• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
عابدالرحمٰن بھائی نے اب تک جو اذکار پیش کئے ہیں۔۔۔
وہ تو احادیث سے ثابت ہیں۔۔۔ تو اُن کو پڑھنے میں برائی یا غلط کیا ہے؟؟؟۔۔۔
السلام علیکم
اخی المکرم
آپ کی اس بات کا جواب ہے
حلقہ ذکر کی ذرا تعریف کر دیجئے؟؟؟۔۔۔ اور
گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر دلیل پیش کیجئے!
حلقہ کے بارے میں بھی احادیث ہیں اور گن کر پڑھنے کے بارے میں بھی احادیث ہیں
میرے بھائی تصوف میں جو غلو ہے وہ غلو ہے جو کہ غلط ہے لیکن جو صحیح ہے وہ صحیح ہے
مجھے آپ کی ایک بات پسند ہے کہ آپ حقیقت پسند ہیں اور یقیناً میں بھی حقیقت پسند ہوں ڈرامہ بازی مجھے بالکل پسند نہیں۔ آج کل مسلمانوں میں ڈرامہ بازی دکھلاوہ شعبدہ بازی مفاد پرستی زیادہ ہے
میرے بھائی تصوف کے مختلف نام ہیں جیسے کہ سلوک زہد احسان تقویٰ جو بھی عمل شریعت کے دائرہ کار میں ہوگا وہ محمود ہے اور جو اس سے تجاوز کرے وہ مردود ہے۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
میرے بھائی تصوف کے مختلف نام ہیں جیسے کہ سلوک زہد احسان تقویٰ جو بھی عمل شریعت کے دائرہ کار میں ہوگا وہ محمود ہے اور جو اس سے تجاوز کرے وہ مردود ہے۔
بھائی یہی بات تو آپ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آپ نے لکھا تھا:
بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی۔
جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی ،اور اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
اگر یہ باتیں شریعت کے دائرہ کار میں ہیں تو شریعت سے ان کی دلیل مطلوب ہے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ان میں سے کون سی بات شریعت کے دائرہ کار سے باہر ہے
برائے مہربانی یہ باتنے کی زحمت فرمائیں کہ آپ شریعت اور طریقت سے کیا سمجھتے ہیں
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی
۔
اس میں کون سی بات قابل اعتراض ہے اور عجائبات سے کیا سمجھتے ہیں
جتنا انسان مؤدب اور منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی زیادہ بصیرت قلبی حاصل ہوگی ،اور اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
اس میں بھی کون سی بات قابل اعتراض ہے کیا کسر نفسی کوئی کفریہ عمل ہے اور کیا اس کا تعلق باطن سے نہیں ہے
محترم ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کا مطالعہ مکمل طریقہ سے فرمائیں کیا یہ حضرات ذاکرین نہیں تھے ان حضرات نے ’’زھد‘‘ سے متعلق کتابیں لکھی ہیں میرے پاس ہے احسان سے متعلق بھی کافی کچھ لکھا ہے ذکر سے متعلق ملاحظہ فرمائیں
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم ؒ)

میں آپ کو کتابوں کی فہرست بھیج دیتا ہوں اس میں مطالعہ فرمالیں یہ نہ فرمائیں حوالے دو لکھ کر بتاؤ یہ زحمت آپ کو ہی اٹھانی پڑے گی
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
میرے بھائی میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صوفیاء کے موقف کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ،یا پھر سمجھنا نہیں چاہتے
ميں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں صوفیا کے موقف کو سمجھنے میں آپ کی حالت مجھ سے مختلف نہیں ہے۔ یا تو تصوف کے بارے میں آپ کا مطالعہ بہت محدود ہے یا پھر آپ ارباب تصوف کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔
بزرگوں کا احترام اپنی جگہ پر لیکن اگر آپ ان کی عقیدت کی چھری سے کتاب و سنت کے احکامات کی قطع و برید شروع کر دیں گے یہ سراسر ظلم و نا انصافی ہے۔
