- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
سکر اورنبیذ کا مسئلہ:
اہل حجاز اور اہل کوفہ کے درمیان نبیذ کے پینے کے بارے میں اور ایسے ہی نشہ آور چیزوں کے قلیل استعمال میں کافی اختلاف رہا ہے، اہل حجاز اور عام محدثین دلائل کی روشنی میں نبیذ پینے کو حرام کہتے ہیں اور اہل کوفہ اسے دیانۃ حلال کہتے ہیں، چونکہ یہ رائے تاویل پر مبنی ہے اس لیے فروعی اختلاف کے باب میں اس کا شمار ہے ، ایسے ہی محدثین کے یہاں دلائل کی روشنی میں ہر نشہ آور چیز کی قلیل مقدار حرام ہے ، جس کی کثیر مقدار پینے سے آدمی کو نشہ آجاتا ہے ، اس مسئلہ پر امام نسائی کی درج ذیل رائے سے خود ان کے اور محدثین کے منہج اور طریقے پر روشنی پڑتی ہے ۔
امام نسائی کتاب الأشربۃ میں ماأسکر کثیرہ فقلیلہ حرام کی حدیث کی تخریج کے بعد کہتے ہیں : اس میں دلیل ہے کہ نشہ لانے والی چیز حرام ہے، خواہ وہ زیا دہ ہو یا کم، اور معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ حیلہ کر نے والے اپنے لیے کہتے ہیں کہ ایسے مشرو ب کا آخری گھونٹ حرام ہو تا ہے اور وہ گھونٹ حلال ہوتے ہیں جو پہلے پیے جاچکے ہیں اور اس سے پہلے رگو ں میں سرا یت کر چکے ہیں، اس با ت میں علما ء کے درمیان اختلاف نہیں پا یا جا تا کہ پو را نشہ ابتدائی گھو نٹو ں کے علاوہ صر ف آخری گھونٹ سے پیدا نہیں ہو تا(۵۶۱۳)۔
فضائل صحابہ اور تشیع کے بارے میں امام نسائی کے موقف کا بیان
اب آئیے امام نسائی کی صحیح عقائد کے پھیلانے اور بدعت اور اہل بدعت کے خلاف ڈٹ جانے کے اس جرأت مندانہ اقدام کی طرف جو دمشق میں'' خصائص علی'' کی تالیف کی شکل میں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
امام دارقطنی کہتے ہیں: نسائی اپنے زمانہ کے مشائخ مصرمیں سب بڑے فقیہ اور احادیث کی صحت اور ضعف رواۃ حدیث کے سب سے بڑے ماہر اور جانکار تھے۔
علم وفضل کے اس مقام پر پہنچنے کی وجہ سے لوگوں نے آپ سے حسد کیا، تو آپ مصر سے رملہ (فلسطین) چلے گئے ، وہاں پرآپ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ خاموش رہے ،ا س پرلوگوں نے جامع مسجد میں آپ کو مارا پیٹا، خود آپ کا بیان ہے کہ مجھے لوگوں نے مکہ (صحیح رملہ) کی طرف نکال دیا، آپ مکہ(رملہ) کی طرف بیماری کی حالت میں گئے، اور وہیں آپ کو شہادت نصیب ہوئی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، ۳۳۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۱)۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے مسئلہ پر دمشق میں لوگوں نے آپ پر تشدد کیا، حتی کہ مسجد سے نکال باہر کیا پھر آپ کو رملہ اٹھاکر لے جایا گیا جہاں (۳۰۳ھ) میں وفات ہوئی اوروہیں پر تدفین ہوئی ، اس سلسلے میں جو اقوال تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نسائی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے موضوع پر خاموشی اختیار کی اس لیے کہ دمشق بنی امیہ کا گڑھ تھا ، اس میں مناقب معاویہ کے موضوع پر خاموشی مناسب تھی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام نسائی امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے شرف صحابیت والے فضائل ومناقب کے منکر تھے۔
نسائی کے ایک شاگرد ابوبکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن المامون الہاشمی کہتے ہیں: میں نے بعض لوگوں کو کہتے سنا کہ نسائی پر لوگوں نے اس بات پر نکیر کی کہ انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے مناقب پر کوئی کتاب نہ لکھی ، اورعلی رضی اللہ عنہ کے خصائص پر کتا ب لکھی ، میں نے یہ بات نسائی سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: ہم دمشق گئے تودیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کرنے والے وہاں بہت ہیں ، تو میں نے اس توقع سے'' خصائص علی'' نامی کتاب لکھی کہ اللہ رب العزت ان لوگوں کو ہدایت دے، پھر اس کے بعدآپ نے فضائل صحابہ تصنیف فرمائی اور لوگوں پر پڑھا، لوگوں نے آپ سے کہا، میں اس مجلس میں حاضر تھا کہ فضائل معاویہ کی احادیث کیوں نہیں تخریج کرتے ، تو آ پ نے جواب دیا: میں کون سی حدیث اس موضوع پر تخریج کروں، کیا حدیث: اللهم لا تشبع بطنه اور خاموش ہو گئے، سائل بھی خاموش ہوگیا(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، السیر ۱۴/۱۲۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹، الحطۃ ۴۵۹)۔
حدیث نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی کہتے ہیں: اس حدیث پر یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں ہے، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: اللهم من لعنته أو سببته فاجعل ذلك له زكاة ورحمة (اے اللہ میں نے جس پر لعنت بھیجی یا جس کوبھی برا بھلا کہا تو تو اسے اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی بنادے)۔
ابن مندہ کہتے ہیں: حمزہ عقبی مصری وغیرہ سے منقول ہے کہ نسائی آخری عمرمیں مصر سے دمشق گئے ،وہاں آپ سے معاویہ اور ان کے بارے میں وارد فضائل کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: لا يرضى رأسا برأس حتى يفضل(یعنی اپنی رائے یہ بتائی کہ وہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کو فضیلت میں برابر نہیں سمجھتے الا یہ کہ معاویہ پر علی کو فضیلت دی جائے، یعنی جب ان کی نظر میں دونوں ایک مرتبے میں نہیں ہیں، تو معاویہ کو علی پرفضیلت دینے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا ہے )،اس جواب پر جامع دمشق سے آپ کو دھکے دے دے کر باہر نکال دیا گیا، پھر آپ کو مکہ لایا گیا، جہاں آپ کی وفات ہوئی ، ذہبی کہتے ہیں: مکہ غلط ہے ، صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰)۔
مزی نے حاکم کی روایت سے یہ واقعہ نقل کیا اور اس پر ابن عساکر کا تبصرہ نقل کیا کہ اس حکایت سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے میں نسائی کے اعتقاد بد پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی، اس میں صرف یہ ہے کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہر حال میں خاموشی اختیار کی ، پھر اس کے بعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوعلی حسن بن ابی ہلال کو کہتے سنا:صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نسائی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اسلام کی مثال ایک گھر کی ہے ، جس کا دروازہ ہوتاہے ،اسلام کا دروازہ صحابہ ہیں، جس نے صحابہ کو ایذاپہنچائی اس نے اسلام کو نشانہ بنایا، تو جیسے آدمی دروازہ اس واسطے کھٹکھٹاتا ہے کہ گھرمیں داخل ہو، پس جس شخص نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا اس نے صحابہ کے خلاف انگلی اٹھائی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۹)۔
پتہ چلا کہ امام نسائی نے اہل دمشق کے علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کو دیکھتے ہوئے ''خصائص علی'' کتاب لکھ کر لوگوں کی صحیح رہنمائی کی، ابھی فضائل صحابہ نہ مرتب کی تھی تو لوگوں نے اعتراض کردیا کہ شیخین اور عثمان کے فضائل نہ بیان کرکے صرف فضائل علی بیان کیے ، پھر اس کے بعد امام نسائی نے فضائل صحابہ لکھی ، پھر اعتراض ہوایا مطالبہ ہوا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کیوں نہ بیان کیے تو اس باب میں ایک صحیح روایت کی طرف اشارہ کرکے سائل کو سمجھا دیا کہ عام فضائل صحابہ سے متعلق احادیث میں وارد فضائل ومناقب میں سارے صحابہ شریک ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھی صحبت رسول کی فضیلت کا شرف حاصل ہے،لیکن الگ سے واضح طورپر ان کے مناقب میں احادیث نہیں موجودہیں، اس لیے ان احادیث کی تخریج کا مطالبہ ہی غلط ہے۔
