• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
46- الْحَالُ الَّتِي يُجْمَعُ فِيهَا بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ
۴۶-باب: جمع بین الصلاتین کے احوال وظروف کا بیان​


599- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۵ (۷۰۳)، ط/السفر ۱ (۳)، حم۲/۷، ۶۳، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۸۳) (صحیح)
۵۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔


600- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ أَوْ حَزَبَهُ أَمْرٌ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۰۵)، حم۲/۸۰ (صحیح الإسناد)
(لیکن''أوحز بہ أمر'' کا جملہ شاذ ہے کیونکہ نافع کے طریق سے مروی کسی بھی روایت میں یہ موجود نہیں ہے، نیز اس کے محرف ہونے کا بھی امکان ہے، اور مصنف عبدالرزاق (۲/ ۵۴۷) کی سند سے ان الفاظ کے ساتھ مذکورہے، ' ' أو أجد بہ المسیر '')
۶۰۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔


601- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۳ (۱۱۰۶)، م/المسافرین ۵ (۷۰۳)، حم۲/۸، دي/الصلاۃ ۱۸۲ (۱۵۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۲) (صحیح)
۶۰۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
47- الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
۴۷-باب: دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان​


602- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ جَمِيعًا مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵)، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۰)، وقد أخرجہ: ط/السفر ۱ (۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۰۸)، حم۱/۲۸۳، ۳۴۹ (صحیح)
۶۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے پڑھی ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدید ضرورت کے وقت مقیم بھی جمع بین الصلاتین کر سکتا ہے لیکن یہ عادت نہ بنا لی جائے۔


603- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ - وَاسْمُهُ غَزْوَانُ - قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بِالْمَدِينَةِ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، قِيلَ لَهُ: لِمَ؟ قَالَ: لِئَلا يَكُونَ عَلَى أُمَّتِهِ حَرَجٌ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵)، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۱)، ت/الصلاۃ ۲۴ (۱۸۷)، حم۱/۳۵۴، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۴) (صحیح)
۶۰۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر بارش کے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے، ان سے پوچھا گیا: آپ ایسا کیوں کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: تاکہ آپ کی امت کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو دو صلاتوں کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا'' ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہو سکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔


604- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَائَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۵۹۰ (صحیح)
۶۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے (ظہر وعصر کی) آٹھ رکعتیں، اور (مغرب وعشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
48- الْجَمْعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ
۴۸-باب: عرفہ میں ظہر وعصر جمع کر کے پڑھنے کا بیان​


605- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَارَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَائِ، فَرُحِلَتْ لَهُ حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى بَطْنِ الْوَادِي خَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلالٌ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا۔
* تخريج: وقد أخرجہ: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۲۹)، دي/المناسک ۳۴ (۱۸۹۲)، ویأتي عند المؤلف برقم: (۶۵۶) (صحیح)
۶۰۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (حج میں منی سے مزدلفہ)چلے یہاں تک کہ آپ عرفہ آئے تو دیکھا کہ نمرہ ۱؎ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے، آپ نے وہاں قیام کیا، یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا آپ نے قصواء نامی اونٹنی ۲ ؎ لانے کا حکم دیا، تو آپ کے لیے اس پر کجاوہ کسا گیا، جب آپ وادی میں پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے بیچ کوئی اور صلاۃ نہیں پڑھی۔
وضاحت ۱؎ : عرفات میں ایک جگہ کا نام ہے، جو عرفات کے مغربی کنارے پرہے، آج کل یہاں ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کا آدھا حصہ عرفات کے اندرہے، اور آدھا مغربی حصہ عرفات کے حدود سے باہرہے۔
وضاحت ۲؎ : نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام قصواء تھا، قصواء کے معنی کن کٹی کے ہیں لیکن آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی یہ اس کا لقب تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
49 - الْجَمْعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ
۴۹-باب: مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو جمع کرنے کا بیان​


606- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا۔
* تخريج: خ/الحج ۹۶ (۱۶۷۴)، المغازي ۷۶ (۴۴۱۴)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۷)، ق/المناسک ۶۰ (۳۰۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۶۵)، ط/الحج ۶۵ (۱۹۸)، حم۵/۴۱۸، ۴۱۹، ۴۲۰، ۴۲۱، دي/الصلاۃ ۱۸۲ (۱۵۵۷)، المناسک ۵۲ (۱۹۲۵)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۳۰۲۹ مختصراً (صحیح)
۶۰۶- ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھی۔


607- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ حَيْثُ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ، فَلَمَّا أَتَى جَمْعًا جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ مِثْلَ هَذَا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۴۸۲ (صحیح)
۶۰۷- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہم عرفات سے چلے تو میں ان کے ساتھ تھا، جب وہ مزدلفہ آئے تو مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی، اور جب فارغ ہوئے تو کہنے لگے: اس جگہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح صلاۃ پڑھی تھی۔


608- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِالْمُزْدَلِفَةِ۔
* تخريج: وقد أخرجہ: م/الحج ۴۷ (۷۰۳)، د/المناسک ۶۵ (۱۹۲۶)، ط/الحج ۶۵ (۱۹۶)، حم۲/۵۶، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۱۴) (صحیح)
۶۰۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب وعشاء (جمع کر کے) پڑھی۔


609- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ صَلاتَيْنِ إِلا بِجَمْعٍ، وَصَلَّى الصُّبْحَ يَوْمَئِذٍ قَبْلَ وَقْتِهَا۔
* تخريج: خ/الحج ۹۹ (۱۶۸۲)، م/الحج ۴۸ (۱۲۸۹)، د/المناسک ۶۵ (۱۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۴)، حم۱/۳۸۴، ۴۲۶، ۴۳۴، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۳۰۱۳، ۳۰۳۰، ۳۰۴۱ مختصراً (صحیح)
۶۰۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مزدلفہ کے علاوہ کسی جگہ جمع بین الصلاتین کرتے نہیں دیکھا ۱؎، آپ نے اس روز فجر (اس کے عام)وقت سے ۲؎ پہلے پڑھ لی۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن مسعود کا نہ دیکھنا جمع بین الصلاتین کی نفی کو مستلزم نہیں، خصوصاً جب عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے جمع بین الصلاتین کی صحیح روایات منقول ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی فجر طلوع ہوتے ہی پڑھ لی جب کہ عام حالات میں طلوع فجر کے بعد کچھ انتظار کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
50-كَيْفَ الْجَمْعُ؟
۵۰-باب: جمع بین الصلاتین کیسے کی جائے؟​


610- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ - وَكَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْدَفَهُ مِنْ عَرَفَةَ-، فَلَمَّا أَتَى الشِّعْبَ نَزَلَ فَبَالَ، وَلَمْ يَقُلْ: أَهْرَاقَ الْمَائَ قَالَ: فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنْ إِدَاوَةٍ، فَتَوَضَّأَ وُضُوئًا خَفِيفًا، فَقُلْتُ لَهُ: الصَّلاةَ، فَقَالَ: الصَّلاةُ أَمَامَكَ، فَلَمَّا أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ صَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ نَزَعُوا رِحَالَهُمْ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۹۷)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۳۵ (۱۸۱)، الحج ۹۵ (۱۶۷۲)، م/الحج ۴۷ (۱۲۸۰)، د/المناسک ۶۴ (۱۹۲۵)، حم۵/۲۰۰، ۲۰۲، ۲۰۸، ۲۱۰ (صحیح)
۶۱۰- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (انہیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عرفہ میں سواری پر پیچھے بٹھالیا تھا) تو جب آپ صلی الله علیہ وسلم گھاٹی پر آئے تو اترے، اور پیشاب کیا، (انہوں نے لفظ ''بَالَ'' کہا ــ''أهراق المائ'' نہیں کہا ۱؎) تو میں نے برتن سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا، آپ نے ہلکا پھلکا وضو کیا، میں نے آپ سے عرض کیا: صلاۃ پڑھ لیجیے، تو آپ نے فرمایا: صلاۃ تمھارے آگے ہے، جب آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب پڑھی، پھر لوگوں نے اپنی سواریوں سے کجاوے اتارے، پھر آپ نے عشاء پڑھی۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں لفظوں کے معنی ہیں ''پیشاب کیا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
51-فَضْلُ الصَّلاةِ لِمَوَاقِيتِهَا
۵۱-باب: وقت پر صلاۃ پڑھنے کی فضیلت کا بیان​


611- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ الْعَيْزَارِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ - وَأَشَارَ إِلَى دَارِ عَبْدِاللَّهِ -، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى؟ قَالَ: " الصَّلاةُ عَلَى وَقْتِهَا، وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ، وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - "۔
* تخريج: خ/المواقیت ۵ (۵۲۷)، الجھاد ۱ (۲۷۸۲)، الأدب ۱ (۵۹۷۰)، التوحید ۴۸ (۷۵۳۴)، م/الإیمان ۳۶ (۸۵)، ت/الصلاۃ ۱۳ (۱۷۳)، البر والصلۃ ۲ (۱۸۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۳۲)، حم۱/۴۰۹، ۴۳۹، ۴۴۲، ۴۵۱، دي/الصلاۃ ۲۴ (۱۲۶۱) (صحیح)
۶۱۱- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''وقت پر صلاۃ پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل الاعمال (زیادہ بہتر) کہا گیا ہے، اس کی توجیہ بعض لوگوں نے اس طرح کی ہے کہ ان میں ''مِن'' پوشیدہ ہے یعنی من افضل الاعمال یعنی یہ کام زیادہ فضیلت والے عملوں میں سے ہے یا ان کی فضیلت میں مختلف اقوال، اوقات یا جگہوں کا اعتبار ملحوظ ہے، مثلاً کسی وقت اول وقت صلاۃ پڑھنا افضل ہے، اور کسی وقت جہاد یا حج مبرور افضل ہے، یا مخاطب کے اعتبار سے اعمال کی افضلیت بتائی گئی ہے۔


612- أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ النَّخَعِيُّ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ - عَزَّ وَجَلَّ - قَالَ: " إِقَامُ الصَّلاةِ لِوَقْتِهَا، وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ، وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -"
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۶۱۱ (صحیح)
۶۱۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ''صلاۃ کو اس کے وقت پر ادا کرنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا''۔


613- أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ وَعَمْرُو بْنُ يَزِيدَ قَالاَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ فِي مَسْجِدِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، فَأُقِيمَتْ الصَّلاة، فَجُعِلُوا يُنْتَظَرُونَهُ، فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أُوتِرُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَبْدُاللَّهِ هَلْ بَعْدَ الأَذَانِ وِتْرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَبَعْدَ الإِقَامَةِ، وَحَدَّثَ عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَامَ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۱)، وأعادہ برقم: ۱۶۸۶ (صحیح)
۶۱۳- محمد بن منتشر سے روایت ہے کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے کہ صلاۃ کی اقامت کہی گئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے (جب وہ آئے تو) انہوں نے کہا: میں وتر پڑھنے لگا تھا، (اس لئے تاخیر ہوئی) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا: کیا (فجر کی)اذان کے بعد وترہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اور اقامت کے بعد بھی، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سو گئے حتی کہ سورج نکل آیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صلاۃ پڑھی ۱؎ اس حدیث کے الفاظ یحیی بن حکیم کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ وقت گذر جانے سے صلاۃ ساقط نہیں ہوتی بلکہ اس کی قضا کرنی پڑتی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ قضا فرائض کے ساتھ خاص ہے وہ اس حدیث سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑتے ہیں، لیکن اس روایت میں فرائض کے ساتھ قضا کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، سنتوں کی قضا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
52-فِيمَنْ نَسِيَ صَلاةً
۵۲-باب: جو شخص صلاۃ بھول جائے تو کیا کرے؟​


614- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ نَسِيَ صَلاةً، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا "
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۴۲) مختصراً، ت/الصلاۃ ۱۷ (۱۷۸)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰)، حم۳/۱۰۰، ۲۴۳، ۲۶۷، ۲۶۹، ۲۸۲ (صحیح)
۶۱۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص صلاۃ بھول جائے، جب یاد آ جائے تو اسے پڑھ لے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
53-فِيمَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاةِ
۵۳-باب: جو شخص صلاۃ سے سوجائے تو کیا کرے؟​


615- أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الأَحْوَلُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرَّجُلِ يَرْقُدُ عَنْ الصَّلاةِ أَوْ يَغْفُلُ عَنْهَا؟ قَالَ: "كَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا"۔
* تخريج: ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۵)، حم۳/۲۶۷، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱) (صحیح)
۶۱۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو صلاۃ سے سو جاتا ہے یا اس سے غافل ہو جاتا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آ جائے تو اسے پڑھ لے ''۔


616- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: ذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَوْمَهُمْ عَنِ الصَّلاةِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا "
* تخريج: وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۱ (۴۴۱) مختصراً، ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۵)، حم۵/۲۹۸، ۳۰۲، ۳۰۵ (صحیح)
۶۱۶- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے صلاتوں سے اپنے سو جانے کے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''نیند کی حالت میں کوئی تقصیر(کمی) نہیں ہے''، تقصیر (کمی) تو جاگنے میں ہے (کہ جاگتا ہو اور صلاۃ نہ پڑھے یہاں تک کہ وقت گزر جائے)، تو جب تم میں سے کوئی آدمی صلاۃ بھول جائے، یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے''۔


617- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ - وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ - عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِيمَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلاةَ حَتَّى يَجِيئَ وَقْتُ الصَّلاةِ الأُخْرَى، حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا"۔
* تخريج: انظرما قبلہ (صحیح)
۶۱۷-ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' نیند کی حالت میں کوئی تقصیر (کمی) نہیں ہے، تقصیر (کمی)تو اس شخص میں ہے جو صلاۃ نہ پڑھے یہاں تک کہ جس وقت اسے اس کا ہوش آئے تو دوسری صلاۃ کا وقت ہو جائے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
54-إِعَادَةُ مَا نَامَ عَنه من الصَّلاةِ لِوَقْتِهَا مِنْ الْغَدِ
۵۴-باب: جس صلاۃ سے آدمی سو جائے تو اسے دوسرے روز اس کے وقت پر دوبارہ پڑھنے کا بیان​


618- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَامُوا عَنْ الصَّلاةِ حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَلْيُصَلِّهَا أَحَدُكُمْ مِنْ الْغَدِ لِوَقْتِهَا "
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۳) (صحیح)
۶۱۸- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ صلاۃ سے سو گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اسے دوسرے روز اس کے وقت پر پڑھنا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آج نیند کی وجہ سے تقصیر ہو گئی تو ہو گئی، اس کی ابھی قضا پڑھ لی ہے، لیکن کل سے اسے اپنے وقت پر پڑھنا، کیونکہ صحیح مسلم میں اس روایت کے الفاظ یوں ہیں''فلیصلھاحین ینتبہ لھا، فإذا کان الغد فلیصلھاعند وقتھا'' (یعنی: اس صلاۃ کو جب اٹھے تب پڑھ لے(یعنی قضاء کر کے)، اور کل سے اس کو اپنے وقت پر پڑھا کرے) مؤلف سے ذہول ہوا ہے، اسی ذہول کی بنا پر انہوں نے مذکورہ باب باندھا ہے۔


