• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سکر اورنبیذ کا مسئلہ:
اہل حجاز اور اہل کوفہ کے درمیان نبیذ کے پینے کے بارے میں اور ایسے ہی نشہ آور چیزوں کے قلیل استعمال میں کافی اختلاف رہا ہے، اہل حجاز اور عام محدثین دلائل کی روشنی میں نبیذ پینے کو حرام کہتے ہیں اور اہل کوفہ اسے دیانۃ حلال کہتے ہیں، چونکہ یہ رائے تاویل پر مبنی ہے اس لیے فروعی اختلاف کے باب میں اس کا شمار ہے ، ایسے ہی محدثین کے یہاں دلائل کی روشنی میں ہر نشہ آور چیز کی قلیل مقدار حرام ہے ، جس کی کثیر مقدار پینے سے آدمی کو نشہ آجاتا ہے ، اس مسئلہ پر امام نسائی کی درج ذیل رائے سے خود ان کے اور محدثین کے منہج اور طریقے پر روشنی پڑتی ہے ۔
امام نسائی کتاب الأشربۃ میں ماأسکر کثیرہ فقلیلہ حرام کی حدیث کی تخریج کے بعد کہتے ہیں : اس میں دلیل ہے کہ نشہ لانے والی چیز حرام ہے، خواہ وہ زیا دہ ہو یا کم، اور معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ حیلہ کر نے والے اپنے لیے کہتے ہیں کہ ایسے مشرو ب کا آخری گھونٹ حرام ہو تا ہے اور وہ گھونٹ حلال ہوتے ہیں جو پہلے پیے جاچکے ہیں اور اس سے پہلے رگو ں میں سرا یت کر چکے ہیں، اس با ت میں علما ء کے درمیان اختلاف نہیں پا یا جا تا کہ پو را نشہ ابتدائی گھو نٹو ں کے علاوہ صر ف آخری گھونٹ سے پیدا نہیں ہو تا(۵۶۱۳)۔
فضائل صحابہ اور تشیع کے بارے میں امام نسائی کے موقف کا بیان
اب آئیے امام نسائی کی صحیح عقائد کے پھیلانے اور بدعت اور اہل بدعت کے خلاف ڈٹ جانے کے اس جرأت مندانہ اقدام کی طرف جو دمشق میں'' خصائص علی'' کی تالیف کی شکل میں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
امام دارقطنی کہتے ہیں: نسائی اپنے زمانہ کے مشائخ مصرمیں سب بڑے فقیہ اور احادیث کی صحت اور ضعف رواۃ حدیث کے سب سے بڑے ماہر اور جانکار تھے۔
علم وفضل کے اس مقام پر پہنچنے کی وجہ سے لوگوں نے آپ سے حسد کیا، تو آپ مصر سے رملہ (فلسطین) چلے گئے ، وہاں پرآپ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ خاموش رہے ،ا س پرلوگوں نے جامع مسجد میں آپ کو مارا پیٹا، خود آپ کا بیان ہے کہ مجھے لوگوں نے مکہ (صحیح رملہ) کی طرف نکال دیا، آپ مکہ(رملہ) کی طرف بیماری کی حالت میں گئے، اور وہیں آپ کو شہادت نصیب ہوئی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، ۳۳۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۱)۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے مسئلہ پر دمشق میں لوگوں نے آپ پر تشدد کیا، حتی کہ مسجد سے نکال باہر کیا پھر آپ کو رملہ اٹھاکر لے جایا گیا جہاں (۳۰۳ھ) میں وفات ہوئی اوروہیں پر تدفین ہوئی ، اس سلسلے میں جو اقوال تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نسائی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے موضوع پر خاموشی اختیار کی اس لیے کہ دمشق بنی امیہ کا گڑھ تھا ، اس میں مناقب معاویہ کے موضوع پر خاموشی مناسب تھی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام نسائی امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے شرف صحابیت والے فضائل ومناقب کے منکر تھے۔
نسائی کے ایک شاگرد ابوبکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن المامون الہاشمی کہتے ہیں: میں نے بعض لوگوں کو کہتے سنا کہ نسائی پر لوگوں نے اس بات پر نکیر کی کہ انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے مناقب پر کوئی کتاب نہ لکھی ، اورعلی رضی اللہ عنہ کے خصائص پر کتا ب لکھی ، میں نے یہ بات نسائی سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: ہم دمشق گئے تودیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کرنے والے وہاں بہت ہیں ، تو میں نے اس توقع سے'' خصائص علی'' نامی کتاب لکھی کہ اللہ رب العزت ان لوگوں کو ہدایت دے، پھر اس کے بعدآپ نے فضائل صحابہ تصنیف فرمائی اور لوگوں پر پڑھا، لوگوں نے آپ سے کہا، میں اس مجلس میں حاضر تھا کہ فضائل معاویہ کی احادیث کیوں نہیں تخریج کرتے ، تو آ پ نے جواب دیا: میں کون سی حدیث اس موضوع پر تخریج کروں، کیا حدیث: اللهم لا تشبع بطنه اور خاموش ہو گئے، سائل بھی خاموش ہوگیا(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، السیر ۱۴/۱۲۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹، الحطۃ ۴۵۹)۔
حدیث نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی کہتے ہیں: اس حدیث پر یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں ہے، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: اللهم من لعنته أو سببته فاجعل ذلك له زكاة ورحمة (اے اللہ میں نے جس پر لعنت بھیجی یا جس کوبھی برا بھلا کہا تو تو اسے اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی بنادے)۔
ابن مندہ کہتے ہیں: حمزہ عقبی مصری وغیرہ سے منقول ہے کہ نسائی آخری عمرمیں مصر سے دمشق گئے ،وہاں آپ سے معاویہ اور ان کے بارے میں وارد فضائل کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: لا يرضى رأسا برأس حتى يفضل(یعنی اپنی رائے یہ بتائی کہ وہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کو فضیلت میں برابر نہیں سمجھتے الا یہ کہ معاویہ پر علی کو فضیلت دی جائے، یعنی جب ان کی نظر میں دونوں ایک مرتبے میں نہیں ہیں، تو معاویہ کو علی پرفضیلت دینے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا ہے )،اس جواب پر جامع دمشق سے آپ کو دھکے دے دے کر باہر نکال دیا گیا، پھر آپ کو مکہ لایا گیا، جہاں آپ کی وفات ہوئی ، ذہبی کہتے ہیں: مکہ غلط ہے ، صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰)۔
مزی نے حاکم کی روایت سے یہ واقعہ نقل کیا اور اس پر ابن عساکر کا تبصرہ نقل کیا کہ اس حکایت سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے میں نسائی کے اعتقاد بد پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی، اس میں صرف یہ ہے کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہر حال میں خاموشی اختیار کی ، پھر اس کے بعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوعلی حسن بن ابی ہلال کو کہتے سنا:صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نسائی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اسلام کی مثال ایک گھر کی ہے ، جس کا دروازہ ہوتاہے ،اسلام کا دروازہ صحابہ ہیں، جس نے صحابہ کو ایذاپہنچائی اس نے اسلام کو نشانہ بنایا، تو جیسے آدمی دروازہ اس واسطے کھٹکھٹاتا ہے کہ گھرمیں داخل ہو، پس جس شخص نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا اس نے صحابہ کے خلاف انگلی اٹھائی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۹)۔
پتہ چلا کہ امام نسائی نے اہل دمشق کے علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کو دیکھتے ہوئے ''خصائص علی'' کتاب لکھ کر لوگوں کی صحیح رہنمائی کی، ابھی فضائل صحابہ نہ مرتب کی تھی تو لوگوں نے اعتراض کردیا کہ شیخین اور عثمان کے فضائل نہ بیان کرکے صرف فضائل علی بیان کیے ، پھر اس کے بعد امام نسائی نے فضائل صحابہ لکھی ، پھر اعتراض ہوایا مطالبہ ہوا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کیوں نہ بیان کیے تو اس باب میں ایک صحیح روایت کی طرف اشارہ کرکے سائل کو سمجھا دیا کہ عام فضائل صحابہ سے متعلق احادیث میں وارد فضائل ومناقب میں سارے صحابہ شریک ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھی صحبت رسول کی فضیلت کا شرف حاصل ہے،لیکن الگ سے واضح طورپر ان کے مناقب میں احادیث نہیں موجودہیں، اس لیے ان احادیث کی تخریج کا مطالبہ ہی غلط ہے۔
اوپر کی تفصیل سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں امام نسائی کا مذہب واضح طور پرمعلوم ہوگیا، ''خصائص علی'' کتاب لکھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ پر تشیع کا الزام لگایاہے، جس کا معنی الزام ثابت ہوجانے کے بعد یہ ہوگا کہ متقدمین سلف کے عرف میں تشیع کا معنی علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے، شیخین ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سب پر مقدم ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ کا جنگوں میں موقف زیادہ صحیح تھا،اور ان کے مخالفین کا موقف غلط یا مرجوح ، جب کہ متاخرین کے عرف میں تشیع کا معنی ہے : مکمل طور پر رافضی ہونا او رچند اہل بیت اور بعض صحابہ کو چھوڑکر سب پر تبرأپڑھنا اور سب کو برابھلا کہنا ۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں: نسائی میں تھوڑاسا تشیع ، اور علی کے خصوم جیسے معاویہ ا ور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے تھوڑا سا انحراف پایا جاتاہے ، اللہ انہیں معاف فرمائے (السیر ۱۴/۱۳۳)۔
امام نسائی درحقیقت دونوں طرح کے تشیع سے بری ہیں، دمشق میں اموی عہد حکومت کے اثرات سے لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت سے انحراف پایا جاتا تھا، جس کو اصطلاح میں نصب کہتے ہیں، اور اسی سے ناصبی اور اس کی جمع نواصب ہے، یعنی وہ لوگ جو علی اور آل بیت سے نفرت کرتے ہیں، ان کو خوارج بھی کہا گیا اس لیے کہ خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی ، اور صحابہ کے خلاف اعتقاد رکھا ،امام نسائی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو'' خصائص علی'' لکھ کر لوگوں کو صحیح بات بتائی ، فضائل معاویہ کے بیان پر خاموشی سے بھی لوگوں نے آپ کے خلاف معاندانہ رویہ اختیارکیا، جس کے نتیجے میں آپ کی موت ہوگئی، لیکن فضائل صحابہ پر کتاب لکھ کر نیز صحابہ کے بارے میں زبان درازی کو اسلام کے خلاف زبان درازی قرار دے کر اپنا منہج واضح کردیا۔
