• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
46-ذِكْرُ اخْتِلافِ الأَلْفَاظِ الْمَأْثُورَةِ فِي الْمُزَارَعَةِ
۴۶- باب: مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر​


3960- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدٌ يَقُولُ: الأَرْضُ عِنْدِي مِثْلُ مَالِ الْمُضَارَبَةِ؛ فَمَا صَلُحَ فِي مَالِ الْمُضَارَبَةِ صَلُحَ فِي الأَرْضِ، وَمَا لَمْ يَصْلُحْ فِي مَالِ الْمُضَارَبَةِ لَمْ يَصْلُحْ فِي الأَرْضِ، قَالَ: وَكَانَ لا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَدْفَعَ أَرْضَهُ إِلَى الأَكَّارِ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ فِيهَا بِنَفْسِهِ، وَوَلَدِهِ، وَأَعْوَانِهِ، وَبَقَرِهِ، وَلايُنْفِقَ شَيْئًا، وَتَكُونَ النَّفَقَةُ كُلُّهَا مِنْ رَبِّ الأَرْضِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۰۸) (صحیح الإسناد)
۳۹۶۰- ابن عون کہتے ہیں کہ محمد(بن سیرین) کہا کرتے تھے: میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کر دیں اس شرط پر کہ وہ(کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔


3961- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ، وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَأَنَّ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَطْرَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱ (۱۵۵۱)، د/البیوع ۳۵(۳۴۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الحرث ۸ (۲۳۲۸) (في سیاق أطول من ذلک) ۹ (۲۳۲۹)، ت/الأحکام ۴۱ (۱۳۸۳)، ق/الرہون ۱۴ (۲۴۶۸)، حم (۲/۱۷، ۲۲، ۳۷)، دي/البیوع ۷۱ (۲۶۵۶) (صحیح)
۳۹۶۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہود کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں اپنے خرچ پر کام کریں گے اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا ہوگا۔


3962- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَ إِلَى يَهُودِ خَيْبَرَ نَخْلَ خَيْبَرَ، وَأَرْضَهَا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا بِأَمْوَالِهِمْ، وَأَنَّ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَطْرَ ثَمَرَتِهَا۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۹۶۲- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے لئے اس کے پھل کا آدھا ہوگا۔


3963- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ كَانَتْ الْمَزَارِعُ تُكْرَى عَلَى عَهْدِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنَّ لِرَبِّ الأَرْضِ مَا عَلَى رَبِيعِ السَّاقِي مِنْ الزَّرْعِ، وَطَائِفَةً مِنْ التِّبْنِ لا أَدْرِي كَمْ هُوَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۵) (صحیح الإسناد)
۳۹۶۳- نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھیت بٹائی پر دیے جاتے تھے اس شرط پر کہ زمین کے مالک کے لئے وہ پیداوار ہوگی جو نالیوں اور نہروں کی کیا ریوں پر ہو اور کچھ گھاس جس کی مقدار مجھے معلوم نہیں۔


3964- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ قَالَ: كَانَ عَمَّايَ يَزْرَعَانِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، وَأَبِي شَرِيكَهُمَا، وَعَلْقَمَةُ، وَالأَسْوَدُ يَعْلَمَانِ؛ فَلا يُغَيِّرَانِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۵۳) (ضعیف الإسناد)
(قاضی شریک ضعیف الحفظ اور ابواسحاق مختلط راوی ہیں)
۳۹۶۴- عبدالرحمن بن اسود کہتے ہیں کہ میرے دو چچا تہائی اور چوتھائی پر کھیتی کرتے تھے اور میرے والد ان کے شریک ہوتے تھے۔ علقمہ اور اسود کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ کچھ نہ کہتے تھے۔


3965- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ خَيْرَ مَا أَنْتُمْ صَانِعُونَ أَنْ يُؤَاجِرَ أَحَدُكُمْ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۹) (صحیح الإسناد)
۳۹۶۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سب سے بہتر یہ ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرایے پر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

3966- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُمَا كَانَا لا يَرَيَانِ بَأْسًا بِاسْتِئْجَارِ الأَرْضِ الْبَيْضَائِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۳۰، ۱۸۶۸۷) (صحیح الإسناد)
۳۹۶۶- ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ دونوں خالی زمین کو کرایے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔


3967- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: لَمْ أَعْلَمْ شُرَيْحًا كَانَ يَقْضِي فِي الْمُضَارِبِ إِلا بِقَضَائَيْنِ كَانَ رُبَّمَا قَالَ: لِلْمُضَارِبِ بَيِّنَتَكَ عَلَى مُصِيبَةٍ تُعْذَرُ بِهَا، وَرُبَّمَا قَالَ لِصَاحِبِ الْمَالِ: بَيِّنَتَكَ أَنَّ أَمِينَكَ خَائِنٌ، وَإِلا فَيَمِينُهُ بِاللَّهِ مَا خَانَكَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۰۱) (صحیح الإسناد)
۳۹۶۷- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شُریح مضارب ۱؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے: تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین(مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔
وضاحت ۱؎: مضارب (راء کے زیر کے ساتھ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔


3968- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ طَارِقٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: لابَأْسَ بِإِجَارَةِ الأَرْضِ الْبَيْضَائِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ .
* تخريج: تفردبہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۰۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''شریک القاضی'' ضعیف الحفظ ہیں)
۳۹۶۸- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خالی زمین کو سونے، چاندی کے بدلے کرایے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