اوپر کی تفصیل سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں امام نسائی کا مذہب واضح طور پرمعلوم ہوگیا، ''خصائص علی'' کتاب لکھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ پر تشیع کا الزام لگایاہے، جس کا معنی الزام ثابت ہوجانے کے بعد یہ ہوگا کہ متقدمین سلف کے عرف میں تشیع کا معنی علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے، شیخین ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سب پر مقدم ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ کا جنگوں میں موقف زیادہ صحیح تھا،اور ان کے مخالفین کا موقف غلط یا مرجوح ، جب کہ متاخرین کے عرف میں تشیع کا معنی ہے : مکمل طور پر رافضی ہونا او رچند اہل بیت اور بعض صحابہ کو چھوڑکر سب پر تبرأپڑھنا اور سب کو برابھلا کہنا ۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں: نسائی میں تھوڑاسا تشیع ، اور علی کے خصوم جیسے معاویہ ا ور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے تھوڑا سا انحراف پایا جاتاہے ، اللہ انہیں معاف فرمائے (السیر ۱۴/۱۳۳)۔
امام نسائی درحقیقت دونوں طرح کے تشیع سے بری ہیں، دمشق میں اموی عہد حکومت کے اثرات سے لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت سے انحراف پایا جاتا تھا، جس کو اصطلاح میں نصب کہتے ہیں، اور اسی سے ناصبی اور اس کی جمع نواصب ہے، یعنی وہ لوگ جو علی اور آل بیت سے نفرت کرتے ہیں، ان کو خوارج بھی کہا گیا اس لیے کہ خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی ، اور صحابہ کے خلاف اعتقاد رکھا ،امام نسائی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو'' خصائص علی'' لکھ کر لوگوں کو صحیح بات بتائی ، فضائل معاویہ کے بیان پر خاموشی سے بھی لوگوں نے آپ کے خلاف معاندانہ رویہ اختیارکیا، جس کے نتیجے میں آپ کی موت ہوگئی، لیکن فضائل صحابہ پر کتاب لکھ کر نیز صحابہ کے بارے میں زبان درازی کو اسلام کے خلاف زبان درازی قرار دے کر اپنا منہج واضح کردیا۔
یہ بھی واضح رہے کہ سنن میں ''کتاب المناقب لأصحاب النبیﷺ'' کو شامل کیا،اور اس میں عثمان بن عفان اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے مناقب کی روایات ذکر کیں۔علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کے متہم رواۃ سے بھی امام نسائی نے روایت کی ہے ، اس سے بھی آپ کی عدم تعصبی کا پتہ چلتاہے، ابراہیم بن یعقوب سعدی جوزجانی پر ناصبی ہونے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے منحرف ہونے کا الزام ہے ،لیکن امام نسائی نے جوزجانی سے بکثرت روایت کی ( تہذیب التہذیب۱/۹۵)، اسی طرح سے شمر بن عطیہ اسدی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سخت قسم کے عثمانی تھے، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی تفضیل میں آگے آگے تھے ، بایں ہمہ نسائی نے نہ صرف یہ کہ ان سے روایت کی بلکہ ان کی توثیق بھی کی (تہذیب التہذیب ۲/۱۸۰)، عمربن سعد بن ابی وقاص اس لشکر کے امیر تھے جس نے حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا تھا، لیکن امام نسائی نے ان سے بھی روایت کی (تہذیب التہذیب ۳/۲۲۷)، بلکہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے نسائی کے علاوہ عمربن سعد سے کسی نے روایت نہیں کی ، یہ ساری مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ نہ شیعہ تھے ، نہ ناصبی ، بلکہ ٹھیٹ سنی اور سلفی تھے، بلکہ صحیح اعتقاد کی نشر واشاعت کے لیے جرأت بھی رکھتے تھے، اسی لیے دمشق کے مخالفین علی کی ہدایت کے لیے ''مناقب علی '' نامی کتاب لکھی ، تاکہ لوگ راہ اعتدال پر آجائیں،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
