• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنی معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آپ ہی بیان کردیں کہ اس روایت کہ حقیقت کیا ہے لیکن یہ یاد رہے یہ روایت صحیح مسلم کی ہے
یاد دہانی کا شکریہ۔۔۔
لیکن میں چاہتا ہوں آپ کی بات عقیدے کی شکل میں یہاںمحفوظ ہوجائے ۔۔۔
پھر کلام میں مزہ بھی آئے گا۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس پر کیا بات کریں۔۔۔
خضرحیات بھائی نے آپ کو دلائل پیش کئے۔۔۔
پھر آپ نے اپنی علمی قابلیت کی چند نمونے پیش کئے لنک کی صورت میں۔۔۔
اُس کی بھی حقیقت بفضل تعالٰی عیاں ہوگئی۔۔۔
لیکن ساتھ ساتھ کچھ مزید عقائد رافضیوں کے سمجھنے کو ملے۔۔۔

ملاحظہ کیجئے۔۔۔
الفاظوں کی تلخی پر پیشگی معذرت قبول کیجئے۔۔۔

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے “الاصابہ“ کے دیباچے میں امام ابوزرعہ رازی کا قول نقل کیا ہے۔۔۔

جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے وجہ اس کی یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے، اور جو دین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لائے، وہ برحق ہے اور یہ ساری چیزیں ہم تک صحابہ کرام نے پہنچائی ہیں لہذا صحابہ ہمارے لئے رسال محمدیہ کے گواہ ہیں اور یہ لوگ ہمارے گواہوں کو مجروح کر کے کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتے ہیں لہذا یہ لوگ خود لائق جرح ہیں اور یہ بدترین زندیق ہیں۔۔۔

خلاصہ یہ کے ہمارا دین حق تعالٰی شانہ کی جانب سے نازل ہوا ہے اور چند واسطوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے دین پر اعتماد اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہم تک لائق اعتماد واسطوں سے پہنچا ہو۔۔۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور بعد کی اُمت کے درمیان سب سے پہلا واسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اگر وہ لائق اعتماد نہیں تو دین کی کوئی چیز بھی لائق اعتماد نہیں رہتی لہذا صحابہ کرام کے اعتماد کو مجروح کرنا درحقیقت دین کے اعتماد کو مجروح کرنا ہے۔۔۔

معذرت چاھتا ہوں کہ میرے کمپوٹر میں اردو لکھنے میں دشواری ہے اس لئے حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب الجامع کے صفحات کو جو ں کا تو ں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ آپ حضرات حافظ ابن حجر عسقلانی کے اقوال کی کس انداز سے پزیرائی کرتے ہیں اور دوسروں کو حافظ صاحب کے اقوال مانے پر زور دیتے ہیں



امید ہے اب آپ جس طرح حافظ ابن حجر عسقلانی کے قول کو نہیں مان رہے تو دوسروں کو بھی اس معاملے میں طنز کا نشانہ نہیں بنائے گے
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
چنانچہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے۔۔۔

حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔۔۔ کے بیشک اللہ تبارک وتعالٰی نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چُن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر، میرے مددگار اور میرے سسرالی رشتہ دار بنادیا پس جو شخص ان کو برا کہتاہے اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت، قیامت کے دن نہ اس کا کوئی فرض قبول ہوگا، نہ نقل۔۔۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کے جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے تمام اولاد آدم علیہ السلام میں چھانٹ کر منتخب فرمایا اسی طرح لائق ترین افراد کو چھانٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب فرمایا۔۔۔اس انتخاب خداوندی کے نتیجہ میں یہ حضرات، جن کو صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چُنا گیا اپنی علواستعداد اور اپنے جوہری کمالات کے لحاظ سے انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل تھے اسی بناء پر ان کو اللہ تعالٰی نے خیراُمت کا خطاب دیا پس اگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سےبہتر اور افضل کوئی اور انسان ہوتے تو اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وصحبت کے لئے اُن کا منتخب فرماتے۔۔۔ اس لئے صحابہ کرام کی تنقیص صرف محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ حق تعالٰی شانہ کے انتخاب کی بھی توہین وتنقیص ہے اور جو شخص صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور انتخاب خداوندی کی تنقیص کرتا ہو اس کے بارے میں شدید سے شدید وعید بھی قرین قیاس ہے۔۔۔
ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو صحابی رسول حضرت عمار کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دے چکا ہے کہ وہ انہیں کبھی غلط راستے پر نہیں لے جا سکتا کوشہید کردے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی بشارت دے چکے کہ افسوس عمار کو باغی جماعت شہید کرے گی جبکہ ان باغیوں کے جیسے نام نہ رکھنے پر سنی بھائیوں پر سبائیت اور مجوست کا الزام بھی دھردیا جاتا ہے
انصاف سے کام لیجئے
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تین صحابی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے تھے ابرہریرہ، انس بن مالک اور ایک عورت (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نعوذ باللہ (بحار الانوار صفحہ ٢١٧ جلد ٣)۔۔۔

لہذا اب دیانتداری یہ کہلائے گی۔۔۔
کے آپ اپنے عقیدے کی کتابوں کو آگ لگائیں۔۔۔
اور پھر اُس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل ہوگا کے آپ اہلسنت والجماعت کی کتابوں میں موجود احادیث پر کلام کریں۔۔۔
لہذا اہلسنت والجماعت والے معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے۔۔۔ یہ اُن کا مسئلہ ہے۔۔۔ شیعوں کا نہیں۔۔۔
شیعوں کو اس بات کا غم ہونا چاہئے کے اہلسنت والجماعت والے عمر اور ابوبکر نام آج بھی شوق و ذوق سے رکھتے ہیں۔۔۔
لہٰذا ٹائٹل ہوگا کبھی خوشی کبھی غم۔۔۔

واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔
جب یہی بات کوئی اور کرے کہ صحابی ،رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تو کیا وہ بھی ایسی زمرے میں آئے گا

ابی الاشعث کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: ’کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟‘ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے‘۔
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: أبو نعيم - المصدر: حلية الأولياء - الصفحة أو الرقم: 2/337
خلاصة حكم المحدث: صحيح ثابت

کیا اب لینے اور دینے کے باٹ الگ الگ کرو گے
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بہرام بھائی سلام علیکم۔۔۔
سرکار میں نے پہلے بھی عرض مجھے پتہ ہے آپ کے پاس بہت علم ہے ماشاء اللہ۔۔۔
لیکن ادھر اُدھر کی دینے سے بہتر یہ نہیں ہے ہم براہ راست موضوع پر بات کریں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
افسوس عمار کو باغی جماعت شہید کرے گی انصاف سے کام لیجئے
والسلام
بہرام بھائی۔۔۔
تو بقول حدیث کی تاویل سے جس جماعت پر آپ باغی جماعت کا لیبل چسپاں کررہے ہیں۔۔۔
اس میں تو اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا بھی شامل تھیں۔۔۔
مگر ہمارے پاکستان میں لاتعداد خواتین اور لڑکیوں کا نام عائشہ ہے۔۔۔
ذرا اس طرف بھی توجہ دیجئے۔۔۔آخر یہ کھلا تضاد کیسا؟؟؟۔۔۔
ایک اور بات مجھے ذرا یہ بھی بتادیں۔۔۔
آیت اللہ خمینی آپ کے امام ہیں۔۔۔
پاکستان میں کتنے شیعہ ایسے ہیں جن کا نام خمینی ہو؟؟؟۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جب یہی بات کوئی اور کرے کہ صحابی ،رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تو کیا وہ بھی ایسی زمرے میں آئے گا

