عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
چلیے آپ کو قرآن مجید سے اللہ تعالیٰ کے قول بھی دکھائے دیتے ہیں آپ ہمت کر کے فرمان باری تعالیٰ ہی سے ان کی تخصیص و استثنا دکھا دیجئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے متعلق فرمایا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ
اس آیت میں موجود لفظ ’کل‘ کی اللہ تعالیٰ نے کوئی تخصیص نہیں کی۔ اب یا تو آپ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے اس کی تخصیص کیجئے یا پھر یہ تسلیم کیجئے کہ اس میں ابراہیمؑ کو پوری دنیا کے ہر پہاڑ پر پرندوں کے ٹکڑے رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں کے۔ ٹو ، ماؤنٹ ایورسٹ اور دنیا کے دیگر تمام پہاڑ شامل ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
اور اللہ تعالیٰ نے ’نفس‘ سے متعلق قرآن مجید میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّـهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اب اس آیت میں قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ کو لیجئے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اس میں کل کی تخصیص نہیں کی۔ اس کا مطلب ہوا اس میں پوری دنیا کے تمام انسان شامل ہیں۔ اب آپ یا تو یہ ثابت کیجئے کہ پوری دنیا میں موجود بلکہ بعد میں آنے والوں نے بھی پانی پیا۔ اگر یہ ثابت نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ کے فرمان سے اس ’کل‘ کی تخصیص کیجئے۔اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو۔ (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے متعلق فرمایا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو پہاڑوں پر جانوروں کے ٹکڑے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں:’’ اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔ ‘‘
ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ
اس آیت میں موجود لفظ ’کل‘ کی اللہ تعالیٰ نے کوئی تخصیص نہیں کی۔ اب یا تو آپ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے اس کی تخصیص کیجئے یا پھر یہ تسلیم کیجئے کہ اس میں ابراہیمؑ کو پوری دنیا کے ہر پہاڑ پر پرندوں کے ٹکڑے رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں کے۔ ٹو ، ماؤنٹ ایورسٹ اور دنیا کے دیگر تمام پہاڑ شامل ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ’نفس‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے
اور اللہ تعالیٰ نے ’نفس‘ سے متعلق قرآن مجید میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
یہاں آپ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موت سے استثنا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تخصیص کیجئے۔ یا پھر معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس ’کل‘ کے عموم میں شامل کیجئے۔’’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