• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنی معاویہ نام کیوں نہیں رکھتے ؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی۔۔۔
آپ دعوٰے ہی دکھاتے رہو گے یا اس جنگ صفین پر اہلسنت والجماعت کا موقف بھی پیش کرو گے؟؟؟۔۔۔
۔
کیا خیال ہے اہل سنت کی صحیح روایات سے اس دعویٰ کی قلعی نہیں کھل گئی کہ حضرت عمار کو شیعوں نے شہید کیا !!!
امام ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
ہمارے نزدیک ابن ملجم (ملعون) اُن لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق ہم جہنم کی اُمید رکھتے ہیں۔۔۔ اور اس بات کو بھی جائز سمجھتے ہیں کہ اللہ اس سے درگذر کرلے۔۔۔ یعنی ہم اللہ تعالٰی پر اپنا فیصلہ بھی نہیں ٹھونس سکتے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو قائل عثمان رضی اللہ عنہ اور قاتل زبیر رضی اللہ عنہ، اور قاتل طلحہ رضی اللہ عنہ اور قاتل سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اور قاتل عمار رضی اللہ اور قاتل خارجہ رضی اللہ عنہ اور قاتل حسین رضی اللہ عنہ کا ہے۔۔۔
صحیح حدیث کے جواب میں قول امام !!!!!!
اور اگر کسی کا قول ہی پیش کرنا ہے تو پھر ابن حزم کا قول ہی پیش کردیتے ابن ملجم ملعون کے بارے میں

یا پھر کسی وہابی عالم کا جیسے یہ
نواب صدیق خان قنوجی لکھتے ھیں


وأما الكلام فيمن حارب عليا كرم الله وجهه فلا شك ولا شبهة أن الحق بيده في جميع مواطنه أما طلحة والزبير ومن معهم فلأنهم قد كانوا بايعوه فنكثوا بيعته بغيا عليه وخرجوا في جيوش من المسلمين فوجب عليه قتالهم وأما قتاله للخوارج فلا ريب في ذلك والأحاديث المتواترة قد دلت على أنه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية وأما أهل صفين فبغيهم ظاهر لو لم يكن في ذلك إلا قوله صلى الله عليه وسلم لعمار: "تقتلك الفئة الباغية" لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان

جہاں تک بات ھے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ حق ان کے ہاتھ میں تھا تمام مواقع پر۔ جہاں تک بات ھے طلحة والزبير اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علی کی، اور پھر اس کو توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا
اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ھے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔ اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية
المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي
اب رہی بات کے صحابہ کرام کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں تھا؟؟؟۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا۔۔۔ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کےوقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی۔۔۔ چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کے حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قریب تھا کیونکہ حدیث میں دو طرح کے الفاظ آئے ہیں۔۔۔

تقتلم اقرب الطائفتین الی الحق
ان (خارجیوں) کو دونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف ہوگی۔۔۔

اور ایک روایت میں ہے۔۔۔
اولٰی الطائفین الی الحق۔۔۔
دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔۔۔

لہذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالف سے حق کے زیادہ قریب تھے۔۔۔ لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔ الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب)الاولی بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرمایا تھا کے وہ جماعت مکمل طور پر حق پر ہوگی۔۔۔
بہت ہی عجیب و غریب بات کہی گئی ہے مولا علی علیہ السلام مکمل طور پر حق پر نہ تھے نعوذبا للہ
آئیں اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشادات کی روشنی میں دیکھتے ہیں (نوٹ یاد رہے یہ حدیث اہلسنت کی کتب احادیث کی صحیح حدیث ہے )

