمُّ جُنْدُبٍ الأَزْدِيَّةُ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ تَكُونَ الْجِمَارُ الَّتِي يُرْمَى بِهَا مِثْلَ حَصَى الْخَذْفِ.
* تخريج: انظر رقم: ۸۸۶ (صحیح)
۸۹۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کودیکھاکہ آپ ایسی کنکریوں سے رمی جمار کررہے تھے جو انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے درمیان پکڑی جاسکتی تھیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-اس باب میں سلیمان بن عمرو بن احوص(جواپنی ماں ام جندب ازدیہ سے روایت کرتے ہیں)، ابن عباس ، فضل بن عباس ، عبدالرحمن بن عثمان تمیمی اور عبدالرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ کنکریاں جن سے رمی کی جاتی ہے ایسی ہوں جو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ ی جاسکیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ کنکریاں باقلاّ کے دانے کے برابرہوتی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
62-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّمْيِ بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ
۶۲-باب: زوال(سورج ڈھلنے) کے بعد جمرات کی رمی کرنے کا بیان​


898- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/المناسک ۷۵ (۳۰۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۶) (صحیح)
( سابقہ حدیث نمبر۸۹۴سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، حکم نے مقسم سے صرف پانچ احادیث ہی سنی ہیں، اوریہ شاید ان میں سے نہیں)
۸۹۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمی جمار اس وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یوم النحرکے علاوہ باقی دنوں میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مَا جَاءَ فِي رَمْيِ الْجِمَارِ رَاكِبًا وَمَاشِيًا
۶۳-باب: جمرات کی رمی پیدل اور سوارہوکرکرنے کا بیان​


899- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَمَى الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَقُدَامَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ وَأُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْجِمَارِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَمْشِي إِلَى الْجِمَارِ. وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا أَنَّهُ رَكِبَ فِي بَعْضِ الأَيَّامِ لِيُقْتَدَى بِهِ فِي فِعْلِهِ . وَكِلاَ الْحَدِيثَيْنِ مُسْتَعْمَلٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: ق/المناسک۶۶(۳۰۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۷) (صحیح)
( سابقہ جابر کی حدیث نمبر۸۸۶سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۸۹۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دسویں ذی الحجہ کوجمرہ کی رمی سواری پرکی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر ، قدامہ بن عبداللہ ،اورسلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں ( رضی اللہ عنہم ) سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴- بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں، ۵- ابن عمر سے مروی ہے ، انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے،۶- ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔ اوردونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے۔


900- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَمَى الْجِمَارَ مَشَى إِلَيْهَا ذَاهِبًا وَرَاجِعًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. -وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عُبَيْدِاللهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ- وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يَرْكَبُ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَمْشِي فِي الأَيَّامِ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَأَنَّ مَنْ قَالَ هَذَا إِنَّمَا أَرَادَ اتِّبَاعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي فِعْلِهِ. لأَنَّهُ إِنَّمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ رَكِبَ يَوْمَ النَّحْرِ حَيْثُ ذَهَبَ يَرْمِي الْجِمَارُ. وَلاَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ، إِلاَّ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۰۱۱) (صحیح)
وأخرجہ حم (۲/۱۳۸) من طریق عبد العمری عن نافع بہ۔
۹۰۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب رمی جمارکرتے ،توجمرات تک پیدل آتے جاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ (العمری) سے روایت کیاہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے ،۴- بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوسکتا ہے، اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔گویا جس نے یہ کہاہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرمﷺ کے اس فعل کی اتباع ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے ۔ اور دسویں ذی الحجہ کوصرف جمرۂ عقبہ ہی کی رمی کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
64-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ تُرْمَى الْجِمَارُ
۶۴-باب: جمرات کی رمی کیسے کی جائے؟​


901- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْن عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: لَمَّا أَتَى عَبْدُاللهِ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، اسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَجَعَلَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ عَلَى حَاجِبِهِ الأَيْمَنِ، ثُمَّ رَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ. يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ. ثُمَّ قَالَ: وَاللهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ! مِنْ هَاهُنَا رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ.
* تخريج: خ/الحج ۱۳۵ (۱۱۴۷)، و ۱۳۸ (۱۷۵۰)، م/الحج ۵۰ (۱۲۹۶)، د/الحج ۷۸ (۱۹۷۴)، ن/المناسک ۲۲۶ (۳۰۷۲)، ق/المناسک ۶۴ (۳۰۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۲)، حم (۱/۴۱۵، ۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۶، ۴۵۶، ۴۵۸) (صحیح)
901/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَخْتَارُونَ أَنْ يَرْمِيَ الرَّجُلُ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، إِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ أَنْ يَرْمِيَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، رَمَى مِنْ حَيْثُ قَدَرَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي بَطْنِ الْوَادِي.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۹۰۱- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ(بن مسعود) جمرۂ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہوکر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔ پھرسات کنکریوں سے رمی کی۔ ہرکنکری پر وہ ''اللہ اکبر'' کہتے تھے، پھر انہوں نے کہا : اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورۂ بقرہ نازل کی گئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں فضل بن عباس ، ابن عباس، ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کااسی پر عمل ہے، ان کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ آدمی بطن وادی میں کھڑے ہوکر سات کنکریوں سے رمی کرے اور ہر کنکری پر'' اللہ اکبر'' کہے،۴- اور بعض اہل علم نے اجازت دی ہے کہ اگر بطن وادی سے رمی کرناممکن نہ ہوتو ایسی جگہ سے کرے جہاں سے وہ اس پر قادرہو گووہ بطن وادی میں نہ ہو۔


902- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لإِقَامَةِ ذِكْرِ اللهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الحج ۹۱ (۱۸۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۳)،حم (۶/۱۳۹)، دي/المناسک ۳۶ (۱۸۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبیداللہ بن ابی زیاد''ضعیف ہیں)
۹۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جمرات کی رمی اور صفا ومروہ کی سعی اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
65-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ طَرْدِ النَّاسِ عِنْدَ رَمْيِ الْجِمَارَ
۶۵-باب: جمرات کی رمی کے وقت لوگوں کو ڈھکیلنے اور ہٹانے کی کراہت کا بیان​


903- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارُ عَلَى نَاقَةٍ. لَيْسَ ضَرْبٌ وَلاَ طَرْدٌ وَلاَ إِلَيْكَ إِلَيْكَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ حَنْظَلَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَهُوَ حَدِيثُ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ. وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: ن/الحج ۲۲۰ (۳۰۶۴)، ق/المناسک ۶۶ (۳۰۳۵)، دي/المناسک ۶۰ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۷۷) (صحیح)
ؓ ۹۰۳- قدامہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کودیکھا آپ ایک اونٹنی پر جمرات کی رمی کررہے تھے، نہ لوگوں کو ڈھکیلنے اور ہانکنے کی آواز تھی اور نہ ہٹو ہٹوکی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- قدامہ بن عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اسی طریق سے جانی جاتی ہے، یہ ایمن بن نابل کی حدیث ہے۔ اورایمن اہل حدیث (محدثین) کے نزدیک ثقہ ہیں، ۳- اس باب مین عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ جیساکہ آج کل کسی بڑے افسروحاکم کے آنے پرکیا جاتاہے۔اورایسے مواقع پردوسروں کو دھکیلنااوردھکے نہیں دینا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
66-بَاب مَا جَاءَ فِي الاِشْتِرَاكِ فِي الْبَدَنَةِ وَالْبَقَرَةِ
۶۶-باب: قربانی میں اونٹ یاگائے میں شرکت کا بیان​


904- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَحَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. يَرَوْنَ الْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورَ عَنْ عَشَرَةٍ. وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ.
* تخريج: م/الحج ۶۲ (۱۳۱۸)، د/الضحایا ۷ (۲۸۰۹)، ق/الأضاحي ۵ (۳۱۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۳)، ط/الضحایا ۵ (۹)، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي ۸ (۱۵۰۲) (صحیح)
وأخرجہ کل من: (م/المصدرالمذکور)، د/المصدرالمذکور ن/الضحایا ۱۶ (۴۳۹۸) من غیر ہذا الطریق۔
۹۰۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ گائے اوراونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر(ذبح) کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اونٹ سات لوگوں کی طرف سے اورگائے سات لوگوں کی طرف سے ہوگی۔اور یہی سفیان ثوری ، شافعی اور احمد کا قول ہے،۴- ابن عباس رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات لوگوں کی طرف سے اور اونٹ دس لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا ۱؎ ۔ یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ ابن عباس کی حدیث کو ہم صرف ایک ہی طریق سے جانتے ہیں۔(ملاحظہ ہوآنے والی حدیث :۹۰۵)
وضاحت ۱؎ : جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حج و عمرہ کے ''ھدی''کے بارے میں ہے، جس کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہا کی اگلی حدیث قربانی کے بارے میں ہے (اور اس کی تائید صحیحین میں مروی رافع بن خدیج کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مالِ غنیمت میں ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم کیں، یعنی: ایک اونٹ برابر دس بکریوں کے ہے) شوکانی نے ان دونوں حدیثوں میں یہی تطبیق دی ہے۔


905- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَائَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ. فَحَضَرَ الأَضْحَى. فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَهُوَ حَدِيثُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
* تخريج: ن/الضحایا ۱۵ (۴۳۹۷)، ق/الأضاحي ۵ (۳۱۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۵۸)، حم (۱/۲۷۵)، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي ۸ (۱۵۰۱) (صحیح)
۹۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے کہ عیدالا ٔضحی کادن آگیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حسین بن واقد کی حدیث (روایت ) ہے۔
 
Top