• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اعتراضات کیوں ؟؟؟

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
موضوع کو انتشار سے بچانے کی غرض سے ہماری کوشش ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے سوالات کے جوابات دئے بغیر آگے بات نہ بڑھائیں۔

پہلے عمران صاحب سے گزارش ہے کہ آپ نے جو یہ ترجمہ کیا ہے:

لَمْ يَحِضْنَۚ جنہیں حیض نہیں آتا (کسی بیماری کے سبب انکی بھی تین مہینے ہے)

اس ترجمہ کے بارے میں رفیق طاھر بھائی کے اس سوال (اور دلیل) کا بدلائل جواب دیجئے :



اس آیت کا مفہوم طے ہو جائے، اس کے بعد دیگر آیات اور ان کے مفاہیم پر بات شروع کریں۔
اس سوال کے جواب کے ساتھ آپ کو بھی اجازت ہے کہ آپ بھی اپنا کوئی (صرف) ایک اہم سوال پیش کر دیں۔ جس کے جواب کے لئے ہم فریق مخالف رفیق طاھر اور ھارون عبداللہ برادران کو پابند کریں گے۔
برادر شاکر صاحب،
السّلام علیکم،
میں اس آیت کا "حیض نہیں آتا"ترجمہ کرنے والاانوکھا نہیں ہوں۔ذیادہ تو نہیں میں یہاں صرف دو (غیر جانبدار) مترجمین کے تراجم پیش کررہا ہوں، آپ مطالعہ کر لیں۔

اور جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں اگر تمہیں شک ہو تو انکی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض نہیں آتا۔ترجمہ: قرآن مجید از مولانا "محمد علی صاحب"
ترجمہ ڈاؤن لوڈ کریں
Urdu Translation of the Holy Quran with Arabic Text by Maulana Muhammad Ali @ aaiil.org
Now as for such of your women as are beyond, the age of monthly courses, as well as for such as do not have any courses,10 their waiting-period - if you have any doubt [about it] - shall be three [calendar] months;(Translation by Allama Mohammad Asad in “The Message of the Quran)
Foot Note by Allama Mohammad Asad:

10 i.e., for any physiological reason whatever.

بالفرض محال "بحث کے لیے ہم آپکا مؤقف درست بھی تسلیم کرلیں تو محض "آتا" یا "آیا " سے آپ قرآن کریم سے نابالغوں کی شادی درست قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ آپ ایک انتہائی اہم نکتہ اس آیت میں فراموش کررہے ہیں، اور وہ نکتہ "اس آیت میں مخاطبین ہیں۔اس آیت میں "مخاطب" "نساءکم"سے ہے، یعنی "تمہاری عورتیں" اور عورتیں "عاقل ،بالغ اور شادی لائق ہوتی ہیں، بچیاں نہیں ہوتیں۔ اس آیت میں وارد "إِنِ " حرف شرط ہے جو دونوں طرح کی خواتین پر دلالت کرتا ہے، یعنی وہ جنہیں ضیعف العمری کی وجہ سےحیض آنابند ہو گیا ہے، اور وہ بھی جنہیں کسی بیماری کے سبب حیض نہیں آتا۔اب آپ آیا ترجمہ کریں یا آتا ترجمہ کریں، بات تو ہر صورت خواتین تک محدود رہے گی، "بنات" تک نہیں۔ خدارا اب "بنات" کے مردہ پھر سے نہ اکھاڑیے گا، کیونکہ اس کا مدلل جواب میں اپنے پہلے ایک پوسٹ میں دے چکا ہوں اور میرا مؤقف آپکی طرح لمحہ بہ لمحہ بدلنے والا نہیں ، اب بھی وہی ہے۔

فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا

والسّلام،عمران علی
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
عمران علی، کو ((نسآء)) بمعنی ، نابالغ لڑکیوں کی ، ایک اور دلیل قرآن کریم سے دی جاتی ہے ۔

سورہ بقرہ آیت #٤٩((یذبحون ابناءکم ویستحیون نسآءکم))

بنی اسرائیل کے بارہ میں ہے ، کہ فرعونی ،انکے نابالغ بچوں کو قتل کردیتے تھے، اور انکی نابالغ بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے ۔

آیت میں الفاظ استعمال ہوے ہیں ((ابناءکم)) یعنی نابالغ چھوٹے بچے ، اور اسکے مقابلے میں استعمال ہوا ہے ((نسآءکم)) یعنی نابالغ چھوٹی بچیاں ۔

معلوم ہوا کہ ((نسآء)) میں ، نابالغ چھوٹی بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں ۔

اگر عمران کو اصرار ہو کہ (( نسآء )) سے مراد ، بالغ عورتیں ہیں ، تو عمران ،قرآن سے ، بنی اسرائیل کی نابالغ لڑکیوں کا قتل ثابت کریں ، تاکہ وہ زندہ میں ، شامل نہ ہوں ۔