اہل حجاز اور اہل کوفہ کے درمیان نبیذ کے پینے کے بارے میں اور ایسے ہی نشہ آور چیزوں کے قلیل استعمال میں کافی اختلاف رہا ہے، اہل حجاز اور عام محدثین دلائل کی روشنی میں نبیذ پینے کو حرام کہتے ہیں اور اہل کوفہ اسے دیانۃ حلال کہتے ہیں، چونکہ یہ رائے تاویل پر مبنی ہے اس لیے فروعی اختلاف کے باب میں اس کا شمار ہے ، ایسے ہی محدثین کے یہاں دلائل کی روشنی میں ہر نشہ آور چیز کی قلیل مقدار حرام ہے ، جس کی کثیر مقدار پینے سے آدمی کو نشہ آجاتا ہے ، اس مسئلہ پر امام نسائی کی درج ذیل رائے سے خود ان کے اور محدثین کے منہج اور طریقے پر روشنی پڑتی ہے ۔
امام نسائی کتاب الأشربۃ میں ماأسکر کثیرہ فقلیلہ حرام کی حدیث کی تخریج کے بعد کہتے ہیں : اس میں دلیل ہے کہ نشہ لانے والی چیز حرام ہے، خواہ وہ زیا دہ ہو یا کم، اور معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ حیلہ کر نے والے اپنے لیے کہتے ہیں کہ ایسے مشرو ب کا آخری گھونٹ حرام ہو تا ہے اور وہ گھونٹ حلال ہوتے ہیں جو پہلے پیے جاچکے ہیں اور اس سے پہلے رگو ں میں سرا یت کر چکے ہیں، اس با ت میں علما ء کے درمیان اختلاف نہیں پا یا جا تا کہ پو را نشہ ابتدائی گھو نٹو ں کے علاوہ صر ف آخری گھونٹ سے پیدا نہیں ہو تا(۵۶۱۳)۔
فضائل صحابہ اور تشیع کے بارے میں امام نسائی کے موقف کا بیان
اب آئیے امام نسائی کی صحیح عقائد کے پھیلانے اور بدعت اور اہل بدعت کے خلاف ڈٹ جانے کے اس جرأت مندانہ اقدام کی طرف جو دمشق میں'' خصائص علی'' کی تالیف کی شکل میں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
امام دارقطنی کہتے ہیں: نسائی اپنے زمانہ کے مشائخ مصرمیں سب بڑے فقیہ اور احادیث کی صحت اور ضعف رواۃ حدیث کے سب سے بڑے ماہر اور جانکار تھے۔
علم وفضل کے اس مقام پر پہنچنے کی وجہ سے لوگوں نے آپ سے حسد کیا، تو آپ مصر سے رملہ (فلسطین) چلے گئے ، وہاں پرآپ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ خاموش رہے ،ا س پرلوگوں نے جامع مسجد میں آپ کو مارا پیٹا، خود آپ کا بیان ہے کہ مجھے لوگوں نے مکہ (صحیح رملہ) کی طرف نکال دیا، آپ مکہ(رملہ) کی طرف بیماری کی حالت میں گئے، اور وہیں آپ کو شہادت نصیب ہوئی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، ۳۳۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۱)۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے مسئلہ پر دمشق میں لوگوں نے آپ پر تشدد کیا، حتی کہ مسجد سے نکال باہر کیا پھر آپ کو رملہ اٹھاکر لے جایا گیا جہاں (۳۰۳ھ) میں وفات ہوئی اوروہیں پر تدفین ہوئی ، اس سلسلے میں جو اقوال تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نسائی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے موضوع پر خاموشی اختیار کی اس لیے کہ دمشق بنی امیہ کا گڑھ تھا ، اس میں مناقب معاویہ کے موضوع پر خاموشی مناسب تھی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امام نسائی امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے شرف صحابیت والے فضائل ومناقب کے منکر تھے۔
