- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
57- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ بِجَمْعٍ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ
۵۷-باب: جس نے امام کو مزدلفہ میں پالیا،اس نے حج کو پالیا
889- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ ﷺ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، فَسَأَلُوهُ. فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى الْحَجُّ عَرَفَةُ. مَنْ جَاءَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ. أَيَّامُ مِنًى ثَلاَثَةٌ. فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ. قَالَ: وَزَادَ يَحْيَى وَأَرْدَفَ رَجُلاً فَنَادَى.
* تخريج: د/الحج ۶۹ (۱۹۴۹)، ن/الحج ۲۰۳ (۳۰۱۹)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۵)، حم (۴/۳۰۹، ۳۱۰، ۳۳۵)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۲۹)، ویأتي في التفسیر برقم: ۲۹۷۵ (صحیح)
۸۸۹- عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے ،اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کوحکم دیا تواس نے اعلان کیا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ۱؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آجائے ،اس نے حج کو پالیا ۲؎ منی کے تین دن ہیں ، جوجلدی کرے اوردودن ہی میں چلاجائے تو اس پرکوئی گناہ نہیں اورجودیرکرے تیسرے دن جائے تو اس پربھی کوئی گناہ نہیں''۔(یحیی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایااور اس نے آوازلگائی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پالیاجو حج کا ایک رکن ہے اورحج کے فوت ہوجانے سے مامون وبے خوف ہوگیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہوگیا اوراسے اب کچھ اورنہیں کرناہے، ابھی تو طواف افاضہ جوحج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیراس کے حج کیسے پوراہوسکتا ہے۔
890- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. و قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ. وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ يَعْمَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُ مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ. وَلاَ يُجْزِئُ عَنْهُ إِنْ جَاءَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ. وَيَجْعَلُهَا عُمْرَةً وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ نَحْوَ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ . قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا أَنَّهُ ذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ أُمُّ الْمَنَاسِكِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۸۹۰- ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیربن عطاء عن عبدالرحمن بن یعمرعن النبی ﷺ اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔
ابن ابی عمر کہتے ہیں: قال سفیان بن عیینہ ،اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے،۲- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہاکہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام ''المناسک'' کی حیثیت رکھتی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ ''جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا ، اس کا حج فوت ہوگیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تویہ اسے کافی نہیں ہوگا۔ اسے عمرہ بنالے اور اگلے سال حج کرے'' ، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
891- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لاَمٍ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ بِالْمُزْدَلِفَةِ، حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَكْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللهِ! مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ شَهِدَ صَلاَتَنَا هَذِهِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نَدْفَعَ، وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلاً أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضَى تَفَثَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: قَوْلُهُ تَفَثَهُ يَعْنِي نُسُكَهُ. قَوْلُهُ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. إِذَا كَانَ مِنْ رَمْلٍ يُقَالُ لَهُ حَبْلٌ. وَإِذَا كَانَ مِنْ حِجَارَةٍ يُقَالُ لَهُ جَبَلٌ.
* تخريج: د/الحج ۶۹ (۱۹۵۰)، ن/الحج ۲۱۱ (۳۰۴۳)، ق/المناسک ۵۷ (۳۰۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۰)، حم (۴/۲۶۱، ۲۶۲)، دي/المناسک ۵۴ (۱۹۳۰) (صحیح)
۸۹۱- عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ صلاۃ کے لیے نکلے تومیں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتاہوا آیاہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خوداپنے کو خوب تھکادیاہے، اللہ کی قسم! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کاٹیلہ ہے) وقوف نہ کیاہو تو کیامیراحج ہوگیا؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جوبھی ہماری اس صلاۃ میں حاضررہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کر چکاہو ۱؎ تواس نے اپنا حج پورا کرلیا، اور اپنا میل کچیل ختم کرلیا'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- '' تَفَثَهُ '' کے معنی'' نسكه''کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول : '' مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ.'' (کوئی ٹیلہ ایسانہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو)کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کاٹیلہ ہوتو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت ۹ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجرتک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگرتھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج اداہوجائے گا ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہوکررہنے کی مدت اس نے پوری کرلی اب وہ اپنا سارامیل کچیل جو چھوڑرکھاتھا دور کرسکتا ہے۔