اگر عمران ، قرآن سے نابالغ لڑکیوں کا قتل ثابت نہ کرسکیں ، تو عمران تسلیم کرلیں کہ نابالغ چھوٹی بچیوں کو زندہ چھوڑا جاتا تھا ، اور وہ (( ویستحیون نسآءکم )) داخل ہیں ۔

معلوم ہوا کہ (( نسآء)) میں ، نابالغ بچیاں بھی داخل ہیں ۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
برادر "ہارون عبداللہ صاحب کے "اعتراض کا جواب"

عمران علی، کو ((نسآء)) بمعنی ، نابالغ لڑکیوں کی ، ایک اور دلیل قرآن کریم سے دی جاتی ہے ۔

سورہ بقرہ آیت #٤٩((یذبحون ابناءکم ویستحیون نسآءکم))

بنی اسرائیل کے بارہ میں ہے ، کہ فرعونی ،انکے نابالغ بچوں کو قتل کردیتے تھے، اور انکی نابالغ بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے ۔

آیت میں الفاظ استعمال ہوے ہیں ((ابناءکم)) یعنی نابالغ چھوٹے بچے ، اور اسکے مقابلے میں استعمال ہوا ہے ((نسآءکم)) یعنی نابالغ چھوٹی بچیاں ۔

معلوم ہوا کہ ((نسآء)) میں ، نابالغ چھوٹی بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں ۔

اگر عمران کو اصرار ہو کہ (( نسآء )) سے مراد ، بالغ عورتیں ہیں ، تو عمران ،قرآن سے ، بنی اسرائیل کی نابالغ لڑکیوں کا قتل ثابت کریں ، تاکہ وہ زندہ میں ، شامل نہ ہوں ۔

اگر عمران ، قرآن سے نابالغ لڑکیوں کا قتل ثابت نہ کرسکیں ، تو عمران تسلیم کرلیں کہ نابالغ چھوٹی بچیوں کو زندہ چھوڑا جاتا تھا ، اور وہ (( ویستحیون نسآءکم )) داخل ہیں ۔

معلوم ہوا کہ (( نسآء)) میں ، نابالغ بچیاں بھی داخل ہیں ۔
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 49

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ 2:49

ترجمہ: اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قومِ فرعون سے نجات بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی۔

محترم عبداللہ ہارون صاحب،

پہلی بات تو یہ کہ اس آیت کا وہ مفہوم ہے ہی نہیں جو اکثر (مقلد اور غیر مقلد) لیتے ہیں۔ اس آیت میں "ابناءکم"نساءکم" محاورۃً استعمال ہوئے ہیں۔ ابناءکم سے مراد "قوم بنی اسرائیل کے بہادر اور جری جوان" ہیں اور نساءکم سے مراد"بزدل ، کمزور اورپست ذہنیت کے افراد ہیں"۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ کوئی بھی استبدادی قوت یا بادشاہ"اپنے مقابلے میں کھڑے ہونے والے بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔کمزور اور ڈرپوک لوگ چونکہ ان کے مقابلے میں نہیں آتے ، اس لیے وہ انہیں ٹیکس بھرنے اور غلامی کروانے کے لیے "زندہ رکھتے ہیں"۔بالکل ایسے ہی جیسے آج کل ہمیں ہماری استبدادی قوتوں نے"زندہ رکھا ہواہے"

یہ تو اس آیت کا اصل مفہوم ہوا، اب ہم اس آیت کے عام ترجمہ کی طرف آتے ہیں ۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آپ نے اس آیت میں ابناوکم کا ترجمہ "نابالغ چھوٹے بچے" کہاں سے اخذ کرلیاجبکہ سارے مترجمین نے اس کا ترجمہ"بیٹے/اولاد نرینہ" ہی کیا ہے۔اور اس کے مقابلے میں "نساءکم"کا ترجمہ بھی بغیرکسی دلیل یا منطق کےآپ زبردستی"نابالغ چھوٹی بچیوں" کررہے ہیں۔جبکہ تمام مترجمین نے اسکا ترجمہ "بیٹیاں یا عورتیں" کیا ہے۔

چلیے ہم آپکا ترجمہ مان بھی لیں اور "نساء"کا ترجمہ "نابالغ چھوٹی بچیاں" کر بھی لیں تو بھی قران کریم سے شادی کی شرط "رشد" کی عمر کو پہنچنا آپ کہاں "فٹ"کریں گے۔ممکن ہے آپ "رشد"کی عمر "چار یا پانچ " سال ثابت کردیں۔کیونکہ آپکی نظر میں "چھ سالہ عائشہ کی شادی 53 سالہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)سے ہوئی تھی"لہذا آپ کو اسے ہر حال میں درست ثابت کرنا ہے۔تو صاحب اگر آپ مسلسل "میں نے مانوں "کی رٹ لگائے رہیں گے تو ہمارے سارے دلائل اور قرآن کریم کی آیات سب بے کار جائیں گی، کیونکہ آپ "صحاح ستّہ "کے اماموں کے قرآن کریم سے افضل سمجھتے ہیں اور یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ "قرآن "تو غلط ہو سکتا ہے ، "بخاری" نہیں۔