مولا علی علیہ السلام سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔۔ اے گروہ قریش تم میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو خدا نے خوب آزمائش کر لیا ہوگا وہ تم لوگوں کی گردن دین کی خاطر مارے گا تب ابو بکر نے کہا میں وہ شخص ہوں؟ فرمایا نہیں پھر عمر نے سوال کیا میں وہ شخص ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ نعلین کی مرمت کرنے والا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنی نعلین دی ہوئی تھی تاکہ مرمت کر سکے۔
دیکھا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اہل قریش کو مخاطب ہو کر فرما رہیں ہیں کہ علی علیہ السلام دین کی خاطر تم لوگوں کی گردنیں مارے گے اور ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ علی علیہ السلام کی جنگ تاویل قرآن پر ہوگی جس طرح میری جنگ تنزيلِه القرآن پر ہے۔
کیا اب بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے پر کسی اور کے قول کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی۔۔۔
تو بقول حدیث کی تاویل سے جس جماعت پر آپ باغی جماعت کا لیبل چسپاں کررہے ہیں۔۔۔
اس میں تو اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا بھی شامل تھیں۔۔۔
مگر ہمارے پاکستان میں لاتعداد خواتین اور لڑکیوں کا نام عائشہ ہے۔۔۔
ذرا اس طرف بھی توجہ دیجئے۔۔۔آخر یہ کھلا تضاد کیسا؟؟؟۔۔۔
ایک اور بات مجھے ذرا یہ بھی بتادیں۔۔۔
آیت اللہ خمینی آپ کے امام ہیں۔۔۔
پاکستان میں کتنے شیعہ ایسے ہیں جن کا نام خمینی ہو؟؟؟۔۔۔
جنگ جمل پر میں اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہنا چاھتا بس صیح بخاری کی ایک حدیث کوٹ کرونگا

حدثنا عثمان بن الهيثم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عوف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام الجمل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل فأقاتل معهم قال لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى قال ‏"‏ لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة ‏"‏‏.‏

صحیح بخاری ، کتاب المغازی، حدیث نمبر : 4425
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا ، کہا ہم سے عوف اعرابی نے بیان کیا ، ان سے امام حسن بصری نے ، ان سے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے موقع پر وہ جملہ میرے کام آ گیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں ارادہ کر چکا تھا کہ اصحاب جمل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے لشکر کے ساتھ شریک ہو کر (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی) فوج سے لڑوں۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو۔
حدثنا عثمان بن الهيثم،‏‏‏‏ حدثنا عوف،‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ عن أبي بكرة،‏‏‏‏ قال لقد نفعني الله بكلمة أيام الجمل لما بلغ النبي صلى الله عليه وسلم أن فارسا ملكوا ابنة كسرى قال ‏"‏ لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة ‏"‏‏.‏

صحیح بخاری ، کتاب الفتن ، حدیث نمبر : 7099
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا ، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا ، کہا ان سے حسن نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ جمل کے زمانہ میں مجھے ایک کلمہ نے فائدہ پہنچایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ فارس کی سلطنت والوں نے بوران نامی کسریٰ کی بیٹی کو بادشاہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں ہو۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جنگ جمل پر میں اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہنا چاھتا بس صیح بخاری کی ایک حدیث کوٹ کرونگا

حدثنا عثمان بن الهيثم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عوف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام الجمل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل فأقاتل معهم قال لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى قال ‏"‏ لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة ‏"‏‏.‏

صحیح بخاری ، کتاب المغازی، حدیث نمبر : 4425


حدثنا عثمان بن الهيثم،‏‏‏‏ حدثنا عوف،‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ عن أبي بكرة،‏‏‏‏ قال لقد نفعني الله بكلمة أيام الجمل لما بلغ النبي صلى الله عليه وسلم أن فارسا ملكوا ابنة كسرى قال ‏"‏ لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة ‏"‏‏.‏

