• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاہ کار عورت اور اس کی سزا

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جناب انس نظر صاحب میں یہ کھ رہا ہوں کہ کل عام ہے اس کی تخصیص نھیں ہوسکتا کسی کے قول سے اگر اللہ رب العالمین تخصیص کریں تو کرسکتاہے اور یہاں اللہ تعالی نے نھیں کی
آپ نے جن دو آیات کا تذکرہ کیا تھا اس میں تخصیص اللہ تعالی نے کی تو آپ کا قیاس اس آیت مبارکہ کا ان دوآیات پر قیاس مع الفارق ہے جوکہ اہل علم کے نزدیک باطل ہے

اگر آپ کھ رہے ہو کہ یہ رجم رسول اللہ کافرمان ہے تو پھر کوئی ایسا صحیح حدیث لادو جن میں لکھا ہواھوں کہ الزانیۃ والزانی والی آیت سے غیر شادی شدہ زانی مرادہے
یہ بھی دکھادو کہ حدیث میں ایسے الفاظ ہو کہ شادی شدہ زانی کا سزا اس آیت میں نھیں ہے


اس کا جواب میں دے چکا ہوں شائد آپ نے پڑھا ہی نہیں
میرے بھائی! آپ کو در اصل بھول جاتا ہے کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے؟
پہلے آپ کو اختلاف تھا کہ لفظ کل والے عام کی تخصیص نہیں ہو سکتی جب میں نے قرآن کریم سے دلائل دئیے کہ کل کی تخصیص بھی ہوسکتی ہے تو درج بالا اقتباس میں آپ کو تسلیم کرنا پڑا واقعی ہی ان آیات میں کل کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور یہی آپ کا سب سے بڑا اعتراض تھا جو ختم ہوگیا۔ اب آپ کو حق کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور اپنی غلطی مان لینی چاہئے تھی۔

لیکن افسوس کہ جب آپ سے کوئی بات نہیں بنی تو کھل کر بالکل منکرین حدیث والا نیا اعتراض جڑ دیا کہ ان آیات میں تو تخصیص اللہ نے کی ہے لہٰذا تسلیم ہے لیکن رجم والی تخصیص نبی کریمﷺ نے کی ہے لہٰذا وہ قرآن کی مخالفت ہونے کی بناء پر تسلیم نہیں؟؟؟ (والعیاذ باللہ! کیا رسول کی تخصیص اللہ کی تخصیص نہیں؟)
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جناب انس نظر صاحب میں یہ کھ رہا ہوں کہ کل عام ہے اس کی تخصیص نھیں ہوسکتا کسی کے قول سے اگر اللہ رب العالمین تخصیص کریں تو کرسکتاہے
ملكہ سبا کے بارے میں قرآن مجید میں ہے:
إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾
’’میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔‘‘
الیاسی صاحب اس آیت میں لفظ ’کل‘ کی تخصیص ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو کیسے؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میں نے اگرچہ اس پورے تھریڈ کو مکمل طور پر نہیں پڑھا لیکن کہیں کہیں سے پڑھا ہے جس سےیہ اندازہ ہوا کہ محترم الیاسی صاحب اور ان کے ہم خیال حضرات کے نزدیک ان کے محترم استاذ صاحب کی زیادہ اہمیت ہے ان کے سامنے تمام صحابہ کرام ؒ کا تعامل اور پوری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع اور نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ
کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ان کے سامنے شاید یہ فرمان رسالت نہیں گزرا
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یحل دم امرء مسلم یشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسو ل اللّٰہ الا باحدی ثلث النفس بالنفس والثیب الزانی والمفارق لدینہ والتارک للجماعۃ۔ (رواہ البخاری وابوداؤد)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلم مرد کا خون جو توحید ورسالت کی گواہی دیتا ہو تین جرم کے علاوہ حلال نہیں ہے قتل نفس،شادی شدہ زانی اور تارک دین اورجماعت۔
لہٰذا جو بھی مسلمان مسلم جماعت سےانحراف کرے اس کے قتل کی اجازت ہے، اسی طرح شادی شدہ زانی کے قتل کی اجازت ہے ۔ تو کیا یہ محترم الیاسی صاحب کا فرمان رسالت یا تعامل رسالت اور فرمان الٰہی سے انحراف نہیں ہے اور کیا ان کوجماعت کی اہمیت کے بارے یہ معلوم نہیں ہےکہ ’’ید اللہ علی الجماعت‘‘ یہ دین سے انحراف نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ انہیں ابن کثیرؒکا یہ قول تو نظر آگیا
آپ کو ایک حیران کن بات بتادو ں کہ تفسیر ابن کثیر میں صفحہ نمبر ٣٣ جلدنبرتین طبع نورمحمدکراچی میں حضرت علی کا قول لکھا ہے کہ جب ان کی پاس ایک زانیہ خاتون سراجہ کو لایا
گیا تو انھوں نے جمعرات کو ان کو کوڑے لگواے اور جمعے کو سنگسار کرایا کوڑے کتاب اللہ پر عمل کی وجہ سے اور سنگسار سنت پر عمل کیوجہ سے
اب بتادو یہ کیا تھا ؟؟؟؟؟؟ پھرانھوں نے اماموں کی اختلافات بھی ذکر کی ہے دیکھ لو ذرا
اور یہ نظر نہیں آیا
ومِن ہٰہُنــا اُخِذَ قتـلُ مَن سَبَّ الرَّسُولَ أو مَــن طَعَنَ فِی دِین الإسلامِ أو ذکرہُ بتنقیص الخ۔
(ابن کثیر/۳۳۹، ج۲)