یاد رکھیے کہ قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کوئی بھی چیز ادھوری نہیں چھوڑی اور ہر ایک چیز کی وضاحت کر دی ہوئی ہے، لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب "نابالغ بچوں " کی شادی کو جائز قرار دے اور شادی کی درست عمر کا تعین نہ کرے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کتاب کی آیات پر "ایمان " لانا شرط ہے" جو کہ اکثر لوگ نہیں لاتے، "اکثر لوگ اسے محض ثواب کی خاطر پڑھتے ہیں جبکہ عملی زندگی کے فیصلے "فقہ، روایات اور تواریخ" سے کرتے ہیں۔ جسے قرآن کریم نے شرک قرار دیا ہے، وہ کہتا ہے کہ "لا یشرک فی حكمه احدا"یعنی وہ (اللہ) اپنے حکم میں کسی ایک کو بھی شریک نہیں کرتا۔کیونکہ اس نےقرآن کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے، دیکھیے، آیات 6:126, 7:32, 11:24, 30:28 ۔ ان آیات میں اللہ کہہ رہا ہے "ہم نے اپنی آیات مفصل انداز میں بیان کر دیں ہیں، لیکن یہ آیات "یاد رکھنے والوں، علم رکھنے والوں، غور و تدبر کرنے والوں، عقل والوں کے لیے ہیں۔

معذرت چاہتا ہوں تھوڑی دیر کے لیے میں بھی "موضوع زیر بحث " سے ہٹ گیا تھا ، لیکن آپ کو قرآن کریم کی حقانیت یاد کرانا ضروری تھا۔ امید ہے کہ آپ اپنے سابقہ پوسٹس کو مدنظر رکھ کر ایک بار پھر سے بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوں گے۔اور ہمیں کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر دیں گے، جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ ‏"سید‏ۃ عائشہ " کی شادی "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے درست وقت پر ہوئی تھی۔

فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا
والسّلام،عمران علی
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم عمران علی صاحب،
آپ کی پوسٹس کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ کے استدلال کی پوری عمارت درج ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

1۔ لفظ نساء سے ہر جگہ اور ہمیشہ فقط بالغ خواتین مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں آپ پر اب تک ادھار ہے کہ لغت عرب یا ماہرین لغت سے یہی وضاحت پیش کریں۔
2۔ بنات سے ہمیشہ اور ہر جگہ فقط نابالغ بچیاں ہی مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں بھی آپ نے اب تک لغت سے یا ماہرین سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

3۔ سورہ طلاق آیت 4 میں لم یحضن کے الفاظ کا آپ کا ترجمہ ہے، جنہیں حیض نہیں آتا (اس ترجمہ کے مطابق حیض نہ آنے کی وجہ بیماری کو بنایا جانا ممکن ہے) ، اس ترجمہ کے حق میں دلیل کے نام پر آپ نے دو مترجمین کے تراجم پیش کر دئے، جبکہ کئی دیگر مترجمین نے ان الفاظ کا ترجمہ جنہیں حیض نہیں آیا کیا ہے، یہاں دیکھئے، کم سے کم چوبیس مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے حیض نہیں آیا۔ اور اس ترجمہ کے مطابق حیض نہ آنے کی واحد وجہ بلوغت کی عمر کو نہ پہنچنا معلوم ہوتی ہے۔

رفیق طاھر بھائی اس ترجمہ کے حق میں دلیل پیش کر چکے ہیں کہ یہ ماضی منفی کے معنوں میں ہے۔ مزید یہ سن لیجئے کہ یحضن فعل مضارع ہے اور قاعدہ ہے کہ فعل مضارع پر لم وارد ہو تو وہ ماضی سے حال تک کی نفی کے معنی دیتا ہے۔ اب آپ اپنے ترجمہ کے حق میں دلیل پیش کیجئے۔ مترجمین دلیل نہیں ہوتے ، اگر ہوتے ہیں تو ہمارے تر جمہ کے حق میں زیادہ مترجمین موجود ہیں۔

اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جنہیں (آج تک یا ابھی تک ) حیض نہیں آیا، ان کی عدت تین ماہ ہے، سے نابالغ بچیوں کی عدت مراد نہ لینے کی آخر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟

یاد رہے کہ وہ خواتین جنہیں کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہ آ رہا ہو، وہ آیت کے پہلے حصے وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ جو حیض سے مایوس ہو چکیں، میں ہی آ چکی ہیں۔ غور کیجئے کہ کسی خاتون کی حیض کی عمر ہو گئی اور اسے کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہیں آیا، تو کیا وہ بھی حیض سے مایوس نہیں کہلائے گی؟ عمر کو پہنچ جانا ، حیض کی امید ہے۔ اور عمر پہنچ جانے کے باوجود بیماری کی وجہ سے حیض کا نہ آنا، اس سے ناامیدی یا مایوسی ہے۔

