• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اعتراضات کیوں ؟؟؟

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اگر ہم نے غلط ترجمہ کیا ہے تو آنجناب کا بھی فرض بنتا تھا کہ وہ ہمارے سہو کی تصیح فرما دیتے۔اور درست ترجمہ کردیتے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔جہاں تک ماہواری کا سوال ہے تو بہت سے خواتین کو ماہواری کا خون نہیں آتا اور یاد رکھیے کہ ماہواری کی آیات میں بنت سے مخاطب نہیں، بلکہ امراۃ یا نساء سے مخاطب ہے، اور نابابغ بچی سولہ یا سترہ سال تک کی عرب میں "بنت" کہلاتی ہے، "امراۃ" نہیں۔لوگوں کو دھوکہ دینا چھوڑ دیں اور اللہ کے سچے دین کا احیاء کریں۔یاد رکھیں ایک دن آپ کو اسکے حضور حاضری دینی ہے۔ وہاں یہ لفاظی آپکے کچھ کام نہ آئے گی۔
درست ترجمہ یوں ہے :
اور یتامى کو آزماؤ حتى کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ۔۔۔ الخ


اور یہ آپ نے ایک اور خیانت کی ہے کہ اس آیت میں خطاب "امرأۃ" کو ہے !!!
جبکہ اس آیت میں امرأۃ کو خطاب نہیں ہے بلکہ خطاب "نساء" کو ہے جس میں ہم قسم خواتین شامل ہوتی ہیں ۔
نیز یاد رہے کہ کوئی بھی شادی شدہ عورت "امرأۃ" کہلاتی ہے خواہ کسی بھی عمر کی ہو !
لہذا آپکے الفاظ کا روئے سخن ہی ہم آپکی طرف کرتے ہیں کہ :
لوگوں کو دھوکہ دینا چھوڑ دیں اور اللہ کے سچے دین کا احیاء کریں۔یاد رکھیں ایک دن آپ کو اسکے حضور حاضری دینی ہے۔ وہاں یہ لفاظی آپکے کچھ کام نہ آئے گی۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
امراۃ کی جمع نساء ہی ہوتی ہے ، محترم برادر، چلیے نساء ہو یا امراۃ،
یہ تو آپ نے بھی مان لیا نہ کہ "کم از کم بنت " نہیں ہے ، یعنی عرف عام میں ہم جسے بچی کہتے ہیں وہ نہیں ہے۔اور ہم چودہ پندرہ اور سولہ سال تک کی لڑکیوں کو بچی ہی کہتے ہیں۔
حیرت ہے کہ آپ نے بھی سورۃ نساء کی آیت نمبر چھ کا وہی ترجمہ بطور تصیح کیا ہے جو میں نے کیا تھا تو فرق کیا ہے؟

میرا ترجمہ: "اور یتمیوں کو پرکھتے رہو یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں"
آپ کا ترجمہ: "ور یتامى کو آزماؤ حتى کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائيں"
پھر آپ نے تصیح کس چیز کی ہے؟؟؟"بالغ ہو کر "کی یہ اضافہ میں نے قصداً بالغ کی وضاحت کے لیے کیا تھا۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
میں نے یہ کہا کہ ہر شادی شدہ عورت کو امرأۃ کہا جاتا ہے خواہ وہ کسی بھی عمر کی ہو ۔
اور آپ کا بنت اور امرأہ میں فرق کرنا بے سود اور خلاف قانون ہے

