• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موت
امام نسائی پر وفات سے پہلے ابتلاء اور آزمائش کا دور آیا،جیساکہ اوپربیان ہوا،اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی وفات (۳۰۳ھ) میں ہوئی لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آپ کی وفات مکہ میں ہوئی یا رملہ میں ، صحیح بات یہ ہے کہ آپ کی وفات رملہ میں ہوئی ،اوپر گزرا کہ آپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی حافظ ذہبی نے استدراک کیا کہ اصل میں مکہ تحریرہے لیکن صحیح رملہ ہے(السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
امام دار قطنی کہتے ہیں :نسائی حج کے لیے نکلے، دمشق میں آپ کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور آپ نے شہادت پائی آپ نے کہا کہ مجھے مکہ لے جاؤ توآپ کو مکہ لے جایا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی ، صفااور مروہ کے درمیان مدفون ہوئے اور وفات ماہ شعبان (۳۰۳ھ) میں ہوئی (السیر ۱۴/۱۳۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰، ۷۰۱)۔
ابوسعید ابن یونس مصری تاریخ مصرمیں کہتے ہیں: ابوعبدالرحمن نسائی امام حافظ اور ثقہ تھے ، مصر سے ماہ ذو القعدہ میں (۳۰۲ھ) میں نکلے اور فلسطین میں (۱۳) صفر بروز دوشنبہ (۳۰۳ھ) میں انتقال ہوا (تذکرۃ الحفاظ ۲/ ۷۰۱)۔
ابوجعفر طحاوی بھی یہی کہتے ہیں کہ نسائی کی وفات ماہ صفر (۳۰۳ھ) میں فلسطین میں ہوئی ،ایک قول یہ بھی ہے کہ رملہ میں وفات ہوئی اور بیت المقدس میں دفن ہوئے (تہذیب الکمال ۱/۱۴۰)
واضح رہے کہ رملہ فلسطین میں بیت المقدس سے (۱۸) میل کے فاصلے پر ایک شہر کا نام ہے، یہ داود اور سلیمان علیہما السلام اور ان کے لڑکے رحبعام بن سلیمان کا دار الخلافہ تھا، یاقوت الحموی کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں یہ شہر غیر آباد ہوگیا ہے (معجم البلدان ۳/۶۹)
خلاصہ یہ کہ امام نسائی کی تاریخ وفات اور کس جگہ وفات ہوئی اس کے بارے میں اختلاف ہے، امام دارقطنی کے بقول شعبان (۳۰۳ھ) میں مکہ میں وفات ہوئی ،اورامام طحاوی اور ابن یونس مصری کے نزدیک ماہ صفر میں فلسطین میں آپ انتقال ہوا، حافظ ذہبی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح بات ہے، اس لیے کہ ابن یونس حافظ اور بیدار مورخ ہیں، نسائی سے علم حاصل کیا ہے، اور ان کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں(السیر ۱۴/۱۳۳، تاریخ الاسلام )اور اسی قول کو صلاح الدین صفدی نے الوافی بالوفیات میں لکھا ہے، ۶/۴۱۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصادر سیرت امام نسائی:
۱- الإرشاد إلی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی (ت: ۴۴۶ھ) (۱۱۲)
۲- الإمام النسائی وکتابہ المجتبیٰ ، تالیف: الدکتور عمر ایمان ابوبکر ، ط۔الریاض۔
۳-الأنساب للسمعانی (ت:۵۶۲ھ)
۴-البدایۃ والنہایۃ: تالیف الحافظ ابن کثیر (ت: ۷۷۴ھ) (۱۱/ ۶۶)
۵- بستان المحدثین تالیف : شاہ عبدالعزیز دہلوی (ت: ۱۲۳۹ھ)
۶- بغیۃ الراغب المتمنی فی ختم سنن النسائی روایۃ ابن السنی
۷-التاج المکلل من جواہر مآثر الطراز الآخر والأول للنواب صدیق حسن القنوجی البوفالی(ت:۱۳۰۷ھ)
۸- تاریخ التراث العربی : تالیف فؤاد سزکین ۔
۹-تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم لابن زبر الربعی (ت:۳۷۹ھ)
۱۰-تذکرۃ الحفاظ : تالیف الذھبی( ت: ۷۴۸ھ) (۲؍۶۳۳)
۱۱-تقریب التہذیب لابن حجر (ت: ۸۵۲ھ)
۱۲-التقییدلمعرفۃ الرواۃ والسنن والمسانید لابن نقطہ ( ت: ۶۲۹ھ) (۱/۹۲-۹۳)
۱۳- توضیح المشتبہ لابن ناصرالدین الدمشقی (ت:۸۴۲ھ)
۱۴-تہذیب التہذیب: تالیف ا بن حجر العسقلانی (ت: ۸۵۲ھ) (۹/۳۸۷)
۱۵-تہذیب الکمال: تالیف المزی ( ت: ۷۴۲ھ) (۲۶؍ ۲۵۰)
۱۶-جامع الأصول لابن الأثیر الجزری (ت: ۶۰۶ھ)
۱۷-حجۃ اللہ البالغہ : تالیف : شاہ ولی اللہ دہلوی (ت: ۱۱۷۶ھ)
۱۸-حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر والقاہرۃ للسیوطی (ت:۹۱۱ھ)
۱۹-الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ: تالیف نواب صدیق حسن القنوجی (ت: ۱۳۰۷ھ) (۳۷۰)
۲۰-الخلاصہ للخزرجی
۲۱- ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی (ت:۷۴۸ھ)
۲۲-الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی (۱۳۴۵ھ)
۲۳-سیر اعلام النبلاء: تالیف الذھبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۱۳؍۲۰۳-۲۲۱)
۲۴- سیرۃ البخاری :تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری (ت: ۱۳۴۲ھ)
۲۵-شذرات الذہب لابن العماد الحنبلی (ت: ۱۰۸۹ھ) (۲/۱۷۴)
۲۶-شروط الأئمہ الستۃ لمحمدبن طاہر المقدسی (ت: ۵۰۷ھ)
۲۷-شروط الأئمہ لابن مندۃ (ت: ۳۹۵ھ) تحقیق: ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی۔
۲۸-شروط الأئمۃ الخمسۃ لأبی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی (ت: ۵۸۴ھ)
۲۹-طبقات الحفاظ: للسیوطی (ت: ۹۱۱ھ) (۲۷۸)
۳۰- طبقات الشافعیہ لابن قاضی شہبہ (ت:۸۵۱ھ)
۳۱- طبقات الشافعیہ للأسنوی (ت:۷۷۲ھ)
۳۲- طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للسبکی (ت:۷۷۱ھ)
۳۳- طبقات علماء الحدیث لمحمدبن احمد بن عبدالہادی (ت:۷۴۴ھ)
۳۴-العبر فی تاریخ من غبرللذہبی (ت:۷۴۸ھ)
۳۵-العقد الثمین فی تاریخ البلدالأمین للفاسی(ت:۸۳۲ھ)
۳۶- غایۃ النہایۃ فی طبقات الفراء لابن الجزری (ت:۸۳۳ھ)
۳۷-فوائد فی علوم الحدیث وکتبہ وأہلہ : تالیف : علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (اختیار وتعلیق : ڈاکٹر عبدالعلیم بن ۳۸-عبدالعظیم بستوی ) ط۔ مکتبہ دار المنہاج ، ریاض ۔
۳۹-فہرست ما رواہ عن شیوخہ لمحمد بن خیر الاشبیلی (ت:۵۷۵ھ)
۴۰-القول المعتبر فی ختم النسائی روایۃ ابن الاحمرللسخاوی (ت:۹۰۲ھ)
۴۱-الکاشف للذہبی( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۷۷)
۴۲-الکامل فی التاریخ لعزالدین ابن الاثیر الجزری (ت:۶۳۰ھ)
۴۳-الکامل فی ضعفاء الرجال وعلل الحدیث لابن عدی (ت:۳۶۵ھ)
۴۴-الکتب الستۃ وما لحقہا من أعمال ، تالیف: ڈاکٹر یحییٰ بن عبداللہ الثمالی، طائف، سعودی عرب ۔
۴۵-کشف الظنون: تالیف حاجی خلیفہ ملا کاتب چلپی (ت: ۱۰۶۷ھ)۔
۴۶-اللباب فی تہذیب الانساب لابن الاثیر (ت:۶۰۶ھ)
۴۷-معجم البلدان لیاقوت الحموی
۴۸-المعین فی طبقات المحدثین للذہبی (ت:۷۴۸ھ)
۴۹- مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ لطاش کبری زادہ
۵۰-مقدمۃ تحفۃ الأحوذی :تالیف: علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (ت: ۱۳۵۳ھ)
۵۱-مناہج المحدثین ، تالیف: ڈاکٹر عبدالعزیز شائع ، استاذ حدیث ، جامعۃ الإمام ، سعودی عرب۔
۵۲-المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم لابن الجوزی (ت:۵۹۷ھ)
۵۳-میزان الاعتدال للذہبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۶۷۸)
۵۴-النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ لابن تغری بردی (ت:۸۷۴ھ)
۵۵- نموذج من الاعمال الخیریہ لمحمدمنیر عبدہ آغا الدمشقی
۵۶-الوافی بالوفیات للصفدی (ت: ۷۶۴ھ)
۵۷-وفیات الا ٔعیان : تالیف ابن خلکان (ت: ۶۸۱ھ) ، (۴؍۲۷۸)
۵۸-ہدیۃ العارفین :تالیف اسماعیل پاشا۔
(مرتبہ: ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی)
***​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

