بَابٌ : إِثْبَاتُ الرِّبَا فِيْ بُيُوْعِ النَّقْدِ
نقد کی بیع میں بھی سود ثابت ہوتا ہے
(953) عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّ أَبَا سَعِيدِ نِالْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ لَهُ أَ رَأَيْتَ قَوْلَكَ فِي الصَّرْفِ أَشَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمْ شَيْئًا وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؟ كَلاَّ لاَ أَقُولُ أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِهِ وَ أَمَّا كِتَابُ اللَّهِ فَلاَ أَعْلَمُهُ وَ لَكِنْ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَلَآ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ
سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ملے اور ان سے پوچھا کہ تم جو بیع صرف کے بارے میں کہتے ہو تو کیا تم نے اس کے بارے کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا اس کے متعلق کچھ اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں پایا ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ ہرگز نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی نہیں جانتا (اس حکم کو) لیکن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' خبردار! ادھار میںسود ہے۔ ''
وضاحت: حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما بعض علماء کے نزدیک منسوخ الحکم ہے اور بعض نے کہا کہ اس کی تاویل ہو گی اور وہ یہ کہ ان اموال پر محمول ہیں جو سودی نہیں ہیں وغیرہ یا یہ حدیث مجمل ہے۔
(954) عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الصَّرْفِ فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا فَإِنِّي لَقَاعِدٌ عِنْدَ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّرْفِ فَقَالَ مَا زَادَ فَهُوَ رِبًا فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ لِقَوْلِهِمَا فَقَالَ لاَ أُحَدِّثُكَ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَائَهُ صَاحِبُ نَخْلِهِ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ طَيِّبٍ وَ كَانَ تَمْرُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا اللَّوْنَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّى لَكَ هَذَا ؟ قَالَ انْطَلَقْتُ بِصَاعَيْنِ فَاشْتَرَيْتُ بِهِ هَذَا الصَّاعَ فَإِنَّ سِعْرَ هَذَا فِي السُّوقِ كَذَا وَ سِعْرَ هَذَا كَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَيْلَكَ أَرْبَيْتَ إِذَا أَرَدْتَ ذَلِكَ فَبِعْ تَمْرَكَ بِسِلْعَةٍ ثُمَّ اشْتَرِ بِسِلْعَتِكَ أَيَّ تَمْرٍ شِئْتَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ أَحَقُّ أَنْ يَكُونَ رِبًا أَمِ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ قَالَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعْدُ فَنَهَانِي وَ لَمْ آتِ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَحَدَّثَنِي أَبُو الصَّهْبَائِ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْهُ بِمَكَّةَ فَكَرِهَهُ
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم سے (بیع)صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد و نقد ہو) پھر میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے (بیع)صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو زیادہ ہو وہ سود ہے۔ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم کے کہنے کی وجہ سے اس کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں بیان کروںگا مگر (صرف) وہ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ایک کھجور والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاع عمدہ کھجور لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور بھی اسی قسم کی تھی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ''یہ کھجور کہاں سے لایا؟'' وہ بولا کہ میں دوصاع کھجور لے کر گیا اور ان کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع خریدا ہے کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تیری خرابی ہو! تو نے سود دیا۔ جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال، پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔'' سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس جب کھجور کے بدلے کھجور دی جائے، اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم یا زیادہ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد و نقد ہو) ابونضرہ نے کہا کہ اس کے بعد پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس سے منع کیا (شاید ان کو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث پہنچ گئی ہو) اور میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس نہیں گیا، لیکن مجھ سے ابوالصہباء نے بیان کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مکہ میں پوچھا توانہوں نے مکروہ کہا۔