اوراگر بزور اس آیت کے آخری الفاظ لم یحضن (جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا) سے بھی بیمار خواتین مراد لی جائیں، تو خود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیسا تصور پیدا ہوتا ہے کہ مراد تو ان کی اس حیض سے تھی جو بیماری کی وجہ سے نہ آیا ہو، لیکن الفاظ ایسے غلط استعمال کر دئے (نعوذباللہ) کہ وہ خود نابالغ خواتین کی عدت کی سب سے بڑی دلیل بن گئے۔

4۔ سورہ بقرہ آیت 4 میں ابنائکم کے الفاظ نسائکم کے بالمقابل پیش کئے گئے ہیں۔ لہٰذا ھارون عبداللہ صاحب کی دلیل بہت مضبوط ہے۔ کیونکہ آپ ابنائکم کو نابالغوں کے لئے مانتے ہیں اور نسائکم کو بالغ پر منطبق کرتے ہیں۔ اس آیت میں دونوں الفاظ کا بالمقابل استعمال آپ کے پہلے سے بلادلیل دعوے کی مزید قلعی کھول دیتا ہے کہ نہ تو بنات نابالغ بچیوں کے لئے خاص ہے اور نہ ہی نساء بالغ خواتین کے لئے۔ اگر ایسا نہیں تو ازراہ کرم لغت سے کچھ تو دلیل پیش کیجئے۔

باقی ابنائکم سے بہادر افراد اور نسائکم سے کمزور افراد مراد لینا تو بدترین تحریف ہے۔ جس کی نہ لغت سے کوئی گری پڑی تائید پیش کی جا سکتی ہے اور نہ تاریخ سے۔ کیا وہ قتل سے قبل، جسامت اور مسلز چیک کرتے تھے کہ بندہ بہادر ہے کہ نہیں؟ کسی کی بہادری یا کمزوری جاننے کا آخر کون سا فارمولا فرعونیوں نے دریافت کر لیا تھا؟ کیا بہادروں اور کمزوروں کے لئے اللہ تعالیٰ کو درست الفاظ نہ مل سکے (نعوذباللہ) جو ایسے متبادل استعمال کرنا پڑے جس سے چودہ صدیوں کے تمام مفسرین ، مترجمین، فقہاء اور علماء سب کے سب گمراہ ہی ہو گئے۔

5۔ ھارون عبداللہ صاحب کی اس دلیل کا جواب آپ پر ادھار ہے کہ سورہ نساء آیت 1 میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں رجالا کا لفظ نساء کے بالمقابل استعمال کیا گیا ہے اور اولاد میں نابالغ بچے رجالا میں آ گئے اور نابالغ بچیاں نساء کے لفظ میں آ جاتی ہیں۔ لہٰذا نساء سے فقط بالغ عورتیں مراد لینا لغت اور قرآن دونوں کے اعتبار سے غلط ہے۔

6۔ آپ بار بار نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کو قرآن کے خلاف قرار دے رہے ہیں، حالانکہ ان کی شادی مکہ میں ہوئی تھی اور سورہ نساء کی جس آیت سے آپ نکاح کے لئے بلوغت کو شرط قرار دے رہے ہیں۔ وہ نازل ہی مدینہ میں ہوئی۔ حکم کے نزول سے قبل ہی اس کی پابندی کیسے؟

7۔ نکاح کے لئے "رشد" کی عمر کا آپ بار بار تذکرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ سورہ نساء آیت 6 میں رشد کو نکاح کی عمر ہرگز قرار نہیں دیا گیا۔ ملاحظہ کیجئے:

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو حتیٰ کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور پھر اگر تم ان کے اندر رشد پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔

بلکہ اس آیت میں موجود شرطیہ جملے (پھر اگر تم ان کے اندر رشد پاؤ) سے تو ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی رشد کو پہنچنا لازم نہیں۔ لہٰذا یہی آیت ہمارے موقف کی ایک بڑی دلیل ہے کہ رشد سے قبل نکاح کیا جا سکتا ہے۔

درج بالا جوابات تو اپنی جگہ۔ لیکن آپ نے اب تک اس بنیادی بات کا ہی کوئی جواب نہیں دیا ہے کہ:
1۔ کیا نو سال کی عمر میں کسی بھی لڑکی کا بالغ نہ ہو پانا، قرآن، تاریخ یا سائنس سے ثابت ہے؟
2۔ کیا ابو بکر صاحب کے پیش کردہ لنکس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نو سال کی عمر میں بقول آپ کے "بچی" یا Girl خود ایک بچے کی ماں بننے لائق ہو جاتی ہے؟

اگر درج بالا دونوں سوالات کے جواب میں ہی غور کر لیا جائے تو نکاح کے وقت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر پر سے اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔

رہی بات آپ کے جذباتی دلائل کی، کہ آج کون اپنی نو سالہ بچی کا نکاح تریپن سالہ شخص سے کرنا چاہے گا۔ تو عرض ہے کہ :

