آئیں دیکھیں کہ آپ کے اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے اہل سنت کی حدیث کی کتابوں میں
والسلام
بہرام بھائی۔۔۔
آپ دعوٰے ہی دکھاتے رہو گے یا اس جنگ صفین پر اہلسنت والجماعت کا موقف بھی پیش کرو گے؟؟؟۔۔۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
ہمارے نزدیک ابن ملجم (ملعون) اُن لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم جہنم کی اُمید رکھتے ہیں۔۔۔ اور اس بات کو بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اللہ اس سے درگذر کرلے۔۔۔ یعنی ہم اللہ تعالٰی پر اپنا فیصلہ بھی نہیں ٹھونس سکتے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو قائل عثمان رضی اللہ عنہ اور قاتل زبیر رضی اللہ عنہ، اور قاتل طلحہ رضی اللہ عنہ اور قاتل سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اور قاتل عمار رضی اللہ اور قاتل خارجہ رضی اللہ عنہ اور قاتل حسین رضی اللہ عنہ کا ہے۔۔۔
اب رہی بات کے صحابہ کرام کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں تھا؟؟؟۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا۔۔۔ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کےوقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی۔۔۔ چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کے حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قریب تھا کیونکہ حدیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں۔۔۔
تقتلم اقرب الطائفتین الی الحق
ان (خارجیوں) کو دونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف ہوگی۔۔۔
اور ایک روایت میں ہے۔۔۔
اولٰی الطائفین الی الحق۔۔۔
دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔۔۔
لہذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ
جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالف سے حق کے زیادہ قریب تھے۔۔۔
لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔
الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب)
الاولی بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرمایا تھا کے وہ جماعت مکمل طور پر حق پر ہوگی۔۔۔
یہ تجزیہ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید وطعن نہیں ہے بلکہ اس بات سے وضاحت کرنا مقصود ہے جس کی وجہ روافض کے اُن اوچھے ہتکھنڈوں کو روکنے کی سعی ہے جس کے سبب انہوں نے کبار صحابہ کرام کو طعن وتشنع کا مرکز بنایا ہوا ہے۔۔۔ اور سب سے اہم بات کہ جو لوگ اس فتنہ میں الگ تھلگ تھے دراصل وہی حق پر تھے۔۔۔ جبکہ حضرت علی کے لئے بھی سلامتی اسی بات میں تھی کہ وہ لڑائی سے رُک جاتے کیونکہ نتائج دیکھ کر ہی رائے قائم کی جاتی ہے اسی لئے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مقتول پایا تو پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے اور پشیماں ہوتے ہوئے فرمایا۔۔۔ کاش میں بیس سال قبل مرگیا ہوتا۔۔۔
اور جب جنگ صفین کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کشت وخون کی تفصیل سنائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا اس لئے وہ ان معرکوں میں شریک ہونے پر شرمندہ ہوئے۔۔۔
دوسری طرف حضرت محمد مصطفٰٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کے صلح جویانہ کردار کی پیشنگوئی فرماتے ہوئے ان کی تعریف بیان کی تھی اور فرمایا تھا۔۔۔
ان انبی ھذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ بین طائفین عظیمتین من المسلمین۔
کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور شاید کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرداے (
صحیح بخاری، باب مناقب الحسن والحسین حدیث نمبر ٣٧٤٦)۔۔۔
اگر دوسرا گروہ باغی ہوتا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ وعید کیوں سناتے کے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرادے؟؟؟۔۔۔ لیکن روافض کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف میں بیان نہیں کی۔۔۔ کیونکہ انہوں نے جنگ کی تھی۔۔۔
البتہ نہروان میں خارجیوں سے لڑائی کی وجہ سے ان کی تعریف کی، کیونکہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ مکمل طور پر حق پر تھے۔۔۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی پر کسی طرح کا غم بھی نہیں کیا بلکہ عام طور پر مسلمان، خارجیوں کے اس قتل پر خوش ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب انہیں قتل کیا تو وہ خود سجدہ شکر ادا کیا لیکن جب جنگ جمل سے لڑائی لڑی تو روپڑے اور اسی طرح جب صفین میں جنگ لڑی تو بھی سخت غمگین ہوئے۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کوفیوں نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی اور آپ اپنی بیعت کے سامیوں سے لڑنے کے لئے کوفہ سے شام کی طرف چل پڑے کیونکہ اہل شام ابھی تک امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کے بعد امیرالمومنین حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی اطاعت تسلیم کرنے سے روگرداں تھے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما جب کوفہ سے نکلے تو آپ کی نیت میں صلح کی خواہش تھی اور آپ کشت وخون کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ آپ اس بات کے حق میں بھی نہ تھے کہ اُن کے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل شام سے جنگ کریں