وَقَالَ إِذَا دَفَعَ رَجُلٌ إِلَى رَجُلٍ مَالا قِرَاضًا فَأَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ كِتَابًا كَتَبَ:
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلانُ بْنُ فُلانٍ طَوْعًا مِنْهُ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرِهِ لِفُلانِ بْنِ فُلانٍ أَنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَشَرَةَ آلافِ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ قِرَاضًا عَلَى تَقْوَى اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ، وَأَدَائِ الأَمَانَةِ عَلَى أَنْ أَشْتَرِيَ بِهَا مَا شِئْتُ مِنْهَا كُلَّ مَا أَرَى أَنْ أَشْتَرِيَهُ، وَأَنْ أُصَرِّفَهَا، وَمَا شِئْتُ مِنْهَا فِيمَا أَرَى أَنْ أُصَرِّفَهَا فِيهِ مِنْ صُنُوفِ التِّجَارَاتِ وَأَخْرُجَ بِمَا شِئْتُ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُ، وَأَبِيعَ مَا أَرَى أَنْ أَبِيعَهُ مِمَّا أَشْتَرِيهِ بِنَقْدٍ رَأَيْتُ أَمْ بِنَسِيئَةٍ، وَبِعَيْنٍ رَأَيْتُ أَمْ بِعَرْضٍ عَلَى أَنْ أَعْمَلَ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ كُلِّهِ بِرَأْيِي، وَأُوَكِّلَ فِي ذَلِكَ مَنْ رَأَيْتُ وَكُلُّ مَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ، وَرِبْحٍ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ الَّذِي دَفَعْتَهُ الْمَذْكُورِ إِلَيَّ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ؛ فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ نِصْفَيْنِ لَكَ مِنْهُ النِّصْفُ بِحَظِّ رَأْسِ مَالِكَ وَلِي فِيهِ النِّصْفُ تَامًّا بِعَمَلِي فِيهِ وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ وَضِيعَةٍ فَعَلَى رَأْسِ الْمَالِ فَقَبَضْتُ مِنْكَ هَذِهِ الْعَشَرَةَ آلافِ دِرْهَمٍ الْوُضْحَ الْجِيَادَ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا فِي سَنَةِ كَذَا، وَصَارَتْ لَكَ فِي يَدِي قِرَاضًا عَلَى الشُّرُوطِ الْمُشْتَرَطَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ أَقَرَّ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ لاَيُطْلِقَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ وَيَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ كَتَبَ، وَقَدْنَهَيْتَنِي أَنْ أَشْتَرِيَ، وَأَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ.
(مؤلف) کہتے ہیں: جب کوئی آدمی کسی آدمی کو کچھ مال مضاربت کے طور پر دے پھر اس کا معاہدہ لکھنا چاہے تو اس طرح لکھے:
یہ وہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے، تندرستی کی حالت میں اور اس حال میں جب معاملات جاری ہوتے ہیں، فلاں بن فلاں کے لئے لکھا ہے:
آپ نے مجھے فلاں سال کے فلاں مہینے کے شروع میں دس ہزار کھرے اور چوکھے درہم بہ طور مضاربت دیے جن کا وزن سات(مثقال) ہے۔ اس شرط پر کہ میں ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہوں گا اور اس امانت کو ادا کروں گا، اور اس شرط پر کہ ان سے میں وہ سب کچھ خریدوں گا جو میں چاہوں گا اور وہاں خرچ کروں گا جہاں میں خرچ کرنا مناسب سمجھوں گا، یعنی مختلف تجارتوں میں لگاؤں گا، جہاں اور جتنا مناسب سمجھوں گا اس میں سے لے کر جاؤں گا اور جو کچھ خریدوں گا اس میں سے نقد یا ادھار جب مناسب سمجھوں گا بیچوں گا، مال کی قیمت عینی چیز لوں گا یا پھر اس قیمت کا دوسرا مال، ان سب باتوں میں شرط یہ ہے کہ میں اپنی صواب دید سے کام کروں گا، اور ان تمام امور میں میں جسے مناسب سمجھوں گا اپنا وکیل بناؤں گا، اور اس اصل پونجی سے جو آپ نے مجھے دی ہے اور جس کی معینہ مقدار اس عہد نامے میں مذکور ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جو منافع اور جو بڑھوتری عطا کرے گا وہ میرے اور آپ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا، اس کا آدھا آپ کے لئے آپ کے رأس المال (اصل پونجی) کی وجہ سے اور میرے لیے اس کا آدھا میری محنت اور میرے کام کی وجہ سے ہوگا، اور جو نقصان ہوگا تو وہ رأس المال (اصل پونچی) میں سے ہوگا۔
تو میں نے یہ دس ہزار کھرے چوکھے درہم فلاں سال کے فلاں مہینہ کے شروع میں آپ سے اپنے قبضے میں لیے اور یہ میرے ہاتھ میں آپ کے لئے شرکت ومضاربت کے طور پر ہیں، ان شرطوں کے ساتھ جو اس معاہدہ میں لکھی گئی ہیں اور فلاں اور فلاں نے انہیں منظور کیا ہے۔
اور جب صاحب مال چاہے کہ وہ ادھار خرید وفروخت نہ کرے تو اس طرح لکھے گا: اور آپ نے مجھے ادھار خرید وفروخت کرنے سے منع کیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اسی طرح دیگر شرائط بھی اگر صاحب مال چاہے تو طے کر سکتا ہے، مثلاً: اس مال سے صرف فلاں سامان کی تجارت کی جا سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہاں جو طے ہو لکھا ضرور جائے، یہی بات اگلے معاملہ میں بھی ہے۔
شَرِكَةُ عَنَانٍ بَيْنَ ثَلاثَةٍ
تین لوگوں کے درمیان شرکت عنان ۱؎ کے ہونے کا بیان
وضاحت ۱؎: شرکت عنان یہ ہے کہ دویا دو سے زیادہ لوگ اجتماعی شکل میں کسی کام میں مالی و جسمانی تعاون یکساں طور پر دیں اور نفع میں برابر کے شریکوں اور ان میں سے اگر کسی کا مالی یا جسمانی تعاون زیادہ ہے تو نفع میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہوگا۔
هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ فِي صِحَّةِ عُقُولِهِمْ، وَجَوَازِ أَمْرِهِمْ اشْتَرَكُوا شَرِكَةَ عَنَانٍ لاشَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ بَيْنَهُمْ فِي ثَلاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَشَرَةَ آلافِ دِرْهَمٍ خَلَطُوهَا جَمِيعًا؛ فَصَارَتْ هَذِهِ الثَّلاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ فِي أَيْدِيهِمْ مَخْلُوطَةً بِشَرِكَةٍ بَيْنَهُمْ أَثْلاثًا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِيهِ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَأَدَائِ الأَمَانَةِ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ إِلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ، وَيَشْتَرُونَ جَمِيعًا بِذَلِكَ، وَبِمَا رَأَوْا مِنْهُ اشْتِرَائَهُ بِالنَّقْدِ، وَيَشْتَرُونَ بِالنَّسِيئَةِ عَلَيْهِ مَا رَأَوْا أَنْ يَشْتَرُوا مِنْ أَنْوَاعِ التِّجَارَاتِ، وَأَنْ يَشْتَرِيَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى حِدَتِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِذَلِكَ، وَبِمَا رَأَى مِنْهُ مَا رَأَى اشْتِرَائَهُ مِنْهُ بِالنَّقْدِ، وَبِمَا رَأَى اشْتِرَائَهُ عَلَيْهِ بِالنَّسِيئَةِ يَعْمَلُونَ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا، وَيَعْمَلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُنْفَرِدًا بِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِمَا رَأَى جَائِزًا لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ عَلَى نَفْسِهِ، وَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ فِيمَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهِ، وَفِيمَا انْفَرَدُوا بِهِ مِنْ ذَلِكَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ دُونَ الآخَرَيْنِ فَمَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ، وَمِنْ كَثِيرٍ فَهُوَ لازِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ، وَهُوَ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، وَمَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ، وَرِبْحٍ عَلَى رَأْسِ مَالِهِمْ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ؛ فَهُوَ بَيْنَهُمْ أَثْلاثًا، وَمَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنْ وَضِيعَةٍ، وَتَبِعَةٍ فَهُوَ عَلَيْهِمْ أَثْلاثًا عَلَى قَدْرِ رَأْسِ مَالِهِمْ، وَقَدْ كُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ ثَلاثَ نُسَخٍ مُتَسَاوِيَاتٍ بِأَلْفَاظٍ وَاحِدَةٍ فِي يَدِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ فُلانٍ، وَفُلانٍ، وَفُلانٍ وَاحِدَةٌ وَثِيقَةً لَهُ أَقَرَّ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ.
یہ وہ عہد نامہ ہے جس میں فلاں، فلاں اور فلاں کی شرکت کا بیان ہے۔ جو صحت وحواس کی درستگی میں اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھی گئی ہے۔ یہ تینوں شرکت عنان کی بنیاد پر نہ کہ شرکت مفاوضت پر شریک ہوئے ہیں، تیس ہزار درہم میں جو سب کے سب کھرے اور عمدہ ہیں جن میں سے ہر درہم سات مثقال کے وزن کے برابر ہے۔ ہر شخص کے دس ہزار درہم ہیں اور تینوں کو ملا دینے پر کل تیس ہزار درہم ہوئے جس کے یہ تینوں مالک ہیں۔ ہر ایک ایک تہائی حصے کا شریک ہے، اس شرط پر کہ یہ سب کے سب اللہ کا خوف رکھنے اور اس امانت کو ادا کرنے کی نیت کے ساتھ محنت کریں گے، اور سب مل کر اس سے جو چاہیں گے خریدیں گے، جو چاہیں گے نقد خریدیں گے اور جو چاہیں گے ادھار خریدیں گے اور جس قسم کی تجارت چاہیں کریں گے، اور ان تینوں میں سے ہر شخص بغیر دوسرے کی شرکت کے جو چاہے نقد یا ادھار خریدے، اس پوری رقم میں تینوں شریک مل کر ایک ساتھ معاملہ کریں یا ہر ایک تنہا ہو کر معاملہ کرے، جو معاملہ سب کریں، وہ سب پر لازم اور نافذ ہوگا، کرنے والے پربھی اور اس کے دونوں ساتھیوں پر بھی اور جو کوئی اکیلا کرے وہ بھی اس کے اوپر اور اس کے دونوں ساتھیوں پر لازم ہوگا، غرضیکہ ہر معاملہ تھوڑا ہو یا زیادہ سب پر نافذ ہوگا خواہ ایک کا کیا ہوا ہو یا سب کا۔ پھر اللہ تعالیٰ جو نفع دے گا وہ اصل پونجی کے مطابق تین حصے کر کے تینوں شریکوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں جو نقصان (گھاٹا) ہوگا وہ سب پر برابر برابر تہائی اصل پونجی کے مطابق ہوگا۔ ایک ہی عبارت اور لفظوں کی اس تحریر (معاہدہ) کی تین کاپیاں کی گئیں، ہر شریک کو ایک ایک کاپی دے دی گئی تاکہ بطور سند اپنے پاس رکھے۔ اس بات پر فلاں فلاں اور فلاں یعنی تینوں شریکوں نے اقرار کیا۔
شَرِكَةُ مُفَاوَضَةٍ بَيْنَ أَرْبَعَةٍ عَلَى مَذْهَبِ مَنْ يُجِيزُهَا قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ } [المائدة: 1]
شرکت مفاوضہ کے جواز کے قائلین کے مطابق چار آدمیوں کے درمیان شرکت مفاوضہ ۱؎ کا عہد نامہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ} (اے ایمان والو! اپنے وعدے پورے کرو)
وضاحت ۱؎: شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ دو آدمی کی ساری ملکیت دونوں کے مابین اس طرح ہو کہ دونوں ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت میں برابر کا درجہ رکھتے ہوں، یعنی ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اس مشترکہ ملکیت میں اپنا وکیل اور کفیل (ایجنٹ) سمجھتا ہو۔
هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ بَيْنَهُمْ شَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ فِي رَأْسِ مَالٍ جَمَعُوهُ بَيْنَهُمْ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، وَنَقْدٍ وَاحِدٍ وَخَلَطُوهُ، وَصَارَ فِي أَيْدِيهِمْ مُمْتَزِجًا لايُعْرَفُ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ، وَمَالُ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ، وَحَقُّهُ سَوَائٌ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِي ذَلِكَ كُلِّهِ، وَفِي كُلِّ قَلِيلٍ وَكَثِيرٍ سَوَائً مِنْ الْمُبَايَعَاتِ، وَالْمُتَاجَرَاتِ نَقْدًا، وَنَسِيئَةً بَيْعًا، وَشِرَائً فِي جَمِيعِ الْمُعَامَلاتِ، وَفِي كُلِّ مَايَتَعَاطَاهُ النَّاسُ بَيْنَهُمْ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا، وَيَعْمَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى انْفِرَادِهِ بِكُلِّ مَا رَأَى وَكُلِّ مَا بَدَا لَهُ جَائِزٌ أَمْرُهُ فِي ذَلِكَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَعَلَى أَنَّهُ كُلُّ مَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ حَقٍّ، وَمِنْ دَيْنٍ؛ فَهُوَ لازِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمَّيْنَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ، وَعَلَى أَنَّ جَمِيعَ مَا رَزَقَهُمْ اللَّهُ فِي هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ، وَمَا رَزَقَ اللَّهُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِيهَا عَلَى حِدَتِهِ مِنْ فَضْلٍ، وَرِبْحٍ فَهُوَ بَيْنَهُمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ، وَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نَقِيصَةٍ؛ فَهُوَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ بَيْنَهُمْ، وَقَدْ جَعَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ فُلانٍ، وَفُلانٍ، وَفُلانٍ، وَفُلانٍ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمَّيْنَ فِي هَذَا الْكِتَابِ مَعَهُ، وَكِيلَهُ فِي الْمُطَالَبَةِ بِكُلِّ حَقٍّ هُوَ لَهُ، وَالْمُخَاصَمَةِ فِيهِ، وَقَبْضِهِ، وَفِي خُصُومَةِ كُلِّ مَنْ اعْتَرَضَهُ بِخُصُومَةٍ، وَكُلِّ مَنْ يُطَالِبُهُ بِحَقٍّ، وَجَعَلَهُ وَصِيَّهُ فِي شَرِكَتِهِ مِنْ بَعْدِ وَفَاتِهِ، وَفِي قَضَائِ دُيُونِهِ، وَإِنْفَاذِ وَصَايَاهُ، وَقَبِلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ مَا جَعَلَ إِلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ أَقَرَّ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ۔
یہ وہ تحریر (عہد نامہ) ہے جس کی رو سے فلاں فلاں، فلاں اور فلاں بطور مفاوضہ رأس المال (اصل پونجی) میں شریک ہوئے ہیں جس کو سب لوگوں نے جمع کیا تھا جو ایک ہی قسم کا مال اور ایک ہی سکے کا تھا، اسے انہوں نے ملا دیا اور اب مل کر سب کے قبضے میں اس طرح آ گیا کہ اب کسی کا حصہ پہنچانا نہیں جاتا، اور اب سب کا مال اور حصہ برابر ہے، اس شرط پر کہ وہ سب مل کر محنت کریں گے، اس میں بھی اور اس کے علاوہ میں بھی خواہ کم ہو یا زیادہ، ہر طرح کے معاملات اور لین دین خواہ ادھار ہوں یا نقد، خرید رہے ہوں یا بیچ رہے ہوں، ہر طرح کے معاملات جسے لوگ کرتے ہیں، سب مل کر کریں یا الگ الگ، مگر ہر ایک کا معاملہ اس کے شریکوں پر جائز ونافذ ہوگا، اور جو اس شرکت کی رو سے کسی شریک پر حق یا قرض لازم ہو تو وہ ہراس شخص پر لازم ہوگا جن کا نام اس تحریر (معاہدہ) میں درج ہے اور اللہ تعالیٰ جو نفع یا بچت دے گا وہ سب آپس میں برابر تقسیم ہوگی اور جو نقصان (گھاٹا) ہوگا وہ بھی سب پر برابر برابر تقسیم ہوگا، ان چاروں اشخاص میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اپنے ساتھیوں میں سے جن کے نام اس عہد نامہ میں لکھے ہیں اپنا اپنا وکیل (ایجنٹ) بنایا، ہر ایک کو حق کے مطالبے کے لیے، خصومت کرنے (عدالت میں مقدمہ دائر کرنے) کے لیے اور وصول کرنے کے لیے یا کوئی جو کچھ مطالبہ کرے اس کا جواب دینے کے لیے اور اس کو اپنا وصی بنایا اس شرکت میں اپنے مرنے کے بعد اپنے قرضوں کو ادا کرنے اور وصیتوں کو پورا کرنے کے لیے۔ ہر ایک نے ان چاروں میں سے ایک دوسرے کے کام قبول کیے جو اسے سونپے گئے۔ ان سب باتوں پر فلاں اور فلاں اور فلاں اور فلاں نے عہد و اقرار کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
47-بَاب شَرِكَةِ الأَبْدَانِ ۱؎
۴۷- باب: صنعت و کاریگری میں شرکت کا بیان​