اس جگہ سے سَبِّ رسول کرنے والے یا دین میں طعنہ کرنے والے یا اس کی تنقیص کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے۔
تو کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کا اور تمام امت کے اجماع سے انکار اسلامی تعلیمات سے انحراف نہیں ہے ۔یاد رہے یہ عمل سبِّ رسول ﷺ کے اور طعن فی الدین کے زمرہ میں ہی آتا ہے اور تمام امت کی تنقیص ہے ۔ تو فرمان رسالت جیسا کہ مذکور ہوا اور ابن کثیر ؒ کے قول کے مصداق ایسے لوگوں کا کیا مقام ہے خود تعین فرمالیں۔
محترم قارئین کرام جس طرح سے رجم والی بات کا تمسخر یا فتنہ کھڑا کیا گیا ہےایسا ہی آج سے تقریبا چالیس سال پہلے مولانا ریاض صاحب اور نیاز فتح پوری صاحب نےفتنہ قتل مرتد کھڑا کیا گیا تھا کہ قرآن میں مرتد کے قتل کا حکم نہیں ہے اس کا میرے والد مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ نے جواب مدینہ اخبار بجنور میں دیا تھا اور بڑی طویل بحث چلی تھی آخر کار دونوں ( مولانا ریاض صاحب اور نیاز فتح پوری صاحب )کو رجوع کرنا پڑا تھا تو الیاسی صاحب آپ اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈالیں کہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ مرتد کے بارے میں کیا حکم ہے۔اور باقی تو آپ خودہی فیصلہ کرلیں کہ آپ کس جگہ کھڑیں ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ملكہ سبا کے بارے میں قرآن مجید میں ہے:
إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾
’’میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔‘‘
الیاسی صاحب اس آیت میں لفظ ’کل‘ کی تخصیص ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو کیسے؟
جناب عمران اسلم صاحب کیا ہوگیا آپ کو ؟؟؟ یہاں تو کل شئ میں کل ایک پرندے کا قول ہے ھدھد کابس جتنا ہدہد کا کل ہوتا ہے اتنا مراد ہے بس اور یہاں کل اللہ تعالی کا کل ہے
سوچو ذرا اللہ تعالی کا کل کتنا ہوگا جن کے پیچھے تم لوگ خاص کرنے کیلیے لگے ہو
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
جناب عمران اسلم صاحب کیا ہوگیا آپ کو ؟؟؟ یہاں تو کل شئ میں کل ایک پرندے کا قول ہے ھدھد کابس جتنا ہدہد کا کل ہوتا ہے اتنا مراد ہے بس اور یہاں کل اللہ تعالی کا کل ہے
سوچو ذرا اللہ تعالی کا کل کتنا ہوگا جن کے پیچھے تم لوگ خاص کرنے کیلیے لگے ہو
کیا پرندے نے بھی عربی میں کہا تھا؟ اس نے تو اپنی بولی میں کہا تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے عربی کا جامہ پہنایا۔ پورا قرآن کریم بطور عربی حجت ہے۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
کیا پرندے نے بھی عربی میں کہا تھا؟ اس نے تو اپنی بولی میں کہا تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے عربی کا جامہ پہنایا۔ پورا قرآن کریم بطور عربی حجت ہے۔
بیشک حجت ہے لیکن ذرا غور کریں کہ اگر آپ اس آیت کو خاص کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اس سے غیر شادی شدہ مراد ہے تو پھر تو کل پھر عمل ہی نہیں ہوا پھر تو مقصد یہ ہوا نا کہ فاجلدوا واحد منھما مایۃ جلدہ
یار اتنا بھی تو قرآن شریف کے پیچھے مت پڑو کہ مفھوم ہی بدل جاے
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
الیاسی صاحب اس وقت بات چل رہی ہے لفظ ’کل‘ کی تخصیص کی۔ اب آپ سے اس کا جواب بن نہیں پا رہا تو تاویلوں کے طوطے مینا اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ نے انس نضر صاحب کے جواب میں فرمایا تھا:
آپ نے جو آیات پیش کی ہے وہاں استثناء اور تخصیص اللہ تعالی نے خود کی ہے لیکن یھاں اللہ تعالی نے استثناء نھیں کیا اگر ہوتا تو اللہ تعالی یہاں بھی استثناء کرتا
اسی طرح آپ نے لکھا:
جناب انس نظر صاحب میں یہ کھ رہا ہوں کہ کل عام ہے اس کی تخصیص نھیں ہوسکتا کسی کے قول سے اگر اللہ رب العالمین تخصیص کریں تو کرسکتاہے
إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾
مذکورہ آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے کوئی تخصیص یا استثنانہیں کیا۔ بقول آپ کے اگر استثنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور کرتے۔ اب یہ بتائیے کہ اس آیت میں تخصیص کیسے کی جائے؟؟؟
