• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کیے؟​
(758) عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَمْ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ سَبْعَ عَشْرَةَ قَالَ وَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ وَ أَنَّهُ حَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً وَاحِدَةً حَجَّةَ الْوَدَاعِ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ وَ بِمَكَّةَ أُخْرَى
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے؟انہوں نے کہا کہ سترہ غزوات میں اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوات کیے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا حج مکہ میں(ہجرت سے پہلے) کیا تھا۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :كَمِ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟​
(759) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ كُلُّهُنَّ فِي ذِي الْقَعْدَةِ إِلاَّ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ عُمْرَةً مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ أَوْ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَ عُمْرَةً مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَ عُمْرَةً مِنْ جِعِرَّانَةَ حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَ عُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ
سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے اور جو حج کے ساتھ کیا تھا ، اس کے علاوہ سب ذوالقعدہ میں کیے۔ ایک عمرہ حدیبیہ سے یا حدیبیہ کے سال ذوالقعدہ میں، دوسرا اس کے بعد کے سال میں ذوالقعدہ میں، تیسراعمرہ جو جعرانہ سے، جہاں غزوۂ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا ،وہ بھی ذوالقعدہ میں کیا اور چوتھا عمرہ وہ جو حج کے ساتھ ہوا۔
(760) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ قَالَ قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمِشْقَصٍ وَ هُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ (أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصَّرُ عَنْهُ بِمِشْقَصٍ وَ هُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ انہیں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مروہ (پہاڑی) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی بھال سے کترے۔ (یا یہ کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کی بھال سے بال کتروا رہے ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :قَضَائُ الْحَائِضِ الْعُمْرَةَ
حیض والی عورت عمرہ کی قضا کرے​
(761) عَنْ أُمِّ المُؤْمِنِيْنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَ أَصْدُرُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ ؟ قَالَ انْتَظِرِي فَإِذَا طَهُرْتِ فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي مِنْهُ ثُمَّ الْقَيْنَا عِنْدَ كَذَا وَ كَذَا ( قَالَ أَظُنُّهُ قَالَ غَدًا ) وَ لَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَصَبِكِ ( أَوْ قَالَ نَفَقَتِكِ )
ام المومنین (عائشہ صدیقہ) رضی اللہ عنھما کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یارسول اللہ! لوگ مکہ سے دو عبادتوں (یعنی حج اور عمرہ جداگانہ) کے ساتھ لوٹیں گے اور میں ایک عبادت کے ساتھ لوٹوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم ٹھہرو! جب تم پاک ہو گی تو تنعیم کو جانا اور لبیک پکارنا اور پھر ہم سے فلاں فلاں مقام میں ملنا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کل کے روز اور تمہارے اس عمرہ کا ثواب تمہاری تکلیف یا خرچ کے موافق ہے۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :مَا يُقَالُ إِذَا قَفَلَ مِنْ سَفَرِ الْحَجِّ وَغَيْرِهِ
جب حج وغیرہ کے سفر سے لوٹے تو کیا کہے؟​
(762) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا قَفَلَ مِنَ الْجُيُوشِ أَوِ السَّرَايَا أَوِ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ إِذَا أَوْفَى عَلَى ثَنِيَّةٍ أَوْ فَدْفَدٍ كَبَّرَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ آئِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ هَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکروں سے یا لشکروں کی چھوٹی جماعت سے یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو جب کسی ٹیلہ پر یا اونچی کنکریلی زمین پر پہنچ جاتے، تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر کہتے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے ،اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے، سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچاکیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور (کافروں کے) لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :التَّعْرِيْسُ وَالصَّلاَةُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
حج اور عمرہ سے واپسی پر ذی الحلیفہ میں رات گزارنا اور نماز پڑھنا​
(763) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَاخَ بِالْبَطْحَائِ الَّتِيْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلَّى بِهَا وَ كَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا تھا اور وہاں نماز پڑھی تھی اور (خود سیدنا) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اسی طرح کیا کرتے تھے۔
