• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سنن نسائی کے امتیازات وخصائص
سنن نسائی میں جو چیزیں ممتاز اور نمایاں طور پر نظر آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱- امام نسائی نے سند اور متن پر محدثانہ نقطہ نظر سے اپنی رائے کی وضاحت کے ساتھ ساتھ بہت سارے رواۃ پر جرح وتعدیل کا کام کیا، اور احادیث کی صحت اور ضعف کی نشان دہی کی، ساتھ ہی فقہی نقطہ نظر سے تبویب کے ذریعہ فقہ احادیث پر توجہ صرف کی ، جس سے علوم حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ میں آپ کی امامت اور احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط کی قوت کا علم ہوتا ہے ، اور اس باب میں وہ اپنے شیخ امام بخاری کے انداز میں تراجم ابواب کا ذکر کرتے ہیں، اسی وجہ سے ائمہ حدیث آپ کو ممتاز فقہاء میں بھی شمارکرتے ہیں چنانچہ امام دار قطنی ، امام نسائی کو شیوخ مصر کا سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں، اورامام حاکم کہتے ہیں کہ فقہ حدیث میں نسائی کا کلام بہت زیادہ ہے، جس کا یہاں تذکرہ ناممکن ہے ۔
مزیدکہتے ہیں: جس شخص نے ان کی کتاب پر نظر ڈالی ان کے حسن کلام سے وہ حیرت میں پڑ گیا (معرفۃ علوم الحدیث: ۸۲)۔ سنن صغریٰ میں فقہی ترتیب کے ساتھ اختصار بھی مطلوب تھااس لیے امام نسائی نے تراجم ابواب پر کافی زور دیا ۔
۲- حدیث اور فقہ کی فنی باریکیوں کی جامع، صحت ، حسن ترتیب اور عمدگی میں صحیحین سے مشابہت رکھنے والی کتاب: امام نسائی نے صحت حدیث اور کثرت طرق کے ساتھ تبویب اور تفقہ میں امام بخاری کا انداز اختیار کیا، جمع طرق اور متون میں اگر باب کی حدیثوں کو اکٹھاکردیا جائے تو سنن نسائی کی صحیح مسلم کے طرز تالیف سے مشابہت ہوجاتی ہے ، دونوں کتابوں میں بکثرت اختلاف طرق وروایت کا ذکر ہے ، جس میں ترجیح کے پہلو صراحۃ اور عملاً نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سنن نسائی میں شاذ ونادر ہی ایسی احادیث ہوں گی جن کے بارے میں امام نسائی کی رائے نہ موجود ہو۔
چنانچہ ابن رشید کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ سنن میں یہ تصنیف ترتیب کے لحاظ سے سب سے بہتر ین اور عمدہ کتاب ہے، اور بخاری اور مسلم کے طریقے اورمنہج کی جامع ہے، ساتھ ہی علل حدیث کے شرح وبیان میں اس کا بڑا حصہ ہے (النکت لابن حجر ۱/۴۸۴)۔
مغاربہ نے اسی بناپرصحیح مسلم کو صحیح بخاری پر یا سنن نسائی کوبقیہ کتابوں پر ترجیح دی ہے، سنن نسائی صحیح اسانید اور تکرار اسانید ومتون میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کو صحیح اسانید اور صحیح متون کے جمع وترتیب میں امتیاز حاصل ہے، حدیث میں موجود علت کے بیان کے لیے شواہدومتابعات کو بکثرت ذکرکیا تاکہ راجح اور مرجوح کے درمیان امتیاز قائم ہوجائے، اسی وجہ سے سنن اربعہ میں سنن نسائی کی احادیث کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
امام بخاری ایک حدیث کی تخریج مختلف طرق سے مختلف ابواب میں متعدد مسائل کو ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں،امام نسائی بھی ایک حدیث متعدد طرق اور متن کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں چنانچہ حدیث : إنما الأعمال بالنيات کی تخریج آپ نے (۱۶) جگہ کی ہے ، جب کہ صحیح بخاری میں اس کی تخریج (۶) جگہوں پر ہے۔
احادیث کے طرق کی خوب وضاحت کرتے ہیں، اور اختلاف الفاظ کو ملحوظ رکھتے ہیں ، جیسا کہ امام مسلم کا انداز ہے ۔
۳- امام نسائی نے طرق احادیث کے ذکر اور اسانید اور متون کے اختلافات کے شرح وبیان کا کام بڑی کثرت سے کیا ہے، اور محدثین کے عام قاعدہ کے مطابق حفظ میں ممتاز راوی کی روایت یا اکثریت کی روایت کی ترجیح کا منہج اختیار کیا ہے، اور عام طور پر ایک حدیث کی سند اور متن ذکرکرنے کے بعد اس کے نیچے باب الاختلاف کے ذکر رواۃ کے اپنے شیوخ سے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۴- سند یا متن کی صحت کے لیے واضح طور پر یہ لفظ استعمال کرتے ہیں کہ ''هذا خطأ والصواب كذا'' یعنی یہ غلط ہے ،اور اس میں صحیح یہ اور یہ ہے ۔
۵- رواۃ کے اسماء اور کنیٰ کے بارے میں بھی معلومات دیتے ہیں تاکہ رواۃ کے درمیان تمیز ہوجائے ، اور التباس جاتا رہے ۔ جیسے ایک ثقہ راوی ابومعشر کی ایک حدیث کی تخریج کے بعد کہتے ہیں کہ اس کا نام زیاد بن کلیب ہے ، اور وہ ثقہ راوی ہے پھرتمیز کے لیے ابومعشر نجیح بن عبدالرحمن السندی کا تذکرہ کرکے اس کی تضعیف کرتے ہیں، اور اس کی منکر احادیث میں سے اس کے ضعف پر دلیل کے طور پر دو حدیث کابھی ذکر کرتے ہیں(ملاحظہ ہو: سنن نسائی : ۲۲۴۵)۔
۶- امام نسائی خصوصی طور پر احادیث کو پوری سند کے ساتھ ذکرکرنے کا التزام کرتے ہیں، اور بہت کم اختصار سند یا تعلیق سند کا طریقہ اپنا تے ہیں۔
۷- رواۃ اور احادیث پر جرح ونقد کا کام طرق احادیث کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں، اور اپنی رائے کو واضح الفاظ میں بیان کردیتے ہیں، اوربالعموم محدثین کے درمیان معروف اصطلاحات ہی کا استعمال کرتے ہیں۔
۸- بسااوقات علل حدیث پر بھی گفتگو فرماتے ہیں ،آپ کو علل حدیث میں غیر معمولی ملکہ حاصل تھا، حافظ ذہبی نے آپ کو اس فن میں امام بخاری ، امام ابوزرعہ کا ہمسر قرار دیا ہے ۔
۹- امام نسائی احادیث کی ترجیح کو تراجم ابواب کے ذریعہ اور طرق احادیث کے بیان کے ذریعہ بھی کرتے ہیں، جیسے کتاب الصید والذبائح میں ''باب الإذن في أكل لحم الخيول''کے تحت گھوڑے کی حلت سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ سے چار روایت ذکر کرتے ہیں، جو سب کے سب صحیح ہیں، اس کے بعد ''باب تحريم أكل لحوم الخيل'' کے تحت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دو حدیثیں روایت کرتے ہیں جو کہ دونوں ضعیف ہیں، پھر ایک دوسری سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح سندوں سے یہ روایت کرتے ہیں: ''كنا نأكل لحوم الخيل، قلت: البغال؟ قال: لا'' ''جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، عبدالکریم راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے کہا اور خچر ؟ کہا: نہیں'' ۔
ان دونوں بابوں پر نظرڈالنے سے پتہ چلا کہ امام موصوف نے پہلے باب میں گھوڑے کی حلت سے متعلق روایات کا تذکرہ فرماکر اس کے بعد اس کے عدم جواز سے متعلق روایات کاذکر کیا ، رواۃ کے تراجم ہی سے حدیث کا ضعف ظاہر ہوجاتا ہے ، اس لیے کہ اس کی سند دیکھتے ہی پتہ چلا کہ اس میں دو راوی ضعیف ہیں، پھر آخر میں جابر رضی اللہ عنہ سے گھوڑے کے گوشت کھانے کی حلت کی استمراریت دکھاکر مسئلے میں اپنی رائے واضح فرمادی ( سنن النسائی :۴۳۲۷- ۴۳۳۳)۔
۱۰- کبھی کبھی رواۃ کے اسماء والقاب اور کنیت کے ابہام کی وضاحت راویوں کے تفرد واختلاف ، متابعت وعدم متابعت کا بیان سماع وعدم سماع کاذکر حدیث کے مرسل ، متصل ، ضعیف ، منکر کی نشان دہی اور غریب الفاظ کی توضیح بھی بیان فرماتے ہیں، جن کی امثلہ ہم تطویل سے بچنے کے لیے یہاں ذکر نہیں کریں گے ۔
۱۱- امام نسائی فقہی مقاصد کے لیے احادیث کی تقطیع بھی کرتے ہیں، تاکہ اختصار کے ساتھ مطلوب فقرے سے مسئلہ کو مستنبط کرلیں، لیکن ایسا کم ہی کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سنن صغریٰ موضوع احادیث سے خالی کتاب ہے