3969- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: اشْتَرَكْتُ أَنَا وَعَمَّارٌ، وَسَعْدٌ يَوْمَ بَدْرٍ؛ فَجَائَ سَعْدٌ بِأَسِيرَيْنِ، وَلَمْ أَجِئْ أَنَا، وَلا عَمَّارٌ بِشَيْئٍ۔
* تخريج: د/البیوع ۳۰ (۳۳۸۸)، ق/التجارات ۶۳ (۲۲۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۶)، ویأتی عند المؤلف فی البیوع ۱۰۳ (برقم: ۴۷۰۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابو اسحاق سبیعی'' مختلط ہو گئے تھے، اور '' ابو عبیدہ '' کا اپنے باپ '' ابن مسعود رضی الله عنہ'' سے سماع نہیں ہے)
۳۹۶۹- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عمار اور سعد (رضی الله عنہما) بدر کی لڑائی کے روز شریک(کار) ہوئے تو سعد دو قیدی لے کر آئے، نہ میں کچھ لایا اور نہ ہی عمار کچھ لے کر آئے۔
وضاحت ۱؎: شرکت ابدان یہ ہے کہ دو آدمی کسی کام کے انجام دینے میں اس طرح شریکوں کہ ان دونوں کی محنت سے اس کام میں جو بھی فائدہ حاصل ہوگا اس میں وہ دونوں برابر برابر کے حصہ دار ہوں گے۔


3970- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ فِي عَبْدَيْنِ مُتَفَاوِضَيْنِ كَاتَبَ أَحَدُهُمَا قَالَ جَائِزٌ إِذَا كَانَا مُتَفَاوِضَيْنِ يَقْضِي أَحَدُهُمَا عَنْ الآخَرِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۱۵) (صحیح الإسناد)
۳۹۷۰- زہری کہتے ہیں کہ مفاوضہ کے طور پر دو غلام شریکوں پھر ایک مکاتبت کر لے تو یہ جائز ہے اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں شریک میں یہ بات طے ہو کہ ہر ایک دوسرے کی طرف سے ادا کرے گا۔
تَفَرُّقُ الشُّرَكَائِ عَنْ شَرِيكِهِمْ
حصے داروں کا اپنے شریک سے علاحدہ ہونے کا عہد نامہ
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ بَيْنَهُمْ، وَأَقَرَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمَّيْنَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ بِجَمِيعِ مَا فِيهِ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ أَنَّهُ جَرَتْ بَيْنَنَا مُعَامَلاتٌ، وَمُتَاجَرَاتٌ، وَأَشْرِيَةٌ، وَبُيُوعٌ، وَخُلْطَةٌ، وَشَرِكَةٌ فِي أَمْوَالٍ، وَفِي أَنْوَاعٍ مِنْ الْمُعَامَلاتِ، وَقُرُوضٌ، وَمُصَارَفَاتٌ، وَوَدَائِعُ، وَأَمَانَاتٌ، وَسَفَاتِجُ، وَمُضَارَبَاتٌ، وَعَوَارِي، وَدُيُونٌ، وَمُؤَاجَرَاتٌ، وَمُزَارَعَاتٌ، وَمُؤَاكَرَاتٌ، وَإِنَّا تَنَاقَضْنَا عَلَى التَّرَاضِي مِنَّا جَمِيعًا بِمَا فَعَلْنَا جَمِيعَ مَا كَانَ بَيْنَنَا مِنْ كُلِّ شَرِكَةٍ، وَمِنْ كُلِّ مُخَالَطَةٍ كَانَتْ جَرَتْ بَيْنَنَا فِي نَوْعٍ مِنْ الأَمْوَالِ، وَالْمُعَامَلاتِ، وَفَسَخْنَا ذَلِكَ كُلَّهُ فِي جَمِيعِ مَاجَرَى بَيْنَنَا فِي جَمِيعِ الأَنْوَاعِ، وَالأَصْنَافِ، وَبَيَّنَّا ذَلِكَ كُلَّهُ نَوْعًا نَوْعًا، وَعَلِمْنَا مَبْلَغَهُ، وَمُنْتَهَاهُ، وَعَرَفْنَاهُ عَلَى حَقِّهِ، وَصِدْقِهِ؛ فَاسْتَوْفَى كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا جَمِيعَ حَقِّهِ مِنْ ذَلِكَ أَجْمَعَ، وَصَارَ فِي يَدِهِ؛ فَلَمْ يَبْقَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا قِبَلَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمَّيْنَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ وَلا قِبَلَ أَحَدٍ بِسَبَبِهِ، وَلا بِاسْمِهِ حَقٌّ، وَلا دَعْوَى، وَلا طِلْبَةٌ لأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنَّا قَدْ اسْتَوْفَى جَمِيعَ حَقِّهِ، وَجَمِيعَ مَا كَانَ لَهُ مِنْ جَمِيعِ ذَلِكَ كُلِّهِ، وَصَارَ فِي يَدِهِ مُوَفَّرًا أَقَرَّ فُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ، وَفُلانٌ۔
یہ تحریر (معاہدہ) ہے، اسے فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے آپس میں لکھا ہے، ان میں سے ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے لیے جن کے نام اس تحریر میں درج ہیں، اس کے پورے مندرجات کے متعلق اقرار کیا ہے، صحت اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں، ہم چاروں میں معاملات، تجارتیں، خرید وفروخت، ہر طرح کے اموال اور ہر طرح کے معاملات میں شرکت اور حصہ داری تھی، اسی طرح ہمارے درمیان قرض، صرف، امانت، ڈرافٹ، مضاربت، عاریۃ اور قرض کے لین دین، کرایہ داری، کاشتکاری اور بٹائی کے معاملات جاری تھے۔ اب ہم سب نے اپنی رضامندی سے اس کو ختم کر دیا۔ جو شرکت اور حصہ داری، اموال اور معاملات میں اب تک ہمارے درمیان جاری تھی اس کو ہم سب نے فسخ کیا خواہ وہ کسی بھی قسم یا کسی بھی نوعیت کے ہوں۔ ہم نے اس کی حد اور مقدار کو الگ الگ بیان کر دیا اور جو سچ اور صحیح تھا اس کو دریافت کر لیا اور ہر ایک نے اپنا پورا پورا حق پایا یا اپنے قبضے میں کر لیا، اب ہم میں سے کسی کو کسی ساتھی پر جن کے نام اس تحریر (معاہدہ) میں ہیں یا اس کی وجہ سے یا اس کے نام سے دوسرے پر کوئی دعویٰ اور مطالبہ نہیں رہا۔ کیوں کہ ہر ایک نے اس کا جو حق تھا اسے پورا پورا پا لیا اور اپنے قبضہ میں لے لیا، اس کا اقرار فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے کیا۔
تَفَرُّقُ الزَّوْجَيْنِ عَنْ مُزَاوَجَتِهِمَا
میاں بیوی کے درمیان جدائی (خلع) سے متعلق عہد نامہ
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: { وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ }[البقرة: 229]اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں سے اپنا دیا ہوا واپس لو، الا یہ کہ دونوں ڈریں کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت (حدود) کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر
جب ایسا ڈر ہو تو عورت پر گناہ نہیں کہ کچھ دے کر اپنے کو چھڑا لے)
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَتْهُ فُلانَةُ بِنْتُ فُلانِ بْنِ فُلانٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهَا، وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفُلانِ بْنِ فُلانِ بْنِ فُلانٍ، إِنِّي كُنْتُ زَوْجَةً لَكَ، وَكُنْتَ دَخَلْتَ بِي؛ فَأَفْضَيْتَ إِلَيَّ، ثُمَّ إِنِّي كَرِهْتُ صُحْبَتَكَ، وَأَحْبَبْتُ مُفَارَقَتَكَ عَنْ غَيْرِ إِضْرَارٍ مِنْكَ بِي، وَلا مَنْعِي لِحَقٍّ وَاجِبٍ لِي عَلَيْكَ، وَإِنِّي سَأَلْتُكَ عِنْدَ مَا خِفْنَا أَنْ لا نُقِيمَ حُدُودَاللَّهِ أَنْ تَخْلَعَنِي؛ فَتُبِينَنِي مِنْكَ بِتَطْلِيقَةٍ بِجَمِيعِ مَالِي عَلَيْكَ مِنْ صَدَاقٍ، وَهُوَ كَذَا وَكَذَا دِينَارًا جِيَادًا مَثَاقِيلَ، وَبِكَذَا وَكَذَا دِينَارًا جِيَادًا مَثَاقِيلَ أَعْطَيْتُكَهَا عَلَى ذَلِكَ سِوَى مَافِي صَدَاقِي؛ فَفَعَلْتَ الَّذِي سَأَلْتُكَ مِنْهُ؛ فَطَلَّقْتَنِي تَطْلِيقَةً بَائِنَةً بِجَمِيعِ مَا كَانَ بَقِيَ لِي عَلَيْكَ مِنْ صَدَاقِي الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ، وَبِالدَّنَانِيرِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ سِوَى ذَلِكَ؛ فَقَبِلْتُ ذَلِكَ مِنْكَ مُشَافَهَةً لَكَ عِنْدَ مُخَاطَبَتِكَ إِيَّايَ بِهِ، وَمُجَاوَبَةً عَلَى قَوْلِكَ مِنْ قَبْلِ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا ذَلِكَ، وَدَفَعْتُ إِلَيْكَ جَمِيعَ هَذِهِ الدَّنَانِيرِ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهَا فِي هَذَا الْكِتَابِ الَّذِي خَالَعْتَنِي عَلَيْهَا وَافِيَةً سِوَى مَا فِي صَدَاقِي فَصِرْتُ بَائِنَةً مِنْكَ مَالِكَةً لأَمْرِي بِهَذَا الْخُلْعِ الْمَوْصُوفِ أَمْرُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ، فَلا سَبِيلَ لَكَ عَلَيَّ، وَلا مُطَالَبَةَ، وَلا رَجْعَةَ، وَقَدْ قَبَضْتُ مِنْكَ جَمِيعَ مَا يَجِبُ لِمِثْلِي مَادُمْتُ فِي عِدَّةٍ مِنْكَ، وَجَمِيعَ مَا أَحْتَاجُ إِلَيْهِ بِتَمَامِ مَا يَجِبُ لِلْمُطَلَّقَةِ الَّتِي تَكُونُ فِي مِثْلِ حَالِي عَلَى زَوْجِهَا الَّذِي يَكُونُ فِي مِثْلِ حَالِكَ، فَلَمْ يَبْقَ لِوَاحِدٍ مِنَّا قِبَلَ صَاحِبِهِ حَقٌّ، وَلا دَعْوَى، وَلا طَلِبَةٌ؛ فَكُلُّ مَا ادَّعَى وَاحِدٌ مِنَّا قِبَلَ صَاحِبِهِ مِنْ حَقٍّ، وَمِنْ دَعْوَى، وَمِنْ طَلِبَةٍ بِوَجْهٍ مِنْ الْوُجُوهِ؛ فَهُوَ فِي جَمِيعِ دَعْوَاهُ مُبْطِلٌ، وَصَاحِبُهُ مِنْ ذَلِكَ أَجْمَعَ بَرِيئٌ، وَقَدْ قَبِلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا كُلَّ مَا أَقَرَّ لَهُ بِهِ صَاحِبُهُ، وَكُلَّ مَا أَبْرَأَهُ مِنْهُ مِمَّا وُصِفَ فِي هَذَا الْكِتَابِ مُشَافَهَةً عِنْدَ مُخَاطَبَتِهِ إِيَّاهُ قَبْلَ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا، وَافْتِرَاقِنَا عَنْ مَجْلِسِنَا الَّذِي جَرَى بَيْنَنَا فِيهِ أَقَرَّتْ فُلانَةُ وَفُلانٌ۔
یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں کی فلاں بیٹی فلانہ نے اپنی صحت کی حالت میں اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں فلاں بن فلاں کے فلاں بیٹے کے لیے لکھا ہے، میں آپ کی بیوی تھی، آپ مجھ سے ملے اور صحبت کی اور دخول کیا، پھر مجھے آپ کی صحبت بری معلوم ہوئی اور میں نے آپ سے جدا ہونا اچھا جانا، آپ نے مجھے کسی طرح کا نہ تو نقصان پہنچایا اور نہ ہی میرے واجب الاداء الحقوق سے مجھے روکا، اور میں نے آپ سے اس وقت درخواست کی جب مجھے اندیشہ ہوا کہ ہم اللہ کے حدود کو ٹھیک سے قائم نہ رکھ سکیں گے کہ مجھ سے خلع کر لیں اور مجھے ایک طلاق بائن دے دیں، اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ کے ذمے ہے اور وہ اتنے اتنے کھرے دینار جو اتنے مثقال کے ہیں، اور مہر کے علاوہ اتنے مثقال کے اتنے کھرے دینار کے بدلے۔ پھر آپ نے میرا مطالبہ پورا کر دیا اور ایک طلاق بائن دے دی اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ پر باقی تھا اور جس کی مقدار اس تحریر میں لکھی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ ان دیناروں کے بدلے جن کی تعداد اس میں درج ہے، پھر میں نے آپ کے سامنے اسے اس وقت قبول کیا جب آپ میری طرف مخاطب تھے اور میں آپ کی بات کا جواب دیتی تھی اس سے پہلے کہ ہم اپنی اس بات چیت سے فارغ ہوں، اور میں نے آپ کو وہ سب دینار دے دیے جن کی تعداد اس تحریر میں درج ہے اور جن کے بدلے آپ نے خلع کیا، مہر کے علاوہ۔ اب میں آپ سے جدا اور اپنی مرضی کی مالک ہو گئی، اس خلع کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اب آپ کا مجھ پر کچھ اختیار نہیں رہا، نہ ہی کسی طرح کا مطالبہ اور رجوع کا حق۔ اور میں نے آپ سے اپنے وہ سارے حقوق لے لیے جو مجھ جیسی عورت کے آپ جیسے شوہر پر ہوتے ہیں جب تک کہ میں آپ کی زوجیت میں رہی، اور مجھے وہ سارے حقوق مل گئے جو مجھ جیسی طلاق والی کسی عورت کے ہوتے ہیں اور آپ جیسے شوہر کو ان کو دینا ضروری ہوتا ہے۔ اب ہم میں سے کوئی دوسرے پر کسی طرح کا حق یا دعویٰ یا مطالبہ جو کسی طور کا ہو پیش کرے تو اس کے سب دعوے جھوٹے ہیں اور جس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ پورے طور پر بری ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کا اقرار اور اس کا ابراء (بری کرنا) قبول کیا۔ جس کا ذکر اس کتاب میں آمنے سامنے سوال کے وقت ہوا اس سے پہلے کہ ہم اس گفتگو سے فارغ ہوں یا اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوں جہاں یہ اقرار نامہ میاں بیوی کی طرف سے ہم دونوں کے بیچ میں لکھا جا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
48- الْكِتَابَةُ
۴۸- باب: غلام یا لونڈی سے متعلق مکاتبت کا عہد نامہ​


قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: { وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا } [النور: 33]
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلانُ بْنُ فُلانٍ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ لِفَتَاهُ النُّوبِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلانًا، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ، وَيَدِهِ إِنِّي كَاتَبْتُكَ عَلَى ثَلاثَةِ آلافِ دِرْهَمٍ، وُضْحٍ جِيَادٍ وَزْنِ سَبْعَةٍ مُنَجَّمَةً عَلَيْكَ سِتُّ سِنِينَ مُتَوَالِيَاتٍ أَوَّلُهَا مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَلَى أَنْ تَدْفَعَ إِلَيَّ هَذَا الْمَالَ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فِي نُجُومِهَا؛ فَأَنْتَ حُرٌّ بِهَا لَكَ مَا لِلأَحْرَارِ، وَعَلَيْكَ مَا عَلَيْهِمْ؛ فَإِنْ أَخْلَلْتَ شَيْئًا مِنْهُ عَنْ مَحِلِّهِ بَطَلَتْ الْكِتَابَةُ، وَكُنْتَ رَقِيقًا لا كِتَابَةَ لَكَ، وَقَدْ قَبِلْتُ مُكَاتَبَتَكَ عَلَيْهِ عَلَى الشُّرُوطِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ قَبْلَ تَصَادُرِنَا عَنْ مَنْطِقِنَا، وَافْتِرَاقِنَا عَنْ مَجْلِسِنَا الَّذِي جَرَى بَيْنَنَا ذَلِكَ فِيهِ أَقَرَّ فُلانٌ وَفُلانٌ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا } (تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں دے دیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو۔) (النور: ۳۳) ۱؎۔
یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنی صحت کی حالت اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں اپنے اس غلام کے لئے جو نوبہ (ایک ملک کا نام ہے) کا رہنے والا ہے اور اس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے: میں نے تم سے تین ہزار عمدہ اور کھرے درہم پر جو وزن میں سات مثقال کے برابر ہیں مکاتبت کی جو مسلسل چھ سال میں قسط وار ادا کئے جائیں گے، پہلی قسط فلاں سال کے فلاں مہینے میں چاند دیکھتے ہی ادا کی جائے گی، اگر تم نے اس تحریر میں بتائی گئی متعینہ روپئے کی مقدار برابر قسطوں میں ادا کر دی تو تم آزاد ہو اور تمہارے وہ سارے حقوق ملیں گے جو آزاد لوگوں کے ہیں اور تم پر وہ سب باتیں لازم ہوں گی جو ان پر لازم ہیں۔ اگر تم نے اس تحریر کی ذرہ برابر خلاف ورزی کی تو یہ تحریر کالعدم ہوگی اور تم پھر غلامی کی زندگی گذارو گے، مکاتبت سے متعلق کوئی تحریر دوبارہ نہیں لکھی جائے گی۔ میں نے تمہاری کتابت قبول کی ان شرائط کے مطابق جن کا ذکر اس کتاب میں ہوا اس سے پہلے کہ ہم اپنی گفتگو سے فارغ ہوں یا اپنی اس مجلس سے جدا ہوں جس میں یہ تحریر لکھی گئی، اقرار ہوا فلاں اور فلاں کی طرف سے۔
وضاحت ۱؎: مکاتب: اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کر کے ادا کر دوں گا تو آزادی کا مستحق ہو جاؤں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
49- تَدْبِيرٌ ۱؎
۴۹- باب: مدبر غلام یا لونڈی سے متعلق عہد نامہ​
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلانُ بْنُ فُلانِ بْنِ فُلانٍ لِفَتَاهُ الصَّقَلِّيِّ الْخَبَّازِ الطَّبَّاخِ الَّذِي يُسَمَّى فُلانًا، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ، وَيَدِهِ إِنِّي دَبَّرْتُكَ لِوَجْهِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَائَ ثَوَابِهِ؛ فَأَنْتَ حُرٌّ بَعْدَ مَوْتِي لاسَبِيلَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ بَعْدَ وَفَاتِي إِلا سَبِيلَ الْوَلائِ؛ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَقِبِي مِنْ بَعْدِي أَقَرَّ فُلانُ بْنُ فُلانٍ بِجَمِيعِ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ مِنْهُ بَعْدَ أَنْ قُرِئَ ذَلِكَ كُلُّهُ عَلَيْهِ بِمَحْضَرٍ مِنْ الشُّهُودِ الْمُسَمَّيْنَ فِيهِ؛ فَأَقَرَّ عِنْدَهُمْ أَنَّهُ قَدْ سَمِعَهُ، وَفَهِمَهُ، وَعَرَفَهُ، وَأَشْهَدَ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا ثُمَّ مَنْ حَضَرَهُ مِنْ الشُّهُودِ عَلَيْهِ أَقَرَّ فُلانٌ الصَّقَلِّيُّ الطَّبَّاخُ فِي صِحَّةٍ مِنْ عَقْلِهِ، وَبَدَنِهِ أَنَّ جَمِيعَ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ حَقٌّ عَلَى مَا سُمِّيَ، وَوُصِفَ فِيهِ۔یہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنے اس غلام کے لئے جو صیقل، گر نان بائی اور باورچی ہے، جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک میری ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تجھ کو مدبر (یعنی اپنی موت کے بعد آزاد) کیا اللہ کی رضامندی اور اس کے ثواب کی امید سے، تو تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، میرے مرنے کے بعد کسی کا تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے ولاء (وارث) کے، اس لئے کہ وہ میرے لئے ہے اور میرے مرنے کے بعد میرے وارثین کے لئے ہے۔ فلاں بن فلاں نے اقرار کیا کہ جو کچھ اس تحریر میں لکھا ہے وہ اپنی خوشی سے صحت اور تصرف کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھا گیا ہے۔ جب یہ تحریر اس عہد نامہ میں مذکور گواہ لوگوں کے سامنے پڑھی گئی تو اس نے اس کا اقرار کیا کہ میں نے اس کو سنا اور سمجھا اور جانا اور میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور اللہ گواہی کے لئے کافی ہے پھر وہ لوگ گواہ ہیں جو حاضر ہیں۔ فلاں صیقل گر باورچی نے اپنی درستی عقل اور جسمانی صحت کی حالت میں اس کا اقرار کیا کہ جو کچھ اس میں ذکر کیا گیا وہ سب ٹھیک اور درست ہے۔
وضاحت ۱؎: '' تدبیر '' یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہے کہ تم میری موت کے بعد آزاد ہو، ایسے غلام کو '' مدبّر'' کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
50- عِتْقٌ
۵۰- باب: غلام یا لونڈی کو آزاد کرنے سے متعلق عہد نامہ​
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلانُ بْنُ فُلانٍ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ، وَجَوَازِ أَمْرٍ وَذَلِكَ فِي شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا لِفَتَاهُ الرُّومِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلانًا، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ، وَيَدِهِ إِنِّي أَعْتَقْتُكَ تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَابْتِغَائً لِجَزِيلِ ثَوَابِهِ عِتْقًا بَتًّا لا مَثْنَوِيَّةَ فِيهِ، وَلارَجْعَةَ لِي عَلَيْكَ؛ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ وَالدَّارِ الآخِرَةِ لا سَبِيلَ لِي وَلا لأَحَدٍ عَلَيْكَ إِلا الْوَلائَ؛ فَإِنَّهُ لِي، وَلِعَصَبَتِي مِنْ بَعْدِي۔
یہ وہ تحریر ہے جس کو فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے صحت اور تصرف نافذ ہونے کی حالت میں لکھا ہے، فلاں سال کے فلاں مہینے میں اپنے اس رومی غلام کے لئے جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تم کو اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کا بڑا ثواب چاہنے کے لئے آزاد کیا، ایسی قطعی آزادی جو غیر مشروط ہے، میرے لئے رجوع کا کوئی حق باقی نہیں رہا، اب اللہ کے واسطے اور ثواب آخرت کے لئے تم آزاد ہو، اب میرا اور کسی کا بھی تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے حق ولاء (وراثت) کے کیونکہ وہ میرا ہے اور میرے بعد میرے عصبات کا ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

