• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جہاں تک یزید کا معاملہ الله کے سپرد ہے تو میں یہی کرتا ہے مگر جب اپ جیسے کرم فرما اس کو نیک الله کا ولی اور صالح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہے تب میں ضرور بتاتا ہوں کہ وہ اجماعی فاسق ہے اگر اس کے دور کو اسلامی خلافت کا دور کہا جاتا ہے تو میں ضرور کہتا ہوں کہ ایک غاصب تھا جس نے زبردستی مسلمانوں کے تخت پر قبضہ کیا تھا یا جس خلافت کے دوبارہ احیاء کی کوشش میں کوئی بات کرنی ہوتی ہے تب بھی ضرور کہتا ہوں کے خلافت کو برباد کرنے والا تھا اس خلافت کو جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اپنے لہو سے سینچا تھا .
آپ کی کوئی بھی بات قابل التفات نہیں. ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یزید رحمہ اللہ سے خاندانی دشمنی ہے. ایک صحابی کے بیٹے پر اس طرح کے الزامات لگانے سے پہلے سوچ لیا کریں.
اب بس کریں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تو پھر اس مروان کو اسی فورم پر رحمہ الله لکھتے ہے اس کو عزت دیتے ہیں جبکہ اس پر اجماع ہے کہ علی رضی الله عنہ پر وہ لعن طعن کرتا تھا اس پر اپ کیا کہیں گے اس کو عزت دینی چاہیے ؟
مروان بن حکم کے بارے میں میں نے زیادہ پڑھا نہیں ہے.
جناب عالی!
مجھے تاریخ سے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی احادیث سے ہے.
ان شاء اللہ میں مطالعہ کروں گا. ابھی تو میں ایک طالب علم ہوں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ایک مجلس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : یزید بن قیس کا – اس پر اللہ کی لعنت ہو – کیا حال ہے ؟ [ واضح رہے کہ یہ یزید وہی شخص ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کا سردار تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ کو کھلے عام برا بھلا کہتا تھا ] لوگوں نے جواب دیا : وہ تو مرگیا ، یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا استغفار پڑھنے لگیں ، لوگوں نے کہا : ابھی تک تو آپ اسے گالیاں دے رہی تھیں اور اب استغفار پڑھ رہی ہیں ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مردوں کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ اپنے کئے کو پہنچ گئے ہیں{ صحیح ابن حبان :5/43 ، نمبر :2010 }

سنن ابو داود میں یہ حدیث مختصر ہے جس کے الفاظ ہیں :
" اذا مات صاحبکم فدعوہ ولا تقعوا فیہ "
" جب تمہار ساتھی مر جائے تو اس کو چھوڑ دو اور اس کی عیب جوئی کے پیچھے نہ پڑو "{ سنن ابو داود :4899، الادب }

خاص کر اگر کسی مردے کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو تو اس کی قباحب اور بڑھ جاتی ہے ۔