سنن صغریٰ میں کوئی حدیث موضوع نہیں ہے، اس کی صرف ایک حدیث کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں داخل کیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے، سنن النسائی میں یہ حدیث کتاب الأشربۃ ، باب: ذكر الآثام المتولدة عن شرب الخمر...(حدیث نمبر: ۵۶۷۲)میں آئی ہے ،جو بسند یزید بن ابی زیاد عن مجاہد عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما مرفوعاً مروی ہے ،جس کا متن یہ ہے : " مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ؛ فَجَعَلَهَا فِي بَطْنِهِ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ مِنْهُ صَلاةً سَبْعًا إِنْ مَاتَ فِيهَا " وَقَالَ ابْنُ آدَمَ: فِيهِنَّ مَاتَ كَافِرًا فَإِنْ أَذْهَبَتْ عَقْلَهُ عَنْ شَيْئٍ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَالَ ابْنُ آدَمَ: الْقُرْآنِ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِنْ مَاتَ فِيهَا، وَقَالَ ابْنُ آدَمَ فِيهِنَّ مَاتَ كَافِرًا ۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' جس نے شرا ب پی اور پیٹ میں اسے اتارلی، اللہ اس کی سا ت دن کی صلاۃ قبول نہیں کر ے گا، اگر وہ اس دوران میں مرگیا، تو وہ کفر کی حا لت میں مرے گا، اور اگر اس کی عقل چلی گئی اور کو ئی فر ض چھوٹ گیا (ابن آدم نے کہا : قر آن چھوٹ گیا )، تو اس کی چا لیس دن کی صلاۃ قبول نہیں ہو گی اور اگروہ اس دوران میں مر گیا ،تو کفر کی حا لت میں مرے گا ۔
اس حدیث کی علت ابن الجوزی نے یزید بن ابی زیاد کوبتایا ہے ، اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، علی بن المدینی اور یحییٰ بن معین یزید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی حدیث قابل حجت نہیں ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: اسے پھینک دو، اورخود نسائی کہتے ہیں کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے، حافظ ذہبی سیر أعلام النبلاء میں اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث شبہ موضوع ہے، اگرشعبہ کو علم ہوجاتاکہ یزید نے یہ باطل احادیث روایت کی ہیں، توان سے ایک لفظ بھی نہ روایت کرتے (۶/۱۳۲)،واضح رہے کہ امام نسائی نے اس مرفوع حدیث سے پہلے اس معنی کا درج ذیل ایک اثر عبداللہ بن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ، جو صحیح ہے: عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَلَمْ يَنْتَشِ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ مَا دَامَ فِي جَوْفِهِ أَوْ عُرُوقِهِ مِنْهَا شَيْئٌ، وَإِنْ مَاتَ مَاتَ كَافِرًا، وَإِنْ انْتَشَى لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَإِنْ مَاتَ فِيهَا مَاتَ كَافِرًا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس نے شرا ب پی، (گرچہ) اسے نشہ نہیں ہو ا ، لیکن جب تک اس کا ایک قطرہ بھی اس کے پیٹ یا اس کی رگوں میں با قی رہے گااس کی کو ئی صلاۃ قبول نہیں ہو گی ، اور اگر وہ مر گیا تو کا فر کی موت مرے گا ، اور اگر اسے نشہ ہو گیا تو اس کی صلاۃ چالیس دن تک قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ کافر کی موت مرے گا (حدیث نمبر:۵۶۷۱)۔
امام نسائی اس کے بعد مرفوع حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے فرماتے ہیں: خَالَفَهُ يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ سابقہ روایت میں یزید بن ابی زیاد نے فضیل سے اختلاف کیاہے ، یعنی امام نسائی نے یہاں پر مرفوع حدیث کے ضعف کی علت کو بیان کردیا ہے، اور سند کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث ضعیف ہے ، اور اوپر مذکور موقوف اثر صحیح ہے ، یہ بات بھی واضح رہے کہ ابن الجوزی نے یزید بن ابی زیاد پر جرح کا تذکرہ کیا، جب کہ بخاری نے یزید بن ابی زیاد سے تعلیقاً اور مسلم نے دوسرے راوی کے ساتھ ان سے روایت کی ہے ، اور شعبہ جیسے امام نقد نے بھی ان سے روایت کی ہے ،ذہبی نے شعبہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یزید آثار یعنی اقوال صحابہ کو مرفوع روایت کرنے والے تھے، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یزید حافظ نہیں ہیں، اور ابوزرعہ کہتے ہیں کہ لین یعنی کمزور ہیں، اور ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ قوی نہیں ہے ، اور ابوداود کہتے ہیں کہ میرے علم میں یہ نہیں کہ کسی نے ان کومتروک قرار دیاہو، نیز ملاحظہ ہو: فتح المغیث ۱/ ۱۰۰، ۱۰۱ ،وتوجیہ النظر ۱۵۳)وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
امام مسلم اور امام نسائی کا تقابل
حافظ ابن مندہ شروط الائمہ میں کہتے ہیں: جن چار علماء نے صحیح احادیث کی تخریج کی اور صحیح اور ثابت شدہ احادیث کو معلول سے اور خطاکو صواب سے الگ کیا، چارہیں: بخاری ، مسلم، ابوداوداور ابوعبدالرحمن نسائی (شروط الائمہ، سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۳۵)
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: هو أحذق بالحديث وعلله ورجاله من مسلم والترمذي وأبي داود وهو جار في مضمار البخاري وأبي زرعة. (السیر )،( نسائی: حدیث ،علل اور رجال حدیث میں مسلم ، ابوداود اور ترمذی سے زیادہ حاذق وماہر ہیں، بلکہ وہ بخاری اور ابوزرعہ کے صف کے آدمی ہیں) (سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۳۳)۔
علم جرح وتعدیل اور امام نسائی
امام ذہبی نے اپنے رسالہ ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل میں امام نسائی کو ناقدین حدیث کے چھٹے طبقے میں شمارکیاہے(صفحہ ۱۸۵،أربع رسائل فی علوم الحدیث )۔
حافظ سخاوی نے المتكلمون في الرجالمیں آپ کو چودہویں طبقے میں شمارکیاہے، جو (۳۰۱ھ) سے (۳۲۲ھ) کے درمیان وفات پانے والے ناقدین حدیث ہیں(صفحہ ۱۰۱،أربع رسائل فی علوم الحدیث )
امام نسائی کا شمار فی الجملہ متشدد ناقدین حدیث میں ہوتاہے ، حتی کہ امام نسائی نے بعض ایسے رواۃ اور بعض ایسی احادیث پر تنقید کی ہے جو صحیحین یا کسی ایک کتاب میں موجود ہیں، گرچہ صحیحین کے جملہ ناقدین کے مقابلے میں محقق علماء کے نزدیک شیخین کا مذہب زیادہ حق وصواب پر مبنی ہے ، لیکن اس سے فی الجملہ نسائی کے منہج کا پتہ چلتاہے، اوریہیں سے نسائی پر جرح میں متشدد ہونے کی بات کہی جاتی ہے(تہذیب التہذیب ۲/۱۴۷)، امام نسائی کا منہج اپنے پیش رو اوائل ناقدین حدیث کے بارے میں درج ذیل قول سے واضح ہے:
علم نبوی کے من جانب اللہ تین امین ہیں: شعبۃ بن الحجاج (ت:۱۶۰ھ) ، یحیی بن سعید القطان (ت: ۱۹۸ھ) اور مالک بن انس (ت: ۱۷۹ھ)، ثوری (سفیان بن سعید ،ت: ۱۶۱ھ) امام ہیں، لیکن وہ ضعفاء سے روایت کرتے ہیں، میرے نزدیک تابعین کے بعد مالک بن انس سے زیادہ کوئی معزز نہیں ہے، او رنہ حدیث میں ان سے زیادہ کوئی امین ہے، پھر حدیث میں شعبہ کا مرتبہ ہے، اس کے بعد یحیی بن سعید القطان کا ، ان تینوں سے زیادہ حدیث میں کوئی اورامین نہیں ہے، اور نہ ان سے کم ضعفاء سے روایت کرنے میں کوئی اور ہے (الضعفاء والمتروکین للنسائی ۱۲۳، الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الأئمۃالفقہاء لابن عبدالبر ۳۱) ۔