1۔ آپ کے نزدیک بھی بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی (منکرین حدیث کی اکثر کتب میں یہی عمر دیکھی جا سکتی ہے، اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں تو اپنی تحقیق پیش کیجئے) ، آپ بتائیں کہ آپ آج کے دور کے حساب سے اپنی سترہ یا اٹھارہ سالہ بہن کا نکاح بھی کسی تریپن سالہ شخص سے کرنا پسند کریں گے؟ اگر اس سوال کا جواب آپ ہاں میں دیتے ہیں، تو آپ کے پوچھے جانے والے سوال پر ہماری ہاں آپ کو کیوں قبول نہیں؟ جبکہ دور حاضر میں دونوں ہی نکاح حیرت و استعجاب کے ساتھ معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنیں گے۔ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے ، تو آپ خود غور کریں کہ اس جواب سے کیسے نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔

2۔ دور حاضر میں تو دوسری شادی کو بھی ہرگز نہ صرف یہ کہ پسند نہیں کیا جاتا، بلکہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن سے چار شادیوں کا ثبوت موجود ہے۔ حدیث سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا ثبوت موجود ہے ۔ اور مسلمانوں کی چودہ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اس اجازت پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اب اس بنیاد پر جذباتی سوال کر دیا جائے کہ کیا آپ اپنے والد کی دوسری شادی کروا کر اپنی والدہ کے لئے سوکن لانا پسند کریں گے؟

3۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کے لئے عرف اور معاشرہ کی اقدار کو بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔ مثلاً نکاح کے بعد بیوی سے خلوت اور جماع کی اگرچہ شرعاً اجازت ہے۔(امید ہے آپ اس بات سے متفق ہوں گے) لیکن چونکہ رخصتی سے قبل اسے معاشرہ درست نہیں سمجھتا، لہٰذا اپنا حق سمجھ کر ایسا کرنا درست نہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ آپ کی بہن کا نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی سے قبل ہی بہنوئی صاحب آپ کے گھر آ دھمکیں اور۔۔؟ تو ظاہر ہے شریعت کی اجازت کے باوجود آپ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔

درج بالا جذباتی باتوں پر جس بنیاد پر آپ خود کو قائل کرتے ہیں، اسی بنیاد پر خود کو بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا والی شادی کے معاملے میں کیوں قائل نہیں کر لیتے؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ شرعی معاملات کو دور حاضر کے اسٹینڈرز پر پرکھ کر درست یا غلط کا فیصلہ دائر کر دینا بھی غلط ہے اور جذباتی بنیادوں پر رد یا قبول کرنا بھی غلط ہے۔

اس پورے معاملے میں اصل بات یہ ہے کہ اصولاً تو نکاح بالغ ہونے کے بعد ہی کرنا چاہئے۔ لیکن رخصت بہرحال موجود ہے کہ اگر نابالغ کا نکاح کر دیا جائے تو وہ بھی درست ہے۔ واللہ اعلم۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترم شاکر صاحب،

آپ نے بڑے "‏عمدہ" دلائل دیے ہیں، مان گیا آپ کو۔ ایک "متنازعہ حدیث" کو درست ثابت کرنے کے لیے آپ سب کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔لیکن مجال ہے قرآن کریم کی آیات پر تدبر کر لیا جائے،اور قرآن کریم کی آیات کی محض روایات کی پیروی میں غلط تشریح کرنے والوں کو بڑھا چڑھا کو پیش کرتے ہیں۔بقول اقبال "خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں، ہوئے کس قدر بے توفیق فقہیان حرم"

سر دست ہم اتنا ہی کہیں گے کہ کہ آپ نے سب تراجم "جانبدار" لوگوں کے پیش کیے ہیں۔کیونکہ وہ سب "احادیث " کو مانتے اور اسی جہت سے "سیدہ عائشہ" کی چھ سال کی عمر میں شادی کے دعوے دار ہیں۔تاہم پکتھال کا ترجمہ تو آپ نے شیئر کرا دیا لیکن لگتا ہے غور سے پڑھا نہیں، یا اگر پڑھا تو سمجھا نہیں۔
ہم آپکی سہولت کے لیے پھر سے شیئر کر دیتے ہیں۔
And for such of your women as despair of menstruation, if ye doubt, their period (of waiting) shall be three months, along with those who have it not.
اس کا مطلب یہی ہے کہ اور "انہیں بھی جنہیں (کسی وجہ سے) پیریڈز نہیں آتے"

اب ہم ان "منکرین حدیث" کی تشریح کی طرف آتے ہیں، جنہوں نے عائشہ کی عمر سترہ سال ثابت کی، قسم لے لیجیے، ہمیں "یہ بھی ہضم نہیں ہوئی" کیونکہ بقول آپکے ہی تریپن سالہ شخض کی شادی "سترہ ، اٹھارہ" سالہ شخص سے کیسے کر دی جائے؟ کہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور کہاں یہ الزام؟؟؟؟ ہمارے نزدیک "ہماری تواریخ، روایات اور تفاسیر" سب کی سب صہیونی و مجوسی دشمنوں کی تحریری سازشیں ہیں۔جس کا مقصد اسلام کی بدنامی اور اس کا پیغام عظیم مٹاناہے۔لہذاہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم ان دشمنان اسلام کی من مانی تحریفات کے قطعاً قائل نہیں ہیں۔ہمارا مقصد صرف قرآن کریم کا پیغام عظیم سامنے لانا ہے، اور جو کوئی اسلام کے نام پر قرآن کریم سے "ایسی بےہودہ" تشریحات کرتا ہے، اس کو غلط ثابت کرنا۔
۔ کیا ابو بکر صاحب کے پیش کردہ لنکس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نو سال کی عمر میں بقول آپ کے "بچی" یا Girl خود ایک بچے کی ماں بننے لائق ہو جاتی ہے؟
ابوبکر صاحب کا شیئر کرایے گئے لنک میں سب کے سب "ناجائز بچوں اور ریپ " کے کیسز تھے۔اس سے ممکن ہے آپ کو تین چار سالہ "مائیں " بھی مل جائیں۔