37-كِتَابُ المُحَارَبَةِ (تَحْرِيمِ الدَّمِ)
۳۷- کتاب: قتل وخون ریزی کے احکام و مسائل


1-تَحْرِيمِ الدَّمِ
۱- باب: خون کی حرمت کا بیان​


3971- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلالٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى - وَهُوَ ابْنُ سُمَيْعٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رسولهُ؛ فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رسولهُ، وَصَلَّوْا صَلاتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبَائِحَنَا؛ فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۷۶۲) (صحیح)
۳۹۷۱- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کفار و مشرکین سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی للہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر جب وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی للہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور وہ ہماری صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبیحے کھانے لگیں تو اب ان کے خون اور ان کے مال ہمارے اوپر حرام ہو گئے الا یہ کہ(جان ومال کے) کسی حق کے بدلے میں ہو'' (تو اور بات ہے) ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اگر وہ کسی کا مال لے لیں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا یا کسی کا خون کر دیں تو اس کے بدلے ان کا خون کیا جائے گا یا شادی شدہ زانی ہو تو اس کو رجم (پتھر مار کر ہلاک) کیا جائے گا۔ اس حدیث اور اس مضمون کی آنے والی تمام احادیث (نمبر ۳۹۸۸) کے متعلق یہ واضح رہے کہ ان میں مذکورہ حکم نبوی خاص اس وقت کے جزیرۃ العرب اور اس وقت کے ماحول سے متعلق ہے۔ یہ حکم اتنا عام نہیں ہے کہ ہر مسلمان ہر عہد اور ہر ملک میں اس پر عمل کرنے لگے۔ یا موجودہ دور میں پائی جانے والی کوئی مسلمان نام کی حکومت اس پر عمل کرنے لگے۔ ان احادیث کا صحیح (پس منظر) نہ معلوم ہونے کے سبب ہی اس حکم نبوی کے خلاف واویلا مچایا جاتا ہے، فافھم وتدبر۔ مؤلف نے اس کتاب و باب میں اس حدیث کو اس مقصد سے ذکر کیا کہ اگر کوئی شہادتوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ شعائر اسلام کو بجا لاتا ہو تو اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، مگر مذکورہ تین صورتوں میں ایسے آدمی کا خون بھی مباح ہے۔


3972- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ؛ فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَصَلَّوْا صَلاتَنَا؛ فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا لَهُمْ مَالِلْمُسْلِمِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ "۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۸ (۳۹۲)، د/الجہاد ۱۰۴ (۲۶۴۱)، ت/الإیمان ۲ (۲۶۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶)، حم (۳/۱۹۹، ۲۲۴)، یأتي عند المؤلف برقم: ۵۰۰۶ (صحیح)
۳۹۷۲- انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پھر جب وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری صلاۃ پڑھیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہو گئے مگر(جان ومال کے) کسی حق کے بدلے، ان کے لئے وہ سب کچھ ہے جو مسلمانوں کے لئے ہے، اور ان پر وہ سب(کچھ واجب) ہے جو مسلمانوں پر ہے''۔


3973- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلَ مَيْمُونُ بْنُ سِيَاهٍ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا يُحَرِّمُ دَمَ الْمُسْلِمِ، وَمَالَهُ؛ فَقَالَ: مَنْ شَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَصَلَّى صَلاتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا؛ فَهُوَ مُسْلِمٌ لَهُ مَا لِلْمُسْلِمِينَ، وَعَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۸ (۳۹۳ تعلیقًا)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸) (صحیح)
۴۰۷۳- میمون بن سیاہ نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: ابو حمزہ! کس چیز سے مسلمان کی جان، اور اس کا مال حرام ہو جاتے ہیں؟ کہا: جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے، ہماری طرح صلاۃ پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے، اسے وہ سارے حقوق ملیں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور اس پر ہر وہ چیز لازم ہوگی جو مسلمانوں پر ہوتی ہے۔


3974- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُوالْعَوَّامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتِ الْعَرَبُ؛ فَقَالَ عُمَرُ: يَا أَبَابَكْرٍ! كَيْفَ تُقَاتِلُ الْعَرَبَ؛ فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: إِنَّمَا قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا الَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رسول اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، وَاللَّهِ لَوْمَنَعُونِي عَنَاقًا مِمَّا كَانُوا يُعْطُونَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهِ، قَالَ عُمَرُ: فَلَمَّا رَأَيْتُ رَأْيَ أَبِي بَكْرٍ قَدْ شُرِحَ عَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ "۔
* تخريج: انظر حدیث برقم: ۳۰۹۶ (حسن، صحیح)
۳۹۷۴- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو بعض عرب مرتد ہو گئے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابو بکر! آپ عربوں سے کیسے جنگ کریں گے؟ ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ صلاۃ قائم نہ کریں اور زکاۃ نہ دیں، اللہ کی قسم! اگر وہ بکری کا ایک بچہ ۱؎ بھی روکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے لئے ان سے جنگ کروں گا ''۔
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: جب میں نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر ہے تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یا تو یہ بطور مبالغہ ہے، یا یہ مراد ہے کہ اگر کسی کو بکریوں کی زکاۃ میں مطلوب عمر کی بکری نہ موجود ہو تو اس کی جگہ بکری کا بچہ بھی دے دینا کافی ہوگا۔
وضاحت ۲؎: معلوم ہوا کہ صرف کلمہ شہادت کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہوگا جب تک عقائد، اصول اسلام اور احکام اسلام کی کتاب وسنت کی روشنی میں پابندی نہ کرے، گویا کلمہ شہادت ذریعہ ہے شعائر اسلام کے اظہار کا اور شعائر اسلام کی پابندی ہی نجات کا ضامن ہے۔


3975- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ لأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ؛ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنِّي رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ؛ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۳۹۷۵- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی موت ہوئی اور ابو بکر رضی الله عنہ آپ کے خلیفہ بنے اور عربوں میں سے جن لوگوں کو کافر ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ حالانکہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں، پس جس نے ''لا الٰہ الا اللہ'' کہا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے محفوظ کر لی مگر اس کے (یعنی جان ومال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو صلاۃ اور زکاۃ میں فرق کرے گا، اس لئے کہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا ۱؎ بھی جسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو دیتے تھے مجھے دینے سے روکیں گے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے جنگ کروں گا''۔
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی الله عنہ کے سینے کو جنگ کے لئے کھول دیا ہے، اور میں نے یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔
وضاحت ۱؎: یا تو یہ مبالغہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ بکریوں کی کسی تعداد پر زکاۃ میں رسی واجب نہیں ہے، یا '' عقال '' سے مراد مطلق زکاۃ ہے، اور ایسا شرعی لغت میں مستعمل بھی ہے، اس صورت میں اس عبارت کا معنی ہوگا '' تو اگر کوئی زکاۃ دیا کرتا تھا تو اب اس کے روکنے پر میں اس سے قتال کروں گا '' واللہ اعلم۔


3976- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا؛ فَقَدْ عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ؛ فَلَمَّا كَانَتْ الرِّدَّةُ قَالَ عُمَرُ لأَبِي بَكْرٍ: أَتُقَاتِلُهُمْ، وَقَدْ سَمِعْتَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كَذَا وَكَذَا؛ فَقَالَ: وَاللَّهِ لا افَرِّقُ بَيْنَ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَلأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا؛ فَقَاتَلْنَا مَعَهُ؛ فَرَأَيْنَا ذَلِكَ رُشْدًا".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: سُفْيَانُ فِي الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَهُوَ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۳۹۷۶- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ'' لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں، جب وہ لوگ یہ کہنے لگیں تو اب انہوں نے اپنے خون، اپنے مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا مگر(جان ومال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے، پھر جب ردت کا واقعہ ہوا(مرتد ہونے والے مرتد ہو گئے) تو عمر رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ سے کہا: کیا آپ ان سے جنگ کریں گے حالاں کہ آپ نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو ایسا اور ایسا فرماتے سنا ہے؟ تو وہ بولے: اللہ کی قسم! میں صلاۃ اور زکاۃ میں تفریق نہیں کروں گا، اور میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو ان کے درمیان تفریق کرے گا، پھر ہم ان کے ساتھ لڑے اور اسی چیز کو ہم نے ٹھیک اور درست پایا۔ ٭ ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: زہری سے روایت کرنے والے سفیان قوی نہیں ہیں اور ان سے مراد سفیان بن حسین ہیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے۔


3977- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ جَمَعَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۰۹۲ (صحیح متواتر)
۳۹۷۷- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ'' لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں، چنانچہ جس نے ''لا الٰہ الا اللہ'' کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کر لیا مگر (جان ومال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔
شعیب بن ابی حمزہ نے اپنی روایت میں دونوں حدیثوں کو جمع کر دیا ہے۔ (یعنی: واقعہ ردت اور مرفوع حدیث)


