• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
36- الرُّخْصَةُ فِي الصَّلاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
۳۶-باب: عصر کے بعد صلاۃ کی اجازت کا بیان​


574- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ الأَجْدَعِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِلاَّ أَنْ تَكُونَ الشَّمْسُ بَيْضَائَ نَقِيَّةً مُرْتَفِعَةً۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۹۹ (۱۲۷۴) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۰)، حم۱/ ۸۰، ۸۱، ۱۲۹، ۱۴۱ (صحیح)
۵۷۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا إ لاَّیہ کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔


575- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۳ (۵۹۱)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۱۱)، حم۶/۵۰ (صحیح)
۵۷۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : بہت سے علماء نے اسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے مخصوص قرار دیا ہے، کیونکہ ایک بار آپ سے ظہر کے بعد کی دونوں سنتیں فوت ہو گئی تھیں جن کی قضا آپ نے عصر کے بعد کی تھی، پھر آپ نے اس کا التزام شروع کر دیا تھا، اور قضا کا التزام قطعی طور پر آپ ہی کے لئے مخصوص ہے۔


576- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: مَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلا صَلاَّهُمَا۔
* تخريج: وقد أخرجہ: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۷۸) (صحیح)
۵۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عصر کے بعد میرے پاس جب بھی آتے تو دونوں رکعتوں کو پڑھتے۔


577- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْرُوقًا وَالأَسْوَدَ قَالاَ: نَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدِي بَعْدَ الْعَصْرِ صَلاَّهُمَا۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۳ (۵۹۳)، م/المسافرین ۵۴ (۸۳۵)، د/الصلاۃ ۲۹۹ (۱۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۲۸، ۱۷۶۵۶)، حم۶/ ۱۳۴، ۱۷۶، دي/الصلاۃ ۱۴۳ (۱۴۷۴) (صحیح)
۵۷۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب عصر کے بعد میرے پاس ہوتے تو ان دونوں رکعتوں کو پڑھتے۔


578- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: صَلاتَانِ مَا تَرَكَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي سِرًّا وَلاَ عَلانِيَةً، رَكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ الْعَصْرِ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۳ (۵۹۲)، م/المسافرین ۵۴ (۸۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۰۹)، حم۶/۱۵۹ (صحیح)
۵۷۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے میرے گھر میں فجر کے پہلے کی دو رکعتوں اور عصر کے بعد کی دو رکعتوں کو چھپے اور کھلے کبھی نہیں چھوڑا۔


579- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، عَنْ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ، ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ - عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا - فَصَلاَّهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاةً أَثْبَتَهَا۔
* تخريج: م/المسافرین ۵۴ (۸۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۵۲)، حم۶/۴۰، ۶۱، ۲۴۱، حم۶/۱۸۴، ۱۸۸ (صحیح)
۵۷۹- ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہو گئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی صلاۃ شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔


580- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ يَحْيَى ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي بَيْتِهَا بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ مَرَّةً وَاحِدَةً، وَأَنَّهَا ذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: " هُمَا رَكْعَتَانِ كُنْتُ أُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَشُغِلْتُ عَنْهُمَا حَتَّى صَلَّيْتُ الْعَصْرَ "۔
* تخريج: وقد أخرجہ: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۴۲)، حم۶/ ۳۰۴، ۳۱۰ (صحیح)
۵۸۰- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے گھر میں عصر کے بعد دو رکعت صلاۃ پڑھی تو انہوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ وہ دو رکعتیں ہیں جنہیں میں ظہر کے بعد پڑھتا تھا تو میں انہیں نہیں پڑھ سکا، یہاں تک کہ میں نے عصر پڑھ لی''، (تو میں نے اب عصر کے بعد پڑھی ہے)۔


581- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: شُغِلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَصَلاَّهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۹۳)، حم۶/۳۰۶ (حسن صحیح)
۵۸۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
37-الرُّخْصَةُ فِي الصَّلاةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
۳۷-باب: سورج ڈوبنے سے پہلے صلاۃ کی رخصت کا بیان​


582- أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ لاحِقًا عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ: كَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يُصَلِّيهِمَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ: مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ؟ فَاضْطَرَّ الْحَدِيثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ: فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَشُغِلَ عَنْهُمَا، فَرَكَعَهُمَا حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ أَرَهُ يُصَلِّيهِمَا قَبْلُ وَلا بَعْدُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۴)، حم۶/ ۳۰۹، ۳۱۱ (صحیح الإسناد)
۵۸۲- عمران بن حدیر کہتے ہیں: میں نے لاحق (بن حمید ابو مجلز) سے سورج ڈوبنے سے پہلے دو رکعت صلاۃ پڑھنے کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم انہیں پڑھتے تھے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پُچھوا بھیجا کہ سورج ڈوبنے کے وقت کی یہ دونوں رکعتیں کیسی ہیں؟ تو انہوں نے بات ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا دی، تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عصر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے تو(ایک مرتبہ)آپ انہیں نہیں پڑھ سکے، تو انہیں سورج ڈوبنے کے وقت ۱؎ پڑھی، پھر میں نے آپ کو انہیں نہ تو پہلے پڑھتے دیکھا اور نہ بعد میں۔
وضاحت ۱؎ : ایسے وقت میں پڑھی جب سورج کے ڈوبنے کا وقت قریب آگ یا تھا، یہ مطلب نہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی کیونکہ اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
38-الرُّخْصَةُ فِي الصَّلاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ
۳۸-باب: مغرب سے پہلے صلاۃ کی رخصت کا بیان​


583- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ قَامَ لِيَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَقُلْتُ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: انْظُرْ إِلَى هَذَا، أَيَّ صَلاةٍ يُصَلِّي؟ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ، فَرَآهُ، فَقَالَ: هَذِهِ صَلاةٌ كُنَّا نُصَلِّيهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
* تخريج: خ/التھجد ۳۵ (۱۱۸۴) نحوہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۱)، حم۴/ ۱۵۵ (صحیح)
۵۸۳- ابو الخیر کہتے ہیں کہ ابو تمیم جیشانی مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تومیں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: انہیں دیکھئے! یہ کون سی صلاۃ پڑھ رہے ہیں؟ تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیکھ کر بولے: یہ وہی صلاۃ ہے جسے ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے، صحیح بخاری (کے مذکورہ باب) میں عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ کی روایت میں تو '' صلوا قبل المغرب'' حکم کے صیغے کے ساتھ وارد ہے، یعنی مغرب سے پہلے(نفل)پڑھو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
39-الصَّلاةُ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ
۳۹-باب: طلوع فجر کے بعد صلاۃ پڑھنے کا بیان​


584- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زِيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لا يُصَلِّي إِلا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۲ (۶۱۸)، التھجد ۲۹ (۱۱۷۳)، ۳۴ (۱۱۸۱)، م/المسافرین ۱۴ (۷۲۳)، ت/الصلاۃ ۲۰۳ (۴۳۳)، ق/إقامۃ ۱۰۱ (۱۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۱)، حم۶/۲۸۴، دي/الصلاۃ ۱۴۶ ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۱۷۶۱، ۱۷۶۲ (صحیح)
۵۸۴- ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فجر طلوع ہونے کے بعد صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
40- إِبَاحَةُ الصَّلاةِ إِلَى أَنْ يُصَلِّيَ الصُّبْحَ
۴۰-باب: فجر پڑھنے تک (نفل)صلاۃ کے جائز ہونے کا بیان​


585- أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سُلَيْمَانَ وَأَيَّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَيُّوبُ حَدَّثَنَا، وَقَالَ حَسَنٌ: أَخْبَرَنِي شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ؟ قَالَ: " حُرٌّ وَعَبْدٌ "، قُلْتُ: هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - مِنْ أُخْرَى؟ قَالَ: " نَعَمْ! جَوْفُ اللَّيْلِ الآخِرُ، فَصَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَمَا دَامَتْ - وَقَالَ أَيُّوبُ: فَمَا دَامَتْ - كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تَنْتَشِرَ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ نِصْفَ النَّهَارِ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ "
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۴۸ (۱۲۵۱)، ۱۸۲ (۱۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۲)، حم۴/۱۱۱، ۱۱۳، ۱۱۴ (صحیح)
(پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس سند کے اندر '' عبدالرحمن بیلمانی '' ضعیف ہیں)
۵۸۵- عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ کون اسلام لایا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک آزاد اور ایک غلام'' ۱ ؎ میں نے عرض کیا: کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہو''؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہاں، رات کا آخری حصہ ہے، اس میں فجر پڑھنے تک جتنی صلاۃ چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور اسی طرح اس وقت تک رکے رہو جب تک سورج ڈھال کی طرح رہے (ایوب کی روایت میں''وما دامت'' کے بجائے ''فما دامت'' ہے) یہاں تک کہ روشنی پھیل جائے، پھر جتنی چاہو پڑھو یہاں تک کہ ستون اپنے سایہ پر کھڑا ہو جائے ۲؎ پھر رک جائو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لیے کہ نصف النہار (کھڑی دوپہر) میں جہنم سلگائی جاتی ہے، پھر جتنا مناسب سمجھو صلاۃ پڑھو یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر رک جائو یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے''۔
وضاحت ۱؎ : آزاد سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور غلام سے بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی سایہ کم ہوتے ہوتے صرف ستون کے نیچے رہ جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
41-إِبَاحَةُ الصَّلاةِ فِي السَّاعَاتِ كُلِّهَا بِمَكَّةَ
۴۱-باب: مکہ مکرمہ میں ہر وقت صلاۃ پڑھنے کے جواز کا بیان​


586- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ بَابَاهَ يُحَدِّثُ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! لاَ تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى، أَيَّةَ سَاعَةٍ شَائَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ "۔
* تخريج: د/المناسک ۵۳ (۱۸۹۴)، ت/الحج ۴۲ (۸۶۸)، ق/إقامۃ ۱۴۹ (۱۲۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۷)، حم۴/۸۰، ۸۱، ۸۴، دي/المناسک ۷۹ (۱۹۶۷)، ویأتي عند المؤلف في المناسک ۱۳۷ (برقم: ۲۹۲۷) (صحیح)
۵۸۶- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اے بنی عبد مناف! تم کسی کورات یا دن کسی بھی وقت اس گھر کا طواف کرنے، اور صلاۃ پڑھنے سے نہ روکو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
42-الْوَقْتُ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
۴۲-باب: مسافر کس وقت ظہر اور عصر کوجمع کرے؟​


587- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ۔
* تخريج: خ/تقصیرالصلاۃ ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، م/المسافرین ۵ (۷۰۴)، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۸)، حم۳/۲۴۷، ۲۶۵، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵) یأتي عند المؤلف برقم: ۵۹۵ (صحیح)
۵۸۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ۱؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں سفر میں جمع بین الصلوٰتین کا جواز ثابت ہوتا ہے، احناف سفر اور حضر کسی میں جمع بین الصلوٰتین کے جواز کے قائل نہیں، ان کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایت ''من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى باباً من أبواب الكبائر''ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے، قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین پر جو روایتیں دلالت کرتی ہیں وہ صحیح ہیں، ان کی تخریج مسلم اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں نے کی ہے۔


588- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ - عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ؛ أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَأَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۶)، الفضائل ۳ (۷۰۶) مختصراً، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۰۶، ۱۲۰۸)، ق/إقامۃ ۷۴ (۱۰۷۰) مختصراً، ط/السفر ۱ (۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰)، حم۵/۲۲۸، ۲۳۰، ۲۳۳، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۳۸، دي/الصلاۃ ۱۸۲ (۱۵۵۶)، (صحیح)
۵۸۸- ابو الطفیل عامر بن واثلۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی صلاتوں کو جمع کر کے پڑھتے رہے، چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک دن صلاۃ کو مؤخر کیا، پھر نکلے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ ادا کیا، پھر اندر داخل ہوئے، پھرن کلے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
43-بَيَانُ ذَلِكَ
۴۳-باب: جمع بین الصلاتین کا بیان​


589- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قَالَ: سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ عَنْ صَلاةِ أَبِيهِ فِي السَّفَرِ، وَسَأَلْنَاهُ هَلْ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْئٍ مِنْ صَلاتِهِ فِي سَفَرِهِ؟ فَذَكَرَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَهُ، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ وَهُوَ فِي زَرَّاعَةٍ لَهُ: أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا، وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الآخِرَةِ، فَرَكِبَ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ إِلَيْهَا، حَتَّى إِذَا حَانَتْ صَلاةُ الظُّهْرِ، قَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ! فَلَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ نَزَلَ فَقَالَ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ، فَصَلَّى ثُمَّ رَكِبَ، حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ قَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلاةَ، فَقَالَ: كَفِعْلِكَ فِي صَلاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتْ النُّجُومُ نَزَلَ، ثُمَّ قَالَ لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ، فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الأَمْرُ الَّذِي يَخَافُ فَوْتَهُ، فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلاةَ "
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۵)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۶ (۱۰۹۱)، العمرۃ ۲۰ (۱۸۰۵)، الجھاد ۱۳۶ (۳۰۰۰)، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۰۷)، ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۵)، حم۲/۵۱، ویأتي عند المؤلف برقم: (۵۹۸) (حسن)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی '' کثیر بن قاروندا'' لین الحدیث ہیں)
۵۸۹- کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ) کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی صلاۃ کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے ۱؎ تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمن! صلاۃ پڑھ لیجیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں صلاتوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر)تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے صلاۃ پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: صلاۃ پڑھ لیجیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے صلاۃ پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے)صلاۃ پڑھے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میری موت کا وقت قریب ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی تھوڑا سا رُک کر کے جیسا کہ صحیح بخاری میں ''فلما يلبث حتى يقيم العشائ'' کے الفاظ واردہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
44-الْوَقْتُ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُقِيمُ
۴۴-باب: مقیم کے جمع بین الصلاتین کرنے کے وقت کا بیان​


590- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا جَمِيعًا، وَسَبْعًا جَمِيعًا، أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَائَ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، ۱۸ (۵۶۲)، التھجد ۳۰ (۱۱۷۴)، م/المسافرین ۶ (۷۰۵) د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۴)، ''کلہم بدون قولہ: أخّر... إلخ''، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۷)، حم۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۷۳، ۲۸۵، ۳۶۶، ویأتی عند المؤلف برقم: ۵۹۱، ۶۰۴، (صحیح)
(لیکن ''أخر الظھر...إلخ'' کا ٹکڑا حدیث میں سے نہیں ہے، نسائی کے کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں ہے بھی نہیں، مدرج ہونے کی صراحت مسلم میں موجود ہے)
۵۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ایک ساتھ آٹھ رکعت، اور سات رکعت صلاۃ پڑھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا، اور عصر میں جلدی کی، اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔


591- أَخْبَرَنِي أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ -وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ- عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ صَلَّى بِالْبَصْرَةِ الأُولَى وَالْعَصْرَ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْئٌ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْئٌ، فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ شُغْلٍ، وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الأُولَى وَالْعَصْرَ ثَمَانِ سَجَدَاتٍ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْئٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۷) (صحیح)
۵۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے بصرہ میں پہلی صلاۃ ۱ ؎ (ظہر) اور عصر ایک ساتھ پڑھی، ان کے درمیان کوئی اور صلاۃ نہیں پڑھی، اور مغرب وعشاء ایک ساتھ پڑھی ان کے درمیان کوئی اور صلاۃ نہیں پڑھی، انہوں نے ایسا کسی مشغولیت کی بناء پر کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ پہلی صلاۃ (ظہر) اور عصر آٹھ رکعتیں پڑھی، ان دونوں صلاتوں کے درمیان کوئی صلاۃ فاصل نہیں تھی۔
وضاحت ۱؎ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلاۃ ظہر کو اولیٰ کہتے تھے کیونکہ یہی وہ پہلی صلاۃ تھی جسے جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پڑھائی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
45-الْوَقْتُ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ
۴۵-باب: مسافر کے مغرب اور عشاء کی صلاتوں کو جمع کرنے کا بیان​


592- أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ شَيْخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْحِمَى، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ هِبْتُ أَنْ أَقُولَ لَهُ: الصَّلاةَ، فَسَارَ حَتَّى ذَهَبَ بَيَاضُ الأُفُقِ وَفَحْمَةُ الْعِشَاءِ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ عَلَى إِثْرِهَا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۴۹)، حم ۲/۱۲ (صحیح)
۵۹۲- قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تومیں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ صلاۃ پڑھ لیجیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں سرکاری جانور چرا کرتے تھے اور یہ سرکاری چراگاہ تھی۔


593- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي حَمْزَةَ . ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ - وَاللَّفْظُ لَهُ - عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَجِلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۶ (۱۰۹۱)، ۱۳ (۱۱۰۶)، ۱۴ (۱۱۰۹)، العمرۃ ۲۰ (۱۸۰۵)، الجھاد ۱۳۶ (۳۰۰۰)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۶۸۴۴)، حم۲/۷، ۸، ۵۱، ۶۳ (صحیح)
۵۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔


594- أَخْبَرَنَا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَابَتِ الشَّمْسُ وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ بِسَرِفَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۷)، حم۳/۳۰۵ (ضعیف الإسناد)
(اس کے رواۃ ''مومل، یحییٰ، اور عبدالعزیز'' تینوں حافظے کے کمزور رواۃ ہیں)
۵۹۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں تھے، تو آپ نے مقام سرف ۱؎ میں مغرب اور عشاء کی صلاتیں اکٹھی پڑھیں۔
وضاحت ۱؎ : سرف مکہ سے دس میل کی دوری پر ایک جگہ ہے سورج ڈوبنے کے بعد اتنی مسافت طے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جمع صوری نہیں حقیقی رہی ہوگی، اور صلاۃ آپ نے شفق غائب ہونے کے بعد پڑھی ہوگی۔


595- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، فَيَجْمَعُ بَيْنَهُمَا، وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حَتَّى يَغِيبَ الشَّفَقُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۵۸۷ (صحیح)
۵۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔


596- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا، فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ لِمَا بِهَا، فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِكَهَا، فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ، وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلاةَ، وَكَانَ عَهْدِي بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَى الصَّلاةِ، فَلَمَّا أَبْطَأَ، قُلْتُ: الصَّلاةَ؛ يَرْحَمُكَ اللَّهُ! فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَمَضَى، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَائَ، وَقَدْ تَوَارَى الشَّفَقُ فَصَلَّى بِنَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَكَذَا۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۵۹) (صحیح)
۵۹۶- نافع کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین(کھیتی)کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہاـ: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے صلاۃ نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ صلاۃ کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! صلاۃ پڑھ لیجیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) صلاۃ پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔


597- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ تِلْكَ اللَّيْلَةُ سَارَ بِنَا حَتَّى أَمْسَيْنَا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ نَسِيَ الصَّلاةَ، فَقُلْنَا لَهُ: الصَّلاةَ، فَسَكَتَ وَسَارَ حَتَّى كَادَ الشَّفَقُ أَنْ يَغِيبَ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، وَغَابَ الشَّفَقُ فَصَلَّى الْعِشَائَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ: هَكَذَا كُنَّا نَصْنَعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۳۱) (صحیح)
۵۹۷- نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ صلاۃ بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: صلاۃ پڑھ لیجیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے صلاۃ پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے : جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جمع صوری تھی حقیقی نہیں، لیکن صحیح مسلم کی روایت میں نافع سے ''جمع بین المغرب والعشاء بعدأن یغیب الشفق'' کے الفاظ وارد ہیں، اور صحیح بخاری میں'' حتی کان بعد غروب الشفق نزل فصلی المغرب والعشاء جمعاًبینہما'' اور سنن ابوداود میں ''حتی غاب الشفق وتصوبت النجوم نزل فصلی الصلاتین جمعاً'' اور عبدالرزاق کی روایت میں ''فاخرالمغرب بعد ذہاب الشفق حتی ذہب ہوی من اللیل'' کے الفاظ ہیں، ان روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اسے تعدد واقعہ پر محمول کیا جائے، نہیں تو صحیحین کی روایت راجح ہو گی۔


598- أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قَالَ: سَأَلْنَا سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ عَنْ الصَّلاة فِي السِّفْر، فَقُلْنَا: أَكَانَ عَبْدُاللَّهِ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْئٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ فِي السَّفَرِ؟ فَقَالَ: لاَ، إِلاَّ بِجَمْعٍ، ثُمَّ انْتَبِهْ فَقَالَ: كَانَتْ عِنْدَهُ صَفِيَّةُ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا، وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الآخِرَةِ، فَرَكِبَ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى حَانَتْ الصَّلاةُ، فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلاةَ يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! فَسَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ نَزَلَ، فَقَالَ لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ مِنْ الظُّهْرِ، فَأَقِمْ مَكَانَكَ، فَأَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ أَقَامَ مَكَانَهُ، فَصَلَّى الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكِبَ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلاةَ يَاأَبَاعَبْدِالرَّحْمَنِ! فَقَالَ: كَفِعْلِكَ الأَوَّلِ، فَسَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتْ النُّجُومُ، نَزَلَ فَقَالَ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلاثًا، ثُمَّ أَقَامَ مَكَانَهُ، فَصَلَّى الْعِشَائَ الآخِرَةَ، ثُمَّ سَلَّمَ وَاحِدَةً تِلْقَائَ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ أَمْرٌ يَخْشَى فَوْتَهُ، فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلاةَ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۵۸۹ (حسن)
۵۹۸- کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ ہم نے سالم بن عبداللہ سے سفر کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا، ہم نے کہا: کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، سوائے مزدلفہ کے، پھر چونکے اور کہنے لگے: ان کے نکاح میں صفیہ تھیں، انہوں نے انہیں کہلوا بھیجا کہ میں دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ۱؎ (اس لیے آپ آکر آخری ملاقات کر لیجئے)، تو وہ سوار ہوئے، اور میں اس ان کے ساتھ تھا، وہ تیز رفتاری سے چلتے رہے یہاں تک کہ صلاۃ کا وقت آ گیا، تو ان سے مؤذن نے کہا: ابوعبدالرحمن! صلاۃ پڑھ لیجئے، لیکن وہ چلتے رہے یہاں تک کہ دونوں صلاتوں کا درمیانی وقت آ گیا، تو اترے اور مؤذن سے کہا: اقامت کہو، اور جب میں ظہر پڑھ لوں تو اپنی جگہ پر(دوبارہ) اقامت کہنا، چنانچہ اس نے اقامت کہی، تو انہوں نے ظہر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر تو (موذن نے)اپنی اسی جگہ پر پھر اقامت کہی، تو انہوں نے عصر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سوار ہوئے اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو موذن نے ان سے کہا : ابو عبدالرحمن صلاۃ پڑھ لیجئے، تو انہوں نے کہا جیسے پہلے کیا تھا، اسی طرح کرو اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے تو اترے، اور کہنے لگے: اقامت کہو، اور جب سلام پھیر چکوں تو دوبارہ اقامت کہنا، پھر انہوں نے مغرب کی تین رکعت پڑھائی، پھر اپنی اسی جگہ پر اس نے پھر تکبیر کہی تو انہوں نے عشاء پڑھائی، اور اپنے چہرہ کے سامنے ایک ہی سلام پھیرا، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اسی طرح صلاۃ پڑھے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے۔
 
Top