(764) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ أَنَاخَ بِالْبَطْحَائِ الَّتِيْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ ، الَّتِيْ كَانَ يُنِيْخُ بِهَا رَسُوْلُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جب حج یا عمرہ سے واپس آتے تو ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھا دیتے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اونٹ بٹھاتے تھے۔
(765) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أُتِيَ وَ هُوَ فِي مُعَرَّسِهِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ فِيْ بَطْنِ الْوَادِي قِيلَ إِنَّكَ بِبَطْحَائَ مُبَارَكَةٍ قَالَ مُوْسَى : وَقَدْ أَنَاخَ بِنَا سَالِمٌ بِالْمُنَاخِ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي كَانَ عَبْدُاللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُنِيخُ بِهِ يَتَحَرَّى مُعَرَّسَ رَسُولِ اللَّه صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ أَسْفَلَ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِبَطْنِ الْوَادِي بَيْنَهُ وَ بَيْنَ القِبْلَةِ وَسَطًا مِنْ ذَلِكَ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب ذوالحلیفہ میں بطن الوادی میں آرام فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (فرشتہ) آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء مبارکہ میں ہیں۔ موسیٰ راوی کا کہنا ہے کہ سالم نے ہماری سواری کو وہاں بٹھایا جہاں مسجد کے پاس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بٹھایا کرتے تھے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات گزارنے والی جگہ کو تلاش کرتے تھے اور وہ جگہ اس مسجد سے نیچے ہے جو وادی کے نشیب میں بنی ہوئی ہے اور جگہ مسجد اور قبلہ کے درمیان میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِيْ تَحْرِيْمِ مَكَّةَ وَ صَيْدِهَا وَ شَجَرِهَا وَ لُقَطَتِهَا
مکہ شریف، اس کے شکار، اس کے درخت اور اس کی گری پڑی چیز کی حرمت کے بیان میں​
(766) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَ سَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ وَ إِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي وَ إِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَ إِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي فَلاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَ لاَ يُخْتَلَى شَوْكُهَا وَ لاَ تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ وَ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يُفْدَى وَ إِمَّا أَنْ يَقْـتُلَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلاَّ الإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي قُبُورِنَا وَ بُيُوتِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلاَّ الإِذْخِرَ فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ قَالَ الْوَلِيدُ فَقُلْتُ لِلأَوْزَاعِيِّ مَا قَوْلُهُ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے اصحاب فیل کو مکہ سے روک دیا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو اس پر غالب فرما دیا اور مجھ سے پہلے اس میں لڑنا کسی کو حلال نہیں ہوا اور میرے لیے دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا اور اب میرے بعد کبھی بھی کسی کے لیے حلال نہ ہو گا۔ پھر اس کا شکار نہ بھگایا جائے، اس کا کانٹا نہ توڑا جائے، اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو بتاتا پھرے کہ جس کی ہو، اسے دے دے اور جس کا کوئی شخص قتل کر دیا گیا تو اس کو دو باتوں کا اختیار ہے خواہ فدیہ لے لے یعنی (خون بہا لے) اور خواہ قاتل کو قصاص میں مروا ڈالے۔'' سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ( کہ اس کو حرام نہ کیجیے) کہ ہم اس کو اپنی قبروں میں ڈالتے ہیں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں، (چھت میں استعمال ہوتا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' خیر اذخر (یعنی گھاس کی اجازت ہے)۔'' پھریمن کا ابوشاہ نامی ایک شخص اٹھا اور اس نے عرض کی کہ یارسول اللہ! مجھے لکھ دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ابوشاہ کو یہ لکھ دو۔'' ولید نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ یارسول اللہ! مجھے لکھ دیجیے۔ انہوں نے کہا کہ یہی خطبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (یعنی اس کو ابوشاہ نے لکھوا لیا کہ بڑے نفع کی بات تھی)۔
(767) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لاَ يَحِلُّ لِأَحَدِكُمْ أَنْ يَحْمِلَ بِمَكَّةَ السِّلاَحَ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :'' کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :دُخُوْلُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مَكَّةَ غَيْرَ مُحْرِمٍ يَوْمَ الْفَتْحِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا​
(768) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ مَكَّةَ (وَ قَالَ قُتَيْبَةُ دَخَلَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ) وَ عَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَائُ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ
جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے (قتیبہ نے کہا کہ فتح مکہ کے دن داخل ہوئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ عمامہ تھا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) بغیر احرام کے (داخل ہوئے تھے)۔