یہ بھی واضح رہے کہ سنن میں ''کتاب المناقب لأصحاب النبیﷺ'' کو شامل کیا،اور اس میں عثمان بن عفان اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے مناقب کی روایات ذکر کیں۔علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کے متہم رواۃ سے بھی امام نسائی نے روایت کی ہے ، اس سے بھی آپ کی عدم تعصبی کا پتہ چلتاہے، ابراہیم بن یعقوب سعدی جوزجانی پر ناصبی ہونے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے منحرف ہونے کا الزام ہے ،لیکن امام نسائی نے جوزجانی سے بکثرت روایت کی ( تہذیب التہذیب۱/۹۵)، اسی طرح سے شمر بن عطیہ اسدی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سخت قسم کے عثمانی تھے، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی تفضیل میں آگے آگے تھے ، بایں ہمہ نسائی نے نہ صرف یہ کہ ان سے روایت کی بلکہ ان کی توثیق بھی کی (تہذیب التہذیب ۲/۱۸۰)، عمربن سعد بن ابی وقاص اس لشکر کے امیر تھے جس نے حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا تھا، لیکن امام نسائی نے ان سے بھی روایت کی (تہذیب التہذیب ۳/۲۲۷)، بلکہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے نسائی کے علاوہ عمربن سعد سے کسی نے روایت نہیں کی ، یہ ساری مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ نہ شیعہ تھے ، نہ ناصبی ، بلکہ ٹھیٹ سنی اور سلفی تھے، بلکہ صحیح اعتقاد کی نشر واشاعت کے لیے جرأت بھی رکھتے تھے، اسی لیے دمشق کے مخالفین علی کی ہدایت کے لیے ''مناقب علی '' نامی کتاب لکھی ، تاکہ لوگ راہ اعتدال پر آجائیں،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اہل بدعت رواۃ پر جرح
امام نسائی کے صحیح العقیدہ ہونے کی عملی مثال بعض اہل بدعت رواۃپر جرح بھی ہے، چندمثالیں درج ذیل ہیں:
۱- أجلح بن عبداللہ کوفی کے بارے میں کہتے ہیں: ليس بالقوي وكان مسرفا في التشيع (زیادہ قوی راوی نہیں تھا، اور تشیع میں غالی تھا) (میزان الاعتدال ۱/۷۹)۔
۲-جارود بن معاذسلمی ترمذی کے بارے میں نسائی اپنی کتاب اسامی الشیوخ میں کہتے ہیں: ثقة إلا أنه كان يميل إلى الإرجاء (جارود ثقہ ہیں، الا یہ کہ اُن کا میلان ارجاء کی طرف تھا) (تہذیب التہذیب ۱/۲۸۷)۔
۳- حفص الفرد : صاحب كلام لا يكتب حديثه (متکلم ہے، اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ) (میزان الاعتدال ۲۱۶۷، لسان المیزان ۲۹۰۱ )۔
۴- حماد بن ابی سلیمان الکوفی الفقیہ : ثقة إلا أنه مرجئ (ثقہ ہیں، لیکن مرجی ہیں)(تہذیب التہذیب۱/۴۸۳)
۵- علی بن المنذر : شيعي محض (نرا شیعہ ہے) (تہذیب التہذیب)
امام نسائی کا فقہی مسلک
امام حاکم نے معرفۃ علوم الحدیث کی بیسویں قسم کا عنوان معرفۃ فقہ الحدیث رکھا ہے، اس کے تحت کہتے ہیں: فقہ حدیث کی معرفت علوم حدیث کا ثمرہ اور نتیجہ ہے، اسی سے شریعت قائم ہوتی ہے، رہ گئے فقہائے اسلام تو وہ قیاس ، رائے، استنباط اور جدل ونظر والے ہوتے ہیں، ہر زمانے میں معروف ہوتے ہیں، اور ہرشہرمیں پائے جاتے ہیں، ہم اس قسم میں اللہ کے حکم سے اہل حدیث کی فقہ حدیث کاتذکرہ کریں گے تاکہ ان مثالوں سے اس بات پر استدلال کیا جائے کہ صنعت حدیث والے جنہوں نے اس علم میں کمال حاصل کیا ہے ، وہ فقہ حدیث سے ناواقف نہیں ہوتے ، اس لیے کہ فقہ حدیث ،علم حدیث کی ایک قسم ہے، اس کے بعد اہل حدیث فقہاء کا تذکرہ کرتے ہیں اورہر فقیہ کے بعض اقوال اور روایات فقہ حدیث سے متعلق نقل کرتے ہیں، اُن کے ذکرکردہ فقہاء یہ ہیں:
۱-محمد بن مسلم الزہری ،۲- یحیی بن سعید الانصاری ، ۳- عبدالرحمن بن عمرو الاوزاعی، ۴- سفیان بن عیینہ الہلالی ، ۵-عبداللہ بن المبارک المروزی ، ۶- یحیی بن سعید القطان ، ۷- عبدالرحمن بن مہدی ، ۸- یحیی بن یحیی التمیمی، ۹-احمد بن حنبل، ۱۰- علی بن المدینی، ۱۱- یحیی بن معین ، ۱۲- اسحاق بن راہویہ ، ۱۳- محمد بن یحیی الذہلی ، ۱۴- محمد بن اسماعیل البخاری، ۱۵- ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم الرازی ، ۱۶- ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی، ۱۷- ابراہیم بن اسحاق الحربی ، ۱۸- مسلم بن الحجاج القشیری ، ۱۹- ابوعبداللہ محمد بن ابراہیم العبدی البوشنجی ، ۲۰- عثمان بن سعید الدارمی ، ۲۱-محمد بن نصر المروزی ، ۲۲- احمد بن شعیب النسائی، ۲۳- ابوبکرمحمد بن اسحاق ابن خزیمہ ، ان کے تذکرہ کے بعد حاکم کہتے ہیں: میں نے یہ باب مختصر طورپر لکھاہے، اور اپنے ائمہ کی ایک جماعت کے نام میں نے یہاں چھوڑدیے ہیں، جب کہ حق یہ تھا کہ میں اُن کا یہاں پر تذکرہ کرتا، ان میں سے ۲۴- ابوداود السجستانی ، ۲۵- محمد بن عبدالوہاب العبدی، ۲۶-ابوبکر الجارودی، ۲۷- ابراہیم بن ابی طالب ، ۲۸- ابوعیسیٰ الترمذی ،۲۹- موسیٰ بن ہارون البزاز ، ۳۰- حسن بن علی المعمری ،۳۱- علی بن الحسین ابن الجنید، ۳۲- محمد بن مسلم بن و ارہ ، ۳۳- محمدبن عقیل البلخی وغیرہ ہمارے مشائخ ہیں e۔(معرفۃ علوم الحدیث ۶۳-۸۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں پانچ ائمہ کا ذکر فقہائے حدیث کی اس فہرست میں موجود ہے، اور وہ ہیں: بخاری ، مسلم ، ابوداود، نسائی اور ترمذی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ اور رسائل میں فقہائے حدیث کی اصطلاح سکیڑوں بار استعمال کی ہے، اور مسائل میں ان کے دلائل اور ترجیحات کاذکرکیا ہے، بہت سارے ائمہ کانام بھی لکھاہے، اس وقت حدیث کے متوفر بعض پروگراموں کے ذریعے سے کمپیوٹر کی مدد سے منٹوں میں یہ فہرست دیکھی جاسکتی ہے، خلاصہ یہ کہ فقہ الحدیث ایک بڑا تابناک باب ہے، جس میں بے شمار فقہائے حدیث کی خدمات ہیں، اور یہ امت میں معروف لوگ ہیں، اور ان کے علوم بھی الحمدللہ محفوظ ہیں۔
امام نسائی کی سیرت اورآپ کی مؤلفات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا شمار فقہائے حدیث کے ائمہ میں ہے،آپ اپنے شیوخ اور پیش رو ائمہ حدیث کی طرح کتاب وسنت سے آزادانہ طور پر استدلال کرتے اور صحیح اور ثابت شدہ مسئلے پر عمل کرتے تھے ،اور اپنے اسلاف معتبر فقہائے امت کے فتاویٰ سے استفادہ کرتے تھے ، جس کی آپ کو گہری واقفیت تھی ، نیز تیسری صدی ہجری میں تقلید مذاہب کا کوئی رواج بھی نہ تھا ، لیکن طبقات شافعیہ کے مؤلفین نے امام نسائی کو شافعی لکھاہے، اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتابوں میں آپ کاتذکرہ کیاہے۔ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للسبکی (ت:۷۷۱ھ) طبقات الشافعیہ للأسنوی (ت:۷۷۲ھ) طبقات الشافعیہ لابن قاضی شہبہ (ت:۸۵۱ھ) ، ابن الاثیر جزری کہتے ہیں: نسائی شافعی تھے، اپنی ''کتاب المناسک'' امام شافعی کے مسلک پر مرتب کی(جامع الاصول ۱/۱۲۸، والسیر ۱۴/ ۱۳۰)
دوسری طرف ہندوستان کے بعض علمائے احناف امام نسائی کو حنبلی قرار دیتے ہیں،مولانا انورکاشمیری کہتے ہیں: والنسائي وأبوداود حنبليان صرح به الحافظ ابن تيمية(فیض الباری ) یعنی نسائی اور ابوداود دونوں حنبلی ہیں، اس کی تصریح حافظ ابن تیمیہ نے کی ہے۔
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الأحوذی کے مقدمہ میں ''فائدہ'' کے عنوان سے امام ترمذی اور دوسرے محدثین کی فقہی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں:ایک حنفی عالم جامع ترمذی کے حاشیہ میں کہتے ہیں کہ مؤلفین صحاح کے مذاہب کے بارے میں کہا گیاہے کہ امام بخاری شافعی تھے ، لیکن حق یہ ہے کہ بخاری مجتہد تھے، رہ گئے امام مسلم تو تحقیقی طور پر مجھے آپ کے مذہب کا علم نہیں ہے ، لیکن ابن ماجہ تو شاید وہ شافعی تھے ،اور ترمذی شافعی ہیں، ابوداود اور نسائی کے بارے میں مشہو رہے کہ یہ دونوں شافعی ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ یہ دونوں حنبلی ہیں، حنابلہ کی کتابیں ابوداود کی روایات سے منقول امام احمد کے اقوال سے بھری پڑی ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مبارکپوری -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ جیسے امام بخاری -رحمہ اللہ - متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے اور ائمہ اربعہ وغیرہ میں سے کسی کے مقلد نہیں تھے ، ایسے ہی مسلم ، ترمذی ، ابوداود ، نسائی اور ابن ماجہ سب کے سب متبع سنت اور عامل بالحدیث تھے، مجتہد تھے ،کسی کے مقلد نہ تھے ، رہ گیا یہ استدلا ل کہ ''حق یہ ہے کہ ابوداوداور نسائی حنبلی ہیں'' اس دلیل سے کہ ابوداود کی روایت سے امام احمد کے اقوال حنابلہ کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں، یہ بالکل باطل استدلال ہیں، اس لیے کہ ابوداود کی روایات سے حنابلہ کی کتابوں کا بھراہونا تسلیم کربھی لیا جائے تو اس سے ان کا حنبلی ہونا لازم نہیں آتا چہ جائیکہ ابوداود اور نسائی دونوں حنبلی ہوں، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ حنفیہ کی کتابیں امام ابویوسف اورامام محمد کی روایات سے بھری پڑی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں نہ حنفی تھے ،اور نہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ، یہ بھی جان لیں کہ بعض لوگوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ امام ابوداود اور امام نسائی دونوں حنبلی تھے، یعنی مطلقا بغیر کسی قید کے یہ دونوں امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے ، پھر اپنی اس بات پر اُن کو انتباہ ہوا تو ایک درجہ پیچھے آکر سنن الترمذی کے ایک حاشیہ میں کہتے ہیں: یحیی بن سعید جیسا کہ تاریخ ابن خلکان میں ہے حنفی المذہب تھے، إلا یہ کہ سلف کی تقلید اُن اجتہادی مسائل کے بارے میں ہواکرتی تھی جس میں کوئی مرفوع حدیث یا موقوف (آثار صحابہ) نہ ہوں، ہماری تقلید کی طرح نہیں، یہ میرا اپنا ظن ہے ۔