دور حاضر میں تو دوسری شادی کو بھی ہرگز نہ صرف یہ کہ پسند نہیں کیا جاتا، بلکہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن سے چار شادیوں کا ثبوت موجود ہے۔ حدیث سے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا ثبوت موجود ہے ۔ اور مسلمانوں کی چودہ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اس اجازت پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اب اس بنیاد پر جذباتی سوال کر دیا جائے کہ کیا آپ اپنے والد کی دوسری شادی کروا کر اپنی والدہ کے لئے سوکن لانا پسند کریں گے؟
پتہ نہیں آپ بات پوری کیوں نہیں کرتے، لیکن آپکا مسئلہ وہی ہے "راویان اور فقہیان" نے جو تشریح کردی ، اس سے ہٹ کر آپکو کوئی اور تشریح قبول ہی نہیں۔اور جیسا کہ ہم نے کہا "یہ سب صیہونی و مجوسی" سازشی عناصر تھے ، جنہوں نے اسلام کا نام بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا۔

دیکھتے ہیں سورۃ نساء آیت نمبر تین

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا 4:3

ترجمہ: اور اگر تمہیں خطرہ ہو کہ تم معاشرے میں بے یار ومدد گار رہ جانے والوں کے ساتھ عدل نہیں کر سکو گے(تو خواتین میں سے) جنکو سہارا دینے کی تمہاری سکت ہودو ،دو ، تین تین یا چار چار سے شادی کر لو۔ تاہم اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ (معاشی فراوانی کے باوجود) تم (ازواجی رشتوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو ایک ہی کافی ہے۔یا(اگر معاشی تنگ دستی ہے تو) اپنی (قبل از اسلام کی لونڈیوں)ملازمین میں سے کسی سے شادی کر لو؛ یہ اس لیے کہ نا انصافی کرنے سے بہتر ہے کہ تم سوچ سمجھ کر قدم اٹھاؤ 4:3

آپ نے تو اس آیت میں لگائی گئی شرائظ کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا اور سب کو "چار شادیوں " کا لائنس تھما دیا۔کیا یہ کھلی تحریف قرآن نہیں ہے؟؟؟آپکے نام نہاد مجوسی علماء نے "صیہونیوں" کی ایماء پر اس کتاب عظیم میں ایسی ایسی تحریفات کی ہیں کہ پورے قرآن کریم کا نقشہ ہی بدل ڈالا، مثلاًاس آیت میں "عدل" سے مراد "خواتین میں جذباتی عدل " قائم رکھنا تھا، یعنی کسی کو تنہا نہ چھوڑنا اور سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرنا۔اور ان مجوسی علماء نے اس کا مطلب"سب کے ساتھ ایک جیسی جنسی و جسمانی طاقت اور شہوت رانی" نکالا، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم میں جنس پرست ملا، "دو ، دو تین تین شادیاں کرتے اور دوسروں کو بھی اسکا لائنس دیتے ہیں۔اس سے قطع نظر کہ پہلی بیوی کے "جذبات و احساسات" کیا ہیں؟اگرچہ یہ قرآن کریم کی طرف سے لگائی گئی لازمی شرط تھی۔

آپ ہی بتائیے کہ آپ کی بہن کا نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی سے قبل ہی بہنوئی صاحب آپ کے گھر آ دھمکیں اور۔۔؟ تو ظاہر ہے شریعت کی اجازت کے باوجود آپ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کریں گے۔
محترم آپ زید ، بکر بھی کہہ سکتے تھے، امید ہے آئندہ آپ ذاتیات پر نہیں اتریں گے۔دوسری بات "اصل چیز شریعت ہے، اگر کسی شخص کا کسی لڑکی سے نکاح ہوچکا ہے تو وہ شرعاً جائز جبکہ اخلاقاً ناجائز ہے۔لہذابہتر یہی ہے کہ نکاح کا مطلب چونکہ شادی کی رضامندی اور ایجاب و قبول ہوتا ہے، لہذا شادی کے بعد رخصتی فوراً ہونی چاہیے، اس میں "تین سال"تو کیا "تین ماہ" کی تاخیربھی نہیں ہونی چاہیے۔