ارشاد نبوی ہے :
" لا تسبوا الاموات فتوذوا بہ الاحیاء "
" مردوں کو گالی نہ دو کہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچے "{ سنن ابو داود :1983 ، الجنائز – مسند احمد :4/252 – صحیح ابن حبان :3011 ، 5/43 ، بروایت مغیرہ بن شعبہ }
ان احادیث کے پیش نظر اگر کوئی مصلحت راجحہ نہ ہوتو کسی مرد کو برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے بلکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی مردہ کافر کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اسے بھی برا بھلا نہ کہا جائے گا ،{ دیکھئے فتح الباری :3/258-259 }
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جہاں تک یزید کا معاملہ الله کے سپرد ہے تو میں یہی کرتا ہے مگر جب اپ جیسے کرم فرما اس کو نیک الله کا ولی اور صالح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہے تب میں ضرور بتاتا ہوں کہ وہ اجماعی فاسق ہے اگر اس کے دور کو اسلامی خلافت کا دور کہا جاتا ہے تو میں ضرور کہتا ہوں کہ ایک غاصب تھا جس نے زبردستی مسلمانوں کے تخت پر قبضہ کیا تھا یا جس خلافت کے دوبارہ احیاء کی کوشش میں کوئی بات کرنی ہوتی ہے تب بھی ضرور کہتا ہوں کے خلافت کو برباد کرنے والا تھا اس خلافت کو جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اپنے لہو سے سینچا تھا .
ہمارا موقف واضح هے ۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں ۔ ہم سے دشمنی میں خود پر کیوں ستم کر رهے هو؟
یہ انتہائی عجیب جواب هوا کہ چونکہ ہم ماتم نہیں کرتے ، ہم سب و شتم نہیں کرتے بالعکس ہم سب معاملہ اللہ پر چهوڑتے ہیں اس لیئے آپ جیسوں نے سارا معاملہ اپنے هاتهوں میں لے لیا هے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ایک خیال :
هم کو اللہ سبحانہ و تعالی نے اس دور میں پیدا فرمایا ۔ آج کا دور صحابہ الکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے بیحد بگڑا هو هے ۔ فی زمانہ مسلمانوں کے افکار و اعمال بهی ان کے دور کی طرح نہیں ۔ نا هی ہماری دین سے محبتیں ، جدوجہدیں اور قربانیاں انکے عشر عشیر بهی نہیں هو سکتی ہیں ۔ ہمارے ایمانوں کا ہم خود احتساب کر لیں تب بهی انکے پاوں کی دهول کی برابری نہیں هو سکتی ۔ لیکن ہم بگڑے هوئے ، بد ترین مسلمان بهی اپنے اللہ سے اپنی ایمانی لغزشوں کی ، اپنے غلط افکار و اعمال معافیاں طلب کرتے هوئے عفو و در گذر کے طلبگار هوتے ہیں ، محض امید نہیں بلکہ یقین کامل سے کہ اللہ غفور الرحیم هے ، اپنے بندوں پر بیحد مہربان هے وہ ہماری خطاوں کو بخش دیگا اور ادنی سے ادنی ایمان رکهنے والا بهی اللہ سے جنت الفردوس ہی طلب کرتا هے ۔
اب سوال یہ اٹهتا هے کہ کیا صحابہ الکرام نے انکے دور میں جو بهی کیا هو گا ، کیا انہوں نے اللہ کی پکڑ کے خوف سے اللہ سے معافیاں نہیں مانگی هونگی ؟ اگر ہم جنت کی خواہش رکهتے ہیں تو کیا انکی خواہشات میں اعلی ترین جنتیں نا هونگی ؟ اگر ہم جیسے معافی طلب کرتے هوئے یقین رکهتے ہیں کہ اللہ معاف فرمائیگا تو کیا صحابہ الکرام کو ایسا ہی یقین نا هوگا؟
اگر ہم جیسوں کی معافی اللہ چاہے تو فرما دے ، مالک کل هے وہ تو کس کی مجال هے کہ اللہ فیصلہ پر اعتراض کرنے کی جرات کر سکے؟ اسی طرح اللہ مالک یوم الدین ، تمام صحابہ الکرام کی جملہ اخطاء کو معاف فرما کر اعلی ترین جنتیں عطاء کرے تو کیا وہاں اس وقت کسی کی ہمت هوگی اعتراض کی ؟
اگر نہیں ، اور یقینا نہیں تو پہر یہ واویلا کس لئیے؟ آج ہی کیوں فیصلہ؟ یہ اصرار اور اس اصرار پر اتنی شدت کیوں ؟
رونا دهونا ، محبتیں جتانا ، سب و شتم ، آخر هونا کیا هے محشر میں ؟ وہ ہی هوگا جو اللہ چاہیگا ۔ پهر روز محشر کا انتظار کرو اور اللہ سے نا صرف صحابہ الکرام بلکہ تمام مسلمین والمسلمات کے لئے بخششیں مانگو ۔ یہی ہم کرتے ہیں اور یہی تم جیسوں کو کرنا چاہئے ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