اس کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمن مبارکپوری کہتے ہیں: اجتہادی مسائل میں کسی صحیح دلیل سے امام ابوداود اور امام نسائی کا امام احمد کا مقلد ہونا ثابت نہیں ہے، بس صرف یہ ان بعض حضرات کا ظن ہی ظن ہے ، اور ظن حق کے باب میں غیر مفید ہے، اُن کا یہ کہنا '' شاید ابن ماجہ شافعی تھے ''،یہ بھی اس کے قائل کے نزدیک ابن ماجہ کے شافعی ہونے کی دلیل نہیں ہے ،ایک حنفی عالم شرح صحیح مسلم کیمقدمہ میں توضیح النظر سے نقل کرتے ہیں: بعض حدیث کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بخاری اور ابوداود دونوں فقہ کے امام اور اہل اجتہاد میں سے ہیں، اور مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابویعلی اور بزار وغیرہ یہ سب اہل حدیث کے مذہب پر ہیں، یہ کسی خاص اور متعین امام کے مقلد نہیں ہیں، نہ ان کا شمار مجتہد مطلق اماموں میں سے ہے، بلکہ ان کا میلان ائمہ حدیث جیسے شافعی ،احمد ، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید قاسم بن سلام اور ان کے ہم مثل علماء کی طرف ہوتا ہے۔اور ان کا میلان (جھکاؤ) علمائے حجاز کے مذہب کی طرف اہل عراق کے مذہب سے زیادہ ہوتا ہے، رہ گئے امام ابوداود الطیالسی تو یہ مذکورہ بالا ائمہ میں سے سب سے قدیم امام ہیں، اور یہ یحیی بن سعید القطان ، یزید بن ہارون واسطی ، عبدالرحمن بن مہدی اور اس طبقہ کے علماء میں سے ہیں، جو احمد بن حنبل کے شیوخ کا طبقہ ہے، یہ سب کے سب اتباع سنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ، ہاں ان میں سے بعض کا میلان اہل عراق کے مذہب کی طرف ہوتا ہے ، جیسے وکیع بن الجراح اور یحیی بن سعید اور بعض کا میلان اہل مدینہ کے مذہب کی طرف ہوتا ہے، جیسے عبدالرحمن بن مہدی ، اورامام دار قطنی کا میلان شافعی کے مذہب کی طرف ہے،لیکن ان کے اپنے اجتہاد ات ہیں، اور ان کا شمار ائمہ حدیث وسنت میں ہے، اُن کا حال کبار محدثین کی طرح نہیں ہے، جو ان کے بعد آئے ،اور صرف محصور معدود مسائل کے علاوہ عام اقوال میں تقلید کا التزام کیا، امام دار قطنی متاخرین میں سب سے زیادہ اجتہاد میں قوی تھے ،اور سب سے زیادہ فقیہ اور عالم ، انتہی۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ اگر امام بخاری امام شافعی کے مقلد نہیں تھے تو لوگوں نے اُن کا شمار شافعیہ میں کیوں کیا، اور شافعی علماء کے طبقات کی کتابوں کے مؤلفین نے اُن کواپنی کتابوں میں کیوں ذکر کیا ہے،تواس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( م ۱۱۷۶ھ) حجۃ اللہ البالغہ (۱/۱۲۲) میں لکھتے ہیں: اصحاب حدیث (اہل حدیث) فقہی مذاہب میں سے کسی مذہب کی بکثرت موافقت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کردیے جاتے ہیں، جیسے نسائی اور بیہقی کو شافعی مذہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔
شاہ ولی اللہ مزید ''الانصاف فی مسائل التقلید والاجتہاد ''میں کہتے ہیں: شافعی مذہب کی طرف انتساب کا مطلب یہ ہے کہ طریقہ اجتہاد اور دلائل کے استقراء وتتبع اورمسائل ودلائل کی ترتیب وتدوین میں اُن کا طریقئہ اجتہاد شافعی کے طریقہ اجتہاد کے موافق ہے، اگر کبھی مخالفت بھی کی تو اُن کی مخالفت کی پرواہ نہ کی گئی ، اور چند مسائل کے علاوہ وہ شافعی کے مذہب سے باہر نہیں گئے ،اور یہ شافعی کے مذہب میں داخل ہونے میں قادح نہیں ہے ، اسی قبیل سے امام محمد بن اسماعیل بخاری ہیں کہ شیخ تاج الدین سبکی نے آپ کا شمار طبقات شافعیہ میں کیا ہے ،اور لکھاہے کہ امام بخاری نے امام حمید ی سے فقہ حاصل کی ، اور امام حمیدی نے امام شافعی سے فقہ حاصل کی (طبقات الشافعیہ /۲/۲۱۴)۔
علامہ اسماعیل عجلونی اپنی کتاب'' الفوائد الدراری'' میں سبکی کے مذکورہ بالا قول کو نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں: امام بخاری کے مذہب کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ آپ شافعی المذہب ہیں، تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اسی لیے آپ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام بخاری کا ابوعاصم نے طبقات شافعیہ میں ذکرکیاہے ،اور کہا ہے کہ بخاری نے کرابیسی ، ابوثور اور زعفرانی سے سماع حدیث کیا ہے، حمیدی سے فقہ حاصل کی ہے ، یہ سب امام شافعی کے اصحاب وتلامیذہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری حنبلی تھے ، ابوالحسن ابن العراقی نے آپ کو اصحاب امام احمد بن حنبل میں شمارکیا ہے ، اور بخاری سے سنداً یہ قول نقل کیا ہے کہ میں آٹھ بار بغداد آیا، اور ہر بار احمد بن حنبل کی مجلس میں حاضرہوا، آخری بار جب میں نے آپ کو الوداع کہا توآپ مجھ سے فرمایا : ابوعبداللہ آپ علم چھوڑرہے ہو، علماء کو خیرباد کہہ رہے ہو، اور خراسان جا رہے ہو، بخاری کہتے ہیں: میں اس وقت آپ کا قول یاد کررہاہوں ۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ امام بخاری مجتہد مطلق تھے، امام سخاوی نے اسی قول کو اختیار کیاہے ،اور کہا ہے کہ میرا میلان یہی ہے کہ امام بخاری مجتہد تھے، اس کی صراحت تقی الدین ابن تیمیہ نے بھی فرمائی ہے کہ امام بخاری امام فقہ تھے، اجتہاد کے اعلیٰ مرتبہ پر تھے (مجموع الفتاویٰ ۲۰/۴۰)،(ملاحظہ ہو: مقدمۃ تحفۃ الأحوذی /۲۷۸-۲۸۱،نیز ملاحظہ ہو: سیرۃ البخاری تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری)۔
اس موضوع پر علامہ طاہر جزائری کہتے ہیں: مسلم ، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابویعلی اور بزار وغیرہ اہل حدیث مذہب پرتھے، وہ بعینہ کسی ایک عالم کی تقلید نہیں کرتے تھے، اور نہ وہ ائمہ مجتہدین میں سے تھے، بلکہ ان کا میلان ائمہ حدیث جیسے شافعی ،احمد ، اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید وغیرہ کے اقوال کی طرف ہوتا تھا(توجیہ النظر ۱۸۵) ۔
حافظ ابن حزم نے تویہاں تک صراحت کردی ہے کہ یہ ائمہ تو تقلید کے منکر اور لوگوں کو اس فعل شنیع سے ہمیشہ روکنے والے تھے، چنانچہ کہتے ہیں:ثم أتى بعد هؤلاء البخاري ومسلم وأبوداود والنسائي ما منهم أحد أتى بإمام فأخذ بقوله فتقلد به، بل كل هؤلاء نهى عن ذلك وأنكره (علماء سابقین کے بعد بخاری، مسلم ، ابوداود اور نسائی آئے اور کسی نے بھی کسی امام کے قول کی تقلید نہیں کی بلکہ سبھوں نے تقلید سے منع کیا ، اور اس پر نکیر کی) (ہدایۃ السائل : ۵۳۴) ۔
ان اقوال اور تصریحات کی روشنی میں امام نسائی کی شافعی یا حنبلی نسبت کی حقیقت کو سمجھا جاتا سکتا ہے، یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی مسئلے میں کسی پیش رو عالم کی موافقت یا علماء سے شاگردی کی نسبت کی بناپرشاگرد کو استاذ کا مقلد یا بعدکے مستفید کو پیش رو کا مقلد کہنا زیادہ وزنی بات نہیں ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( م ۱۱۷۶ھ) نے بھی اس مسئلے کو اچھی طرح سے حجۃ اللہ البالغہ کے باب الفرق بین اہل الحدیث وأہل الرای میں واضح کردیا ہے ، اس سے پہلے امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں اس مسئلے کو تفصیل سے لکھاہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی جزوی مسئلہ میں کہیں کہیں بعض کا بعض سے جزوی اختلاف پایا جاتا ہو لیکن اُصولی طور پر سارے محدثین کا مسلک اتباع دلیل اور ترک تقلید ہے ، یعنی اصطلاحی لفظوں میں اُن کا مذہب ومسلک اصول وفروع میں اہل حدیث کا مذہب ومسلک ہے ۔
صحیح حدیث پر عمل کرنا اور اختلاف کے وقت اصول وفروع میں اس کی طرف رجوع کرنا اور اس کو حکم تسلیم کرنا سلف کا اجماعی مسئلہ ہے ، اہل رائے وقیاس جن کی اکثریت عراق میں تھی ، سے اسی بناپر ائمہ حدیث اجتناب کرتے تھے کہ وہ حدیث کی موجودگی میں قیاس اور رائے پر اعتماد کرتے تھے، جو سلف کے یہاں متفقہ طور پر مذموم بات تھی ، صحیح قیاس کا کوئی منکر نہ تھا ، اور نہ ہی کوفہ اور بصرہ میں رہائش کی بناپر کوئی شخص قابل مذمت تھا،اہل علم کے یہاں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اہل سنت علماء اور ائمہ کے اصول وفروع میں مسلک کو مختلف جگہوں پر واضح فرمایاہے، چنانچہ آپ کا رسالہ'' صحۃ مذہب أہل المدینۃ والحدیث ''، ''نقض المنطق ''،'' الرد علی المنطقیین ''، اور عقائد اور شرح احادیث سے متعلق بحثوں میں اس بارے میں تفصیل ملے گی ، اس باب میں کہ کتاب وسنت کی مرجعیت پر اجماع ہوتے ہوئے علماء کے درمیان اختلاف کیوں ہے ،نیز اختلاف کے کیا اسباب ہیں، اور دلائل کی موجودگی میں کسی رائے اور فتوے پر عمل کرنا یا دلیل کے مطابق عمل کرنا ، کونسا مسلک صحیح اوراقرب الی الکتاب والسنہ ہے ، اس سلسلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''رفع الملا م عن الأئمۃ الأعلام'' نامی کتاب لکھی ، اور اس مسئلہ کو منقح کیا ، جس کا حاصل یہ ہے کہ اصل کتاب وسنت صحیحہ پر عمل سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں اجماعی مسئلہ ہے، اختلاف کی صورت میں فقہاء کے لیے شرعی اعذار کو تلاش کیا جائے گا ، لیکن صحیح حدیث پر عمل کرنا سب کے لیے واجب ہے ، چاہے اس کے خلاف جتنے بھی اقوال وآراء ہوں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں نسائی کے شافعی سے اجتہاد میں اتفاق ہی کو ان کے شافعیت کی طرف منسوب ہونے کا سبب ٹھہرایا ہے، قطع نظر ان اقوال کے اگر بقول ابن الاثیر امام نسائی کتاب المناسک لکھنے سے شافعی ہیں تو کیا انہوں نے کتب السنن میں دیگر ائمہ کی تائید نہیں کی ،کتاب السنن کی ابتداء میں کتاب الاقراء میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ امام نسائی فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی مشہور روایت کے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: هذا الدليل على أن الأقراء حيض.
