محترم عمران علی صاحب،
آپ کی پوسٹس کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ کے استدلال کی پوری عمارت درج ذیل بنیادوں پر قائم ہے:
1۔ لفظ نساء سے ہر جگہ اور ہمیشہ فقط بالغ خواتین مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں آپ پر اب تک ادھار ہے کہ لغت عرب یا ماہرین لغت سے یہی وضاحت پیش کریں۔
2۔ بنات سے ہمیشہ اور ہر جگہ فقط نابالغ بچیاں ہی مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں بھی آپ نے اب تک لغت سے یا ماہرین سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔
3۔ سورہ طلاق آیت 4 میں
لم یحضن کے الفاظ کا آپ کا ترجمہ ہے، جنہیں حیض نہیں
آتا (اس ترجمہ کے مطابق حیض نہ آنے کی وجہ بیماری کو بنایا جانا ممکن ہے) ، اس ترجمہ کے حق میں دلیل کے نام پر آپ نے دو مترجمین کے تراجم پیش کر دئے، جبکہ کئی دیگر مترجمین نے ان الفاظ کا ترجمہ جنہیں حیض نہیں آیا کیا ہے،
یہاں دیکھئے، کم سے کم چوبیس مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے
حیض نہیں آیا۔ اور اس ترجمہ کے مطابق حیض نہ آنے کی واحد وجہ بلوغت کی عمر کو نہ پہنچنا معلوم ہوتی ہے۔
رفیق طاھر بھائی اس ترجمہ کے حق میں دلیل پیش کر چکے ہیں کہ یہ ماضی منفی کے معنوں میں ہے۔ مزید یہ سن لیجئے کہ یحضن فعل مضارع ہے اور قاعدہ ہے کہ فعل مضارع پر لم وارد ہو تو وہ ماضی سے حال تک کی نفی کے معنی دیتا ہے۔
اب آپ اپنے ترجمہ کے حق میں دلیل پیش کیجئے۔ مترجمین دلیل نہیں ہوتے ، اگر ہوتے ہیں تو ہمارے تر جمہ کے حق میں زیادہ مترجمین موجود ہیں۔
اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جنہیں (آج تک یا ابھی تک ) حیض نہیں آیا، ان کی عدت تین ماہ ہے، سے نابالغ بچیوں کی عدت مراد نہ لینے کی آخر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
یاد رہے کہ وہ خواتین جنہیں کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہ آ رہا ہو، وہ آیت کے پہلے حصے
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ جو حیض سے مایوس ہو چکیں، میں ہی آ چکی ہیں۔ غور کیجئے کہ کسی خاتون کی حیض کی عمر ہو گئی اور اسے کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہیں آیا، تو کیا وہ بھی حیض سے مایوس نہیں کہلائے گی؟ عمر کو پہنچ جانا ، حیض کی امید ہے۔ اور عمر پہنچ جانے کے باوجود بیماری کی وجہ سے حیض کا نہ آنا، اس سے ناامیدی یا مایوسی ہے۔
اوراگر بزور اس آیت کے آخری الفاظ لم یحضن (جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا) سے بھی بیمار خواتین مراد لی جائیں، تو خود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیسا تصور پیدا ہوتا ہے کہ مراد تو ان کی اس حیض سے تھی جو بیماری کی وجہ سے نہ آیا ہو، لیکن الفاظ ایسے غلط استعمال کر دئے (نعوذباللہ) کہ وہ خود نابالغ خواتین کی عدت کی سب سے بڑی دلیل بن گئے۔
4۔ سورہ بقرہ آیت 4 میں ابنائکم کے الفاظ نسائکم کے بالمقابل پیش کئے گئے ہیں۔ لہٰذا ھارون عبداللہ صاحب کی دلیل بہت مضبوط ہے۔ کیونکہ آپ ابنائکم کو نابالغوں کے لئے مانتے ہیں اور نسائکم کو بالغ پر منطبق کرتے ہیں۔ اس آیت میں دونوں الفاظ کا بالمقابل استعمال آپ کے پہلے سے بلادلیل دعوے کی مزید قلعی کھول دیتا ہے کہ نہ تو بنات نابالغ بچیوں کے لئے خاص ہے اور نہ ہی نساء بالغ خواتین کے لئے۔ اگر ایسا نہیں تو ازراہ کرم لغت سے کچھ تو دلیل پیش کیجئے۔
باقی ابنائکم سے بہادر افراد اور نسائکم سے کمزور افراد مراد لینا تو بدترین تحریف ہے۔ جس کی نہ لغت سے کوئی گری پڑی تائید پیش کی جا سکتی ہے اور نہ تاریخ سے۔ کیا وہ قتل سے قبل، جسامت اور مسلز چیک کرتے تھے کہ بندہ بہادر ہے کہ نہیں؟ کسی کی بہادری یا کمزوری جاننے کا آخر کون سا فارمولا فرعونیوں نے دریافت کر لیا تھا؟ کیا بہادروں اور کمزوروں کے لئے اللہ تعالیٰ کو درست الفاظ نہ مل سکے (نعوذباللہ) جو ایسے متبادل استعمال کرنا پڑے جس سے چودہ صدیوں کے تمام مفسرین ، مترجمین، فقہاء اور علماء سب کے سب گمراہ ہی ہو گئے۔
5۔ ھارون عبداللہ صاحب کی اس دلیل کا جواب آپ پر ادھار ہے کہ سورہ نساء آیت 1 میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں رجالا کا لفظ نساء کے بالمقابل استعمال کیا گیا ہے اور اولاد میں نابالغ بچے رجالا میں آ گئے اور نابالغ بچیاں نساء کے لفظ میں آ جاتی ہیں۔ لہٰذا نساء سے فقط بالغ عورتیں مراد لینا لغت اور قرآن دونوں کے اعتبار سے غلط ہے۔