ابی الاشعث کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: ’کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟‘ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص) کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے‘۔
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: أبو نعيم - المصدر: حلية الأولياء - الصفحة أو الرقم: 2/337
خلاصة حكم المحدث: صحيح ثابت

کیا اب لینے اور دینے کے باٹ الگ الگ کرو گے
والسلام
یہ عبادہ بن الصامت کون تھے۔۔۔ ؟؟؟۔۔۔
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ويح عمار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ تقتله الفئة الباغية،‏‏‏‏

اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کس نے شہید کیا یہ آپ بتادیں
پتہ تو تم کو سب کچھ ہے پھر بھی کچھ وضاحت کئے دیتا ہوں
حضرت عمار﷜ کو شہید کرنے الے وہ شیعہ تھے جو حضرت عثمان﷜ کے قاتل ہیں
اور یہی وہ باغی گروہ ہے جس نے خود کو بچانے کیلئے حضرت علی ﷜ کا جھوٹا ساتھ دیا
اور یہی وہ گروہ ہے جس نے وفا کے نام پر دھوکہ دیتے ہوئے حضرت علی المرتضی ﷜ کو شہید کیا
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نواسہ رسولﷺ حضرت حسن ﷜ کو صرف اس لیئے زہر دیا کہ انہوں نے صلح کی پیش قدمی کر کے امت کو متحد کر دیا اور یہ باغی امت کا اتفاق نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ عبداللہ بن صبا کی اولاد نے اسلام کا شیرازہ بکھیرنے کی قسم کھا رکھی تھی
اور یہی وہ گروہ ہے جس نے حضرت حسین ﷜ کو اپنے گھر بلا کر خود اپنے ہاتھوں سے شہید کیا
آج بھی وہی یہود کی اولاد اسلام کا لبادہ اوڑھے اسلام دشمنی میں بر سر پیکار ہیں
اور یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ جماعت رافضی شیعوں کی جماعت ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
پتہ تو تم کو سب کچھ ہے پھر بھی کچھ وضاحت کئے دیتا ہوں
حضرت عمار﷜ کو شہید کرنے الے وہ شیعہ تھے جو حضرت عثمان﷜ کے قاتل ہیں

اور یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ جماعت رافضی شیعوں کی جماعت ہے[/COLOR]
آئیں دیکھے کہ آپ کے اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے اہل سنت کی حدیث کی کتابوں میں
جب حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل معاویہ بن ابی سفیان کے پاس پہنچے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ "يا عبد الله بن عمرو، كيف بك إذا بقيت في حثالة من الناس بهذا‏"‏‏. اے عبداللہ بن عمرو تیرا کیا حال ہوگا جب تو برے لوگوں میں رہ جائے گا معاویہ بن ابی سفیان کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں دو آدمی جھگڑا کرتے ھوئے آئے اور دونوں یہ دعوئ کر رھے تھے کہ حضرت عمار کو انہوں نے شھید کیا، اس پر عبداللہ بن عمرو نے ان سے کہا کہ ایک دوسرے کو مبارک دو، میں نے رسول اللہ سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ عمار کو باغی گروہ ھلاک کرے گا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ اے عمرو (یعنی ان کے والد سے کہا)! آپ اپنے اس دیوانے سے ھمیں آزاد کیوں نہیں کرا دیتے? یہ ھمارے ساتھ کیا کر رھا ھے? اس پر عبداللہ نے کہا کہ ایک دفعہ میرے والد نے میری نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی، جس پر انہوں نے مجھ سےفرمایا کہ والد کی اطاعت کرنا، نافرمانی نہ کرنا، اس وجہ سے میں آپ کے ساتھ ھوں مگر لڑا نہیں
إني لجالسٌ عندَ معاويةَ إذ دخَل رجلانِ يختصمانِ في رأسِ عمارٍ وكلُّ واحدٍ منهما يقولُ: أنا قتلتُه فقال عبدُ اللهِ بنُ عمرٍو: ليطِبْ أحدُكما به نفسًا لصاحبِه فإني سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ: تقتلُه الفئةُ الباغيةُ قال معاويةُ: ألا تُغني عنا مجنونَكَ يا عمرُو فما له معَنا قال: إني معَكم ولستُ أقاتلُ إنَّ أبي شَكاني إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أطِعْ أباكَ ما دام حيًّا ولا تَعصِهِ فأنا معَكم ولستُ أقاتلُ
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 8/15
خلاصة حكم المحدث: صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزله وولى المغيرة بن شعبة.
وفي " مسند أحمد ": حدثنا يزيد، أنبأنا العوام، حدثني أسود بن مسعود، عن حنظلة بن خويلد العنبري، قال: بينما أنا عند معاوية، إذ جاءه رجلان يختصمان في رأس عمار رضي الله عنه، فقال كل واحد منهما: أنا قتلته. فقال عبد الله بن عمرو: ليطب به أحدكما نفسا لصاحبه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " تقتله الفئة الباغية " فقال معاوية: يا عمرو!
ألا تغني عنا مجنونك، فما بالك معنا؟ قال: إن أبي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " أطلع أباك ما دام حيا " فأنا معكم، ولست أقاتل