لفظ نساء سے ہر جگہ اور ہمیشہ فقط بالغ خواتین مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں آپ پر اب تک ادھار ہے کہ لغت عرب یا ماہرین لغت سے یہی وضاحت پیش کریں۔

2۔ بنات سے ہمیشہ اور ہر جگہ فقط نابالغ بچیاں ہی مراد ہوں گی۔ اور اس کے ثبوت میں بھی آپ نے اب تک لغت سے یا ماہرین سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔
اب آپ کے "نساء اور بنت"کے معنی پر استدلال پر بات کرتے ہیں، آپ کسی بھی "مستند لغت" سے ثابت کردیں کہ "نساء"کے معنی "نابالغ بچی" ہے۔اور بنات کے معنی "جوان عورت"۔کیونکہ آپ کو اسے ثابت کرنا ہے، مجھے نہیں، ٹینشن آپکو ہے کہ "عائشہ بوقت شادی "نساء بھی تھیں اور "بنت " بھی۔

آخری بات میں جتنی بھی وضاحتیں پیش کروں، آپ "ایمان لانے والے نہیں ہیں" کیونکہ "مجوسی " علماء کی تعدا" اس جمہوری معاشرے میں ہم سے کہیں ذیادہ ہے"اور ظاہر ہے کہ جہاں پر تعداد عقل پر بھاری ہو، وہاں کوئی بھی دلیل درست نہیں ہوسکتی۔کیونکہ جمہوریت وہ تماشہ ہے جہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔

فی امان اللہ،
و ما علینا الاالبلاغ المبین
ثم تتفکروا

والسّلام، عمران علی
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
برادر شاکر صاحب،
آپکا ایک اہم اعتراض جسکا ہم جواب نہ دے سکے،
اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ جنہیں (آج تک یا ابھی تک ) حیض نہیں آیا، ان کی عدت تین ماہ ہے، سے نابالغ بچیوں کی عدت مراد نہ لینے کی آخر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
ہمارے پاس دلائل تو بہت مستحکم ہیں جو ہم نے اس سے قبل کے صحفات پر پیش بھی کیے ہیں، لیکن "آپ میں نہ مانوں" کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں، اب ہمارے پاس ایک ہی دلیل ہے، کہ "اللہ تعالی اتنا احمقانہ حکم نہیں دے سکتے" اللہ تعالی نے تو صرف دو باتیں کہی تھیں، نمبر ایک " وہ خواتین جنہیں حیض سے (بوجوہ عمر) مایوسی ہوگئی ہو" اور نمبر دو"وہ جنہیں حیض نہ آتا ہو، یا بقول آپکے "نہ آيا ہو" دونو‎ں تراجم کی صورت میں "خواتین کو حیض نہ آنے سے مراد "کسی جسمانی پیچیدگی " کی وجہ سے حیض نہ آنا ہے، اور یہ اتنی بڑی بیماری نہیں ہوتی کہ "اس کا نام لیکر اظہار کیا جائے۔"اسکے اثرات مضر بھی نہیں ہوتے ، محض "خواتین کی خوبصورتی و شادابی میں فرق آتا ہے"۔تمام شادی شدہ حضرات جانتے ہیں کہ اکثر "خواتین" میں یہ پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔اور اسکا علاج بھی ممکن ہے۔

اور اللہ کے اس حکم میں تبدیلی "مجوسیوں " نے کی ہے۔فلہذا یہ حکم مجوسیوں کا ہے، اللہ کا نہیں۔ایسے احمقانہ حکم "مجوسی " ہی دے سکتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
عمران نے جو غلطیاں ، اپنے موقف ( یعنی نابالغ لڑکیوں سے نکاح ناجائز) بیان کرتے ہوے ، کی ہیں ، مندرجہ ذیل بیان کی جا رہی ہیں۔

١۔ ١٦ سال کی لڑکی کو عربی میں "بنت" کہا جاتا ہے ۔ کسی مستند عربی لغت سے ثابت کریں ؟؟

٢۔ نابالغ لڑکی کو اردو میں "لڑکی" ، اور انگلش میں" girl" کہا جاتا ہے ۔ اردو ، انگلش ,لغات سے ثابت کریں کہ بالغ لڑکی کو ، "لڑکی" یا "girl" نہیں کہا جاتا؟؟

٣۔ سورہ احزاب آیت #٥٠(( وبنات عمک ۔۔۔۔۔)) جو بنات کا ذکر ہے ، (عمران کے مطابق) وہ صرف رشتوں کے لیے ہے ۔ عربی لغت اور قرآن سے ثابت کریں کہ "بنات" صرف رشتے کےلیے استعمال ہوا ہے ؟؟

٤۔ سورہ احزاب آیت#٥٠ (( خالصہ لک من دون المؤمنین )) میں" لک " کی ضمیر ، امہات المؤمنین کے لیے استعمال ہوئ ہے یا ہوسکتی ہے ، عربی لغت اور قرآن سے ثابت کریں؟؟