آپ کی یہ وضاحت تحریف معنوی کہلاتی ہے ۔ کیونکہ قرآن میں کہیں بھی نکاح کے لیے بلوغت کو شرط قرار نہیں دیا گیا
آپ نے دعوى کیا تھا کہ ہم قرآن سے نکاح کے لیے بلوغت کی شرط ثابت کرتے ہیں ۔ جبکہ آپ ایسا نہیں کرسکے ۔
خوب سمجھ لیں
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
آپ ثابت کردیں کہ بالغ ہونا ضروری نہیں۔طلاق کی آیات کو ایک طرف رکھ کر، صرف نکاح والی آیات سے ثابت کریں۔کیونکہ طلاق والی آیات کے ساتھ آپ من مانی تحریف کر رہے ہیں وہ کچھ نہیں "ہم نے بالغ کی وضاحت" کردی تو وہ غیرشرعی ہوگئی۔طلاق والی آیت میں یہ کہاں وارد ہو گیا کہ جسے حیض نہیں آتا ہو نابالغ بچی (بنت) ہے؟؟؟ کیا یہ معنوی تحریف نہیں؟؟؟اسی طرح امراۃ کے معنی شادی شدہ عورت بھی آپ ہی سے سنیں ہیں۔ امراۃ کا مطلب خاتون ہوتا ہے، شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی اس میں بحث ہی نہیں۔اور امراۃ کی جمع کیا ہے ؟؟ ذرا اسکی وضاحت تو کر دیں، کیا جمع میں جا کر امراۃ غیرشادی ہو جاتیں ہیں؟؟؟؟ اس حساب سے تو تین خواتین انفرادی طور پر تو "امراۃ" یعنی شادی شدہ اور نساء یعنی تینوں غیر شادی شدہ ہو گئیں۔ نیز آپ یہ بھی ثابت کر دیں کہ قرآن میں بنت کی شادی کا حکم ہے
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جناب طلاق والی آیت سے آپکو کیا دشمنی ہے ؟؟؟؟
اور کلمہ " جنہیں حیض نہیں آیا " سے نابالغ نہیں تو کون مراد ہوسکتی ہیں ؟؟؟؟
کیونکہ جنہیں حیض آیا لیکن بند ہوگیا خواہ کبر سنی کی بناء پر خواہ بیماری کی بناء پر انکے لیے اس آیت میں لفظ " جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں" استعمال ہوا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
محترم عمران علی کا استدلال درست معلوم نہیں ہوتا ، کہ جو فرق بنت اور امراہ میں کیا گیا ہے ۔

آیت ملاحظہ ہو(( و بنات عمک وبنات عمتک وبنات خالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وامراہ مؤمنتہ ۔۔۔۔۔الخ)) سورہ احزاب آیت#٥٠

اس آیت میں جو عورتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، حلال ہیں ، انکا تذکرہ ہے۔

ان عورتوں کو، ازواج، بنت ، امراہ اور نسآء بھی کہا گیا ہے۔ آیت#٥٢ بھی ملاحظہ فرمائں ۔

لہذا عمران بھائ ، جو فرق ، بنت اور امراہ میں کررہے ہیں ، درست معلوم نہیں ہوتا۔
واللہ اعلم
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
پتہ نہیں پوری بات کرنا آپ لوگوں کو کیوں پسند نہیں
ملاحظہ کیجیے پوری آیت الاحزاب (آیت پچاس)
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اس آیت میں چچا، پھوپھی،خالہ اور ماموں کی بیٹیوں کے لیے لفظ "بنت" آیا ہے۔نکاح کے لیے نہیں اور عربی میں چچا، ماموں ، خالہ اور پھوپھی کی بیٹیوں کی وضاحت کے لیے لفظ "بنت" ہی آتا ہے، آگے چل کر اسی آیت میں جب نکاح کے لیے خاتون کا تذکرہ آیا تو اس قرآن نے "امراۃ" ہی کہا ہے، "بنت" نہیں۔ اس سارے استدلال کا مطلب صرف یہ ہے کہ نابالغ لڑکیوں سے نکاح جائز نہیں۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
عمران علی !

١۔ کیا (( انا احللنا لک )) " ہم نے تیرے لیے حلال کردی ہیں ، میں(( وبنات عمک وبنات عمتک)) " تیرے چچا کی لڑکیاں ، اور پھوپھیوں کی بیٹیاں ، شامل ہیں کہ نہیں ؟؟

٢۔ اگر آپ کہیں کہ شامل ہیں ، تو آپ نے خود ہی تسلیم کرلیا ، کہ بنات ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہیں۔

٣۔ اگر آپ کہیں کہ بنات، شامل نہیں ، تو کیا آپ بتاسکے ہیں ، چچا کی لڑکیاں ، پھوپھیوں کی لڑکیاں ، اس آیت میں کیوں بیان کیں گئ؟؟

٤۔ کیا اس آیت میں بیان کردہ حلال عورتیں ، الگ الگ ہیں یا سب ایک ہی عورت ہیں ؟؟؟

٥۔ کیا اس آیت میں حلال ، کا تعلق ، ازواج ، لونڈیاں ،بنات ، امرہ کے ساتھ ہے ؟؟یا حلال کا تعلق صرف امراہ کے ساتھ ہے ؟؟

٦۔ اگر آپ کہیں کہ حلال، کا تعلق ان سب عورتوں کے ساتھ ہے ، تو آپ نے خود ہی تسلیم کرلیا ، نکاح کا تعلق صرف "امراہ" کے ساتھ نہیں ، بلکہ سب عورتوں کے ساتھ ہے ۔