طبقہ تابعین کے بعد دوسری صدی کے نصف اول کے ان تین ممتاز ائمہ دین اور ناقدین حدیث کے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ ان کے ضعفاء سے کم سے کم روایت کرنے کا تذکرہ ہے ،اوریہ حدیث رسول میں امانت ودیانت کی ممتاز علامت ہے، امام نسائی کا منہج ورع واضح ہے، اسی بناپرآپ نے ابن لہیعہ کی روایات سے پرہیز کیا اور اسی وجہ سے بعض ایسے رواۃ سے بھی روایت نہ کی جو صحیحین کے رواۃ ہیں، لیکن بایں ہمہ امام نسائی کا مذہب یہ رہا ہے کہ جب تک رواۃ کے ضعف پر اجماع نہ ہوجائے دلائل کی بناپر کسی متکلم فیہ راوی سے روایت کادروازہ کھلا ہے، لیکن کسی شدید ضعف اور خطا والے راوی کی روایت سے امام نسائی نے پرہیز کیاہے، یہ بات بھی واضح رہے کہ نسائی کے یہاں راوی میں عدالت اور ضبط کی صفات پائے جانے کے بعد اگر اس میں کسی نوع کی بدعت پائی جاتی ہے تواس سے حدیث کی تخریج میں اجتناب نہیں کیا ، اور اگر کبھی کوئی زائد فائدہ نظر آیا یا باب میں اس کے علاوہ دوسری حدیث نہ ملی تو آپ نے حدیث میں سبب تخریج بیان کرنے کے بعد وہ حدیث اپنی کتاب میں داخل کرلی، چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کی روایت کے بعد کہتے ہیں: سعید بن سلمہ ضعیف شیخ ہیں، ہم نے حدیث میں زیادتی کی وجہ سے ان کی حدیث کی تخریج کی ہے، اور اس سے پہلے سعید بن سلمہ کے علاوہ کے طریق سے بھی روایت کی(سنن صغری ۸/۲۵۸)۔
ایسے ہی منسک حج سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بعض زیادات کی وجہ سے عبداللہ بن عثمان بن خثیم کے طریق سے حدیث روایت کے بعد کہتے ہیں: ابن خثیم ''لیس بالقوی فی الحدیث...'' ۔
یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام نسائی ضعیف یامتروک رواۃسے روایت نہیں کرتے اور ضعف کی موجودگی کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
علامہ محمد اسماعیل امیر یمانی کہتے ہیں:یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ائمہ حدیث نے سنن کبریٰ کے بارے میں دوبات کہی ہے: پہلی یہ کہ نسائی کی اس میں شرط شیخین کی شرط سے زیادہ سخت ہے، دوسری یہ کہ نسائی کی شرط اس میں ابوداود کی شرط ہے ، یعنی جن رواۃ کے ضعف پر اجماع نہیں ہوا ہے ان کی احادیث کی تخریج (توضیح الأفکار)۔
حق یہ ہے کہ ان تمام تفصیلات کے باوجود نسائی کا درجہ صحیحین کے بعد کا ہے، اور نسائی اور ابوداود کی شرط کے مطابق متفق علیہ ضعیف راوی سے اجتناب اور مختلف فیہ راوی پر تحقیقی نظر ڈال کر قابل توثیق راوی کی روایت کرنا نیزضعیف رواۃ اور معلول احادیث کی نشاندہی ۔
بعض رواۃ پر سخت جرح کی بناپر متاخر علماء نے امام نسائی پر تنقیدکی ہے، اس سلسلے میں بعض مثالیں درج ذیل ہیں :
۱- احمد بن صالح المصری مشہور ثقہ راوی ہیں، لیکن امام نسائی کی رائے ان کے بارے میں بری تھی ، ان کے بارے میں ایک مرتبہ کہا : یہ نہ تو ثقہ ہیں، اور نہ مامون ، مجھے معاویہ بن صالح نے بتایا کہ میں نے یحیی بن معین سے احمد بن صالح کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ کذاب ہے، فلسفہ جھاڑتاہے ،مصر کی جامع مسجدمیں میں نے اس کو متکبرانہ چال چلتے ہوئے دیکھا ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: نسائی نے احمد بن صالح کی تضعیف یحیی بن معین کی اس حکایت کی بناپرکی ، اور یہ ان کا وہم ہے، جس کی بناپر انہوں نے احمد بن صالح کے بارے میں غلط رائے قائم کرلی، ہم سب سے پہلے اس بدظنی کے سبب کاذکرکریں گے پھرابن معین سے اس حکایت کے نقل کرنے میں جو وہم اور غلطی ہوئی ہے،اس کا سبب بتائیں گے ۔
امام عقیلی کہتے ہیں: احمد بن صالح جب تک آدمی کے بارے میں پوچھ نہ لیتے اسے احادیث نہ بیان کرتے ، نسائی جب مصرآئے تو احمد بن صالح کے پاس اہل حدیث کی ایک ایسی جماعت کے ساتھ آئے جن سے احمد بن صالح راضی نہیں تھے، تو روایت حدیث سے انکارکردیا، اس پر نسائی نے احمد بن صالح کی ان احادیث کو جمع کیا جس میں ان سے وہم ہوگیا تھا اور ان کے خلاف بولنے لگے، لیکن اس سے احمد بن صالح کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کہ وہ امام اور ثقہ ہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں: نسائی معرفت حدیث کے مشہور حافظ احمد بن صالح کی بعض احادیث پر نکیر کرتے تھے، پھر ابن عدی نے نسائی کی اعتراض والی احادیث کا تذکرہ کرکے ان کے جوابات دیے ، جن میں سے صحیح بخاری کی کوئی حدیث نہیں ہے...۔
ابن حبان کہتے ہیں: نسائی نے یحیی بن معین کا جو قول احمد بن صالح مصری کے بارے میں نقل کیا ہے وہ ان کا وہم ہے، اس لیے کہ جس احمد بن صالح کے بارے میں ابن معین نے جرح کی تھی وہ احمد بن صالح ابن الطبری مصری نہ تھے، بلکہ وہ ایک دوسرا آدمی تھا جس کو اشمومی کہا جاتا تھا او رجسے حدیث گھڑنے میں شہرت تھی ، ابن الطبری (احمد بن صالح مصری) تو ضبط واتقان میں ابن معین کے قریب ہیں۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: یہ انتہائی درجہ کی تحقیق ہے ، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری نے ذکر کیا ہے کہ یحیی بن معین نے احمد بن صالح ابن الطبری المصری کی توثیق کی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ نسائی احمد بن صالح کی تضعیف میں منفرد ہیں، اور ان کا قول غیر مقبول ہے،حتی کہ خلیلی کہتے ہیں: حفاظ حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نسائی کی ابن صالح پر جر ح میں تحامل اور زیادتی ہے، خلیلی کی بات صحیح ہے (تہذہب التہذیب ۱/۲۸، مقدمۃ فتح الباری ۳۸۶، مقدمۃ ابن الصلاح : النوع ۶۱: معرفۃ الثقات والضعفاء :۳۹۰) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ضعیف رواۃ کے بارے میں امام نسائی کا مذہب
حافظ ابن حجرنزہۃ النظر میں جرح وتعدیل کے مراتب اور اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کے ذکر کرنے کے بعدکہتے ہیں: جر ح وتعدیل میں صرف عادل اور بیدار مغز ناقد کی رائے قبول کرنی چاہئے اور جس نے جرح میں افراط اور زیادتی سے کام لیااس کی جرح کو نہیں قبول کرنا چاہئے، اس طورپر کہ محدث کی حدیث کو رد کرنے کے لیے ایسی جرح کرے جس کا مقتضا ء حدیث کو رد کردینا ہو، ایسے ہی مطلق تعدیل وتزکیہ کو نہیں قبول کرنا چاہئے ، ذہبی جو کہ رجال کے نقدمیں استقراء تام رکھتے تھے کہتے ہیں: علم حدیث کے دوعالم کبھی کسی ضعیف کی توثیق پر اکٹھانہیں ہوتے اور نہ کسی ثقہ کی تضعیف پر اکٹھاہوتے ہیں، انتہی،اسی لیے نسائی کا مذہب یہ تھا کہ جب تک راوی کی حدیث کے ترک پر سب کا اتفاق نہ ہوجائے اس کی حدیث کو متروک نہیں قرار دیاجائے گا:ولذا كان مذهب النسائي أن لايترك حديث الرجل حتى يجتمع الجميع على تركه (نزہۃ النظر )
ذہبی کے اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ علماء کسی ثقہ کو ضعیف کہنے پر متفق نہیں ہوتے بلکہ بعض ثقہ کہتے ہیں تو بعض اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں، ایسے ہی کسی ثقہ راوی کو ضعیف کہنے پر علماء متفق نہیں ہوتے ، اگر کسی نے اس راوی کو ضعیف کہاتو کسی نے اس کو ثقہ قرار دیا، یعنی کسی ضعیف راوی کی توثیق یا ثقہ کی تضعیف پر علماء کا اتفاق ہونا مشکل امرہے، ذہبی نے دوکا لفظ استعمال کیا ہے ،جس کا معنی سب کا ہے ، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں: اس بات پر دوآدمی کبھی اتفاق نہیں کرسکتے، یعنی سب لوگ اس پرمتفق ہیں، اور اس میں کوئی نزاع نہیں ہے۔
دوسرے ائمہ حدیث کا بھی یہی مذہب ہے،احمد بن حنبل کے مذہب کے بارے میں یہ روایت ملاحظہ ہو: قال يعقوب: قال لي أحمد بن حنبل: مذهبي في الرجال لا أترك حديث محدث حتى يجتمع أهل مصر على ترك حديثه". (فتح المغيث) یعقوب کہتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا: رجال حدیث کے بارے میں میرا مذہب یہ ہے کہ جب تک کسی شہر کے سارے لوگ کسی محدث کی حدیث کے ترک پر اتفاق نہ کرلیں میں اس محدث کی حدیث کو ترک نہیں کرتا (تہذیب التہذیب : ترجمۃ عبداللہ بن لہیعہ المصری ۲/۴۱۲)۔