3978- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ! كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَبُوبَكْرٍ: لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ؛ فَوَاللَّهِ لَوْمَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ؛ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۳۹۷۸- ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابو بکر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے جن لوگوں نے کفر(ارتداد) کی گود میں جانا تھا چلے گئے تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابو بکر! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے؟ حالاں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ إلا اللہ'' نہ کہیں، تو جس نے ''لا الٰہ الا اللہ'' کہا اس نے مجھ سے اپنا مال، اپنی جان محفوظ کر لیا، مگر(جان ومال کے) حق کے بدلے میں، اور اس کا حساب اللہ پر ہے''۔
ابو بکر رضی الله عنہ بولے: میں ہر اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو صلاۃ اور زکاۃ میں تفریق کرے گا کیونکہ زکاۃ یقیناً مال کا حق ہے، اللہ کی قسم! اگر ان لوگوں نے بکری کا ایک بچہ بھی مجھے دینے سے روکا جسے یہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں اس کے روکنے پر ان سے جنگ کروں گا۔
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی الله عنہ کے سینے کو جنگ کے لئے کھول دیا ہے، تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔


3979- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَمَنْ قَالَهَا؛ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ، وَمَالَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ". ٭خَالَفَهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۰۹۷ (صحیح)
۳۹۷۹- ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں تو جس نے یہ کہہ دیا، اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر (جان ومال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے''۔ ٭ولید بن مسلم نے عثمان کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ ولید نے مرفوع حدیث کے ساتھ ساتھ پورا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔


3980- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَذَكَر آخَر عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ فَأَجْمَعَ أَبُو بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ فَقَالَ عُمَرُ يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، قَالَ: أَبُوبَكْرٍ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۵(صحیح)
۳۹۸۰- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ارتداد کا فتنہ ظاہر ہونے پر) ابو بکر رضی الله عنہ نے ان مرتدین سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابو بکر! آپ لوگوں سے کیوں کر لڑیں گے حالاں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ یہ کہنے لگیں تو ان کے خون، ان کے مال مجھ سے محفوظ ہو گئے مگر (جان ومال کے) حق کے بدلے''، ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا: میں ہر اس شخص سے لازماً جنگ کروں گا جو صلاۃ اور زکاۃ کے درمیان تفریق کرے گا۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھ سے بکری کا ایک بچہ بھی روکیں گے جسے وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو اسے روکنے پر ان سے جنگ کروں گا''۔
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی الله عنہ کے سینے کو ان مرتدین سے جنگ کرنے کے لئے کھول دیا ہے، تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔


3981- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ "۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۰۳ (۲۶۴۰)، ت/الإیمان ۱ (۲۶۰۶)، ق/الفتن ۱ (۳۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۶) (صحیح)
۳۹۸۱- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں، جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کر لیے مگر (جان ومال کے) حق کے بدلے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہوگا''۔


3982- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، وَعَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالا: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"۔
* تخريج: م/الإیمان ۸ (۲۱)، ق/الفتن ۱ (۳۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۸)، وحدیث أبي صالح، قد تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸۲) (صحیح)
۳۹۸۲- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں، پھر جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور اپنے مال محفوظ کر لیے مگر اس کے (جان ومال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے''۔


3983- أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نُقَاتِلُ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فَإِذَا قَالُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ.
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۴) (حسن صحیح)
۳۹۸۳- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہم لوگوں سے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو ہم پر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہو گئے مگر اس کے (جان ومال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے''۔


3984- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ۱؎ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَائَ رَجُلٌ فَسَارَّهُ؛ فَقَالَ: اقْتُلُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَيَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ: نَعَمْ، وَلَكِنَّمَا يَقُولُهَا تَعَوُّذًا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاتَقْتُلُوهُ؛ فَإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۳) (صحیح)
۳۹۸۴- نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک شخص نے آ کر آپ سے رازدارانہ گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: ''اسے قتل کر دو''، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں؟ '' کہا: ہاں، مگر اپنے کو بچانے کے لئے وہ ایسا کہتا ہے، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسے قتل نہ کرو۔ اس لئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں: جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کر لیا، مگر اس کے (جان ومال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے''۔
وضاحت: مزی نے تحفۃ الأشراف (۹/۲۱) میں اس حدیث کے ذکر کے بعد نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ '' اسود'' کی روایت صحیح نہیں ہے۔ (جن ہوں نے یہ نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی مسند سے روایت کیا ہے، صحیح اگلی پانچ روایتیں ہیں، جن میں یہ حدیث اوس رضی الله عنہ کی مسند سے روایت کی گئی ہے)


3985- قَالَ عُبَيْدُاللَّهِ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ رَجُلٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِي قُبَّةٍ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، وَقَالَ: فِيهِ إِنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ نَحْوَهُ۔
* تخريج: ق/الفتن ۱ (۳۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۸)، حم (۴/۸)، ویأتي فیما یلي: ۳۹۸۶، ۳۹۸۷، ۳۹۸۸ (صحیح)
۳۹۸۵- ایک شخص ۱؎ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم آئے اور ہم مدینے کی مسجد کے ایک خیمے میں تھے، وہاں آپ نے فرمایا: ''میرے پاس وحی آئی ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ '' لا الٰہ الا اللہ'' نہ کہیں ... آگے حدیث اسی طرح ہے جیسی اوپر گزری۔
وضاحت ۱؎: یہ شخص صحابی رسول صلی للہ علیہ وسلم '' اوس بن ابی اوس حذیفہ ثقفی '' رضی الله عنہ ہیں، ان کے نام کی صراحت اگلی روایتوں میں آ رہی ہے۔


3986- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسًا يَقُولُ: دَخَلَ عَلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي قُبَّةٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۹۸۶- اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم لوگ خیمہ میں تھے پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔


3987- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسًا يَقُولُ: أَتَيْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ؛ فَكُنْتُ مَعَهُ فِي قُبَّةٍ، فَنَامَ مَنْ كَانَ فِي الْقُبَّةِ غَيْرِي، وَغَيْرُهُ؛ فَجَائَ رَجُلٌ؛ فَسَارَّهُ؛ فَقَالَ: اذْهَبْ؛ فَاقْتُلْهُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنِّي رسول اللَّهِ، قَالَ: يَشْهَدُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ذَرْهُ" ثُمَّ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لا الَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا حَرُمَتْ دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا "۔ ٭قَالَ مُحَمَّدٌ: فَقُلْتُ لِشُعْبَةَ: أَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنِّي رسول اللَّهِ، قَالَ: أَظُنُّهَا مَعَهَا، وَلا أَدْرِي۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۸۵(صحیح)
۳۹۸۷- اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں آپ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھا، میرے اور آپ کے علاوہ خیمے میں موجود سبھی لوگ سو گئے۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ سے چپکے سے کہا تو آپ نے فرمایا: ''جاؤ اسے قتل کر دو'' ۱؎، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ''۔ اس نے کہا: وہ گواہی دے رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ''اسے چھوڑ دو'' پھر فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ''لا الٰہ الا اللہ '' نہ کہیں: جب وہ یہ کہنے لگ جائیں تو ان کے خون، ان کے مال حرام ہو گئے مگر اس کے (جان ومال کے) حق کے بدلے''۔
٭محمد(بن جعفر غندر) کہتے ہیں: میں نے شعبہ سے کہا: کیا حدیث میں یہ نہیں ہے''أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَأَنِّي رسول اللهِ؟ '' وہ بولے: میرے خیال میں "إنِّي رسول اللهِ" کا جملہ'' لا إِلَهَ إِلا اللهُ'' کے ساتھ ہے، مجھے معلوم نہیں۔
وضاحت ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نمبر ۳۹۸۴ میں '' فاقتلوہ'' میں جو ''ہ '' ضمیر ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے متعلق اس نے رازدارانہ سرگوشی کی تھی، نہ کہ بذات خود سرگوشی کرنے والا مراد ہے، کیونکہ ''اذھب فاقتلہ'' کا جملہ صریح طور پر اسی مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے۔


3988- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَوْسًا، قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ثُمَّ تَحْرُمُ دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۸۵(صحیح)
۳۹۸۸- اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (جب وہ اس کی گواہی دے دیں گے تو) پھر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہو جائیں گے مگر اس کے (جان ومال کے) حق کے بدلے''۔


3989- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ، وَكَانَ قَلِيلَ الْحَدِيثِ عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلا الرَّجُلُ يَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا أَوْ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۰)، حم (۴/۹۹) (صحیح)
۳۹۸۹- ابو ادریس خولانی کہتے ہیں: میں نے معاویہ رضی الله عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (ان ہوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: '' ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دے سوائے اس (گناہ) کے کہ آدمی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں توبہ کئے بغیر مر جائیں، نیز آیت کریمہ: { وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَائ} (سورة النساء: 48) (یعنی: اللہ تعالیٰ شرک کے سوا دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے معاف کر سکتا ہے) کی روشنی میں مومن کے قصد و ارادہ سے عمداً قتل کو بھی بغیر توبہ کے معاف کر سکتا ہے (جس کے لیے چاہے) محققین سلف کا یہی قول ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے حدیث رقم ۴۰۰۴ کا حاشیہ)


3990- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لاتُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا وَذَلِكَ أَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ "۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۱ (۳۳۳۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۷)، الاعتصام ۱۵ (۷۳۲۱)، م/القسامۃ ۷ (۱۶۷۷)، ت/العلم ۱۴ (۲۶۷۳)، ق/الدیات ۱ (۲۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۸)، حم (۱/۳۸۳، ۴۳۰، ۴۳۳) (صحیح)
۳۹۹۰- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ناحق جو بھی خون ہوتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے اس بیٹے پر جاتا ہے جس نے سب سے پہلے قتل کیا، کیوں کہ اسی نے سب سے پہلے (ناحق) خون کرنے کی کا راستہ نکالا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-تَعْظِيمُ الدَّمِ
۲- باب: ناحق خون کرنے کی سنگینی کا بیان​


3991- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ مَالَجَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَتْلُ مُؤْمِنٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا ". ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۵) (صحیح)
(اگلی متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی '' ابراہیم بن مہاجر'' ضعیف ہیں)
۳۹۹۱- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی مومن کا (ناحق) قتل اللہ کے نزدیک پوری دنیا تباہ ہونے سے کہیں زیادہ بڑی چیز ہے '' ۱؎۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ابراہیم بن مہاجر زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔
وضاحت ۱؎: یعنی ایسا مومن کامل جو اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام کا پورے طور پر پابند بھی ہے ایسے مومن کا ناحق قتل ہونا اللہ رب العالمین کی نظر میں ایسے ہی ہے جیسے دنیا والوں کی نگاہ میں دنیا کی عظمت ہے۔


3992- أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عِنْدَاللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ "۔
* تخريج: ت/الدیات ۷ (۱۳۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۷) (صحیح)
۳۹۹۲- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زوال اور اس کی بربادی کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنے سے زیادہ حقیر اور آسان ہے''۔


3993-أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَاللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۹۲ (صحیح)
۳۹۹۳- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں: ''مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کے ہلاک و برباد ہونے سے زیادہ بڑی بات ہے''۔


3994- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَاللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۹۲ (صحیح)
۳۹۹۴- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ہلاک وبرباد ہونے سے زیادہ بڑی بات ہے۔


3995- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمَرْوَزِيُّ - ثِقَةٌ - حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَاللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۲) (حسن صحیح)
۳۹۹۵- بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ہلاک ہونے سے کہیں زیادہ بڑی بات ہے''۔