نسائی کے ایک شاگرد ابوبکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن المامون الہاشمی کہتے ہیں: میں نے بعض لوگوں کو کہتے سنا کہ نسائی پر لوگوں نے اس بات پر نکیر کی کہ انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے مناقب پر کوئی کتاب نہ لکھی ، اورعلی رضی اللہ عنہ کے خصائص پر کتا ب لکھی ، میں نے یہ بات نسائی سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: ہم دمشق گئے تودیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کرنے والے وہاں بہت ہیں ، تو میں نے اس توقع سے'' خصائص علی'' نامی کتاب لکھی کہ اللہ رب العزت ان لوگوں کو ہدایت دے، پھر اس کے بعدآپ نے فضائل صحابہ تصنیف فرمائی اور لوگوں پر پڑھا، لوگوں نے آپ سے کہا، میں اس مجلس میں حاضر تھا کہ فضائل معاویہ کی احادیث کیوں نہیں تخریج کرتے ، تو آ پ نے جواب دیا: میں کون سی حدیث اس موضوع پر تخریج کروں، کیا حدیث: اللهم لا تشبع بطنه اور خاموش ہو گئے، سائل بھی خاموش ہوگیا(تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، السیر ۱۴/۱۲۹،تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹، الحطۃ ۴۵۹)۔
حدیث نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی کہتے ہیں: اس حدیث پر یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں ہے، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: اللهم من لعنته أو سببته فاجعل ذلك له زكاة ورحمة (اے اللہ میں نے جس پر لعنت بھیجی یا جس کوبھی برا بھلا کہا تو تو اسے اس کے حق میں رحمت اور پاکیزگی بنادے)۔
ابن مندہ کہتے ہیں: حمزہ عقبی مصری وغیرہ سے منقول ہے کہ نسائی آخری عمرمیں مصر سے دمشق گئے ،وہاں آپ سے معاویہ اور ان کے بارے میں وارد فضائل کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا: لا يرضى رأسا برأس حتى يفضل(یعنی اپنی رائے یہ بتائی کہ وہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کو فضیلت میں برابر نہیں سمجھتے الا یہ کہ معاویہ پر علی کو فضیلت دی جائے، یعنی جب ان کی نظر میں دونوں ایک مرتبے میں نہیں ہیں، تو معاویہ کو علی پرفضیلت دینے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا ہے )،اس جواب پر جامع دمشق سے آپ کو دھکے دے دے کر باہر نکال دیا گیا، پھر آپ کو مکہ لایا گیا، جہاں آپ کی وفات ہوئی ، ذہبی کہتے ہیں: مکہ غلط ہے ، صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰)۔
مزی نے حاکم کی روایت سے یہ واقعہ نقل کیا اور اس پر ابن عساکر کا تبصرہ نقل کیا کہ اس حکایت سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے میں نسائی کے اعتقاد بد پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی، اس میں صرف یہ ہے کہ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہر حال میں خاموشی اختیار کی ، پھر اس کے بعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوعلی حسن بن ابی ہلال کو کہتے سنا:صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نسائی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اسلام کی مثال ایک گھر کی ہے ، جس کا دروازہ ہوتاہے ،اسلام کا دروازہ صحابہ ہیں، جس نے صحابہ کو ایذاپہنچائی اس نے اسلام کو نشانہ بنایا، تو جیسے آدمی دروازہ اس واسطے کھٹکھٹاتا ہے کہ گھرمیں داخل ہو، پس جس شخص نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا اس نے صحابہ کے خلاف انگلی اٹھائی(تہذیب الکمال ۱/۳۳۹)۔
پتہ چلا کہ امام نسائی نے اہل دمشق کے علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کو دیکھتے ہوئے ''خصائص علی'' کتاب لکھ کر لوگوں کی صحیح رہنمائی کی، ابھی فضائل صحابہ نہ مرتب کی تھی تو لوگوں نے اعتراض کردیا کہ شیخین اور عثمان کے فضائل نہ بیان کرکے صرف فضائل علی بیان کیے ، پھر اس کے بعد امام نسائی نے فضائل صحابہ لکھی ، پھر اعتراض ہوایا مطالبہ ہوا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کیوں نہ بیان کیے تو اس باب میں ایک صحیح روایت کی طرف اشارہ کرکے سائل کو سمجھا دیا کہ عام فضائل صحابہ سے متعلق احادیث میں وارد فضائل ومناقب میں سارے صحابہ شریک ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھی صحبت رسول کی فضیلت کا شرف حاصل ہے،لیکن الگ سے واضح طورپر ان کے مناقب میں احادیث نہیں موجودہیں، اس لیے ان احادیث کی تخریج کا مطالبہ ہی غلط ہے۔