نسائی کو متشددناقد حدیث شمار کیا گیاہے، اسی واسطے بعض رواۃ کی توثیق کے موقع پر حافظ ابن حجرنسائی کی اس راوی سے روایت ہی کو توثیق کے لیے کافی قرار دیتے ہیں، جس کی کئی مثالیں گزریں۔
ناقدین حدیث نے ابوحاتم رازی ، نسائی ،ابن معین ،ابوالحسن ابن القطان ،یحیی بن سعید القطان اور ابن حبان وغیرہ کو متشدد ناقدبتایا ہے،اس طور پر کہ ایسے ناقد ایک دو غلطی پر راوی کی تجریح کردیتے ہیں ،ایسے ناقدین حدیث جب کسی راوی کی توثیق کردیں تو وہ انتہائی لائق اعتبارہے، لیکن اگر کسی راوی کی تجریح کریں تو اس راوی کے بارے میں دوسرے ناقدین کے اقوال کو دیکھاجائے گا ، اگر کسی معتبر ناقدنے ایسے راوی کی توثیق نہیں کی تو متشدد ناقد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے راوی کو ضعیف قراردیاجائے گا، اور اگر کسی نے ایسے راوی کی توثیق کی ہو تو ایسے موقع پر تفصیلی جرح کومقبول ماناجائے گا یعنی تضعیف کے لیے سبب ضعف بیان کرنا ہوگا، یعنی اگر ابن معین مثلاً کسی راوی کے بارے میں کہیں کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور سبب ضعف نہ بیان کریں اور دوسرے ناقدین حدیث،جیسے بخاری وغیرہ ایسے راوی کی توثیق کر یں تو جرح مبہم کو نہیں مانا جائے گا، بلکہ توثیق کو مقدم رکھاجائے گا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح المغیث للسخاوی والإعلان بالتوبیخ لمن ذم أہل التوریخ ۱۶۷) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
نسائی کی اصطلاح ''لیس بقوی'' اور'' لیس بالقوی'' کا مطلب
''لیس بالقوی'' یا ''لیس بذاک القوی'' معمولی قسم کی جرح ہے، امام نسائی نے کئی رواۃ کے بارے میں'' لیس بالقوی'' کا لفظ استعمال کیا ہے:
۱-سفیان بن حسین کے بارے میں کہتے ہیں: سفيان في الزهري ليس بالقوي( سفیان زہری سے روایت میں زیادہ قوی نہیں ہیں)۔
۲- عمروبن ابی عمرو کے بارے میں کہتے ہیں: ليس بالقوي في الحديث، جب کہ ان سے امام مالک نے روایت کی ہے، اور یہ معلوم ہے کہ امام مالک ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، پتہ چلا کہ یہ ہلکی جرح ہے ۔
۳-حافظ ابن حجر مقدمۃ الفتح میں احمد بن بشیر الکوفی کے بارے میں جرح نقل کرتے ہیں: قال النسائي: ليس بذاك القوي اس کے بعد کہتے ہیں: نسائی کی تضعیف سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حافظ نہیں ہیں(۳۸۶) ۔
۴- حافظ ابن حجر حسن بن الصباح البزار کے ترجمہ میں نسائی کی کتاب الکنی سے نقل کرتے ہیں : ليس بالقوي پھر کہتے ہیں: میں کہتا ہوں یہ ہلکی جرح ہے(ہدی الساری ۳۹۷) ۔
اس کے مقابلے میں ''لیس بقوی ''ضعف کی قوت پر دلالت کرتاہے۔
کیا نسائی کی روایت راوی کی توثیق ہے؟
امام بخاری اور امام مسلم کے بارے میں مشہور ہے کہ اُن کا کسی راوی سے روایت لینا ہی اس راوی کی توثیق ہے، اسی طرح سے نسائی کے بارے میں بعض اقوال میں یہ آیا ہے کہ نسائی نے جس سے روایت کی وہ ثقہ ہے۔ ذیل میں اس مسئلے پرروشنی ڈالنے والی مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱- حافظ ابن حجر کہتے ہیں: احمد بن عیسیٰ تستری کی حدیث کی تخریج پر ابوزرعہ نے مسلم کو مطعون کیا ہے، لیکن اس کا کوئی سبب نہیں بیان کیا، جب کہ نسائی نے تعنت اور تشدد کے باجود اس راوی کی توثیق کی ہے (تہذیب التہذیب ۱/۳۹، وہدی الساری ۳۸۴)، نسائی کا قول ہے: ''لیس بہ بأس''۔
۲-حارث الأعور کے ترجمے میں ذہبی کہتے ہیں: حارث کی حدیث سنن اربعہ میں ہے، نسائی نے رجال کے نقدمیں تعنت اور تشدد کے باوصف ان سے استدلال کیا ہے اوران کی تقویت کی ہے(میزان الاعتدال وتہذیب التہذیب ۱/۳۳۲) ۔
۳-حافظ ابن حجر ابوبلج یحیی الکوفی کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی تقویت کے لیے یہی کافی ہے کہ نسائی اور ابوحاتم رازی نے تشدد کے باوجود ان کی توثیق کی ہے(بذل الماعون فی فضل الطاعون ) ۔
۴-احمد بن یحیی بن محمد بن کثیر الحرانی مجہول راوی ہیں، اور یہ نسائی کے شیخ ہیں، نسائی نے ان کی توثیق بھی کی ہے، ان کے بارے میں ذہبی کہتے ہیں: ''لا يعرف''لیکن ابن حجر کہتے ہیں: نسائی کا ان سے روایت کرنا ان کی عینی جہالت کو ختم کرتا ہے ،اوران کے معروف الحال ہونے اور ان کی توثیق کے لیے کافی ہے(تہذیب التہذیب ۱/۵۱)۔
۵-حافظ صلاح الدین العلائی کہتے ہیں: عبدالملک بن زید کے بارے میں نسائی کا قول ہے : لابأس بہ ، ابن حبان نے بھی ان کی توثیق کی ہے تو حدیث ''أقیلوا عن ذوی الہیئات عثراتہم إلا الحدود'' ان شاء اللہ حسن ہے، خاص کر نسائی نے عبدالملک سے روایت کی ہے، اس لیے کہ نسائی منکر اور واہی روایات کی تخریج نہیں کرتے اور نہ ہی متروک راوی سے روایت کرتے ہیں(مرقاۃ الصعود فی حاشیۃ أبی داود للسیوطی ۲/۲۵۳ ، وعون المعبود ۴/۲۳۲)۔
۶- حافظ ذہبی: ابوالولید احمد بن عبدالرحمن بسری کے بارے میں خطیب بغدادی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابوالولید کا حال ہمارے یہاں وہ نہیں ہے جو ابوبکر باغندی نے ان کے بارے میں سکری سے نقل کیا ہے، بلکہ وہ اہل صدق میں سے تھے، نسائی نے ان سے روایت کی ہے ، اور تمہارے لیے یہی کافی ہے(میزان الاعتدال ۱/۱۱۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
صحاح ستہ کی شروط اور سنن نسائی میں امام نسائی کا منہج اور ان کی شروط
٭حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی (ت: ۵۰۷ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ الستہ میں لکھتے ہیں :
ائمہ حدیث ( بخاری ،مسلم ،ابوداود ، نسائی ، ترمذی اور ابن ماجہ) میں سے کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ میں اپنی کتاب میں یہ احادیث فلاں اور فلاں شرط کے تحت ذکر کروں گا۔ لیکن جب ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس سے مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے اور ان شرائط کا علم ہوتا ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہیں:
امام بخاری اورامام مسلم کی یہ شرط ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جن کی سند میں ایسے راوی ہوں جن کا سلسلۂ سند کسی مشہور صحابی تک پہنچتا ہو اور ان کی ثقاہت وعدالت پر جملہ محدثین اصحاب جرح و تعدیل کا اجماع و اتفاق ہو۔
امام ابو داود اور امام نسائی کی کتابوں میں مروی احادیث کی تین قسمیں ہیں:
۱- وہ صحیح احادیث جو صحیحین میں مروی ہیں۔
۲- دوسری ایسی احادیث جو شیخین (بخاری ومسلم) کی شرط پر ہیں۔
۳- تیسری ایسی احادیث جن کی ان دونوں نے تخریج کی ہے لیکن جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ یہ صحیح ہیں، البتہ انہوں نے ان احادیث کے بارے میں اہل علم و معرفت نے جو علتیں ذکر کی ہیں اُن کو بیان کردیا ہے ۔ایسا انہوں نے محض اس لئے کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے اِن احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ محض اسی بنا پر اِن دونوں اماموں نے ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، البتہ اس میں جو کمزوری اورضعف پایا جاتا تھا اس کو واضح کردیا تاکہ شبہ ختم ہوجائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارئہ کار نہ تھا ، کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایات لوگوں کے اقوال وآراء کے مقابلے میں زیادہ قوی تھیں۔
رہے امام ترمذی تو ان کی جامع میں چار قسم کی احادیث ملتی ہیں:
۱- پہلی قسم وہ ہے جو قطعی طور پر صحیح ہے جو صحیحین کے موافق ہے ۔