کثرت ذکر نص قرآنی سے ثابت ہے ،اب جو زرائع اور وسائل اختیار کیے جائے گے ۔اب ان سے قرآن و حدیث میں کیا تبدیلی آ رہی ہے؟
یقیناً ایک مسلمان کو اللہ کا ذکر کثرت کےساتھ کرنا چاہیے۔ لیکن آپ بتانا پسند کریں گے کہ قرآن میں جو کثرت ذکر کا حکم ہے اس میں نبی کریمﷺ صحابہ کرام شامل تھے یا نہیں؟
صحابہ کرام نے ذکر سے متعلقہ آیات پڑھیں تھیں یا وہ اس سے نابلد رہے؟ اور یہ بھی بتا دیجئے کہ قرآن کریم کی شرح کرنے اور تبین و وضاحت کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
یا تو آپ یہ ثابت کر دیجئے کہ صحابہ کرام کو ان آیات کی سمجھ نہیں آئی یا پھر یہ تسلیم کیجئے کہ صحابہ کرام نے ان آیات کو سمجھ کر ذکر کی جن کیفیات کو ملحوظ رکھا ہے ان کو سامنے رکھا جائے اور مسنون اذکار ہی کو پڑھنا معمول بنایا جائے ۔ صوفیا کے خود ساختہ اذکار اور ان کے تجربات کی کوئی بھی تشریعی حیثیت نہیں ہے۔
نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ اذکار کی تعداد اتنی تو ہے کہ انسان ان اذکار کا ورد کرے تو ہر وقت اللہ کے ذکر سے رطب اللسان رہ سکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں صوفیا کے تجربات کے پیچھے بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن کا ماخذ و مصدر خواب اور اوہام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرپھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ۔۔
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِى إِلَيْكَ ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِى أَنْزَلْتَ ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِى أَرْسَلْتَ
’’ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیر ی اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گا ہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجاہے۔‘‘
اس کے بعد اگر تم مرگئے تو فطرت دین اسلام پر مروگے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری با ت بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے اداکرو (حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی ”وبر سولک الذی ارسلت“ کہنے میں کیا وجہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں وبنبیک الذی ارسلت کہو۔(صحیح بخاری: 6311)
اس حدیث میں ملاحظہ کیجئے کہ نبی کریمﷺ نے دعا میں نبی کی جگہ پر رسول کے لفظ بولنے کی بھی اجازت مرحمت نہیں فرمائی اور دعا کے اصل الفاظ ہی کو باقی رکھنے پر زور دیا ہے۔ ایسے میں پوری کی پوری دعائیں اپنی طرف سے گھڑ لینا اور اپنے تجربات کی ہی بنا پر ثواب و درجات کی بلندی کا فیصلہ کرلینا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
اس لیے تقلیدی جمود سے نکلیے اور گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے کوئی تعمیری کام کیجئے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بزرگوں کا احترام اپنی جگہ پر لیکن اگر آپ ان کی عقیدت کی چھری سے کتاب و سنت کے احکامات کی قطع و برید شروع کر دیں گے یہ سراسر ظلم و نا انصافی ہے۔ یقیناً ایک مسلمان کو اللہ کا ذکر کثرت کےساتھ کرنا چاہیے۔ لیکن آپ بتانا پسند کریں گے کہ قرآن میں جو کثرت ذکر کا حکم ہے اس میں نبی کریمﷺ صحابہ کرام شامل تھے یا نہیں؟
اس دلیل پر اگر موضوع کو لے کرچلیں۔۔۔
تو نتیجہ فریقین کے مابین منطقی ہوگا۔۔۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی باتوں پر باوجود عہدو پیمان کے اعتراض نہ کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیا کے عجائبات کی اور سیر ہوجاتی