3996- أَخْبَرَنَا سَرِيعُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْوَاسِطِيُّ الْخَصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ، وَأَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَائِ"۔
* تخريج: ق/الدیات ۱ (۲۶۱۷ مختصرا)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۷۵) (صحیح)
۳۹۹۶- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' سب سے پہلی چیز جس کا بندے سے حساب ہوگا صلاۃ ہے، اور سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: خالق کے حقوق سے متعلق پہلی چیز جس کا بندے سے حساب ہوگا نماز ہے، اور بن دوں کے آپسی حقوق میں سے سب سے پہلے خون کی بابت فیصلہ کیا جائے گا۔


3997- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَاوَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَوَّلُ مَا يُحْكَمُ بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَائِ "۔
* تخريج: خ/الرقاق ۴۸ (۶۵۳۳)، الدیات ۱(۶۸۶۴)، م/القسامۃ ۸ (۱۶۷۸)، ت/الدیات ۸ (۱۳۹۶)، ق/الدیات ۱(۲۶۱۷)، حم (۱/۳۸۸، ۴۴۱، ۴۴۲) (صحیح)
۳۹۹۷- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا''۔


3998- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَائِ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ(صحیح)
(عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا یہ کلام موقوف ہے، لیکن حکم میں یہ مرفوع یعنی حدیث نبوی ہے)۔
۳۹۹۸- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان قیامت کے روز سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔


3999- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَوَّلُ مَايُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَائِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۹۷ (صحیح)
۳۹۹۹- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔


4000- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَّلُ مَا يُقْضَى فِيهِ بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَائِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۶۴) (صحیح)
(یہ روایت مرسل ہے، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)
۴۰۰۰- عمرو بن شرحبیل کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قیامت کے روز لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا''۔


4001- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَائِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۹۹۷ (صحیح)
۴۰۰۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔


4002- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَجِيئُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ الرَّجُلِ؛ فَيَقُولُ: يَارَبِّ! هَذَا قَتَلَنِي فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: قَتَلْتُهُ لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لَكَ، فَيَقُولُ: فَإِنَّهَا لِي، وَيَجِيئُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: إِنَّ هَذَا قَتَلَنِي؛ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لِفُلانٍ؛ فَيَقُولُ: إِنَّهَا لَيْسَتْ لِفُلانٍ؛ فَيَبُوئُ بِإِثْمِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۲) (صحیح)
۴۰۰۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' (قیامت کے دن) آدمی آدمی کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: میں نے اسے اس لئے قتل کیا تھا تاکہ عزت و غلبہ تجھے حاصل ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: وہ یقیناً میرے ہی لئے ہے، ایک اور شخص ایک شخص کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا: اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا؟ وہ کہے گا: تاکہ عزت و غلبہ فلاں کا ہو، اللہ فرمائے گا: وہ تو اس کے لئے نہیں ہے۔ پھر وہ (قاتل) اس کا(جس کے لیے قتل کیا اس کا) گناہ سمیٹ لے گا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ حدیث آیت کریمہ {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} کے منافی اور خلاف نہیں ہے، اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دوسرے کا گناہ ایسے شخص پر نہیں لادا جا سکتا جس کا اس گناہ سے نہ تو ذاتی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے کسی ذاتی فعل کا اثر ہے، اور یہاں جس قتل ناحق کا تذکرہ ہے اس میں اس شخص کا تعلق اور اثر موجود ہے جس کی عزت وتکریم یا حکومت کی خاطر قاتل نے اس قتل کو انجام دیا ہے۔


4003- أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، قَالَ: قَالَ جُنْدَبٌ: حَدَّثَنِي فُلانٌ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجِيئُ الْمَقْتُولُ بِقَاتِلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي؛ فَيَقُولُ قَتَلْتُهُ عَلَى مُلْكِ فُلانٍ، قَالَ جُنْدَبٌ: فَاتَّقِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۴۱-ألف)، حم (۵/۳۶۷، ۳۷۳) (صحیح الإسناد)
۴۰۰۳- جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے فلاں (صحابی) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز مقتول اپنے قاتل کو لے کر آئے گا اور کہے گا: (اے اللہ!) اس سے پوچھ، اس نے کس وجہ سے مجھے قتل کیا؟ تو وہ کہے گا: میں نے اس کو فلاں کی سلطنت میں قتل کیا۔ جندب کہتے رضی الله عنہ ہیں: تو اس سے بچو ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اس طرح کے عذرلنگ والے جواب کی نوبت آنے سے بچو، یعنی تم کو اللہ کے پاس اس طرح کے جواب دینے کی نوبت نہ آئے، یہ خیال رکھو۔


4004- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَمَّنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ثُمَّ تَابَ، وَآمَنَ، وَعَمِلَ صَالِحًا، ثُمَّ اهْتَدَى، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَجِيئُ مُتَعَلِّقًا بِالْقَاتِلِ تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا؛ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا۔
* تخريج: ق/الدیات ۲ (۲۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۳۲)، حم (۱/۲۴۰، ۲۹۴، ۳۶۴)، ویأتي عند المؤلف في القسامۃ (برقم: ۴۸۷۰) (صحیح)
۴۰۰۴- سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کی، ایمان لایا، اور نیک عمل کئے پھر راہ راست پر آ گیا؟ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اس کی توبہ کہاں ہے؟ میں نے تمہارے نبی صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: '' وہ قاتل کو پکڑے آئے گا اور اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ '' پھر (ابن عباس رضی الله عنہما نے) کہا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت (ومن يقتل مؤمنا متعمدا...) کو نازل کیا اور اسے منسوخ نہیں کیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ آیت: '' وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيْهَا '' (جو کوئی مؤمن کو عمداًقتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ النسائ: ۹۳) مدنی ہے اور بقول ابن عباس مدنی زندگی کے آخری دور میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اس لیے یہ اس مکی آیت کی بظاہر ناسخ ہے جو سورہ فرقان میں ہے: '' وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ '' سے لے کر '' إلاَّ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا'' تک (اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیے۔۔۔ (الفرقان: ۶۸-۷۰) علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مؤمن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور وہ جہنمی ہوگا۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مدنی آیت میں خلود سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے، ایک نہ ایک دن توحید کی بدولت اسے ضرور جہنم سے خلاصی ہوگی۔ یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجر وتوبیخ مراد ہے۔ یا جو بغیر توبہ مر جائے، یہ ساری تاویلات اس لیے کی گئی ہیں کہ جب کفر وشرک کے مرتکب کی توبہ مقبول ہے تو مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی، یہی وجہ ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔ دیکھئے (صحیح حدیث نمبر: ۲۷۹۹)


4005- قَالَ: و أَخْبَرَنِي أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: اخْتَلَفَ أَهْلُ الْكُوفَةِ فِي هَذِهِ الآيَةِ: { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا } فَرَحَلْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ؛ فَسَأَلْتُهُ؛ فَقَالَ: لَقَدْ أُنْزِلَتْ فِي آخِرِ مَا أُنْزِلَ ثُمَّ مَا نَسَخَهَا شَيْئٌ۔
* تخريج: خ/تفسیرسورۃ النساء ۱۶(۴۵۹۰)، تفسیرسورۃ الفرقان ۲ (۴۷۶۳)، م/التفسیر ۱۶ (۳۰۲۳)، د/الفتن ۶ (۴۲۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۲۱)، ویأتی برقم: ۴۸۶۸ (صحیح)
۴۰۰۵- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس آیت{ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا}کے سلسلے میں اہل کوفہ میں اختلاف ہوا تو میں ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ سب سے اخیر میں نازل ہونے والی آیتوں میں اتری اور اسے کسی اور آیت نے منسوخ نہیں کیا۔


4006- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ هَلْ لِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ، قَالَ: لا، وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ، { وَالَّذِينَ لايَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ } قَالَ هَذِهِ آيَةٌ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ }۔
* تخريج: خ/تفسیر الفرقان ۲ (۴۷۶۴)، م/التفسیرح ۲۰ (۳۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۲۱)، ویأتي برقم: ۴۸۶۹ (صحیح)
۴۰۰۶- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا: جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟، میں نے ان کے سامنے سورہ فرقان کی یہ آیت: '' وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلايَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ '' پڑھی تو انہوں نے کہا: یہ آیت مکی ہے اسے ایک مدنی آیت ''وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ '' نے منسوخ کر دیا ہے۔


4007- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَمَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ، { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } فَسَأَلْتُهُ؛ فَقَالَ: لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْئٌ وَعَنْ هَذِهِ الآيَةِ: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ } قَالَ: نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ۔
* تخريج: خ/تفسیر الفرقان ۴ (۴۷۶۲)، م/التفسیرح ۱۸ (۳۰۲۳)، د/الفتن ۶ (۲۴۷۳)، وراجع أیضا: خ/مناقب الأنصار ۲۹ (۳۸۵۵)، تفسیر الفرقان ۳ (۴۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۲۴)، ویأتي برقم (صحیح)
۴۰۰۷- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلی نے مجھے حکم دیا کہ میں ابن عباس سے ان دو آیتوں (وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ) (وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلايَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ) کے متعلق پوچھوں، اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ اور دوسری آیت کے بارے میں انہوں نے کہا: یہ اہل مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔


4008- أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَنْبِجِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى الثَّعْلِبِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ قَوْمًا كَانُوا قَتَلُوا؛ فَأَكْثَرُوا وَزَنَوْا؛ فَأَكْثَرُوا، وَانْتَهَكُوا؛ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَامُحَمَّدُ! إِنَّ الَّذِي تَقُولُ: وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ إِلَى فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ } قَالَ يُبَدِّلُ اللَّهُ شِرْكَهُمْ إِيمَانًا وَزِنَاهُمْ إِحْصَانًا وَنَزَلَتْ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ الآيَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۷) (صحیح)
(سعید بن جبیر سے پہلے کے تمام رواۃ حافظے کے کمزور ہیں لیکن اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۴۰۰۸- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک(مشرک) قوم کے لوگوں نے بہت زیادہ قتل کئے، کثرت سے زنا کیا اور خوب حرام اور ناجائز کام کئے۔ پھر نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: محمد! جو آپ کہتے ہیں اور جس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں یقینا وہ ایک بہتر چیز ہے لیکن یہ بتائیے کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے کیا اس کا کفارہ بھی ہے؟، تو اللہ تعالی نے ''وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ '' سے لے کر'' فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ '' تک آیت نازل فرمائی، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یعنی اللہ ان کے شرک کو ایمان سے، ان کے زنا کو عفت و پاک دامنی سے بدل دے گا اور یہ آیت '' قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ '' نازل ہوئی '' ۱؎۔
وضاحت ۱ ؎: میرے ان بن دوں سے کہہ دیجئے جن ہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، الآیۃ۔