اور یہ معلوم ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ''اقراء'' سے مراد'' حیض'' ہی ہے تو کیا اس موافقت کی بناپر امام نسائی کو حنفی کہاجائے گا؟ حقیقت وہی ہے جو شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ طاہرجزائری کے اقوال میں گزری کہ امام نسائی اور دوسرے محدثین مجتہد تھے ، علامہ طاہر جزائری نے بھی واضح کیاہے یہ حضرات مجتہد تھے اور فروعی مسائل میں محدثین کی طرح احادیث کے مطابق عمل کرتے تھے اور جن ائمہ کے مسلک کو کتاب وسنت کے قریب تر پاتے ، اس کی تائید فرمادیتے تھے ۔
واضح رہے کہ عملاً قرآن وحدیث اور آثار سلف کی خدمت میں زندگی گزارنے والے محدثین کو بالخصوص تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں کسی مخصوص امام کی تقلید کی ضرورت ہی نہ تھی ، ائمہ کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں اُنہیں کسی مسئلہ میں نصوص کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین میں کوئی واضح بات نہ ملتی وہاں وہ خود قرآن و سنت کی روشنی میں اصولی طور پر اجتہاد کیا کرتے تھے، اس لئے محدثین کے بارے میں یہ کہنا کہ فلاں امام مالک، یاامام شافعی، یاامام احمد بن حنبل کے مقلد مالکی، یا شافعی یا حنبلی المذہب تھے دلیل سے عاری اور امرواقع کے خلاف بات ہے ، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان ائمۂ حدیث میں سے کسی نے بھی کسی ایک کے قول کی تائید و ترجیح کا طریقہ نہیں اپنایا ، بلکہ محدثین کرام کے قرآن و سنت کی روشنی میں اختیار کردہ اپنے متفقہ مسلک و منہج اور مذہب اتباع کتاب و سنت کی بنا پر (جو نصوص کتاب و سنت کے مطابق ہو ) جو صحیح و راجح تھا اسی کو صحیح و راجح قرار دیا۔ اور جو اس کے مخالف تھا اس کا رد و ابطال کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ورع وتقویٰ
امام نسائی کی عملی زندگی کا اندازہ محمد بن المظفر کے اس قول سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جسے علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : سمعت مشايخنا بمصر يصفون اجتهاد النسائي في العبادة بالليل والنهار وأنه خرج إلى الغزو ومع أمير مصر فوصف في شهامته وإقامته السنن الماثورة في فدآء المسلمين واحترازه عن مجالس السلطان الذي خرج معه ( تذکرۃ الحفاظ، تہذیب الکمال ۱/۳۳۴) (میں نے مصر میں اپنے شیوخ سے سناہے کہ وہ نسائی کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ رات دن عبادت میں مشغول رہتے تھے، وہ جنگ میں امیر مصر کے ساتھ نکلے، اور اپنے وقاراور تیزیٔ طبع اور مسلمانوں میں ماثور اور ثابت سنن پر عمل کرنے کرانے میں شہرت حاصل کی، اور نکلے تو سلطان کے ساتھ تھے، لیکن اُن کی مجالس سے دور رہتے تھے)۔
ابن الاثیر جامع الاصول میں فرماتے ہیں : امام نسائی کے ورع وتقوی پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اپنے استاذ حارث بن مسکین سے انہوں نے جس حالت میں سماع کیا اس کو اسی انداز ''قرأۃ علیہ وأناأسمع '' سے بیان کیا ، دیگر مشائخ سے اخذ کردہ روایات کی طرح حدثنا وأخبرنا کے الفاظ استعمال نہیں کئے، حارث بن مسکین مصرکے منصب قضاء پر فائز تھے، اورنسائی اوران کے درمیان دوری تھی جس کی وجہ سے ان کی مجلس درس میں حاضرنہ ہوسکے ، تو ایسی جگہ چھپ کر حدیث سنتے کہ حارث ان کو دیکھ نہ سکھیں، اسی لیے ورع اور تحری کا راستہ اختیار کرکے اُن سے ر وایت میں ''حدثنا ''اور ''أخبرنا'' کے صیغے استعمال نہ کیے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حارث بن مسکین بعض سرکاری ذمہ داریوں میں مشغول تھے کہ نسائی اُن کے پاس ایک نامانوس لباس میں آئے ، لوگ کہتے ہیں کہ آپ لمبا جبہ اور لمبی ٹوپی پہنے ہوئے تھے، جس کو حارث نے ناپسندکیا، ان کو شبہ ہوا کہ شاید یہ آدمی بادشاہ کا جاسوس ہے ، کیونکہ اُن کے سر پر بڑی ٹوپی اور بدن پر لمبا جبہ تھا ، جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو اپنی مجلس میں نہ حاضرہونے دیا ،اس لیے نسائی دروازے پر آکر بیٹھتے اور حارث پر جو لوگ پڑھاکرتے اسے باہر ہی سے سنتے اسی لیے اُن سے روایت کے وقت ''حدثنا'' اور ''أخبرنا'' کا صیغہ استعمال نہیں کیا (جامع الاصول ۱/۱۲۸) ۔
واضح رہے کہ امام ابوداودنے بھی قرئ على الحارث بن مسكين کے صیغے کا استعمال کیا ہے (ملاحظہ ہو: کتاب الطب کے آخری ابواب اورکتاب السنہ: باب ذراري المشركين۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بعض اخلاق وعادات اورخاندانی حالات ازواج واولاد:
امام نسائی کے معاشی اور معاشرتی احوال سے متعلق اقوال کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی مالی حالت اچھی تھی،اچھاکھانے پینے اوراچھاپہننے میں شہرت رکھتے تھے، ابن العماد شذرات الذہب میں لکھتے ہیں: امام نسائی نہایت شریف، رئیس اورعظیم المرتبت شخصیت کے حامل تھے، کھانے میں مرغ بہت پسند تھا، اور اسے بکثرت کھاتے تھے ، بڑے صحت منداور سرخ وسفید چہرے مہرے کے مالک تھے، جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ شک تھاکہ شاید چہرے کی سرخی کا سبب نبیذ پینا ہے، سوال ہواتو آپ نے حدیث کی روشنی میں اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ۔
ابوبکر محمدبن موسیٰ بن یعقوب بن مامون ہاشمی کہتے ہیں: ایک دن میں امام نسائی کے گھر کی دہلیز پر تھا آپ محلہ زقاق القنادیل میں رہتے تھے،میرے ساتھ طلبہ کی ایک جماعت تھی ، ہم آپ کا انتظار کررہے تھے کہ آپ گھر سے نکلیں ، اور جامع مسجد جائیں تو آپ ہمیں زہری کی احادیث پڑھ کر سنائیں، حاضرین میں سے ایک آدمی نے کہا: میرے خیال میں ابوعبدالرحمن نسائی نبیذ پیتے ہیں، اسی وجہ سے اُن کا چہرہ تروتازہ ہے، اور کبرسنی کے باوجود بدن سے خون جھلک رہاہے، بعض لوگوں نے کہا:کاش کہ عورتوں سے پیچھے سے جماع کے بارے میں ہم ان کی رائے معلوم کرتے تو میں نے کہا : میں نسائی سے دونوں مسئلے پوچھ کر تم سب کو بتاتاہوں،امام نسائی گدھے پر سوار ہوئے تو میں نے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے آپ سے کہا کہ حاضرین میں سے بعض لوگ نبیذ کے بارے میں آپ کے مذہب کے بارے میں بحث کررہے تھے تو آپ نے جواب دیا : میرا مذہب یہ ہے کہ نبیذ حرام ہے ، اس لیے کہ ابوسلمہ کی سند سے عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث روایت کرتی ہیں: كل شراب أسكر فهو حرام (ہرمشروب جونشاپیداکرے حرام ہے)اس لیے کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ نبیذتھوڑی پئے یا زیادہ ، میں نے کہا: عورتوں کے دبر میں جماع کے بارے میں کیا حدیث صحیح ہے تو جواب دیاکہ نبی اکرمﷺ سے عورتوں کے پاس پیچھے آنے میں نہ تو کوئی اباحت کی حدیث صحیح ہے ، اور نہ ہی اس کی حرمت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ہے، لیکن محمد بن کعب قرظی نے تمہارے دادا ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اسق حرثك من حيث شئت (تم اپنی کھیتی کو جہاں سے چاہو سینچو) اس لیے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ان کے قول سے تجاوز کرے(تہذیب الکمال ۱/۳۳۵-۳۳۷، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹)۔
واضح رہے کہ متعدد حدیثوں سے عورتوں کے دبر میں جماع کرنے کی ممانعت آئی ہے، جن میں جابر رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث ہے، اور دوسرے کئی صحابہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
آپ لباس میں ہری چادرکے استعمال کو ترجیح دیتے تھے اور کہتے تھے کہ نظر کی تیزی لیے ہریالی دیکھنے کا یہ بدل ہے ، معمول یہ تھا کہ ایک دن روزہ رہتے اورا یک دن بغیر روزہ کے رہتے، چارچاربیویاں تھیں،اور ہمیشہ ایک دولونڈیاں بھی رہتی تھیں، اور سب کی باری باندھے ہوئے تھے،اولاد میں صرف عبدالکریم نامی بیٹے کا ذکر ملتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تصانیف

امام نسائی کثیر التالیف مؤلف تھے، بعض کتابیں ائمہ کے یہاں مستقل طورپرمروی ہیں، اور ان میں کی بعض کتابیں سنن کبریٰ یا صغری کا جزء ہیں، ہماری اس فہرست میں کتابوں کی تعداد (۳۴) ہے، جن میں سے کئی کتابیں سنن کا جزء ہیں، بعض مطبوع ہیں، اور بعض مفقود،اور بعض کتابوں کے قلمی نسخے پائے جاتے ہیں،جو غیر مطبوع ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے:
سب سے پہلے مطبوع کتابوں کا تذکرہ:
۱-(۱) السنن الکبریٰ (بروایت ابن الاحمروابن سیار وغیرہما):سب سے پہلے اس کتاب کی اشاعت مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی کی کوششوں سے شروع ہوئی، اور الدار القیمۃ ، بمبئی سے اس کی پہلی جلد شائع ہوئی ،جس میں (۶۴) صفحے کا مقدمہ ہے، اور کتا ب الطہارۃ کے (۲۴۰) صفحے ، لیکن تیسری جلد کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، پھریہ کتاب ڈاکٹر عبدالغفار بنداری اور سید کسروی حسن کی تحقیق سے دار الکتب العلمیۃ نے شائع کی، لیکن یہ اشاعت غیرمعیاری تھی، ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی نگرانی میں مؤسسۃ الرسالۃ سے اس کا محقق نسخہ (۱۲) جلدوں میں شائع ہوا،ہے آخری دو جلدیں فہارس کی ہیں،اس ایڈیشن کے مطابق سنن کبریٰ میں (۱۱۹۴۹) احادیث ہیں ، اور یہ طباعت ابن الاحمر اور محمد بن قاسم بن سیار قرطبی دونوں کی روایت پرمشتمل ہے۔ اس ایڈیشن میں سنن صغریٰ کے ساتھ تحفۃ الاشراف للمزی اور النکت الظراف علی تحفۃ الأشراف لابن حجر کے حوالوں کو بھی دے دیا گیا ہے ، اور آخرمیں چارکتابیں تحفۃ الأشراف سے نکال کر اس ایڈیشن میں شامل کی گئی ہیں، یعنی کتاب الشروط، کتاب الرقاق، کتاب المواعظ اور کتاب الملائکۃ یہ چاروں کتابیں سنن کبریٰ کے موجود قلمی نسخوں میں نہیں تھیں، ساتھ ہی کتاب کے نسخوں میں موجود بعض احادیث کا ذکر حافظ مزی کے یہاں نہیں ہے ، ہوسکتاہے کہ ان کے نسخے سے یہ احادیث ساقط ہوگئیں ہوں، لیکن اس محقق نسخے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے ، اور اس نسخے میں اکثراحادیث تحفۃ الاشراف سے بڑھائی گئیں ہیں ، جو ابن حیویہ کے نسخے میں تھیں جس پر حافظ مزی کا اعتماد تھا، ساتھ ہی بعض ایسی روایات سے بھی ماخوذ ہیں جو ابن حیویہ کی روایت کے باہر ہیں ۔
۲- (۲) السنن الصغری: امام صاحب کی جملہ تصانیف میں سب سے مشہورسنن صغریٰ ہے، اس کو المجتبیٰ یا المجتنی بھی کہتے ہیں، اصحاب شروح وحواشی جب کبھی ''أخرجہ النسائی'' کہتے ہیں تو عموماً اس سے سنن صغریٰ ہی مراد لیتے ہیں، امام صاحب سنن کبریٰ کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو امیر رملہ نے پوچھا :کیا آپ کی یہ تصنیف تمام ترصحیح ہے، توآپ نے فرمایا: نہیں، اس میں صحیح اور حسن دونوں قسمیں موجود ہیں ، اس پر امیر نے عرض کیا کہ ان احادیث میں جو صحت کے اعلیٰ درجے تک پہنچتی ہیں ان کو علاحدہ ایک مجموعہ کی شکل میں میرے لیے منتخب فرمادیجئے تو آپ نے المجتبی جمع کی (زہر الربی ، کشف الظنون ۲/۳۶، الحطۃ ۲۵۴، قواعد التحدیث ۲۴۷، سیرۃ البخاری ۲/۷۴۴)
بعض کتابیں سنن میں داخل ہیں، اور الگ سے بھی ان کا ذکر آتاہے:
۳-(۱) عشرۃ النساء: (فتح الباری ۸/۴۵۵) ، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (۸۴۷ج)، سنن صغریٰ میں ''کتاب عشرۃ النساء '' بلاد عربیہ کے نسخوں میں '' ۳۶- کتاب المزارعۃ '' کے بعد ہے،اور عام ہندوستانی نسخوں میں (۲۶-کتاب النکاح '' کے بعد ہے ، اور اسی کو مولانا عطاء اللہ حنیف نے التعلیقات السلفیہ میں اختیار کیا ہے ، اور ہمارے اس نسخے میں بھی اس کا مقام کتاب النکاح کے بعد ہے ، اور یہ سنن کبریٰ میں (۶۳) کی کتاب ہے، ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ ، ط، الرسالۃ ۸/۱۴۹)۔
۴-(۲) عمل الیوم واللیلۃ: (مطبوع بتحقیق ڈاکٹر فاروق حمادہ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت) یہ مستقل کتاب ہے، مصنف سے اس کی روایت بھی مستقل موجودہے، ابوالحسن احمد بن محمد بن ابی التمام نے اس کی روایت نسائی سے کی ، اور ان سے ابومحمدأصیلی نے (۳۵۳ھ) میں روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۳)، اسی طرح سے ابوالحسن بن حیویہ نے اسے مستقلاً روایت کی ہے، ابن الأحمر اور ابن سیار نے اس کو سنن کبریٰ میں شامل کیاہے(ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ کتاب نمبر ۵۳) (۹/۵/اورحدیث نمبر ۸۵۲۷سے ۸۸۳۵ تک )۔ اور دوسرے رواۃ نے اس کتاب کو ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے روایت کیا (السیر ۱۴/۱۳۳، معجم أصحاب الصدفی لابن الأبار ۳۲۸)۔عمل الیوم واللیلۃ اور ایسے ہی کتاب خصائص علی کے اطراف حدیث ایسے ہی اس کے رواۃ کا تذکرہ مؤلفین نے مستقلاً کیاہے، نیز ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب ۱/۶)۔بعد کے مؤلفین بھی عمل الیوم واللیلۃ کو ایک الگ اور مستقل کتاب کی حیثیث سے ذکر کرتے رہے ہیں۔
۵-(۳) تفسیرالقرآن الکریم:ا س کتاب کو ابن خیر نے اپنی تفسیری مرویات میں ذکر کیاہے، اور مصنف سے حمزہ کنانی کے طریق سے روایت کی ہے( فہرست ابن خیرصفحہ ۵۸)، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس سے استفادہ کیا: ۳/۴۵۱، ۶/۴۳۹، ۱۱/ ۴۷۹، ۱۳/ ۴۱۴، ۴۷۶) ،معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (۳۲۵) ، یہ بتحقیق سید حلیمی اور صبری الشافعی ، مکتبۃ السنۃ ، قاہرۃ سے دوجلدوں میں (۱۴۱۰ھ) شائع ہوچکی ہے، یہ کتاب بھی سنن کبریٰ میں موجود ہے، (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ ۱۰/ ۵، کتاب نمبر ۶۶)۔
کتاب التفسیر حمزہ کی روایت میں مستقل تالیف ہے(تہذیب التہذیب ۱/۶) ، اس کا مستقلاً ذکر کئی کتابوں میں آیا ہے، ذہبی نے تاریخ الاسلام میں لکھاہے کہ یہ کتاب ایک مجلد میں ہے (السیر۱۴/۱۳۳)نیز ملاحظہ ہو: البرہان فی علوم القرآن للزرکشی ۲/۱۵۹، نصب الرأیۃ ۳/۳۸۳، وحسن المحاضرۃ ۱/۱۹۷) ۔
۶-(۴) فضائل القرآن:یہ نسائی کی مستقل کتا ب ہے، نیز یہ سنن کبریٰ میں بھی داخل ہے (ملاحظہ ہو:السنن الکبریٰ کتاب نمبر۵۹، مجلد ۷/۲۴۱) (مطبوع بتحقیق ڈاکٹر فاروق حمادہ ، دار الثقافۃ ، الدار البیضاء مراکش ۱۹۸۰ء، صفحات ۱۴۳)،نیز ملاحظہ ہو: البرہان فی علوم القرآن للزرکشی ۱/۴۳۲) والإتقان للسیوطی ۲/۱۵۱)۔
۷- (۵) خصائص علي:امام نسائی نے آخری عمر میں دمشق میں اس کتاب کی تصنیف کی ، بعد میں یہ فضائل صحابہ کے ساتھ سنن کبریٰ میں بھی داخل ہوگئی(ملاحظہ ہو: السنن الکبری ،کتاب نمبر۶۱ج۷/۴۰۷)۔یہ کتاب ابن خیر کی مرویات میں سے ہے(ملاحظہ ہو: فہرست ابن خیر صفحہ ۲۰۹) امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ سنن کبریٰ میں داخل ہے(السیر۱۴/۱۳۳) نیز ابن سیار نے اسے مستقلاً روایت کیا ہے(تہذیب التہذیب ۱/۶) اس کتاب کاتذکرہ کئی جگہ آیا ہے(ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیہ للسبکی ،تاریخ الاسلام ۹/۱۷۳، حسن المحاضرۃ ۱/۱۹۷، ہدیہ العارفین ۱/۵۶، الرسالۃ المستطرفۃ ۵۹) ، اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، جن میں (بتحقیق احمد میرین بلوشی رحمہ اللہ، کویت ۱۴۰۶ھ، وبتحقیق ابواسحاق الحوینی ، دارالکتاب العر بی ۱۴۰۷ھ) زیادہ اہم ہے، اس کتاب کا ترجمہ مع شرح مولانا ابوالحسن محمد سیالکوٹی نے (۱۸۹۲ء) میں شائع کیا، ابوالقاسم رضوی قمی نے اس کا فارسی ترجمہ (۱۸۹۸ء) میں لاہور سے شائع کیا۔
٭ کتاب الجمعۃ: اس نام سے ایک مستقل کتاب کاقلمی نسخہ موجود ہے، سنن میں بھی یہ کتاب آئی ہے، اس کی تفصیل آگے ملاحظہ ہو۔
٭مزید مطبوع کتابیں یہ ہیں:
۸-(۱) تسمیۃ فقہاء الأمصار من أصحاب رسول اللہ ﷺ ومن بعدہ من أہل المدینۃ:( ناشر : شیخ صبحی بدری سامر ائی ،مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا پہلا رسالہ صفحات ۷-۱۰، مکتبہ سلفیہ ، مدینہ منورہ ۱۹۶۹ء )
۹- (۲) الطبقات: (مطبوع ، ناشر : شیخ صبحی بدر سامرائی ، مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا دوسرا رسالہ (صفحات ۱۵-۱۷) (الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی ۱۳۸) مطبوع کتاب میں صرف اصحاب نافع کا ذکرہے۔
۱۰- (۳) تسمیۃ من لم یروعنہ غیر رجل واحد (مطبوع ، ناشر : شیخ صبحی بدر سامرائی ، مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا تیسرا رسالہ (صفحات ۲۱-۲۲) یہ کتاب پہلے الضعفاء والمتروکین کے آخر میں شائع ہوئی تھی، فواد سزکین نے ذکر کیاہے کہ اس کے نسخے مکتبہ احمد الثالث ، ترکی( ۴/۶۲۴) میں ہیں(تاریخ التراث العربی ۴۲۶) ۔
۱۱-(۴) کتاب الضعفاء والمتروکین (مطبوع) بروایت حسن بن رشیق المصری عن النسائی،یہ سمعانی اور ابن خیر کی مرویات میں سے ہے، (التحبیرللسمعانی ۲/۱۷، فہرست ابن خیر ۲۰۹)، اس کا ذکر ابن الأبار نے معجم الصدفی(ص:۷۲) میں کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: مقدمۃ ابن الصلاح (ص:۳۴۹) فتح المغیث للسخاوی ۳/۳۱۴، الرسالۃ المستطرفۃ (ص:۱۴۴) اس کتاب کا ذکر حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں متعدد مقامات پر کیا ہے( ملاحظہ ہو: ۳۷۳، ۴۱۵، ۴۲۲) ، اس کتاب میں (۶۷۵) رواۃ کا ذکر ہے، اور کلام بہت مختصر ہے۔یہ کتاب (۱۳۲۳ھ =۱۹۰۵ء ) میں ہندوستان میں شائع ہوئی تھی، پھر محمود ابراہیم زاید کی تحقیق سے دار الوعی ، حلب ، دمشق سے (۱۹۷۵ء) میں شائع ہوئی ۔
۱۲-(۵) من حدث عنہ ابن أبي عروبۃ ولم یسمع منہ (کتاب الضعفاء والمتروکین کے آخر میں شائع ہے)
٭بعض ایسی کتابیں جن کے قلمی نسخے بعض مکتبات میں موجودہیں:
۱۳- (۱) الجمعۃ : بغدادی نے اسے ہدیۃ العارفین(۱/۵۶) میں ذکرکیاہے، اس کے مخطوطات کئی جگہ پائے جاتے ہیں، محمد بن محمد بن الحسن بن علی التمیمی الدارمی نے اس کو اپنی ''ثبت مرویات'' میں مستقلاً ذکرکیا ہے،یہ ''ثبت'' دیر اسکوریال ، اسپین کے مکتبہ میں مجموع رقم ( ۱۷۵۸)میں موجود ہے، ڈاکٹر فاروق حمادہ کہتے ہیں:یہ بعید نہیں ہے کہ یہ وہی ہو جوسنن کبریٰ میں موجود ہے ، لیکن کبریٰ سے تقابل کے بعد ہی کوئی قطعی بات کہی جاسکتی ہے، پھر فہرست محمد بن علی بن غازی عثمانی مکناسی (ت: ۹۱۹ھ) کے ثبت سے نقل کرتے ہیں کہ کتاب الجمعہ سنن کبریٰ کی ایک کتاب ہے ، میں نے اس کو اس لیے مستقلاً ذکر کیاہے کہ یہ سند عالی سے ابن حیویہ کے طریق سے متصل ہے (ص: ۱۸۵)،اور (ص: ۵۴) (مقدمۃ عمل الیوم واللیلۃ ۴۰)۔ یہ سنن صغریٰ میں (۱۴) نمبر کی کتاب ہے ، اور سنن کبریٰ میں (۶) نمبرکی کتاب ہے (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ ۲/۲۵۷)۔