سير أعلام النبلاء - الذهبي - ج ٣ - الصفحة ٩٢

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقتله الفئة الباغية فقال معاوية : ألا تغني عنا مجنونك يا عمرو فما بالك معنا ؟ قال : إن أبي شكاني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : أطع أباك ما دام حيا ولا تعصه فأنا معكم ولست أقاتل
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 11/139
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


آپ خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ رسول اللہ کی بشارت کی روشنی میں عبدالله بن عمرو کن خراب لوگوں میں رہ گئے تھے اور اس روایت کی روشنی میں حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے شہید کیا
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آئیں دیکھیں کہ آپ کے اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے اہل سنت کی حدیث کی کتابوں میں
والسلام
بہرام بھائی۔۔۔
آپ دعوٰے ہی دکھاتے رہو گے یا اس جنگ صفین پر اہلسنت والجماعت کا موقف بھی پیش کرو گے؟؟؟۔۔۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
ہمارے نزدیک ابن ملجم (ملعون) اُن لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم جہنم کی اُمید رکھتے ہیں۔۔۔ اور اس بات کو بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اللہ اس سے درگذر کرلے۔۔۔ یعنی ہم اللہ تعالٰی پر اپنا فیصلہ بھی نہیں ٹھونس سکتے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو قائل عثمان رضی اللہ عنہ اور قاتل زبیر رضی اللہ عنہ، اور قاتل طلحہ رضی اللہ عنہ اور قاتل سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اور قاتل عمار رضی اللہ اور قاتل خارجہ رضی اللہ عنہ اور قاتل حسین رضی اللہ عنہ کا ہے۔۔۔

اب رہی بات کے صحابہ کرام کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں تھا؟؟؟۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا۔۔۔ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کےوقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی۔۔۔ چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کے حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قریب تھا کیونکہ حدیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں۔۔۔

تقتلم اقرب الطائفتین الی الحق
ان (خارجیوں) کو دونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف ہوگی۔۔۔

اور ایک روایت میں ہے۔۔۔
اولٰی الطائفین الی الحق۔۔۔
دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔۔۔

لہذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالف سے حق کے زیادہ قریب تھے۔۔۔ لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔ الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب)الاولی بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرمایا تھا کے وہ جماعت مکمل طور پر حق پر ہوگی۔۔۔

