اس پر کیا بات کریں۔۔۔
خضرحیات بھائی نے آپ کو دلائل پیش کئے۔۔۔
پھر آپ نے اپنی علمی قابلیت کی چند نمونے پیش کئے لنک کی صورت میں۔۔۔
اُس کی بھی حقیقت بفضل تعالٰی عیاں ہوگئی۔۔۔
لیکن ساتھ ساتھ کچھ مزید عقائد رافضیوں کے سمجھنے کو ملے۔۔۔
ملاحظہ کیجئے۔۔۔
الفاظوں کی تلخی پر پیشگی معذرت قبول کیجئے۔۔۔
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے “الاصابہ“ کے دیباچے میں امام ابوزرعہ رازی کا قول نقل کیا ہے۔۔۔
ان رائت الرجل ینتقص احد من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق، وذلک ان الرسول حق، والقرآن حق، وما جاء بہ حق، وانما ادی الینا ذلک کلہ الصحابہ، والسنہ، والجرح بہم اولی وھم زنادقہ (الاصابہ صفحہ ١٠ جلد ١)۔۔۔
جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے وجہ اس کی یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے، اور جو دین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لائے، وہ برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک صحابہ کرام نے پہنچائی ہیں لہذا صحابہ ہمارے لئے رسال محمدیہ کے گواہ ہیں اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کر کے کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں لہذا یہ لوگ خود لائق جرح ہیں اور یہ بدترین زندیق ہیں۔۔۔
خلاصہ یہ کے ہمارا دین حق تعالٰی شانہ کی جانب سے نازل ہوا ہے اور چند واسطوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے دین پر اعتماد اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہم تک لائق اعتماد واسطوں سے پہنچا ہو۔۔۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور بعد کی اُمت کے درمیان سب سے پہلا واسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اگر وہ لائق اعتماد نہیں تو دین کی کوئی چیز بھی لائق اعتماد نہیں رہتی لہذا صحابہ کرام کے اعتماد کو مجروح کرنا درحقیقت دین کے اعتماد کو مجروح کرنا ہے۔۔۔
حق تعالٰی شانہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات میں سے منتخب فرمایا، اس لئے آپ زبدہ کائنات، سید البشر، خیرالبشر اور فخراولاد آدم ہیں۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خیرالکتب ہے، آپ کا دین خیرالادیان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت خیرالامم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خیرالقرون ہے۔۔۔ تو لازما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی خیرالاصحاب ہیں (رضی اللہ عنھم)۔۔۔
چنانچہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے۔۔۔
عن عویم بن ساعدۃ رضی اللہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، ان اللہ تبارک وتعالٰی اختارنی واختار لی اصحابا، فجعل لی منھم وزارء وانصارا واصھارا، فمن سبہم فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین، لایقبل منہ یوم القیامۃ صرف ولا عدل، ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ، وقال الذھبی صحیح۔۔۔(مستدرک حاکم صفحہ ٦٣٢ جلد ٣)۔۔۔
حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔۔۔ کے بیشک اللہ تبارک وتعالٰی نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چُن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر، میرے مددگار اور میرے سسرالی رشتہ دار بنادیا پس جو شخص ان کو برا کہتاہے اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت، قیامت کے دن نہ اس کا کوئی فرض قبول ہوگا، نہ نقل۔۔۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کے جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے تمام اولاد آدم علیہ السلام میں چھانٹ کر منتخب فرمایا اسی طرح لائق ترین افراد کو چھانٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا۔۔۔اس انتخاب خداوندی کے نتیجہ میں یہ حضرات، جن کو صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چُنا گیا اپنی علواستعداد اور اپنے جوہری کمالات کے لحاظ سے انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل تھے اسی بناء پر ان کو اللہ تعالٰی نے خیراُمت کا خطاب دیا پس اگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سےبہتر اور افضل کوئی اور انسان ہوتے تو اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وصحبت کے لئے اُن کا منتخب فرماتے۔۔۔ اس لئے صحابہ کرام کی تنقیص صرف محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ حق تعالٰی شانہ کے انتخاب کی بھی توہین وتنقیص ہے اور جو شخص صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور انتخاب خداوندی کی تنقیص کرتا ہو اس کے بارے میں شدید سے شدید وعید بھی قرین قیاس ہے۔۔۔
اب اُن کے عقیدے کا جائزہ لیتے ہیں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی زبانیں دراز کرتے ہیں۔۔۔
ملاحظہ کیجئے۔۔۔
ماتروبہ العامہ من اخبار الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ ان الصحیح من ذلک عندھم علیھم السلام، والنھی عن الرجوع الی اخبار المخالفین وفیہ ذکر الکذابین (بخار الانوار صفحہ ٢١٤ جلد)۔۔۔
جو احادیث غیرشیعہ کی روایت سے ہوں ان میں سے صحیح وہی ہیں جو آئمہ کے پاس ہوں اور مخالفین کی روایت کردہ کی طرف رجوع کرنا ممنوع ہے اور اس باب میں جھوٹی روایتیں کرنے والوں کا بھی ذکر ہے۔۔
اسی کتاب میں ١٤ روایتیں نقل کی ہیں کے امام کی تائید وتصدیق کے بغیر دوسروں کی روایت کا اعتبار نہیں۔۔۔ اسی بات کی روایت ١١ میں امام جعفر رحمہ اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجئے۔۔۔
الطالقانی عن الجلوی عن محمد بن ذکریا عن جعفر بن محمد بن عمارہ قال سمعت جعفر بن محمد علیہ السلام یقول ثلاثہ کانوایکذبون علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوھریرہ وانس بن مالک و امراۃ یعنی عائشہ۔۔۔
تین صحابی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے تھے ابرہریرہ، انس بن مالک اور ایک عورت (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نعوذ باللہ (بحار الانوار صفحہ ٢١٧ جلد ٣)۔۔۔
لہذا اب دیانتداری یہ کہلائے گی۔۔۔
کے آپ اپنے عقیدے کی کتابوں کو آگ لگائیں۔۔۔
اور پھر اُس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل ہوگا کے آپ اہلسنت والجماعت کی کتابوں میں موجود احادیث پر کلام کریں۔۔۔
لہذا اہلسنت والجماعت والے معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے۔۔۔ یہ اُن کا مسئلہ ہے۔۔۔ شیعوں کا نہیں۔۔۔
شیعوں کو اس بات کا غم ہونا چاہئے کے اہلسنت والجماعت والے عمر اور ابوبکر نام آج بھی شوق و ذوق سے رکھتے ہیں۔۔۔
لہٰذا ٹائٹل ہوگا کبھی خوشی کبھی غم۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