۱۴ -(۲) کتاب الإغراب: مسند حدیث شعبۃ وسفیان الثوری مما رواہ شعبۃ ، ولم یروہ سفیان ، أو رواہ سفیان ولم یروہ شعبۃ من الحدیث والرجال، ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت سعید بن جابر وابن حیویہ کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۶) یہ کتاب حافظ ابن حجر کی مرویا ت میں سے ہے، جس کو آپ نے دو طریق سے بروایت ابوالحسن محمد بن حیویہ روایت کیا ہے، دوسری روایت میں جزء رابع کی روایت ہے(المعجم المفہرس لابن حجر ۹۸۴،ہدیۃ العارفین ۱/۵۶)،ڈاکٹر فاروق حمادہ کو اس کتاب کا چوتھا جزء مکتبہ دیر اسکوریال ، اسپین میں ملاہے، جس پر یہ لکھاہے: الجزء الرابع من حديث شعبة بن الحجاج وسفيان بن سعيد الثوري مما أغرب به بعضهم على بعض اور یہ ابن حیویہ کی روایت سے ہے، اور اس پر (۷۰۹) کی تاریخ سماع ہے، اور یہ (۱۷)ورقہ میں ہے (مقدمۃ عمل الیوم واللیلۃ ۳۹)۔
۱۵- (۳) جزء من حدیث عن النبی ﷺ: فؤاد سزکین نے مجموع (۱۰۷) ظاہریہ دمشق کے ایک نسخے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا ذکرکیا ہے، جو (۳۱۰-۳۲۱) ورقے پر ہے، اوریہ ساتویں صدی ہجری کا مخطوط ہے۔
۱۶- (۴) إملاء اتہ الحدیثیۃ : مکتبہ ظاہریہ دمشق میں حدیث رقم : ۱۶۳کے تحت دومجالس املا ء موجود ہیں (ورقہ ۵۱-۵۴)۔
٭بعض وہ کتابیں جن کا تذکرہ صحاح ستہ کے رجال اور اطراف احادیث کی کتابوں
میں آتاہے اور مؤلفین نے ان کتابوں کے رموز کاذکر مقدمہ کتاب میں کیاہے:
٭عمل الیوم واللیلۃ کارمز (سی)ہے اورخصائص علی کا (ص)اوپردونوں کتابوں کا ذکر آچکاہے۔
۱۷- (۱) مسند حدیث مالک بن انس: اس کتاب کے رواۃکا رمز کتب رجال (تقریب التہذیب اور خلاصۃ تہذیب الکمال وغیرہ) میں (کن) ہے۔اس کتاب کی روایت امام نسائی سے حمزہ کنانی ، حسن بن رشیق اور حسن بن الخضر الاسیوطی نے کی ہے، اور ان سب سے ابن خیر نے روایت کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۴۵) یہ حافظ ابن حجر کی مرویات میں سے ہے، جو بسند ابی الحسن بن الخضر الاسیوطی عن النسائی ہے، (المعجم المفہرس لابن حجر ۱۵۰۰) ، ابن حجر نے فتح الباری میں بھی اس کا ذکرکیاہے ۴/۶۰،معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (۱۲۱۷) اس کا تذکرہ ذہبی نے (السیر ۸/۸۵، اورالعبر ۲/۳۵) میں کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو:( حسن المحاضرۃ فی أخبار مصر والقاہرۃ ۱/۱۹۸، ہدیۃ العارفین ۱/۵۶)۔
۱۸-(۲) مسند علي بن أبی طالب: ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب حافل یعنی بڑی ہے(السیر۱۴/۱۳۳، وتاریخ الاسلام ) ، اور ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اس کے کافی اقتباسات ذکرکیے ہیں، ملاحظہ ہو:( فتح الباری ۱/۲۰۴، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری ۱۲۲۲) اس کتاب کو زیلعی سنن کبریٰ میں شمارکرتے ہیں (نصب الرایۃ للزیلعی ۳/۱۱۰)، تہذیب الکمال ،اور دوسری صحاح ستہ کے رجال کی کتابوں میں اس کا رمز (عس) ہے ۔(ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب اور تہذیب التہذیب ، الخلاصۃ للخزرجی کے مقدمات ،و کشف الظنون )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امام نسائی کی درج ذیل کتابیں مفقود کے حکم میں ہیں:
ابن خیر نے سب سے زیادہ اپنی فہرست میں ان کتابوں کا ذکر کیاہے ،ذیل میں ہم سب سے پہلے انہی کتابوں کا ذکرکرتے ہیں:
۱۹-(۱) کتاب الکنی : ابن خیر نے اس کا نام'' الأسماء والکنی'' رکھاہے، نسائی نے اس کی ترتیب خاص انداز سے کی تھی ، پھر اس کی ترتیب ابوعبداللہ محمد بن احمد بن یحیی مفرج القاضی نے حروف معجم پر کی( فہرست ابن خیر ۲۱۴)،حافظ ذہبی کہتے ہیں: یہ بڑی کتاب ہے،(السیر۱۴/۱۳۳، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۲۵ ، میزان الاعتدال ۱/۱۵)، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب اور لسان المیزان ۳/۱۲۳ ،و۷/۱۲۱، نیز فتح الباری ۱۰/۵۹ ، ۱۳/۵۴۶میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے، (معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری ۱۰۷۸)، اس کتاب کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی آیاہے: مقدمۃ فی علوم الحدیث ص: ۲۹۶، فتح المغیث ۳/۲۰۰، نصب الرأیۃ ۳/۲۰۵، ۴/۲۳۷، التقریب للنووی ، وتدریب الراوی للسیوطی ص: ۴۵۰، الرسالۃ المستطرفۃ ص: ۱۲۱، بستان المحدثین ،محمد سلیمان رودانی (۱۰۹۴)نے کتاب اوائل الکتب الحدیثیہ میں اس کتاب کی پہلی حدیث روایت کی ہے۔
۲۰- (۲) مسند ابن جریج : ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت سعید بن جابر کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۶) ۔
۲۱- (۳) مسند حدیث الزہری بعللہ والکلام علیہ (فہرست ابن خیر ۱۴۵) ،یہ حافظ ابن حجرکی مرویات میں سے بھی ہے، دونوں نے بسند محمد بن قاسم عن النسائی روایت کی ہے،اس کا نام ''کتاب الزہری جمع أبی عبدالرحمن النسائی'' ہے(المعجم المفہرس لابن حجر ۹۸۴)
۲۲- (۴) مسندحدیث سفیان بن سعید الثوری:ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت سعید بن جابر کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۶)
۲۳- (۵) مسند حدیث شعبۃ بن الحجاج : ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت سعید بن جابر کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۶)
۲۴- (۶) مسند حدیث الفضیل بن عیاض ، وداود الطائی ، ومفضل بن مہلہل الضبی: ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت حمزہ الکنانی اور ابن حیویہ کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۸) حافظ سخاوی کہتے ہیں: یہ تالیف فضیل بن عیاض کے شیوخ پر ہے( فتح المغیث للسخاوی ۲/۳۴۴ ، تدریب الراوی ۲/۱۵۵) ۔
۲۵- (۷) مسند حدیث یحیی بن سعید القطان: نسائی سے ابن خیر نے اس کی روایت بطریق حمزہ بن محمد کنانی کی ہے اور یہ (۸) اجزاء میں ہے (فہرست ابن خیر ۱۴۸) ۔
٭مزید مؤلفات کا ذکر بھی کتابوں میں آتاہے،لیکن علماء کی مرویات میں ان کا تذکرہ نہیں ہے، اور یہ درج ذیل ہیں:
۲۶- (۱) مسند منصور بن زاذان الواسطی (ت: ۱۲۹ھ): اس کتاب کاذکر سیوطی نے کیاہے (تدریب الراوی ۲/۳۶۴)
۲۷-(۲) مناسک الحج: (اس کا ذکر کرتے ہوئے ابن الاثیر الجزری کہتے ہیں: وله مناسك على مذهب الشافعي (جامع الاصول ۱/۱۹۶، ۱۹۷، ہدیۃ العارفین للبغدادی ۱/۵۶) واضح رہے کہ مناسک الحج کے نام سے سنن صغریٰ میں یہ (۲۴) نمبرکی کتاب ہے ، اور سنن کبریٰ میں ''کتاب المناسک'' (۱۶) نمبرکی کتاب ہے۔
۲۸- (۳) فضائل الصحابۃ: (تہذ یب الکمال ، والسیر ،کشف الظنون ) سنن کبریٰ میں ''کتاب المناقب ''کے نام سے فضائل صحابہ کاتذکرہ (۶۰) نمبرکی کتاب میں ہے ۔
۲۹- (۴) معجم شیوخہ: حافظ ابن حجر نے اس کا تذکرہ کئی بار کیا ہے، اور کتاب کا نام أسامی شیوخہ لکھاہے (تہذیب التہذیب ۱/۸۸، ۸۹) اور یہ ''مشیخۃ النسائی'' کے نام سے بھی مذکورہے(تذکرۃ الحفاظ، البدایۃ والنہایۃ)۔
۳۰- (۵) شیوخ الزہری:اس کتاب کاذکر حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر (۱/۱۱۰)اور شوکانی نے نیل الأوطار (۱/۱۱۵) میں کیا ہے۔
۳۱- (۶) الجرح والتعدیل: یہ کتاب الضعفاء والمتروکین سے علاحدہ کتاب ہے ، ابن حجر غالب بن عبیداللہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: قال النسائي في الجرح والتعديل: ليس بثقة ولا يكتب. وقال في الضعفاء: متروك الحديث.(نیز ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب ۱/۹۷، ۴۱۹، ۴/۹۱ ، لسان المیزان۲/۳۰۰)۔
۳۲- (۷) کتاب الإ خوۃ والأخوات:اس کتاب کاذکر متعدد مؤلفین نے کیا ہے(مقدمۃ ابن الصلاح ۲۷۹، فتح المغیث ۳/۱۶۳، التقریب وشرحہ تدریب الراوی ۲/۲۴۹، ۳۶۴،جامع الاصول لابن الأثیر ،تہذیب التہذیب ۶/۳۲۴)۔
۳۳- (۸) کتاب التمییز: سیوطی نے اس کا نام ''أسماء الرواۃ والتمییز بینہم'' لکھا ہے،سخاوی کہتے ہیں: اس کتاب میں نسائی نے ثقات اور ضعفاء دونوں کے تراجم لکھے ہیں، متعدد اہل علم نے اس کتاب کا تذکرہ کیاہے (تہذیب التہذیب۱/۳۵۶ وغیرہ، لسان المیزان۳/۳۶۱، فتح المغیث ۳/۳۱۵، الإعلان بالتوبیخ ۵۸۹، تدریب الراوی ۲/۳۶۴) ۔
۳۴- (۹) تصنیف فی المدلسین: حافظ ابن حجر نے اس کا ذکر النکت علی ابن الصلاح (۲/۶۵۰)میں کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن صغری (مجتبی) اور سنن کبری کا تعارف