(البدایۃ والنھایۃ ٧\٢٤٥)۔۔۔
اور آپ کی نیت صلح کی علامت میں سے یہ بات بھی نمایاں تھی کے آپ نے حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کو لشکر کی قیادت سے معزول کرکے اُن کی جگہ حضرت عبداللہ بن عباس کو سپہ سالار بنادیا
(فتح الباری ١٣\٦٧)۔۔۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کے جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما فوجی دستوں کو لے کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے تو حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا۔۔۔
میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک نہیں پھرے گا جب تک اس کا آخری حصہ میدان سے نہ پھرے گا۔۔۔
تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ کہ مسلمانوں کی اولاد کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟؟؟۔۔۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ میں!۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عامر اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ہم ان سے ملاقات کرتے ہیں اور صلح کی درخواست کرتے ہیں۔۔۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور ابوبکرہ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا۔۔۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے فرمایا۔۔۔
ابنی ھذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ فئتین من المسلمین۔
میرا یہ بیٹا سید ہے اور شاید کہ اس کے ذریعے
مسلمانوں کے دو گرہوں کے درمیان صلح کرادے۔۔۔(رواہ بخاری)۔۔۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔۔۔
کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سفید کاغذ کے نیچے مہرلگا کر اُسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجدیا اور فرمایا۔۔۔ آپ اس پر جو چاہیں لکھ دیں وہ آپ کو ملے گا۔۔۔
عمرو بن العاص کہنے لگے۔۔۔ بلکہ ہم جنگ کریں گے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کے ٹھہرئے اے ابو عبداللہ (زہری کہتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ دونوں میں سے بہتر آدمی تھے) آپ اُن کے قتل سے اس وقت تک خلاصی حاصل نہ کریں گے جب تک، اتنے شامی قتل نہ ہوجائیں ان کے بعد جینے میں کوئی خیر نہ ہوگی اور اللہ کی قسم میں تو اس وقت لڑائی سے گریز کروں گا جب تک اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا
(مصنف عبدالرزاق ٥\٤٦٢)۔۔۔
اس موقع پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے ملے تو آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے اس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین بن گئے اور اس سال کا نام عام الجماعۃ پڑ گیا۔۔۔
سنن ابی داؤد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم ابوعبدالرحمٰن سفینہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یوتی اللہ ملکہ من یشاء
کہ خلافت نبوت تیس سال رہے گی
پھر اللہ جسے چاہے گا اُسے بادشاہی عطاء کرے گا۔۔۔
(ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء حدیث ٤٦٤٦، مسند احمد ٤\٢٧٣، ٥\٥٠٢٤٤)۔۔۔
اب کچھ سوالات جو ذہن میں آتے ہیں۔۔۔
١۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفیوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۔۔ کیا اس طرح کی بیعت کی شرعاََ کوئی دلیل تھی؟؟؟۔۔۔
٢۔ اللہ کے رسول محمد مصطفٰٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کی بشارت دی، اسی طرح حسن رضی اللہ عنہ کے کا مسلمان کے دوگرہوں کے درمیان صلح کرانے کی پیشگوئی کیا معنی رکھتی ہے؟؟؟ِ۔۔۔ یہ وہ جماعت گمراہ جماعت ہوگی جس کے حق میں حسن رضی اللہ عنہ دستبردار ہوجائیں گے؟؟؟ِ۔۔
٣۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پشنگوئی کے خلافت کے بعد اللہ تعالٰی جس کو چاہئے گا اس کو بادشاہی عطاء کرے گا۔۔۔ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو گروہ کہاں سے کس زاویئے سے گمراہ ہوسکتا ہے جب کے دونوں احادیث موجود ہیں۔۔۔
خلاصہ کلام۔۔۔
محترم بھائی صاحب۔۔۔ یہ جو آپ اتنی محنت کرتے ہیں۔۔۔ اور چیدہ چیدہ معلومات توڑ مروڑ کے پیش کرتے ہیں فتنہ انگیزی پھیلانے کے لئے اس سے آپ کو کیا ملے گا؟؟؟۔۔۔
جب آپ اپنی ساری محنت کا منبع اہلسنت والجماعت کی کتابوں سے نکال رہے ہوتے ہیں تو تھوڑا مغزز یہاں بھی لگا لیا کریں کے ان معاملات میں اہلسنت والجماعت کا موقف کیا ہے؟؟؟۔۔۔ سکوت۔۔۔
یہ علمی بدیاتنی اور دلوں کا خائن پن ہے جو بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔۔۔ کے چیدہ چیدہ معلومات اہلسنت والجماعت کی کتابوں سے جمع کرکے نسلی بغض کا مظاہرہ غیرضروری طور پر کرنا ضروری ہے؟؟؟۔۔۔
مجھے اب پوری اُمید ہے آپ بھی عملی شرافت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہمارے علماء حق کی طرح سکوت اختیار کریں گے۔۔۔
ان شاء اللہ تعالٰی۔۔۔
والسلام علیکم
واللہ اعلم۔۔