۲- دوسری قسم وہ ہے جو امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط پر ہے۔
۳- تیسری قسم ہے جو مذکورہ اقسام کے خلاف ہیں اور جن کی علت انہوں نے بیان کردی ہے۔
۴- اور چوتھی قسم وہ ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ وہ احادیث ہیں جن پر فقہاء کا عمل رہا ہے۔ اور یہ کہ میں نے اس کتاب میں وہی روایات نقل کی ہیں جو معمول بہ تھیں (یعنی کسی عالم اور فقیہ نے اس پر عمل کیا تھا) یہ بڑی وسیع شرط ہے جس کی بنا پر بہت ساری معمول بہ احادیث آجاتی ہیں۔ خواہ وہ سنداً صحیح ہوں یا غیر صحیح، اس کا ذکر کرکے خود کچھ کہنے اوراُن پرحکم لگانے سے گریز کیا ہے۔نیز اپنی اس کتاب میں ایک باب کے تحت آنے والی احادیث جو مختلف صحابہ سے مروی ہیں کی طرف اشارہ کردیا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں(شروط الأئمہ الستہ)۔
٭حافظ ابوبکر محمدبن موسیٰ حازمی (۵۴۸-۵۸۴ھ) اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھتے ہیں :
ائمہ حدیث میں سے جن لوگوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی ہے ان کا مذہب اور طریقہ یہ ہے:
وہ اپنی کتابوں میں صرف وہی احادیث ذکر کریں گے جس کی سند میں ایسے راوی ہوں جو خود ثقہ و عادل ہوں اسی طریقہ سے جن مشائخ سے انہوں نے سنا ہے جن لوگوں نے ان سے سنا ہے سب ثقہ و عادل ہوں ۔ اور ان میں سے ایک دوسرے کی تحدیث صحیح طور پر ثابت ہو تو ایسی احادیث کی تخریج لازم ہے۔
اور بعض روایتیں ایسی ہیں کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان کی تخریج کی جائے الا یہ کہ بطور شاہداور متابع کے ان کا ذکر کیا جائے۔
فرماتے ہیں : یہ ایسا باب ہے جس میں غموض ہے اور اس طریق ومنہج کی وضاحت کے لئے راویوں کے طبقات اور ان کے مراتب کی معرفت اور اس کا علم ہونا چاہئے،جس کو ہم ایک مثال سے واضح کردینا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تلامذئہ زہری کے پانچ طبقات ہیں، اور ہر طبقہ دوسرے طبقہ سے مختلف اور ممتاز ہے:
پہلا طبقہ انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے جیسے مالک، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن عمر، یونس اورعقیل جیسے لوگ ،یہ طبقہ رواۃ امام بخاری کا مقصود ومطلوب ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقہ کی طرح ہی انتہا درجہ کی صحت کا حامل ہے البتہ یہ پہلے سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے طبقہ کے رواۃ امام زہری کی صحبت میں دوسرے طبقہ کے مقابلے میں زیادہ رہے ، نیز اس طبقہ کے لوگ (حدیث کی روایت وحفظ کے باب میں ) اتقان اور پختگی میں پہلے طبقہ کے لوگوں سے کچھ کم درجہ کے ہیں، اور یہ لوگ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہیں، جیسے اوزاعی، لیث بن سعد، نعمان بن راشد،عبد الرحمٰن بن خالد بن مسافراور ابن ابی ذئب جیسے رواۃ حدیث ۔
تیسرا طبقہ پہلے طبقہ رواۃ کی طرح ہی امام زہری کی صحبت میں رہاہے۔ البتہ یہ طبقہ سابقہ رواۃ سے باعتبار صحت کچھ کم درجہ کا ہے، ان دونوں طبقوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں پہلے طبقہ کی طرح رہے، لیکن یہ لوگ حفظ و اتقان میں پہلے طبقہ کے لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت کم ہیں۔ ان کی روایتوں کے رد و قبول کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف رہا ہے۔ اور یہ طبقہ رواۃ امام ابو داود اور امام نسائی کی شرط کے مطابق ہیں۔ جیسے سفیان بن حسین، جعفر بن برقان اور اسحاق بن یحییٰ کلبی۔
چوتھا طبقہ جرح و تعدیل کے معاملہ میں تیسرے طبقہ رواۃ کی طرح ہی ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ امام زہری کی صحبت میں تیسرے طبقہ کی طرح نہیں رہے ہیں، اس طبقہ کے لوگ چونکہ امام زہری کی صحبت میں کم رہے ہیں اس لئے وہ روایت حدیث میں متفرد ہیں،اور یہ لوگ امام ترمذی کی شرط کے مطابق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جانے والے ضعف و علت کو بیان کردیتے ہیں اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں، اور اس طبقہ کے لوگ زمعہ بن صالح، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح جیسے رواۃ ہیں ۔
پانچویں طبقہ میں ضعیف اور مجہول رواۃ اور ایسے راوی ہیں کہ جن کی روایتوں کی تخریج جائز ہی نہیں البتہ امام ابوداود کے نزدیک بطوراعتبار اور استشہاد اس کو ذکر کیا جا سکتا ہے، جبکہ امام بخاری و مسلم کے نزدیک ایسے رواۃ سے روایت جائز نہیں ہے،اس طبقہ میں بحر بن کنیز السقاء، حکم بن عبد اللہ الایلی، عبد القدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب جیسے رواۃ ہیں۔
امام بخاری نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثانیہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اسی طرح امام مسلم نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ ثالثہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ اور امام ابوداود نے ضرورت کے تحت بسا اوقات طبقہ رابعہ کے مشہور راویوں کی احادیث کی تخریج کی ہے۔
امام نسائی کی ''سنن'' کو شرائط کے اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے ، حافظ ابوالفضل محمد بن طاہر مقدسی شروط الائمہ میں لکھتے ہیں : سعدبن علی زنجانی سے ایک آدمی کے بارے میں سوا ل کیا تو انہوں نے اس کی توثیق کی ، میں نے ان سے عرض کیا کہ نسائی نے ان سے حجت نہیں پکڑی ہے، تو انہوں نے کہا: اے بیٹے ابوعبدالرحمن کی رجال حدیث میں بخاری ومسلم سے زیادہ قوی شرط ہے(شروط الائمہ ۱۸، السیر ۱۴/۱۳۱، والنکت لابن حجر ۱۲۲، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰ ، مقدمہ زہر الربی۱/۴)۔
ذہبی زنجانی کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: سچ کہا ، نسائی نے صحیح بخاری اور مسلم کے بعض رواۃ کی تضعیف کی ہے۔
حافظ ابن رجب کہتے ہیں: الإمام النسائي فشرطه أشد ولا يكاد يخرج لمن يغلب عليه الوهم ولا لمن يفحش الخطاء كثير.(حاشیہ مقدمہ زہر الربی) (امام نسائی کی شرط زیادہ سخت ہے، جن رواۃ پر وہم غالب ہوتاہے، تقریباً ان سے روایت نہیں کرتے ، ایسے ہی فاحش الغلط اور کثیر الغلط سے بھی روایت نہیں کرتے )۔
لیکن یہ کوئی انوکھی شرط نہیں ، جس کا شیخین نے لحاظ نہ کیا ہو ، یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیر اس پر تعاقب کرتے ہوئے کہتے ہیں: إنه غير مسلم فإن فيه رجالا مجهولين إما عينا أو حالا وفيهم المجروح وفيه أحاديث ضعيفة معللة ومنكرة (یہ کہنا کہ رجال حدیث کے بارے میں نسائی کی شرط مسلم سے زیادہ قوی ہے، قابل تسلیم نہیں، اس لیے کہ نسائی میں مجہول العین اور مجہول الحال نیز بعض مجروح اور متکلم فیہ رواۃ ہیں، اس میں ضعیف، معلول اور منکر احادیث بھی ہیں(الباعث الحثیث: ۳۱) ۔
(۲) محمد بن سعد الباوردی کہتے ہیں: امام نسائی کا یہ مذہب تھا کہ وہ ہر اس راوی سے روایت لیتے جس کے ترک پر اجماع نہ ہوتا ، اور اس اجماع سے ان کی مراد یہ ہے کہ نقاد رجال کے ہر دور میں باعتبار متشدد ومتوسط ہونے کے دوطبقے رہے ہیں ، پہلے طبقہ میں شعبہ اور سفیان ثوری ، اور شعبہ سفیان ثوری سے متشدد تھے ، دوسرا طبقہ یحیی القطان اور عبدالرحمن مہدی کا ہے ، جن میں یحیی متشدد ہیں، تیسرا یحیی بن معین اور احمدبن حنبل کا اس میں ابن معین متشدد ہیں۔اور چوتھا ابوحاتم اور امام بخاری کا اور اس میں ابوحاتم متشدد ہیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: لا يترك عندي حتى يجتمع الجميع على تركه.