امام نسائی نے سب سے پہلے سنن کبریٰ کی تالیف کی ، جو دیوان النسائی اور مصنف النسائی کے نام سے بھی مشہور ہے، یہ کتاب ہم تک ابن الاحمر کی روایت سے پہنچی ہے، مؤسسۃ الرسالۃ کے ایڈیشن کے مطابق سنن کبریٰ میں (۱۱۹۴۹) احادیث ہیں، سنن صغری (المجتبیٰ) کو امام نسائی نے امیر رملہ کے کہنے پر مرتب کیا ،اس میں (۵۷۶۱) احادیث ہیں ، علامہ جمال الدین قاسمی سنن کبریٰ کے بارے میں کہتے ہیں: هو كتاب جليل لم يكتب مثله في جمع طرق الحديث وبيان مخرجه وبعده اختصره (سنن کبریٰ بڑی عظیم کتاب ہے، طرق حدیث کے جمع کرنے اور حدیث کے مخارج کے بیان کرنے میں ، بے مثال ہے، بعد میں امام نسائی نے اس کو مختصر کیا)۔
سنن نسائی (صغریٰ) امام نسائی کی تصنیف ہے، جس کی روایت ابن السنی سے ہم تک پہنچی ہے، اوپر مذکور امیر رملہ کے واقعہ کی حافظ ذہبی نے تغلیط کی ہے، ان کی تحقیق میں سنن صغریٰ ابن السنی کی تصنیف ہے ، کہتے ہیں: إن هذه الرواية لم تصح بل المجتبى اختصار ابن السني تلميذ النسائي (امیر رملہ والی روایت صحیح نہیں ہے، مجتبیٰ (سنن صغریٰ) نسائی کے تلمیذ ابن السنی کا اختصار ہے) ( السیر ۱۴/۱۳۱، توضیح الافکار ۱/۲۲۱)۔
نیز کہتے ہیں: ہمیں نسائی کی صرف کتاب المجتنی ابوبکر ابن السنی کے انتخاب سے پہنچی ہے(۱۴/۱۳۳) اور ابن السنی کے ترجمے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی سنن نسائی کا اختصار کیا، اور صرف اس مختصر ہی کی روایت کی ، اور اس کا نام المجتنی رکھا، ہم نے ابن السنی کے طریق سے اسے بسندعالی سناہے (السیر ۱۶/۲۵۶، وتذکرۃ الحفاظ ۳/۹۴۰)اور یہی بات سبکی نے طبقات الشافعیہ میں ابن السنی کے ترجمہ میں لکھی ہے(۳/۳۹) اور ابن ناصرالدین الدمشقی نے بھی یہی لکھاہے(شذرات الذہب ۳/۴۸) ۔
لیکن صحیح یہی ہے کہ امام نسائی نے پہلے السنن الکبریٰ تصنیف فرمائی ، پھر اس کا اختصار ''المجتبی یا المجتنی ''کے نام کیا، سنن صغریٰ کے راوی ابن السنی ہیں، اور سنن کبریٰ کے ابن الاحمر ۔
معاصر محقق سلفی عالم شیخ عبدالصمد شرف الدین الکتبی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے سنن کبریٰ کی تین جلدیں شائع کیں، آپ نے پہلی جلدکے مقدمہ میں واضح کیا ہے کہ دونوں کتابیں خود امام نسائی کی مرتب کردہ ہیں، اور یہ کہنا کہ ابن السنی نے المجتنی کو منتخب کیا ہے، امام ذہبی کاوہم ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ خود ذہبی نے سنن کبریٰ دیکھی ہی نہیں تھی، جیسا خود ذہبی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کو صرف المجتبی یعنی سنن صغریٰ پہنچی ہے(السیر ۱۴/۱۳۳)، تذکرۃ الحفاظ میں کہتے ہیں: میں نے المجتبیٰ من السنن پوری کی پوری ابوزرعۃ مقدسی کے طریق سے سنی ہے( ۲/۷۰۱)۔
حافظ ابن کثیر کے پاس دونوں کتابیں تھیں اورانہیں دونوں کتابوں کا سماع حاصل تھا ، کہتے ہیں: نسائی نے سنن کبریٰ کو لکھا ، پھر اس کا انتخاب کیا، جو اس سے کئی گنا چھوٹا ہے، میں نے دونوں کو سناہے(البدایۃ والنہایۃ ۱۴/۷۹۳)
سنن کبریٰ کے راوی محمد بن معاویہ بن الاحمر کہتے ہیں کہ امام نسائی نے کہا: کتاب السنن پوری کی پوری صحیح ہے، بعض احادیث معلول ہیں، لیکن امام نسائی نے ان کی علت نہیں بیان کی، اس سے منتخب شدہ کتاب کا نام مجتبیٰ ہے، جس کی ساری احادیث صحیح ہیں(النکت علی ابن الصلاح ۱/۴۸۴)۔
خود امام نسائی اپنی کتاب کو الصحیح کا نام دیتے تھے(التقیید ۱۴۱، والبدایہ والنہایۃ ۱۴/۷۹۳)
مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی رحمہ اللہ نے سنن صغریٰ اورسنن کبریٰ دونوں سے کتاب الطہارۃ کے ابواب اورکتب کا تقابلی مطالعہ کرکے اس مسئلے کو مزید واضح کیا ہے،نیز ڈاکٹر فاروق حمادہ نے عمل الیوم واللیلۃ کے مقدمہ تحقیق میں اس مسئلے پر گفتگوکی ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ المجتبیٰ (سنن صغریٰ ) نسائی کی تالیف ہے،اور اس کی روایت ابن السنی نے کی ہے۔
سنن کبریٰ اور سنن صغریٰ میں موجود کتابوں کا تذکرہ
اور اُن کتابوں کا ذکر جو سنن کبریٰ میں ہیں، اور سنن صغریٰ ان سے خالی ہے
اوپر گزرا کہ امام نسائی نے پہلے کبریٰ کی تالیف فرمائی اس کے بعداس سے صغریٰ کا انتخاب فقہی ترتیب پر کیا، چونکہ دونوں کتابوں کی احادیث اور دونوں میں موجود کتب میں اختلاف اور تقدیم اورتاخیر ہے اس لیے پہلے ہم ذیل میں سنن صغریٰ میں وارد کتب کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے بعد سنن کبریٰ کی کتابوں کا تذکرہ ہوگا، اور آخر میں سنن کبریٰ میں موجود زائد کتابوں کا ذکر ہوگا:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۱) سنن صغریٰ میں موجود کتابوں کی ترتیب یہ ہے:
1- الطهارة، 2- المياه، 3- الحيض والاستحاضة، 4- الغسل والتيمم، 5- الصلاة، 6-المواقيت، 7- الأذان، 8- المساجد، 9- القبلة، 10- الإمامة، 11- الافتتاح، 12-التطبيق، 13-السهو، 14- الجمعة، 15- تقصير الصلاة،16- الكسوف، 17-الاستسقاء، 18- صلاة الخوف، 19- صلاة العيدين، 20- قيام الليل، 21-الجنائز، 22- الصيام، 23- الزكاة، 24- مناسك الحج، 25- الجهاد، 26- النكاح، 26/أ-عشرة النساء ۱؎ ، 27- الطلاق، 28- الخيل (والسبق والرمي)، 29- الأحباس، 30-الوصايا، 31-النحل، 32- الهبة، 33- الرقبى، 34- العمرى، 35- الأيمان والنذور، 36-المزارعة، 37- المحاربة (تحريم الدم)، 38- قسم الفئ، 39- البيعة، 40-العقيقة، 41-الفرع والعتيرة، 42- الصيد والذبائح، 43- الضحايا 44- البيوع، 45- القسامة والقود والديات، 46-قطع السارق، 47- الإيمان وشرائعه، 48- الزينة من السنن (الكبرى)، 48/أ-الزينة من المجتبى، 49- آداب القضاة، 50- الاستعاذة، 51-الأشربة.
وضاحت ۱؎ : سنن صغریٰ کے قلمی نسخے نیز مصری ایڈیشن اور سیوطی اور سندی کے حواشی والے نسخوں نیز مشہور حسن کے ایڈیشن میں ''کتاب عشرۃ النساء'' کتاب المزارعۃ کے بعد ہے ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے التعلیقات السلفیۃ میں اس کو کتاب النکاح کے بعد رکھا ہے ، مولانا اس مقام پر حاشیہ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستانی ایڈیشن میں ''عشرۃ النساء'' کا ذکر کتاب النکاح کے بعد ہے ، اوریہی اس کا مناسب مقام ہے ، جو نسخہ ہندیہ میں ہے ، اس لیے ہم نے اس کی اتباع میں اپنے ایڈیشن میں اس کو کتاب النکاح کے بعد رکھا ہے ، اس لیے بھی کہ ہندوستان میں یہی نسخہ رائج ہے ، اس لیے اس کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے (التعلیقات السلفیۃ ۲/۸۳، ط۔ پاکستان) قارئین کرام ہمارے اس نسخے میں اور دوسرے نسخوں میں نمبرات کا اختلاف دیکھیں گے ، اس لیے اس کی وضاحت یہاں ضروری محسوس ہوئی ۔
(۲) سنن کبریٰ میں موجود کتابوں کی ترتیب یہ ہے:
1- الطهارة (1/ 73) (وفيه: ذكر ما ينقض الوضوء وما لا ينقضه، وذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه)، 2- الصلاة (1/ 197)، 3- السهو (وفيه: ذكر ما ينقض الصلاة وما لاينقضها) (1/ 283)، 4-المساجد (1/ 383) (عنوان الكتاب مثبت من الصغرى) (وفيه: ذكر الإمامة والجماعة، في سجود القرآن)، 5- قيام الليل وتطوع النهار (2/ 111) (عنوان الكتاب مأخوذ من الصغرى)، 6-الجمعة (2/ 257)، 7- صلاة العيدين (2/ 295)، 8-الاستسقاء (2/ 315)، 9- كسوف الشمس والقمر (2/ 331)، 10- قصر الصلاة في السفر (2/ 357)، 11- الجنائز وتمني الموت (2/ 377)، 12- الزكاة (3/ 5)، 13- الصيام (3/ 89)، 14- الاعتكاف (3/ 377)، 15- المحاربة (3/ 409)، 16- المناسك (4/ 5) (وفيه: المواقيت)، 17- الجهاد (4/ 264)، 18- الخيل والسبق (4/ 311)، 19- قسم الخمس (4/ 325)، 20- الضحايا (4/ 335)، 21- العقيقة (4/ 369)، 22- الفرع والعتيرة (4/ 375)، 23- المزارعة (4/ 391)، 24- الأيمان والنذور (4/ 431)، 25-النذور (4/ 447)، 26- الصيد (4/ 459)، 27- العتق(5/ 5)، 28-الأشربة (5/ 61)، 29- الحد في الخمر (5/ 131)، 30- النكاح (5/ 147)، 31-الطلاق (5/ 247)، 32- إحياء الموات (5/ 323)، 33- العارية والوديعة (5/ 331)، 34- الضوال (5/ 337)، 35- اللقطة (5/ 343)، 36- الركاز (5/ 355)، 37- العلم (5/ 357)، 38- القضاء (5/ 395)، 39-البيوع (6/ 5)، 40- الفرائض (6/ 97)، 41-الأحباس (6/ 137)، 42-الوصايا (6/ 147)، 43- النحل (6/ 171)، 44- الهبة (6/ 177)، 45- الرقبى (6/ 185)، 46-العمرى (6/ 189) (عنوان الكتاب مثبت من الصغرى)، 47- الوليمة (6/ 203) (وفيه: اللحمان)، 48- الأشربة المحظورة (6/ 273)، 49- الدعاء بعد الأكل (6/ 308)، 50- القسامة (6/ 315)، 51- وفاة النبي ﷺ (6/ 379)، 52-الرجم (6/ 399)، 53- قطع السارق (7/ 5)، 54- الطب (7/ 45)، 55- التعبير (7/ 103)، 56- النعوت (7/ 123)، 57- البيعة (7/ 169)، 58- الاستعاذة (7/ 195)، 59- فضائل القرآن (7/ 241)، 60- المناقب (فضائل الصحابة) (7/ 293)، 61-الخصائص (خصائص علي بن أبي طالب -رضي الله عنه-) (7/ 407)، 62- السير (8/ 5)، 63- عشرة النساء (8/ 149)، 64- الزينة (8/ 309)، 65- عمل اليوم والليلة (9/ 5)، 66- التفسير (10/ 5)، 67- الشروط (10/ 353)، 68-الرقائق (10/ 375)، 69- المواعظ (10/ 399)، 70- الملائكة (10/ 413).
(۳) وہ کتابیں جو سنن کبریٰ میں ہیں اور سنن صغریٰ ان سے میں نہیں ہیں
1- الاعتكاف(6) 3/ 377 من الكبرى (3320- 3413)
2- العتق (18) 5/ 5 من الكبرى (4854- 5030) (العتق والتدبير والمكاتب وأم الولد).