6۔ آپ بار بار نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کو قرآن کے خلاف قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ان کی شادی مکہ میں ہوئی تھی اور سورہ نساء کی جس آیت سے آپ نکاح کے لئے بلوغت کو شرط قرار دے رہے ہیں۔ وہ نازل ہی مدینہ میں ہوئی۔ حکم کے نزول سے قبل ہی اس کی پابندی کیسے؟
7۔ نکاح کے لئے "رشد" کی عمر کا آپ بار بار تذکرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ سورہ نساء آیت 6 میں رشد کو نکاح کی عمر ہرگز قرار نہیں دیا گیا۔ ملاحظہ کیجئے:
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو حتیٰ کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور پھر اگر تم ان کے اندر رشد پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
بلکہ اس آیت میں موجود شرطیہ جملے (پھر اگر تم ان کے اندر رشد پاؤ) سے تو ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی رشد کو پہنچنا لازم نہیں۔ لہٰذا یہی آیت ہمارے موقف کی ایک بڑی دلیل ہے کہ رشد سے قبل نکاح کیا جا سکتا ہے۔
درج بالا جوابات تو اپنی جگہ۔ لیکن آپ نے اب تک اس بنیادی بات کا ہی کوئی جواب نہیں دیا ہے کہ:
1۔ کیا نو سال کی عمر میں کسی بھی لڑکی کا بالغ نہ ہو پانا، قرآن، تاریخ یا سائنس سے ثابت ہے؟
2۔ کیا ابو بکر صاحب کے پیش کردہ لنکس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نو سال کی عمر میں بقول آپ کے "بچی" یا Girl خود ایک بچے کی ماں بننے لائق ہو جاتی ہے؟
اگر درج بالا دونوں سوالات کے جواب میں ہی غور کر لیا جائے تو نکاح کے وقت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر پر سے اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔
رہی بات آپ کے جذباتی دلائل کی، کہ آج کون اپنی نو سالہ بچی کا نکاح تریپن سالہ شخص سے کرنا چاہے گا۔ تو عرض ہے کہ :
1۔ آپ کے نزدیک بھی بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی (منکرین حدیث کی اکثر کتب میں یہی عمر دیکھی جا سکتی ہے، اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں تو اپنی تحقیق پیش کیجئے) ،
آپ بتائیں کہ آپ آج کے دور کے حساب سے اپنی سترہ یا اٹھارہ سالہ بہن کا نکاح بھی کسی تریپن سالہ شخص سے کرنا پسند کریں گے؟ اگر اس سوال کا جواب آپ ہاں میں دیتے ہیں، تو آپ کے پوچھے جانے والے سوال پر ہماری ہاں آپ کو کیوں قبول نہیں؟ جبکہ دور حاضر میں دونوں ہی نکاح حیرت و استعجاب کے ساتھ معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنیں گے۔ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے ، تو آپ خود غور کریں کہ اس جواب سے کیسے نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔
2۔ دور حاضر میں تو دوسری شادی کو بھی ہرگز نہ صرف یہ کہ پسند نہیں کیا جاتا، بلکہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن سے چار شادیوں کا ثبوت موجود ہے۔ حدیث سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا ثبوت موجود ہے ۔ اور مسلمانوں کی چودہ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اس اجازت پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اب اس بنیاد پر جذباتی سوال کر دیا جائے کہ کیا آپ اپنے والد کی دوسری شادی کروا کر اپنی والدہ کے لئے سوکن لانا پسند کریں گے؟
3۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے لئے عرف اور معاشرہ کی اقدار کو بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔ مثلاً نکاح کے بعد بیوی سے خلوت اور جماع کی اگرچہ شرعاً اجازت ہے۔(امید ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے) لیکن چونکہ رخصتی سے قبل اسے معاشرہ درست نہیں سمجھتا، لہٰذا اپنا حق سمجھ کر ایسا کرنا درست نہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ آپ کی بہن کا نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی سے قبل ہی بہنوئی صاحب آپ کے گھر آ دھمکیں اور۔۔؟ تو ظاہر ہے شریعت کی اجازت کے باوجود آپ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔
درج بالا جذباتی باتوں پر جس بنیاد پر آپ خود کو قائل کرتے ہیں، اسی بنیاد پر خود کو بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا والی شادی کے معاملے میں کیوں قائل نہیں کر لیتے؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ شرعی معاملات کو دور حاضر کے اسٹینڈرز پر پرکھ کر درست یا غلط کا فیصلہ دائر کر دینا بھی غلط ہے اور جذباتی بنیادوں پر رد یا قبول کرنا بھی غلط ہے۔
اس پورے معاملے میں اصل بات یہ ہے کہ اصولاً تو نکاح بالغ ہونے کے بعد ہی کرنا چاہئے۔ لیکن رخصت بہرحال موجود ہے کہ اگر نابالغ کا نکاح کر دیا جائے تو وہ بھی درست ہے۔ واللہ اعلم۔