لیکن حافظ ابن حجر النکت علی مقدمۃ ابن صلاح میں اس پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علا مہ عراقی کا یہ کہنا کہ إن مذهب النسائي في الرجال مذهب متسع ليس كذلك، بل تجنب النسائي إخراج حديث جماعة من رجال الصحيحين رواۃ حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ نسائی کا مذہب وسیع ہے ، حقیقت میں ایسا نہیں ہے ، کیوں کہ بہت سے ایسے اشخاص ہیں جن سے ابوداود اورترمذی نے روایتیں لی ہیں ، مگر امام نسائی نے ان سے روایات لینے سے اجتناب کیا ہے(فتح المغیث)۔
اب ایک طرف تو امام موصوف کا قول ہے : لايترك عندي حتى يجتمع الجميع على تركه.اور دوسری طرف بقول ابن حجر کے امام نسائی صحیحین کے متعدد راویوں کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان سے روایت لینے سے اجتناب کیا ہے ، البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ شرط السنن الکبری میں تو ملحوظ رکھی ہے ،لیکن المجتبی میں اس کے خلاف کیا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر نے کہا ہے بعد میں جب مزید اس پر غور کریں تو ہمیں اپنے اس دعویٰ کی تائید حاصل ہوجاتی ہے ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی تعلیقات سنن نسائی کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ويمكن أن يكون أشدية الشروط في المجتبى ومذهبه المتسع في الكبرى والله أعلم.(ممکن ہے کہ مجتبیٰ یعنی سنن صغریٰ کی شرط زیادہ سخت ہو، اور کبریٰ میں شرط آسان ہو، واللہ اعلم۔
(۳) حافظ محمد بن طاہر مقدسی نے شروط الأئمہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ امام ابوداود اور نسائی کی کتابوں میں تینوں قسموں کی روایات ہیں:
۱- وہ روایات جو صحیحین میں ہیں ۔
۲- وہ جو صحیحین کی شرط پر ہیں ۔
۳- وہ روایات جو متکلم فیہ ہیں، اور ان کی نشاندہی بھی انہوں نے کردی ہے، کیونکہ ان کا یہ مذہب تھا کہ جب وہ کوئی اور صحیح روایت نہ پاتے تو ضعیف کوہی نقل کردیتے لأنه أقوى عندهما من رأى الرجال.(اس لیے ابوداود اور نسائی کے نزدیک ضعیف حدیث لوگوں کی آراء سے زیادہ قوی ہے )۔
سنن نسائی سے مراد مجتبیٰ (سنن صغریٰ ) ہے یا ''سنن کبریٰ''
مجتبیٰ یعنی سنن صغریٰ کے بارے میں اختلاف یہ ہے کہ یہ نسائی کی تالیف ہے ، یا کتاب کے راوی ابن السنی کی ، اور راجح یہ ہے کہ یہ امام نسائی کی تالیف ہے ، جس کی سب سے بڑی دلیل سنن کبریٰ کے بعد صغریٰ میں اس انتخاب کے ساتھ ساتھ بہت ساری احادیث کا سنن صغریٰ میں اضافہ جو کہ کبریٰ میں نہیں ہے ، اور ساتھ ہی تراجم ابواب میں رد وبدل اور تصرف اور تقدیم وتاخیر ، دوسرا اختلاف یہ رہا ہے کہ سنن نسائی سے مراد صغریٰ ہے یا کبریٰ ؟ علماء کے اس کتاب کے سلسلے میں مختلف اقوال اور استعمالات کا خلاصہ یہ ہے کہ کبھی اس سے مراد کوئی صغریٰ لیتا ہے اورکبھی کوئی کبریٰ ، لیکن سب کی نسبت امام نسائی ہی کی طرف ہوتی ہے، ابویعلی، مزی ، ذہبی ، ابن حجر ،تقی الدین الفاسی ،ابن قاضی شہبہ ، ابن تغری بردی اور سخاوی یہ سب امام نسائی کو ''صاحب السنن'' کہتے ہیں، لیکن صغریٰ یا کبریٰ کا ذکر نہیں کرتے، اور سنن کے رواۃ کی تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ مشرق ومغرب میں سنن کبریٰ کی شہرت ہوئی اور دسیوں علماء نے اسے نسائی سے روایت کی، اور صرف سنن صغریٰ کی روایت جس کی تالیف نسائی نے آخری عمرمیں کی صرف ابن السنی سے مروی ہے۔
بعض علماء سنن نسائی کے استعمال سے صغریٰ ہی مراد لیتے ہیں،جیسے تاج الدین السبکی ، سیوطی ، صدیق حسن خان، اور کتانی وغیرہ ، کتانی کہتے ہیں کہ صغریٰ کا شمار امہات کتب حدیث میں ہے ، جس کے اطراف اور رجال پر کتابیں مدون ہوئی ہیں ، بعض لوگوں کے قول کے برخلاف کہ اس سے کبریٰ مراد ہے(الرسالۃ المستطرفۃ :۱۲) ۔
حقیقت میں کتب رجال اور اطراف کتب ستہ میں سنن کبریٰ ہی کا اعتبار کیا گیا ہے، سب سے پہلے ابن عساکر دمشقی نے سنن اربعہ کے اطراف تیارکئے، جس میں صغریٰ اور کبریٰ دونوں کے اطراف کو شامل کیا، مزی ، ابن عساکر پرکبریٰ کی بعض احادیث کا استدراک کرتے ہیں بالخصوص حمزہ کنانی کی روایت سے اور اس کے بعد مزی نے کتب ستہ کے اطراف میں ابن عساکر کی پیروی کرتے ہوئے صغریٰ اور کبریٰ کی احادیث کا تذکرہ کیا، کتب ستہ کے رجال میں مزی کی تہذیب الکمال اور ذہبی اور ابن حجر کی مختصرات میں صغریٰ اور کبریٰ کے رجال کا تذکرہ ہے، اورسنن کبریٰ میں (۱۲۰) ایسے رواۃ بھی ہیں جو سنن صغریٰ میں نہیں پائے جاتے ، لیکن تہذیب الکمال اوراس کے مختصرات میں ان رواۃ کاتذکرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مزی، ابن کثیر اور ابن حجر اس مسئلہ میں خاموش نظر آتے ہیں، کیونکہ وہ دونوں کتابوں کی حقیقت سے زیادہ واقف ہیں، یہ بھی واضح رہے کہ ابن الاثیرنے جامع الأصول میں سنن صغریٰ کو شامل کیاہے،اس لیے کہ یہ روایت ان کے سماع میں تھی ، سنن کبریٰ ان کے سماع میں نہیں تھی ، اسی لیے شیخ عبدالصمد شرف الدین الکتبی سنن کبریٰ کے مقدمے میں کہتے ہیں کہ ذہبی کی طرح ابن الاثیر نے بھی سنن کبریٰ کی سماع نہیں کی تھی (۱/۲۰)۔
یہ بھی واضح رہے کہ سنن صغریٰ ہی لوگوں میں موجودتھی اور رہ گئی سنن کبریٰ توعصرحاضر میں اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سنن نسائی کی شروح وتعلیقات
سنن کا اندازِ ترتیب وتالیف نہایت سہل اور آسان ہے، اس کے تراجم ابواب واضح ہیں، جن میں کوئی اشکال نہیں ، شاید اسی وجہ سے علماء نے اس کے شرح وتعلیق پر اتنا توجہ نہیں کی ، جو اس کتاب کا مرتبہ تھا، یا جس طرح صحیحین اور بقیہ سنن کی متنوع خدمات نظرآتی ہیں،علامہ محمدمنیر الدین الدمشقی نموذج من الاعمال الخیریہ میں لکھتے ہیں: هذا الكتاب العظيم في بابه لم يتعرض العلماء لشرحه أو التعليق عليه إلا القليل إما لأنه سهل وضعه كثيرة تراجمه ظاهرة معانيه مبينة طرقه أو لأن الجهابذة المحققين اكتفوا بشرح البخاري ومسلم وسنن أبي داود لأن كتب هؤلاء الأعلام أقدم من كتاب النسائي رحمهم الله تعالى.(یہ اپنے باب میں اس عظیم کتاب کی شرح وتعلیل کا کام کم لوگوں نے ہی کیا، اس کا سبب یا تو یہ ہے کہ اس کی ترتیب آسان ہے، اور اس کے تراجم ابواب بہت زیادہ ہیں، اور اس کے معانی اورطرق واضح ہیں، یا یہ کہ بڑے محقق علماء نے صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن ابی داود کی شرح پر اکتفاء کیا اس لیے کہ اُن کی کتابیں سنن النسائی سے پہلے کی تھیں-رحمہم اللہ جمیعاً-)۔
لیکن پھر بھی قدیم زمانے سے آج تک سنن کی خدمت کا کام کچھ نہ کچھ ہوتارہاہے، اور متعدد علماء نے اس کتاب کی شرح لکھی ،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1- شرح سنن النسائي لأبي العباس أحمد بن رشد (ت: 563هـ).