4009- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ أَتَوْا مُحَمَّدًا، فَقَالُوا إِنَّ الَّذِي تَقُولُ: وَتَدْعُو إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً؛ فَنَزَلَتْ: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ } وَنَزَلَتْ: { قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ }۔
* تخريج: خ/تفسیرسورۃ الزمر۱(۴۸۱۰)، م/الإیمان۵۴(۱۲۲)، د/الفتن۶(۴۲۷۴ مختصرا)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۵۲) (صحیح)
۴۰۰۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے کے کچھ لوگوں نے محمد صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ جو کہتے اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہتر چیز ہے لیکن یہ بتائیے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کیا اس کا بھی کفارہ ہے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی '' وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ'' (جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے) اور یہ نازل ہوئی'' قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ '' (اے میرے بندو جن ہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے) (الزمر: ۵۳)۔


4010- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَرْقَائُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَجِيئُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ، وَرَأْسُهُ فِي يَدِهِ، وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ: يَا رَبِّ! قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنْ الْعَرْشِ، قَالَ: فَذَكَرُوا لابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ؛ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ.{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا} قَالَ: مَا نُسِخَتْ مُنْذُ نَزَلَتْ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ۔
* تخريج: ت/تفسیر سورۃ النساء (۳۰۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۰۳) (صحیح)
۴۰۱۰- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آئے گا، اس کی پیشانی اور اس کا سراس (مقتول) کے ہاتھ میں ہوں گے اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا، یہاں تک کہ وہ اسے لے کر عرش کے قریب جائے گا''۔
راوی(عمرو) کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت: ''وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا'' (جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا) تلاوت کی اور کہا: جب سے یہ نازل ہوئی منسوخ نہیں ہوئی پھر اس کے لیے توبہ کہاں ہے؟۔


4011- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا} الآيَةُ كُلُّهَا بَعْدَ الآيَةِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الْفُرْقَانِ بِسِتَّةِ أَشْهُرٍ .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ أَبِي الزِّنَادِ۔
* تخريج: د/الفتن ۶ (۴۲۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۰۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۰۱۲، ۴۰۱۳) (حسن صحیح)
۰۱۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا }یہ پوری آیت آخر تک، سورہ فرقان والی آیت کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی ہے۔
٭ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: محمد بن عمرو نے اسے ابو الزناد سے نہیں سنا۔ (اس کی دلیل اگلی روایت ہے)


4012- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ عَبْدِالْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدٍ فِي قَوْلِهِ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ} قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ. بَعْدَ الَّتِي فِي تَبَارَكَ الْفُرْقَانِ بِثَمَانِيَةِ أَشْهُرٍ، {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ}.
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: أَدْخَلَ أَبُو الزِّنَادِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَارِجَةَ مُجَالِدَ بْنَ عَوْفٍ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن صحیح)
اور لفظ ''ستۃ أشہر'' زیادہ صحیح ہے۔
۴۰۱۲- زیدبن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت: { وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ} کے بارے میں کہا: یہ آیت سورہ فرقان کی اس آیت: {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلايَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّـ } کے آٹھ مہینہ بعدنازل ہوئی ہے۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ابو الزناد نے اپنے اور خارجہ کے درمیان میں مجالد بن عوف کو داخل کیا ہے۔


4013- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ خَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ: نَزَلَتْ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا} أَشْفَقْنَا مِنْهَا فَنَزَلَتْ الآيَةُ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ}۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۰۱۱ (منکر)
(اس روایت میں بات کو الٹ دیا ہے، فرقان کی آیت نساء کی آیت سے پہلے نازل ہوئی، جیسا کہ پچھلی روایات میں مذکور ہے اور نکارت کی وجہ '' مجالد '' ہیں جن کے نام ہی میں اختلاف ہے: مجالد بن عوف بن مجالد ''؟ اور بقول منذری: عبدالرحمن بن اسحاق متکلم فیہ راوی ہیں، امام احمد فرماتے ہیں: یہ ابو الزناد سے منکر روایات کیا کرتے تھے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ سنن ابوداود میں اس سند سے بھی یہ روایت ایسی ہے جیسی رقم ۴۰۱۱ ہیں گزری؟)
۴۰۱۳- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا} نازل ہوئی تو ہمیں خوف ہوا۔ پھر سورہ فرقان کی یہ آیت: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلايَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقّ }نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-ذِكْرُ الْكَبَائِرِ
۳- باب: کبائر (کبیرہ گنا ہوں) کا بیان ۱؎​


4014- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ أَبَا رُهْمٍ السَّمَعِيَّ حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ جَائَ يَعْبُدُ اللَّهَ، وَلا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيُقِيمُ الصَّلاةَ، وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَجْتَنِبُ الْكَبَائِرَ كَانَ لَهُ الْجَنَّةُ؛ فَسَأَلُوهُ عَنْ الْكَبَائِرِ؛ فَقَالَ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الْمُسْلِمَةِ، وَالْفِرَارُ يَوْمَ الزَّحْفِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۴۵۱)، حم (۵/۴۱۳، ۴۱۴) (صحیح)
۴۰۱۴- ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، صلاۃ قائم کرتا ہے، زکاۃ دیتا ہے اور کبائر سے دور اور بچتا ہے۔ اس کے لئے جنت ہے''، لوگوں نے آپ سے کبائر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: '' اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی مسلمان جان کو (ناحق) قتل کرنا اور لڑائی کے دن میدان جنگ سے بھاگ جانا''۔
وضاحت ۱؎: کبیرہ: ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کو جہنم کے عذاب اور سخت وعید کی دھمکی دی گئی ہو، ان میں سے بعض کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے، اور جن کا تذکرہ لفظ کبیرہ کے ساتھ نہیں آیا ہے مگر مذکورہ سزا کے ساتھ آیا ہے، وہ بھی کبیرہ گنا ہوں میں سے ہیں۔ کبائر تین طرح کے ہیں: (۱) پہلی قسم اکبر الکبائر کی ہے جیسے اشراک باللہ اور نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں اس کی تکذیب کرنا۔ (۲) اور دوسرے درجے کے کبائر حقوق العباد کے تعلق سے ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا، دوسرے کا مال غصب کرنا اور ہتک عزت کرنا وغیرہ۔ (۳) تیسرے درجے کے کبائر کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً زنا اور شراب نوشی وغیرہ۔ (جیسے حدیث رقم ۴۰۱۷) میں کبائر کی تعداد سات آئی ہے، لیکن متعدد احادیث میں ان سات کے علاوہ کثیر تعداد میں دیگر گنا ہوں کو بھی کبیرہ کہا گیا ہے۔ اس لیے وہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ہے۔ (دیکھئے: فتح الباری کتاب الحدود، باب رمی المحصنات)


4015- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح وَأَنْبَأَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكَبَائِرُ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَقَوْلُ الزُّورِ"۔
* تخريج: خ/الشہادات ۱۰ (۲۶۵۳)، الأدب ۶ (۵۹۷۷)، الدیات ۲ (۶۸۷۱)، م/الإیمان ۳۸ (۸۸)، ت/البیوع ۳ (۱۲۰۷)، تفسیرالنساء (۳۰۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷)، حم (۳/۱۳۱، ۱۳۴) ویأتي عند المؤلف في القسامۃ ۴۸ (برقم: ۴۸۷۱) (صحیح)
۴۰۱۵- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبائر یہ ہیں: '' اللہ کے ساتھ غیر کو شریک کرنا، ماں باپ کی نا فرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹ بولنا''۔


4016- أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا فِرَاسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْكَبَائِرُ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ"۔
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۱۶ (۶۶۷۵)، الدیات۲(۶۸۷۰)، المرتدین۱(۶۹۲۰)، ت/تفسیرسورۃ النساء (۳۰۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۵)، حم (۲/۲۰۱)، دي/الدیات ۹ (۲۴۰۵)، ویأتي عند المؤلف في القسامۃ ۴۸ (۴۸۷۲) (صحیح)
۴۰۱۶- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کبائر (بڑے گناہ) یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نا فرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹی قسم کھانا''۔


4017- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْبُ ابْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَبُوهُ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! مَا الْكَبَائِرُ؟ قَالَ: " هُنَّ سَبْعٌ أَعْظَمُهُنَّ إِشْرَاكٌ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَفِرَارٌ يَوْمَ الزَّحْفِ " مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: د/الوصایا ۱۰ (۲۸۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۵) (حسن)
۴۰۱۷- صحابی رسول عمیر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کبائر کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''وہ سات ہیں: ان میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ غیر کو شریک کرنا، ناحق کسی کو قتل کرنا اور دشمن سے مقابلے کے دن میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہے''، یہ حدیث مختصر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-ذِكْرُ أَعْظَمِ الذَّنْبِ وَاخْتِلافُ يَحْيَى وَعبدالرحمن عَلَى سُفْيَانَ فِي حَدِيثِ وَاصِلٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهِ
۴- باب: سب سے بڑے گناہ کا بیان(واصل عن ابی وائل عن عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی سفیان سے روایت کرنے میں یحییٰ اور عبدالرحمان کے اختلاف کا ذکر)​


4018- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: " أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ "۔
* تخريج: خ/تفسیرسورۃ البقرۃ ۳ (۴۴۷۷)، تفسیرالفرقان ۲ (۴۷۶۱)، الأدب۲۰(۶۰۰۱)، الحدود ۲۰ (۶۸۱۱)، الدیات ۱ (۶۸۶۱)، التوحید ۴۰ (۷۵۲۰)، ۴۶ (۷۵۳۲)، م/الإیمان ۳۷ (۸۶)، د/الطلاق ۵۰ (۲۳۱۰)، ت/تفسیرسورۃ الفرقان (۳۱۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۰)، حم (۱/۴۳۴) (صحیح)
۴۰۱۸- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر (ہم پلہ) ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے''، میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: '' یہ کہ تم اس ڈر سے اپنے بچے کو مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو''۔


4019- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَاصِلٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: " أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ ".
* تخريج: خ/تفسیر الفرقان ۲ (۴۷۶۱)، ت/تفسیر سورۃ الفرقان (۳۱۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۱)، حم (۱/۴۳۴، ۴۶۲، ۴۶۴) (صحیح)
۴۰۱۹- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: '' یہ کہ تم اپنے بچے کو اس وجہ سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو''۔


4020- أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: "الشِّرْكُ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وَأَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ، وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ الْفَقْرِ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ" ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُاللَّهِ: { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ }. ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ الَّذِي قَبْلَهُ، وَحَدِيثُ يَزِيدَ هَذَا خَطَأٌ إِنَّمَا هُوَ وَاصِلٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۲۷۹) (صحیح)
۴۰۲۰- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''شرک یعنی یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر ٹھہراؤ، اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، اور فقر وفاقہ کے ڈر سے کہ بچہ تمہارے ساتھ کھائے گا تم اپنے بچے کو قتل کر دو''، پھر عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے یہ آیت پڑھی ''وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ'' (اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں)۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں غلطی ہے، اس سے پہلے والی سند صحیح ہے، یزید کی اس سند میں غلطی ہے (کہ واصل کی بجائے عاصم ہے) صحیح '' واصل '' ہے۔
 
Top