کیونکہ ملکہ سبا کے پاس دنیا کی ہر چیز ہونے سے تو رہی۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
مولانا الیاسی صاحب اگر لفظ کل کی ہی بات ہے تو پھر آیت كا ترجمہ کل کے ساتھ یوں ہوگا۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ
زناکار عورت اور مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔
اگر کل کے بغیر کیا جائے تو
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ
زناکار عورت و مرد دونوں میں سے ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔
پہلی بات اگر ترجمہ میں کوئی غلطی ہے تو واضح کردینا تاکہ ہمیں بھی پتہ چل جائے کہ ہم نے ترجمہ غلط کیا ہے۔ لیکن اگر ترجمہ درست ہے تو پھر لفظ کل یہاں یہ بتلانے کےلیے آیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگانے ہیں۔ اگر یہاں لفظ کل کا رب العالمین استعمال نہ کرتے تو پھر یہ شبہ پیدا ہوجاتا کہ سو کوڑے دونوں میں سے ایک کو لگانے ہیں یا دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگانے ہیں یا مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگانے ہیں۔
اس بات کی تائید منہما کی ضمیر بھی کرتی ہے۔ جس کا مرجع الزانیۃ والزانی ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کل یہ بتلانے کےلیے آیا ہے کہ مرد اور عورت چاہے جس بھی قسم سے ہوں ( شادی شدہ اور غیر شادی شدہ) تو پھر اس آدمی کا اشکال آپ کیسے دور کریں گے جو یہ کہے کہ سو سو کوڑے نہیں بلکہ دونوں میں سے ایک کو سو کوڑے لگانے ہیں یا دونوں کو سو کوڑے لگانے ہیں یعنی پچاس پچاس۔؟؟؟
اگر آپ اس اشکال واعتراض کا جواب لفظ واحد سے دینے کی کوشش کریں کہ لفظ واحد بتلا رہا ہے کہ دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں تو یہ بھی آپ کی خام خیالی ہوگی۔ کیونکہ لفظ واحد کے ساتھ ترجمہ یوں ہوگا
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ
زناکار عورت و مرد دونوں میں سے ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔
یعنی مرد کو سو کوڑے لگاؤ عورت کو چھوڑ دو یا عورت کو سو کوڑے لگاؤ مرد کو چھوڑ دو۔
لفظ واحد کے بغیر ترجمہ یوں ہوگا
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ
زناکار عورت و مرد دونوں کو سو کوڑے لگاؤ۔
یعنی مرد اور عورت دونوں کو سو کوڑے ( پچاس پچاس) لگانے ہیں۔
اس وضاحت کا مقصد آپ کا مسئلہ لفظ واحد سے حل نہیں ہوگا۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اگر لفظ کل کا اس جگہ استعمال اس معنی میں لیا جائے کہ یہ کل یہ بتانے آیا ہے کہ مرد اور عورت چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ دونوں کو سو سو کوڑے لگانے ہیں۔ تو پھر جو اشکال پیدا ہورہا ہے اس کا جواب کیسے دیا جائے گا۔؟؟؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
الیاسی صاحب اس وقت بات چل رہی ہے لفظ ’کل‘ کی تخصیص کی۔ اب آپ سے اس کا جواب بن نہیں پا رہا تو تاویلوں کے طوطے مینا اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ نے انس نضر صاحب کے جواب میں فرمایا تھا:

اسی طرح آپ نے لکھا:

إِنِّي وَجَدتُّ امْرَ‌أَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْ‌شٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾
مذکورہ آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے کوئی تخصیص یا استثنانہیں کیا۔ بقول آپ کے اگر استثنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور کرتے۔ اب یہ بتائیے کہ اس آیت میں تخصیص کیسے کی جائے؟؟؟
کیونکہ ملکہ سبا کے پاس دنیا کی ہر چیز ہونے سے تو رہی۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ محترم عمران بھائی اس کا جواب تو میں دے چکا ہو کہ یہ تو ہدہد کا قول ہے نا جو اللہ رب العالمین نے بطور حکایت ہمیں بیان کردیا ہے اب اس کل میں اتنا
عموم ہے جتنا ایک پرندے کے ذہن میں ہوتا ہے بس
اس سے کوئی شرعی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا اور وہاں الزانیۃ واالزانی میں مذکور کل اللہ رب العالمین کا کہا ہواہے جس سے شرعی مسئلہ ثابت ہورہا ہے
 
Top