اللہ تعالیٰ نے جتنا تقدیر میں لکھا تھا اتنی باتیں حضرت موسیٰؑ کو معلوم ہو گئیں۔ اب ہمارے پاس یہ استحقاق نہیں ہے کہ ہم انبیا پر کوئی نقطہ اعتراض اٹھائیں۔
اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔
بھائی اہل ظاہر اور اہل باطن میں فرق سمجھا دیجئے۔ اور یہ بھی بتا دیجئے کہ انبیائے کرام اہل ظاہر تھے یا اہل باطن؟ اور صحابہ کرام میں سے کون سے اہل ظاہر تھے اور کون سے اہل باطن۔
محترم ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کا مطالعہ مکمل طریقہ سے فرمائیں کیا یہ حضرات ذاکرین نہیں تھے ان حضرات نے ’’زھد‘‘ سے متعلق کتابیں لکھی ہیں
میرے بھائی ذکر اور زہد سے انکار کس کو ہے؟
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جانے کا اتفاق ہوا آپ نے نماز فجر ادا کی پھر وہیں بیٹھ گئے تقریبا دوپہر تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہے ذکر سے فارغ ہو کر میری طرف التفاف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں یہ تو میرا ناشتہ ہے اگر یہ ناشتہ نہ کروں تو یقینا میری قوت سلب ہو جائے ۔ ( ذکر الٰہی حافظ ابن القیم ؒ)
میں آپ کو کتابوں کی فہرست بھیج دیتا ہوں اس میں مطالعہ فرمالیں یہ نہ فرمائیں حوالے دو لکھ کر بتاؤ یہ زحمت آپ کو ہی اٹھانی پڑے گی
حوالہ درکار ہے بھائی
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
اپنی ان دو باتوں کی بھی تھوڑی وضاحت کر دیجئے:
جو بھی عمل شریعت کے دائرہ کار میں ہوگا وہ محمود ہے اور جو اس سے تجاوز کرے وہ مردود ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اللہ تعالیٰ نے جتنا تقدیر میں لکھا تھا اتنی باتیں حضرت موسیٰؑ کو معلوم ہو گئیں۔ اب ہمارے پاس یہ استحقاق نہیں ہے کہ ہم انبیا پر کوئی نقطہ اعتراض اٹھائیں۔
تو کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تقدیر پر بھروسہ نہیں تھا جو انہوں نے مزید کی تمنا فرمائی۔ بڑوں پر اعتراض کرنا تو ۤآپ کا خاصہ ہے میں نے تو قرآن پاک سے ہی کہا ہے یہ کوئی’’ ناک اونچی رہے ‘‘والی بات نہیں ہے جناب!
بھائی اہل ظاہر اور اہل باطن میں فرق سمجھا دیجئے۔ اور یہ بھی بتا دیجئے کہ انبیائے کرام اہل ظاہر تھے یا اہل باطن؟ اور صحابہ کرام میں سے کون سے اہل ظاہر تھے اور کون سے اہل باطن۔
ظاہر باطن سب قرآن پاک میں ہے یہ بات تو شیخ ابن تیمیہؒ یا شیخ ابن قیم ؒ کی کتابوں سے معلوم ہوگی ان کا مطالعہ فرمالیں بس کافی ہے
میرے بھائی ذکر اور زہد سے انکار کس کو ہے؟
میرے نزدیک تصوف اسی کا نام ہے کوئی خرافات کا نام تصوف رکھ لے اس کی ذمہ داری میری نہیں
حوالہ درکار ہے بھائی
( ذکر از: ابن القیم ؒ اور زھد)
جو بھی عمل شریعت کے دائرہ کار میں ہوگا وہ محمود ہے اور جو اس سے تجاوز کرے وہ مردود ہے۔
اس میں قابل اعتراض کیا بات ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی ۔
موسیٰ علیہ السلام کون سا علم سیکھنے گئے تھے( اللہ تعالی نے ان کو حضر علیہ السلام کے پاس کیوں بھیجا تھا) کیا شریعت کا علم سیکھنے گئے تھے پہلے اس کی وضاحت فرمادیں بعد میں کوئی بات ہوگی
مولانا میں آپ کی باتوں میں آنے سے رہا اور آپ میری باتوں میں آنے سے رہے
میں کسی کو صوفی بننے کی دعوت نہیں دیتا مجھے تصوف پسند ہے اس لیے اس کی تعریف کرتا رہوں گا۔ میں کتنا نقصان کرچکا ہوں اس کی بھر پائی مجھ سے کئی مہینوں تک نہیں ہو سکتی میں اپنے والد صاحب کی کتا بیں کمپوژ کررہاتھا سارا وقت یہیں صرف ہوجا تا ہے
میرے پاس جب وقت ہوگا آپ کی ایک لفظ کا اور دوسرے حضرات کا قرض بھی اتار دوں گا انشاء اللہ ان شاءاللہ فی الحال تو جتنا لکھ دیا ہے اس کا جواب عنایت فرمادیں
 
Top