(769) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَ عَلَى رَأْسِهِ مِغْفَرٌ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ اقْتُلُوهُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ پھر جب خود اتارا تو ایک شخص نے آکر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کو پکڑے (چھپا ہوا) ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اس کو مار ڈالو۔ ''
وضاحت: ابن خطل اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیاتھا، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا تو اس کے بعد اس نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ پھر یہ بدبخت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا اس نے دو گانے والی بھی رکھی ہوئی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتی تھیں۔ اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خانہ کعبہ میں بھی قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا۔ واﷲ اعلم (محمود الحسن اسد)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِيْ جَدْرِ الْكَعْبَةِ وَ بَابِهَا
کعبہ کی حطیم اور اس کے دروازہ کے متعلق​
(770) عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْجَدْرِ أَ مِنَ الْبَيْتِ هُوَ ؟ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ ؟ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا ؟ قَالَ فَعَلَ ذَلِكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَائُوا وَ يَمْنَعُوا مَنْ شَائُوا وَ لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَ أَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالأَرْضِ
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم کی دیوار بیت اللہ میں داخل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہاں۔' (اس سے امام ابوحنیفہ کا مذہب رد ہوا اور حطیم کے اندر طواف ناجائز ہوا اس لیے کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہے) میں نے (پھر) عرض کی کہ اس کو انہوں نے بیت اللہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔'' (پھر) میں نے عرض کی کہ اس کا دروازہ کیوں اتنا اونچا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ بھی تمہاری قوم کا کیا ہوا ہے تاکہ جس کو چاہیں اسے اس میں جانے دیں اور جس کو چاہیں نہ جانے دیں اور اگر تمہاری قوم نے نئی نئی جاہلیت نہ چھوڑی ہوتی اور مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ اس کو ناگوار سمجھیں گے تو میں ارادہ کرتا کہ حطیم کی دیواروں کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے ساتھ لگا دیتا۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِيْ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَ بِنَائِهَا
کعبہ شریف کے توڑنے اور اس کی بنیاد کے بیان میں​
(771) عَنْ عَطَائٍ قَالَ لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ أَوْ يُحَرِّبَهُمْ عَلَى أَهْلِ الشَّامِ فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَائَهَا أَوْ أُصْلِحُ مَا وَ هَى مِنْهَا ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَ هَى مِنْهَا وَ تَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ وَ أَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا وَ بُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ ؟ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلاَثًا ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي فَلَمَّا مَضَى الثَّلاَثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَائِ حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْئٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الأَرْضَ فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَعْمِدَةً فَسَتَرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ وَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَوْلاَ أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ وَ لَيْسَ عِنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّنِي لِيَوْمِى عَلَى بِنَائِهِ لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ وَ لَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ وَ بَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ قَالَ فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ وَ لَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ قَالَ فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَائَ وَ كَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ وَ جَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ وَ الآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ وَ يُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَدْ وَ ضَعَ الْبِنَائَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي شَيْئٍ أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ وَ أَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ وَ سُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ فَنَقَضَهُ وَ أَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ
عطاء کہتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں اہل شام کی لڑائی میں جب کعبہ جل گیا اور اس کا جو حال ہوا سو ہوا،تو ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور ابن زبیر رضی اللہ عنھما کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر انہیں اہل شام کی لڑائی پر جرأت دلائیں یا انہیں اہل شام کے خلاف لڑائی کے لیے تیار کریں۔پھر جب لوگ جانے لگے تو انہوں نے کہا :'' اے لوگو! مجھے خانہ کعبہ کے بارے میں مشورہ دو کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا اس میں سے جو حصہ خراب ہو گیا ہے، اسے درست کروں؟'' سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی اور وہ یہ ہے کہ تم ان میں سے جو خراب ہو گیا ہے صرف اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ ابتدائے اسلام میں تھا اور انہی پتھروں کو رہنے دو جن پر لوگ مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی راضی نہ ہوگا جب تک نیا نہ بنائے پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے، اس کا کیا حال ہے؟ اور میں اپنے رب سے تین بار استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا مصمم ارادہ کرتا ہوں پھر جب تین بار استخارہ کر چکے تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ کعبہ کو توڑ کر بنائیں اور لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ جو شخص پہلے خانہ کعبہ کے اوپر توڑنے کو چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل ہوجائے، (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہیں اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے پڑے رہے) یہاں تک کہ اس کی دیواریں اونچی ہو گئیں اور ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے اور میرے پاس آج اتنا خرچ بھی نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ میں حطیم سے پانچ ہاتھ کعبہ میں داخل کر دیتا اور ایک دروازہ اس میں ایسا بنا دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔'' پھر ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے کہاکہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ راوی نے کہا کہ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے اس کی دیواریں حطیم کی جانب سے پانچ ہاتھ زیادہ کر دیں یہاں تک کہ وہاں پر ایک نیو (بنیاد) نکلی کہ لوگوں نے اسے اچھی طرح دیکھا (اور وہ بنیاد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تھی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور کعبہ کی لمبائی اٹھارہ ہاتھ تھی۔ پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (یعنی چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی) پس اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کر دیے اور اس کے دو دروازے رکھے، ایک میں سے اندر جائیں اور دوسرے سے باہر آئیں۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما شہید ہو گئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے جو بنیاد رکھی ہے وہ انہی بنیادوں پر رکھی ہے جس کو مکہ کے معتبر لوگ دیکھ چکے ہیں، (یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بنیاد رکھی)۔ عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہمیں ابن زبیر رضی اللہ عنھما کے تغیر و تبدل سے کچھ کام نہیں، (تم ایسا کرو کہ) جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے وہ رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالت اولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے۔ غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے (بنیاد) اول پر بنا دیا۔
(722) عَنْ أَبِي قَزَعَةَ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ بَيْنَمَا هُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَيْثُ يَكْذِبُ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا يَقُولُ سَمِعْتُهَا تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَا عَائِشَةُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا لَوْلاَ حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ حَتَّى أَزِيدَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَإِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرُوا فِي الْبِنَائِ فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ لاَ تَقُلْ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَأَنَا سَمِعْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تُحَدِّثُ هَذَا قَالَ لَوْ كُنْتُ سَمِعْتُهُ قَبْلَ أَنْ أَهْدِمَهُ لَتَرَكْتُهُ عَلَى مَا بَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
ابوقزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھااور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابن زبیر رضی اللہ عنھما کو ہلاک کرے کہ وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ باندھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کو توڑ کر اس میں حجر (حطیم) کا اضافہ کر دیتا ،اس لیے کہ تمہاری قوم نے کعبہ کی عمارت میں کمی کر دی ہے۔ (یہ سن کر) حارث نے کہا کہ اے امیر المومنین! ایسا نہ کہیے، اس لیے کہ میں نے بھی ام المومنین رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث بیان کرتی تھیں تو عبدالملک نے کہا کہ اگر کعبہ گرانے سے پہلے میں یہ حدیث سنتا تو ابن زبیر رضی اللہ عنھما ہی کی بنیاد کو قائم رکھتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :تَحْرِيْمُ الْمَدِيْنَةِ وَ صَيْدِهَا وَ شَجَرِهَا وَ الدُّعَائُ لَهَا
حرم مدینہ اور اس کے شکار اور درخت کی حرمت اور اس کے لیے دعا کا بیان​