( شجرة النور الزكية ص: 146،السنن الأبين/مقدمة الدكتور محمد الحبيب بلخوجه14).
2- الإمعان في شرح مصنف النسائي أبي عبدالرحمن تأليف: ابوالحسن علی بن عبداللہ بن النعمۃ الأنصاری الأندلسی (ت :۵۶۷ھ) کی ہے ، (الذيل والتكملة لكتابي الموصول والصلة للمراكشي 5/ 1 /229). شذرات الذهب 4/ 223). نیل الابتہاج بتطریز الدبیاج (۲۰۰) میں ہے: إنه صنف تأليفات مفيدة جليلة منها الإ معان في شرح سنن النسائي لأبي عبدالرحمن لم يتقدم أحد بمثله، بلغ فيها الغاية احتفالا و إكثارا انتهى.
۳- شرح سنن النسائي للحافظ ابی الحسن محمد بن علی الدمشقی (ت۷۶۵ھ) حافظ ابن حجر نے الدرر الکامنہ (۲/۶۲) میں ذکر کیا ہے کہ دمشقی نے نسائی کی شرح کا آغاز کیا تھا ۔
4- شرح سنن النسائي لأبي المحاسن محمد بن علي بن الحسن بن حمزة الدمشقي (ت: 765هـ). (ذيل طبقات الحفاظ للسيوطي میں ہے کہ ابن حمزہ دمشقی نے سنن نسائی شرح لکھنی شروع کی تھی ، ص : ۳۶۵)
۵- شرح زوائد النسائی علی الأربعۃ: الصحیحین وسنن أبی داود، وسنن الترمذی ،تالیف: ابن الملقن ،سراج الدین عمر بن علی بن الملقن الشافعی (ت۸۰۴ھ) نے زوائد نسائی کے نام سے نسائی کی شرح لکھی ہے۔ جس میں صحیحین ، سنن ابوداود ، اور سنن ترمذی کی زوائد کی شرح لکھی ہے ۔
۶- شرح سنن النسائی لمحمد بن احمد بن ایوب العصیاتی الشافعی (ت: ۸۳۴ھ)۔
۷- زہر الربی علی المجتبیٰ : جلال الدین سیوطی (ت:۹۱۱ھ) (مطبوع)۔
۸- تیسیر الیسریٰ بشرح المجتبی من السنن الکبریٰ ، تالیف: عبدالرحمن بن احمد بن الحسن البھکلی الیمانی (ت: ۱۲۴۸ھ) (اس کتاب کا نسخہ صنعاء یمن کے جامع کبیر کے مکتبہ میں موجودہے،جس کی چار جلدیں ہیں،اور جو باب کیف فرضت الصلاۃ سے نہایت کتاب الصیام تک کی شرح ہے، اور جامعہ اسلامیہ(مدینہ منورہ) کے طلبہ نے شعبہ حدیث سے اس کی تحقیق کی ہے) ۔
۹- شرح سنن النسائی : تالیف: یحیی بن المطہر بن اسماعیل الیمانی (ت: ۱۲۶۸ھ)تلمیذ امام شوکانی۔
۱۰- شرح سنن النسائی: تالیف: احمد بن زید بن عبداللہ الکبسی الیمانی (ت: ۱۲۷۱ھ)
۱۱- عرف زهر الربى: تالیف : علی بن سلیمان الدمناتی الباجمعاوی المغربی(ت: ۱۳۰۶ھ)، ط۔ قاہرہ، ۱۲۹۹ھ)
۱۰- تعلیقۃ علی سنن النسائی للشیخ حسین بن محسن الانصاری الیمانی (ت: ۱۳۲۷ھ)
۱۱- شرح النسائی عبدالقادر بدران الشامی (ت: ۱۳۴۲ھ)(غیر مکمل)
9- الرباعيات من كتب السنن المأثورة (مخطوط، تاريخ التراث العربي 1/ 425).
سنن نسائی سے متعلق مزید متنوع مؤلفات:
۱- شرح الأسماء الواردۃ فی کتاب المجتبی من أحادیث المصطفی ، تالیف: ابن البارزی ، عبدالرحیم بن ابراہیم بن ہبۃ اللہ الجہنی (ت: ۶۸۳ھ) (مخطوط/حکمت یار، مدینہ)
1- تسمية شيوخ أبي عبدالرحمن النسائي: تاليف: أبومحمد عبدالله بن محمد بن أسد الجهني الأندلسي (فہرست ابن خیر ۲۲۱)
2- شيوخ النسائي تأليف: أبوعلي حسين بن محمد الجياني (ت: 498هـ). (مقدمة السنن الأبين لابن رشيد السبتي).
۱- المجتبی من المجتنی فی رجال کتاب أبی عبدالرحمن النسائی فی السنن المأثورۃ وشرح غریبہ ، تالیف: محمد بن احمد ابوالمظفر الأبیوردی (ت: ۵۰۷ھ)
3- رجال النسائي لأبي محمد الدورقي المغربي (الرسالة المستطرفة 218).
4- شيوخ النسائي لأبي بكر محمد بن إسماعيل بن محمد بن خلفون الأونبي الأذدي (ت: 636هـ) (اس کتاب کا تذکرہ ابوالحسن رعینی اشبیلی (ت: ۶۳۶ھ) نے اپنے برنامج الشیوخ میں کیا ہے، ص:۵۵) نیزملاحظہ ہو: (تذكرة الحفاظ4/ 1400، شذرات الذهب5/ 185، الرسالة المستطرفة 55).