619-أَخْبَرَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِذَا نَسِيتَ الصَّلاةَ، فَصَلِّ إِذَا ذَكَرْتَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {أَقِمْ الصَّلاةَ لِذِكْرِي} "
٭قَالَ عَبْدُالأَعْلَى: حَدَّثَنَا بِهِ يَعْلَى مُخْتَصَرًا۔
* تخريج: وقد أخرجہ، تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۴۳) (صحیح)
۶۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم صلاۃ بھول جاؤ تو یاد آنے پر اسے پڑھ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''أَقِمْ الصَّلاةَ لِذِكْرِي'' ۱؎ (صلاۃ قائم کرو جب میری یاد آئے)''۔
٭عبدالا ٔعلی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم سے یعلی نے مختصراً بیان کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مشہور قرأت یاء متکلم کی طرف اضافت کے ساتھ ہے لیکن یہ قرأت مقصود کے مناسب نہیں اس لئے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ مضاف مقدرہے اصل عبارت یوں ہے ''وقت ذکر صلاتی'' اور ایک شاذقرأت '' للذکریٰ'' اسم مقصور کے ساتھ ہے جو أوفق بالمقصود ہے، (جو رقم: ۶۲۱ کے تحت آ رہی ہے)۔


620- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: {أَقِمْ الصَّلاةَ لِذِكْرِي}"
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷۳) (صحیح)
۶۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی صلاۃ بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: صلاۃ قائم کرو جب میری یاد آئے''۔


621- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ نَسِيَ صَلاةً، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: أَقِمْ الصَّلاةَ لِلذِّكْرَى " قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ: هَكَذَا قَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۶۲۰ (صحیح)
۶۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی صلاۃ بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: صلاۃ قائم کرو یاد آنے پر''، معمر کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھا ہے؟ کہا: ہاں'' (یعنی: للذکریٰ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
55-كَيْفَ يُقْضَى الْفَائِتُ مِنْ الصَّلاةِ؟
۵۵-باب: فوت شدہ صلاۃ کی قضاء کیسے کی جائے؟​


622- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَسْرَيْنَا لَيْلَةً، فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَامَ، وَنَامَ النَّاسُ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ إِلا بِالشَّمْسِ قَدْ طَلَعَتْ عَلَيْنَا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤَذِّنَ، فَأَذَّنَ، ثُمَّ صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا بِمَا هُوَ كَائِنٌ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۱) (صحیح)
(شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ''عطائ'' آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے، اور ابوالا حوص نے ان سے اختلاط کی حالت میں روایت لی ہے)
۶۲۲- ابو مریم (مالک بن ربیعہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم رات بھر چلتے رہے جب صبح ہونے لگی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اترے اور سو رہے، لوگ بھی سو گئے، تو سورج کی دھوپ پڑنے ہی پر آپ جاگے، تو آپ نے مؤذن کو حکم دیا تو اس نے اذان دی، پھر آپ نے فجر سے پہلے کی دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسے حکم دیاتو اس نے اقامت کہی، اور آپ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھر آپ نے قیامت قائم ہونے تک جو اہم چیزیں ہونے والی ہیں انہیں ہم سے بیان کیں۔


623- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَحُبِسْنَا عَنْ صَلاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلاَلاً، فَأَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى بِنَا الْعِشَائَ، ثُمَّ طَافَ عَلَيْنَا فَقَالَ: " مَا عَلَى الأَرْضِ عِصَابَةٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرُكُمْ "
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۸ (۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۳)، حم۱/۳۷۵، ۴۲۳، ویأتي عند المؤلف برقم: ۶۶۳، ۶۶۴ (صحیح)
(اس کی سند میں ''ابو عبیدۃ'' اور ان کے والد '' ابن مسعود رضی اللہ عنہ '' کے درمیان انقطاع ہے، نیز '' ابوالزبیر'' مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، مگر ابو سعید کی حدیث(رقم : ۶۶۲) اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (رقم: ۴۸۳، ۵۳۶) سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۶۲۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہمیں (کافروں کی طرف سے) ظہر، عصر، مغرب اور عشاء سے روک لیا گیا، تو یہ میرے اوپر بہت گراں گزرا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، اور اللہ کے راستے میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں ظہر پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں عصر پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں مغرب پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم ہم پر گھومے اور فرمایا: ''روئے زمین پر تمہارے علاوہ کوئی جماعت نہیں ہے، جو اللہ کو یاد کر رہی ہو''۔


624- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: عَرَّسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ نَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِيَأْخُذْ كُلُّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ، فَإِنَّ هَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِيهِ الشَّيْطَانُ "، قَالَ: فَفَعَلْنَا، فَدَعَا بِالْمَائِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلاةُ، فَصَلَّى الْغَدَاةَ۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۴۴)، حم۲/۴۲۸، ۴۲۹ (صحیح)
۶۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑائو ڈالا، تو ہم (سوتے رہے) جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی سواری کا سر تھام لے (یعنی سوار ہو کر یہاں سے نکل جائے) کیوں کہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں شیطان ہمارے ساتھ رہا'' ـ، ہم نے ایسا ہی کیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانی مانگا اور وضو کیا، پھر دو رکعت صلاۃ پڑھی، پھر اقامت کہی گئی تو آپ نے فجر پڑھائی۔


625- أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي سَفَرٍ لَهُ: " مَنْ يَكْلَؤُنَا اللَّيْلَةَ لاَ نَرْقُدَ - عَنْ الصَّلاَةَ - عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ؟ " قَالَ بِلالٌ: أَنَا، فَاسْتَقْبَلَ مَطْلَعَ الشَّمْسِ، فَضُرِبَ عَلَى آذَانِهِمْ حَتَّى أَيْقَظَهُمْ حَرُّ الشَّمْسِ، فَقَامُوا فَقَالَ: " تَوَضَّئُوا "، ثُمَّ أَذَّنَ بِلالٌ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّوْا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ ثُمَّ صَلَّوْا الْفَجْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۰۱)، حم۴/۸۱ (صحیح الإسناد)
۶۲۵- جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک سفر میں فرمایا: ''آج رات کون ہماری نگرانی کرے گا تاکہ ہم فجر میں سوئے نہ رہ جائیں؟ '' بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، پھر انہوں نے سورج نکلنے کی جانب رخ کیا، تو ان پر ایسی نیند طاری کر دی گئی کہ کوئی آواز ان کے کان تک پہنچ ہی نہیں سکی یہاں تک کہ سورج کی گرمی نے انہیں بیدار کیا، تو وہ اٹھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم لوگ وضو کرو''، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو رکعت فجر کی سنت پڑھی، اور لوگوں نے بھی فجر کی دو رکعت سنت پڑھی، پھر لوگوں نے فجر پڑھی۔


626- أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَدْلَجَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ عَرَّسَ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ بَعْضُهَا، فَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ، فَصَلَّى، وَهِيَ صَلاةُ الْوُسْطَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۸)، وانظر حم۱/۲۵۹ (منکر)
(فجر کو ''صلاۃ الوسطی'' کہنا منکرہے، ''صلاۃ الوسطی'' عصر کی صلاۃ ہے، اس کے راوی '' حبیب بن أبی حبیب'' سے وہم ہو جایا کرتا تھا)
۶۲۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات میں چلے، پھر رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑاؤ ڈالا، تو آپ جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، یا اس کا کچھ حصہ نکل آیا، اور آپ صلاۃ نہیں پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج اوپر چڑھ آیا، پھر آپ نے صلاۃ پڑھی، اور یہی صلوٰۃ وسطی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : لیکن '' صلاۃ فجر'' کو ''صلاۃ الوسطی'' کہنا منکرہے، ''صلاۃ الوسطی'' عصر کی صلاۃ ہے، جب کہ وہ فجر کی صلاۃ تھی۔

---​
 
Top