یہ تجزیہ کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید وطعن نہیں ہے بلکہ اس بات سے وضاحت کرنا مقصود ہے جس کی وجہ روافض کے اُن اوچھے ہتکھنڈوں کو روکنے کی سعی ہے جس کے سبب انہوں نے کبار صحابہ کرام کو طعن وتشنع کا مرکز بنایا ہوا ہے۔۔۔ اور سب سے اہم بات کہ جو لوگ اس فتنہ میں الگ تھلگ تھے دراصل وہی حق پر تھے۔۔۔ جبکہ حضرت علی کے لئے بھی سلامتی اسی بات میں تھی کہ وہ لڑائی سے رُک جاتے کیونکہ نتائج دیکھ کر ہی رائے قائم کی جاتی ہے اسی لئے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مقتول پایا تو پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے اور پشیماں ہوتے ہوئے فرمایا۔۔۔ کاش میں بیس سال قبل مرگیا ہوتا۔۔۔

اور جب جنگ صفین کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کشت وخون کی تفصیل سنائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا اس لئے وہ ان معرکوں میں شریک ہونے پر شرمندہ ہوئے۔۔۔

دوسری طرف حضرت محمد مصطفٰٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کے صلح جویانہ کردار کی پیشنگوئی فرماتے ہوئے ان کی تعریف بیان کی تھی اور فرمایا تھا۔۔۔

ان انبی ھذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ بین طائفین عظیمتین من المسلمین۔
کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور شاید کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرداے (صحیح بخاری، باب مناقب الحسن والحسین حدیث نمبر ٣٧٤٦)۔۔۔
اگر دوسرا گروہ باغی ہوتا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ وعید کیوں سناتے کے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرادے؟؟؟۔۔۔ لیکن روافض کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف میں بیان نہیں کی۔۔۔ کیونکہ انہوں نے جنگ کی تھی۔۔۔

البتہ نہروان میں خارجیوں سے لڑائی کی وجہ سے ان کی تعریف کی، کیونکہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ مکمل طور پر حق پر تھے۔۔۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی پر کسی طرح کا غم بھی نہیں کیا بلکہ عام طور پر مسلمان، خارجیوں کے اس قتل پر خوش ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب انہیں قتل کیا تو وہ خود سجدہ شکر ادا کیا لیکن جب جنگ جمل سے لڑائی لڑی تو روپڑے اور اسی طرح جب صفین میں جنگ لڑی تو بھی سخت غمگین ہوئے۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کوفیوں نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی اور آپ اپنی بیعت کے سامیوں سے لڑنے کے لئے کوفہ سے شام کی طرف چل پڑے کیونکہ اہل شام ابھی تک امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کے بعد امیرالمومنین حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی اطاعت تسلیم کرنے سے روگرداں تھے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما جب کوفہ سے نکلے تو آپ کی نیت میں صلح کی خواہش تھی اور آپ کشت وخون کو پسند نہ کرتے تھے بلکہ آپ اس بات کے حق میں بھی نہ تھے کہ اُن کے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل شام سے جنگ کریں (البدایۃ والنھایۃ ٧\٢٤٥)۔۔۔

اور آپ کی نیت صلح کی علامت میں سے یہ بات بھی نمایاں تھی کے آپ نے حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کو لشکر کی قیادت سے معزول کرکے اُن کی جگہ حضرت عبداللہ بن عباس کو سپہ سالار بنادیا (فتح الباری ١٣\٦٧)۔۔۔

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کے جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما فوجی دستوں کو لے کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے تو حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا۔۔۔

میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک نہیں پھرے گا جب تک اس کا آخری حصہ میدان سے نہ پھرے گا۔۔۔

تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ کہ مسلمانوں کی اولاد کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟؟؟۔۔۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ میں!۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عامر اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ہم ان سے ملاقات کرتے ہیں اور صلح کی درخواست کرتے ہیں۔۔۔

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور ابوبکرہ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا۔۔۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے فرمایا۔۔۔
ابنی ھذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ فئتین من المسلمین۔
میرا یہ بیٹا سید ہے اور شاید کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گرہوں کے درمیان صلح کرادے۔۔۔(رواہ بخاری)۔۔۔

مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔۔۔
کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سفید کاغذ کے نیچے مہرلگا کر اُسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجدیا اور فرمایا۔۔۔ آپ اس پر جو چاہیں لکھ دیں وہ آپ کو ملے گا۔۔۔

عمرو بن العاص کہنے لگے۔۔۔ بلکہ ہم جنگ کریں گے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کے ٹھہرئے اے ابو عبداللہ (زہری کہتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ دونوں میں سے بہتر آدمی تھے) آپ اُن کے قتل سے اس وقت تک خلاصی حاصل نہ کریں گے جب تک، اتنے شامی قتل نہ ہوجائیں ان کے بعد جینے میں کوئی خیر نہ ہوگی اور اللہ کی قسم میں تو اس وقت لڑائی سے گریز کروں گا جب تک اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا (مصنف عبدالرزاق ٥\٤٦٢)۔۔۔

اس موقع پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے ملے تو آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے اس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین بن گئے اور اس سال کا نام عام الجماعۃ پڑ گیا۔۔۔

سنن ابی داؤد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم ابوعبدالرحمٰن سفینہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔

خلافۃ النبوۃ ثلاثون سنۃ ثم یوتی اللہ ملکہ من یشاء
کہ خلافت نبوت تیس سال رہے گی پھر اللہ جسے چاہے گا اُسے بادشاہی عطاء کرے گا۔۔۔
(ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء حدیث ٤٦٤٦، مسند احمد ٤\٢٧٣، ٥\٥٠٢٤٤)۔۔۔

اب کچھ سوالات جو ذہن میں آتے ہیں۔۔۔
١۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفیوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۔۔ کیا اس طرح کی بیعت کی شرعاََ کوئی دلیل تھی؟؟؟۔۔۔
٢۔ اللہ کے رسول محمد مصطفٰٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کی بشارت دی، اسی طرح حسن رضی اللہ عنہ کے کا مسلمان کے دوگرہوں کے درمیان صلح کرانے کی پیشگوئی کیا معنی رکھتی ہے؟؟؟ِ۔۔۔ یہ وہ جماعت گمراہ جماعت ہوگی جس کے حق میں حسن رضی اللہ عنہ دستبردار ہوجائیں گے؟؟؟ِ۔۔
٣۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پشنگوئی کے خلافت کے بعد اللہ تعالٰی جس کو چاہئے گا اس کو بادشاہی عطاء کرے گا۔۔۔ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو گروہ کہاں سے کس زاویئے سے گمراہ ہوسکتا ہے جب کے دونوں احادیث موجود ہیں۔۔۔

خلاصہ کلام۔۔۔
محترم بھائی صاحب۔۔۔ یہ جو آپ اتنی محنت کرتے ہیں۔۔۔ اور چیدہ چیدہ معلومات توڑ مروڑ کے پیش کرتے ہیں فتنہ انگیزی پھیلانے کے لئے اس سے آپ کو کیا ملے گا؟؟؟۔۔۔
جب آپ اپنی ساری محنت کا منبع اہلسنت والجماعت کی کتابوں سے نکال رہے ہوتے ہیں تو تھوڑا مغزز یہاں بھی لگا لیا کریں کے ان معاملات میں اہلسنت والجماعت کا موقف کیا ہے؟؟؟۔۔۔ سکوت۔۔۔
یہ علمی بدیاتنی اور دلوں کا خائن پن ہے جو بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔۔۔ کے چیدہ چیدہ معلومات اہلسنت والجماعت کی کتابوں سے جمع کرکے نسلی بغض کا مظاہرہ غیرضروری طور پر کرنا ضروری ہے؟؟؟۔۔۔

مجھے اب پوری اُمید ہے آپ بھی عملی شرافت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہمارے علماء حق کی طرح سکوت اختیار کریں گے۔۔۔
ان شاء اللہ تعالٰی۔۔۔

والسلام علیکم
واللہ اعلم۔۔
 
Top