1- كِتَاب الطَّهَارَةِ
۱-کتاب: طہارت کے احکام ومسائل​
قال الشيخ الإمام العالم الربانى الرُّحلَةُ الحافظ الحجة الصمداني أبو عبدالرحمن أحمدُ بنُ شعيبِ بنِ عليِّ بنِ بَحرٍ النَّسائيُّ -رحمه الله تعالى-:
شیخ، امام، عالم ربانی ۱ ؎، رُحلہ منزل ۲؎، حافظ ۳؎، حجۃ ۴؎ صمدانی ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی بن بحر نسائی ۵؎ نے بیان کیا ہے:
1-تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ:{إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ}
۱-باب: اللہ عزو جل کے فرمان: {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ} [المائدة: 6] ۶؎ کی تفسیر ۷ ؎​
وضاحت ۱؎: ایسا عالم جو علم اور دین دونوں میں رسوخ رکھتا ہو یا جسے اپنے علم سے اللہ کی رضا وخوشنودی مطلوب ہو۔
وضاحت ۲؎: رُحلة: راء کے ضمہ کے ساتھ، ایسا عالم جس کی طرف طلبِ علمِ حدیث کے لئے سفر کیا جائے۔
وضاحت ۳؎: وہ محدث جسے ایک لاکھ حدیثیں یاد ہوں۔
وضاحت ۴؎: وہ محدث جسے تین لاکھ حدیثیں یاد ہوں، اُسے حُجۃ الحدیث کہا جاتا ہے۔
وضاحت ۵؎: نون (نَ) پر زبر کے ساتھ (نَسائی) خراسان کے ایک شہر کی طرف نسبت ہے، جو مرو کے قریب واقع ہے۔
وضاحت ۶؎: جب تم صلاۃ کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوئو (المائدہ: ۶)۔
وضاحت ۷؎: اس آیت کے ظاہر سے یہ نکلتا ہے کہ جب بھی صلاۃ کے لیے کھڑے ہو تو وضو کرو حالانکہ ایسا نہیں ہے، اگر وضو قائم ہو تو دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے، مؤلف نے آیت کی تفسیر حدیث سے کر کے یہ بتا دیا کہ جب سو کر صلاۃ کے لیے اٹھو تو وضو کرو۔


1- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: < إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلاثًا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ >.
* تخريج: خ/الوضوء ۲۶ (۱۶۲)، م/الطہارۃ ۲۶ (۲۷۸)، د/الطھارۃ ۴۹ (۱۰۳)، ت/الطھارۃ ۱۹ (۲۴)، ق/الطھارۃ ۴۰ (۳۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۴۹)، ط/ فیہ ۲ (۹)، حم۲/۲۴۱، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۹، ۳۸۲، دي/الطہارۃ ۷۸ (۷۹۳)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۱۶۱، ۴۴۱ (صحیح)
۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگ جائے تو اپنا ہاتھ اپنے وضو کے پانی میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیوں کہ وہ نہیں جانتاکہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَابُ السِّوَاكِ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ
۲-باب: رات کو سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنے کا بیان​


2- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ.
* تخريج: خ/الوضوء ۷۳ (۲۴۵)، الجمعۃ ۸ (۸۸۹)، التہجد ۹ (۱۱۳۶)، م/الطہارۃ ۱۵ (۲۵۵)، د/فیہ ۳۰ (۵۵)، ق/فیہ ۷ (۲۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۶)، حم (۵/۳۸۲، ۳۹۰، ۳۹۷، ۴۰۲، ۴۰۷)، دي/الطہارۃ ۲۰/۷۱۲، وأعادہ المؤلف في قیام اللیل: ۱۰، رقم: ۱۶۲۳ (صحیح)
۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب رات کو (صلاۃ تہجد کے لیے) اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: انسان جب سو کر اٹھتا ہے تو اس کے منہ کا ذائقہ بدلا ہوا ہوتا ہے، اسی لئے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سو کر اٹھنے کے بعد اچھی طرح مسواک کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَابُ كَيْفَ يُسْتَاكُ؟
۳-باب: مسواک کس طرح کی جائے؟​


3- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا غَيْلانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ؛ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَسْتَاكُ، وَطَرَفُ السِّوَاكِ عَلَى لِسَانِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: «عَأْ عَأْ».
* تخريج: خ/الوضوء ۷۳ (۲۴۴)، م/ الطہارۃ ۱۵ (۲۵۴)، د/ فیہ ۲۶ (۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۲۳) وقد أخرجہ: ، حم۴/۴۱۷ (صحیح)
۳- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا سرا آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان پر تھا، اور آپ صلی الله علیہ وسلم : ''عأ عأ '' کی آواز نکال رہے تھے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی حلق صاف کر رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب هَلْ يَسْتَاكُ الإِمَامُ بِحَضْرَةِ رَعِيَّتِهِ؟
۴-باب: کیا حاکم اپنی رعیت کے سامنے مسواک کر سکتا ہے؟​


4- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى -وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ- قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ ابْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ؛ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَعِي رَجُلانِ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ: أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي، وَالآخَرُ عَنْ يَسَارِي، وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ ۱؎، فَكِلاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ، قَلَصَتْ، فَقَالَ: " إِنَّا لا -أَوْ لَنْ- نَسْتَعِينَ عَلَى الْعَمَلِ مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنِ اذْهَبْ أَنْتَ "، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَرْدَفَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا.
* تخريج: خ/الإجارۃ ۱ (۲۲۶۱)، المرتدین ۲ (۶۹۲۳) مطولا، الأحکام ۷ (۷۱۴۹) ۱۲ (۷۱۵۶) مختصرا، م/الإمارۃ ۳ (۱۷۳۳)، د/الأقضیۃ ۳ (۳۵۷۹)، الحدود ۱ (۴۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۳، ۴۰۹، ۴۱۱) (صحیح)
۴- ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اُس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ! ) تم جاؤ '' (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔
وضاحت ۱؎ نسخہ نظامیہ میں ''يستاك'' کا لفظ ہے، بقیہ تمام نسخوں میں ''يستن'' کا لفظ موجود ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی اس بات کی درخواست کی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمیں عامل بنا دیجیے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجیے۔
وضاحت ۳؎: کیونکہ اللہ کی توفیق ومدد ایسے شخص کے شامل حال نہیں ہوتی، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ''لا تَسألِ الإمارةً؛ فإنَّكَ إذا أُعْطٍيتَها عَنْ مسألَةٍ وُكٍلتَ إلَيهَا''۔''حکومت کا سوال نہ کرنا اس لیے کہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دیے جاؤ گے'' (صحیح البخاری: ۷۱۴۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَابُ التَّرْغِيبِ فِي السِّوَاكِ
۵-باب: مسواک کی ترغیب کا بیان​


5- أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ يَزِيدَ -وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ- قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: < السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ >۔
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۷۱)، وقد أخرجہ: خ/ الصوم ۲۷ (تعلیقا: ۱۹۳۴)، حم ۶/۴۷، ۶۲، ۱۲۴، ۲۳۸، دي/ الطہارۃ ۱۹ (۷۱۱) (صحیح)
۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسواک منہ کی پاکیزگی، رب تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- الإِكْثَارُ فِي السِّوَاكِ
۶-باب: مسواک کثرت سے کرنے کا بیان​


6- أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : < قَدْ أَكْثَرْتُ عَلَيْكُمْ فِي السِّوَاكِ >.
* تخريج: خ/ الجمعۃ ۸ (۸۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۴)، حم (۳/۱۴۳، ۲۴۹)، دي/الطہارۃ ۱۸ (۷۰۹) (صحیح)
۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نے مسواک کے سلسلے میں تم لوگوں سے بارہا کہا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ' ' أُكْثِرْتُ '' بصیغہ مجہول بھی منقول ہے یعنی مجھے بارہا یہ حکم دیا گیا کہ میں تمہیں بار بار مسواک کرنے کی تاکید کروں۔
 
Top