اوپر کی تفصیل سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں امام نسائی کا مذہب واضح طور پرمعلوم ہوگیا، ''خصائص علی'' کتاب لکھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ پر تشیع کا الزام لگایاہے، جس کا معنی الزام ثابت ہوجانے کے بعد یہ ہوگا کہ متقدمین سلف کے عرف میں تشیع کا معنی علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے، شیخین ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سب پر مقدم ہیں، اور علی رضی اللہ عنہ کا جنگوں میں موقف زیادہ صحیح تھا،اور ان کے مخالفین کا موقف غلط یا مرجوح ، جب کہ متاخرین کے عرف میں تشیع کا معنی ہے : مکمل طور پر رافضی ہونا او رچند اہل بیت اور بعض صحابہ کو چھوڑکر سب پر تبرأپڑھنا اور سب کو برابھلا کہنا ۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں: نسائی میں تھوڑاسا تشیع ، اور علی کے خصوم جیسے معاویہ ا ور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے تھوڑا سا انحراف پایا جاتاہے ، اللہ انہیں معاف فرمائے (السیر ۱۴/۱۳۳)۔
امام نسائی درحقیقت دونوں طرح کے تشیع سے بری ہیں، دمشق میں اموی عہد حکومت کے اثرات سے لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت سے انحراف پایا جاتا تھا، جس کو اصطلاح میں نصب کہتے ہیں، اور اسی سے ناصبی اور اس کی جمع نواصب ہے، یعنی وہ لوگ جو علی اور آل بیت سے نفرت کرتے ہیں، ان کو خوارج بھی کہا گیا اس لیے کہ خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی ، اور صحابہ کے خلاف اعتقاد رکھا ،امام نسائی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو'' خصائص علی'' لکھ کر لوگوں کو صحیح بات بتائی ، فضائل معاویہ کے بیان پر خاموشی سے بھی لوگوں نے آپ کے خلاف معاندانہ رویہ اختیارکیا، جس کے نتیجے میں آپ کی موت ہوگئی، لیکن فضائل صحابہ پر کتاب لکھ کر نیز صحابہ کے بارے میں زبان درازی کو اسلام کے خلاف زبان درازی قرار دے کر اپنا منہج واضح کردیا۔
یہ بھی واضح رہے کہ سنن میں ''کتاب المناقب لأصحاب النبیﷺ'' کو شامل کیا،اور اس میں عثمان بن عفان اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے مناقب کی روایات ذکر کیں۔علی رضی اللہ عنہ سے انحراف کے متہم رواۃ سے بھی امام نسائی نے روایت کی ہے ، اس سے بھی آپ کی عدم تعصبی کا پتہ چلتاہے، ابراہیم بن یعقوب سعدی جوزجانی پر ناصبی ہونے یعنی علی رضی اللہ عنہ سے منحرف ہونے کا الزام ہے ،لیکن امام نسائی نے جوزجانی سے بکثرت روایت کی ( تہذیب التہذیب۱/۹۵)، اسی طرح سے شمر بن عطیہ اسدی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سخت قسم کے عثمانی تھے، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی تفضیل میں آگے آگے تھے ، بایں ہمہ نسائی نے نہ صرف یہ کہ ان سے روایت کی بلکہ ان کی توثیق بھی کی (تہذیب التہذیب ۲/۱۸۰)، عمربن سعد بن ابی وقاص اس لشکر کے امیر تھے جس نے حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا تھا، لیکن امام نسائی نے ان سے بھی روایت کی (تہذیب التہذیب ۳/۲۲۷)، بلکہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے نسائی کے علاوہ عمربن سعد سے کسی نے روایت نہیں کی ، یہ ساری مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ نہ شیعہ تھے ، نہ ناصبی ، بلکہ ٹھیٹ سنی اور سلفی تھے، بلکہ صحیح اعتقاد کی نشر واشاعت کے لیے جرأت بھی رکھتے تھے، اسی لیے دمشق کے مخالفین علی کی ہدایت کے لیے ''مناقب علی '' نامی کتاب لکھی ، تاکہ لوگ راہ اعتدال پر آجائیں،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