45-ذِكْرُ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْيِ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلافُ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
۴۵- باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر
3893- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ - هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ - قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ رَافِعِ بْنِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ أَنَّهُ خَرَجَ إِلَى قَوْمِهِ إِلَى بَنِي حَارِثَةَ؛ فَقَالَ: يَا بَنِي حَارِثَةَ! لَقَدْ دَخَلَتْ عَلَيْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا: مَا هِيَ؟ قَالَ: نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، قُلْنَا: يَا رسول اللَّهِ! إِذًا نُكْرِيهَا بِشَيْئٍ مِنْ الْحَبِّ، قَالَ: لا، قَالَ: وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِالتِّبْنِ؛ فَقَالَ: لا، وَكُنَّا نُكْرِيهَا بِمَا عَلَى الرَّبِيعِ السَّاقِي، قَالَ: لا، ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ .
٭خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷) (صحیح)
(اس کے راوی '' رافع بن اسید '' لین الحدیث ہیں، مگر متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۸۹۳- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا: اے بنی حارثہ! تم پر مصیبت آ گئی ہے، لوگوں نے کہا: وہ مصیبت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کرایے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرایے پر اٹھائیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ کہتے ہیں: حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر کہا: ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیا ریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو۔ ٭ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج رضی الله عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہر حال حدیث صحیح ہے۔
3894- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهُوَ ابْنُ آدَمَ - قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ - وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ - عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: جَائَنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الثُّلُثُ، وَالرُّبُعُ، وَعَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ شِرَائُ مَا فِي رُؤسِ النَّخْلِ بِكَذَا وَكَذَا، وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔
* تخريج: د/البیوع ۳۲ (۳۳۹۸)، ق/الرہون۱۰(۲۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۹)، حم (۳/۴۶۴، ۴۶۵، ۴۶۶) ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۸۹۵-۳۸۹۷) (صحیح الإسناد)
۳۸۹۴- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں تہائی یا چوتھائی پیداوار پر (کھیتوں کو) بٹائی پر دینے سے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ درختوں میں لگے کھجوروں کو اتنے اور اتنے میں (یعنی معین) وسق کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔
3895- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ: نَهَانَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ، نَهَاكُمْ عَنْ الْحَقْلِ، وَقَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَوْ لِيَدَعْهَا" وَنَهَى عَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الْمَالُ الْعَظِيمُ مِنْ النَّخْلِ؛ فَيَجِيئُ الرَّجُلُ؛ فَيَأْخُذُهَا بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۹۵- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو کہا: ہمیں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لئے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو چاہئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے''، نیز آپ نے مزابنہ سے روکا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے پاس درخت پر کھجوروں کے پھل کا بڑا حصہ ہو۔ پھر کوئی (دوسرا) آدمی اسے اتنی اتنی وسق ۱ ؎ ایسی ہی (گھر میں موجود) کھجور کے بدلے میں لے لے۔
وضاحت ۱ ؎: ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔ اور صاع اڑھائی کلوگرام کا، یعنی وسق =۱۵۰ کلوگرام۔
3896- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ ظُهَيْرٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ فَقَالَ وَلَمْ أَفْهَمْ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ يَنْفَعُكُمْ، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَكُمْ مِمَّا يَنْفَعُكُمْ نَهَاكُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَقْلِ، وَالْحَقْلُ: الْمُزَارَعَةُ بِالثُّلُثِ، وَالرُّبُعِ؛ فَمَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ أَوْلِيَدَعْ، وَنَهَاكُمْ عَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: الرَّجُلُ يَجِيئُ إِلَى النَّخْلِ الْكَثِيرِ بِالْمَالِ الْعَظِيمِ؛ فَيَقُولُ: خُذْهُ بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ تَمْرِ ذَلِكَ الْعَامِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
۳۸۹۶- اسید بن ظہیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج رضی الله عنہ آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لئے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں حقل سے روکا ہے۔ اور حقل کہتے ہیں: تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بے نیاز ہو تو چاہئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو) اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔
3897- أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ الْبَغْدَادِيُّ أَبُومُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَاكُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا؛ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ ".٭خَالَفَهُ عَبْدُالْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی '' اسید بن رافع '' لین الحدیث ہیں)
۳۸۹۷- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لئے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لئے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: ''جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لئے دے دے ''۔ ٭اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمن) کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آ رہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔
3898- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: أَخَذْتُ بِيَدِ طَاوُسٍ حَتَّى أَدْخَلْتُهُ عَلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ فَحَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ، فَأَبَى طَاوُسٌ؛ فَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ لا يَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا.
