میرے بھائی میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صوفیاء کے موقف کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ،یا پھر سمجھنا نہیں چاہتے
ميں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں صوفیا کے موقف کو سمجھنے میں آپ کی حالت مجھ سے مختلف نہیں ہے۔ یا تو تصوف کے بارے میں آپ کا مطالعہ بہت محدود ہے یا پھر آپ ارباب تصوف کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔
بزرگوں کا احترام اپنی جگہ پر لیکن اگر آپ ان کی عقیدت کی چھری سے کتاب و سنت کے احکامات کی قطع و برید شروع کر دیں گے یہ سراسر ظلم و نا انصافی ہے۔
کثرت ذکر نص قرآنی سے ثابت ہے ،اب جو زرائع اور وسائل اختیار کیے جائے گے ۔اب ان سے قرآن و حدیث میں کیا تبدیلی آ رہی ہے؟
یقیناً ایک مسلمان کو اللہ کا ذکر کثرت کےساتھ کرنا چاہیے۔ لیکن آپ بتانا پسند کریں گے کہ قرآن میں جو کثرت ذکر کا حکم ہے اس میں نبی کریمﷺ صحابہ کرام شامل تھے یا نہیں؟
صحابہ کرام نے ذکر سے متعلقہ آیات پڑھیں تھیں یا وہ اس سے نابلد رہے؟ اور یہ بھی بتا دیجئے کہ قرآن کریم کی شرح کرنے اور تبین و وضاحت کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
یا تو آپ یہ ثابت کر دیجئے کہ صحابہ کرام کو ان آیات کی سمجھ نہیں آئی یا پھر یہ تسلیم کیجئے کہ صحابہ کرام نے ان آیات کو سمجھ کر ذکر کی جن کیفیات کو ملحوظ رکھا ہے ان کو سامنے رکھا جائے اور مسنون اذکار ہی کو پڑھنا معمول بنایا جائے ۔ صوفیا کے خود ساختہ اذکار اور ان کے تجربات کی کوئی بھی تشریعی حیثیت نہیں ہے۔
نبی کریمﷺ سے ثابت شدہ اذکار کی تعداد اتنی تو ہے کہ انسان ان اذکار کا ورد کرے تو ہر وقت اللہ کے ذکر سے رطب اللسان رہ سکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں صوفیا کے تجربات کے پیچھے بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن کا ماخذ و مصدر خواب اور اوہام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرپھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ۔۔
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِى إِلَيْكَ ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِى أَنْزَلْتَ ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِى أَرْسَلْتَ
’’ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیر ی اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گا ہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجاہے۔‘‘
اس کے بعد اگر تم مرگئے تو فطرت دین اسلام پر مروگے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری با ت بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے اداکرو (حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی ”
وبر سولک الذی ارسلت“ کہنے میں کیا وجہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں
وبنبیک الذی ارسلت کہو۔(صحیح بخاری: 6311)
اس حدیث میں ملاحظہ کیجئے کہ نبی کریمﷺ نے دعا میں نبی کی جگہ پر رسول کے لفظ بولنے کی بھی اجازت مرحمت نہیں فرمائی اور دعا کے اصل الفاظ ہی کو باقی رکھنے پر زور دیا ہے۔ ایسے میں پوری کی پوری دعائیں اپنی طرف سے گھڑ لینا اور اپنے تجربات کی ہی بنا پر ثواب و درجات کی بلندی کا فیصلہ کرلینا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
اس لیے تقلیدی جمود سے نکلیے اور گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے کوئی تعمیری کام کیجئے۔