کیا خیال ہے اہل سنت کی صحیح روایات سے اس دعویٰ کی قلعی نہیں کھل گئی کہ حضرت عمار کو شیعوں نے شہید کیا !!!بہرام بھائی۔۔۔
آپ دعوٰے ہی دکھاتے رہو گے یا اس جنگ صفین پر اہلسنت والجماعت کا موقف بھی پیش کرو گے؟؟؟۔۔۔
۔
صحیح حدیث کے جواب میں قول امام !!!!!!امام ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
ہمارے نزدیک ابن ملجم (ملعون) اُن لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم جہنم کی اُمید رکھتے ہیں۔۔۔ اور اس بات کو بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اللہ اس سے درگذر کرلے۔۔۔ یعنی ہم اللہ تعالٰی پر اپنا فیصلہ بھی نہیں ٹھونس سکتے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو قائل عثمان رضی اللہ عنہ اور قاتل زبیر رضی اللہ عنہ، اور قاتل طلحہ رضی اللہ عنہ اور قاتل سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اور قاتل عمار رضی اللہ اور قاتل خارجہ رضی اللہ عنہ اور قاتل حسین رضی اللہ عنہ کا ہے۔۔۔
اور اگر کسی کا قول ہی پیش کرنا ہے تو پھر ابن حزم کا قول ہی پیش کردیتے ابن ملجم ملعون کے بارے میں
یا پھر کسی وہابی عالم کا جیسے یہ
نواب صدیق خان قنوجی لکھتے ھیں
وأما الكلام فيمن حارب عليا كرم الله وجهه فلا شك ولا شبهة أن الحق بيده في جميع مواطنه أما طلحة والزبير ومن معهم فلأنهم قد كانوا بايعوه فنكثوا بيعته بغيا عليه وخرجوا في جيوش من المسلمين فوجب عليه قتالهم وأما قتاله للخوارج فلا ريب في ذلك والأحاديث المتواترة قد دلت على أنه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية وأما أهل صفين فبغيهم ظاهر لو لم يكن في ذلك إلا قوله صلى الله عليه وسلم لعمار: "تقتلك الفئة الباغية" لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان
جہاں تک بات ھے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ حق ان کے ہاتھ میں تھا تمام مواقع پر۔ جہاں تک بات ھے طلحة والزبير اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علی کی، اور پھر اس کو توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا
اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ھے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔ اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية
المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي
بہت ہی عجیب و غریب بات کہی گئی ہے مولا علی علیہ السلام مکمل طور پر حق پر نہ تھے نعوذبا للہاب رہی بات کے صحابہ کرام کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں تھا؟؟؟۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا۔۔۔ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کےوقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی۔۔۔ چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کے حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قریب تھا کیونکہ حدیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں۔۔۔
تقتلم اقرب الطائفتین الی الحق
ان (خارجیوں) کو دونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف ہوگی۔۔۔
اور ایک روایت میں ہے۔۔۔
اولٰی الطائفین الی الحق۔۔۔
دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔۔۔
لہذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالف سے حق کے زیادہ قریب تھے۔۔۔ لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔ الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب)الاولی بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرمایا تھا کے وہ جماعت مکمل طور پر حق پر ہوگی۔۔۔
آئیں اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادات کی روشنی میں دیکھتے ہیں (نوٹ یاد رہے یہ حدیث اہلسنت کی کتب احادیث کی صحیح حدیث ہے )
دیکھا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اہل قریش کو مخاطب ہو کر فرما رہیں ہیں کہ علی علیہ السلام دین کی خاطر تم لوگوں کی گردنیں مارے گے اور ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ علی علیہ السلام کی جنگ تاویل قرآن پر ہوگی جس طرح میری جنگ تنزيلِه القرآن پر ہے۔مولا علی علیہ السلام سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔۔ اے گروہ قریش تم میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو خدا نے خوب آزمائش کر لیا ہوگا وہ تم لوگوں کی گردن دین کی خاطر مارے گا تب ابو بکر نے کہا میں وہ شخص ہوں؟ فرمایا نہیں پھر عمر نے سوال کیا میں وہ شخص ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ نعلین کی مرمت کرنے والا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنی نعلین دی ہوئی تھی تاکہ مرمت کر سکے۔
کیا اب بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے پر کسی اور کے قول کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