٥۔ سورہ بقرہ کی آیت (( یذبحون ابناءکم و یستحیون نسآءکم)) میں ، "ابناء" کا ترجمہ ( بہادر نوجوان ) اور "نسآء" کا ترجمہ (بزدل کمزور نوجوان) ، عربی لغت اور قرآن سے ثابت کریں؟؟

٦۔ سورہ نسآء میں (( بلغوا النکاح )) کا ترجمہ " بالغ ہوکر نکاح کو پہنچے " ، عربی لغت اور قرآن سے ثابت کریں ؟؟

٧۔ سورہ احزاب آیت #٥٠ میں ، آپکی ازواج ، جنکے مہر ادا آپ کرچکے ہیں ، چچا زاد ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ زاد ، لونڈیاں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "ھبہ" کرنا ثابت کریں ، کیونکہ عمران کے مطابق سابقہ عورتیں (( وامراہ مومنتہ )) میں داخل ہیں ( عمران کی بلیغ عربی کے مطابق ) اور "امراہ" کے ساتھ (( ان وھبت)) کی شرط بھی ہے۔ لہذا اگر سابقہ عورتیں ، "امراہ"میں داخل ہیں ، تو ((ان وھبت)) کی شرط میں، تمام عورتوں داخل ہیں۔ سابقہ تمام عورتوں کا آپ کو ھبہ کرنا ، عربی لغت اور قرآن سے ثابت کریں؟؟

٨۔ سورہ نسآء آیت # ١ میں(( نفس )) کا معنی "خلیہ" ، عربی لغت سے ثابت کریں ؟؟

٩۔ سورہ نسآء آیت #١ میں ((نفس)) کاترجمہ عمران نے "خلیہ" کیا ہے۔ بفرض محال اس" خلیہ" کو مان لیا جاے ، تو اس سے جو نسل انسانی چلی ، اسمیں بچے( لڑکے ، لڑکیاں ) شامل تھے یا نہیں؟؟
اگر بچے شامل تھے تو وہ (( رجالا)) اور (( نسآء)) میں آئیں گے یا نہیں ؟؟ اگر نہیں تو کیا "خلیہ" سے پیدا ہونے والی نسل صرف بالغ مرد وعورت تھے ، جیساکہ الفاظ ہیں (( رجالا)) و (( نسآء)) ؟؟؟قرآن سے ثابت کریں؟؟

١٠۔ اگر بچے شامل نہیں تھے ، تو اسوقت دنیا میں پھیلے ہوے بچے کونسے "خلیہ" سے تعلق رکھتے ہیں، قرآن سے ثابت کریں ؟؟

تمت
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترمین عمران صاحب کے سامنے واضح عقلی اور نقلی تشریحات پیش کیے جانے کے باوجود بھی میں نہ مانوں کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ اور شروع بحث سے دلیل نام کی کوئی چیز کشکول میں نہ ہونے کے عوض فلسفیانہ انداز سے گفتگو کرتے چلے آرہے ہیں۔ابو بکر بھائی نے جو لنک شیئر کیے کہ اگر دلائل کو نہیں ماننا تو کم از کم واقعاتی حادثے کو تو مان لے لیکن اس پر محترم کی طرف سے تبصرہ یوں ہوا
ابوبکر صاحب کا شیئر کرایے گئے لنک میں سب کے سب "ناجائز بچوں اور ریپ " کے کیسز تھے۔اس سے ممکن ہے آپ کو تین چار سالہ "مائیں " بھی مل جائیں۔
اب محترم یہاں پر اس بات کو تو مان گئے کہ تین چار سالہ بچی جس کے ساتھ ریپ اور ناجائزگی کی گئی ہو تو اس کی ناجائز اولاد پیدا ہوسکتی ہے۔ تو کیا تین چار سالہ بچی نکاح کے عوض اولاد نہیں جن سکتی ؟ حرام فعل سے محترم مان گئے کہ تین چار سالہ بچی اولاد پیدا کرسکتی ہے لیکن نکاح کے ذریعے ایسی صورت کو ماننے سے انکار کیوں؟۔ اور پھر ہمارا زور اس پر نہیں کہ ہر حال میں تین چار سالہ بچی کا جب نکاح ہو تو اس کی اولاد بھی پیدا ہوجائے۔۔بات اونلی نکاح کی ہے۔کہ اس عمر میں نکاح کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟۔ اور پھر ریپ کے ذریعے تین چار سالہ بچی کا اولاد جننا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان بچیوں میں ماں بننے کی صلاحیت تھی اور اسی بات کو عمران صاحب بھی مان رہے ہیں ’’تین چار سالہ مائیں بھی مل جائیں‘‘ تو کیا ماں بننے کی صلاحیت رکھنے والی بچی نکاح کے قابل نہیں ہوسکتی ؟ اور پھر اس بات کی عمران صاحب کے پاس کیا دلیل ہےکہ ازدواجی تعلقات قائم کیے بغیر چھوٹے بچوں اور بچیوں کا نکاح نہیں ہوسکتا۔؟
نوٹ:
میرے خیال میں اب فریق خود اپنے الفاظ میں تسلیم کرچکے ہیں۔ مزید بحث سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔والسلام
 
Top