آپ کی کوئی بھی بات قابل التفات نہیں. ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یزید رحمہ اللہ سے خاندانی دشمنی ہے. ایک صحابی کے بیٹے پر اس طرح کے الزامات لگانے سے پہلے سوچ لیا کریں.
اب بس کریں.
محترم ،
میں نے ایک بھی الزام نہیں لگایا یہ تمام باتیں اکابرین نے بیان کی ہیں
(١) فاسق و فاجر ہے
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے (مجموع الفتاویٰ )
اس پر اہل علم کا اجماع ہے .
(٢) غاصب ہے
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے(منہاج السنہ )
(٣) خلافت برباد کی یعنی ملوکیت تھی
امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے( جامع المسائل )
تمام حوالے کی اسکین پیش کر سکتا ہوں اگر طلب کیا جائے.
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ایک خیال :
هم کو اللہ سبحانہ و تعالی نے اس دور میں پیدا فرمایا ۔ آج کا دور صحابہ الکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے بیحد بگڑا هو هے ۔ فی زمانہ مسلمانوں کے افکار و اعمال بهی ان کے دور کی طرح نہیں ۔ نا هی ہماری دین سے محبتیں ، جدوجہدیں اور قربانیاں انکے عشر عشیر بهی نہیں هو سکتی ہیں ۔ ہمارے ایمانوں کا ہم خود احتساب کر لیں تب بهی انکے پاوں کی دهول کی برابری نہیں هو سکتی ۔ لیکن ہم بگڑے هوئے ، بد ترین مسلمان بهی اپنے اللہ سے اپنی ایمانی لغزشوں کی ، اپنے غلط افکار و اعمال معافیاں طلب کرتے هوئے عفو و در گذر کے طلبگار هوتے ہیں ، محض امید نہیں بلکہ یقین کامل سے کہ اللہ غفور الرحیم هے ، اپنے بندوں پر بیحد مہربان هے وہ ہماری خطاوں کو بخش دیگا اور ادنی سے ادنی ایمان رکهنے والا بهی اللہ سے جنت الفردوس ہی طلب کرتا هے ۔
اب سوال یہ اٹهتا هے کہ کیا صحابہ الکرام نے انکے دور میں جو بهی کیا هو گا ، کیا انہوں نے اللہ کی پکڑ کے خوف سے اللہ سے معافیاں نہیں مانگی هونگی ؟ اگر ہم جنت کی خواہش رکهتے ہیں تو کیا انکی خواہشات میں اعلی ترین جنتیں نا هونگی ؟ اگر ہم جیسے معافی طلب کرتے هوئے یقین رکهتے ہیں کہ اللہ معاف فرمائیگا تو کیا صحابہ الکرام کو ایسا ہی یقین نا هوگا؟
اگر ہم جیسوں کی معافی اللہ چاہے تو فرما دے ، مالک کل هے وہ تو کس کی مجال هے کہ اللہ فیصلہ پر اعتراض کرنے کی جرات کر سکے؟ اسی طرح اللہ مالک یوم الدین ، تمام صحابہ الکرام کی جملہ اخطاء کو معاف فرما کر اعلی ترین جنتیں عطاء کرے تو کیا وہاں اس وقت کسی کی ہمت هوگی اعتراض کی ؟
اگر نہیں ، اور یقینا نہیں تو پہر یہ واویلا کس لئیے؟ آج ہی کیوں فیصلہ؟ یہ اصرار اور اس اصرار پر اتنی شدت کیوں ؟
رونا دهونا ، محبتیں جتانا ، سب و شتم ، آخر هونا کیا هے محشر میں ؟ وہ ہی هوگا جو اللہ چاہیگا ۔ پهر روز محشر کا انتظار کرو اور اللہ سے نا صرف صحابہ الکرام بلکہ تمام مسلمین والمسلمات کے لئے بخششیں مانگو ۔ یہی ہم کرتے ہیں اور یہی تم جیسوں کو کرنا چاہئے ۔
محترم ،
اپ نے اتنی بڑی نصیحت کی ہے اور سب مسلمانوں کے لئے دعا کے لئے فرما رہے ہے ذرا اس کی ابتداء خود سے کریں اور احمد رضا صاحب برہلوی کے لئے دعا مغفرت فرما دیں .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ایک مجلس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا : یزید بن قیس کا – اس پر اللہ کی لعنت ہو – کیا حال ہے ؟ [ واضح رہے کہ یہ یزید وہی شخص ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کا سردار تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ کو کھلے عام برا بھلا کہتا تھا ] لوگوں نے جواب دیا : وہ تو مرگیا ، یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا استغفار پڑھنے لگیں ، لوگوں نے کہا : ابھی تک تو آپ اسے گالیاں دے رہی تھیں اور اب استغفار پڑھ رہی ہیں ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مردوں کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ اپنے کئے کو پہنچ گئے ہیں{ صحیح ابن حبان :5/43 ، نمبر :2010 }