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ختم نسائی سے متعلق مؤلفات:


۱- بغیۃ الراغب المتمنی فی ختم النسائی : روایت ابن السنی لمحمد بن عبدالرحمن السخاوی (ت: ۹۰۲ھ) (مطبوع)
۲- القول المعتبر فی ختم النسائی روایت ابن الاحمر لمحمد بن عبدالرحمن السخاوی (ت: ۹۰۲ھ) (مطبوع)
۳- ختم سنن النسائی لعبداللہ بن سالم البصری المکی (ت: ۱۱۳۴ھ)


سنن النسائی سے متعلق جدید کتب ودراسات:


۱- شروق أنوارالمنن الکبریٰ الالہیۃ بکشف أسرار السنن الصغریٰ النسائیۃ ، تالیف: الشیخ محمد المختار بن محمد بن احمد الجکنی الشنقیطی (ت: ۱۴۰۵ھ)(مطبوع)۔
۲- ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبی ، تالیف:الشیخ محمد بن علی بن آدم الہرری الاثیوبی (مطبوع)
۳-مختصر سنن النسائی : تالیف: د/مصطفی دیب البغا(مطبوع)
۴- صحیح سنن النسائی للشیخ محمدناصرالدین الالباني (مطبوع)
۵-ضعیف سنن النسائی للشیخ محمدناصرالدین الالباني (مطبوع)
۶- الأحاديث التي أعلها النسائي بالاختلاف على الرواة في كتابه المجتبى: جمعا ودراسة: تاليف: د. عمر إيمان أبوبكر ( جامعۃ الإمام ،ریاض میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ،۱۴۲۰ھ)
۷- إسعاد الرائ بأفراد وزوائد النسائي على الكتب الخمسة: سيد كسروي حسن (مطبوع)دار الکتب العلمیۃ ۱۴۱۹ھ) مجلدین۔
۸- الإمام النسائي ومنهجه في السنن، تاليف: الهادي روشو ( مقالہ برائے پی ایچ ڈی، جامعۃ زیتونہ ، تونس ۱۴۰۹ھ) ۔
۹- الإمام النسائي ومنهجه في السنن، تاليف: ثابت حسین مظلوم خزرجی (جامعۃ زیتونہ ، تونس ۱۹۹۱م)۔
۱۰- تقريب النائي من مراسيل النسائي: سيد كسروي حسن
(ان مراسیل کو سنن صغریٰ اور کبریٰ سے لے کر مرتب کیا ہے ، ط۔ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ۱۴۱۸ھ)


۱۱- زوائد الإمام النسائي على الكتب الأربعة: البخاري، مسلم، أبي داود، الترمذي: جمع وتخريج ودراسة/ عبدالله مصطفى سعيد ( جامعۃا لقاہرہ ،مصر میں ایم اے کا مقالہ ، کلیۃ دار العلوم ۱۴۱۲ھ)
۱۲- زوائد النسائي على بقية الستة: د/عبداللہ بن محمد العمری
( جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ، ۱۴۲۰ھ)
۱۳- سنن الإمام النسائي في الدراسات المغربية ، تالیف: مریم بربور (ڈپلومہ ازمحمد خامس یونیورسٹی ، رباط، مراکش،۱۴۱۲ھ)
۱۴- الضعفاء والمجهولون والمتروكون في مجتبى النسائي ، تالیف: د/وصی اللہ بن محمد عباس ( مطبوع) (کلیۃ الشریعۃ مکہ میں ایم اے کا مقالہ ،۱۳۹۶ھ)
۱۵- علل النسائي في السنن الصغرى، تالیف: علی محمد فتحی ( اردن یونیورسٹی ، میں ایم اے کا مقالہ ،۱۴۱۳ھ)
۱۶- مستخرج من مصنفات النسائي في الجرح والتعديل، تاليف: فالح الشبلي (مطبوع)
۱۷- منهج النسائي في الجرح والتعديل، تالیف: ڈاکٹر قاسم علی سعد( مقالہ برائے پی ایچ ڈی،جامعۃ الإمام ۱۴۱۲ھ)۔
۱۸- نقد المتن عند الإمام النسائي في السنن الكبرى، تالیف: محمد مصلح الزعبی( اردن یونیورسٹی ، میں ایم اے کا مقالہ،۱۴۲۰ھ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
برصغیر پاک وہند کے علماء کی سنن نسائی سے متعلق خدمات کاتذکرہ
۱- حاشیۃ السندي : لابی الحسن محمد بن عبدالہادی السند ی (ت:۱۱۳۶ھ) نے دیگر کتب صحاح کی طرح امام نسائی کی سنن کا بھی حاشیہ لکھا ہے ، یہ حاشیہ علامہ سیوطی کی شرح سے جامع اور مفید معلومات پر مبنی ہے ،یہ حاشیہ (۱۳۲۱ھ) میں طبع ہوچکا ہے ۔
۲- الحاشیۃ المحمدیۃ علی الأخبار النسئیۃ ، تالیف: محمد بن حمداللہ التہانوی (ت: ۱۲۹۶ھ)( ہندوستان میں دوبار شائع ہوئی مطبوع)
۳-التقریرات الرائعۃ علی سنن النسائي ، تالیف: محمد بن حمداللہ التہانوی (ت: ۱۲۹۶ھ) ( ۱۳۰۹ھ میں ایک جلد میں شائع ہوئی ، مطبوع)
۴- الفیض السماوي علی سنن النسائي : تالیف: رشید احمد الگنگوہی (ت: ۱۳۲۳ھ)(مطبوع)
۵- الحواشی الجدیدۃ علی سنن النسائي : تالیف: ابوعبدالرحمن محمد پنجابی دہلوی (ت: ۱۳۱۵ھ) (مؤلف تفسیر محمدی) ، یہ حاشیہ (۱۳۱۲ھ=۱۸۹۸ء) میں مطبع انصاری، دہلی سے طبع ہوا ہے ،کم یا ب اور صرف ثلث حصہ پر منحصر ہے۔
۶- تکملۃ الحواشي الجدیدۃ:ازعلامہ ابویحیی محمد بن کفایت اللہ شاہجہاں پوری (ت: ۱۳۳۸ھ) ، یہ در اصل شیخ ابوعبدالرحمن محمد پنجابی کے حاشیہ کا تکملہ ہے (مقدمہ تعلیقات نسائی لعلامہ محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی)۔
۷- تعليق على سنن النسائي للشيخ حسين بن محسن الأنصاري اليماني البوفالي (ت: 1327هـ) ایک نہایت لطیف تعلیقات پر مبنی حاشیہ شیخ حسین بن محسن انصاری کا ہے جسے حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے تعلیقات سلفیہ مے ضم کردیا ہے ۔
۸- شرح مجموع من شرح السیوطي وحاشیۃ السندي وغیرہما: جمع وتالیف، ابوعبدالرحمن محمدپنجابی، ومحمدعبداللطیف (دہلی میں ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی، مطبوع)۔
۹- علامہ ابوالطیب شمس الحق محدث ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ نے نسائی کے پیچیدہ مقامات پر علاحدہ مستقل کتاب لکھی ہے، (حاشیہ سیرت البخاری ۴۶۹، ط۔ نیو)
۱۰- التعلیقات السلفیۃ: نہایت لطیف اور جامع تعلیقات کا حامل یہ حاشیہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے نہایت محنت وکاوش سے مرتب فرمایا ہے ، یہ حاشیہ کئی خصوصیات کاحامل ہے ،فاضل مکرم نے اس میں زہرالربی سیوطی ، حاشیہ سندھی، حواشی جدیدہ( محمد پنجابی) و ابویحیی اور شیخ حسین بن محسن انصاری کے حواشی کا احاطہ فرمایا ہے ،اور ساتھ ہی احادیث کا شمار بھی کیا ہے، مسائل فقیہہ پر مختصر مگر جامع اور تسلی بخش نوٹ دے کر تعلیقات کو مزید حسن وزیبائش سے آراستہ کیا ہے ، اگر کسی مسئلہ میں اختصار سے کام لیتے ہیں تو اس کے متعلقہ مظان وموارد بقید حوالہ صفحات ذکرکردیتے ہیں، جومسئلے کی تنقیح میں ایک معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ مفید تعلیقات (۱۳۷۶ھ)میں المکتبہ السلفیہ سے طبع ہوکر منصہ شہود پر آئی تھی ، (۵) جلدوں میں ریاض سے شائع ہواہے جس پر تخریج وتحقیق کا کام شیخ ابوالأشبال صغیر شاغف البہاری ا ورشیخ احمد مجتبیٰ نے کیا ہے ۔
۱۲- روض الربى عن ترجمة المجتبى اردو ترجمہ مع حواشی ازمولانا وحیدالزمان حیدرآبادی (ت: ۱۳۳۸ھ)
یہ ترجمہ لاہو ر سے (۱۸۸۶ء) میں شائع ہوا(تاریخ التراث العربی)۔
۱۳- المکتفی بحل المجتبیٰ ، تالیف: ابومحمد احمد حسین المظاہری الہندی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سنن صغریٰ اور کبریٰ کے موجودہ ایڈیشن
سنن کبری کو سب سے پہلے مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی نے شائع کرنا شروع کیاتھا، لیکن اس کی صرف دوجلدیں چھپ پائیں ، بعد میں دار الکتب العلمیۃ سے ایک ایڈیشن شائع ہوا، اور آخر میں ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی زیر نگرانی ایک محقق ایڈیشن (۱۲)جلدوں میں شائع ہوا، جس کی آخری دوجلدیں فہارس کتاب ہیں، جس کی تفصیل تصانیف کے عنوان میں موجود ہے۔
اس وقت سنن صغریٰ کے کئی ایڈیشن موجود ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :
۱- سنن النسائی مع التعلیقات السلفیۃ للشیخ محمد عطاء اللہ حنیف الفوجیانی -رحمہ اللہ- اس کا پاکستانی ایڈیشن اب جدید ٹائپ پر (۵) جلدوں میں ریاض سے شائع شدہ ہے، جواپنی مجموعی خوبیوں کے اعتبار سے سب سے عمدہ ایڈیشن ہے۔
۲- سنن النسائی: مکتب تحقیق التراث الإسلامی کا تیار کردہ ایڈیشن جس میں احادیث کی تخریج کتب ستہ سے کی گئی ہے ، توزیع مکتبۃ الموید ، ریاض ۔
۳- بذل الإحسان بتقریب سنن النسائی ابی عبدالرحمن : تحقیق ابواسحاق حوینی اثری ۔ط۔ مجلدان ، القاہرۃ۔
۴- سنن النسائی : ناشر دارالسلام ، ریاض ۔
۵- سنن النسائی : ناشربیت الافکار الدولیۃ ۔
۶- سنن النسائی : تحقیق مشہور حسن سلمان ، ناشر دار المعارف ، ریاض ( اس میں شیخ البانی کے صحیح سنن النسائی وضعیف سنن النسائی کے احکام کو ذکر کردیا گیا ہے)۔
 
Top