(773) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَ دَعَا لِأَهْلِهَا وَ إِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ وَ إِنِّي دَعَوْتُ فِي صَاعِهَا وَ مُدِّهَا بِمِثْلَيْ مَا دَعَا بِهِ إِبْرَاهِيمُ لِأَهْلِ مَكَّةَ
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' سیدنا ابراہیم u نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی اس کی حرمت ظاہر کی ورنہ ا س کی حرمت آسمان و زمین کے بننے کے دن سے تھی) اور اس کے لوگوں کے لیے دعا کی اور میں مدینہ کو حرمت والا بناتا ہوں جیسے ابراہیم uنے مکہ کو حرمت والا کیا اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد کے لیے دعا کی ، اس کی دو مثل جو ابراہیم uنے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی۔ ''
(774) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا وَ قَالَ الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ لاَ يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلاَّ أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَ لاَ يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأوَائِهَا وَ جَهْدِهَا إِلاَّ كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا ( أَوْ شَهِيدًا ) يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(فاتح ایران) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں دونوں کالے پتھروں کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں کہ وہاں کا کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ وہاں کا شکار مارا جائے۔'' اور فرمایا:'' مدینہ ان کے لیے بہتر ہے، کاش ! وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور کوئی مدینہ کی سکونت سے اعراض کر کے نہیں چھوڑتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں کوئی صبر کرتا اس کی بھوک پیاس اور محنت و مشقت پر مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔ ''
(775) عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ فَوَجَدَ عَبْدًا يَقْطَعُ شَجَرًا أَوْ يَخْبِطُهُ فَسَلَبَهُ فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَائَهُ أَهْلُ الْعَبْدِ فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ عَلَى غُلاَمِهِمْ أَوْ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ مِنْ غُلاَمِهِمْ فَقَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ
عامر بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا کہ (راستے میں) جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا پتے توڑ رہا تھا ،تو اس کا سامان چھین لیا اور اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ وہ اس کو لوٹا دیجیے یاہمیں عنایت کیجیے تو انہوں نے کہا کہ اس بات سے اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز پھیر دوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق انعام عنایت کی ہے اور انہوں نے اس کا سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
(776) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ
سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔''
(777) عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلاَّ كِتَابَ اللَّهِ وَ هَذِهِ الصَّحِيفَةَ قَالَ ( وَ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ ) فَقَدْ كَذَبَ فِيهَا أَسْنَانُ الإِبِلِ وَ أَشْيَائُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَ فِيهَا قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَ لاَ عَدْلاً وَ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ وَ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَ لاَ عَدْلاً
ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ جو کوئی دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے پاس) کتاب اللہ اور اس صحیفہ، راوی نے کہا کہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا، کے سوا کوئی اور چیز ہے تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں (زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان ہے (یعنی قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مدینہ کا جبل عیرسے جبل ثور تک کا علاقہ حرم ہے۔ پس جو شخص مدینہ میں کوئی نئی بات(یہاں حدث سے مراد کوئی بھی جرم ہے اور اس میں یہ بھی شامل ہے) یعنی بدعت نکالے یا نئی بات نکالنے والے کو یعنی بدعتی کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ سنت اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے اور جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سواکسی غیر کا فرزند ٹھہرایا یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے آپ کو قرار دیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی سنت۔
(778) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُؤْتَى بِأَوَّلِ الثَّمَرِ فَيَقُولُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَ فِي ثِمَارِنَا وَ فِي مُدِّنَا وَ فِي صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ ثُمَّ يُعْطِيهِ أَصْغَرَ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنَ الْوِلْدَانِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے : ''اے اللہ! ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت در برکت فرما۔'' پھر وہ پھل موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔
 
Top