سنن ابو داود میں یہ حدیث مختصر ہے جس کے الفاظ ہیں :
" اذا مات صاحبکم فدعوہ ولا تقعوا فیہ "
" جب تمہار ساتھی مر جائے تو اس کو چھوڑ دو اور اس کی عیب جوئی کے پیچھے نہ پڑو "{ سنن ابو داود :4899، الادب }

خاص کر اگر کسی مردے کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو تو اس کی قباحب اور بڑھ جاتی ہے ۔

ارشاد نبوی ہے :
" لا تسبوا الاموات فتوذوا بہ الاحیاء "
" مردوں کو گالی نہ دو کہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچے "{ سنن ابو داود :1983 ، الجنائز – مسند احمد :4/252 – صحیح ابن حبان :3011 ، 5/43 ، بروایت مغیرہ بن شعبہ }
ان احادیث کے پیش نظر اگر کوئی مصلحت راجحہ نہ ہوتو کسی مرد کو برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے بلکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی مردہ کافر کو برا بھلا کہنے سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اسے بھی برا بھلا نہ کہا جائے گا ،{ دیکھئے فتح الباری :3/258-259 }
محترم یہ اپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں میں نے تو کوئی لعن طعن نہیں کی ہے اور یہ بتا دوں جو یہ اپ سب لوگ بار بار یہ لکھ دیتے ہے کہ مردے کو برا نہ کہو یہ صرف ان کے لئے ہے جن کی کچھ ذاتی خامیاں یا برائیاں تھی یہ اس کے بارے میں ہے وگرنہ جس نے دین کو نقصان دیا ہو اس کی برائی بیان کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو آگاہی ہو اور دین کے نقصان سے بچ سکیں جیسا علم رجال ہے راویوں کی چھان پھٹک اور ان کے بارے میں حکم لگانا کہ فلاں کذاب ہے جھوٹا ہے ضیف ہے وغیرہ یہ برائی نہیں تو اور کیا ہے اس لئے امام بخاری نے جہاں یہ حدیث نقل کی ہے کہ مردوں کو برا نہ کہو اسی کے نیچے یہ باب بھی قائم کیا ہے کہ " مردوں کی برائی بیان کرنا درست ہے "
اور اس کی شرح میں ابن حجر فرماتے ہیں " أي وصلوا إلى ما عملوا من خير أو شر، واستدل به على منع سب الأموات مطلقا، وقد تقدم أن عمومه مخصوص، وأصح ما قيل في ذلك أن أموات الكفار والفساق يجوز ذكر مساويهم للتحذير منهم والتنفير عنهم. وقد أجمع العلماء على جواز جرح المجروحين من الرواة أحياء وأمواتا.
یعنی انہوں نے جو اچھائی برائی کی وہ ان کے سامنے آ جائے گی اب ان کی برائی کرنا بیکار ہےاس سے دلیل لی گئی ہے کہ مردوں کی مطلق برائی نہ بیان کی جائے اس کا عموم مخصوص ہے اور رائج بات یہی ہے کہ مرے ہوۓ کافروں اور فاسقوں کی برائی کرنا جائز ہے تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت ہو اور اس پر اجماع ہے کہ راویوں پر جرح کرنا جائز ہے چاہے زندہ ہو یا مردہ .
تو ابن حجر کی تصریح سے یہ بات واضح ہو گئی اگر ایسی برائیا ں جن سے دین کا نقصان ہو اور انسان غلط راستے پر پڑ جائے اس سے بچنے کے لئے ایسے فاسق کی برائی بیان کرنا درست ہے اور اس لئے اکابرین یزید کی برائیا ں بیان کی ہیں تو ان احادیث سے جو اپ ثابت کرنا چارہے ہے وہ جمہور کی رائے نہیں ہے یا درست اور رائج قول نہیں ہے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم ،
اپ نے اتنی بڑی نصیحت کی ہے اور سب مسلمانوں کے لئے دعا کے لئے فرما رہے ہے ذرا اس کی ابتداء خود سے کریں اور احمد رضا صاحب برہلوی کے لئے دعا مغفرت فرما دیں .
کافی سے زیادہ فرق هے ہمارے اور تمہارے خیالات اور افکار میں ۔
جو ہم نے کہنا تها کہا ۔
مزید فقط اتنا ہی کہ
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم

ویسے ہم نے مسلمین و مسلمات کہا تها ۔ خوب نام پیش کیا ۔ کیا کہنے ۔ لگے رهو اور جمع کرتے رہو
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
مروان بن حکم کے بارے میں میں نے زیادہ پڑھا نہیں ہے.
جناب عالی!
مجھے تاریخ سے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی احادیث سے ہے.
ان شاء اللہ میں مطالعہ کروں گا. ابھی تو میں ایک طالب علم ہوں.
محترم،
میں اپ کو تاریخ کی طرف نہیں احادیث کی ہی دعوت دے رہا ہوں اور اس فورم پر جتنے لوگوں سے میری بات ہے سب کو احادیث ہی کی طرف دعوت دی ہے اپ میری پوسٹ دیکھ سکتے ہیں
اب میں اپ کو کتب احادیث سے ہی یہ روایت پیش کرتا ہو اس کی سند بھی صحیح ہے اور اس میں مروان منبر رسول صلی الله علیہ وسلم پر کھڑے ہو کر جمعہ کے خطبوں میں
علی رضی الله عنہ پر
لعن طعن کرتا تھا
msail ahmad.png


 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top