وَرَوَاهُ أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: قَالَ عَنْ رَافِعٍ مُرْسَلا۔
* تخريج: م/البیوع۲۱ (۱۵۵۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۱) (صحیح)
۳۸۹۸- مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رافع بن خدیج رضی الله عنہ کے بیٹے (اسید) کے یہاں گیا، تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میرے والد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کرایے پر دینے سے منع فرمایا، تو طاؤس نے انکار کر دیا اور کہا: میں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے سنا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
اور اس حدیث کو ابو عوانہ نے ابو حصین سے، اور ابو حصین نے مجاہد سے، اور مجاہد نے رافع رضی الله عنہ سے مرسلاً (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: سابقہ تمام سندوں میں مجاہد اور رافع کے درمیان یا تو اسید بن رافع بن خدیج یا اسید بن ظہیر کسی ایک کا واسطہ ہے اور اس سند میں یہ واسطہ ساقط ہے، اس لیے یہ سند منقطع ہے مگر متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے۔
3899- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَانَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ، نَهَانَا أَنْ نَتَقَبَّلَ الأَرْضَ بِبَعْضِ خَرْجِهَا. ٭تَابَعَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُهَاجِرٍ۔
* تخريج: ت/الأحکام۴۲(۱۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۸)، حم (۱/۲۸۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۲۹۰۰-۳۹۰۳) (صحیح)
۳۸۹۹- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرایے پر دینے سے منع فرمایا۔
ابراہیم بن مہاجر نے ابو حصین کی متابعت کی ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)
3900- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَرْضِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ، قَدْ عَرَفَ أَنَّهُ مُحْتَاجٌ؛ فَقَالَ: " لِمَنْ هَذِهِ الأَرْضُ " قَالَ لِفُلانٍ: أَعْطَانِيهَا بِالأَجْرِ، فَقَالَ: " لَوْ مَنَحَهَا أَخَاهُ " فَأَتَى رَافِعٌ الأَنْصَارَ؛ فَقَالَ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَكُمْ نَافِعًا، وَطَاعَةُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَكُمْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح)
(سند میں راوی '' ابراہیم '' کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۳۹۰۰- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا: ''یہ زمین کس کی ہے؟ ''اس نے کہا: فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرایے پر دی ہے، آپ نے فرمایا: ''اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر دے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا) ''، تب رافع بن خدیج رضی الله عنہ نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لئے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی اطاعت تمہارے لئے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔
3901- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَقْلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹ (صحیح)
(سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
۳۹۰۱- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے حقل ۱؎ سے منع فرمایا۔
وضاحت ۱؎: حقل کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے مقصد تہائی اور چوتھائی کے بٹائی دینے کا معاملہ ہے۔
3902- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ - وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ - قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ؛ قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا؛ فَقَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ يَمْنَحْهَا أَوْ يَذَرْهَا"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۴ (صحیح)
(سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
۳۹۰۲- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے تو آپ نے ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش تھی اور فرمایا: ''جس کے پاس کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اس میں کھیتی کرے یا وہ اسے کسی کو دے دے یا اسے (یونہی) چھوڑ دے''۔
3903- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ وَمُجَاهِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَانَا عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَأَمْرُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرٌ لَنَا، قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَذَرْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا".
وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ طَاوُسًا لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ۔ (مِنْ رَافِعٍ)
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۹۹(صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے)
۳۹۰۳- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لئے نفع بخش اور مفید تھی-لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا حکم ہمارے لئے زیادہ بہتر ہے، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے چھوڑ دے یا اسے(کسی کو) دے دے''۔
اور اس بات کی دلیل کہ یہ حدیث طاؤس نے (رافع رضی الله عنہ سے خود) نہیں سنی ہے آنے والی حدیث ہے۔
3904- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ؛ فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ: " لأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا ".
وَقَدْ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَائٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ: عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ، وَقَالَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۰ (۲۳۳۰)، ۱۸ (۲۳۴۲)، الہبۃ ۳۵ (۲۶۳۴)، م/البیوع ۲۱(۱۵۵۰)، د/البیوع ۳۱ (۳۳۸۹)، ت/الأحکام ۴۲ (۱۳۸۵)، ق/الرہون ۹ (۲۴۵۶)، ۱۱(۲۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۵) حم (۱/۲۳۴، ۲۸۱، ۳۴۹) (صحیح)
۳۹۰۴- عمروبن دینار کہتے ہیں: طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرایے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: '' تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دے دے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے ''۔
اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: 'عن عطاء، عن رافع(عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان (عن رافع کے بجائے) ''عن عطاء عن جابر'' کہتے ہیں۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)
3905- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا؛ فَإِنْ عَجَزَ أَنْ يَزْرَعَهَا؛ فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ الْمُسْلِمَ وَلا يُزْرِعْهَا إِيَّاهُ "۔
* تخريج: م/البیوع ۱۷(۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۹)، حم (۳/۳۰۲، ۳۰۴) (صحیح)
۳۹۰۵- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے دے اور اس سے اس میں بٹائی پر کھیتی نہ کرائے''۔
3906- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ وَلايُكْرِيهَا ". تَابَعَهُ عبدالرحمن بْنُ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۹۰۶- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دے دے اور اسے بٹائی پر نہ دے''۔
عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے۔ (یہ متابعت آگے آ رہی ہے)۔
3907- أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: كَانَ لأُنَاسٍ فُضُولُ أَرَضِينَ يُكْرُونَهَا بِالنِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ يُزْرِعْهَا أَوْ يُمْسِكْهَا ".
