- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
موت
امام نسائی پر وفات سے پہلے ابتلاء اور آزمائش کا دور آیا،جیساکہ اوپربیان ہوا،اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی وفات (۳۰۳ھ) میں ہوئی لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آپ کی وفات مکہ میں ہوئی یا رملہ میں ، صحیح بات یہ ہے کہ آپ کی وفات رملہ میں ہوئی ،اوپر گزرا کہ آپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی حافظ ذہبی نے استدراک کیا کہ اصل میں مکہ تحریرہے لیکن صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
امام دار قطنی کہتے ہیں :نسائی حج کے لیے نکلے، دمشق میں آپ کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور آپ نے شہادت پائی آپ نے کہا کہ مجھے مکہ لے جاؤ توآپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی ، صفااور مروہ کے درمیان مدفون ہوئے اور وفات ماہ شعبان (۳۰۳ھ) میں ہوئی (السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
ابوسعید ابن یونس مصری تاریخ مصرمیں کہتے ہیں: ابوعبدالرحمن نسائی امام حافظ اور ثقہ تھے ، مصر سے ماہ ذو القعدہ میں (۳۰۲ھ) میں نکلے اور فلسطین میں (۱۳) صفر بروز دوشنبہ (۳۰۳ھ) میں انتقال ہوا (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۷۰۱)۔
ابوجعفر طحاوی بھی یہی کہتے ہیں کہ نسائی کی وفات ماہ صفر (۳۰۳ھ) میں فلسطین میں ہوئی ،ایک قول یہ بھی ہے کہ رملہ میں وفات ہوئی اور بیت المقدس میں دفن ہوئے (تہذیب الکمال ۱/۱۴۰)
واضح رہے کہ رملہ فلسطین میں بیت المقدس سے (۱۸) میل کے فاصلے پر ایک شہر کا نام ہے، یہ داود اور سلیمان علیہما السلام اور ان کے لڑکے رحبعام بن سلیمان کا دار الخلافہ تھا، یاقوت الحموی کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں یہ شہر غیر آباد ہوگیا ہے (معجم البلدان ۳/۶۹)
خلاصہ یہ کہ امام نسائی کی تاریخ وفات اور کس جگہ وفات ہوئی اس کے بارے میں اختلاف ہے، امام دارقطنی کے بقول شعبان (۳۰۳ھ) میں مکہ میں وفات ہوئی ،اورامام طحاوی اور ابن یونس مصری کے نزدیک ماہ صفر میں فلسطین میں آپ انتقال ہوا، حافظ ذہبی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح بات ہے، اس لیے کہ ابن یونس حافظ اور بیدار مورخ ہیں، نسائی سے علم حاصل کیا ہے، اور ان کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں(السیر ۱۴/۱۳۳، تاریخ الاسلام )اور اسی قول کو صلاح الدین صفدی نے الوافی بالوفیات میں لکھا ہے، ۶/۴۱۷)
امام نسائی پر وفات سے پہلے ابتلاء اور آزمائش کا دور آیا،جیساکہ اوپربیان ہوا،اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی وفات (۳۰۳ھ) میں ہوئی لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آپ کی وفات مکہ میں ہوئی یا رملہ میں ، صحیح بات یہ ہے کہ آپ کی وفات رملہ میں ہوئی ،اوپر گزرا کہ آپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی حافظ ذہبی نے استدراک کیا کہ اصل میں مکہ تحریرہے لیکن صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
امام دار قطنی کہتے ہیں :نسائی حج کے لیے نکلے، دمشق میں آپ کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور آپ نے شہادت پائی آپ نے کہا کہ مجھے مکہ لے جاؤ توآپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی ، صفااور مروہ کے درمیان مدفون ہوئے اور وفات ماہ شعبان (۳۰۳ھ) میں ہوئی (السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
ابوسعید ابن یونس مصری تاریخ مصرمیں کہتے ہیں: ابوعبدالرحمن نسائی امام حافظ اور ثقہ تھے ، مصر سے ماہ ذو القعدہ میں (۳۰۲ھ) میں نکلے اور فلسطین میں (۱۳) صفر بروز دوشنبہ (۳۰۳ھ) میں انتقال ہوا (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۷۰۱)۔
ابوجعفر طحاوی بھی یہی کہتے ہیں کہ نسائی کی وفات ماہ صفر (۳۰۳ھ) میں فلسطین میں ہوئی ،ایک قول یہ بھی ہے کہ رملہ میں وفات ہوئی اور بیت المقدس میں دفن ہوئے (تہذیب الکمال ۱/۱۴۰)
واضح رہے کہ رملہ فلسطین میں بیت المقدس سے (۱۸) میل کے فاصلے پر ایک شہر کا نام ہے، یہ داود اور سلیمان علیہما السلام اور ان کے لڑکے رحبعام بن سلیمان کا دار الخلافہ تھا، یاقوت الحموی کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں یہ شہر غیر آباد ہوگیا ہے (معجم البلدان ۳/۶۹)
خلاصہ یہ کہ امام نسائی کی تاریخ وفات اور کس جگہ وفات ہوئی اس کے بارے میں اختلاف ہے، امام دارقطنی کے بقول شعبان (۳۰۳ھ) میں مکہ میں وفات ہوئی ،اورامام طحاوی اور ابن یونس مصری کے نزدیک ماہ صفر میں فلسطین میں آپ انتقال ہوا، حافظ ذہبی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح بات ہے، اس لیے کہ ابن یونس حافظ اور بیدار مورخ ہیں، نسائی سے علم حاصل کیا ہے، اور ان کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں(السیر ۱۴/۱۳۳، تاریخ الاسلام )اور اسی قول کو صلاح الدین صفدی نے الوافی بالوفیات میں لکھا ہے، ۶/۴۱۷)