صحیح بخاری ، کتاب الفتن ، حدیث نمبر : 7099
چندہ اب تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے کچھ بھی پیش کرنے کی۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔۔۔
کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سفید کاغذ کے نیچے مہرلگا کر اُسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجدیا اور فرمایا۔۔۔ آپ اس پر جو چاہیں لکھ دیں وہ آپ کو ملے گا۔۔۔
تاریخی حوالے آپ نے شروع کئے ہیں اس لئے اب آپ کی خدمت تاریخی حوالے حاضر ہیں
معاہدے کی شرائط
١۔ کوفہ کے بیت المال سے پانچ کڑور حضرت حسن بن علی لیں گے
٢۔ دارابجہ کا ٹیکس معاویہ بن ابی سفیان کے لئے
٣۔ حضرت حسن کی موجودگی میں حضرت علی کو گالی نہیں دی جائے گی !!!!!!!!
تاریخ ابن کثیر ، جلد ہشتم ، صفحہ ٢٥، ناشر : نفیس اکیڈمی
دیکھا آپ نے اس معاہدے کی تیسری شرط کتنی عجیب ہے

اور آپ جیسے صاحب علم کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس معاہدے کی دھجیاں کس نے بکھرتے ہوئے اس معاہدے کی ہر شرط کی خلاف ورزی کی
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ صحیح سند کے ساتھ احنف بن قیس سے بیان کرتے ہیں کے انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرے کے بعد، حضرت طلحہ اور زیبر رحی اللہ عنھما سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اُن دونوں سے کہا۔۔۔

غور سے پڑھنا۔۔۔ بخاری پڑھ کر بہت بخار چڑھتا ہے نا۔۔۔
تم دونوں مجھے کیا حکم دیتے ہو، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کے وہ قتل ہو جائیں گے۔۔۔

دونوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مل جانا،!

اور پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو میں مکہ مکرمہ میں اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما سے ملا، تو اُن سے پوچھا کہ آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں؟؟؟۔۔۔

آپ رضی اللہ عنھما نے فرمایا!۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل جاؤ۔۔۔

اس روایت سے معلوم ہورہا ہے۔۔۔ حضرت طلحہ اور اُم عائشہ صدیقہ طاہرہ، رضی اللہ عنھم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کبھی معترض نہ ہوئے، کیونکہ وہ خلافت پر اُن کی بیعت کرچکے تھے حتٰی کے حضرت احنف کو اُن کی پیروی کا حکم دے رہے ہیں مگر اس مسئلہ (قصاص قتل عثمان رضی اللہ عنہ) میں اُنہوں نے اجتہاد کیا کہ اس کو اولیت دی جانی چاہئے۔۔۔

اور جب صحابہ کرام معرکہ جمل کی طرف نکل رہے تھے، تو حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور ان سے کہا “اللہ کی قسم میں تم سے نہیں لڑؤں گا کیونکہ تمہارے ساتھ اُم المومنین ہیں۔۔۔ اور نہ اہی اُس آدمی سے (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے لڑوں گا جس کی بیعت کا حکم، آپ ن ہی مجھے دیا تھا۔۔۔(فتح الباری ١٣\٣٨، نیز دیکھئے تاریخ طبری)۔۔۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ۔۔۔
اے علی! تیرے اور عائشہ رضی اللہ عنھما کے درمیان تنازعہ ہوگا لہٰذا اس سے نرمی کرنا۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی!۔
پھر تو میں بدبخت انسان ہوں گا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
نہیں البتہ جب ایسا ہو تو اسے امن والی جگہ پہنچا دینا۔۔۔ (فتح الباری ١٣\٦٠)۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
تاریخی حوالے آپ نے شروع کئے ہیں اس لئے اب آپ کی خدمت تاریخی حوالے حاضر ہیں
ابھی ادھر اُدھر نہ بھاگیں۔۔۔
پہلے ایک موضوع کو ختم کرلیں کیا خیال ہے؟؟؟۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب کچھ سوالات جو ذہن میں آتے ہیں۔۔۔
١۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کوفیوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۔۔ کیا اس طرح کی بیعت کی شرعاََ کوئی دلیل تھی؟؟؟۔۔۔
٢۔ اللہ کے رسول محمد مصطفٰٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کی بشارت دی، اسی طرح حسن رضی اللہ عنہ کے کا مسلمان کے دوگرہوں کے درمیان صلح کرانے کی پیشگوئی کیا معنی رکھتی ہے؟؟؟ِ۔۔۔ یہ وہ جماعت گمراہ جماعت ہوگی جس کے حق میں حسن رضی اللہ عنہ دستبردار ہوجائیں گے؟؟؟ِ۔۔
٣۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پشنگوئی کے خلافت کے بعد اللہ تعالٰی جس کو چاہئے گا اس کو بادشاہی عطاء کرے گا۔۔۔ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو گروہ کہاں سے کس زاویئے سے گمراہ ہوسکتا ہے جب کے دونوں احادیث موجود ہیں۔۔
قول حضرت عمر
اس وقت ہم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کربیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑجاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔

صحیح بخاری کتاب المحاربین ، حدیث نمبر : 6830
یعنی حضرت ابو بکر کی بعیت میں شریعت کچھ تھی لیکن حضرت عمر کو پہلے ہی حضرت ابوبکر نے اپنا جانشیں مقرر کردیا اب شریعت کا قاعدہ بدل گیا اور پھر آخر میں ایک بار پھر اس قاعدے کو بدل دیا گیا کہ اب بن صلاح و مشورہ کے بیعت نہیں ہوسکتی پھر آپ بیعت کے لئے کس شرع کی بات کررہے ہیں تعجب ہہہہہہہہہہہہہہہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
امام طبری رحمۃ اللہ علیہ صحیح سند کے ساتھ احنف بن قیس سے بیان کرتے ہیں کے انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرے کے بعد، حضرت طلحہ اور زیبر رحی اللہ عنھما سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے اُن دونوں سے کہا۔۔۔

غور سے پڑھنا۔۔۔ بخاری پڑھ کر بہت بخار چڑھتا ہے نا۔۔۔
تم دونوں مجھے کیا حکم دیتے ہو، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کے وہ قتل ہو جائیں گے۔۔۔

دونوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مل جانا،!

اور پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو میں مکہ مکرمہ میں اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما سے ملا، تو اُن سے پوچھا کہ آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں؟؟؟۔۔۔

آپ رضی اللہ عنھما نے فرمایا!۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل جاؤ۔۔۔

اس روایت سے معلوم ہورہا ہے۔۔۔ حضرت طلحہ اور اُم عائشہ صدیقہ طاہرہ، رضی اللہ عنھم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کبھی معترض نہ ہوئے، کیونکہ وہ خلافت پر اُن کی بیعت کرچکے تھے حتٰی کے حضرت احنف کو اُن کی پیروی کا حکم دے رہے ہیں مگر اس مسئلہ (قصاص قتل عثمان رضی اللہ عنہ) میں اُنہوں نے اجتہاد کیا کہ اس کو اولیت دی جانی چاہئے۔۔۔

اور جب صحابہ کرام معرکہ جمل کی طرف نکل رہے تھے، تو حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور ان سے کہا “اللہ کی قسم میں تم سے نہیں لڑؤں گا کیونکہ تمہارے ساتھ اُم المومنین ہیں۔۔۔ اور نہ اہی اُس آدمی سے (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے لڑوں گا جس کی بیعت کا حکم، آپ ن ہی مجھے دیا تھا۔۔۔(فتح الباری ١٣\٣٨، نیز دیکھئے تاریخ طبری)۔۔۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی!۔
پھر تو میں بدبخت انسان ہوں گا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
نہیں البتہ جب ایسا ہو تو اسے امن والی جگہ پہنچا دینا۔۔۔ (فتح الباری ١٣\٦٠)۔۔۔
قو ل صدیق حسن خان
سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
قو ل صدیق حسن خان
صدیق حسن خان۔۔۔
کیا اُس وقت وہاں موجود تھے؟؟؟۔۔۔
دیکھیں بھائی۔۔۔ پینترے بدلتی ہوئی رافضیت سے ہم آج سے نہیں بہت سال پہلے سے نبردآزما ہیں۔۔۔
اس لئےموضوع کو ساتھ ساتھ لے کرچلیں۔۔۔
کیا خیال ہے؟؟؟۔۔۔
 
Top