٭وَافَقَهُ مَطَرُ بْنُ طَهْمَانَ۔
* تخريج: خ/الحرث ۱۸ (۲۳۴۰)، الہبۃ ۳۵ (۲۶۳۲)، م/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، ق/الرہون ۷ (۲۴۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۴)، حم (۳/۳۵۵) (صحیح)
۳۹۰۷- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں جنہیں وہ آدھا، تہائی اور چوتھائی پر اٹھاتے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے یا بلا کھیتی کرائے روکے رکھے''۔ ٭ مطر بن طہمان نے اوزاعی کی موافقت (متابعت) کی ہے۔
3908- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ - وَهُوَ أَبُو عُمَيْرِ بْنُ النَّحَّاسِ وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ هُوَ الْفَاخُورِيُّ - قَالا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: خَطَبَنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيُزْرِعْهَا وَلا يُؤَاجِرْهَا "۔
* تخريج: م/البیوع ۱۷ (۱۵۳۶)، ق/الرہون ۷ (۲۴۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸۶)، حم (۳/۳۶۹) (صحیح)
۳۹۰۸- جابر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اور کہا: ''جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا کسی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرایے پر نہ دے''۔
3909- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ رَفَعَهُ نَهَى عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ.
٭وَافَقَهُ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ عَلَى النَّهْيِ عَنْ كِرَائِ الأَرْضِ۔
* تخريج: م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۸۷)، حم (۳/۳۹۵) (صحیح)
۳۹۰۹- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔
٭زمین کو کرائے پر نہ دینے کے سلسلہ میں (روایت کرنے میں) عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مطر کی موافقت کی ہے۔
3910- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ وَأَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُخَابَرَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَبَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يُطْعَمَ إِلا الْعَرَايَا. تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ۔
* تخريج: خ/البیوع ۸۳ (۲۱۸۹)، المساقاۃ ۱۷ (۲۳۸۰)، م/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۵۲، ۲۸۰۱)، حم (۳/۳۶۰، ۳۸۱، ۳۹۱، ۳۹۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۵۲۷، ۴۵۲۸، ۴۵۵۴) (صحیح)
۳۹۱۰- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے بیع مخابرہ اور مزا بنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے ۱؎۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔
وضاحت ۱؎: مخابرہ: زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا، کہتے ہیں: مخابرہ ''خیبر'' سے ماخوذ ہے، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو '' مخابرہ'' کہتے ہیں۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا، مؤلف نے حدیث نمبر ۳۹۱۴ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ '' انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو '' مزابنہ'' اور ''محاقلہ'' سے مناسبت رکھتی ہے۔
مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔
محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔
عرایا: عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھا نے کے لیے مفت دے دے، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے۔
3911- أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَعَنْ الثُّنْيَا إِلا أَنْ تُعْلَمَ.
وَفِي رِوَايَةِ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى كَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ عَطَائً لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ حَدِيثَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ؛ فَلْيَزْرَعْهَا۔
* تخريج: د/البیوع ۳۴ (۳۴۰۵)، ت/البیوع ۵۵ (۱۲۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۵)، ویأتي عند المؤلف ۴۶۳۷ (صحیح)
۳۹۱۱- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے محاقلہ ومزابنہ اور مخابرہ نامی بیع سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔
(آگے آنے والی) ہمام بن یحییٰ کی روایت میں گویا یہ دلیل ہے کہ عطاء نے جابر رضی الله عنہ سے ان کی یہ حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ جو انہوں نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے۔
وضاحت ۱؎: بیچی ہوئی چیز میں سے بلا تعیین و تحدید کچھ لینے کی شرط رکھنا یا سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینا اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینا۔
وضاحت ۲؎: جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے عطاء کی یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے (دیکھئے حدیث نمبر ۳۹۰۵ تخریج) سندھی فرماتے ہیں: مؤلف نے '' کالدلیل '' کہا ہے ('' الدلیل '' نہیں کہا ہے) جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات مؤکد نہیں ہے۔ نیز یہ ممکن ہے کہ عطاء نے سلیمان سے سننے کے بعد پھر جابر رضی الله عنہ سے جا کر یہ حدیث سنی ہو۔ ایسا بہت ہوتا ہے۔