٧۔لہذا آپ کا یہ کہنا بالکل غلط ہوا کہ ، جہاں نکاح کا بیان ہے ، وہاں صرف "امراہ" کا بیان ہے ۔

٨۔ اگر آپ کہیں کہ نہیں ، نکاح کا تعلق صرف "امراہ" کے ساتھ ہے ، تو کیا آپ بتاسکتے ہیں سابقہ عورتوں کا "حلال " کا کیا مطلب ہے؟؟

٩۔کیا "امراہ" کے علاوہ ، تمام عورتیں( ازواج ، لونڈیاں ، بنات) جو حلال ہیں ، بغیر نکاح کے حلال ہیں ؟؟

١٠۔ کیا آپ آیت میں موجود" واو" کو عاطفہ ( تمام چیزوں کو الگ کرنے والا) مانتے ہیں ؟؟ مثلا ("و " ما ملکت) ، ("و" بنات ) ، ("و "امراہ) یعنی سب الگ الگ ہیں ، یعنی ازواج اور ہیں ، لونڈیاں اور ہیں ، بنات اور ہیں ، امراہ اور ہے ؟؟؟

١١۔ اگر آپ اس "واو" کو عاطفہ مانتے ہیں ، تو آپ نے ، خود ہی تسلیم کیا کہ تمام عورتیں ، الگ الگ ہیں ، یعنی جو ازواج ہیں، وہ لونڈیاں نہیں ہیں ، اور جو لونڈیاں ہیں، وہ بنات ( چچا کی لڑکیاں ) نہیں ہیں، اور جو بنات ہے ، وہ "امراہ" نہیں ہے ، اور جو امراہ ہے ، وہ باقی تمام عورتیں ، نہیں ہے ۔

١٢۔لہذا آپکا یہ کہنا باطل ہوا ، کہ نکاح کا تعلق صرف امراہ کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ اگر نکاح کا تعلق ، صرف امراہ کے ساتھ ہے ، تو باقی عورتیں ، جو بیان ہوئ ہیں ، انکا کیا مطلب ہے ؟؟ کیونکہ "واو" عاطفہ ماننے کی صورت میں ، جو "امراہ" ہے ، وہ باقی عورتیں نہیں ہیں۔ لہذا باقی عورتوں کے لیے نکاح کو علیحدہ سے ثابت کرنا ہوگا ؟؟

١٣۔ اگر آپ کہیں کہ "واو" عاطفہ نہیں بلکہ تفسیریہ ( یعنی ایک ہی عورت کی خصوصیات ) بیان ہوئ ہیں ، تو اسکا غلط ہونا بالکل واضح ہے کہ یہ اسی آیت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ ان تمام عورتوں کا ، ایک عورت میں، اکٹھا ہونا نا ممکن ہے ۔

١٤۔کیا آپ کی بیویاں ، جنکے آپ مہر ادا کرچکے ہیں ، وہ لونڈیاں بن جائں گی ؟؟ کیا لونڈیاں بیویاں بن جائیں گی ؟؟
کیا آپ اپنے چچا کی لڑکیوں کو لونڈیاں بنائیں گے؟؟ یا لونڈیاں ،چچا کی بیٹیاں بن جائیں گی؟؟ یا آپ کے ساتھ ہجرت کرنے والیاں، ہجرت نہ کرنے والیوں کے برابر ہوجائیں گی؟؟ یا "امراہ" جو اپنے آپ کو ھبہ کرتی ہے ، ھبہ نہ کرنے والی کے برابر ہوجاے گی؟؟

١٥۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ آیت میں ، نکاح کو "امراہ" کے ساتھ خاص کرنا ، اور باقی تمام عورتوں کو اس میں شامل سمجھنا ، بالکل غلط ہے۔۔
تمت
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
بنات کے ساتھ نکاح ، قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو۔

(( قال ھؤلآء بناتی ان کنتم فعلین)) سورہ حجر آیت#٧١ " (لوط علیہ السلام) نے کہا ، اگر تمہیں یہ ( خواھش پوری) کرنا ہی ہے ، تو یہ میری بچیاں موجود ہیں۔

معلوم ہوا کہ بچیوں سے ، نکاح درست ہے۔

یہ بات واضح ہے ، کہ لوط علیہ السلام ، نکاح کی دعوت دے رہے تھے ، زنا کی نہیں ۔
 
Top