3- الحد في الخمر(20) 5/ 131 من الكبرى (5250- 5284)
4- إحياء الموات(23) 5/ 323 من الكبرى (5724- 5757)
5- العارية والوديعة(24) 5/ 331 من الكبرى (5744- 5757)
6- الضوال(25) 5/ 337 من الكبرى (5758- 5772)
7- اللقطة(26) 5/ 343 من الكبرى (5773- 5800)
8- الركاز(27) 5/ 355 من الكبرى (5801- 5805)
9- العلم(28) 5/ 357 من الكبرى (5806- 5884)
10- الفرائض(31) 6/ 97 من الكبرى (6271- 6387)
11- الوليمة(38) 6/ 203 من الكبرى (6560- 6746)
12- وفاة النبي ﷺ(40) 6/ 379 من الكبرى (7040- 7085)
13- الرجم(41) 6/ 399 من الكبرى (7086- 7313)
14- الطب(42) 7/ 45 من الكبرى (7436- 7573)
15- التعبير(43) 7/ 103 من الكبرى (7574- 7611)
16- النعوت (الأسماء والصفات) (44) 7/ 123 من الكبرى (7612- 7721)
17- فضائل القرآن(47) 7/ 241 من الكبرى (7922- 8047)
18- المناقب(مناقب أصحاب رسول الله ﷺ) (48) 7/ 293 من الكبرى (8048- 8526)
19- الخصائص (خصائص علي رضي الله عنه) (49) 7/ 407 من الكبرى (8332- 8526)
20- السير(50) 8/ 5 من الكبرى (8527- 8835)
21- عمل اليوم والليلة(53) 9/ 5 من الكبرى (9743- 10913)
22- التفسير(54) 10/ 5 من الكبرى (11914- 11653)
23- الشروط(55) 10/ 353 من الكبرى (11654- 11754) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
24- الرقائق(56) 10/ 375 من الكبرى (11755- 11827) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
25- المواعظ(57) 10/ 399 من الكبرى (11828- 11875) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
26- الملائكة (58) 10/ 409 من الكبرى (11871- 11949) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
دونوں کتابوں کے جائزے سے چندنتائج برآمد ہوتے ہیں
۱- سنن صغریٰ میں سنن کبریٰ کی (۲۶) کتابیں شامل نہیں ہیں، جن میں سنن صغریٰ سے (۴۰۰۰) سے زائد احادیث ہیں، اس سے سنن کبریٰ کی ضخامت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے،جس میں (۷۰) کتابیں ہیں اوراحادیث کی تعداد (۱۱۹۴۹) ہے، جب کہ صغریٰ میں کتابوں کی تعد اد(۵۱) ہے ، جس میں (۵۷۶۱) احادیث ہیں۔
۲- سنن صغریٰ میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جنہیں سنن کبریٰ سے بعینہ یا بعض معمولی تبدیلی کے بعد رکھ دیا گیا ہے، جیسے کتاب الزکاۃ ، کتاب الجنائز، کتاب الجہاد، کتاب الطلاق اور کتاب الضحایاوغیرہ ۔
۳- سنن کبریٰ کی کتابوں سے بعض احادیث کا بعض کتابوں میں انتخاب کیا گیاہے ،اور یہ بہت زیادہ ہے، اس لیے کہ سنن صغریٰ کا موضوع ہی انتخاب ہے ، بالخصوص ان احادیث کا جن کا تعلق احکام سے ہے ۔
۴- سنن صغریٰ میں بعض کتب ، ابواب اور احادیث سنن کبریٰ سے زائد اور مستقل پائی جاتی ہیں، اور ابواب کے صیغے میں بھی بعض کمی زیادتی ہے۔
۵- سنن کبریٰ میں جو کتب وابواب اور احادیث ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ اس کتاب کو جامع کا نام بھی دیاجاسکتاہے، اس لیے کہ حدیث کے آٹھوں بڑے عنوان کی حامل یہ کتاب ہے ، علمائے حدیث کی اصطلاح میں جامع ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں حدیث کی ساری اقسام پائی جائیں ، یعنی عقائد، احکام، رقاق(زہد،ورع) آداب اکل وشرب ، آداب سفر وقیام وقعود، تفسیر ، تاریخ وسیر ، فتن وملاحم اور مناقب وفضائل اور مثالب سے متعلق احادیث پر مشتمل جامع کتاب ۔
۶- سنن کبریٰ فقہی اور حدیثی نقطہ نظر سے ایک جامع اور ضخیم کتاب ہے، عملاً اس کے اور سنن صغریٰ کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں ہے ، البتہ سنن صغریٰ کا انتخاب بعد میں عمل میں آیا اور اس میں احکام سے متعلق احادیث کو جگہ دی گئی جس میں فقہی ترتیب کے ساتھ اختصار کا انداز اختیار کیا گیا صرف کتاب الإیمان وشرائعہ ایک ایسی کتاب ہے جو فقہی احکام سے باہر ہے ۔
۸- سنن کبریٰ میں رواۃ پر جرح وتعدیل اور بعض احادیث پر شذوذ اور نکارت وغیرہ کے احکام سے متعلق ایک فہرست سنن کبریٰ کے آخر میں کتاب کے محققین نے دی ہے، جس میں امام نسائی کے (۳۸۱) اقوال کا تذکرہ ہے ، اور اس کے بعد آٹھ صفحوں میں ان رواۃ کی فہرست ہے جن پر امام نسائی نے کلام کیا ہے، ایسے ہی شیخ فالح شبیلی نے سنن صغریٰ اور دوسری کتابوں میں موجود امام نسائی کے رواۃ پر کلام کو مدون کرکے المستخرج من مصنفات النسائی فی الجرح والتعدیل کے نام سے شائع کیا ہے ، واضح رہے کہ امام نسائی کی کتاب الضعفاء والمتروکین پر کتاب ہے جو مطبوع ہے ،اور اہل علم نے لکھاہے کہ نسائی نے (۳۰۰۰) سے زائدرواۃ پر جرح وتعدیل کا کام کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن نسائی کی اہمیت اور اس کا مقام ومرتبہ
دواوین اسلام اورحدیث کے بنیادی مراجع میں جن کتابوں کو شمارکیا گیا ہے ان میں سنن نسائی خاص اہمیت کی حامل کتاب ہے، اس کاتذکرہ سنن ابوداود اور سنن ترمذی کے بعدکیا جاتاہے ، لیکن بعض مغاربہ نے اسے صحیح بخاری سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں: (۱) صرح بعض المغاربة بتفضيل كتاب النسائي على البخاري۔
(۲) اس پر مزید ابن الاحمر نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے :إنه أشرف المصنفات كلها وما وضع في الإسلام مثله. ( سنن نسائی سب سے اچھی کتاب ہے، اس کے ہم مثل اسلام میں کوئی اور کتاب تصنیف نہیں کی گئی)۔
(۳) حافظ سیوطی اس کی صحت کے متعلق امام نسائی سے نقل کرتے ہیں: كتاب السنن كله صحيح وبعضه معلول إلا أنه لم يبين علته والمنتخب المسمى بالمجتبى صحيح كله.(مقدمہ زہرالربی) (نسائی کہتے ہیں: سنن پوری کی پوری صحیح احادیث پر مشتمل ہے، بعض احادیث معلول ہیں، لیکن امام نسائی نے ان کی علت نہیں بیان کی ، مجتبیٰ سنن کبریٰ کا انتخاب ہے، اور اس کی ساری احادیث صحیح ہیں)۔
اس کے علاوہ ابوعلی نیساپوری ، ابن عدی، ابوالحسن دارقطنی ، ابوعبداللہ حاکم ، ابن مندہ ، عبدالغنی بن سعید ، ابویعلی خلیلی، ابن السکن ، خطیب بغدادی ، ابوبکر ابن السنی ، ابوطاہر سلفی وغیرہم نے سنن پر صحت کا اطلاق کیا ہے (مقدمہ زہرالربی)۔
صحیح روایات کی کثرت کی وجہ سے اس کتاب پر صحیح کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر الباعث الحثیث اور علا مہ زرکشی النکت علی ابن الصلاح میں لکھتے ہیں: تسمية الكتب الثلاثة صحاحا إما باعتبار الأغلب لأن غالبها الصحاح والحسان وهي ملحقة بالصحاح والضعيف بها التحق بالحسن فإطلاق الصحة عليها من باب التغليب انتهى.(مقدمہ زہرالربی) تینوں کتابوں (سنن ابی داود ، سنن نسائی اور سنن ترمذی )پر صحاح کا اطلاق اغلب احادیث کے اعتبار سے ہے ، یعنی تغلیباً ہے، اس لیے کہ ان کتابوں کی اکثر احادیث صحیح اور حسن درجے کی ہیں جو ثبوت کے باب میں صحیح کے قبیل سے ہیں، اور ان میں پائی جانے والی ضعیف احادیث حسن کے قبیل سے ہیں اس لیے ان کتابوں پر صحیح کا اطلاق تغلیباً ہے یعنی غالب احادیث کے وجود کے اعتبار سے ہے۔
حافظ ابوطاہر سلفی نے مشرق ومغرب کے علماء کا کتب خمسہ (صحیحین ، سنن ابی داودوالترمذی والنسائی) کی صحت پر اتفاق نقل کیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ یہ قول تساہل پر مبنی ہے، کیونکہ ان میں وہ احادیث بھی ہیں جن کے ضعیف یامنکر ہونے کی خود ان ائمہ نے تصریح کردی ہے ، امام ابوداود نے تو اپنی کتاب میں موجود صحیح اور غیر صحیح احادیث کی اقسام کا تذکرہ کیا ہے، اور ترمذی صحیح ،حسن اور ضعیف کی وضاحت بصراحت کرتے ہیں، امام نسائی بھی رواۃ اور احادیث پر کلام کرتے ہیں، اس لیے یہ بات تحقیق سے بعید ہے، ہاں ان کتابوں پر صحت کا اطلاق تغلیباً ہواہے، جس کی تفصیل اوپر گزری ، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سنن اربعہ میں سب سے کم ضعیف احادیث سنن نسائی میں پائی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب پر صحت کا اطلاق باعتبار قلت ضعف کے ہواہے ، اہل مغرب نے نسائی یا صحیح مسلم کی تفضیل کی جو بات کہی ہے، اس کا تعلق ان دونوں کتابوں میں موجودحسن ترتیب اور جامعیت سے ہے،اس لحاظ سے ان لوگوں کے نزدیک یہ زیادہ بہترکتابیں ہیں، چنانچہ ابن رشید لکھتے ہیں: إنه أبدع الكتب المصنفة في السنن تصنيفا وأحسنها ترصيفا وهو جامع بين طريقتي البخاري ومسلم مع حظ كثير من بيان العلل.(سنن نسائی سنن کی کتابوں میں سب سے ممتاز اور سب سے اچھی تصنیف ہے، اور بخاری اورمسلم کے اسلوب اور منہج کی جامع کتاب ہے، ساتھ ساتھ بہت ساری علل حدیث کو بھی بیان کردیا ہے) ابن الاحمر کے بعض مکی شیوخ کے نزدیک سنن نسائی سب سے اچھی کتاب ہے ،اس طرح کی کوئی تصنیف اسلام میں اور نہیں لکھی گئی (فتح المغیث ۱/۸۳،۸۴، فہرست ابن خیر ۱۱۷) ۔
ابن رشید نے امام بخاری ومسلم کے جن طریقوں کی جامعیت کی طرف اشارہ کیا ہے، معلوم ہوتاہے کہ یہ جامعیت باعتبار فقیہانہ ومحدثانہ انداز کے ہے جوکہ اول امام بخاری میں اور ثانی امام مسلم میں بکثرت موجود ہے ، محدثانہ انداز تو احادیث کی تحویل اسناد سے اور استنباط کثرت ابواب سے واضح ہے ، علامہ محمد منیر الدین السلفی نموذج الاعمال الخیریہ میں فرماتے ہیں: وقد امتازت هذه السنن عن غيرها بكثرة التبويب ودقة الاستنباط. (نموذج ۶۳۶) (یہ کتب سنن دوسری کتابوں سے تبویب کی کثرت اور استنباط کی باریکی کی وجہ سے ممتاز ہیں)۔
 
Top